Friday, December 26, 2014

بے ںظیر کی سیاست کا مطلب کیا ہے ؟


زندگی میں کچھ دن اور راتیں ایسی ہوتی ہیں جو سالہا سال گزرنے کے بعد بھی دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہیں ، ایسے کئی ایک دن اور راتیں ہیں جو مرے دل و دماغ پر نقش ہیں پانچ جولائی 1977ء میں نے پنجاب کے شہری علاقوں میں لوگوں کو جشن مناتے دیکھا اور 4 اپریل 1979ء کو جب میں اسکول جارہا تھا تو میں نے اپنی گلی کے نکڑ پر پہنچ کر دیکھا کہ مجید انور ایڈوکیٹ جوکہ ایم پی اے بھی رہے تھے اور یہ پی پی پی کا کارنامہ تھا کہ ان جیسے لوئر مڈل کلاس کا بندہ ایم پی اے بن گیا تھا ،دھاڑیں مار مارکر رورہے تھے اور بلند آواز سے کہتے تھے کہ " عدالتاں جدوں انصاف دا قتل کرن تے غریباں دے مسیحا نوں پھانسی چاڑھن تے ظلم تے آگے کون کھلوئے گا " میں نے اس دن گلیوں ، سڑکوں پر سناٹا دیکھا ، لوگ ایک دوسرے سے بات کرنے سے کترارہے تھے ، مرے استاد اس دن بس خاموشی سے کرسی پر بیٹھے رہے اور کوئی بات نہیں کی ، بغیر بولے ہی حاضر ، غیر حاضر لڑکے ، لڑکیوں کی حاضری لگآدی ، اسکول کی پرنسپل جو کہ ایک کرسچن تھیں کو میں نے سسکیاں بھرتے دیکھا پھر آنسو گیس ، لاٹھی چارج ، فوجی ٹرکوں کے محاصرے ، پولیس چھاپے ،طلباء کے جلوس ، وکلاء کی ہڑتالیں ، چوری چھپے پمفلٹوں کا چھپنا اور پھر گرفتاریوں پر گرفتاریاں ہونا ، لاہور مال روڈ پر پاکستان ویمن ایکشن فورم کے جلوس پر لاٹھیاں اور بیچ سڑک جالب کا پیٹنا اور شاہی قلعے سے لیکر کراچی لانڈھی جیل کا قیدیوں سے بھرجانا ، دیوار کے بیچ نذیر عباسی کے قتل کا چھپنا اور مسز رانا شوکت کے ساتھ لاہور قلعے کے عقوبت خانے میں اذیت ناک سلوک یہ سب یادداشت کا حصّہ ہیں لیکن اس دوران مساوات کے کچھ شمارے اور کبھی کبھار لوگوں سے زبانی پتہ چلتا کہ سکھر جیل میں بند بھٹو کی بیٹی کو کبھی سانپ سے ڈرایا جاتا تو کبھی کھلے آسمان والی بیرک میں سخت سردیوں میں بند کردیا جاتا ، اس نہتی لڑکی سے بندوقوں والوں کی ٹانگیں کانپتی رہتی تھیں جبکہ بندوقوں والوں کے ساتھ امریکہ ، سعودیہ عرب اور سارا سرمایہ داری بلاک جم کر کھڑا تھا اور پاکستان میں آمریت اور مذھبی بنیاد پرستی کے سائے میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی پر مغرب کو کوئی تشویش نہیں تھی اور پاکستان کے عوام کیا چآہتے تھے اس کی بھی کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی ان دنوں آج کے بہت سے جمہوریت اور سماجی انصاف کے علمبردار ضیاء الحق ، جنرل غلام جیلانی کے چرنوں میں بیٹھے ہوئے تھے اور آج کا ایک باغی بھی جنرل جیلانی کی قربت پر فخر کیا کرتا تھا اور اسے کوڑوں سے ادھیڑی جانے والی سیاسی کارکنوں ، شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں ، طالب علموں ، مزدروں اور کسانوں کی پیٹھیں دکھائی نہیں دیتی تھیں اور نہ ہی ایاز سموں ، ناصر بلوچ ، رزاق جھرنا ، ادریس طوطی کی گردنوں میں پڑے پھندے نظر آئے تھے اور نہ ہی شاہی قلعے کی جیل میں خاموشی سے دفن کئے جانے والے نایاب صدیقی کی کہانی پر کسی نے کان دھرے تھے ان دنوں تو کسی نے پاکستان کی عدالتوں کے انصاف کے قتل اور ضمیر کی خاموشی پر بھی آواز نہیں اٹھائی تھی اور سب دائیں بازو کے جغادری تندھی سے " امیر التکفیر و الخوارج " ضیاء الحق کی خدمت میں تھے ، میں نے دائیں بازو کی اصطلاح اس لیے استعمال نہیں کی کہ مجھے پتہ نہیں ہے کہ آے آرڈی میں جے یوآئی ایف اور مسلم لیگ قیوم شامل تھی لیکن جے یوآئی ایف کے موجودہ امیر فضل الرحمان کے بارے میں تو اجمل نیازی کے سامنے اس کے والد مفتی محمود نے یہ کہا تھا کہ " یہ مرا بیٹا ہوکر چند روپوں کی خاطر مری مخـبری انٹیلی جنس والوں کو کرتاہے " اور مسلم لیگ قیوم گروپ کے پنجاب کے صدر خواجہ خیر الدین جوکہ آے آرڈی پنجاب کے صدر بھی تھے گورنر پنجاب سے ہاٹ لآئن پر رابطے میں تھے اور مارشل لاء حکومت کے مخـبر تھے ، ان کے بارے میں یہ رپورٹ قدوائی صاحب نے دی تھی اور یہ دائیں بازو کی اے آرڈی میں اتحادی جماعتیں تھیں جنھوں نے پی پی پی کو پنجاب کی سیاست سے باہر کروانے کے لئے -غیرجماعتی الیکشن کا بائیکاٹ کروایا اور پی پی پی اس فیصلے پر بعد میں ہمیشہ افسوس کرتی رہی دسمبر کی 27 تاریخ کو میں کبھی بھول نہیں سکتا ، کیونکہ اس دن پاکستان میں اہل التکفیر والخوارج اور ضیاءالحق کی باقیات پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس کردار کو خاموش کرانے میں کامیاب ہوگئیں جس نے سرد جنگ کے انتہآئی نامواقف حالات اور پھر 90ء سے لیکر مزید دو عشروں تک پاکستان کے اندر انتہا پسندی ، بنیاد پرستی کے پہلو سے جنم لینے والی جہادی تکفیری تاریک گر سیاست کے آگے کھڑے ہوکر مزاحمت کی اور پاکستان میں جہادی تکفیری سیاسی ایمپائر کو مکمل فتح سے روکے رکھا ، جس نے مغرب کے اندر انسانی حقوق اور جمہوری حلقوں کو یہ سمجھانے میں پوری توانائیاں صرف کیں کہ " جہادی تکفیری دھشت گرد مشین " ان کی جانب سے جمہوری قوتوں پر آمروں کو ترجیح دینے کا منطقی نتیجہ ہیں اور تیسری دنیا میں جب تک جمہوریت ، انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی قوتوں کی ٹانگیں کھینچیں جاتی رہیں گی دھشت گردی کا عفریت ختم نہیں ہوگا یہی وجہ ہے جماعت اسلامی سے لیکر سپاہ صحابہ پاکستان تک اور القائدہ سے لیکر تحریک طالبان پاکستان تک اور افغانستان سے لیکر کشمیر تک جتنے بھی اہل التکفیر و الخوارج تھے سب نے پی پی پی اور بے نظیر بھٹو کو گرانے کی کوشش کی اسامہ بن لادن نے یونہی نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لیے نوٹوں سے بھرے بریف کیس نہيں دئے تھے پاکستان کی ضیاءالحق کی باقیات جو ملٹری ، عدلیہ اور سول نوکر شاہی میں موجود تھی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے بے ںظیر بھٹو کے خلاف سرگرم رہی اور عسکری ، عدالتی ، سیاسی و صحافتی اسٹبلشمنٹمیں تکفیری لابی کی تشکیل اور اسے عفریت بننے سے نہ روک سکی ، اسی کا شاخسانہ تھا کہ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کو اسی شہر میں شہید کیا گیا ، جس شہر میں ان کے والد کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دی گئی تھی اور اس سے پہلے اسی لیاقت باغ میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں کو گولی مار دی گئی تھی بے نظیر بھٹو اس ملک کی وہ واحد نابغہ لیڈر تھیں جو دھشت گردی ، انتہا پسندی کی جڑوں اور ان کے باہمی روابط کو اچھی طرح سے پہچانتی تھیں ، ان کی آخری کتاب اس معاملے کے فکری گوشوں پر خوب روشنی ڈالتی ہے اور انھوں نے اس کتاب میں تکفیر اور خارجیت سے نمٹنے کا اصولی راستہ طے کردیا تھا لیکن افسوس کہ ان کی فکر کی روشنی پی پی پی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں مصلحتوں اور تذبذب پر مبنی پالیسیوں کی تاریکی میں دب کر رہ گئی اور آصف علی زرداری نے سیاست کی وقتی ضرورتوں پر ہر طرح کے آردش پر ترجیح دی اور سب پس پشت ڈال دیا ،اگرچہ ان کی اس سخت ترین عملیت پسند پالیسی کے حامی پارٹی کے اندر بہت زیادہ ہیں اور پاکستان کی عملی سیاست کے جو خدوخال ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ان حامیوں کا استدلال مضبوط بھی لگتا ہے لیکن اس تحمل اور صبر کی قیمت بہت مہنگی پڑی ہے اور پیپلزپارٹی کی اپنی سیاست پر جو کنفیوژن کے سائے ہیں وہ ابتک لہرارہے ہیں بے ںظیر بھٹو شہید کے دور میں کم از کم پی پی پی کی لبرل ، سیکولر ، پروگریسو سیاست پر تشکیک کے بادل کبھی نہیں لہرائے تھے اور بی بی شہید کی پالٹیکس اس حوالے سے بہت واضح تھی ، یہاں تک کہ انھوں نے برملا اپنے والد کے دور میں ملائيت کے دباؤ میں کئے جانے والے فیصلوں کو بھی غلط قرار دیا تھا اور ان فیصلوں کے حوالے سے پاکستان کی مذھبی اقلیتوں کے اندر جو تحفظات موجود تھے ان کو دور کرنے کی کوشش کی تھی اور انھوں نے بلوچ اور پختونوں سے بھی اپنے تعلقات بہت بہتر کئے تھے ، ان دو نسلی لسانی گروہوں کی قیادت کو کم از کم وہ شکایات نہ تھیں جو جناب بھٹو سے تھیں ،مگر آج وہ صورت حال نظر نہیں آتی اور ایک خلا پی پی پی کے اندر نظر آتا ہے اور پی پی پی اپنے امیج کے بحران میں مبتلا ہے اور مستقبل کے وژن کے حوالے سے ابھی تک سیاہ حاشیے اس کے تعاقب میں ہیں ، پی پی پی کی قیادت تو بے نظیر کے سیاسی ورثے کو سنھبالنے کی کوشش میں گرتی پڑتی نظرآرہی ہے جبکہ اس میراث میں اجتھادی ، تخلیقی وفور کے ساتھ چار چاند لگانے کا سوال تو ہنوز جواب طلب ہی ہے آصف علی زرداری نے پوسٹ بے ںظیر دور میں جس عملیت پسند سختی کے ساتھ حکومت چلائی اس کے نتائج پارٹی کی یک جہتی اور اس کی نمو کے میدان میں اچھے نہیں نکلے ہیں اور اقتدار میں کامیاب نظر آنے والی پالیسی اپوزیشن میں بہت ہی ناکام نظر آرہی ہے اور ان کے فیصلوں اور پالیسی پر اٹھنے والی انگلیوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اور بے ںظیر کا بیٹا بلاول ، بیٹیاں آصفہ و بختاور ابھی تک اپنی سوچ اور فکر کا اظہار نہیں کرپارہے ، بس وہ یا تو اپنے سپیچ رائٹرز کے نرغے میں ہیں یا مشیروں اور سیاسی ہدائيت کاروں کی ہدایات کے قیدی ہیں جو پی پی پی کے ہجوم بیکراں کے ساتھ ان کی آزادانہ ملاقاتوں اور وصال میں بڑی روکاوٹ بن گئے ہیں ، کم آز کم یہ روکاوٹ بے نظیر بھٹو کے اپنوں نے کبھی نہیں ڈالی تھیں ، اسٹبلشمنٹ ڈالتی تھی جسے بے ںظیر توڑ کر رکھ دیتی تھیں اور خلق خدا ان کو اپنے درمیان پاتی تھیں ، اس طرح کا جذبہ بلاول بھٹو اور اس کی بہنوں میں دیکھنے کے پی پی پی کے کارکن منتظر ہیں ، وہ ان کو کبھی ناصر باغ تو کبھی بھاٹی گیٹ ، اور کبھی ملتان کے حسین آگاہی چوک تو پشاور کے قصّہ خوانی چوک ، تو کوئٹہ کے میزان چوک تو کبھی کراچی کے ریگل چوک اور لیاری کے چیل چوک میں دیکھنے اور ہاتھوں کو لہرا کر " اب راج کرے گی ،خلق خدا " کے نعرے کے ساتھ انا الحق کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تبھی بے نظیر کے قاتلوں کو شکست فاش دی جاسکے گی بے نظیر کے قاتلوں اور ان کے دشمنوں کو مصلحتوں ، سمجھوتوں ، اور دائیں بائيں کی اشرافیہ کی مفاہمتوں پر مبنی سیاست سے نہ کل کوئی تکلیف تھی نہ آج ہے اور ان کو ایسے مفاہمتی جرگوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے جس میں ضیاء کی بی ٹیم کا امیر ایک طرف اور دوسری طرف ترنگے سے رنگا کوئی شیدائی بھٹو ملکر " مفاہمت ،مفاہمت " کھیلیں اور قاتل ومقتول کے اتحاد سے " امن " کے قیام کا ڈھونگ رچایا جانے لگے ، یہ بے ںظیر بھٹو کے خون کی سرخی پر سیاہ رنگ پھینک دینے کے مترادف ہے اور کچھ بھی نہیں ، لیکن قاتلوں اور مقتولوں کے جعلی اتحاد کے داعی یاد رکھ لیں بے ںظیر بھٹو کے خون کے چھینٹے جو پاکستانی سیاست پر پڑے ہیں ،ان کو دائيں اور بائيں کی جعلی مفاہمتی بارش سے مٹایا نہیں جاسکے گا ، پاکستان کی سیاست کی اس بدنمائی کو ختم کرنے کے لیے " قاتلوں " کی شناخت اور ان کے چہرے بے نقاب کرنے ہوں گے اور بے ںظیر بھٹو کا قتل کسی کے گھر کا زاتی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی کا کوئی زاتی دکھ ہے کہ وہ آستین کے لہو کی پکار کو یہ کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرے کہ " اس کا دکھ زیادہ بے ںظیر بھٹو شہید کے سیاسی ساتھیوں اور پیروکاروں سے کہ اس کا زیادہ قریبی رشتہ تھا " کیونکہ اس قتل سے کوئی محض اپنی بیوی ، ماں ، بہن سے محروم ہوا ہوگا جبکہ ان کے فکری ، سیاسی ساتھی اور پیروکار تو ایک پورے مکتب سے محروم ہوگئے اور ابتک بے یارومدرگار پھرتے ہیں

Wednesday, December 17, 2014

بینش جو جلادی گئی ، کتاب جو پھینک دی گئی


بینش پرویز پشاور آرمی اسکول میں پانچویں کلاس کے بچوں کو ّپڑھانے پر مامور تھی ، وہ ایک میجر رینک کے آرمی افسر کی بیوی اور دو بچوں کی ماں تھی اور اسے تدریس کا جنون تھا اور اسی جنون کی تشفی کے لیے وہ آرمی پبلک اسکول میں ننھے منّے بچوں کو پڑھانے پر مامور تھی سولہ دسمبر 2014ء کی صبح بھی اپنے اسی جنون کے ساتھ وہ وارسک روڈ پشاور پر بنے آرمی پبلک اسکول آئی اور اپنی کلاس کو پڑھانے ان کے کمرے میں آگئی اور بچوں کو پڑھانے میں مشغول ہوگئی کہ اتنے میں زور دار فائرنگ اور دھماکے شروع ہوگئے ، اس نے بچوں کو ڈیسکوں کے نیچے پناہ لینے کو کہا اور اس انتہائی مصیبت اور خوف کی گھڑی میں بھی وہ بچوں کو نہ ڈرنے کی تلقین کرتی رہی کہ اسی دوران دو دھشت گرد کلاس روم میں داخل ہوئے اور انھوں نے جب ڈیسکوں کے نیچے چھپے بچوں کو مارنا شروع کیا تو بینش سے برداشت نہ ہوا اور وہ بے اختیار ان دھشت گردوں پر چھپٹی ، ایک کمزور ، نہتی ، کتاب ، کاپی ، پنسل سے شغف رکھنے والی استانی کی یہ جرات اور ہمت ان دھشت گردوں کو پسند نہيں آئی ، وہ غضب ناک ہوگئے اور انھوں نے سوچا کہ اسے ایسا سبق دیں کہ پھر کوئی اس طرح کی ہمت نہ کرے تو انھوں نے بینش پرویز کو قابو کیا اور اسے زندہ جلادیا طاہرہ قاضی جوکہ اس بدنصیب اسکول کی پرنسپل تھیں ، ان کے پاس موقعہ تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہوجاتیں لیکن انھوں نے اپنے اسکول کے بچوں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور انھوں نے بھی جرات و ہمت سے دھشت گردوں کو للکارا اور ان کو بھی دھشت گردوں نے شہید کردیا دھشت گردوں نے معصوم بچوں کے سر اور آنکھوں میں سیدھی گولیاں ماریں تاکہ بچنے کا امکان نہ رہے ، ان کی کتابوں ، کاپیوں کو آگ لگادی اور ایک کلاس روم ہے جس کے قالین پر فزیالوجی کی ایک کتاب پڑی ہے ، جس کو شیلف سے نکال کر دھشت گردوں نے زمین پر پھینکا ، جگہ جگہ کتابیں پھی ہوئی ، جلی ہوئی پڑی ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے ان دھشت گردوں کو سب سے زیادہ غصّہ ان ہی کتابوں پر تھا اور انھوں نے اپنی نفرت کو ان کی تباہی میں اظہار کی صورت بھی دے ڈالی آڈیٹوریم جہاں دھشت گرد سب سے پہلے گئے اور قتل عام کیا ، وہاں پر ایک گری ہوئی کرسی کے نزدیک ایک خون آلود پیپر پڑا ہوا ہے اور اس پر کہیں پنسل دھری ہے اور یوں لگتا ہے کہ جب اس کرسی پر بیٹھے بچے کو گولی لگی تو اس کے پاس موجود پیپر پہلے گرا اور پھر اس کے لہو نے اس سفید کاغذ پر لال رنگ سے اپنی بے گناہی کو نقش کیا اور پھر پنسل بطور مہر اس پر گرگئی کتاب ، پنسل اور اس سے جنم لینے والے افکار تازہ سے تاریک گروں کا ڈرنا بہت پرانا ہے اور یہ وہ ڈر ہے جس میں یہ بیٹھ جاتا ہے وہ اس قدر جنون و پاگل پن کا شکار ہوتا ہے کہ اپنے ڈر کو کم کرنے کے لیے سماج کے سب سے کمزور سیکشن پر حملہ آور ہوتا ہے ، بربریت دکھاتا ہے
امین مالوف نے " سمر قند " کے نام سے جو ناول لکھا ہے ،اس میں سمرقند کو " علم کی روشنی " سے خوفزدہ شہر دکھاتے ہوئے کئی اہل علم کو تاریک خیالوں کی بربریت کا شکار ہوتے دکھاتا ہے اور ایک منظر دکھاتا ہے کہ کیسے بوعلی سینا کہ شاگرد جابر کو سمرقند کے ایک چوک لوگوں کے درمیان گھرا اور اس کے ساتھ انتہائی برا سلوک ہوتے دکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کیسے اس زمانے میں سائنس ، طب ، فزکس ، بائیولوجی ، فلسفہ ، فلکیات سب ہی ارتداد کی نشانی قرار دے دی گئیں تھیں اور ان کے ساتھ شغف رکھنے والا اگر مرجاتا اور اس کے بعد انکشاف ہوتا اس شغف کا تو اس کی قبر کھود دی جاتی اور ہڈیاں نکال کر آگ لگادی جاتی ابن رشد کو قرطبہ کی جامع مسجد کے دروازے پر فلسفہ سے شغف رکھنے کی بنیاد پر باندھ دیا گیا اور جمعہ پڑھ کر نکلنے والے کو حکم تھا کہ اس کے سر پر دو جوتے ماریں تو یہ علم ، کتاب ، پنسل ، روشن خیالی سے نفرت اور دشمنی کا سبق جب پختہ ہوگیا تو ایک دن اس وقت کے سب ہی بڑے ترقی یافتہ مسلم شہروں کے اندر فلسفیوں ،باغی شاعروں ، میڈیسن کے ماہرین ، سائنس دانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا اور شیعہ و سنّی ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے لگے اور اسی افتراق نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجوادی اور ہلاکو نے یہاں انسانی کھوپڑیوں کا مینار تعمیر کیا پشاور آڈیٹوریم کے قالین پر پڑی ‌فزیالوجی کی کتاب اور اس سے تھوڑے سے فاصلے پر سرخ قالین کو (مزید سرخ بناتا) پڑا ہوا سرخ و تازہ خون دھشت گردوں کی ذھنیت ، ان کی سوچ کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے اسکول میں دھشت گردوں نے بارودی سرںگیں بچھائیں اور یہ پیغام دیا کہ انھیں درس گاہ سے نفرت ہے اور ان کو تو مساجد اور ان مدارس سے بھی نفرت ہے جو ان کی تکفیری سوچ سے متفق نہیں ہیں اور سب سے بڑھ کر انھوں نے معصوم بچوں کی آنکھوں میں گولیاں مار کر ثابت کیا کہ وہ تو بچوں کی آنکھوں سے جھلکنے والی معصومیت سے خوفزدہ ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ مذھبی جنونیوں کا جنون اس خوف کی پیداوار ہے جو ان کو روشن گر چہرے سے آتا ہے

Saturday, December 13, 2014

مارکس ازم ، سائیکو اینالاسسز اور تکفیری فاشزم


سابی سیگال یونیورسٹی آف ایسٹ لندن میں سوشیالوجی کے پروفیسر رہے ہیں اور وہ سوشلسٹ ریویو اور سوشلسٹ ورکرز اخبار ميں باقاعدگی سے لکھتے ہیں ، ان کی حال ہی میں ایک کتاب " انسانی فطرت ،سرمایہ داری اور نسل کشی "سامنے آئی ہے ، میرے لیے یہ کتاب اس لیے دلچسپی کا باعث بنی کہ اس میں سابی گال نے فاشسٹ اور جنونی گروپوں کے فاشزم اور ان کی جنونیت کے تجزیہ کے لیے سیاسی - سماجی تجزیہ کاری اور تحلیل نفسی یعنی سائيکو اینالائسسز کے باہمی اشتراک سے کام لینے کو لازم قرار دیا اور ولہم ریخ اور ایرک فرام کے فاشزم کی سائیکالوجی کو سمجھنے کے لیے جو سوشل کریکٹر اور سٹرکچر کریکٹر کی اصطلاح استعمال کی وہ بہت سے نئے در وا کرتی ہے ، سابی گال کی اس کتاب پر اینڈی رڈلی نے تنقید کی اور اسے بنیادی طور پر نفسیاتیاتی یعنی سائیکولوجسٹک میتھڈ قرار دیتے ہوئے اسے جدلیاتی تاریخی مادیاتی تصور کے خلاف قرار دیا جس کا بہت تفصیل سے سابی گال نے انٹرنیشنل سوشلسٹ جرنل میں شایع ہوا، نیچے میں سابی سیگال کے مضمون کی ایک تلخیص دے رہا ہوں جنوبی ایشیا ، مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ میں یہ جو مذھبی بنیادوں پر دیوبندی وہابی فاشزم ہے اس کا تجزیہ کرنے میں سابی گال کا طریقہ کار ہماری مدد کرسکتا ہے اور سابی گال کا یہ تنقیدی آرٹیکل اس خامی کو بھی ہمارے سامنے لیکر آتا ہے جو ہمیں " تکفیریت خارجی فاشسٹ سماجی مظہر " کے کئی ایک مارکسی تجزیوں ميں نظرآتی ہے جیسے طارق علی اس کی ایک مثال ہیں اینڈی رڈلی نے نے میری کتاب " حتمی حل : فطرت انسانی ، سرمایہ داری اور نسل کشی " پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھ پر دو قسم کے اصولی الزامات عائد کئے ہیں : سائیکولوجزم اور نازی ازم کی سماجی بنیادوں کے تجزیہ میں غلطی -نازی ازم کی سماجی بنیادوں کو سمجھنے میں میری غلطی پر پہلے سوال اٹھاتے ہوئے رڈلی کہتا ہے : کیا یہ صرف جرمن مڈل کلاس تھی جس کے ہاں ایسا مہلک پوٹینشل تھا ؟ بہت سے ماہر سماجیات ایسے ہیں بشمول مارکسی دانشور جنھوں نے یہ دکھایا ہے کہ معاشرے کا متوسط طبقہ تھا جس نے اس قسم کے جبر کا سامنا کیا جس نے ان کو سب سے زیادہ بحران کی طرف دھکیلا اور اسی بحران کے ان پر اثرات کا نتیجہ تھا جس کے سبب وہ نازی پارٹی کے حامی بنے اور اس کی رکنیت بھی حاصل کرنے کی طرف مائۂ ہوئے رڈلی نے میری کتاب میں ہٹلر کو جرمن لکھنے پر بھی اعتراض کیا ہے اور کہا کہ وہ تو آسٹریا میں پیدا ہوا تھا - یہ ٹھیک ہے کہ ہٹلر آسٹریا میں پیدا ہوا مگر وہ پیدا تو ایک جرمن خاندان میں ہوا تھا جوکہ آسٹریا میں ایک جرمن اقلیتی کمیونٹی کا حصّہ تھا ،جیسے ہٹلر دوسرے الٹرا نیشنلسٹ آؤٹ سائیڈرز کی طرح تھا جن میں نپولین جوکہ کورسیکا میں پیدا ہوا اور جوزف سٹالن جارجیا میں پیدا ہوا تاہم رڈلی کی بنیادی تنقید میری کتاب پر یہ ہے کہ اس میں ہالوکاسٹ کے زمہ داروں کے محرک کا تجزیہ کرنے کی جو کوشش ہے وہ نفسیاتیاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے اس حوالے سے جو سائیکو اینلاسسز کے طریقہ کار کا استعمال کیا وہ غلط ہے اس کے خیال میں ہالوکاسٹ کرنے والے سماجی طبقے کی نفسیات نے مادی پروسس پر غلبہ کرلیا ہے جبکہ ہالو کاسٹ کو مکمل طور پر اس وقت کے سامراجیت ، جرمن فوجی مہم جوئی اور شکست کے تناظر میں ، نازی قیادت اور جرمن سرمایہ داری کے درمیان تناؤ ، اس وقت کے معاشی بحران ، شکستہ جرمن ریاست اور کمزور ، موقعہ پرست حکمران طبقے کے تناظر میں ہی پوری طرح سے سمجھا جاسکتا ہے رڈلی مزید مارکسی سائیکواینالسٹس ایرک فرام اور ولہم ریخ پر تنقید کرتا ہے کہ انھوں نے فاشزم کے ابھار اور ہالو کاسٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے طبقاتی تضاد ، بدلتے مادی ، سماجی اور سیاسی حالات کو زیادہ وزن نہیں دیا -اور اس طرح سے رڈلی مارکس ازم اور سائیکو اینالیٹکل روائیت کے حاصلات کے درمیان مطابقت تلاش کرنے کی فرینکفرٹ اسکول آف مارکس ازم کے کردار کو ماننے سے انکار کردیتا ہے میرا جواب سہ جہتی ہے - پہلی جہت یہ ہے کہ ردلی نے اس وقیع تاریخی ، سماجیاتی اور سیاسی تجزئے کو نظر انداز کردیا جس کو میں نے وہ تناظر قرار دیا جس میں نازی ازم کا ظہور ہوا : جس طرح سے جرمن سرمایہ داری 19ویں صدی کے آخر تک نموپذیر ہوئی اس سے لیکر ان سماجی ،اقتصادی بحرانوں تک جو جرمن مڈل کلاس کے مختلف سیکشنوں ميں نظر آتے رہے اور جو بالآخر جرمنی کی پہلی جنگ عظیم میں شکست کا سبب بنے اور عظیم کساد بازاری کے اثرات تک کا تجزیہ میں نے نازی ازم کے ابھار کے تناظر کے طور پر پیش کیا دوسری جہت مرے جواب کی یہ ہے کہ میں واضح کرتا ہوں کہ ولہم ریخ اور ایرک فرام دونوں نے جرمن مڈل کلاس کی نازی فیکشن کو جرمن سرمایہ داری کی ترقی اور بحران کے تناظر میں تلاش کیا ، میں یہاں ولہم ریخ کا تجزیہ درج کرتا ہوں سرمایہدارانہ معشیت کی بے قابو ترقی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسلسل اور بے قابو پیداوار کی میکانیکیت ، اجارہ دارانہ سینڈیکٹس اور ٹرسٹس میں پیداوار کی متعدد شاخوں کا ادغام نے نچلے متوسط طبقے کو افلاس کے گڑھے میں پھینکا اور ان کو بھکاری بنادیا ایرک فرام لکھتا ہے نازی ازم نچلے متوسط طبقے کا نفسیاتی طور پر احیاء کے طور پر ابھرا جبکہ اس کی پرانی سماجی معاشی پوزیشن کی تباہی کردی - اس نے اس طبقے کی جذباتی توانائیوں کو تحریک دی اور وہ جرمن سامراجیت کے سیاسی عزآغم کی اہم قوت بن گیا ایرک فرام اور ولہم ریخ کے تجزیوں سے یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ دونوں کے ہاں نازی ازم اور ہالو کاسٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے طبقہ ، سرمایہ داری ترقی اور بحران اس کے بنیادی اجزاء ہيں رڈلی کے خیال میں ایرک فرام اور ریخ دونوں نازی آئیڈیالوجی کی ابہام پرست اورزھنی مالیخولیائی فطرت کو زیادہ وزن دینے میں ناکام رہے - یہ ہالوکاسٹ کا وہ فیچر ہے جس کا میں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے جائزہ لیآ ہے : حتمی حل کی قبولیت نےنازی ازم کے یہودیوں کے بارے میں غلط عقیدہ کہ وہ ساری دنیا کے طاقتور آقا ہیں کی عکاسی کی ، یہ ایسا عقیدہ تھا بتدریج کلینکل سینس میں ترحم آمیزی پر مبنی تھا - امریکی ماہر تحلیل نفسی ہینز کوہٹ نے اس نفسیات کو ہٹلر کی بڑی فنتاسی قرار دیا جس میں ساحرانہ اذیت پسندانہ طریقے سے دنیا پر کنٹرول کے عناصر بھی موجود ہیں تیسری جہت میرے جواب کی یہ ہے کہ میں رڈلی کے اس دعوے کو ردکرتا ہوں کہ میرا تجزیہ نفسیاتیاتی ہے - وہ کہتا ہے کہ والدین کی ناقص تربیت نازی ظلم کی قوت متحرکہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ جرمن مڈل کلاس کی آمرانہ شخصیت کا سبب ہے -لیکن میرے تجزیہ کی بنیاد خاندانی زندگی نہیں تھی اور نہ ہی میں نے آمرانہ سماجی کردار کو ہی نازی ازم کی ساری اور آخری وجہ قرار دیا ، بلکہ وہ نازی ازم کی تشریخ و تعبیر کے سارے سلسلہ زنجیر میں ایک کڑی ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سائیکو اینالاسسز نازی ازم کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے اور مارکسی تجزیہ کاروں کو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئيے یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریخ اور فرام نے جوسٹرکچر کریکٹر " اور " سوشل کریکٹر " کی اصطلاحیں نازی ازم کو سمجھنے کے لیے وضع کیں کیا وہ سائیکالوجسٹک ہیں ؟ ایرک فرام کہتا ہے social character is “the essential nucleus shared by members of a group which has developed as the result of the basic experiences and mode of life common to that group…the specific form in which human energy is shaped by the dynamic adaptation of human needs to the mode of existence of a given society"۔ رڈلی ہالوکاسٹ کی تشریح کو مادیاتی تجزیہ تک محدود رہنے کی بات کرتا ہے جبکہ ایرک اور ریخ دونوں کے تصورات کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ مادی ، سماجی اور سیاسی حالات کے اندر گڑی ہوئی ہیں اور ایرک و ولہم ریخ استحصال اور جبر کی خارجی صورت اور افراد اور سماجی طبقات کی داخلی ذھنی کیفیات کے درمیان تعلق اور صورت گری میں ہماری مدد کرتے ہیں اس لیے میں رڈلی کے اس دعوے کو رد کرتا ہوں کہ سائیکالوجی آف فاشزم میں جو تکنیک برتی گئی ہے وہ تجریدی ، جبری اور جامد ہے -یہ ایسی ہوتی اگر میں ایک ذھنیت کے ہمیشہ ایک سی رہنے کی بات کرتا اور یہ کہتا ہے کہ اس ميں تاریخی تنآظر بے کار ہوجاتا ہے اور تاریخی حوالہ اس ميں آتا نہیں ہے لیکن سوشل کریکٹر کا تصور تاریخی تناظر کو لیکر آتا ہے ، تاریخی حالات و واقعات و شواہد کو اس کی صورت گری کے لیے استعمال میں لاتا ہے اور اسی وجہ سے میں ان غلطیوں کے ارتکاب سے بچ پایا جس کی طرف رڈلی نے اشارہ کیا ہے رڈلی نفسیاتی حساسیت جوکہ ایک اندرونی رجحان پر مشتمل ہوتی ہے ، جذباتی پہلؤں کا ایسا سیٹ جیسے غصّہ ، تشویش ، ڈپریشن ، دباؤ جس کی جڑیں ایک فرد یا طبقے کے تاریخی تجربے میں ہوتی ہيں جوکہ تاہم سارے وقت ایکٹو نہیں ہوتیں اور ان خاص حالات میں جب یہ ایکٹو ہوجاتی ہیں کے درمیان امتیاز کو نظر انداز کرتا ہے -اصل میۂ یہ بڑا سماجی ، معاشی یا فوجی بحران ہوتا ہے جوکہ ایک خاص قسم کی حساسیت کو ہلاکت انگیز عمل و اقدام میں بدل دیتا ہے حساسیت اور نشیبی عوامل بہت ضروری ہیں اگر ہم ایک مکمل تشریح چاہتے ہیں اور وہی فکری اعتبار سے بھی اور تجرباتی اعتبار سے بھی دونوں طرح سے درست و معقول تشریح ہوسکتی ہے، میں نے اپنی کتاب میں یہ ہی کہا ہے کہ نازی اقتدار میں جرمن سرمایہ داری کے گہرے بحران کے سبب آئے اور اس بحران کو عظیم کسادبازاری نے مزید کءرا کردیا اور روسی محاذ پر شکست نے ہالوکاسٹ کا فیصلہ کرنے پر نازیوں کو چلایا میں نے جرمن مڈل کلاس کے جس آمرانہ سماجی کردار کا زکر کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گروپ وسعی طور پر ایسی زاتی کرداری خاصیتوں کا حامل تھا جس نے اس کی تاریخ کی وجہ سے اور خاص قسم کے تاریخی محدودات کی وجہ سے اسے ایسا بنایا اور اس نے اسی وجہ سے زیادہ تباہ کن طریقے سے اس بحران پر ردعمل دیا جس سے دوسرے سماجی طبقات بھی گزر رہے تھے اور یہی جواب ہے کہ اس خاص مرحلے سے پہلے جرمن مڈل کلاس نے وہ ردعمل ظاہر کیوں نہ کیا ؟

Thursday, December 11, 2014

ملالہ یوسف زئی - پاکستان میں فکری جدال


بدھ دسمبر کی دس تاریخ کو اوسلو کے تاریخی ہال میں ملالہ یوسف زئی اور پرکاش ستھیارتھی نے امن کا عالمی ایوارڑ نوبل پرائز اکٹھے اور مشترکہ طور پر وصول کیا اور پاکستان کے لیے یقینی بات ہے کہ یہ انتہائی تاریخی لمحات تھے کہ جب اس کے ہاں دوسری مرتبہ یہ نوبل انعام کسی پاکستانی شخصیت کو مل رہا تھا اور اس حوالے سے پوری دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف لگی ہوئی تھیں اوسلو کے اس ہال میں اس دن پہلے تو راحت فتح علی خاں نے قوالی سے سماں باندھا اور اس کے بعد بھارتی ستار نواز نے مشرقی موسیقی اور راگ راگنیوں سے اہل مغرب کو مسحور کرڈالا پاکستان کے لیے بالخصوص اور جنوبی ایشیا کے لیے بالعموم اپنی ثقافت ، اپنی تکثیریت اور اپنی صلح کلیت کے اظہار کا یہ اہم اور نادر موقعہ تھا موسیقی ، قوالی یہ دو ایسی علامتیں ہیں جن کو زبردستی پاکستان اور جنوبی ایشیا سے خارج کرنے کی کوشش بعض ایسے عناصر کررہے ہیں جوکہ مسلم دانشوروں کی ںظر میں تکفیری اور خوارج کی فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ماہر عمرانیات کے نزدیک ایسے عناصر تکثریت ، تنوع اور کثیر النسلی و کثیر الشناخت معاشروں کو یک چہرہ کرنا چاہتے ہیں جوکہ کبھی ہونہیں سکتے اور اس طرح کی کوئی بھی کوشش تکثیری معاشروں میں فساد ، جنگجوئی ، خون ریزی اور تاریک خیالی کا باعث بنتی ہے ملالہ جس کی عمر اس وقت صرف انیس برس ہے نے بہت چھوٹی سی عمر میں پاکستان کے پشتون اکثریت کے علاقے سوات میں اس وقت اسکول جانے والی بچیوں کے "حق تعلیم " کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی جب سوات میں تحریک طالبان اور تحریک نفاذ شریعت محمدی نامی دو تنظیموں نے ملکر اسلام کا ایک رجعتی اور نامانوس چہرہ پیش کرنا شروع کردیا جس میں جدید تعلیم لڑکیوں کے لیے تو درکنار خود لڑکوں کے لیے بھی جائز نہیں تھی اور سوات میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکول ، کالج تباہ کردئے گئے اور سوات کے اندر ایک مخصوص مکتبہ فکر کے نوجوانوں کے اندر یہ رجحان زور پکڑگیا کہ وہ قلم ، کتاب کی بجائے بندوق اٹھائیں ، بدن پر بارودی جیکٹ باندھ لیں اور جو ان سے اتفاق نہ کرے اس سے جینے کا حق چھین لیں ، نیز غیر مسلم مذھبی برادریاں تو دور خود مسلمان کہلانے والوں میں سے بھی جو ان کی جنونیت اور انتہا پسندی کا ساتھ نہ دیں ان مسالک کے ماننے والوں کے بھی ڈیتھ وارنٹ جاری کردئے گئے سوات میں اس وقت تکثیریت کی کوئی بھی علامت چاہے ہو سیاسی جدوجہد پر اصرار ہو ، جاہے جمہوریت و بنیادی انسانی حقوق پر اصرار ہو یا تعلیم جدید پر سب کو ہی "ارتداد " کے مترادف قرار دے دیا گیا طالبانائزیشن نے صرف اسلام کا چہرہ ہی مسخ نہیں کیا بلکہ اس نے پشتون کلچر اور ثقافت کو بھی مسخ کیا اور اس کی وجہ سے پشتونوں کے ایسے جامد سٹیریو ٹآئپ چوکھٹے بنے کہ " لفظ پشتون " ہی دھشت گردی ، انتہا پسندی ، مذھبی جنونیت " کے مترادف ہوگیا ملالہ یوسف زئی نے اس حوالے سے دونوں اسلام اور پختون دونوں کا مقدمہ لڑنے کی سعی کی اور ایک طرح سے یہ پاکستان کا مقدمہ لڑنے کی سعی بھی تھی جو ملالہ یوسف زئی نے کی ملالہ یوسف زئی نے پاکستان کے اندر اسکول جانے سے محروم رہ جانے والی بچیوں کی تعلیم مکمل کرانے اور بچیوں کے اسکولز کے لیے کوششیں کرنے کو اپنا مشن بنایا اور خصوصی طور پر خیبرپختونخوا کی بچیوں کی تعلیم کو فوکس کیا ملالہ یوسف زئی کے والدین ایک اعتدال پسند ، روادار صوفی سنّی ثقافت و مذھبی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والد کے آئیڈیل جناح ، قائد عوام زوالفقار علی بھٹو اور محترمہ شہید بے نظیر بھٹو رہی ہیں اسی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ چونکہ خود اعتدال پسند ،، تکثیریت کے حامل ترقی پسند مسلمان ہیں تو یہی سوچ اور فکر ان کی بیٹی کے اندر بھی منتقل ہوئی اور انھوں نے گل مکئی کو کسی بھی مرحلے پر اس فکر کے ساتھ آگے جانے سے نہیں روکا تو گل مکئی اوائل عمری سے ترقی پسند سوچ کے ساتھ جڑی نظر آئی ملالہ نے جب یہ کام شروع کیا تو اس وقت پورا پاکستانی سماج بالعموم اور سوات کا پختون سماج بالخصوص تکفیری سوچ کی لپیٹ میں تھا اور تکفیری دھشت گردوں کے لیے سوات میں کسی بچّی کا روشن خیالی ،اعتدال پسندی ، رواداری ، صلح کل فکر کے ساتھ منسلک ہوجانا اور اس کے لئے قلم سے جہاد کرنا اور اسکول جانے پر اصرار کرنا بہت بڑا جرم تھا اور اس طرح کی سوچ کو اسلام دشمنی کے ساتھ جوڑنا بہت آسان تھا جبکہ پاکستان کے اندر دانشوروں اور رجحان ساز قلم کاروں ، اینکر پرسنز اور خطیبوں کی شکل میں ایسے لوگوں کی نہ کل کمی تھی اور نہ آج ہے جوکہ تکفیری سوچ کو پورے شدومد کے ساتھ پھیلارہے ہوں اور بارود کو اپنا مذھب قرار دینے والوں کے لیے معذرت خواہی کا کردار ادا کررہے ہوں تو روشنی کے علمبرداروں کو اسلام دشمنوں کا ایجنٹ بتلانا بہت آسان کام بن چکا تھا ملالہ یوسف زئی بھی ایسے تکفیری دانشوروں ، لکھاریوں ، قلم کاروں ، تجزیہ کاروں ، اینکر پرسنز اور ٹیبل نیوز سٹوریز گھڑنے والوں کے پروپیگنڈے کا نشانہ بنی اور اس کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع کی گئی ایک روز جب وہ اسکول وین میں بچیوں کے ساتھ اسکول جارہی تھی تو اس پر تاریکی کی تکفیری قوتون کے نمائندوں نے حملہ کیا اور اپنی طرف سے اس کی زندگی کا چراغ گل کرڈالا اور اس پر حملے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے جو تحریر جاری کی ، اس کے مطابق ملالہ جیسی دھان پان سی لڑکی سے اسلام کو خطرہ لاحق ہوچکا تھا اور وہ اسلام دشمنوں کی آلہ کار بنی ہوئی تھی لیکن ملالہ پر یہ حملہ خود ان تاریکی کی قوتوں کے لیے خودکش اقدام ثابت ہوا ، ملالہ یوسف زئی پر حملے نے کم از کم پاکستان کے ان لاکھوں شہریوں کو تاریکی کی قوتوں کے بارے میں ٹھیک سوچ قائم کرنے کا موقعہ فراہم کردیا جو ابتک ان قوتوں کے مذھبی لبادوں سے دھوکہ کھاکر ان کی مذمت کرنے سے ہچکچاتے تھے اور پاکستان کے اندر نام نہاد طالبنائزیشن کی حقیقت سے زیادہ آشنائی بھی پاکستانی عوام کو حاصل ہوئی ملالہ پختون معاشرے کے لیے ہی نہیں پورے پاکستان کے باسیوں کے لیے ہمت ، سچائی اور حق گوئی کی مثال بنی اور اس ایک بچّی کا اثر اتنا تھا کہ اس نے " ملائیت " اور مذھبی پیشوائیت کو پسپا ہونے پر مجبور کیا ،تبھی تو اس پر ہوئے حملے کو چھپانے اور اس سے پیدا ہونے والی شرمندگی سے بچنے کے لیے ملالہ پر اس حملے کو سرتوڑ کوشش کرکے اسلام دشمنوں کا ڈرامہ قرار دینے کی کوشش ہوئی لیکن آج ملالہ پر حملہ کرنے والے گرفتار ہیں ، ماسٹر مائینڈ عدنان رشید کا معلوم نہیں کہ زندہ ہے کہ مرگیا ملالہ کی ہمت اور حق گوئی کی جہاں عالمی سطح پر تعریف ہورہی تھی اور ہماری منتخب حکومت بھی اس کی بہادری کا اعتراف کررہی تھی تو ایسے وقت میں پاکستان کی قسمت سے کھیلنے والے اور پاکستان کو ہمیشہ سے آزار میں مبتلا دیکھنے کے خواہشمندوں نے ملالہ کے لیے پاکستان میں رہنا مشکل بناڈالا ، وہ جب سے علاج کے لیے باہر گئی ہے اس وقت سے پاکستان میں اس کے خلاف ایک فضاء قائم کی جارہی ہے ،جس میں بہت سارے نام نہاد غیرت مند صحافتی بریگیڈ کے لوگ بھی شامل ہیں آج بھی جب اسے نوبل انعام ملا اور اس نے اوسلو میں اسلام ، پاکستان اور اپنے پختون معاشرے کی وکالت کی تو بھی حبیب اکرم جیسے کئی نام نہاد تجزیہ کاروں کے پیٹ میں بل پڑگئے اور مروڑ اٹھے اور انھوں نے ملالہ کی اس کامیابی کو ماننے سے انکار کیا اصل میں ملالہ کے حامی اور ملالہ کے مخالف پاکستانی سماج کے اندر دو ایسے مکاتب فکر کے درمیان فکری جدال کی نشاندھی کرتے ہیں جو پاکستان بننے سے قبل اور 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہی سامنے آگئے تھے ایک مکتبہ فکر وہ ہے جس کی نمائندگی سرسید ، غالب ، مولانا الطاف حسین حالی ، شبلی نعمانی ، سید امیر علی ، اقبال ، جناح ، مولانا حسرت موہانی ، دادا امیر حیدر ، فیروز الدین منصور ، سبط حسن ، صفدر میر ، ڈاکٹر فضل الرحمان ، خلیفہ حکیم وغیرہ کررہے تھے اور اس مکتبہ فکر کا سیاسی اظہار آل اںڈیا مسلم لیگ ، انجمن ترقی پسند تحریک ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے ترقی پسند جمہوری زعماء ، آزاد پاکستان پارٹی ، کمیونسٹ پارٹی ، نیشنل پارٹی ، عوامی لیگ وغیرہ کی شکل میں ہوا اور اسے ہم جدیدیت پسند طبقہ اور ماڈرن مسلم ذھن کا نام دے سکتے ہیں جبکہ دوسرا مکتبہ فکر وہ تھا جس نے جدیدیت کو من حیث الکل رد کیا اور دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء جیسے اداروں کی بنیاد رکھی اور جمعیت العلمائے ہند ، مجلس احرار جیسی جماعتیں بنوائیں اور مسلم آبادی میں قدامت پرست ، رجعت پسند زھن کی نمائندگی کی اور اسی کے اندر سے زیادہ شدت پسند ، زیادہ فاشسٹ رجحان بھی برآمد ہوئے جیسے جماعت اسلامی ، سپاہ صحابہ پاکستان اور آگے چل کر اسی رجحان کے اندر سے تکفیری دھشت گرد فکر کا جنم بھی ہوا جس کی ملالہ نشانہ بنی پاکستانی ریاست اور سماج 80 ء کی دھائی سے اس رجعت پسند ، مذھبی جنونیت اور انتہا پسند رجحان کے قبضے میں جکڑا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اس کی معاشی ، سماجی ، سیاسی ترقی اور ارتقاء کا سفر تعطل کا شکار نظر آتا ہے اور ستم در ستم یہ ہے کہ پاکستان کی تشکیل کی جن لوگوں سے سرتوڑ مخالفت کی تھی اور وہ پاکستان کے قیام کے پس پردہ کارفرما آئیڈیالوجی سے متفق نہ تھے ،وہی اس ملک کی ںظریاتی سرحدوں کے محافظ ہونے کے دعوے دار بنکر سامنے آگئے ہیں اور بندوق و خودکش جیکٹوں کے ساتھ اس کا نفاذ چاہتے ہیں اور جو ان کو بے نقاب کرے اس کا پاکستان کے اندر رہنا ناممکن بناڈالتے ہیں پاکستان کی ریاست اور یہاں کی عوام کے لیے اصل چیلنچ ہی یہی ہے کہ آیا وہ قائد اعظم محمد علی جناح ، اقبال و سرسید کی جدید مسلم ذھنیت پر مبنی فکر کو پروان چڑھانے والوں کی جلاوطنی کا سفر ختم کراکے ان کو پاکستان میں لاکر اپنا مےستقبل روشن کرنا چاہتے ہیں یا پھر ملالہ کی طرح اس فکر کے حامل لوگوں کو دیس نکالا دیتے رہیں گے پاکستان میں جہالت کو ختم کرنا اور تعلیم کی روشنی پھیلانے کا کام کرنا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا ہے ، اقبال احمد پاکستان خلدونیہ یونیورسٹی قائم کرنے آئے تھے تو ان کے ساتھ کیا حشر کیا گیا ، اسلام آباد پریس کلب میں ان کی پریس کانفرنس کے دوران ہی ایک مذھبی طلباء تنظیم کے غنڈوں نے دھاوا بول دیا ، عبدالسلام پاکستان کے اندر ‌فزکس کی بین الاقوامی تعلیم ممکن بنانے کے لیے مدد دینے والا انسٹی ٹیوٹ قائم نہ کرسکے اور ملالہ کے عزم کو بھی تاریکی کی قوتوں سے خطرہ لاحق ہے ، سویڈن میں جس طرح سے عبداسلام کے قائم کردہ انسٹی ٹیوٹ سے بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے غریب اور متوسط طبقے کے طلباء زیادہ فائدہ اٹھارہے ہیں مجھے خطرہ ہے کہ ملالہ کو ملنے والی بین الاقوامی تعلیمی امداد کا زیادہ حصّہ بھی پاکستان کی بجائے دنیا کے دوسرے حصوّں میں صرف نہ ہونے لگے ، ہم سب کو رجعت پسندی اور تاریک خیالی کے خلاف محاز بنانا ہوگا

Monday, December 8, 2014

پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک اور سٹریٹ پاور پالیٹکس


پاکستان کی سیاسی تاریخ کے موجودہ دور کا احوال جب بھی رقم کیا جائے گا تو مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز سے دھکا دینے والی میاں نواز شریف کی حکومت ہی تھی اور نواز شریف اپنی کم بصیرتی کے باعث اپنے ساتھ کھڑی ہوجانے والی اپوزیشن کے تعاون کے غلط مطلب نکال کر گیند کو پی ٹی آئی کی کورٹ میں پھینکنے کے مرتکب ہوگئے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی جانب سے اپنے غیر لچک دار موقف سے دستبردار ہوکر جوڈیشل کمیشن کے قیام اور عدالت میں جانے کے فیصلے کو مسلم لیگ نواز نے ان کی کمزوری خیال کیا اور ان کے خلاف انتہائی جارحانہ پریس کانفرنسز اور اشتہاری مہم چلائی اور عمران خان کے بارے ميں جو لب و لہجہ مسلم لیگ نواز کے چھوٹے بڑے قائد نے اختیار کیا ، اس نے عمران خان کو " تختہ یہ تختہ والی " سیاست کے بہت قریب کردیا ہے اور اس سارے مںظر نامے میں پارلیمنٹ کا کردار کچھ بھی نہیں رہا ہے اور سیاست وہآں سے نکل کر گلی محلوں کی زینت بن گئی ہے پی ٹی آئی کے فیصل آباد میں احتجاج اور ملک بھر میں یوم سوگ کے بعد یوں لگنے لگا ہے جیسے پاکستان کی سیاست وابپس 70ء کی دھائي میں چلی گئی ہو اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی تجربہ کار سیاسی جماعتوں کی بہت بڑی ناکامی ہوگی جو سیاست کو واپس 90ء کی دھائی میں جانے دینے کی اجازت نہیں دیتے تھے جبکہ سیاست اس سے بھی پیچھے 70 ء کی دھائی میں چلی گئی ہے فیصل آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن کی ہلاکت اور آٹھ سے زیادہ ورکروں کے زخمی ہونے کے واقعات سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ مسلم لیگ نواز نے 12 اکتوبر 1999ء سے لیکر 2008ء تک مشرف آمریت کے دوران کوئی سبق نہیں سیکها اور اس نے پنجاب میں اپنی اپوزیشن کرنے والوں کے لئے سیاست کو آج بهی بہت بڑا جرم تصور کیا ہوا ہے فیصل آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی لاشیں گرواکر یہ سمجها گیا کہ وہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو ڈمپ کردیں گے لیکن اس طرح کی لائن اختیار کرکے پی ٹی آئی کی ایجی ٹیشن کی سیاست کو درپیش کافی مشکلات میں کمی کردی گئی ہے اور فیصل آباد بند کرنے کا ٹاسک پی ٹی آئی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس ٹاکرے نے بطور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قد اور تاثر کو اور طاقتور کردیا ہے اور پنجاب کے اندر مسلم لیگ کی اربن سیاسی پاور کو چیلنج کرنے کی پی ٹی آئی کی یہ کامیابی چهوٹی کامیابی نہیں ہے فیصل آباد میں ورکرز کی ہلاکت کے بعد شام کو اور اگلے دن یوم سوگ کے موقعہ پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں نے یہ متھ بھی توڑ دی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس سٹریٹ پاور کی کمی ہے اور وہ ایجی ٹیشن کی سیاست نہیں کرسکتی ایک اور متھ یا غلط فہمی بھی پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں جو بنی تھی وہ ٹوٹتی نظر آرہی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف احتجاجی تحریک میں شاید محنت کش طبقہ اور کسانوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرپائے گی مسلم لیگ نواز پی ٹی آئی کے خلاف اسی طرح سے آہنی هاتهوں اور میڈیا ٹرائل کے هتهیار استعمال کررہی ہے جیسے اس نے 88ء سے لیکر 99ء تک پی پی پی اور نواز شریف کے خلاف استعمال کیے تهے لیکن اس وقت فرق یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ساته سپائی ماسٹر اور نادیدہ فرشتے اس طرح نہیں کهڑے جیسے وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف کهڑے تهے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف میڈیا اس طرح سے فلی کنٹرولڈ ہے جیسے یہ پی پی پی کے خلاف تها، آج عوامی شعور کو پراگندہ کرنے کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے میدان میں بازی بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے هاته ہے ایک اور فرق ماقبل مشرف اور مابعد مشرف دور میں یہ ہے کہ ماقبل مشرف دور میں پاکستان کی بالعموم اور پنجاب کی بالخصوص مڈل کلاس جس کی زیادہ جڑیں صنعتی سرمایہ داری میں تهی زیادہ تر نواز شریف کے ساته تهی اور آج بهی کم از کم یہ صورت حال ہے لیکن اسی دوران سروسز سیکٹر سے وابستہ ایک اور پرت پنجاب میں پروفیشنل مڈل کلاس کے طور پر ابهری اور یہ پرت بجا طور پر آج پی ٹی آئی کے ساته ہے اور سیاست میں تبدیلی کے بارے میں اس کے جو خیالات ہیں اسے اگر کہیں جگہ ملی ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے اور پی پی پی میں بلاول بهٹو اس سوچ کے لئے جگہ پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن ان کو آصف علی زرداری کی پرانی سوچ کی روکاوٹ کا سامنا ہے ، تو پنجاب کے اربن سنٹرز سے ابهرنے والی اس نئی اربن پروفیشنل کلاس نے بهی مسلم لیگ کو چیلنج دیا ہے پنجاب میں پروفیشنل مڈل کلاس کی غالب اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف کا رخ کرلیا ہے اور یہ غالب اکثریت پاکستان کی پاور پالیٹکس میں اپنے مقام کے تعین کے لیے کوشش کررہی ہے اور اس کلاس کے ریڈیکل ازم کا کوئی توڑ مسلم لیگ نواز کے پاس فی الححال نظر نہیں آرہا ، اس نے اس کلاس کی سب سے بڑی خواہش میرٹ پر نوکریاں اور عہدے دئے جانے کا مطالبے پر کوئی خاص توجہ نہیں کی ہے پاکستان تحریک انصاف میں نوجوانوں میں سے سب سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو ڈگری ہولڈر ہیں یا ہنر مند ہیں لیکن بے روزگاری کا شکار ہیں اور ان کے لیے مسلم لیگ نواز سمیت روائتی پارٹیوں کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے ، یہ نوجوان فیورٹ ازم ، سفارش ، پرچی اور رشوت کے چلن سے بہت تنگ ہیں ، عمران خان نے ان نوجوانوں کو تبدیلی کا خواب دکھایا ہے ، اگرچہ مسلم لیگ نواز نے اس بے روزگار نوجوان طبقے کو رام کرنے کے لیے وزیر اعظم آسان قرضہ سکیم ، وزیراعلی کی روزگار سکیم ، سٹوڈنٹ لان سکیم سمیت چند پروگرام دئے ہیں لیکن ان کی محدودیت اور انتہائی سخت شرائط نے بے روزگار نوجوانوں کی بے چينی میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور نوجوانوں میں ریڈیکلائزیشن بڑھتی جارہی ہے مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں اپنے خلاف فضا اس لیے بهی زیادہ ناسازگار لگ رہی ہے کہ اس وقت پنجاب میں کسانوں کی حالت پتلی ہوگئی ہے ، پہلے کسانوں کو پهٹی کی قیمت نہ ملی ، پهر دهان کی فصل پٹی اور اس کے بعد گنے کی فصل پٹ گئی اور اب جب گندم کی کاشت کا وقت قریب ہے تو کهاد اور دیگر مداخل زراعت اس کی کمر توڑ رہے ہیں ، فیصل آباد ، لاہور ، ملتان سمیت پنجاب کے اندر جو انڈسٹری ہے اس کو گیس نہیں مل رہی ، صرف فیصل آباد میں 35 لاکه مزدور بےروزگار ہے اس نے مسلم لیگ نواز کے خلاف جزو وقتی اور کاریگر محنت کش طبقے کے اندر سخت غصہ پیدا کیا ہوا ہے ، گهریلو صارف بهی بجلی کے بلوں میں اضافے اور گیس کی نایابی سے پریشان نظر آتا ہے سمال و میڈیم مینوفیکچرر بهی مسلم لیگ نواز کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے اور اس وقت ماضی کے برعکس مسلم لیگ نواز کے ساته بڑا مینوفیکچرر اور سرمایہ دار ، بڑے تاجر کهڑے ہیں جبکہ چهوٹا دکاندار جس پر سنی اتحاد کونسل ، پاکستان سنی تحریک جیسی تنظیمیں اثر انداز ہوتی ہیں بٹ گیا ہے اور اسی وجہ سے مسلم لیگ کو پی پی پی کے خلاف جو حلقے حمایت کے لئے دستیاب تهے ان میں بہت سے حلقے تو از کے مدمقابل ہیں پی پی پی کے خلاف میاں نواز شریف ملاوں کو متحد کرکے لے آتے تهے خاص طور پر بریلوی مولوی اور پیر ان کے اردگرد اکٹهے ہوجایا کرتے تهے لیکن اس مرتبہ پی ٹی آئی کو جہاں بریلوی ماڈرن ریفارمسٹ پاور کی حامل پاکستان عوامی تحریک کی حمائت حاصل ہے وہیں اسے بریلوی آرتهوڈوکس تنظیموں کے اتحاد سنی اتحاد کونسل اور یہاں تک کہ بریلویوں کی سخت گیر تنظیم پاکستان سنی تحریک کی حمایت بهی حاصل ہے جبکہ میاں نواز شریف اس مرتبہ لاہور سے جامعہ نعمیہ اور حزب الاحناف اور جامعہ نظامیہ جیسے اہم بریلوی مدرسوں سے بهی حمائت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور شیعہ آرتهوڈوکس تو ان سے فاصلہ پہلے ہی رکهے ہوئے ہے ، جبکہ اس دوران میاں نواز شریف جے یوآئی ، سپاہ صحابہ کی حمائت لے پائے جس کا ان کو پنجاب میں فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہی ہوا ہے اور مسلم لیگ نواز پر صوفی سنیوں ، شیعہ ، کرسچن ، احمدیوں کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والی تنظیموں کی سرپرستی کا الزام لگا ہے اور آج پنجاب میں ان کے بریلوی ووٹ بینک میں خاصی کمی دیکهنے کو ملی ہے تو یہ ہے وہ منظر نامہ جس میں مسلم لیگ نواز کو ایک طرح سے تنہائی کا سامنا ہے اور پنجاب کے اربن سنٹرز بهی اس کے هاته سے پهسلتے دکهائی دے رہے ہیں اور ریاست کے اداروں کے اندر بهی جو غیر منتخب هئیت مقتدرہ کے ادارے ہیں وہاں بهی نون لیگ کی حالت پتلی ہے اور اس کی اندر سے حالت بہت بری ہے مسلم لیگ نواز کی اپنی ایک اور اندرونی خامی یہ ہے کہ اس وقت اس پارٹی کے اندر کئی ایک لوگ ایسے ہیں جو میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی پارٹی اور حکومتی ورکنگ سے انتہائی سخت ناراض ہیں ، پنجاب کے اندر نواز شریف کی کبینٹ اور کچن کبینٹ کے اسحاق ڈار ، پرویز رشید ، خواجہ آصف سے چودھری نثار علی خاں کے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہيں اور زوالفقار کھوسہ تو باقاعدہ ایک فارورڈ بلاک کا اعلان کرچکے ہیں اور نواز شریف و شہباز شریف کی مطلق العنان سیاست سے تنگ مسلم لیگیوں کا کھوسہ کے ساتھ کھڑے ہونا یقینی ہے مسلم لیگ نواز سے سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے سیاسی زمیندار اشراف خانوادوں کی ناراضگی پرانی ہے ، وہ 85ء میں طاقت کا توازن سنٹرل پنجاب کی صنعتی اور تاجر سیاسی کمیونٹی کے لوگوں کے حق میں ہوجانے کو فراموش نہیں کرسکے اور یہ اشرافیہ پہلے ہمیں مسلم لیگ ق اور پی پی پی کے ساتھ جڑی نظر آرہی تھی مگر اب ان کے بہت سے لوگ پی ٹی آئی کا رخ کررہے ہیں اور یقینی بات ہے کہ سندھ سے بھی ایسے گھرانوں کو ساتھ ملانے کی کوشش جاری ہے اور میرے نزدیک شاہ محمود قریشی زمیندار اشرافیہ کی طاقتور لابی کے پی ٹی آئی میں ترجمان ہیں اور یہ سنٹرل و جنوبی پنجاب کے مڈل کلاس کسان کی لابی کی ترجمانی بھی کررہے ہیں اور سنٹرل پنجاب و جنوبی پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے اندر پروفیشنل مڈل کلاس ، میڈیم مینوفیکچرر لابی کے بعد اگر کوئی طاقتور لابی موجود ہے تو وہ بڑے اور متوسط طبقے کی کسان لابی ہے جبکہ اس پارٹی میں ابھی تک بے روزگار نوجوان اور مزدور ، غریب کسان کی نمائندگی کرنے والی مںظم لابی نہیں ہے اگرچہ کسی حد تک اعجاز چودھری ان کی نمائندگی کررہے ہیں لیکن مزدوروں اور بے روزگار نوجوانوں کے پاس اس وقت اور کوئی ریڈیکل پارٹی کا آپشن موجود نہیں ہے تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر ہی جدوجہد کررہے ہیں میں اس لئے کہتا ہوں کہ یہ مسلم لیگ نواز کا پنجاب میں آخری دور حکومت ہے اور اس کے تاش کے پتوں کی طرح بکهرنے کا وقت بہت قریب آن پہنچا ہے اور پاکستان کے اندر سنٹر رائٹ کی سب سے بڑی نمائیندہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے اور پی پی پی کو اگر سنٹر لیفٹ کی سب سے بڑی پارٹی کے ٹائٹل کو اپنے پاس رکهنا ہے تو اسے پنجاب کی سیاست کی حرکیات کے مطابق اپنی سیاست کو ڈهالنا ہوگا اور یہ کم از کم نواز لیگ سے مفاہمت اور اپوزیشن کی اہوزیشن نہیں ہونی چاہئیے جس نے پی پی پی کو سمندر سے ندی بنادیا ہے

Sunday, December 7, 2014

کیا آصف علی زرداری پی پی پی کے گورباچوف ہیں ؟


پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرپرسن آصف علی زرداری نے پی پی پی کے یوم تاسیس کی بلاول ہاؤس لاہور میں منعقدہ تقریبات میں تین دن جو تقاریر کیں وہ پی پی پی کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اکثریت کی خواہشات کے برعکس تھیں اور سب سے زیادہ مایوس کن وہ سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے پی پی پی کے حلقوں کے لیے تھیں ،کیونکہ ان کے لیے یہ بات سوہان روح ہے کہ پی پی پی اپوزیشن میں رہ کر بھی مسلم لیگ نواز کی اپوزیشن نہ کرے اور پنجاب اور سرائيکی خطے کے عوام کی آرزؤں کی عکاسی نہ کرے آصف علی زرداری نے سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے مشترکہ ورکرز کنونشن میں ایک لفظ بھی سرائيکی خطے کے مسائل پر نہیں کہا اور نہ ہی اس کنونشن میں انھوں نے یہ واضح کیا کہ اس وقت جو علاقے مسلم لیگ نواز کی جانب سے میگا پروجکٹس کے ترقیاتی ماڈل کی وجہ سے بری طرح سے نظرانداز ہورہے ہیں اور جہاں پہلے سے موجود غربت ، بے روزگآری اور پسماندگی نواز لیگ کی سبسڈیز کے خاتمے اور سخت قسم کی مانیٹری پالیسی کی وجہ سے لوگوں کے مسائل میں اور اضافہ ہوگيا ہے ،ان کے پاس ان مسائل سے نکلنے کا کیا حل ہے ؟ اور وہ کیسے پاکستان پیپلزپارٹی کو مجبور کریں گے کہ وہ بڑے سرمایہ داروں اور پوش علاقوں کی ہی ترقی کے ماڈل میں تبدیلی لانے پر مجبور ہو پی پی پی کا سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب میں گراف مسلسل نیچے کی طرف جارہا ہے اور اس گراف کے نیچے جانے کی وجہ سے ان گھوڑوں پر بھی اثرپڑرہا ہے جو کسی غیرمقبول ہوتی جماعت میں رہنے کا رسک کبھی نہیں لیتے آج جب میں یہ کالم تحریر کرہا ہوں تو پاکستان پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے تین بڑے گھوڑے جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان ڈویژن سے ہے اور تینوں ایسے سیاسی گھوڑوں میں شمار ہوتے ہیں کہ جن کی اپنی جیب میں بھی خاصا ذاتی ووٹ بینک ہے اور تینوں اہم زمیندار اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں پی ٹی آئی کے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی کی کوششوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں نیاز جھکڑ اور بہادر خان سہیڑ کا تعلق لیہ سے ہے اور دونوں ایک لمبے عرصے تک پاکستان پیپلزپارٹی میں رہے اور پھر مسلم لیگ ق میں گئے وہاں سے واپس پی پی پی میں آئے ، دونوں عرف عام میں عوامی سیاست کرنے والے اور بھٹو لورز میں شامل ہیں اور ان کے سیاسی ، دانشور ، ادیب دوستوں کا سارا حلقہ وہ ہے جو ضیاءالحقی سیاست سے دور رہا ہے اور ضیاءالحقی جراثیم سے اپنے پاک کو پاک رکھتا آیا ہے ، اس لیے یہ اگر مسلم لیگ ق میں گئے بھی تھے تو ان کا حلقہ احباب زیادہ تر اینٹی ضیآء کیمپ ہی رہا تھا اور ان کا لیہ کی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں لیہ کی بالخصوص سیاست اور جنوبی پنجاب کی سیاست میں بالعموم کسی جماعت کو عوام میں اپنی مقبولیت میں اضافہ ہوتے دیکھ رہے ہیں تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے اور سیف کھوسہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے ڈیرہ غازی خان ضلع میں اگر پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس اگر کوئی بھاری بھر وزن والا آدمی تھا تو وہ سیف الدین کھوسہ تھا جسے پاکستان پیپلزپارٹی گنوا بیٹھی ہے میں نے اپنے کالم میں پہلے بھی لکھا تھا کہ شاہ محمود قریشی کی صلاخیتوں سے زیادہ یہ معروضی حالات ہیں جو پاکستان پیپلزپارٹی کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ نواز کی حقیقی حریف اور مقابل پارٹی کے طور پر سامنے لارہے ہیں اور جنوبی پنجاب کے اندر گراس روٹ لیول پر پی ٹی آئی کو دن بدن مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور مظفرگڑھ میں چنوں لغاری سمیت پی پی پی کے کئی اہم ورکرز دوست رہنماء پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں اور ان لوگوں کے بغیر سابق وفاقی وزیر عبدالقیوم جتوئی کے لئے سیاست میں وزن برقرار رکھنا خاصا مشکل ٹاسک ہوگا اور مجھے ایسے اشارے موصول ہوئے ہیں کہ جلد ہی قیوم جتوئی بھی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرلیں گے اور اس طرح سے مظفرگڑھ ، لیہ ، ڈیرہ غازی خان میں پاکستان تحریک انصاف سیاست کی نئی حرکیات کو جنم دے گی پاکستان پیپلزپارٹی کی پوزیشن اس وقت یہ ہے کہ اس کی پوزیشن ملتان ، مظفرگڑھ ، لیہ ، ڈیرہ غازی خان ، خانیوال ، لودھراں ، بہاول نگر ، ساہیوال میں انتہائی کمزور ہوچکی ہے اور اس کے پاس ہیوی ویٹ گھوڑے وہآں نہیں ہیں (ملتان میں سوائے سید یوسف رضا گیلانی کے اس کے پاس اب کسی بھی این اے کی نشست پر ہیوی ویٹ گھوڑا نہیں ہے )اور سنٹرل پنجاب کے اندر فیصل آباد ، لاہور ، گوجرانوالہ ، راولپنڈی جیسے اربن شہروں میں اس کی حالت مزید پتلی ہوگئی ہے کیونکہ ایک طرف تو ہیوی ویٹس گھوڑے اس کے پاس نہیں رہے تو دوسری طرف اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جو سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے عوام کے اندر اس پارٹی کی طرف کشش پیدا کرے اور شریک چئیرمین سنٹرل و جنوبی پنجاب کے اندر عوامی بے چینی سے پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والی مقبولیت کو بدستور نادیدہ قوتوں کا سکرپٹ قرار دینے پر مصر ہیں جس سے عوام کے اندر تو جو مایوسی پھیل رہی ہے وہ ہے خود ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں کا مورال بری طرح سے ڈاؤن ہورہا ہے مجھے تو اب یوں لگنے لگا ہے کہ شریک چئیرمین پاکستان پیپلزپارٹی اپنی پارٹی کے لیے گورباچوف بنتے جارہے ہیں اور ان کے دور میں پاکستان پیپلزپارٹی ویسے ہی سکڑنے لگی ہے جیسے گورباچوف کے دور میں سویت یونین سکڑنے لگآ تھا اور سویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے اندر سوراخ در سوراخ ہونے لگے تھے اور اس زمانے ميں پاکستان کے گورباچوف کے حامی کمیونسٹ گورباچوف کو اپنے دور کا لینن قرار دیتے تھے اور پھر جب سویت یونین ٹوٹ گيا اور کمیونسٹ پارٹی آف رشیا سمندر سے ندی بن گئی تو یہاں کے کئی کمیونسٹوں نے این جی اوز کا کاروبار سنبھال لیا اور وہ فری مارکیٹ کے سفیر بن گئے ، ایسے ہی آصف علی زرداری کے اردگرد کچھ ایسے لبرل نے گھیرا ڈال رکھا ہے جو آصف علی زرداری کو سب پر بھاری ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، شیری رحمان ٹائپ نام نہاد لیڈروں نے آصف علی زرداری کو یہ باور کرایا ہے کہ ان سے بڑا زھین سیاست دان آج تک پیپلزپارٹی میں پیدا نہیں ہوا پی پی پی سے باہر یہ عاصمہ جہانگير ، ماروی سرمد ، رضا رومی سمیت ایک بڑا نام نہاد لبرل حلقہ ہے جو آصف علی زرداری کو جمہوریت اور مفاہمت کے نام پر پی پی پی کا گورباچوف بنانے پر لگآ ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری یوم تاسیس ہوکہ کوئی اور موقعہ ان کو نہ تو فیصل آباد کے بیروزگار ہوجانے والے 35 لاکھ فیکڑی مزدور نظر آتے ہیں ، نہ ہی فصلوں کی قیمت نہ ملنے پر قرضوں تلے دبے کسان ، نہ ہی پی ٹی سی ایل کے زبردستی ریٹائر کئے جانے والے ہزاروں ملازمین ، نہ ہی جنوبی پنجاب اور سنٹرل پنجاب میں گیس کی لوڈشیڈنگ سے ٹھنڈے پڑجانے والے چولہے اور نہ ہی بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور نئے ٹیکسز کی مد میں مرے ہوئے عوام سے مزید ٹیکسوں کی وصولی اور نہ ہی پنجاب پولیس کے غریب عوام پر مظالم ، جعلی پولیس مقابلے اور عوام کی سڑکوں پر تذلیل ، اس لیے وہ اپنی پارٹی کو احتجاج کرنے ، شوباز شریف کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے سے روکتے ہیں اور ان ایشوز پر احتجاج کو اسٹبلشمنٹ کا سکرپٹ کہنے پر اصرار کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ آصف علی زرداری عوامی ایشوز پر سیاست سے پاکستان پیپلزپارٹی کو دور کرکے اصل میں بالواسطہ اسٹبلشمنٹ کے لیے جنوبی پنجاب اور سنٹرل پنجاب میں ہمدردیاں پیدا کررہے ہیں اور اس ملک میں سب سے طاقتور ثالث سمجھی جانے والی تھرڈپارٹی کی پشت پر عوام کی حمائت کا ہاتھ رکھنے میں مدد فراہم کررہے ہیں کہ وہ مسلم لیگ نواز کی عوام دشمن پالسیوں کے خلاف سینہ سپر ہونے والی جماعتوں کی جدوجہد کو کامیاب کردے اور اس طرح سے پاکستان کا گھمبیر سیاسی بحران اپنے منطقی انجام کو پہنچے آج پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سیاسی و مذھبی جماعتوں کا اتحاد ہمیں نوے کی دھائی کے اس اتحاد کی یاد بھی دلارہا ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو کا پنجاب میں راستہ روکنے کے لیے وجود میں آیا تھا لیکن اس کے باوجود بے نظیر بھٹو نے عوام کی طاقت سے اس اتحاد کے خلاف اپنی سیاست کا راستہ بنایا تھا ، آج عمران خان شاید اسی طرح کی صورت حال کا شکار ہے اور آصف علی زرداری سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاست کی اس حرکیات کا اپنے احساس برتری اور نرگسیت کے باعث ٹھیک تجزیہ کرنے میں ناکام رہے ہیں ، اگر دھرنا ایپی سوڈ کے دوران ہی انھوں نے بھرپور ایجی ٹیشن نہ سہی کم از کم مسلم لیگ نواز سے اپنے آپ کو الگ کیا ہوتا اور اپنے ہی پلیٹ فارم پر جدوجہد کی ہوتی تو مسلم لیگ نواز سے مایوس عوامی حلقے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف بھی دیکھ رہے ہوتے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرپرسن نے عوامی خواہشات کی بجائے پنجاب کے ان کمپراڈور صحافیوں ، تجزیہ نگاروں ، سول سوسائٹی کے جعلی نمائندوں جیسے عاصمہ جہانگیر ، ماروی سرمد ، حامد میر ، نصرت جاوید جیسوں کی باتوں پر کان دھرے جو میریٹ ہوٹل میں مولوی فضل الرحمان اور ملّا لدھیانوی کے ساتھ نواز شریف کے سامنے کورنش بجالارہے تھے ‎

Friday, December 5, 2014

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند


نیچے تصویر میں شاویز تقی ، عاشور حسین اور میرا بھانجا اسد اللہ
ٹینا ثانی " انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند " گا رہی ہیں اور تن کے گھاؤ بھرنے اور من کے گھاؤ نہ بھرنے کی بات نہ سمجھنے کا تذکرہ کررہی ہیں اور اک درشن سے پیاس بھجنے اور اک اگن میں تن کے جھلسنے اور کسی کو نینن میں رکھنے کی بات کررھیں تھیں جب موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی یہ صائمہ بتول کے فون کی گھنٹی تھی ، صآئمہ بتول نے فون اٹھایا تو اس کی بہن ارم ، بشری ، اقراء ، فرزانہ ، بھائی متین ، شہزاد اور شعبان تھے دوسری طرف فون پر ، بغیر تبریک و مبروک کے عاشور حسین سے بات کرانے کو کہا گيا عاشور حسین عرف عاشو میاں آج پورے تین سال کے ہوگئے ہیں ، اس وقت اپنی خالہ ارم فاطمہ سے فون پر بات کررہے ہیں جسے وہ اپنی توتلی زبان سے ارم آنی کہتا ہے عاشو : یہ ٹیپ ٹاپ (لیپ ٹاپ ) ٹوٹ گیا ارم آنی ارم آنی : عاشو جانی کیسے ٹوٹ گیا عاشو: ایسے ہی ٹوٹ جاتا ہے ، شاوی ( شاویز ) ٹوڑ دیتا ہے پھینک پھینک کے توڑتا ہے ، میں نے نہیں توڑا عاشو بابا آج کیا کیا آپ نے ؟ میں کارٹون دیکھ رہا تھا مما برتن دھولے گئی ہے (مما برتن دھونے گئی ہے ) شاوی شکول گیا ہے ، ٹیچر پاس امی ہمارلے گھر ہے امی کاکے کو کھلارہی ہے چچی چھبا (صبا چچی) تو نہیں گئی ملتان بابا آج میری بڑڈے ہے ، موتر سیکل لینی ہے بابا کی جان آپ کو موٹر سائیکل نو ربیع الاول کے بعد دلائیں گے عاشور ایک صبر وتسلیم والا بچہ ہے یہ سنکر وہ خاموش ہوگیا اور ابھی میں نے اسے استاد علی محمد رضوی المعروف سچے میاں کا پڑھا ہوا مرثیہ سنوایا خاموشی سے سنتا رہا اور پھر اچانک ہاتھ لہرا کر کہا یاعلی میں بہت حیران ہوا ، پیار سے پوچھا یہ تم نے کہاں سے سیکھا بھئی ؟ توتلی زبان میں کہا بابا وہ اس دن وہاں متین ماموں کرنہیں رہے تھے یہ کہہ کر اس نے ہاتھ لہرایااور پھر یاعلی کہا مجھے یاد آیا کہ اس دن سکائپ پر متین سے بات ہوئی تو اس نے ویڈیو موڈ آن کیا وہ ایک مجلس میں تھا اور وہاں کا منظر دکھارہا تھا کہ اسی دوران "نعرہ حیدری " لگا تو اس نے ہاتھ لہرا کر یا علی کہا تھا ، عاشو کے زھن میں یہ منظر نقش رہ گیا اور اس نے آج اس کا مظاہرہ بھی کرکے دکھا دیا عاشور تین سال پہلے 10 محرم الحرام پانچ دسمبر کو پیدا ہوا اور یہ اس کی مسلسل تیسری سالگرہ ہے جب محرم اربعین عشرہ ہوتا ہے اور ہم اس کی سالگرہ نہیں منارہے ، اس کے دو چچا سنّی ہیں اور وہ ربیع الاول کے آغاز ہی میں خوشیاں منانے لگتے ہیں اور ان کے ہاں سوگ اور غم پہلے عشرے کے بعد ختم ہوجاتا ہے لیکن ہمیں دیکھتے ہوئے چپکے سے عاشو کو باہر لیجانے کی کوشش کرتے ہیں اور عاشو ایسا ہے کہ باہر جاکر کوئی بھی چیز لے ضد کرتا ہے کہ بابا ،ماما کے ساتھ کھائے گا اور وہ اسے تبریک و مبروک پیش کرتے رہتے ہیں ، ابا میرے ہیں تو سنّی لیکن ان کے پیر و مرشد سید ولی محمد شاہ کیونکہ چالیس روز تک سوگ میں رہتے تھے تو وہ بھی ان چالیس دنوں میں نہ ہی مبارک باد اور نہ ہی تعزیت وصول کرتے ہیں ،تہذیب اور ثقافت ہم پر خاصی غالب ہوا کرتی ہے اور ہم اس کے اندر ہی رہتے ہیں ،مجھ جیسا کمیونسٹ بھی اس میں رنگا ہوا ہے اگرچہ یہ سب میں کسی مابعدالطبعیاتی اثر کے تحت نہیں کرتا ہوں لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی یہ سب نہیں کرتا تو اسے میں ایسا نہ کرنے پر ملامت کروں تہذیب بہت وسیع دائرے کا نام ہے جس میں صرف یہ سوگ ، تعزیت اور ملال و غم میں لپٹی حسینی روایت سے جنم لینے والے ضابطے اور طور طریقے ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں اسی حسینی روایت بارے اسی ہندوستان میں بسنے والے دوسرے مکاتب فکر کے خیالات بھی ہیں اور ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اس روایت کے کوئی معنی نہیں بنتے لیکن ہندوستان کی تہذیب ان سب سے ملکر تشکیل پائی اور اسی لیے تنوع سے بھرپور ہوگئی اور سب کو باقی رہنے کا حق تسلیم کیا گیا لیکن یہ بات طے ہے کہ کربلا کا المیہ اپنے اثرات کے حوالے سے ہندوستان کی تہذیت و ثقافت کی صورت گری کرنے کے حوالے سے بہت بنیادی عنصر میں شامل ہوگیا اور یہ اب اس تہذیب کی رنگینی اور تنوع میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اور اسے مسلمان کیا ، ہندؤ کیا ، سکھ کیا ، پارسی کیا ، عیسائی کیا ، ملحد کیا سبھی نے اپن اپنے انداز میں اپنی ثقافتی روائیت میں جذب کیا ہے اور اگر اسے علاقائی اور لسانی منطقوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں بولی جانے والی ہر زبان نے اس المیہ کو اپنےماحول کے مطابق ڈھالا ہے اور یہ کسی بھی اعتبار سے ایک تنگ فرقہ وارانہ ، مسلکانہ یہاں تک کہ یک نوعی مذھبی تعبیر سے بہت آگے نکل گیا ہے اور حسین نہ تو اب بنوہاشم کی ملکیت ہیں ، نہ حسین حجازیوں کے ہیں ، ایرانیوں اور عراقیوں کے بھی نہیں اور نہ ہی یہ محض شیعہ کے ہیں نہ سنّیوں کے ، نہ مسلمانوں کے بلکہ ساری انسانیت کا یہ مشترکہ ورثہ ہے اور اس متھ کی سب کے اپنے ہاں اپنی اپنی تعبیر ہے اور اپنے اپنے معنی ہیں اور اگر ان سب معنوں اور تعبیرات کا کوئی جوہر ہے تو وہ ہے " حرف انکار ، مزاحمت ، جدوجہد ، غم کو طاقت بنانا ، ہر ظلم کے آگے سرجھکانے سے انکار اور سر قربان کرنے سے دریغ نہ کرنا ، بغاوت اور مظلوم و مجبور کے ساتھ کھڑے ہونا " اس جوہر سے حسینی روایت کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ ہر مظلوم فرقہ ، گروہ ، نسلی گروپ اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے عاشور جب سے پیدا ہوا ہے تو کئی بار اپنے آپ کو چوٹ لگوابیٹھتا ہے اور چوٹ بھی ایسی کہ خون بھل بھل کرکے نکلتا ہے اور ایسے میں یہ خون دیکھ کر گبھراتا نہیں ہے ، تکلیف پر روتا ہے مگر جیسے ہی میں یا اس کی ماں اسے اپنے سینے سے لگآتے ہیں تو ایسے چپ ہوجاتا ہے جیسے کچھ نہ ہوا ہو ، اس کی ماں اور دادی ، دادا کہتے ہیں کہ یہ جس دن پیدا ہوا اس دن کی وجہ سے اور اس کے نام کی وجہ سے اس کو مصائب کا سامنا ہے اور یہ اللہ کے بندوں کی آزمائش ہوا کرتی ہے قافہ حسین میں شمولیت کو‏ئی آسان کام تو نہيں ہے میں نام اور کسی خاص لمحے میں پیدائش کے اثرات پر تو یقین نہیں کرتا لیکن اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ قافلہ حسین میں شمولیت آسان تو نہیں ہے ، ابھی جب میں یہ سوچ رہا تھا تو بے اختیار مجھے میثم یاد آئے کہ کیسے حضرت علی کے اس عاشق کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے لیکن اس نے جناب علی کی مدح اور ان کی تعریف کرنا بند نہ کی اور جب یہ مدحت اپنے عروج پر پہنچی تو ان کی زبان کاٹ دی گئی اور پھر سولی پرچڑھا دیا گیا ، خانوادہ اہل بیت اطہار کا محب ہونا مصلوب ہونے کے مترادف ہے تو اس خانوداہ کا رکن ہونا کس قدر مشکل کام ہے یہ بات کرتے ہی مجھے عباس علم دار یاد آگئے اور فرات کا وہ کنارہ بھی جہاں جب ان کے ہاتھ کٹ گئے تو مشکیزہ دانتوں سے پکڑ لیا اور تیروں سے جب مشکیزہ پھٹ گیا تو بھی کوشش جاری رکھی اور پھر سر کاٹ دیا گيا اور سب سے زیادہ تیر عباس علم دار کے بے سر لاشے پر تھے اور خود اس قافلے کا سردار حسین بھی تھا جس کے جسم پر تلواروں اور تیروں سے پڑنے والے زخموں کے نشان گنے نہیں جاتے تھے اور یہ سب جسمانی تکالیف اور ازیتیں اپنی جگہ میں جب کبھی ان قافلہ سالاروں کی فکری بے گانگی اور اس زھنی تنہائی کے بارے میں سوچتا ہوں جو ان کے ساتھ ساتھ رہی اور یہ ایک خاص طرح کی وجودی بے گآنگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے تو مجھے حرف انکار کی قیمت اصل کا پتہ چلتا ہے جو اسے بلند کرنے والے کو ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ قافلہ صرف مردوں پر ہی نہیں بلکہ عورتوں پر بھی مشتمل تھا اور کس زمانے میں جب " عورت" ایک شئے مملوک سے زیادہ نہیں تھی ویسے تو اب بھی کیا ہے میں چھوٹا سا تھا تو دادی اور نانی اکثر مجھے دعا دیتی ہوئی کہتیں مولا تجھے غم حسین کے سوا کوئی غم نہ دے بہت عرصہ بعد جب میری عقل پختہ ہوئی اور شعور کی کرنیں خوب خوب میرے دماغ کو جگمگانے لگیں تو مجھے پتہ چلا کہ غم حسین کا مطلب ظاہری آہ و ظاہری نہیں تھا بلکہ یہ تو حریت فکر اور آزادی کے ساتھ جڑا وہ مستقل ملال تھا جو جسے لگ جائے وہ پھر غلامی ، ظلم ، ستم اور استحصال پر راضی نہیں رہتا اور ایسا غم و ملال واقعی ایسی چیز ہے جو ہر ایک کی زات کا جزو ہونا چاہئیے اب میری شریک حیات اور والدہ ، میرے بچوں کی نانی بچوں کو یہی دعا دیتی ہیں تو میں بے اختیار مسکرانے لگتا ہوں اور اس وقت کا انتظار کرتا ہوں جب یہ بچے شعور کی منزل کو پہنچیں گے اور عقل ان کی بالغ ہوگی تو میں غم حسین کی یہ تفہیم ان تک پہنچاپاؤں گا ،ویسے اب ہمارے گھر میں شاويز تقی ، عاشور حسین (میرے بیٹے ) ، مغیث حیدر ، عبداللہ حسین ( میرے بھتیجے ) ، اسد اللہ ، علی حیدر ، میمونہ زھرا ، طوبی اور علی عبداللہ ( میرے بھانجے بھانجیاں ) کے ساتھ ایک گلشن آباد ہے اور جس سے خوشبوئے اہل بیت پھوٹتی ہے اور سب کے ناموں اور سب کی قلقاریوں ، باتوں سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے اور مجھے امید ہے اس گلشن کی یہ کلیاں کل جب پورا کھلا ہوا پھول بنیں گی تو یہ گلشن حسینی روایت کو مزید رونق بخشیں گی اور اب یہ ان پر منحصر ہے کہ حسینی روایت کی طرف وہ میرے راستے سے آتے ہیں یا کسی اور راستے سے ، میرا راستہ تو ایسا ہے جس میں تھیالوجی کی قلب ماہیت لازم ہے اور اس راستے سے آنے والے بہت قلیل ہیں کیونکہ یہ فرعون ، قارون ، نمرود ، یزید ، بلم باعور کو لباس موسی ، براہیم و حسین میں بھی شناخت کرلیتا ہے اور مذھبی پیشوائیت کو گلیم بوز و دلق اویس و چادر زھرا چرا کر بیچ کھانے نہیں دیتا اس مرتبہ جب لاہور گیا تو کامریڈ زوار حسین سے سب سے آخر ميں طویل ملاقات کی تھی ، دن کے 11 بجے ان کے ہاں پہنچا تھا اور رات 10 بجے لاہور پریس کلب سے ان سے رحضت لی ، اس دوران باتوں ہی باتوں میں انھوں نے مجھے کہا کہ " کامریڈ یہاں لاہور میں لیفٹ کے حلقوں میں کئی ایک لوگ آپ کے بارے میں یہ تاثر پھیلارہے ہیں اور وہ تاثر پختہ ہوتا جاتا ہے کہ " کامریڈ عامر حسینی اب کمیونسٹ نہیں رہے شیعہ ہوگئے ہیں " میں جانتا ہوں کہ کامریڈ زوار حسین مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور انھوں نے یہ بات بہت خلوص سے کی ویسے بھی وہ ان بہت سے دوستوں میں سے ایک ہیں جو چاہتے ہیں کہ میں اس پرفتن دور میں " لو پروفائل " ہوجاؤں ارے یہ کیا یہ " انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند " مجھے اپنا حال کیوں لکنے لگا ہے ویسے کوئی بھی لاڈلہ اس وقت " انوکھا لاڈلہ " بن جاتا ہے جب وہ " اس سچ " پر اصرار کرے جو ایک طرح سے سبب کو چاند کی طرح ناقبال حصول لگنے لگتا ہے اور جس پہ نہ بیتی وہ کب جانے ، جگ والے آئے سمجھانے ، پاگل من کوئی بات نہ مانے ، کیسی انوکھی بات رے ، انوکھا لاڈلہ ، کھیلن کو مانگے چاند اصل میں یہ " انوکھا پن " اور " انوکھی بات " اور لاڈلے کا انوکھا بن جانا "جگ والوں " کے ہآں ہے اور یہ بنتا ہی تب ہے جب " سچ " چاند جتنی مسافت کی دوری پر چلاجاتا ہے اور وہآں تک پہنچنے کو سب کار محال خیال کرنے لگتے ہيں لیکن آپ نے اوپر میری معروضات سے اندازہ لگالیا ہوگا کہ " حسینی روایت " کا وقت تو شروع ہی پرفتن دور میں ہوتا ہے اور اس روایت کی تازگی کا ثبوت تو ملتا ہی فتنے ، فساد اور قیامت جیسے حالات میں اور اس کی ضرورت ہی اس وقت پیش آتی ہے جب " سچائی " پر مصلحتیں چھاجاتی ہیں اور ان مصلحتوں کو ہی جینے کا اسلوب ، دانش مندی اور عقل کا تقاضا کہا جارہا ہوتا ہے اور سب باطل سے تعاون یا اس کے سامنے خاموشی کی تلقین کرتے نظر آتے ہيں اور ایسے میں ایک حسینی روایت ہے جو آپ کی مدد کو آتی ہے جو اپن چراغ کو تہہ خاک دبانے سے انکار کرتی ہے اور مجھے لوگوں کی اس رائے سے اب اطمینان ہوچلا کہ کہ میں ٹھیک راستے پر ہوں میں یہ سب سورما ، ھیرو بننے کے لیے نہیں کررہا اور نہ ہی کسی آخرت کی لالچ ميں اور نہ ہی کسی کے آگے جوابدہی کے خوف میں اور نہ ہی کسی مابعدالطبعیاتی جذبے یا عقیدے کے تھے ، یہ تو میرے اندر کی گواہی ہے جو معروض کا عکس ہے اور جس کے آگے میں خود کو جوابدہ سمجھتا ہوں اور جس کی خاطر میں یہ سب کچھ کررہا ہوں اور مجھے نہ تو ان باغات کی لالچ ہے جن میں نہریں بہتی ہیں ، میوے ہیں ، غلمان و حور ہیں ، اور جہآں سب کے سب جوان ہوں گے اور شراب طہور سے مستفید ہوں گے ، میں تو دار ورسن کے لالوں کے پڑنے کا یہیں اس زمین پر قائل ہوں اور فیض کے ہم آواز ہوکر کہتا ہوں کہ جو بھی جزا اور سزا ہے یہيں ہوگی اور کوئی کسی کو بچانہيں سکے گا میں اس وضاحت کو کافی خیال نہیں کررہا تھا اور میرے پاس الفاظ بھی نہیں تھے کہ اتنے میں فیس بک پر طلعت زھرا کا ایک نوٹ سامنے آگیا جو انھوں نے عزم بہزاد کی یاد میں لکھا تھا اور اس میں عزم بہزاد کی غزل تھی جس نے میری مشکل آسان کردی ، ان کے شکریہ کے ساتھ عزم بہزاد کی غزل کو آج کے حالات کی عکاسی کے طور پر درج کررہا ہوں بولتے ہیں یوں کہ شاید خود کو سُننا چاہتے ہیں اپنے سر ہم اپنی ہی باتوں پہ دُھننا چاہتے ہیں پہلے اپنی خواہشوں کو ہم نے ہر جانب بکھیرا اب انھیں حسرت زدہ پلکوں سے چُننا چاہتے ہیں اپنی چُپ کا اک سبب یہ ہے کہ فرہنگ_بیاں میں لفظ وہ ناپید ہیں جو لوگ سُننا چاہتے ہیں سب کو احساس_تجفظ نے ہراساں کردیا ہے سب ہی اپنے سامنے دیوار چُننا چاہتے ہیں عزم کُھلتا ہی نہیں اس رائیگانی کی فضامیں ہم یہاں کس زندگی کے خواب بُننا چاہتے ہیں واقی عزم بہزاد نے ٹھیک کہا کہ لفظ وہ ناپید ہیں جو لوگ سُننا چاہتے ہیں شاویز تقی اور عاشور ! تمہارا اس دنیا میں آنا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے مگر تمہارا یہاں سے جانا ضرور انوکھا ہوسکتا ہے اور یہ انوکھا پن روایت حسینی سے جڑجانے اور وقت کے ہر فرعون و قارون و بلم باعور ویزید و نمرود کی دعوت کے سامنے حرف انکار بلند کرنے اور اس راہ میں اگر مصلوب ہونا پڑے تو مصلوب ہونے سے ہی پیدا ہوسکتا ہے اور میری بھی خواہش ہے کہ تمہیں غم حسین اور ملال کے جوہر سے آراستہ کربلاکے سوا کوئی اور غم اور ملال نہ ملے عام سے کھلونوں سے بہل جانے والے شاویز اور عاشور جب شعور کی منزل کو پہنچیں گے تو کیا میرے یہ لاڈلے میری طرح " سچائی کے چاند " سے کھیلن کی ضد کریں گے ؟ آگر یہ ضد کریں گے اور میں زندہ ہوا تو ضرور ان کے ساتھ میں بھی اسی چاند کے ساتھ کھیلنے کی ضد کروں گا چاہے کوئی ہمیں کتنا ہی انوکھا کہے اور ہمیں پاگل کہے ، جھلا کہے ، آج عاشور تین سال کا ہوگیا ہے

Thursday, December 4, 2014

قیام بنگلہ دیش اور تاریخ کے جھوٹے درشن


کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سماجی علوم نے حال ہی میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ڈھاکہ یونورسٹی کے سنٹر فار ڈیٹا اباؤٹ جینوسائیڈ ان 1971ء سے وابستہ پروفیسر امتیاز احمد کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن آخری لمحات میں ان کو کانفرنس میں شرکت سے اس لیے روک دیا گیا کہ جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء نے وی سی یونورسٹی پر دباؤ ڈالا کہ مذکورہ پروفیسر کو کانفرنس میں اپنا مقالہ نہ پڑھنے دیا جائے اور یونورسٹی انتظامیہ اس تنظیم کے آگے سرنڈر کرگئی ، جبکہ شعبہ سماجی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر پر بھی اس دباؤ کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر امتیاز احمد واقعی ایک متنازعہ پروفیسر ہیں اور ان کے بلاگ پر بنگالیوں کی تحریک آزادی کے بارے میں ایسا مواد موجود ہے جوپاکستان کے قومی مفادات کے خلاف ہے اس ایک واقعہ سے ہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان کی جامعات کے اندر کس قدر آزادی پر قدغن ہے ، ڈاکٹر عبدالکریم سروش جوکہ ایرانی سکالر ہیں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کسی بھی سماج میں آزادی کا بیرومیٹر اس کی جامعات ہوا کرتی ہیں اور یہاں سماجی علوم کے شعبے میں خالص علمی و تاریخی بنیادوں کی کھوج کرنے والی ایک کانفرنس میں ایک بنگالی پروفیسر کو اپنا مقالہ پیش کرنے کی اجازت اس لئے نہیں ملی کہ وہ " بنگالی تحریک اور اس دوران ہونے والے واقعات " پر پاکستان کے مذھبی قدامت پرستوں اور دائیں بازوں کے بیانیہ سے اتفاق نہیں کرتا یہ صورت حال صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ ان دنوں بنگلہ دیش میں ہم بائیں جانب سے نمودار ہونے والے فاشزم کا مشاہدہ کررہے ہیں اور حال ہی میں وہاں ایک برطانوی نژاد صحافی کو بنگالی قوم پرستوں کی جانب سے پاکستانی فوج اور اس کے حامی مسلح گروپوں کی طرف سے 15 لاکھ بنگالیوں کو قتل کرنے کے دعوے کو مبنی برحقیقت نہ قرار دینے کی وجہ سے سزا سنائی گئی ہے اور سرمیلا بوس نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بنگالی قوم پرستوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی پر پاکستانی فوجی آپریشن سے مارے جانے والوں کی ٹھیک تعداد بارے کوئی سائنسی اور منظم سروے نہیں کیا اور اس طرح سے حقیقت اور افسانہ گڈمڈ ہوگئے لیکن دونوں یہ ضرور کہتے ہیں مارے جانے والوں کی تعداد اگر لاکھوں میں نہیں تھی تو ہزاروں میں ضرور تھی اور یہ تعداد بھی جرم کی سنگینی کو کم نہیں کرتی ہے جماعت اسلامی اس زمانے میں بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن کی حامی ہی نہیں تھی بلکہ اس نے اس جنگ میں پاکستانی فوج کی پراکسی کے طور پر اسلامی جمعیت طلباء سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو البدر و الشمس بناکر بنگالیوں کے خلاف جھونک دیا اور اس طرح سے بنگالی نسل کشی میں حصّہ بھی ڈالا ہمارے ہاں ابتک یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ پاکستان کی فوج نے مشرقی بنگال کے اندر جو فوجی آپریشن کیا کیا وہ واقعی بنگالیوں کے حق میں تھا ؟ کیونکہ یہ آپریشن بہت واضح طور پر بنگالیوں کے خلاف تھا ، ان کو حق حکمرانی سے روکنے کے لیے تھا ، ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی علامت تھا اور اقتدار کی منتقلی میں روکاوٹ ڈالنے کے مترادف تھا اور مغربی پاکستان کی بالعموم اور پنجاب کی بالخصوص بالادست حکمرانی کو برقرار رکھنے کی کوشش تھا اور جماعت اسلامی نے اس فوجی آپریشن میں عملی طور پر اس لیے شرکت کی کہ وہ ایک طرف تو بنگالیوں کی قومی شناخت ، ان کی زبان ، ان کے مخصوص کلچر اور ان کے قومیتی بنیادوں پر حقوق کی انکاری تھی اور وہ ان مذکورہ بالا بنیادوں پر سیاست کو ارتداد کے مترادف خیال کرتی تھی ، دوسرا اس نے فوجی اسٹبلشمنٹ سے اپنی قربت کو اور زیادہ مضبوط بنانے کا بہترین موقعہ خیال کیا ،جماعت اسلامی کو 70ءکے الیکشن میں بدترین شکست ہوئی اور اس کے امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں تھیں ، جماعت اسلامی اپنی شکست کا بدلہ ان بنگالی دانشوروں ، ادیبوں ، شاعروں ، سیاسی کارکنوں ، طالب علم رہنماؤں سے لینے کے لیے بے تاب تھی جنھوں نے عوامی لیگ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا جماعت اسلامی نے تو مغربی پاکستان میں مذھبی اشتعال دلاکر پی پی پی اور نیپ کے لوگوں کا قتل عام کرانے کا منصوبہ بنالیا تھا جب جماعت اسلامی لاہور کے دفتر پر آگ لگائی گئی اور قرآن پاک جلانے کا الزام پیپلزپارٹی کے سرمنڈھ دیا گیا تھا اور شوکت اسلام نامی جلوس نکالا گیا تھا ، سید مودودی نے پاکستان میں سوشلزم کی بات کرنے والی زبانوں کو گدی سے کھینچ لینے کی دھمکی دی تھی اور اس سے پہلے پی پی پی کے خلاف 113 مولویوں کے فتوی کفر کی اشاعت بھی جماعت اسلامی کے پریس سے ہوئی تھی ، اس مختصر کی تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی کس قدر خار کھائے بیٹھی تھی اپنے منشور سے اتفاق نہ کرنے والوں سے اور ان کو مرتد ، کافر ، واجب القتل قرار دیکر صفحہ ہستی سے مٹانے کو تیار تھی جب پاکستان ملٹری نے مشرقی بنگال میں فوجی آپریشن شروع کیا پاکستان کی فوجی جنتا ، اردو و پنجابی بولنے والی حکمران کلاس اور بے وردی نوکر شاہی میں اردو و پنجابی بولنے والی افسر شاہی نے مسلم قومیت کے نام پر جب بنگالیوں کو محکوم اور ان کے علاقے کو اپنی کالونی خیال کیا اور ان کے حقوق اور شناخت تک کو تسلیم کرنے سے انکار کرڈالا تو ایک طرح سے اس معاہدہ عمرانی کو توڑ ڈالا جس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس معاہدہ شکنی کو مذھبی تقدیس کا لبادہ پہنانے میں سب سے زیادہ کردار جماعت اسلامی کے جعلی دانشوروں اور خود سید مودودی نے کیا بنگلہ دیش میں مارچ کے آخری ہفتے میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں شریک ایک پاکستانی فوجی نے بتایا کہ ان کو لنگی سے ختنے چیک کرنے کے بعد جس کی ختنے نہ ہوں اسے موقعہ پر ہی ماردینے جبکہ دوسری صورت میں گرفتار کرنے کا حکم تھا اور یہ شاید اس لیے کہ مسلم بنگالیوں میں سے عوامی لیگ کے حامیوں اور غیر حامیوں کی تمیز مقصود تھی لیکن وہآں تو صورت یہ تھی کہ ہزاروں مسلم بنگالی بغیر ختنوں کے تھے اور ہر دوسرا بنگالی قوم پرست تھا سو کیا ہندؤ ، کیا مسلم سب بنگالی اس آپریشن کا نشانہ بن گئے “…… we were told to kill the Hindus and Kafirs. One day in June, we cordoned a village and were ordered to kill the Kafirs in that area. We found all the village women reciting from the Holy Quran, and the men holding special congregational prayers seeking God’s mercy. But they were unlucky. Our commanding officer ordered us not to waste any time.” "In what became province-wide acts of genocide, Hindus were sought out and killed on the spot. As a matter of course, soldiers would check males for the obligated circumcision among Moslems. If circumcised, they might live; if not, sure death." http://dharmaveer.blogspot.com/2009/01/bangladesh-1971-forgotten-genocide.html آج بھی پاکستان کی ریاست کی سب سے طاقتور اسٹبلشمنٹ یعنی فوجی اسٹبلشمنٹ اور پاکستان کی تاریخ کے بیانیہ کو کنٹرول کرنے والی ملائیت مشرقی بنگال کی آزادی اور بنگلہ دیش کے قیام کی معروضی بنیادوں پر تحقیق کو اس لیے مشکل بنانے پر تلی بیٹھی ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی حقیقت بے نقاب ہوجائے گی پاکستان کے درباری و سرکاری مورخ ہوں کہ ملائیت جس میں جماعت اسلامی کے جدید ملّا سب سے آگے ہیں " بنگالی قومی تحریک " کو ایک اصلی اور حقیقی قومی تحریک کی بجائے ایک سازش کے طور پر دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے کہ بنگالیوں کے ہاں " قومی زبان کی تحریک " مالیاتی ایشوز ، استحصال اور احساس محرومی ، نوکریوں کا تناست اور ترقی وغیرہ کے سب ایشوز جعلی تھے اور بنگالی ہندؤں اور بھارت نے پیدا کئے تھے اور ان کی اپنی کوئی حقیقی سماجی ، مادی بنیاد نہیں تھی ، جیسے آج کل بلوچستان ، سندھ ، خیبرپختون خوا اور سرائیکستان میں قومیتی تضاد ، قومی تحریک کی حقیقی سماجی بنیادوں کو ماننے سے انکار ایک معمول بن گیا ہے آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلم قومیت کا مقدمہ خالص سیاسی بنیادوں پر برٹش اور کانگریس سے جیتا تھا اور یہ بنیادیں سیاسی ہی تھیں اسی وجہ سے جناح سے اس وقت کی ساری کانگریسی ملائیت اور جماعت اسلامی اختلاف کررہی تھی بلکہ وہ تو قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر اعظم قرار دینے تک چلی گئی تھی اور قومیت کو ایک خلاف اسلام تصور کے طور پر پیش کرکے سید مودودی نے اسے طاغوت تک قرار دیا تھا اور اس وقت ایک مضمون میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مقتدی سے لیکر بڑے امام تک کی ذھنیت کو غیر اسلامی قرار دے دیا تھا اور مسلم قومیت کے اس تصور میں بنگالی ، سندھی ، پنجابی ، پشتون ، سب کو اپنی حقیقی آزادی نظر آرہی تھی کم از کم مسلم لیگ کے حامی سندھی ، اردو ، پنجابی ، راجھستانی ، سرائیکی ، بلوچی ، کشمیری بنگالی ، بہاری بولنے والوں کو ایسا ہی لگ رہا تھا اور ان کو یہ گمان تک نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں اسی مسلم قومیت کے نام پر ان کے بنیادی حقوق کو سلب کرلیا جائے گا اور ان کی لسانی ، قومیتی ، ثقافتی شناخت کو اسلام کے ہی منافی قرار دے دیا جائے گا مسلم قومیت کا یہ سلبی تصور اور حقوق کی نفی کرنے والا نام نہاد ٹرانس نیشنل تصور جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، ملّاؤں ، فوجی جرنیلوں ، بے وردی نوکر شاہی کے گٹھ جوڑ سے سامنے آیا اور جماعت اسلامی اس تصور کے عین اسلام ہونے پر مہر لگانے والی سب سے آگے کی جماعت تھی اور یہ سب کام بقول صفدر میر جناح و اقبال کے نام پر کیا گیا ، گویا جناح کی جدوجہد اور خیالات کی نفی خود جناح کے نام پر کی جانے لگی اور پوری تاریخ کو مسخ کردیا گیا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے ، خاص طور پر پنجابی اور اردو بولنے والی نئی نسل ابھی تک تاریخ کے جھوٹے درشن کررہی ہے اور انھی کے زیر اثر ہے جتنی گمراہ کن تاریخ کا تصور پنجابی اور اردو بولنے والی آبادی کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں ہے اتنا گمراہ کن تصور بلوچ ، سندھی ، پشتون آبادی کے نوجوانوں میں نہیں پایا جاتا اور سرائیکی نوجوانوں کے ہاں کم از کم پاکستان کی حکمران کلاس بارے اور ریاست کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کےبارے ابھی بہت سی خوش فہمیاں برقرار ہیں جو بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائيں گی پاکستان ایک وفاق کے طور پر مسلم قومیت کے سلبی تصور کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتا اور اور اس کی سلامتی بارے پیدا ہونے والے خطرات کا تدارک نہیں ہوسکتا

Wednesday, December 3, 2014

جیالے کھڑے بس کو تلاش کرتے ہیں


تیس نومبر 2014ء کو بلاول ہاؤس لاہور میں سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب سے پی پی پی کے تمام اضلاع سے پارٹی اور اس کے ذیلی ونگز کی نمائندگی موجود تھی اور اس موقعہ پر پارٹی کے اندر دھڑے بندی واضح نظر آئی ، پی پی پی سنٹرل پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو ، پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمر الزماں کائرہ اور بلاول بھٹو زرداری کے میڈیا کوارڈینٹر جہانگیر بدر کے درمیان دھڑے بندی بہت واضح نظر آئی ،یہ دھڑے بندی نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ لاہور میں پی پی پی کے کنٹرول کا لیور کس کے ہاتھ میں ہو پر ہے پی پی پی کے ورکر کنونشن میں دھڑے بندی سے ہٹ کر جو عام کارکن تھے ان میں زیادہ تر پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کی نواز شریف سے مفاہمت اور پنجاب و وفاق میں مسلم لیگ نواز کو مشکل ٹائم نہ دینے کی پالیسی پر نالاں نظر آرہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سٹیج کے قریب پہنچے تو کنونشن میں بیٹھے جیالوں کے ایک گروپ نے نعرے لگائے گو نواز گو ، نواز کا جو یار ہے - غدار ہے غدار ، اس پار ہے ، اس پار ہے -غدار ہے غدار ہے ان نعروں کے بلند ہونے کے بعد پھر گو نواز گو کا نعرہ نہیں رکا اور کسی بھی مقرر کی تقریر کے دوران اس نعرے نے کنونشن کی فضا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا پیپلزپارٹی کے شریک چئیرپرسن آصف علی زرداری جب سٹیج پر آئے تو ایک مرتبہ پھر زور و شور سے گو نواز گو کے نعرے لگنے شروع ہوئے ، گرتی ہوئی دیواروں کو ایک جھٹکا اور دو کا نعرہ بھی لگآ ، آصف علی زرداری یہ نعرے سنکر مسکراتے رہے آصف زرداری جیسے ہی تقریر کرنے کے لیے ڈائس کی طرف آئے تو کارکنوں نے ایک کورس میں "بلاول ، بلاول ، بلاول " کے نعرے لگانا شروع کردئے اور ان کے آنے سے پہلے ایک ورکر نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول بھٹو کہاں ہے ؟ زرداری صاحب آج پارٹی کا یوم تاسیس ہے اور پارٹی کا چئیرمین غائب ہے ، بلاول کی آمد کو شیر آیا شیر آیا والا قصّہ بنادا گیا ہے ، شیر اصل میں آئے گا تو بھی کوئی یقین نہیں کرے گا ، اس کی تنقید سے جہانگیر بدر کی پیشانی پر پسینہ دکھائی دینے لگا اور جرات تنقید کرنے والے غریب جیالے سے مائيک چھین لیا گیا آصف علی زرداری ایک مرتبہ پھر کارکنوں کی جانب سے ںواز لیگ سے مفاہمتی پالیسی کی مخالفت سے زرا بھی متاثر دکھائی نہ دئے اور انھوں نے دھرنا ایپی سوڈ کے دوران بلاول ہاؤس میں پی پی پی سنٹرل پنجاب کی ڈویژن لیول کی تنظیموں سے ملاقات کے دوران جس طرح سے نواز لیگ کے ساتھ محاز آرائی کے خکال کو مسترد کیا ، اس مرتبہ بھی کیا اور قابل غور بات یہ ہے کہ پی پی پی کے جن مرکزی اور صوبائی عہدے داروں نے اس کنونشن میں تقاریر کیں وہ سب کی سب مفاہمت کی مخالفت پر مبنی تھی اور نواز شریف پر سخت تنقید کا عکس تھیں لیکن شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں تنقید بلکہ تنقیص کا زیادہ زور حکومت پر کرنے کی بجائے اپنی طرح کی اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان پر رکھا اور انھوں نے پی ٹی آئی کی سیاست کو کھلے لفظوں میں اسٹبلشمنٹ کا لکھا سکرپٹ پر مبنی قرار دیا آصف علی زرداری کی تقریر کا لب لباب اگر نکالا جائے تو انھوں نے پی پی پی کے کارکنوں کی اجتماعی بصیرت اور ان کی اکثریت کی خواہش کا احترام کرنے سے انکار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ سب ان کی پیروی کریں آصف علی زرداری نے اپنی تقریر کے دوران دو دعوے ایسے کئے ہیں جو اگر بیک فائر کرگئے تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا ، ایک تو انھوں نے پارٹی کے اندر دھڑے بندی کے سرغنوں کو کہا کہ پی پی پی کے کارکن ان کے ساتھ ہیں اور کسی اور کے ساتھ نہیں ہیں ، دوسرا انھوں نے کہا کہ پارٹی کارکنوں کی قربانیوں سے کہیں زیادہ قربانیاں ان کی ہیں جبکہ میرا ہی نہیں بلکہ خود پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر انتہائی تجربہ کار رہنماؤں کا خیال ہے کہ پی پی پی اگر اپنے آپ کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاکر رکھنا چاہتی ہے تو اسے " اجتماعی قیادت " کے تصور کو ابھارنا ہوگا کیونکہ پی پی پی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو شہید کے بعد اس پارٹی میں ایسی کوئی کرشماتی شخصیت نہیں ہے جس کی جانب سے اپنی بصیرت ، تجربے اور دانش کے ناقابل چیلنج ہونے کے دعوے کو بلاچون وچراں مان لیا جائے ، اجتماعی قیادت کی بات چودھری اعتزاز احسن نے بھی کی تھی ، جسے ابتک درخور اعتناء نہیں سمجھا گيا ملتان سے راؤ ساجد نے آصف علی زرداری کے سامنے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسی تلخ حقیقت کا آظہار کیا جو جس پر بھی آشکار ہوتی ہے تو وہ لرزنے لگتا ہے راؤ ساجد نے آصف علی زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب جب اس کے جیسے کارکنوں کی داڑھی کے بال بھی سفید ہونے گے ہیں تو کم از کم لیڈر شپ اسے دیں جس کو ہر ملاقات پر یہ نہبتانا پڑے کہ انجیسے کارکن کون ہیں راؤ ساجد کی بات سنکر مجھے یاد آگیا کہ پی پی پی ضلع خانیوال کے صدر ممبر پنجاب بار کونسل جاوید اقبال قریشی ہاشمی ایڈوکیٹ کے گھر جو پی پی پی کا ضلعی دفتر بھی ہے میں اس وقت کے پنجاب کے صدر قاسم ضیاء تشریف لائے تو کارکنوں سے انھوں نے اظہار خیال کرنے کو کہا ، سب سے پہلے اس وقت پی پی پی اسٹڈی سرکل ونگ کے صدر اعظم خان جو ضیاء الحق کے دور آمریت میں پی ایس ایف کے صوبائی رہنماء ، پی پی پی سٹی خانیوال کے جنرل سیکرٹری رہے تھے اور سب سے بڑھکر وہ " قزاق کون " نامی مشہور زمانہ پمفلٹ کے خالق بھی تھے جس پر پمفلٹ سازش کیس بنا تھا اور پورے ملک سے سینکڑوں کارکن گرفتار کئے گئے تھے ، کھڑے ہوئے اور بولنا شروع کیا تو اچانک قاسم ضیاء اور بیگم ناہید خان نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں ، اپنا تعارف کرائیں یہ سننا تھا کہ میں نے اعظم خان کے جسم میں کپکپاہٹ دیکھی ، لزرتی انگلیوں کے ساتھ وہ بجائے اپنے بارے میں کچھ بتانے کے خاموشی سے بیٹھ گئے ، یا عبدالقادر شاہین تھے جنھوں نے قاسم ضیاء کو اعظم خان کے بارے میں بتایا میں نے حال ہی میں خورشید خان کی وفات پر پی پی پی کے لوگوں کی بے حسی کے بارے میں جو کالم لکھا اسے پڑھنے کے بعد پیر ناظم حسین شاہ کا فون آیا اور وہ کہنے لگے کہ وہ علیل ہیں اور ان کو ایسے لگتا ہے جیسے پارٹی ان کو بھول گئی ہے ، کیا ان کی اتنی طویل جدوجہد کا صلہ یہ ہے کہ ان کو فراموش کردیا جائے آصف علی زرداری نے اپنی اس تقریر میں کارکنوں کو ایک فقرے میں بھی یہ یقین دھانی نہیں کروائی کہ پارٹی میں ان کی عزت اور مقام کو بحال کیا جآئے گا ، کارکنوں کی عزت اور وقار تو تب بحال ہوگا جب ایسی قیادت سامنے لائی جائے گی جو ان کی پہچان رکھتی ہوگی ، خود آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو بھی اپنے حافظے اور یادداشت کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو غریب ورکرز کی پہچان ہوسکے آصف علی زرداری اور سندھ پیپلزپارٹی کے حکومتی عہدوں پر فائز لوگ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کی اپوزیشن کرنے کی بجائے ان سے مفاہمت کی پینگیں بڑھارہے ہیں اور وہ آزادانہ طور پر اپنی اپوزیشن بھی کرتے دکھائی نہیں دیتے ، لوگوں کے زھنوں میں یہ سوال بجا طور پر پیدا ہورہا ہے کہ اگر ان کو پاکستان تحریک انصاف کی ایجی ٹیشن کے پس پردہ اسٹبلشمنٹ نظر آتی ہے تو وہ اپنے پلیٹ فارم سے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جمہوری اپوزیشن کرتے نظر کیوں نہیں آرہے ؟ آصف علی زرداری جب اپنی پارٹی کا 48 واں یوم تاسیس منارہے تھے تو اسی وقت تھر میں بھوک سے فوت ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافے کی خبریں موصول ہورہی تھیں ، ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے سندھ کے اندر ملنا شروع ہوگئی تھیں اور تین دسمبر کو کراچی میں پیرامیڈیکل سٹاف ایسوسی ایشن نے کراچی کے ہسپتالوں کو این جی اوز کے حوالے کئے جانے کے خلاف احتجاج شروع کررکھا تھا جبکہ پی ٹی سی ایل کے ورکرز رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کے نام پر زبردستی فارغ کئے جانے کی کوششوں پر پریشان حال تھے مگر پی پی پی کے کسی رہنماء کا کوئی ردعمل اس حوالے سے سامنے نہیں آیا ، یہ سب عوام کے مسائل ہیں ، روزنامہ خبریں ملتان کی خبر کے مطابق حکومت اگلے دو ماہ میں اضافی ٹیکس کے ساتھ بجلی کے بلوں پر عام صارفین سے ڈیڑھ ارب روپے زائد وصول کرنے والی ہے جبکہ سرائیکی خطے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بعد گیس کی ظویل بندش کا عذاب بھی یہاں کے لوگوں کو سہنا پڑرہا ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی جو کہ پارلیمانی جمہوری اپوزیشن کی بات کرتی ہے ان ایشوز پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکی ہے پاکستان میں اس وقت جو سیاست کی حرکیات ہے اس میں سب سے نمایاں کردار نئی ابھرنے والی پروفیشنل مڈل کلاس کا ہے جو سروسز سیکٹر سے وابستہ ہے اور اقتدار میں اپنا حصّہ چاہنے کے ساتھ ساتھ وہ کلائنٹل بیسڈ سیاست کے خلاف بھی ردعمل کا آظہار کررہی ہے ، اگرچہ وہ سوشلسٹ یا سوشل ڈیموکریٹک بیسڈ ریاست کے تصور کی حامی نہیں ہے لیکن وہ کم از کم انسانی فلاح پر مبنی ایک مارکیٹ ماڈل ( جو میرے نزدیک ایک یوٹوپیا ہے ) کی بات کرتی ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ایسی پروفیشنل مڈل کلاس کا کھڑا ہونا اسی لیے ناممکن نظر آرہا ہے کہ وہ اس طبقے کی خواہشات کی عکاسی نہیں کررہی اور عرصہ دراز سے وہ اپنی عوام دوست ، غریب دوست ، کسان دوست ، طالب علم دوست سیاست کو سمجھوتے بازی کی نذر کرچکی ہے یہی وجہ ہے کہ آج اگر پنجاب ، سندھ کے شہری علاقوں ، خیبرپختون خوا میں سب سے زیادہ خطرے میں جس جماعت کے سٹیک لگے ہوئے ہیں وہ پاکستان پیپلزپارٹی ہے اور اس وقت سب سے زیادہ یتیمی اور بے چارگی کا احساس اس ملک کے مزدوروں ، کسانوں کو ہے جن کی آرزؤں کی عکاسی کرنے والی کوئی سیاسی جماعت اس وقت موجود نہیں ہے پی پی پی کے یوم تاسیس پر میں نے بہت سارے چھوٹے بڑے رہنماؤں سے بات چيت کی ، سب بہت کنفیوژ نظر آئے ، سیاست کا کلئیر وژن کسی کے پاس نہیں تھا اور کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا کہ پی پی پی پنجاب میں کیسے اپنی بوری میں پڑنے والے چھیدوں کو سینے کا کام کرے گی آصف علی زرداری نے ندیم افضل چن کو پنجاب کی یوتھ کے لیے اپنا سیاسی معاون بنایا ہے اور شیری رحمان کو مرکزی نائب صدر بنایا ہے بس یہی ایک تنظیمی تبدیلی ہے جو اس قدر شور شرابے کے بعد اٹھائی گئی ہے یہ ایک طرح سے موجودہ فرسودہ ، نکمے ، نااہل اور بے کار تنظیمی ڈھانچوں کے متوازی ایک اور سیاسی انتظام ہے جو اٹھایا جارہا ہے آصف علی زرداری کنونشن میں بہت جلدی میں نظر آئے اور بمشکل ایک گھنٹہ وہ سٹیج پر رہے اور پھر واپس چند مقربین کے ساتھ اس قلعے میں بند ہوگئے جس کے بڑے جہازی سائز کے گیٹ کارکنوں کا منہ چڑارہے تھے بلاول ہاؤس اس بحریہ ٹاؤن میں ہے جہاں تک اندرون لاہور سے آنے والے کسی بھی کارکن کی جیب میں ایک ہزار روپے پٹرول کے لیے تو ضرور ہونے چاہیں اگر گاڑی اس کی اپنی ہو ، اگر نہیں تو پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کی مد میں اس کے پاس کم از کم تین ہزار روپے ہوں اور اگر صبح سے شام تک ٹھہرنا ہے تو 10 ہزار روپے ضروری ہیں اور یہ بھی یقینی بات نہیں ہے کہ اس محل کے دروازے اس کے لیے کھلیں گے بھی یا نہیں مجھے پی پی پی بہاول پور کے تجربہ کار سئنیر رہنماء ملے اور یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اللہ جانے یہ کونسی سیاست اور کیسی سیاست ہے جو بادشاہ مفاہمت نے شروع کی ہے جس میں عام کارکن کی رسائی بے نظیر بھٹو کے دور سے بھی زیادہ مشکل ہوگئی ہے ، گویا کارکن تو اب تک پی پی پی کی قیادت تک رسائی کا راستہ تلاش کررہا ہے کیونکہ اسے تو ابتک محرم راز کی تلاش ہے جو اسے ملکر ہی نہیں دے رہا میں تاسیسی کنونشن کے خاتمے کے بعد جب باہر نکلا تو میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے پی ایس ایف کے طلباء کو دیکھا کہ وہ پریشان کھڑے تھے ، ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کو جو ویگن اتنی دور تک لیکر آئی تھی ،اس سے یک طرفہ لانے کا معاہدہ پی پی پی پنجاب کی تنظیم کے عہدے دار نے کیا تھا ، وہ اب کھڑے لفٹ کے منتظر تھے اور لفٹ ملتی نظر نہیں آرہی تھی ، رہے نام اللہ کا ‎

Monday, November 24, 2014

پاکستان میں سیاست کا فرقہ پرست ڈسکورس طاقتور اور سیکولر لیفٹ ڈسکورس کمزور ہوگیا


دو ہزار آٹھ میں جب اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف سے ایک مبینہ ڈیل کے نتیجے میں عالمی و علاقائی ضمانتیوں کے ساتھ پاکستان کے اندر جمہوریت بحال ہوئی اور سنٹر لیفٹ پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی نے اے این پی جیسی سنٹر لیفٹ نینشلسٹ پارٹی اے این پی اور سنٹر رائٹ پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز کے ساتھ ملکر مرکز میں ایک مخلوط حکومت بنائی اور پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے اپنے تئیں " قومی سیاسی مفاہمت " کا ایک تصور پیش کرتے ہوئے ایک روشن خیال ، ترقی پسند ، فلاحی ریاست کے تصور کو اپنا نصب العین قرار دیا تو یہ امید کی جارہی تھی کہ پاکستان کی سیاست اب تیزی سے غیر فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ خیالات کے ساتھ آگے بڑھے گی بہت سے ہلکے یہ بھی کہتے نظر آتے تھے کہ پاکستان ضیاء الحق کی سیاست کے سایوں سے باہر نکلتانظر آرہا ہے اور 80 ء اور 90 ء کی دھائیوں میں فرقہ پرست سیاست کا جو جن باہر آیا تھا اب وہ بوتل میں واپس بند ہونے جارہا ہے لیکن یہ سب امیدیں ایک سال کے اندر ہی دم توڑتی نظر آنے لگیں ، پہلے پنجاب کے اندر سابق گورنر سلمان تاثیر کا قتل ہوا ، پھر اسلام آباد کے اندر ہی شہباز بھٹی سابق وفاقی وزیر مارے گئے ، اس کے ساتھ ہی لاہور ہی میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہد کردئے گئے اور پے در پے داتا گنج بخش ، بابا فرید ، بری امام ، عبداللہ شاہ غازی ، سخی سرور سمیت کئی ایک مزارات پر بم دھماکے ہوئے ، نشتر پارک میں سنّی بریلوی کمیونٹی پر خود کش بم دھماکہ ہوا جبکہ درجنوں امام بارگاہوں ، عاشورہ کے جلوس حملوں کی زد میں آئے اور اس کے ساتھ ساتھ شیعہ ، سنّی ، دیوبندی کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نواز ، اے این پی کی وفاق ، پنجاب ، خیبرپختون خوا ، سندھ اور بلوچستان ، گلگت بلتستان کے اندر حکومتوں کے دوران غیر فرقہ وارانہ ترقی پسند قومی سیاست مضبوط ہونے کی بجائے مزید شکست وریخت کا شکار ہوگئی مسلم لیگ نواز جوکہ دائیں بازو کی ایک ایسی جماعت خیال کی جاتی تھی جس کو شیعہ ، سنّی بریلوی ، دیوبندی ، وہابی سب فرقوں کے لوگ سپورٹ کرتے تھے بہت تیزی سے سنّی بریلوی اور شیعہ سپورٹ سے محروم ہونے لگی یہی کچھ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوا ، شیعہ اور سنّی بریلوی میں جو لبرل ، ترقی پسند عنصر تھا وہ اس پارٹی سے مایوس ہونے لگا اور اس اثناء میں سنّی بریلویوں کی ایک بڑی تعداد نے جہاں ڈاکٹ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک ، ضاحبزادہ فضل کریم کی سنّی اتحاد کونسل اور علامہ ثروت اعجاز قادری کی پاکستان سنّی تحریک کا رخ کیا ، وہیں پر خود دیوبندی مکتبہ فکر کی نوجوان نسل بہت تیزی سے ایک طرف تو تکفیری دھشت گرد تنظیموں کی طرف متوجہ ہوئی تو وہیں اس نوجوان نسل خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے اندر نے سپاہ صحابہ سے جنم لینے والی اہلسنت والجماعت کے پلیٹ فارم کو چن لیا جبکہ شیعہ کمیونٹی کے اندر تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی باقیات سے مجلس وحدت المسلمین کا ظہور ہوا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے شیعہ کمیونٹی کے اندر اپنی جگہ بنانے لگی ، جبکہ اہل حدیث کی نوجوانوں کی اکثریت اب حافظ سعید کی جماعت جماعت دعوہ کے اندر ہے جو خود تو الیکشن سیاست کا حصّہ نہیں ہے لیکن وہ آئیڈیالوجیکل اعتبار سے خود کو جماعت اسلامی سمیت ان مذھبی جماعتوں کے قریت خود کو خیال کرتی ہے جو اسلامی انقلاب پر مبنی خلافت اسلامی کے تصور سے جڑے ہوئے ہیں مذھبی سیاست میں سنّی بریلوی ، شیعہ ، دیوبندی ، اہلحدیث کی جو روائتی پارٹیاں جن میں جمعیت علمائے پاکستان (نورانی ) ، تحریک جعفریہ ، جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت اہلحدیث شامل ہیں وہ اسی کی دھائی سے دھڑے بندی کا شکار چلی آرہی ہیں اور ان کا حلقہ اثر مسلسل زوال پذیر ہے اور یہ تنظیمں اگرچہ مسلکی بنیادوں پر استوار ہوئیں لیکن انھوں نے فرقہ پرستانہ انتہا پسندی سے خود کو دور رکھا تھا لیکن افغانستان پر حملے کے بعد بتدریج دیوبندی جماعتیں جن میں فضل الرحمان اور سمیع الحق کی جماعتیں شامل تھیں کی روش یہ نظر آنے لگی کہ وہ تیزی سے فرقہ پرستی کی تنگ نظر سیاست کی جانب جھکتی چلی گئیں اور ریڈیکل مسلکی سیاست کی طرف ان کا جھکاؤ مڈل ایسٹ میں القائدہ اور جنوبی ایشاء میں طالبانائزیشن کی دیوبندی نوجوانوں اور خاص طور پر مدرسے کے نوجوان اور کم سن طالب علموں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے ہوا یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں اسلام آباد میں دیوبند مکتبہ فکر کی 25 کے قریب تںطیموں کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں ان 25 تنظیموں نے ملکر دیوبندی سپریم کونسل کے قیام کا اعلان کیا اور ایک طرف ملک میں سیکولر ازم کے خلاف جنگ کے لیے لڑائی کرنے کے لیے مولانا رزاق سکندر مہتمم جامعہ بنوریہ کو صدر بنایا گیا تو دوسری طرف دیوبندی سیاسی تنظیموں کی جانب سے ایک پلیٹ فارم اور ایک انتخابی نشان کے ساتھ آئيندہ الیکشن میں اترنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے والی سیاسی کمیٹی کی سربراہی مجلس احرار کے موجود صدر اور معروف دیوبندی عالم عطاء اللہ شاہ بخاری کو سونپ دی گئی اہل سنت والجماعت اور جمعیت العلمائے اسلام کے اندرونی زرایع کا کہنا ہے کہ دیوبندی تنظیموں کے اتحاد اور ان کی سیاسی قوت کو مجتمع کرنے کا تصور اہلسنت والجماعت کے سرپرست اعلی مولانا محمد احمد لدھیانوی نے پیش کیا اور انھوں نے اس حوالے سے تین سال سے فضل الرحمان ، سمیع الحق ، وفاق المدارس کی قیادت مولانا سلیم اللہ خان ، قاری حنیف جالندھری ، مولانا رزاق سکندر ، مفتی نعیم ، پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ اور مرحوم مولانا سرفراز کے بیٹے علامہ زاہد الراشدی اور مجلس احرار و انٹرنیشنل ختم نبوت کی قیادت سے رابطہ استوار رکھا ہوا تھا اصل میں دیوبندی سیاست کو ایک طرف تو اپنے مدارس اور حمائیتی حلقوں کے اندر سے مسلح عسکریت پسندی اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف بڑھنے والی حمائت سے زبردست چیلنج اور دباؤ کا سامنا تھا ، دوسری طرف ظاہر ہے کہ جے یوآئی ایف ، اہل سنت والجماعت کا جھکاؤ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی طرف تھا لیکن ان کے اپنے نچلے سرکل میں ضرب عضب آپریشن کے بعد سے اس جکاؤ کے خلاف ردعمل دیکھنے کو مل رہا تھا اور خارجی سطح پر پوری دیوبندی سیاست کو دھشت گردوں اور تکفیریوں کی حمائت کے ساتھ نتھی کیا جارہا تھا اور اس حوالے سے شیعہ ، سنّی بریلوی اور پاک فوج کے حامی حلقوں میں دیوبندی سیاست کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہورہا تھا اور حال ہی میں دھرنا سیاست جس میں عوامی تحریک ، سنّی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین شیعہ - سنّی بریلوی اتحادی سیاست کے ساتھ ابھریں نے دیوبندی سیاست کو زیادہ دباؤ کا شکار کیا اور پاکستان میں مذھبی سیاست اور زیادہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگئی جماعت اسلامی پاکستان جس کے سابق سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد مشرف دور میں تمام مسلکی جماعتوں کی روائتی سیاسی پارٹیوں کا اتحاد قائم کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور اسٹبلشمنٹ نے بھی اس پر ہاتھ رکھا تھا بعد میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے ایسے کسی بھی اتحاد کے قیام میں ناکام نظر آتی ہے اور اس کی وجہ پاکستان کے اندر طالبان کے خلاف شروع ہونے والے ملٹری آپریشنز اور طالبان کے دھشت گرد یا مجاہد ہونے پر اس کا مخمصہ تھا جس نے اسے سنّی بریلوی اور شیعہ سے بالکل دور کردیا اور جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کے بیانات اور پالیسی نے تو جماعت کی مذھبی جماعتوں کے اتحاد کی سیاست کے امکان کو ہی ختم نہیں کیا بلکہ جماعت اسلامی کے لیے پارلیمانی سیاست میں اس طرح کی پاپولر سیاسی جماعت بننے کا امکان کم نظر آرہا ہے جیسی پاپولر جماعتیں مصر میں اخوان ، تیونس میں جماعت اسلامی اور ترکی میں جٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنکر ابھری تھیں جہادی سیاست جو 80 ء کی دھائی سے دیوبندی ،وہابی ، جماعتی دائروں میں گردش کرتی تھی اب تو بہت ہی تنگ نظر قسم کی فرقہ پرست سیاست ہوگئی ہے اور اس نے پوری مذھبی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور پاکستانی سماج کے اندر تکفیری سوچ اور فکر پر مبنی سیاست بہت گہرائی میں جاکر اپنی جڑیں بنارہی ہے اور اس سیاست کے ترقی کرنے سے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختون خوا اور گلگت بلتستان کے اندر فرقہ پرست بنیادوں پر سیاست نئے عروج کو چھو رہی ہے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی سیاست اور دھرنا سیاست سے نبٹنے کی نواز شریف کی حالیہ حکمت عملی نے مسلم لیگ نواز کے لیے پنجاب میں سنّی بریلوی اور شیعہ کے دائیں اور بائیں بازو کے ووٹ بینک کو بہت تیزی سے پاکستان تجریک انصاف ، عوامی تحریک ، مسلم لیگ ق ، مجلس وحدت المسلمین کی جانب منتقل کیا ہے اور نواز شریف کی پنجاب کے بااثر سںّی بریلوی سیاسی مذھبی خانوادوں پر گرفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور دیوبندی مکتبہ فکر کی 25 تںطیموں کے اتحاد کے سامنے آنے کے بعد لازمی امر ہے کہ اس طرح کا اتحاد سںّی بریلویوں کی جانب سے بھی سامنےآئے گا جماعت اہل سنت بریلوی صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری فاروق خان سعیدی کے مطابق ایک جھنڈے ، ایک نشان کے تحت انتخاب لڑنے کے لئے اتحاد اہلسنت کا اعلان جلد متوقع ہے ، حامد رضا چئیرمین سنّی اتحاد کونسل بھی یہی بات کررہے ہیں اس ساری پیش رفت سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے اندر مذھبی سیاست کا اونٹ فرقہ پرستی کی کروٹ پہلے سے کہیں زیادہ بیٹھنے جارہا ہے ستر ، اسی کی دھائیوں تک پاکستانی کی مذھبی سیاست مسلکی خدوخال رکھنے کے باوجود بہرحال سیکولر ، کیمونزم ، اشتراکیت ، اینٹی پی پی پی بنیادوں پر زیادہ فوکس تھی اور اس میں فرقہ وارانہ جنگ کا عنصر طاقتور نہیں تھا اور پارلیمانی سیاست میں ان کا کوئی وزن بننتا بھی نہیں تھا ، لیکن اب صورت حال تبدیل ہورہی ہے پاکستان میں نہ صرف سیاست کا سیکولر ، لبرل ، لیفٹ ڈسکورس کمزور ہوا ہے بلکہ نسبتا غیر فرقہ پرست سیاسی اسلام پسند رجحان بھی تیزی سے کمزور ہوا ہے اور اس کی جگہ فرقہ پرست ، انتہا پسند تکفیری سیاسی ڈسکورس نے لے لی اور اس ڈسکورس میں جس قدر خطرات چھپے ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی کا ایک سابق امیر جس کی جماعت اسلامی کے حلقوں میں بہت عزت اور احترام ہے وہ مذھبی سیاست ميں اعلانیہ جہاد بالقتال کی دعوت دے رہا ہے اور اسے ہم صرف پروفیسر منور حسین کی زاتی سوچ اور خیال کہہ کر نظر انداز نہیں کرسکتے اب دیکھنا یہ ہے کیا پاکستان کی قومی سیاسی جماعتیں اس قدر اہلیت رکھتی ہیں کہ وہ سیاست کے اس فرقہ پرست ، تکفیری ڈسکورس کو کاؤنٹر کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں ؟ کیا وہ پاکستان کو انارکسٹ سیاست کے طوفان سے بچاکر آگے کی طرف لیجاسکتی ہیں ؟

Saturday, November 15, 2014

خورشید خان - ایک ٹوئٹ کا حقدار بھی نہیں


رات میں حسب معمول ایک کیفے پر بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا کہ موبائل پر میسج ٹون بجی ، موبائل میں میسج باکس کھولا تو پیپلز یوتھ آرگنائزیشن جنوبی پنجاب کے سئنیر نائب صدر سید کرار حیدر شاہ کا برقی پیغام تھا کہ افسوس ناک خبر - پی پی پی ملتان شہر کے صدر خورشید خان کا انتقال ہوگیا خبر پڑھکر میں صدمے ، غم و اندوہ میں ڈوب گیا اور میں نے زرا ٹوئٹر اور فیس بک پر اس خبر کو پوسٹ کیا اور ساتھ ہی بلاول بھٹو زرداری ، فریال تالپور ، رحمان ملک ، قمر الزمان کائرہ ، موسی گیلانی سمیت کئی ایک پی پی پی کے رہنماؤں کے اکاؤنٹ بھی چیک کئے اور اب جب یہ کالم لکھنے بیٹھا تو پھر چیک کیا لیکن خورشید خان کی موت کو 28 گھنٹے سے زیادہ ہوجانے کے باوجود میں نے کسی ایک کی طرف سے بھی کوئی تعزیتی بیان نہیں دیکھا بلاول بھٹو زرداری نے 12 نومبر 2014ء کو ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں انھوں نے لندن کے اگلے مئیر کو ایک " گورا جیالا " کہہ کر خراج تحسین پیش کیا ہے اور نیچے 8 نومبر کو فہمیدہ مرزا کی والدہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہوا ہے ، حسن مجتبی نے ان کو ٹوئٹوں کا بادشاہ قرار دیا تھا لیکن نہ جانے کیوں ٹوئٹوں کا یہ بادشاہ ایسے موقعوں پر خاموش کیوں رہتا ہے جب اس کا ایک ٹوئٹ اس کے پارٹی کے کارکنوں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے خورشید خان نے ملتان میں پی پی پی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز نوجوانی میں قائد عوام زوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں کیا ، وہ بنیادی طور پر ایک ٹریڈ یونینسٹ تھا اور جی ٹی ایس یونین میں اہم کردار ادا کرتا رہا ، زوالفقار علی بھٹو کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس نے پارٹی کے انتہائی مشکل دنوں میں بھی جمہوریت ، سماجی انصاف اور سفید پوش طبقے کی ترجمان سیاست کو گلے سے لگائے رکھا اور کبھی چھلانگ لگا کر اس نے بلائی طبقے میں جانے کی کوشش نہ کی میں نے ان کو اکثر ملتان ڈیرہ اڈا پر فرینڈز ہوٹل میں پارٹی کارکنوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا ، جہاں کبھی کبھی چائے پینے میں بھی چلاجاتا تھا ایک مال پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ " حسینی صاحب !آج کل آپ کے قلم کی کاٹ بہت تیز ہوچکی ہے - لفظوں کو نشتر کی جگہ استعمال کررہے ہو ، بلاول اگر " زندان پدر کا قیدی " نہ ہو تو زندان اسٹبلشمنٹ کا قیدی بن جائے ، وہ میرے دو ہفتے پہلے لکھے گئے ایک کالم کا حوالہ دے رہے تھے جو میں نے بلاول بھٹو کی 18 اکتوبر 2014ء کراچی جلسہ میں کی گئی تقریر پر لکھا تھا خورشید خان کبھی بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے مایوس نہیں ہوئے تھے اگرچہ پارٹی کے اندر تنقید بھی کھل کر کرتے تھے ،اور خورشید خان پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اس نسل کے چند بچے کچھے لزکوں میں سے تھے جن پر اس پارٹی کے اندر سوشلسٹ ، ترقی پسند ، مزدور ، کسان خیالات کی آبیاری کرنے والے رہنماؤں جیسے بابائے سوشلزم شیخ رشید ، سفیر ویت نام اشفاق احمد خان والد شہید راشد رحمان ایڈوکیٹ کا اثر بہت غالب تھا اور وہ پیپلزپارٹی کے اندر " ورکرز پالیٹکس " کے علمبردار تھے ان کی وفات پر میرا خیال تھا کہ فوری طور پر ملک بھر سے پی پی پی کے رہنماؤں کے بیانات سامنے آئیں گے اور پی پی پی کا ملکی اور صوبائی میڈیا سیل اس خبر کو پارٹی کی طرف سے اخبارات کو جاری کریں گے ، ترجمان بلاول ہاؤس کراچی و لاہور اعجاز درانی و فیصل میر اس پر اپنے خیالات ضرور پریس کو بھیجیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ، میں نے پھر یہ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری کو ایک ٹوئٹ کیا اور ایسے ہی ٹوئٹ پی پی پی میڈیا اور بلاول بھٹو زرداری کے آفس سٹاف کو بھی کئے اور ڈھیٹ بنکر ان سے درخواست بھی کی کہ اس پر تعزیتی بیان جاری کریں لیکن کو‏ئی ردعمل موصول نہين ہوا بلکہ فیصل میر کو تو فون کیا اور اسے یاد بھی نہیں آیا کہ خورشید خان کون تھے ، جب بتایا تو اظہار افسوس کیا ، میں نے فون بند کردیا عمران خان نے پی پی پی کے 18 اکتوبر کے جلسے کے شرکاء کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں لاشوں نے شرکت کی تھی ، عمران خان نے یہ بات کسی اور معنی میں کی تھی لیکن مجھے یہ ایک اور طرح سے ٹھیک لگتی ہے کہ پی پی پی کے اندر سفید پوش اور غریب کارکن اب زندہ لاشوں میں بدل چکے ہیں اور خورشید خان جیسے کارکن توپارٹی کی صورت بدل جانے پر صدمے اور دکھ کی وجہ سے کومے کی کیفیت کا شکار ہیں اور ان سے ایک لفظ بھی بولا نہیں جاتا ابھی دو ماہ پہلے پی پی پی کے کئی ایک دیرینہ کارکن اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے لیکن ان غریبوںکے ہآں بڑی قیادت تو دور کی بات ڈویژن اور جنوبی پنجاب سطح کی قیادت بھی نہيں پہنچ پائی ، اس جنوبی پنجاب کی قیادت میں تو ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے آبائی حلقے تلمبہ میں ہی کسی کارکن کی شادی یا مرگ مين شریک نہیں ہوتا ، ایسے بے حس اور مردہ لوگوں سے یہ پارٹی بھری نظر آتی ہے میں سوچتا ہوں کہ پہلے " کشمیر ملین مارچ " میں اور اب پھر لندن میں بلاول بھٹو زرداری کو ان کشمیریوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر کے شیدائی ہیں ، کیا اس سے بھی یہ قیادت کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے ابھی روزنامہ خبریں ملتان میں مکرم خان نے اپنے کالم کے اندر آصف علی زرداری کے والد کی چند منٹ کی جس ویڈیو کا زکر کیا تھا ، میں نے وہ ويڈیو دیکھی اور حیران رہ گیا ، ويڈیو اس لیے دیکھی کیونکہ میں مکرم خان کو ضیاء الحقی باقیات سے خیال کرتا ہوں مگر ويڈیو میں جب حاکم علی زرداری کو یہ کہتے سنا کہ قائد اعظم تو اس ملک کی اے بی سی سے بھی وافق نہیں تھے الخ تو مجھے مکرم خان کا غصّہ بجا معلوم ہوا ، بھلا حاکم علی زرداری اتنے بڑے قد کا مالک کب سے ہوگیا کہ وہ بابائےقوم محمد علی جناح کے بارے میں ایسے جملے کہہ سکے ، یہ وہ جناح ہيں جن کے بارے میں سطحی اور رزیل جملے کہنے یا لکھنے کی ہمت تو کانگریس کے باپو گاندھی ، جدید ہندوستان کے معمار جواہر لعل نہرو ، تین سابق صدور کانگریس ابوالکلام آزاد ، سی گوپال اچاریہ اور سبھاش چندر بوس کو نہیں ہوئی ، حاکم علی زرداری کے ہآں تاریخ اور ہندوستانی سیاست پر عبور حاصل کرنے کا کوئی جذبہ ہوتا تو وہ جناح کے بارے میں ہندوستان کے بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں کے ستائشی کلمات بارے خوب جانتے ہوتے اور کانگریسی و احراری ملّاؤں کی طرح آفتاب پر تھوکنے کے مرتکب نہ ہوتے لیکن اس کلپ کے بارے میں پی پی پی کا سوشل میڈیا بھی منہ پر تالے ڈالکر بیٹھا ہے ،ویسے بھی نظریات کو تیاگ دینے کے بعد پیپلزپارٹی کے اندر کس کو پڑی ہے کہ اپنی ںطریاتی اساس پر بات کرے یا صفائی دے جس پارٹی سے ںظریات رخصت ہوجائیں اور موقعہ پرستی کی خاک اڑتی ہو وہآں کارکن جیتے ہوں یا مرگئے ہوں کسی کو کوئی پرواہ نہیں رہتی ویسے مجھے ايک نہائت معتبر شخص جوکہ خود بھی ضیاء الحق کے مارشل لائی ضابطے کے تحت شاہی قلعے کے بعد ملتان جیل میں قید کاٹ رہا تھا نے بتایا آج جو لوگ پارٹی کے ان داتا بنےبیٹھے ہیں وہ ضیاءالحق کے حواریوں کے لیے پی پی پی کے جیالوں کی مخبریاں کیا کرتے تھے اور اس کے عوض تنخواہ پاتے تھے ، ایک صاحب ایسے تھے جن کو پی پی پی دور میں آئی ب مين بھرتی کیا گیا اور حیرت انگیز طور پر ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے سب لوگ نکال باہر کئے گئے ، مگر وہ موصوف ترقی پر ترقی پاتے گئے اور آج بہت بعد میں جاکر پتہ چلا کہ ملتان کے بہت سے لوگوں کی گرفتاری اور چھاپوں کے پس پردہ ان کی مخبری کام دکھارہی تھی ،زرداری و گیلانی نے پانچ سالہ دور اقتدار میں اس شخص کو خوب نوازا خورشید خان ملتان کی ورکر سیاست کا ایک سچا اور کھرا باب تھے اور وہ عمر کے اس حصّے میں اب کسی اور جانب رخ کرنا نہیں چاہتے تھے ، ضیاءالحق نے پاکستان کی سیاست میں " کالے دھن " اور کلائنٹل ازم کے جو وائرس داخل کئے تھے ، اس نے خورشید خان جیسے کارکنوں کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں داخلے کو ویسے ہی ناممکن بناڈالا تھا اورپی پی پی کو یہ توفیق کبھی نہ ہوئی کہ وہ خورشید خان کو سینٹر یا مشیر ہی بنانے کا فیصلہ کرکے یہ ثابت کرتی کہ وہ ورکر سیاست پر یقین سے منحرف نہیں ہوئی ہے پرانے ورکرز کے ساتھ پی پی پی نے جو حشر کیا ، اسے دیکھتے ہوئے سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والی نئی نسل نے اس پارٹی کی طرف آنا بند کردیا اور اس پارٹی کی قیادت کی بنجر سوچ کی وجہ سے آج پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں نیا خون نظر آتا ہے اور یہ بنجر سوچ کی مالک قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ٹوئٹس اور فیس بک سٹیٹس کے زریعے سے یہ ان کامقابلہ کرلے گی اور نئے خون کو اس طرف جانے سے روک لے گی پی پی پی نے بہت تیزی سے اپنے سیاسی ورثے اور سیاسی اثاثے کو تباہ کرنے کا کام شروع کیا اور پھر 18 اکتوبر سے پہلے یہ محسوس ہورہا تھا کہ یہ اب ایسے اقدامات اٹھائے گی جس سے کم از کم تھوڑی سی تازگی یہاں محسوس ہوگی لیکن 18 اکتوبر اور اس کے بعد ابتک اس کی روش سے ثابت ہوگیا کہ یہ مکمل طور پر بنجر ذھنوں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے اس کی اپوزیشن تو مسلم ليگ قائداعظم کی اپوزیشن سے بھی کمتر ہوچکی اور المیہ یہ ہے کہ اس کی سٹریٹ پاور پنجاب میں عوامی تحریک جیسی جماعتوں سے بھی کم دکھائی دینے لگی ہے اور یہ سب نیتیجہ ہے اس نام نہاد مفاہمانہ سیاستکا جس کی زنجیریں پارٹی کے گلے اور پاؤں میں قبلہ آصف علی زرداری نے ڈال رکھی ہیں اور اس کا بوجھ اتنا ہے کہ پارٹی دو قدم بھی اٹھانے سے قاصر نظر آتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کے دیرینہ کارکن جنھوں نے خون جگر سے اسے سینچا تھا وہ اس بوجھ تلے اسقدر دبے ہیں کہ ان میں سے کئی تو حقیقی طور پر گھٹ کر دل کے ہاتھوں ہار گئے اور ان میں خورشید خان ایک تھے ،جن کی مسمت میں ٹوئٹوں کے بادشاہ کا ایک ٹوئٹ بھی نہيں آسکا