پاکستان کی سیاسی تاریخ کے موجودہ دور کا احوال جب بھی رقم کیا جائے گا تو مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز سے دھکا دینے والی میاں نواز شریف کی حکومت ہی تھی اور نواز شریف اپنی کم بصیرتی کے باعث اپنے ساتھ کھڑی ہوجانے والی اپوزیشن کے تعاون کے غلط مطلب نکال کر گیند کو پی ٹی آئی کی کورٹ میں پھینکنے کے مرتکب ہوگئے
پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی جانب سے اپنے غیر لچک دار موقف سے دستبردار ہوکر جوڈیشل کمیشن کے قیام اور عدالت میں جانے کے فیصلے کو مسلم لیگ نواز نے ان کی کمزوری خیال کیا اور ان کے خلاف انتہائی جارحانہ پریس کانفرنسز اور اشتہاری مہم چلائی اور عمران خان کے بارے ميں جو لب و لہجہ مسلم لیگ نواز کے چھوٹے بڑے قائد نے اختیار کیا ، اس نے عمران خان کو " تختہ یہ تختہ والی " سیاست کے بہت قریب کردیا ہے اور اس سارے مںظر نامے میں پارلیمنٹ کا کردار کچھ بھی نہیں رہا ہے اور سیاست وہآں سے نکل کر گلی محلوں کی زینت بن گئی ہے
پی ٹی آئی کے فیصل آباد میں احتجاج اور ملک بھر میں یوم سوگ کے بعد یوں لگنے لگا ہے جیسے پاکستان کی سیاست وابپس 70ء کی دھائي میں چلی گئی ہو اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی تجربہ کار سیاسی جماعتوں کی بہت بڑی ناکامی ہوگی جو سیاست کو واپس 90ء کی دھائی میں جانے دینے کی اجازت نہیں دیتے تھے جبکہ سیاست اس سے بھی پیچھے 70 ء کی دھائی میں چلی گئی ہے
فیصل آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن کی ہلاکت اور آٹھ سے زیادہ ورکروں کے زخمی ہونے کے واقعات سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ مسلم لیگ نواز نے 12 اکتوبر 1999ء سے لیکر 2008ء تک مشرف آمریت کے دوران کوئی سبق نہیں سیکها اور اس نے پنجاب میں اپنی اپوزیشن کرنے والوں کے لئے سیاست کو آج بهی بہت بڑا جرم تصور کیا ہوا ہے
فیصل آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی لاشیں گرواکر یہ سمجها گیا کہ وہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو ڈمپ کردیں گے لیکن اس طرح کی لائن اختیار کرکے پی ٹی آئی کی ایجی ٹیشن کی سیاست کو درپیش کافی مشکلات میں کمی کردی گئی ہے اور فیصل آباد بند کرنے کا ٹاسک پی ٹی آئی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس ٹاکرے نے بطور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قد اور تاثر کو اور طاقتور کردیا ہے اور پنجاب کے اندر مسلم لیگ کی اربن سیاسی پاور کو چیلنج کرنے کی پی ٹی آئی کی یہ کامیابی چهوٹی کامیابی نہیں ہے
فیصل آباد میں ورکرز کی ہلاکت کے بعد شام کو اور اگلے دن یوم سوگ کے موقعہ پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں نے یہ متھ بھی توڑ دی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس سٹریٹ پاور کی کمی ہے اور وہ ایجی ٹیشن کی سیاست نہیں کرسکتی
ایک اور متھ یا غلط فہمی بھی پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں جو بنی تھی وہ ٹوٹتی نظر آرہی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف احتجاجی تحریک میں شاید محنت کش طبقہ اور کسانوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرپائے گی
مسلم لیگ نواز پی ٹی آئی کے خلاف اسی طرح سے آہنی هاتهوں اور میڈیا ٹرائل کے هتهیار استعمال کررہی ہے جیسے اس نے 88ء سے لیکر 99ء تک پی پی پی اور نواز شریف کے خلاف استعمال کیے تهے لیکن اس وقت فرق یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ساته سپائی ماسٹر اور نادیدہ فرشتے اس طرح نہیں کهڑے جیسے وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف کهڑے تهے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف میڈیا اس طرح سے فلی کنٹرولڈ ہے جیسے یہ پی پی پی کے خلاف تها، آج عوامی شعور کو پراگندہ کرنے کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے میدان میں بازی بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے هاته ہے
ایک اور فرق ماقبل مشرف اور مابعد مشرف دور میں یہ ہے کہ ماقبل مشرف دور میں پاکستان کی بالعموم اور پنجاب کی بالخصوص مڈل کلاس جس کی زیادہ جڑیں صنعتی سرمایہ داری میں تهی زیادہ تر نواز شریف کے ساته تهی اور آج بهی کم از کم یہ صورت حال ہے لیکن اسی دوران سروسز سیکٹر سے وابستہ ایک اور پرت پنجاب میں پروفیشنل مڈل کلاس کے طور پر ابهری اور یہ پرت بجا طور پر آج پی ٹی آئی کے ساته ہے اور سیاست میں تبدیلی کے بارے میں اس کے جو خیالات ہیں اسے اگر کہیں جگہ ملی ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے اور پی پی پی میں بلاول بهٹو اس سوچ کے لئے جگہ پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن ان کو آصف علی زرداری کی پرانی سوچ کی روکاوٹ کا سامنا ہے ، تو پنجاب کے اربن سنٹرز سے ابهرنے والی اس نئی اربن پروفیشنل کلاس نے بهی مسلم لیگ کو چیلنج دیا ہے
پنجاب میں پروفیشنل مڈل کلاس کی غالب اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف کا رخ کرلیا ہے اور یہ غالب اکثریت پاکستان کی پاور پالیٹکس میں اپنے مقام کے تعین کے لیے کوشش کررہی ہے اور اس کلاس کے ریڈیکل ازم کا کوئی توڑ مسلم لیگ نواز کے پاس فی الححال نظر نہیں آرہا ، اس نے اس کلاس کی سب سے بڑی خواہش میرٹ پر نوکریاں اور عہدے دئے جانے کا مطالبے پر کوئی خاص توجہ نہیں کی ہے
پاکستان تحریک انصاف میں نوجوانوں میں سے سب سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو ڈگری ہولڈر ہیں یا ہنر مند ہیں لیکن بے روزگاری کا شکار ہیں اور ان کے لیے مسلم لیگ نواز سمیت روائتی پارٹیوں کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے ، یہ نوجوان فیورٹ ازم ، سفارش ، پرچی اور رشوت کے چلن سے بہت تنگ ہیں ، عمران خان نے ان نوجوانوں کو تبدیلی کا خواب دکھایا ہے ، اگرچہ مسلم لیگ نواز نے اس بے روزگار نوجوان طبقے کو رام کرنے کے لیے وزیر اعظم آسان قرضہ سکیم ، وزیراعلی کی روزگار سکیم ، سٹوڈنٹ لان سکیم سمیت چند پروگرام دئے ہیں لیکن ان کی محدودیت اور انتہائی سخت شرائط نے بے روزگار نوجوانوں کی بے چينی میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور نوجوانوں میں ریڈیکلائزیشن بڑھتی جارہی ہے
مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں اپنے خلاف فضا اس لیے بهی زیادہ ناسازگار لگ رہی ہے کہ اس وقت پنجاب میں کسانوں کی حالت پتلی ہوگئی ہے ، پہلے کسانوں کو پهٹی کی قیمت نہ ملی ، پهر دهان کی فصل پٹی اور اس کے بعد گنے کی فصل پٹ گئی اور اب جب گندم کی کاشت کا وقت قریب ہے تو کهاد اور دیگر مداخل زراعت اس کی کمر توڑ رہے ہیں ، فیصل آباد ، لاہور ، ملتان سمیت پنجاب کے اندر جو انڈسٹری ہے اس کو گیس نہیں مل رہی ، صرف فیصل آباد میں 35 لاکه مزدور بےروزگار ہے اس نے مسلم لیگ نواز کے خلاف جزو وقتی اور کاریگر محنت کش طبقے کے اندر سخت غصہ پیدا کیا ہوا ہے ، گهریلو صارف بهی بجلی کے بلوں میں اضافے اور گیس کی نایابی سے پریشان نظر آتا ہے
سمال و میڈیم مینوفیکچرر بهی مسلم لیگ نواز کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے اور اس وقت ماضی کے برعکس مسلم لیگ نواز کے ساته بڑا مینوفیکچرر اور سرمایہ دار ، بڑے تاجر کهڑے ہیں جبکہ چهوٹا دکاندار جس پر سنی اتحاد کونسل ، پاکستان سنی تحریک جیسی تنظیمیں اثر انداز ہوتی ہیں بٹ گیا ہے اور اسی وجہ سے مسلم لیگ کو پی پی پی کے خلاف جو حلقے حمایت کے لئے دستیاب تهے ان میں بہت سے حلقے تو از کے مدمقابل ہیں
پی پی پی کے خلاف میاں نواز شریف ملاوں کو متحد کرکے لے آتے تهے خاص طور پر بریلوی مولوی اور پیر ان کے اردگرد اکٹهے ہوجایا کرتے تهے لیکن اس مرتبہ پی ٹی آئی کو جہاں بریلوی ماڈرن ریفارمسٹ پاور کی حامل پاکستان عوامی تحریک کی حمائت حاصل ہے وہیں اسے بریلوی آرتهوڈوکس تنظیموں کے اتحاد سنی اتحاد کونسل اور یہاں تک کہ بریلویوں کی سخت گیر تنظیم پاکستان سنی تحریک کی حمایت بهی حاصل ہے جبکہ میاں نواز شریف اس مرتبہ لاہور سے جامعہ نعمیہ اور حزب الاحناف اور جامعہ نظامیہ جیسے اہم بریلوی مدرسوں سے بهی حمائت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور شیعہ آرتهوڈوکس تو ان سے فاصلہ پہلے ہی رکهے ہوئے ہے ، جبکہ اس دوران میاں نواز شریف جے یوآئی ، سپاہ صحابہ کی حمائت لے پائے جس کا ان کو پنجاب میں فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہی ہوا ہے اور مسلم لیگ نواز پر صوفی سنیوں ، شیعہ ، کرسچن ، احمدیوں کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والی تنظیموں کی سرپرستی کا الزام لگا ہے اور آج پنجاب میں ان کے بریلوی ووٹ بینک میں خاصی کمی دیکهنے کو ملی ہے تو یہ ہے وہ منظر نامہ جس میں مسلم لیگ نواز کو ایک طرح سے تنہائی کا سامنا ہے اور پنجاب کے اربن سنٹرز بهی اس کے هاته سے پهسلتے دکهائی دے رہے ہیں اور ریاست کے اداروں کے اندر بهی جو غیر منتخب هئیت مقتدرہ کے ادارے ہیں وہاں بهی نون لیگ کی حالت پتلی ہے اور اس کی اندر سے حالت بہت بری ہے
مسلم لیگ نواز کی اپنی ایک اور اندرونی خامی یہ ہے کہ اس وقت اس پارٹی کے اندر کئی ایک لوگ ایسے ہیں جو میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی پارٹی اور حکومتی ورکنگ سے انتہائی سخت ناراض ہیں ، پنجاب کے اندر نواز شریف کی کبینٹ اور کچن کبینٹ کے اسحاق ڈار ، پرویز رشید ، خواجہ آصف سے چودھری نثار علی خاں کے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہيں اور زوالفقار کھوسہ تو باقاعدہ ایک فارورڈ بلاک کا اعلان کرچکے ہیں اور نواز شریف و شہباز شریف کی مطلق العنان سیاست سے تنگ مسلم لیگیوں کا کھوسہ کے ساتھ کھڑے ہونا یقینی ہے
مسلم لیگ نواز سے سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے سیاسی زمیندار اشراف خانوادوں کی ناراضگی پرانی ہے ، وہ 85ء میں طاقت کا توازن سنٹرل پنجاب کی صنعتی اور تاجر سیاسی کمیونٹی کے لوگوں کے حق میں ہوجانے کو فراموش نہیں کرسکے اور یہ اشرافیہ پہلے ہمیں مسلم لیگ ق اور پی پی پی کے ساتھ جڑی نظر آرہی تھی مگر اب ان کے بہت سے لوگ پی ٹی آئی کا رخ کررہے ہیں اور یقینی بات ہے کہ سندھ سے بھی ایسے گھرانوں کو ساتھ ملانے کی کوشش جاری ہے اور میرے نزدیک شاہ محمود قریشی زمیندار اشرافیہ کی طاقتور لابی کے پی ٹی آئی میں ترجمان ہیں اور یہ سنٹرل و جنوبی پنجاب کے مڈل کلاس کسان کی لابی کی ترجمانی بھی کررہے ہیں اور سنٹرل پنجاب و جنوبی پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے اندر پروفیشنل مڈل کلاس ، میڈیم مینوفیکچرر لابی کے بعد اگر کوئی طاقتور لابی موجود ہے تو وہ بڑے اور متوسط طبقے کی کسان لابی ہے جبکہ اس پارٹی میں ابھی تک بے روزگار نوجوان اور مزدور ، غریب کسان کی نمائندگی کرنے والی مںظم لابی نہیں ہے اگرچہ کسی حد تک اعجاز چودھری ان کی نمائندگی کررہے ہیں لیکن مزدوروں اور بے روزگار نوجوانوں کے پاس اس وقت اور کوئی ریڈیکل پارٹی کا آپشن موجود نہیں ہے تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر ہی جدوجہد کررہے ہیں
میں اس لئے کہتا ہوں کہ یہ مسلم لیگ نواز کا پنجاب میں آخری دور حکومت ہے اور اس کے تاش کے پتوں کی طرح بکهرنے کا وقت بہت قریب آن پہنچا ہے اور پاکستان کے اندر سنٹر رائٹ کی سب سے بڑی نمائیندہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے اور پی پی پی کو اگر سنٹر لیفٹ کی سب سے بڑی پارٹی کے ٹائٹل کو اپنے پاس رکهنا ہے تو اسے پنجاب کی سیاست کی حرکیات کے مطابق اپنی سیاست کو ڈهالنا ہوگا اور یہ کم از کم نواز لیگ سے مفاہمت اور اپوزیشن کی اہوزیشن نہیں ہونی چاہئیے جس نے پی پی پی کو سمندر سے ندی بنادیا ہے
No comments:
Post a Comment