Monday, September 29, 2014

بلاول بھٹو کا معذرت نامہ اور مشورے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوچا آئینہ دکھا دوں


پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی پی پی کی ایک غیر منتخب کور کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اس اجلاس کے بعد پی پی پی کے سینئر وائس چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا کہ 18 اکتوبر سے پی پی پی پورے ملک میں اپنی بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرے گی اور 18 اکتوبر کو کراچی میں بہت بڑے جلسہ عام سے چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری خطاب کریں گے پی پی پی کی نام نہاد کور کمیٹی کا اجلاس بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایک معذرت نامہ شایع ہونے کے فوری بعد ہوا اور اس معذرت نامے میں بلاول بھٹو نے بار بار پی پی پی کی قیادت کی جانب سے " پارٹی میں جمہوری کلچر " کے پائے جانے پر اصرار بھی کیا تھا بلاول بھٹو زرداری نے اپنے معذرت نامے کی اشاعت کے فوری بعد پی پی پی کی سب سے بڑی آئینی باڈی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس بلانے کی بجائے کور کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اس کور کمیٹی کے اندر زیادہ تر لوگ وہ تھے جو اس ملک کی فیوڈل و زمیندار اشرافیہ کے نمائندے ہیں جیسے یوسف رضا گیلانی ، مخدوم شہاب الدین ، مخدوم امین فہیم یا وہ نواز شریف کا ماؤتھ آرگن بنے ہوئے ہیں جیسے خورشید شاہ اور یہاں اگر کوئی مڈل کلاسیہ موجود بھی تھا تو وہ ان فیوڈل اشرافیہ کا بے دام غلام تھا ، جبکہ اس کور کمیٹی میں وہ لوگ تو نظر ہی نہیں آئے جو پی پی پی کے ناراض کارکنوں اور ہمدردوں کی نمائندگی کرسکتے تو اس عمل سے بھی یہ ظاہر ہوگیا کہ اصل میں وہ معذرت نامہ محض ایک فیس سیونگ تھا اور پی پی پی کے کارکنوں اور اس کے ہمدردوں کو جذباتی بلیک میلنگ کے زریعے راست اقدام اٹھانے سے روکنا تھا پی پی پی کے کارکنوں کی اکثریت نظریاتی اعتبار سے پی پی پی کے بنیادی منشور کی بحالی کی حامی ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے سوشلزم کی راہ ترک کرکے سرمایہ داری کا راستہ جو اختیار کیا ہے اسے ترک کیا جائے پی پی پی کے کارکن چاہتے ہیں کہ پارٹی میں نامزدگیوں کا طریقہ ہر سطح پر ختم کیا جائے اور اوپر سے نیچے تک تمام یونٹس میں انتخابات شفاف ممبر شپ کی فہرستوں کے زریعے سے کرائے جائیں تاکہ پارٹی کے اندر جمہوریت کو متعارف کرایا جاسکے یہ دو اقدام ایسے ہیں جن کو اٹھا کر پی پی پی کو تباہی سے بجآیا جاسکتا ہے اور پنجاب سمیپ پورے ملک میں پی پی پی دائیں بازو اور انتہا پسند جماعتوں کا مقابلہ کرسکتی ہے مگر پی پی پی کے اصل چئیرمین جو شریک چئیرمین بنکر پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کی ڈوریاں ہلانے کے لیے انھوں نے شیری رحمان ، اعتزاز احسن ، رضا ربانی ، رحمان ملک ، یوسف رضا گیلانی کو رکھا ہوا ہے سب معاملات کو چلارہے ہیں اور ان کی سیاست کی ڈکشنری سے " کارکن " کا لفظ کبھی کا غائب ہوچکا ہے آصف علی زرداری کا خیال یہ تھا کہ پی پی پی کا کارکن شاید کوئی مزارعہ ، ان کی رعایا ہے جو بھٹو اور بے نظیر سے ان کو ورثے میں ملا ہے اور اس کی مجال نہیں ہے کہ وہ ان کے آگے سراٹھائے گآ آصف علی زرداری نے جس کمرے میں بیٹھنا وہاں ایک بڑی سی تصویر بے نظیر بھٹو شہید کی لگا لینی اور ہر انٹرویو میں سائیڈ ٹیبل پر پڑی بے نظیر شہید کی پوٹریٹ کو بھی کارکنوں کے جذباتی استحصال کے لیے استعمال کرنا ، جیسے ابھی حال ہی میں انھوں نے انتہائی ٹھس ، مایوس کن انٹرویو عارف نظامی کو دیتے ہوئے کیا تھا آصف علی زرداری کی پی پی پی کے کارکنوں کے بارے میں یہ غلط فہمی خود جئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے اندر بھی در آئی تھی اور ایک مرتبہ جب میں بلاول بھٹو کے ٹوئٹس پڑھ رہا تھا تو میں نے ایک ٹوئٹ پڑھا جس میں انھوں نے پی پی پی کے کارکنوں کے بارے میں کہا تھا کہ بھٹو کا سیاسی ورثہ صرف ان کے پاس ہی رہ سکتا ہے جو آصف علی زرداری کے ساتھ ہوں گے اور پھر بلاول بھٹو زرداری نے کسی ایک موقعہ پر بھی اپنے والد کی سوچ سے ہٹ کر حالات کا معروضی جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی اور ایک طرح سے پی پی پی کے اندر ورکرز دشمن پالیسی اور آصف علی زرداری کی پالیسی کو ہی آگے لیکر چل پڑنے کی روش نے بلاول بھٹو کے بارے میں کارکنوں کے اندر موجود امید پرست لہر کو آہستہ آہستہ دبانا شروع کردیا دو دن پہلے جب بلاول بھٹو نے اپنا نام نہاد اور مبہم سا معذرت نامہ شایع کیا تو نہ جانے اسی وقت مجھے کیوں آصف علی زرداری کا بظور صدرمملکت بلوچوں سے معذرت اور معافی مانگنے والے واقعے اور اس کے بعد پی پی پی کے پانچ سالہ دور میں بلوچستان کو عملی طور پر فوج ، ایف سی ، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کی پراکسی جہادی ، تکفیری دھشت گرد تںظیموں کے حوالے کردینے والا عمل یاد آگیا بلاول بھٹو زرداری کو معلوم ہونا چآہئیے کہ ایک معافی پی پی پی نے 1996ء میں پارٹی کی حکومت جانے کے بعد بھی اپنے کارکنوں سے مانگی تھی اور یقین دلایا تھا کہ آئیندہ اقتدار ملا تو کسی کو کوئی نوکری بیچنے اور اقرباء پروری کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور شہید بے ںظیر بھٹو نے راولپنڈی کے آخری جلسے تک ہر مرتبہ جلسے کفے اختتام پر ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی عہدے داروں سے حلف لئے تھے ہاتھ اٹھاکر کہ وہ نوکریاں فروخت نہ کریں گے ، نہ ہی اپنے رشتہ داروں میں بانٹیں گے اور پارٹی کارکنوں کی خدمت کریں گے ؟ کیا ایسا ہوا؟ اور کیا آج جو پی پی پی کی سندھ میں حکومت ہے تو اس کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ اس نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے سندھ اور کراچی میں شیعہ اور صوف سنّی نسل کشی ، ٹارگٹ کلنگ پوری شدت سے جاری ہے اور اس صوبے میں کالعدم تںظیموں کو کام کرنے ، جلسے جلوس کرنے کی آزادی ہے اور نوکریاں بیچنے کا کام آج بھی جاری وساری ہے پیپلز پارٹی کا پورا تںظیمی سٹرکچر ایک اوور ہالنگ کا تقاضہ کررہا ہے اور اس اوورہالنگ کا مطالبہ پی پی پی کے کارکنوں کی آواز ہے اور بلاول بھٹو زرداری کو اگر پارٹی کارکنوں و ہمدردوں کا اعتماد جیتنا ہے تو پھر عملی اقدامات اٹھانا پڑیں گے آخری بات یہ کہ پی پی پی نے کراچی سے جلسے کا آغاز کرکے پورے ملک میں جلسے جلوس کرنے کا جو اعلان کیا ہے ، اس کا ایجنڈا اور پروگرام کیا ہے؟ کیا پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت اور آئین کو لاحق مفروضہ ان خطرات کا ڈھونڈرا پیٹنا چاہتی ہے جو حکومتی کیمپ اور اس کے بکاؤ مال لفافہ صحافیوں کی جانب سے مسلسل جاری ہے؟ کیا یہ " لندن پلان " اور عالمی سازش " کے تانے بانوں کو عوام کے سامنے لانا چاہتی ہے ؟ کیا پیپلز پارٹی عوامی جلسے جلوس کرکے سٹیٹس کو آکسیجن ٹینٹ سے باہر لانا چاہتی ہے اور وہ احتجاجی اور سٹریٹ پالیٹکس پر مبنی اپوزیشن کی اپوزیشن کرنا چاہتی ؟ یا پھر وہ پاکستان میں نواز شریف کی اقرباء پرور سیاست ، اس کی جانب سے بجلی و گیس کے بحران کو حل کرنے میں ناکامی اور بجلی چوری کا سارا بوجھ ایمانداری سے بل دینے والے صارفین پر ڈالنے ، مہنگائی کے بڑھ جانے ، شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّیوں پر حملے اور اقلیتوں کے خلاف بڑھ جانے والی مذھبی شدت پسندی اور سب سے بڑھ کر بے تحاشا طبقاتی خلیج کے بڑھنے جیسے عوامل کے خلاف عوام کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لیے مہم چلائے گی ؟ فیصلہ بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ ہے کہ وہ اپنے جلسے جلوس کی سیاست کو سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی طرف موڑتے ہیں یا اس کو توڑنے کی طرف جاتے ہیں میرے دوست علی عباس تاج نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کیا بلاول بھٹو زرداری کی سیاست پی پی پی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی ؟ مجھے خدشہ ہے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد کی شاطرانہ اور حد سے زیادہ چالاکی پر مبنی بہت ہی نیچے درجے کی سیاست کا ملبہ اپنے چئیرمین ہوے کے زعم پر پی پی پی کے کندھوں پر دھرنے کی کوشش کی تو اس ملبے تلے پی پی پی کی سیاست دم توڑ دے گی اور اس ملبے سے اسے نکالنا بہت مشکل ہوجائے گا پی پی پی میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے لیکر مارشل لاء کے 11 سال بے ںظیر بھٹو کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے والے آصف زیدی تو یہ کہتے ہیں پی پی پی کی سیاست تو اسی دن مردہ ہوگئی تھی جس دن اس نے ضیاء الحق کا خرقہ خلافت زیب تن کرلیا تھا لیکن امید اور رجائیت باقی تھی اور پی پی پی کے حقیقی ورثے کی حفاظت کرنے والے اور پی پی پی کے ساتھ ایک بڑا وقت بتانے والے عبدل نیشا پوری کا کہنا ہے کہ اگر بے نظیر بھٹو اور یہاں تک کہ بھٹو اپنے سمجھوتوں کے باوجود اگر جھک بھی جاتے آصف زرداری اور بلاول کی طرح تو شاید آج ہم میں زندہ ہوتے بالکل ٹھیک ہے کہ بھٹو اور بے نظیر شہید نے بہت سے بلنڈر مارے ، بہت سی غلطیاں کیں اور سمجھوتے بھی کئے لیکن مکمل سرنڈر نہ کیا اور جب آدمی سمجھوتے بھی کرے اور سرنڈر بھی نہ کرے تو وہ قبر میں اتار دیا جاتا ہے جیسے بھٹو صاحب اور بے نظیر اتار دئے گئے تھے اور اگر بلنڈر کرے ، غلطیاں کرے شعوری طور پر اور انحراف کرے چالاکی سے اور سرنڈر بھی کڑدالے تو انجام آصف زرداری جیسا ہوتا ہے کہ رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی پی پی پی کا وہ کارکن جو ترقی پسند ، محنت کش ، کسان ، طالب علم دوست سیاست کا قائل ہے اور پاکستان کو سوشلسٹ ریاست دیکھنے کا خواہ ہے وہ پارٹی کی قیادت کا بے دام غلام بننے اور اس کی مزارعہ گیری کرنے کو تیار نہیں ہے ویسے بلاول بھٹو زرداری کے نام پر جس نے بھی پی پی پی کے ترقی پسند کارکنوں اور ہمدردوں کو عوامی ورکرز پارٹی میں جانے کا مشورہ دیا ہے تو خوب دیا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ عوامی ورکرز پارٹی تو چھوٹی پیپلز پارٹی ہے جو آپ بھی نواز شریف کو بچانے کا کردار ادا کررہی ہے عوامی ورکرز پارٹی بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی کٹھ پتلی حکومت کی حمائت کرتی ہے اور " جنگ " کی سب سے بڑی حامی ہے - یہ اسقدر بے بصیرت ، اندھی اور موقعہ پرست پارٹی ہے کہ اس کی لیڈر شپ سامراجی اور سامراجی کے پٹھوؤں کی جنگ کو " وار آف لبریشن " قرار دیتی ہے اور ایک بیان جاری کرتی ہے جس میں ضرب عضب کی حمائت ہوتی ہے اور دوسرا جاری کرتی ہے جس میں مخالفت ہوتی ہے اور دونوں ہی آفیشل ہیں بلاول بھٹو زرداری کو ٹھیک پٹی پڑھائی گئی کہ ایک خصّی جماعت میں جانے کا مشورہ ریڈیکل ورکرز کو دیں تاکہ وہاں سے مایوسی کے ان کو ایسے ٹیکے لگيں کہ وہ ساری اک بک بھول جائیں پیپلز پارٹی کے نوجوان کارکن تو شاید اسی عوامی ورکرز پارٹی کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں لیکن پارٹی میں بائیں بازو کے پرانے تجربہ کار اس کے بارے میں خوب جانتے ہیں اس پارٹی کا صدر وہ ہے جو لندن میں نواز شریف کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں آے آرڈی توڑنے کے منصوبے میں شریک ہونے کے لیے عوامی تحریک سندھ کے اس وقت کے صدر رسول بخش پلیجو اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر حاصل بزنجو کے ہمراہ جاپہنچا تھا ، اس حقیقت کے باوجود کہ اس وقت لیفٹ گروپوں کے الائنس سے بننے والی پارٹی عوامی تحریک نے اس کی سخت مخالفت کی تھی اس پارٹی میں ایک این جی او مافیا بھی موجود ہے جس نے بے نظیر بھٹو کے خلاف جنرل (ر) تنویر نقوی کے ساتھ ملکر نام نہاد لبرل لیفٹ الائنس بنانے کی کوشش کی تھی اور اس کوشش کا سرغنہ سرور باری تھا جس نے لیبر پارٹی کے دفتر میں فاروق طارق کی موجودگی میں اور پھر جم خانہ کلب میں ایک سابق جنرل کی موجودگی میں راقم کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ لیفٹ جنرل مشرف کے ساتھ مل کر وہ کرجائے گا جو لیفٹ بھٹو سے تعاون کرکے نہیں کرپایا تھا اس این جی او مافیا نے یہاں تک دعوی کرڈالا تھا کہ یہ پورے ملک سے انتخابات میں سو امیدوار کھڑے کریں گے اور لاڑکانہ سے سرور باری بے ںطیر بھٹو کا مقابلہ کرے گآ اس سے پہلے این جی او مافیا اور لبرل لیفٹ گروپوں نے اصغر خان سے ملکر جنرل مشرف کے رجیم کو جواز دینے کے لیے ایک پارٹی تشکیل دینے کی کوشش کی تھی بے نظیر بھٹو کو ان کوششوں بارے جب معلوم ہوا تو انھوں نے اپنے طور پر ان کوششوں کے خلاف سول سوسائٹی کے اندر سے بلاک کھڑا کرنے کی کوشش اور عاصمہ جہانگیر کے گھر اجلاس اسی بھی اسی حوالے سے کیا گیا تھا اور اس سے پہلے بھی یہ نام نہاد لیفٹ 88ء میں نواز شریف کو قومی سرمایہ دار اور بے نظیر کو جاگیرداروں کی نمائندہ کہہ کر آئی جے آئی کی سپورٹ کا باعث بنا تھا

Sunday, September 28, 2014

پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ لاہور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستانی سیاست کا منظر نامہ بدل رہا ہے


پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اتوار 28 ستمبر 2014ء کو لاہور میں مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا گيا اور غیر جانبدار زرایع کے مطابق دو لاکھ جبکہ پولیس کے زرایع کے مطابق ایک لاکھ اور پاکستان تحریک انصاف کے مطابق 3 لاکھ لوگ اس جلسہ میں شریک تھے پنجاب کا دارالحکومت لاہور پاکستان مسلم لیگ نواز کا گڑھ خیال کیا جاتا ہے اور خود مسلم لیگ نواز بھی 2008ء سے لیکر 2012ء تک اپنے دور اقتدار کے باوجود مینار پاکستان پر اس طرح کا پاور شو نہیں کرسکی جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے یہ پاور شو ایسے موقعہ پر کیا جب پارلیمنٹ میں بیٹھی ہوئی تمام سیاسی جماعتیں اس کے خلاف کھڑی ہیں ، سول سوسائٹی کے نام پر بڑے ، بڑے مقام اور مرتبے کو انجوائے کرنے والے نام اس کے خلاف ہیں اور "لندن سازش " کے نام پر بہت زیادہ پروپیگںڈا بھی کیا جارہا ہے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کراچی کے بعد لاہور میں سیاسی پاور شو کا خاصہ یہ ہے کہ اس مرتبہ اس کے ان سیاسی جلسوں میں مقررین اور سٹیج سیکرٹری بار بار تین نعرے لگاتے رہے نعرہ تکبیر ۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبّر نعرہ رسالت ۔۔۔۔۔ یا رسول اللہ نعرہ حیدری ۔۔۔۔۔۔ یا علی اور پنڈال میں کئی اور ترانوں اور گیتوں کے علاوہ لعل شہباز قلندر کی منقبت چلتی رہی جس میں ٹیپ کا فقرہ ہے علی دا پہلا نمبر دما دم مست قلندر پاکستان تحریک انصاف کے مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک کے شروع ہونے سے لیکر ابتک کے سفر کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کہ اس نے پاکستان کے ثقافتی سیاسی کلچر بارے بتدریج آگاہی کا سفر طے کیا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنے امیج کے بارے میں بہتری لانے کی طرف گامزن ہے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا تحریک طالبان پاکستان سمیت ان تمام تنظیموں کے بارے میں اب موقف پہلے والا نظر نہیں آرہا جو ہمیں پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم اور بعد میں پاکستان کے اندر وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے چلنے والی بحث کے دوران اختیار کیا تھا عمران خان کی جانب سے سپاہ صحابہ پاکستان ، لشکر جھنگوی وغیرہ کی جانب سے شیعہ ، صوفی سنّیوں کی ٹارگٹ کلنگ پر کافی حد تک واضح موقف نظر آنے لگا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس ملک کی اکثریتی آبادی صوفی سنّی ، شیعہ اور دیگر مذھبی اقلیتوں کی خواہشات اور ان کی حالت زار پر زمینی حقائق کے مطابق موقف اپنانے کا احساس کرنے لگی ہے پاکستان تحریک انصاف ایک عوامی پارٹی ہے جس کے حامیوں کی زیادہ تر تعداد شہری ، نیم شہری اور دیہی متوسط طبقات سے تعلق رکھتی ہے اور وہ بھی سب سے زیادہ پنجاب ، پھر خیبر پختون خوا اور اس کے بعد کراچی میں اس کے حامی کافی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں اور اس کی جو پروفیشنل مڈل کلاس ہے وہ کافی حد کنزرویٹو پس منظر سے آئی ہے جو بہرحال " دھشت گردی کے خلاف جنگ " بارے وہ موقف رکھتی ہے جو کہیں نہ کہیں پاکستان میں جماعت اسلامی جیسی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ جاملتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف ابھی تک سیاست میں سنٹر رائٹ پوزیشن میں کھڑی ہے عمران خان کی جانب سے " جنگ " بارے جن خیالات کا آظہار لاہور کے جلسے میں ہوا اور اس سے پہلے بھی انہوں نے کئی جلسوں میں کیا وہ مغرب کے اندر موجود کسی حد تک " جنگ مخالف تحریک " سے متاثر ہے جو مغرب کے اندر بایاں بازو ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سنٹر رائٹ اسلام پسند تںطیموں کی جانب سے چلائی جارہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نئے ورلڈ آڈر کے تحت بنائی جانے والی پالیسیوں کے بارے میں ایک مضبوط نکتہ نظر یہ موجود ہے کہ تیسری دنیا میں اس وقت دھشت گردی اور جنگ کے مہیب سائے امریکی پالیسیوں کی وجہ سے چھائے ہوئے ہيں اگرچہ عمران خان " جنگ مخالف " نظریات کے اظہار کے دوران اپنا جھکاؤ سنٹر رائٹ اسلامسٹ پوزیشن کی طرف شو کرتا ہے اور اس کی سامراجیت پر تنقید سنٹر لیفٹ کی پوزیشن کے ساتھ نہیں ہے اور فار لیفٹ والی پوزیشن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے عمران خان کی اصلاح پسند سیاست میں سنٹر لیفٹ پوزیشن کا اظہار اس وقت دکھائی دیتا ہے جب وہ یا پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چودھری اس حوالے سے مزدوروں اور کسانوں کے ایشوز پر بات کرتے ہیں اور اعجاز چودھری جن کی سیاست کا آغاز اسلامی جمعیت طلباء اور جماعت اسلامی سے ہوا وہ پی پی پی کے 70 ء کی دھائی کے سوشلسٹ کیمپ کی طرح کی لائن لیتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے اندر وہ ورکرز کی سیاست اور مزدوروں و کسانوں ، طالب علموں کی سیاست کا پرچم ویسے ہی بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے یہ پرچم ایک زمانے میں پی پی پی کے اندر بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد نے اٹھا رکھا تھا پاکستان تحریک انصاف پاپولسٹ سیاست کررہی ہے جس میں سنٹر رائٹ ، سنٹر لیفٹ دونوں طرح کی پوزیشنوں کو آختیار کرنے کے مظاہر نظر آرہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور چند لیفٹ گروپوں کے اتحاد سے تشکیل پانے والی عوامی ورکرز پارٹی ، اے این پی ، بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت اور ان کی ہمدرد دانشور پرتیں پاکستان تحریک انصاف کو مکمل طور پر سنٹر رائٹ کی پارٹی کے طور پر پیش کررہے ہیں اور ان کی جانب سے اس حوالے سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس پارٹی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کی حمائت کی جاتی رہی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک آرٹیکل میں بھی اس حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ہمدردوں اور کارکنوں کو جو پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور کسی اور پارٹی میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں تو وہ ایسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہ کریں جو جمہوریت کی دشمن ہو اور انتہا پسندی کی حمائت کرتی ہو ان کا اشارہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ان ہمدروں اور کارکنوں کی جانب ہے جو پنجاب اور خیبر پختون خوا سے زیادہ تر تعلق رکھتے ہیں اور پی پی پی کی جمہوریت کے نام پر نواز شریف بچاؤ پالیسی سے سخت نالاں ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری ان کارکنوں کو پاکستان تحریک انصاف کا سنٹر رائٹ امیج بتلا کر انھیں اس پارٹی میں جانے سے روک رہے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انتہا پسندی ، دھشت گردی اور تکفیریت کی حمائت کرنے میں جتنا ریکارڑ پاکستان مسلم لیگ نواز کا خراب ہے اتنا کسی پارٹی کا نہیں ہے اور نواز - شہباز کے رشتے ، تعلقات اور اتحاد و سرپرستی تکفیری دھشت گردوں کی کوئی راز نہیں ہے اور اس کی سعودی نواز پالیسیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ، ایسے میں بلاول بھٹو زرداری کا نواز شریف کی بجائے عمران خان کی اپوزیشن کرنے پر زور کارکنوں کو مزید مایوسی کے سمندر میں ڈبونے کے مترادف ہے پاکستان تحریک انصاف کی چند ایک سنٹر رائٹ پوزیشن اس وقت سنٹر لیفٹ میں بدل سکتی ہیں جب اس پارٹی کے اندر موجود سنٹر لیفٹ کے کارکن اپنی کوششیں مزید تیز کریں اور اس پارٹی سے باہر لیفٹ کے دانشور اور سیاسی کارکن جمہوریت اور پارلیمنٹ کے بچآؤ کے نام پر پرو نواز سیاست کی حوصلہ شکنی کریں پاکستان تحریک انصاف کے جئیرمین عمران خان کی جانب سے پاکستان کی عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہے اور ان کی جانب سے اقرباء پروری ، لوٹ مار ، بدعنوانی ، فیورٹ ازم ، ٹیکس چوری کا کلچر ، وی وی آئی پی پروٹوکول رجحانات اور عوام کو ریاست کی جانب سے تعلیم ، صحت ، رہائش اور بہتر ماحول فراہم کرنے سے گریز جیسے ایشوز پر بار بار آواز اٹھانا ایک ایسی سیاست ہے جس سے گریز کرنا عوام میں اپنی ساکھ کھونے کے مترادف ہے پاکستان پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اس نے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس کے حامی جاگيردار ، سرمایہ دار ، موقعہ پرست نوکر شاہی کے دباؤ میں آکر 1988ء سے جس سمجھوتہ باز کلچر کو اپنایا تھا اس کی بدترین شکل نام نہاد " سیاسی مفاہمت " کو وہ گلے کا ہار بناکر بیٹھی ہوئی ہے اور عوامی خواہشات کا گلہ گھوٹنے میں مصروف ہے ضیاء الحق کی سیاست کے خرقے کو پی پی پی کے جھنڈے کے تین رنگوں میں رنگنے کے باوجود یہ خرقہ پی پی پی کے جیالوں کے گلے کا پھندہ بنا ہوا ہے اور پی پی پی کا ترقی پسند فلسفہ اور نعرے اس خرقے کی تنگ دامنی کے اندر اٹک اٹک کر سانس لے رہے ہیں پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کی اقتداء کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری پی پی پی کے ریڈیکل سیاسی ورثے کو کباڑ خانے میں ڈال کر پی پی پی کی سیاست کو وینٹی لیٹر پر ڈال چکے ہيں اور اسے آئی سی یو سے باہر نہ لانے پر مصر ہیں میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف اگر بدستور سیاسی میدان میں نواز شریف اینڈ کمپنی کی حقیقی اپوزیشن بنکر سیاسی حمائت کا دائرہ وسیع کررہی ہے تو اس کی وجہ خود پی پی پی سمیت سنٹر لیفٹ اور لبرل سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کے نام پر سٹیٹس کو کی سیاست کی حمائت ہے اور جتنی دیر اس حقیقت کو سمجھنے میں کی جائے گی اتنا ہی دائرہ سکڑتا چلا جائے گا

Thursday, September 25, 2014

مڈل ایسٹ - وہابی مذہبی اسٹبلشمنٹ ، واشنگٹن اور اخوان المسلمون - دوسرا حصّہ


پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی عرب معاشرے موجودہ بحران کے طویل ترین دور میں داخل ہوگئے جو اب تک چل رہا ہے اور اس بحران نے نوآبادیاتی / سامراجی غلبوں سے جنم لینے والے بحرانوں اور دوسرے بڑے بحران جو سرمایہ داری کے بڑے مراکز میں پیدا ہورہے تھے کے ساتھ اپنی جگہ بنائی پہلی جنگ عظیم اور اس کے پیچھے ، پیچھے چلے آنے والے انقلابی ابھار نے اس دو جہتی بحران کو دن کی روشنی میں لاکھڑا کیا اور دوسری جنگ عظیم کے زریعے سرمایہ داری نظام اس بحران کے نازک ترین دور کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا لیکن اس سرمایہ داری نظام کے بڑے مراکز سے دور حاشئے پر جو خطے اور زون واقع تھے وہاں پر ڈویلپمنٹ سست رہی اور دنیا کا نظام ایسی سامراجی معشیتوں کے ڈھانچے پر مشتمل ہوگیا جس میں حاشئے پر موجود زون میں ترقی کی سست رفتاری معمول سمجھ لی گئی سرمایہ داری نظام کے حاشیوں پر جو علاقے تھے وہاں پر صنعت کاری کی سست رفتاری کو ختم کرنے کے لیے 20 ویں صدی میں بہت سے ریڈیکہ تجربات بھی ردعمل کے طور پر سامنے آئے ایک رد عمل کمیونسٹ تحریک کی شکل میں سامنے آیا ، اور کئی ایک ملکوں میں کمیونسٹ پارٹیوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ، پیداوار کے سماجی زرایع کی نجی ملیکت ختم کردی اور یہ انقلاب ان کمیونسٹ پارٹیوں نے پرولتاریہ (جس مراد اجرتی مزدور اور وہ جو اجرتی مزدور بننے جارہے تھے ہیں) اور کسانوں کی مدد سے برپا کیا اور ان پارٹیوں نے بیوروکریٹک موڈ آف پروڈکشن کو جنم دیا جس میں صنعتیں اور حکومت پارٹی کے عہدے داران چلاتے تھے اور اس بیورکریٹک مشین نے بنیادی صنعتوں کی تشکیل کی ،اگرچہ یہ کوالٹی کے ایشو کو حل نہ کرسکے اوریہ ماڈل صرف وہیں بچ سکا جہاں اس نے سرمایہ داری سے مفاہمت کی راہ نکالی اور اس طریقے کا انجام آخرکار سرمایہ دارانہ موڈ آف پروڈکشن کے احیاء کی شکل میں برآمد ہوا -اس میں سوویت یونین کی " نیو اکنامک پالیسی " سے لیکر چین کی مکس معشيت کے تجربات شامل ہیں عرب خطّے میں سویت یونین کے بیوروکریٹک ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے ریاستی سرمایہ داری کے طریقہ پیداوار کو اس وقت صنعت کاری کو تیز کرنے کے لیے اپنایا گیا جب یہاں نیشنلسٹ ، پاپولسٹ فوجی افسروں یا نیشنلسٹ و پاپولسٹ فوجی افسروں اور نیشنلسٹ پارٹیوں کے ساتھ ملکر بونا پارٹ حکومتیں قائم ہوئیں لیکن ان بونا پارٹ حکومتوں نے پیداوار کے سماجی زرایع کی نجی ملکیت کا خاتمہ نہ کیا ان کو قائم رکھا جبکہ پیٹی بورژوازی کی پروپرائٹرشپ کو بھی ختم نہ کیا ، اس کی وجہ سے بونا پارٹ حکومتیں ایک اور نئی قسم کی بورژوازی پیدا کرنے کا سبب بن گئیں اور یہ حکمرانوں کے ساتھ گھل مل گئی اور اقرباء پرور ریاستی بورژوازی سامنے آگئی تیسری دنیا میں یہ جو سرمایہ داری ںظام کی گماشتہ شکل سامنے آئی ، جس نے کمپراڈور سرمایہ دار طبقے کو جنم دیا اور جس کی وجہ سے تیسری دنیا کے ملکوں میں وہ قومی بورژوازی انقلابات بھی نہ آئے جیسے یورپ میں آئے تھے تو اس کے خاتمے کے لیے جہاں ہم نے نیشنلسٹ ، کمیونسٹ ، لیفٹ ریڈیکل پاپولسٹ ردعمل دیکھے وہیں اس کے ردعمل میں رجعتی ردعمل بھی دیکھنے کو ملّا اور یہ رجعتی عمل ہمیں تیسری دنیا کے معاشروں میں شہری ، نیم شہری صنعتی علاقوں میں پنپتا نظر آيا اور مڈل ایسٹ میں بھی ایسے شہری و نیم شہری مراکز موجود تھے جوکہ اسلام کا مرکز بھی تھے گلبرٹ آشکار کے بقول ایسی سماجی تشکیل ان یوروپی معاشروں ميں بھی موجود تھی جہاں سرمایہ داری زرا دیر سے پہنچی اور پوری طرح سے بالغ نہیں ہوئی تھی اور ان یوروپی معاشروں مين روائتی پیٹی بورژوازی پرتیں موجود تھیں جن کو "مڈل کلاس " کی اصطلاح سے گڈ مڈ کرنا نہيں چاہئیے بلکہ یہ اصطلاح تو بورژوازی ( سرمایہ دار ) خود گمراہ کرنے کے لیے ڈیزائن کرتے ہیں -تو جب یوروپی سماج عظیم سرمایہ دارانہ ٹرانسفارمیشن کے دور سے گزرے تو یہ روائتی پیٹی بورژوازی پرتیں زوال پذیر اور تباہ ہونے لگیں کارل مارکس اور اینگلس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں ایسی پیٹی بورژوازی پرتوں کے بارے میں لکھا تھا The lower strata of the middle class — the small tradespeople, shopkeepers, and retired tradesmen generally, the handicraftsmen and peasants — all these sink gradually into the proletariat, partly because their diminutive capital does not suffice for the scale on which Modern Industry is carried on, and is swamped in the competition with the large capitalists, partly because their specialised skill is rendered worthless by new methods of production. Thus the proletariat is recruited from all classes of the population. The lower middle class, the small manufacturer, the shopkeeper, the artisan, the peasant, all these fight against the bourgeoisie, to save from extinction their existence as fractions of the middle class. They are therefore not revolutionary, but conservative. Nay more, they are reactionary, for they try to roll back the wheel of history. If by chance, they are revolutionary, they are only so in view of their impending transfer into the proletariat; they thus defend not their present, but their future interests, they desert their own standpoint to place themselves at that of the proletariat. عرب خطّے میں وہ تحریک جس نے گماشتہ سرمایہ داری سے جنم لینے والے بحران کا ردعمل رجعتی شکل میں دیا اور تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی کوشش کی اسے عمومی طور پر " مسلم بنیاد پرستی " کہا جاتا ہے (آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ کیسے جسے مسلم بنیاد پرستی کہا جاتا ہے اس کی فکری تشکیلات میں وہابی ازم نے کس قدر حصّہ لیا ) اسلامی بنیاد پرستی اسلامی تاریخ کو دیومالائی اور یوٹوپیائی شکل دیکر اس کے ابتدائی ادوار کو " سنہری دور " میں بدلتی ہے اور اس گھڑے ، گھڑائے سنہری دور کی طرف واپسی کی طرف بلانے کا کام کرتی ہے عرب خطّے میں بھی اس رجعتی تحریک کی جڑیں روائتی دانشوروں ، درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ ، طلباء اور دیگر لبرل پیشوں سے جڑے درمیانے طبقے کے لوگوں کے اندر تھیں اس رجعتی ردعمل کا ایک اظہار تو نجد کے خطے سے اٹھنے والی وہابی تحریک تھی جبکہ دوسرا ردعمل مصر میں بہت مربوط طریقے سے اخوان المسلمون کی شکل میں سامنے آیا اخوان المسلمون 1928ء میں قائم ہوئی ، یہ اسلامی بنیاد پرستی پر مبنی پروگرام کے ساتھ جدید سیاسی شکل میں سامنے آنے والی تنظیم تھی اور مصر میں رجعتی ردعمل کا اظہار تھی جس نے عرب خطّے کی رجعتی سیاست کو نجد وحجاز پر قابض ہوجانے والی وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملکر ایک واضح شکل و صورت دی پہلی جنگ عظیم کے بعد بنیاد پرسپ تحریک نے عربوں کے درمیانی سماجی پرتوں پر غلبہ پانے کے لئے نیشنلسٹ اور کمیونسٹ لیفٹ کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع کردیا فلسطین میں جب 1948 ء میں عربوں کو شکست ہوگئی تو نیشنلسٹ پاور میں آگئے اور بعد میں 1960ء کی ریڈکلائزیشن کی وجہ سے وہ بنیاد پرست تحریک کا اثڑ کم کرنے میں کامیاب رہے اور انھوں نے اس کو دبایا بھی انیس سو ستر کے آتے آتے عرب نیشنلزم کی ناکامی واضح ہوگئی تھی جبکہ اس کی ساکھ بھی سویت یونین کے بحران کی وجہ سے خاصی متاثر ہوچکی تھی نیشنل ازم کی ناکامی اور سوویت یونین کے بحران کے باعث بنیاد پرست تحریک کو پھیلاؤ اور وسعت کے لیے میدان صاف مل گيا اور اسی دوران سعودی عرب کی جانب سے بنیاد پرست تحریک کو عرب خطّے میں فیاضانہ امداد ملنا شروع ہوگئی اور جب 70ء کے عشرے کا اختتام ہورہا تھا تو بنیاد پرست تحریک کو ایک اور بوسٹ ملا اور وہ بوسٹ ایران میں شیعی اسلامی انقلاب کی کامیابی تھی
عرب خطّے کی بہت سی حکومتیں جنھوں نے بعض موقعوں پر بنیاد پرست تحریک کو فروغ دینے میں کردار ادا کیا تھا اس تحریک کے خلاف ہوگئے اور انھوں نے ان پر جبر شروع کیا ، بنیاد پرستوں کو مصر میں جزوی اور مستقل جبر کا نشانہ بنایا اور جبکہ لیبیا ، عراق ، شام ، الجزائر اور تیونس میں ان پر زبردست جبر ہوا لیکن بنیاد پرستوں نے کسی بڑے مسابقتی اور مقابلہ کرنے والوں کی عدم موجودگي کی وجہ سے خطّے میں اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں پر اپنا غالب اثر برقرار رکھا -کسی بھی سیاسی تحریک کو جبر دبانے اور اس کو مارجنلائز کرنے میں اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب یہ سماجی بنیادوں سے محروم ہوتی ہے اور 1950ء اور 1960ء میں بنیاد پرست تحریک اس سماجی بنیاد سے محروم تھی اور اسی لیے اس کو دبانے میں کامیابی ہوئی لیکں بعد میں عرب خظے میں جو سوشو- اکنآمک پیش رفت ہوئیں تو اس نے بنیاد پرست تحریک کو وہ سماجی بنیاد بھی فراہم کردی اور بنیاد پرست تحریک کے اثر کو بڑھادیا اور اس دوران کوئی ایسی ٹھوس مسابقتی و مقابلہ کرنے والی تںظیم موجود نہ تھی نیشنل ازم کی ناکامی کے پہلو میں عرب حکومتوں نے نیولبرل ازم کو اپنایا اور اس کی وجہ سے ریاست کا سماجی کردار اور سماجی خدمات کی فراہمی میں کردار کم ہوتا گيا اور اس نے ان عوامل کو پیدا کیا جس سے بنیاد پرست تحریک کی بالقوہ سماجی بنیاد کو بھی وسیع کرنے میں مدد فراہم کی مثال کے طور پر مصر میں اخوان المسلمون کے پاس عرب ریاستوں سے تیل کی بے تحاشہ آمدنی میں سے جو رقم موصول ہوئیں اس نے اس کی مالی حثیت کو مضبوط کرڈالا اور اس نے اسے ایسی کئی سماجی خدمات غریبوں کو فراہم کرنے کے قابل بناڈالا جس سے ریاست دست بردار ہوگئی تھی اور یہ سب کام اخوان نے چئیریٹی کے نام پر کیا جوکہ نیولبرل تناظر میں بہت مناسب خیال نظر آتا تھا گلبرٹ آشکار کے مطابق اخوان المسلمون کے لیے مصر میں سیاسی شروعات آزادی کے ساتھ کرنے کے لیے جو بریک تھرو پیدا ہوئے وہ پہلے سے ہی معلوم تھے Hosni Mubarak knew what would be coming his way once he was forced to bow to the pressure from Washinton . Hassan Abdul-Rahman , the head of Egyptian State Security , met with Muhammad Habib , first Deputy to the Brotherhood ,s Supereme guide at the time , in order to inform him that government intended to hold " democratic " election in 2005 and , accordingly , to work our an agreement covering the number of candidates the Muslim Brotherhood would be authorised to put up for election. دو ہزار پانچ میں حسنی مبارک نے واشنگٹن کے دباؤ کی وجہ سے اخوان المسلمون کو پہلے اور دوسرے مرحلے میں کسی حد تک انتخاب میں حصّہ لینے کی اجازت دی لیکن نتائج کو ایک خاص حد سے آگے جانے نہ دیا جبکہ اخوان کو 88 نشستیں دلاکر امریکہ کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ اگر وہ اخوان المسلمون کو فری ہینڈ دینے پر مصر رہے گآ تو پھر نتیجہ امریکہ مخالف حکومت کے آنے کی صورت نکل سکتا ہے جبکہ اس دوران نور ایمان جیسے اعتدال پسند رہنماء کے ساتھ حسنی مبارک نے جو سلوک کیا اس پر امریکیوں کی خاموشی حیران کن تھی بش انتظامیہ نے حسنی مبارک اور اس کے حامی دانشوروں کی جانب سے اسے اخوان المسلمون سے ڈرانے کا جو حربہ اختیار کیا گیا تھا کو زیادہ اہمیت نہ دی اور اس نے اخوان المسلمون کی قیادت سے مذاکرات شروع کردئے اور ان مذاکرات کے نتیجے میں اخوان اور امریکیوں کے درمیان برف پگھلنے لگی اخوان اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں کمیونزم اور نیشنل ازم جیسے مشترکہ دشمنوں کے خلاف لمبا تعاون رہا تھا اور دونوں ناصر ازم کو ان دو دشمن نظریات کا ہی ثمر خیال کرتے تھے جمال عبدالناصر اور اخوان کے درمیان ابتدائی طور پر تعاون کی فضاء تھی لیکن یہ تعاون 1954ء میں ختم ہوگیا ، یہ وہ دور ہے جب جمال عبدالناصر وزیر اعظم بنے تھے -اور جب اخوان سے تعلقات خراب ہونے کے بعد کچھ عرصے ميں جمال عبدالناصر کے تعلقات امریکیوں سے بھی خراب ہوگئے تو اخوان اور امریکہ نے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد بنالیا تھا اور ناصر کی دشمنی میں ایک تیسرا اتحادی بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا اور وہ تھا سعودی عرب اخوان المسلمون کا سعودی عرب سے تعلق ناصر کے خلاف اتحاد کے وقت نہیں بنا تھا بلکہ یہ حسن البناّ کی جانب سے مصر میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی قائم ہوگیا تھا حسن البناّ کا نظریاتی استاد رشید رضا تھے جن کے سعودی عرب سے گہرے رشتے اس ریاست کے قیام کے آغاز سے ہی بن گئے تھے اور یہ رشتے رشید رضا کی 1935ء میں وفات تک قائم رہے جب شاہ فاروق نے مصر میں اخوان المسلمون پر پابندی لگادی تو سعودی عرب نے حسن البناّ کو اپنے ہاں سیاسی پناہ لینے کی دعوت دی اور حسن البنّا ابھی وہاں جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گيا جب اخوان المسلمون کے ناصر کی حکومت سے تعلقات بگڑے تو ناصر نے اخوان کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کا آغاز کرڈالا اور ایسے میں ہزاروں کارکن جیل میں ڈالے کئے ، اخوان کے مرشد سید قطب کو ساتھیوں سمیت سزائے موت دے دی گئی تو سعودیہ عرب نے اخوان المسلمون کے کارکنوں کے لیے اپنی سرحد کے دروازے کھول ڈالے ، اس وجہ سے بہت سے اخوان نے وہاں مستقل رہائش اختیار کرلی اور کئی ایک نے وہیں کی شہریت حاصل کی اور وہیں اخوان کے بہت سے لوگ سعودی سرمایہ کی مدد سے سرمایہ داری کی دنیا میں قدم رکھنے کے قابل ہوگئے اخوان المسلمون نے سعودی عرب ، امریکہ کے ساتھ ملکر جو ناصر مخالف اور اشتراکیت مخالف اتحاد بنایا ، اسی سے فاغڈہ اٹھاتے ہوئے اخوان المسلمون نے ورلڈ مسلم لیگ کی بنیاد 1966ء میں رکھ دی اور اس کا مرکزی دفتر مکّہ میں بنایا گیا یہ وہی رابطۃ العالم الاسلامی ہے جس سے پاکستان کی جماعت اسلامی ، دیوبندی اور وہابی مذھبی تںظیموں نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا وہابی سپانسر شپ اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اس تنظیم کے بینر تلے دنیا بھر سے وہابی و دیوبندی اسلامی گروپوں کو جمع کیا گیا اور اس تنظیم کے بے پناہ مالی وسائل کی مدد سے ہی اخوان المسلمون نے عرب ملکوں کے اندر اخوان المسملون کی شاخیں قائم کیں جس دن سے رابطۃ العالم الاسلامی قائم ہوئی ،اسی دن سے حس البناّ کے داماد سعید رمضان نے پورے یورپ اور امریکہ میں اخوان المسلمون کا نیٹ ورک قائم کرنا شروع کردیا تھا اور سعید رمضان یورپ میں ورلڈ مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کا سبب بھی بنا اور اس راستے سے یورپ اور امریکہ وہابی و دیوبندی اسلامی کرنٹ کے پھیلاؤ کے اہم مرکز بن گئے جب 1970ء میں ناصر کی موت ہوئی تو اس کے جانشین انور سادات نے ناصر ازم سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کرڈالا، اس نے ایک طرف نیولبرل اکنامی کی جانب سفر شروع کیا تو دوسری طرف مصر میں ناصر اور سویت یونین کے حامیوں کا مقابلہ کرنے کے کے لیے لڑائی میں مذھبی بنیاد پرستی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور یہاں اس کی مدد اخوان المسلمون ، سعودیہ عرب اور امریکہ نے کی جو خود بھی ناصر ازم اور سوویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے
سادات نے اخوان المسلمون کے قیدی اراکین و رہنماؤں کو رہا کرڈالا اور اخوان المسلمون کو اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دے ڈالی اگرچہ اخوان المسلمون کو قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت نہ تھی اخوان کے حامی طلباء گروپوں نے قاہرہ یونیورسٹی سمیت اہم تعلیمی اداروں سے ناصر اور اشتراکیت کے حامی طلباء کا صفایا کرڈالا اور اس میں انور سادات کی حکومت نے ان کا بھرپور ساتھ دیا 1973ء میں ہی مکّہ کے اندر ورلڈ مسلم لیگ کے دفتر میں اخوان المسلمون کے دنیا بھر میں موجود شاخوں کے رہنماء کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اخوان کے موجودہ مرشد عام بھی شامل تھے اور راشد الغوشی تیونس سے موجود تھے اور اس موقعہ پر اخوان المسلمون کی ایک سنٹرل کمیٹی بنائی گئی اور راشد اس میں تیونس کی اخوان کی نمائندگی کررہے تھے آنے والے سالوں میں اخوان المسلمون سمیت رابطۃ العالم الاسلامی کے بینر تلے جمع ہونے والی مذھبی بنیاد پرست تنظیموں سے وابستہ اراکین کے لیے سعودیہ عرب میں ایجوکیشن اور مذھبی شعبہ جات سمیت کئی ایک شعبوں میں ملازمتوں کے درمازے کھل گئے اور سعودیہ عرب سیٹل ہونے کا موقعہ بھی میسر آیا اور سعودی عرب سمیت گلف عرب ریاستوں کی تیل کی آمدنی سے مستفید ہونے کا موقعہ میسر آیا نوٹ: یہ وہی دور ہے جب دیوبندی تنظیم عالمی تحریک ختم نبوت کے بہت سے لوگ سعودیہ عرب سیٹل ہوئے اور یہ ایک دیوبندی تنظیم ہے اور اس کے موجودہ چئیرمین عبدالحفیظ مکّی نے اس کا سنٹر مکّہ ميں قائم کیا اور ان کے توسط سے دیوبندی تکفیری تںطیم سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی مکّہ اور مدینہ منتقل ہوئے اور آج یہ بھی وہابی اسٹبلشمنٹ کی بہت قابل قدر پراکسی ہیں سعودی عرب اور دیگر عرب بادشاہتوں کی جانب سے سرمایہ کی فراہمی اور مراعات کے ملنے سے اخوان المسلمون کے اندر بورژوازی پروان چڑھنا شروع ہوئی اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ديگر بنیاد پرست تنظیموں کے افراد کی ایک پرت بھی بورژوازی کی شکل اختیار کرگئی سعودیہ عرب کی وہابی اسٹبلشمنٹ کے زیر سایہ پلنے والے اسلامی بنیاد پرستی کے مراکز میں سرمایہ داروں کے پیدا ہوجانے کے اس عمل سے وہابی ازم کی سماجی بنیادوں میں وسعت اختیار کرنے کی وضاحت بھی اسی عمل سے ہوجاتی ہے خیرات الشاطر جو کہ اخوان المسلمون کی سابق حکومت میں مرسی کا نائب تھا اس نے ایک مرتبہ یہ انکشاف کیا تھا کہ مصر میں حسنی مبارک کے حکم پر مصری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے نو سو کے قریب ایسی سرمایہ دار کمپنیوں کا سراغ لگالیا تھا جس کے مالکان اخوان المسلمون کے ممبر تھے لیکن اخوان المسلمون جیسی بنیاد پرست تنظیموں کے اراکین میں بورژوازی کی پرتوں کے جنم کے باوجود اس کے پروگرام میں کوئی جدت نہیں آئی اور یہی حال دوسری وہابی ازم سے جڑی مسلم بنیاد پرست تنظیموں کا تھا اور اس کی وجہ صاف ظاہر تھی کہ ان کا رشتہ عرب کی سب سے بڑی رجعتی ، بنیاد پرست ریاست سعودیہ عرب سے تھا اور سرمایہ داری کی جو شکل ان بنیاد پرست تنظیموں میں سرائت کی تھی وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے کمرشل اور قیاسی سٹہ باز تھی اور اس کے جن سرمایہ دار ماڈیلٹی کے ساتھ رشتہ بنا تھا وہ بھی انتہائی رجعتی تھا سرمایہ دار پرتوں کے مسلم بنیاد پرستی کی تحریک کے اندر در آنے کی وجہ سے آخوان المسلمون جیسی تنظیموں میں ایک ماڈریٹ عنصر وجود میں آیا جو اعتدال پسندانہ اصلاح پسندی کا حامل تھا اور یہی وجہ ہے کہ اخوان نے اس انتہا پسند ریڈیکلائزیشن کو اختیار نہ کیا جس کا تقاضا سید قطب کی ریڈیکل سوچ کے غلبے سے ابھرا تھا اور یہی وہ مرحلہ ہے جس کی وجہ سے مصری اخوان سے کئی ایک ڈھڑے الگ ہوئے الگ ہوئے اور انھوں نے "جہاد ، قتال ، اور تکفیر " کا راستہ اختیار کرلیا گلبرٹ آشکار اخوان کے اس ماڈرنسٹ سیکشن کے ابھار کی سماجی بنیادیں تلاش کرتا ہوا لکھتا ہے The Brotherhood,s modernist _ those for whom Turkey,s Party for Justice and Development have been recurited , as a general rule . from ranks of " organic intellectual " petty and middle beourgeoise.The modernists are , for the most part , members of liberal professions and students. اخوان المسلمون کے ساتھ سعودیہ عرب کا پہلا بڑا اختلاف ایرانی انقلاب پر موقف اختیار کرنے پر ہوا اور اسلامی بنیاد پرستانہ ایرانی انقلاب نے عرب خطے میں بالعموم اور پوری دنیا میں بالخصوص مسلم بنیاد پرستی کو زبردست تقویت دی اور یہ تقویت اس لیے بھی ملی کہ ان دنوں عرب خطے میں نیشنل ازم اور کمیونزم کی علمبردار قوتیں زبردست بحران کا شکار ہوچکی تھیں اخوان المسلمون جب خمینی رجیم کو تحسین کی ںظر سے دیکھ رہی تھی تو اس وقت سعودی عرب نے اس کو اپنی بادشاہت کے لیے کے سخت خطرہ کے طور پر محسوس کیا اور اس کی امریکی دشمنی پر مبنی نعروں کو براہ راست اپنے لیے حظرناک شمار کیا جبکہ سعودی عرب کو انھی دنوں اپنے ملک کے اندر الٹرا وہابی آزم کے حامل ایک گروہ کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس نے مکّہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی اور ایرانی شیعہ انقلاب کے آںے سے سعودی عرب کا جو شیعہ اکثریت کا مشرقی صوبہ تھا وہاں بھی سیاسی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے سعودیہ عرب نے ایرانی شیعی انقلاب کی جانب زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا اخوان المسلمون کی ایران کے معاملے کو لیکر سعودی عرب سے دوری زیادہ دیر قائم نہ رہی بلکہ جونہی اپریل 1979ء میں سودیت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور سعودیہ عرب نے سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مدد سے افغان جہاد کا پروجیکٹ شروع کیا تو اخوان نے سعودی عرب سے اپنے اختلاف کو ایک طرف رکھ دیا اور اس کے ساتھ ویسے ہی شریک " جہاد " ہوگئی جیسے جماعت اسلامی پاکستان اور دیگر وہابی ، دیوبندی تںظیمیں ہوگئیں تھیں
اخوان المسلمون اور سعودیہ عرب کے درمیان تعلقات میں دوسری بڑي اور طویل عرصے تک جاری رہنے والی دراڑ 90ء کے عشرے میں اس وقت پڑی جب کویت پر عراق کے قبضے کے بعد امریکی فوجیں بڑی تعداد میں عرب خطے میں آئیں اور سعودیہ عرب میں آکر قیام پذیر ہوئیں ، اس دوراان عراق کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کے خلاف اخوان المسلمون نے عرب خطے کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی بلکہ اخوان المسلمون کی اردنی شاخ نے تو صدام کے شانہ بشانہ امریکی افواج سے لڑنے کا اعلان کیا سعودیہ عرب اس زمانے میں اخوان سے اسقدر ناراض ہوا کہ اس نے طارق رمضان کی خواہش کے مطابق اس کو مدینہ میں دفن ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا یہ وہی زمانہ ہے جب امریکہ کا ایک اور وہابی اتحادی گروپ اسامہ بن لادن کی قیادت میں امریکیوں کی خلیج عرب آمد اور سعودی عرب میں امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد میں تعیناتی کے خلاف ہوگيا اور اس نے امریکہ اور اس کے خطّے میں اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا پوسٹ خلیج وار وہ دور ہے جس میں قطر اس سارے کھیل میں داخل ہوتا ہے اور وہ اخوان سمیت وہابی بنیاد پرست تحریک کے ایک بڑے سیکشن کو گود لے لیتا ہے اور واشنگٹن سے اپنے تعلقات کی ںئی تاریخ رقم کرنے کی طرف سفر کرتا ہے ، جس پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے

Wednesday, September 24, 2014

مڈل ایسٹ - آل سعود ، وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ ، مسلم بنیاد پرستی اور واشنگٹن - پہلا حصّہ


مڈل ایسٹ میں اس وقت جو بھی سماجی - سیاسی حالات ہیں ان میں جہاں عالمی طاقتوں کی حریفانہ کشاکش کا دخل ہے وہیں اس میں عرب ریاستوں کی داخلی و خارجی صورت حال سے ابھرنے والی علاقائی سیاست کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے اور اس ساری صورت حال میں مڈل ایسٹ میں جو مسلم بنیاد پرستی ہے جس کی بنیادوں پر اخوان المسلمون جیسی مسلم بنیاد پرست تحریکیں اور ان کے بطن سے نکلنے والی جہادی فرقہ پرست دھشت گرد تحریکیں خطے کی سیاست کو خاص شکل دیتی ہیں کا جائزہ لینے سے ہم مڈل ایسٹ کے خلفشار کو سمجھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اٹھارویں صدی سے تک عرب خطہ اور عرب ممالک زیادہ سے زیادہ مستشرقین اور کالونیل مہم جوؤں کی دلچسپی کا مرکز تھے اور گریٹ گیم اس زمانے میں زار شاہی روس اور برطانوی سامراج کے درمیان سنٹرل ایشیا کے ملکوں پر کنٹرول کے تناظر میں لڑی جارہی تھی یہ بیسویں صدی تھی جب پہلی جنگ عظیم کے دوران عالمی طاقتیں عرب ممالک اور شمالی افریقہ کے علاقوں پر باہمی کشاکش کا شکار ہوئیں عرب علاقوں میں تیل کی دریافت وہ فیصلہ کن عامل تھا جس نے ایک طرف تو عثمانی سلطنت کا خاتمہ کرنے کی راہ ہموار کی تو دوسری طرف علاقائی سیاست میں عرب علاقے ترکوں کی بنسبت زیادہ فوکس میں آگئے دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سامراج کا سورج ڈھلنا شروع ہوا اور امریکی سامراج کا سورج طلوع ہونا شروع ہوا ، اس کے ساتھ ہی سویت یونین کے ساتھ مغرب کی سرد جنگ کا آغاز بھی ہوگیا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ " نئی امریکی صدی " اور " نئی تیل کی صدی " کا آغاز ساتھ ساتھ ہی ہوا تیل آج بھی سرمایہ داری نظام کا بہت بڑا ستون ہے اور فاچون میگزین نے 2011ء میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دنیا کی 12 سب سے بڑی سرمایہ دار کمپنیوں میں 8 تیل کی کمپنیاں ہیں اور ان میں ایکسون موبل دنیا کی دوسری ، شیورون تیسری اور کانوکوفلپس دنیا کی چوتھی بڑی کمپنی ہے اور یہ تینوں آئل کی کمپنیاں ہیں اور امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل فنانس کی رپورٹ کے مطابق 2008ء میں جب تیل 95 ڈالر فی بیرل تھا تو گلف تعاون کونسل کی ریاستوں کی تیل کی ایکسپورٹ 500 ارب ڈالر تھی جبکہ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق خلیج عرب تعاون کونسل کی ریاستوں کے سرمائے کی باہر کی طرف بہاؤ یعنی آؤٹ فلو تقریبا 530 ارب ڈالر تھا جس میں سے 300 ارب ڈالر امریکہ ، 100 ارب ڈالر یورپ اور 70 بلین ڈالر باقی علاقوں کی طرف جارہے تھے گلف تعاون کونسل میں شامل ریاستوں کے غر ملکی گراس اثاثے 4170 بلین ڈالر جبکہ نیٹ اثاثے 1049 بلین ڈالر تھے (یہ 2002ء سے 2009ء تک کے اعداد و شمار ہیں) گلف تعاون کونسل کی ریاستوں کے ساورن ویلتھ فنڈ میں سرمایہ کاری 51 فیصد ہے اور یہ زیادہ تر پبلک ایکویٹیز پورٹ فیلیوز ، فکسڈ انکم سیکورٹیز ، رئیل اسٹیٹ میں اور بہت کم گلوبل کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی گئی امریکہ کی وفاقی ریاست کی جانب سے جاری کردہ یوایس مالیاتی بانڈز میں پہلے نمبر پر سرمایہ کاری چين کی ہے ، پھر جاپان کا منر آتا ہے اور تیسر نمبر خلیج تعاون کونسل میں شامل ریاستوں کا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں عالمی سرمایہ داری نظام میں امریکہ اور یورپ کے اندر ہونے والی سرمایہ داری میں خلیج عرب کونسل میں شامل ریاستوں کا حصّہ بہت زیادہ ہے ، وہیں پر یہ ریاستیں چین ، جاپان کے بعد امریکی وفاقی حکومت کو سب سے زیادہ قرض دینے والی ریاستیں بھی ہیں امریکہ کے لیے مڈل ایسٹ اسلحے ، فوجی ساز و سامان اور فوجی خدمات کی فراہمی کے حوالے سے بھی بہت ہی اہم خطّہ ہے 1950ء سے لیکر 2014ء تک سعودی عرب امریکی اسلحہ انڈسٹری کا سب سے بڑا گاہک ہے اور امریکی اسلحے کی انڈسٹری جتنا مال فروخت کرتی ہے اس کا 17 فیصد تو سعودی عرب ہی خرید لیتا ہے جبکہ مصر اس کا 3۔7 فیصد خرید کرتا ہے جبکہ 32 فیصد باقی عرب ریاستیں خرید کرتی ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی اسلحہ انڈسٹری کا 57 فیصد مال عرب ریاستیں خرید کرتی ہیں گذشتہ 60 سالوں میں امریکہ نے فوجی کنسٹرکشن کی مد میں بیرون ملک جو کام کیا اس کا 78 فیصد سعودیہ عرب میں کیا امریکی دفاعی آلات و سروسز کی خریداری میں سعودیہ عرب کا پہلا نمبر ہے ، 2007ء سے 2010ء تک اس مد میں سعودیہ عرب نے امریکہ سے 8۔13 ارب ڈالر کی خریداری کی جبکہ یو اے ای اس مد میں 10 اعشاریہ 4 فیصد ، مصر 7 اعشاریہ 8 فیصد اور عراق 5 اعشاریہ 6 فیصد خریداری کرنے والوں میں شامل تھے فوجی ساز و سامان کی مد میں 2010ء میں سعودی عرب نے امریکہ سے 60 ارب ڈالر کے معاہدے کئے اور امریکہ کی ملٹری ساز و سامان کی فروخت کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی ڈیل تھی جبکہ اس سے پہلے فوجی سازو سامان کے فروخت کی سب سے بڑی ڈیل بھی سعودیہ عرب نے 1985ء میں برطانیہ سے کی تھی اور 60 ارب ڈالر کی اس سعودی - امریکی ڈیل کو سودی شاہی خاندان کی بدعنوانی کا سب سے بڑا اسکینڈل بھی قرار دیا جارہا ہے اس ڈیل کے علاوہ 2011ء میں سعودیہ عرب نے 84 ایف18 ایس اے ایگل فائٹنگ طیاروں کی خرید کی جس کی مالیت 29۔4 بلین ڈالر تھی اور اس سے پہلے سعودی عرب کے فلیٹ میں 70 ایف 15 یو ایس اے طیارے پہلے ہی شامل تھے اور مارچ 2011ء میں 256 ارب ڈالر کے ہیلی کاپٹرز خریدنے کا معاہدہ ہوا دیکھا جائے تو 1990ء اور 1991ء میں خلیج فارس میں جو سیکورٹی بحران پیدا ہوا اور سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں کو اپنی سیکورٹی کا ایشو سنگین ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا تو اسی زمانے میں امریکہ سے خلیج عرب ریاستوں کی جانب سے اسلحے کی خریداری میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہم اگر 2004 سے 2007 ء تک امریکہ کے اسلحہ ٹرانسفر معاہدات کو دیکھیں تو ان کا 33 فیصد گلف ریاستوں سے تعلق تھا اور ان معاہدوں کی مالیت 20 ارب ڈالر بنتی تھی اور برطانیہ کے جو کل اسلحہ ٹرانسفر کے معاہدات تھے ان میں 26 ا‏عشاریہ 5 فیصد گلف تعاون کونسل کی ریاستوں کے ساتھ کئے گئے تھے اور ان کی مالیت 17 اعشاریہ 5 ارب ڈالر بنتی تھی ، جبکہ 2008 ء سے 2012ء تک ایسے معاہدے جو امریکہ سے کئے گئے وہ امریکہ کے کہ اسلحہ ٹرانسفر معاہدوں کے 78 فیصد تھے اور اس کی مالیت 92 ارب ڈالر تھی سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر ائی ) کی ایک رپورٹ کہتی ہے سعودی ریاست دنیا کی پانچویں بڑی ریاست ہے اسلحہ امپورٹ کرنے والوں میں اور امریکہ اس کا سب سے بڑا سپلائر ہے اور اس کے بعد برطانیہ ہے اور تیسرے نمبر پر فرانس ہے لیکن برطانیہ اور فرانس اس معاملے میں امریکہ سے بہت پیچھے ہیں جبکہ اسلحہ امپورٹرز میں متحدہ عرب امارات دنیا کا گیارہواں بڑا ملک ہے اور اس کا سب سے بڑا سپلائر بھی امریکہ ہی ہے اور جبکہ تھوڑے پیمانے پر یہ فرانس سے اسلحہ امپورٹ کرتا ہے عرب ریاستوں کے اندر سرمایہ داری کی حرکیات پر نظر رکھنے والے ماہرین میں معروف ماہر علی قادری اپنے مضمون Accumulation by enchrochment in Arab Mashreq in Ray Bush میں لکھتے ہیں فنانس اور ملٹری ازم پر بنیاد رکھنے والے ارتکاز سرمایہ کے عالمی پروسس میں مڈل ایسٹ واضح طور پر سنٹر میں کھڑا ہے بائیں بازو کے لبنانی نژاد مارکسی دانشور گلبرٹ آشکار کا کہنا ہے کہ آئل کارڈ خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سرمایہ داری کی حرکیات میں بہت قیمتی سٹریٹجک اثاثہ ہے اور اس معاملے میں امریکہ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین جس کا سب سے زیادہ تیل انگولا اور سعودی عرب سے آتا ہے اور ان دونوں ملکوں کی سلامتی کی چوکیداری امریکہ کے پاس ہے جبکہ دوسری جانب چین امریکی مالیاتی بانڈز کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس طرح سے دونوں کی معشیتوں کا ایک دوسرے پر بہت انحصار ہے سعودیہ عرب اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو عبدالعزیز السعود کے دور میں یہ بھی کہا گيا کہ امریکہ کے ساتھ عبدالعزیز کی شراکت داری کا مطلب واشنگٹن کی مدد سے اسلامی ٹیکساس بنانا ہے اور اس کو اگر جدید وہابی ٹیکساس کہا جائے تو غلط نہ ہوگا دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لیکر سرد جنگ کے خاتمے تک اور موجودہ حال تک جہاں مڈل ایسٹ کو جدید وہابی خطہ میں بدلنے کا کردار سعودی شاہی خاندان اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے پاس رہا ہے وہیں مڈل ایسٹ کی مختلف الجہات معاشی ، فوجی اور سیاسی پیش رفت کا نگران امریکہ رہا ہے اور اس نگران کے کردار کو ادا کرتے ہوئے اس نے مڈل ایسٹ میں سعودی عرب کے شاہی خاندان اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ کے غالب کردار کو برقرار رکھنے کو ہر طرح سے یقینی بنائے رکھا سعودیہ عرب کی سلطنت کا اعلان 1932 ء میں کیا گیا تھا جبکہ اس نے نجد اور حجاز کو 1925ء میں فتح کرلیا تھا اس ریاست کی تشکیل نے عربی بولنے والی اکثریت کے خطے کے ارتقاء میں خصوصی اور پوری مسلم دنیا کے ارتقاء میں عمومی طور پر جو کردار ادا کیا اس کی اہمیت کو ٹھیک طرح سے آج تک مین سٹریم دھارے میں کبھی بھی بیان نہیں کیا گيا مارکسی عرب دانشور گلبرٹ آشکار اپنی کتاب " دی پیپل وانٹ ۔۔۔۔۔" میں لکھتا ہے
The founding of the kingdom was an event crucial to the later development of the Arabic -speaking region in particular and Islamic world in general.Its importance is widely underestimated, as i have argued everywhere. A few years after the new kingdom was founded , the political and religious influences that it had gained as a result of conquest of Islam,s Holy Places was substantially enhanced by financial means gauranteed it by 1938 dicovery of immense oil wealth .The kingdom that influences and those means to the service of its privileged alliance with its suzerain protector , united states.
The People Want , Radical expolration of the Arab Uprising,p:99 سعودی ریاست نے عربوں اور مسلمانوں کے مرکز یا کشش ثقل کا کنٹرول حاصل کرلیا اور ان دونوں پر اس نے بے پناہ اثر ڈالا اور سعودی عرب کی جو وہابی اسٹبلشمنٹ ہے وہ مائی یمنی کے مطابق ایک جانب تو جوڈیشل سسٹم کو کنٹرول کرتی ہے دوسری جانب اس کا کنٹرول سعودیہ عرب کی کونسل آف سینئر علماء پر ہے جوکہ شرعی امور میں عمومی فتوے جاری کرنے کی مجاز ہے اور دعوت و ارشاد اس کی زمہ داری ہے ، وزرات اسلامی امور ، عالمی نگران برائے مساجد کی کونسل کا سپریم ہیڈکوارٹر اس کے کنٹرول میں ہے اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی نگران کمیٹی بھی اسی کے ماتحت کام کرتی ہے اور اسی کے ماتحت شرعی پولیس کام کرتی ہے جس کا سربراہ حکومتی وزیر ہوتا ہے وہابی اسٹبلشمنٹ سعودی عرب کے اندر اور باہر اس کے تعاون سے چلنے والے ایجوکشن سسٹم کو کنٹرول کرتی ہے اور سعودی تعلیمی اداروں کا نصف نصاب یہ بناتی ہے اور یہ مکّہ ، مدینہ اور ریاض میں قائم اسلامی یونیورسٹیوں کا کنٹرول بھی رکھتی ہے ، وزرات حج اور وزرات اوقاف بھی وہابی اسٹبلشمنٹ کنٹرول کرتی ہے -جبکہ وزرات خزانہ پر بھی اس کا اثر موجود ہے کیونکہ اس کے ماتحت وزرات زکات بھی ہے وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ سعودیہ عرب میں میگزین ، ریڈیو ، ٹی وی اسٹیشنز اور ویب سائٹس پر بھی کنٹرول رکھتی ہے اور سعودی مسلح افواج پر بھی اس کا اثر موجود ہے کیونکہ وہاں اس کو اپنے خیالات کے پھیلاؤ کی اجازت ہے سعودی عرب نے اپنے قیام سے لیکر ابتک اسلامی آئیڈیالوجی کے نام پر سب سے زیادہ بنیاد پرستانہ ، جنونی ، الٹرا رآئٹ پروپیگنڈا کیا ہے گلبرٹ آشکار لکھتا ہے
Saudi kingdom is antithesis of freedom , democracy , equality and women liberation.During cold war , it was a bastion of reactionary resistance to the rise of nationalism and nationalism,s subsequent socialist leaning radicalisation in alliance with USSR.Furthermore , it has served as a regional relay for neoliberal counteroffensive, has actively fostered corruption in its zone of influences , and acted as choirmaster for the subset of near Eastern Arab states aligned with Washington
. گلبرٹ آشکار کے خیال میں یہ امریکی سرپرستی تھی جس کی وجہ سے سعودیہ شاہی خاندان اور وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ مڈل ایسٹ میں عرب -اسرائيل جنگ 1948ء سے لیکر ابتک اٹھنے والے مختلف خارجی و داخلی خلفشاروں کے باوجود اپنی حکومت اور ریاست پر کنٹرول بچانے میں کامیاب ہوگیا گلبرٹ آشکار بتاتا ہے کہ یہ برطانیہ اور امریکی لے پالکی کا نتیجہ ہے جو نہ صرف سعودیہ عرب کو بچاگئے بلکہ اس نے کویت کو عراق سے الگ ملک بنانے ، عراقی جارجیت سے اسے بچآئے رکھنے اور عرب بدوی ریاستوں کے اتحاد پر مبنی متحدہ عرب امارات کی تشکیل کو ممکن بنایا اور اس کے خیال میں یہ جو خلیج تعاون کونسل کی ریاستیں ہیں ان کی تشکیل اور پروان چڑھانے میں برطانوی اور امریکی پروٹیکشن اور سرپرستی کا بنیادی ہاتھ ہے اور گلبرٹ آشکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلی گلف وار جو امریکہ نے 90ء میں شروع کی وہ اصل میں نیو ورلڈ آڈر کا فیصلہ کن لمحہ تھا اور گلبرٹ آشکار کہتا ہے
Obviously , the massive US military intervention in the Gulf region in 1990- 01 , involving the deployment of more than one million troops and impressive naval and air fleets, was exclusively motivated by the oil factor ,as was 2003 US occupution of Iraq.No convincing explanation that dose not turn on a direct or indirect relationship to oil has been put forward by any those who brand accounts based on oil factor "simpilistic" . امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے گلف ریاستوں کی سرپرستی کے سارے دور میں ان ریاستوں کی بادشاہتوں اور آمریتوں کی حمائت کی اور ان کا باہمی اتحاد پورے مڈل ایسٹ میں بالعموم اور گلف ریاستوں میں بالخصوص لبرل ، جمہوری اقدار کے لیے اینٹی تھیسس ثابت ہوا اور ان غیر جمہوری آمریتوں اور بادشاہتوں کا تحفظ اور ان کی سرپرستی امریکہ اور یورپ یہ کہہ کر کرتے رہے کہ اصل میں عرب اسلامی کلچر اور عربوں کا مذھب اسلام ڈیموکریسی کے خلاف ہے اور اس کا کلچر خلافت و امارت کے ساتھ ہی فٹ بیٹھتا ہے آصف بیات ایک اور عرب دانشور اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے
Question is not whether in Islam is or not compatiable with democracy or by extention modernity (however understood),but rather under what conditions Muslims can make them compatiable .Because there is nothing intrinsic in Islam , and for that matter any other religion, which makes them inkerently democratic or undemocratic .We the social agents , determine the inclusive or authoritarian thrust of religion.
گلف عرب آمرانہ اور بادشاہانہ حکومتیں عرب عوام کے جمہوری اور بنیادی حقوق کو غصب ایک طرف تو اسلام کے نام پر بدترین رجعت پرستانہ وہابی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر کرتی رہی ہیں تو دوسری طرف ان کو یہ غصب حقوق کا کام اور جمہوریت کش اقدامات کا موقعہ امریکہ اور مغرب نے فراہم کیا ہے