Tuesday, September 17, 2013

بھولی بسری یادیں

جاوید شاہیں نے اپنی نظموں اور غزلوں کے ایک انتخاب کا عنوان "دیر سے نکلنے والا دن "رکھا تھا-میں نے اپنے اسٹڈی روم پر پھر سے پینٹ کرایا تو کتابوں کی بھی جھاڑ پونچھ کی-اس دوران ایک کونے سے یہ کتاب بھی نکل آئی-یاد کی ایک لہر بھی ساتھ ساتھ چلی آئی-شام نگر لاہور میں جاوید شاہیں کی رہائش گاہ پر منّو بھائی،مرتضی برلاس اور کئی ایک دوست اکٹھے ہوتے تھے-یہ بہت رنگین محفل ہوا کرتی تھی-ایسی ہی ایک محفل شام میں میرا جانا ہوا تھا-جاوید شاہیں نے میرے حالیہ قیام بارے پوچھا تھا تو جب میں نے کہا خانیوال تو نہ صرف جاوید شاہیں چونکے تھے بلکہ مرتضی برلاس بھی چونک گئے تھے-مرتضی برلاس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری تھی-جس کو یاد کرکے انہوں نے یہ آہ بھری وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے-ابھی حال ہی میں اس ذات کی پہلی برسی تھی اور میں اتفاق سے وہاں نہیں تھا بلکہ اس ہستی کے آبائی شہر لاڑکانہ میں تھا-وہاں مجھے اس ہستی کے ایک قریبی عزیز مل گئے اور انہوں نے انکشاف کیا کہ کیسے دو عاشقان پاک طینت را ایک دوسرے کے نہ ہوسکے-بحرحال میں اپنے پڑھنے والوں کو اپنی نثری ثقالت سے بور نہیں کرنا چاہتا بلکہ جاوید شاہیں کی کچھ غزلوں کو یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس یادگیری کا کوئی حق ادا ہوسکے- دنیا میں رہ کے ذات سے دنیا نکال دوں سوچا ہے یہ بھی آخری کانٹا نکال دوں آساں ہو سب کے واسطے پہچاننا مجھے چہرے میں جو ہے دوسرا چہرہ نکال دوں یا چل پڑوں سفر پہ گرہ ڈر کی کھول کر یا پھر سفر سے پورا ہی رستہ نکال دوں ملنا ملانا اس سے تو یونہی چلتا رہے بس درمیان سے کوئی وعدہ نکال دوں جتنی ہیں خواہشیں انہیں دھو ڈالوں ایک بار کچا ہے ان میں رنگ جو سارا نکال دوں اک تازہ عہد کے لیے ان ماہ و سال سے ماضی نکالوں حال کہ فردا نکال دوں ویسے تو ٹھیک ٹھاک ہے پوشاک زندگی اک یاد کا پھٹا ہوا ٹکڑا نکال دوں چمٹا ہے بادباں سے جو طوفاں اتار دوں بیٹھا ہوا سفینے میں دریا نکال دوں دیکھا نہ جائے دیکھنا پڑتا ہے جو یہاں بہتر ہے شاہیں چشم تماشا نکال دوں موج بلا ٹھہر گئی ایک عذاب رہ گیا عمر گزارنے کو اب شہر خراب رہ گیا چلنے سے پہلے شب رخت جو دیکھا کھول کر رات کے طاق پر کسی صبح کا خواب رہ گیا رنگ شفق اتر گیا شام کے رخ سے کس طرح راہ بہار میں کہاں تھک کے گلاب رہ گیا چہرے کی سب عبارتیں چہرے ہی میں چھپی ہیں آنکھ کے انتظار میں حرف کتاب رہ گیا سننے سے پہلے اس کی بات جانے بکھر گئی کہاں تیز ہواؤں میں کہیں میرا جواب رہ گیا دریا جو چپ ہے اس قدر دیتا نہیں ہے کچھ خبر پانی ہے یا کہ سطح پر صرف سراب رہ گیا دن جو گذر رہے ہیں اب،سادہ ورق ہیں سب کے سب لکھنا ہے میں نے ان پہ کب،کون سا باب رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دھکیلا اس قدر دیوار کی طرف تنگ آکے ہاتھ اٹھ گیا تلوار کی طرف اک آنکھ تھی کہ ہر گھڑی تھی نقد جیب پر اور دوسری گرمئی بازار کی طرف لیٹے تھے سائے گھاس پر اور ان کے پاس ہی سستارہی تھی دھوپ بھی اشجار کی طرف دھڑکا لئے پسند کا اور ناپسند کا تکتی ہیں چیزیں چشم خریدار کی طرف اک جھوٹ اس سے بولا تھااس نے پکڑلیا پھر کیسے میں دیکھتا رخ یار کی طرف میلہ ہے قتل عام کا شاہیں لگا ہوا اٹھیئے کہ تھوڑی دیر سیر کریں دار کی طرف رنگ بہار کیسے اڑا صحن باغ سے پہلے زرا زرا کسی کونے سے کم ہوا شاہیں خمار خوں تھا کہ زر کا خمار تھا آخر بدن میں خار چبھونے سے کم ہوا پھر یون ہوا کہ جینے کا بڑھتا ہوا عذاب خود سے زرا سا بے خبر ہونے سے کم ہوا اک پختہ داغ رات دن دھونے کم ہوا دل پر عجیب بوجھ تھا رونے سے کم ہوا دے رہا ہے کام وہ ایسا میں کرنے سے رہا روز اوروں کے لیے اجرت پہ مرنے سے رہا جانے والے پہ یہ کیا تہمت لگا بیٹھے ہو تم اب تمہارے گھر میں کوئی پاؤں دھرنے سے رہا پاس ہو زر کس قدر تو ہے یہ اک وجہ سکوں کچھ تعلق اس کا بھی نیت کے بھرنے سے رہا بات ہے چوری کی یوں ،اس کی صفائی میں نہ بول رنگ اس کے ہاتھ سے ایسے اترنے سے رہا میں مقابل ہوں تو بہتر ہے کوئی طوفاں اٹھا یہ جو ہے تیری ہوا اس میں بکھرنے سے رہا بےخبر خود سے ہے اس درجہ وہ حسن بے نیاز لگ رہا ہے میرے ہاتھوں اب سنورنے سے رہا روکتا ہے کون تجھ کو آزما کر دیکھ لے تیرے کہنے سے کوئی لمحہ ٹھہرنے سے رہا عشق میں اس بار شاہیں میں نے ڈالے ہیں گواہ طے ہوا ہے جو وہ اب اس سے مکرنے سے رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خلوتوں سے نکلا ہے یہ جہان تھوڑا سا اب مجھے سمجھتا ہے رازدان تھوڑا سا اک بڑی سیاہی کا معجزہ ہے دھل جانا اب کسی چکہ پر ہے بس نشان تھوڑا سا ہجرتوں کے موسم میں ہر مکاں ہے اک ڈر میں اپنے ہی مکیں سے بے اماں تھوڑا سا دیکھتے ہی دم بھر میں دھوپ بھر گئی میں اک طرف سے ٹیڑھا ہے سائبان تھوڑا سا جب بچا نہیں باقی ڈھانپنے کو سر اپنا کھینچنا ہی پڑنا ہے آسمان تھوڑا سا عین وسط دریا میں جھک گیا ہے اک جانب تیزرو سفینے کا بادبان تھوڑا سا اک گمان کی صورت کب سے تیرا کوئی میرے اور اس کے ہے درمیان تھوڑا سا کچھ غلط ہے بستی کی طرز ساخت میں شاہیں بام و در سے باہر ہے ہر مکان تھوڑا سا اس غزل کے بعد جاوید شاہیں کی اور غزلوں کا زکر طبعیت کی پھر کبھی روانی پر موقوف کرتا ہوں-جاوید شاہیں کی یاد آج ٹوٹ کر آئی اور میں خانیوال ضلع کونسل کی عمارت کے اس کمرے کو دیکھ کر بھی آگیاجہاں کبھی جاوید شاہیں چیف آفیسر بن کر آئے تھے اور امروہہ کے صاحب طرز شاعر مرتضی برلاس ڈی سی بنکر آئے تھے-اور ڈاکٹر اعزاز افضل نیسلے میں جی ایم تھے-ایسے میں ضلع حصار تحصیل بھوانی میں جنم لینے والے شاعر قدیر طاہر کا کلام "ملال " کے نام سے چھپا تھا اور اس کا پیش لفظ ڈاکٹر افضل اعزاز نے لکھا تھا-جو میرے سامنے ہے-قدیر طاہر اسی ملال کے ساتھ قبر میں چلے گئے کہ کیسے ممکن تھا کسی شخص کو اپنا کرتے آئینہ لوگ تھے کیا لوگوں سے دھوکہ کرتے اور جاوید شاہیں بھی عمر بھر کے ملال کے ساتھ یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے یہ اس نے عمر بھر کیسے ملال میں رکھا کہ میرے عہد کو عہد زوال میں رکھا میں مانتا ہوں محبت میں بھی خیانت کی خیال اور اک اس کے خیال میں رکھا ملا جو اس سے ضروری تھی بدگمانی بھی کہیں پہ داغ سا ماہ وصال میں رکھا بنانی شب بھی ضروری تھی پر نہ اتنی دراز بہت ہی فاصلہ صبح جمال میں رکھا

Saturday, July 27, 2013

خطرے کی گھنٹی

پاکستان پیپلزپارٹی نے صدراتی انتخاب کا بائیکاٹ کردیا اور اس معاملے میں اس کا ساتھ دینے والوں میں صوبہ خبیر پختوں خواہ ،بلوچستان ،کراچی سمیت دیگر علاقوں میں پشتونوں کی اکثریت کی نمائندگی کرنے والی جماعت اے این پی اور بلوچوں کی ایک نمائندہ جماعت بی این پی عوامی بھی شامل ہے- پی پی پی کے اعتدال پسند جمہوریت پسند رہنماء جو اس صدراتی الیکشن میں پی پی پی کے امیدوار بھی تھے انہوں نے اس بائیکاٹ کے فیصلے کے جواز پر روشنی ڈالتے ہوئے جو باتیں کیں وہ خطرے کی گھنٹی ہیں-انہوں نے کہا کہ "صدراتی الیکشن کا شیڈول سپریم کورٹ کی جانب سے تبدیل کرنا اور اس کیس کے متاثرہ فریق کو نوٹس جاری کئے بنا فیصلہ سنانا عدلیہ ،ایکشن کمیشن اور مسلم لیگ نواز کے گٹھ جوڑ کا ثبوت ہے-یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جنرل الیکشن میں نواز لیگ کی جیت ملی بھگت کا نتیجہ تھی-اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازش ہورہی ہے اور اس کے سائے وفاق پر بہت برے اثرات مرتب کریں گے" پی پی پی اور اس کا ساتھ دینے والی جماعتوں کی جانب سے صدراتی الیکشن کے رکنے کا سوال خارج از امکان ہے-اور اس فیصلے سے ممنون حسین کے جیت جانے کے امکانات بھی کم نہیں ہوئے ہیں-لیکن اس فیصلے سے سندھی،پشتون ،سرائیکی اور بلوچ آبادی کے ایک حصّے میں بے چینی ضرور پیدا ہوئی ہے-اور بہت سے نازک اور حساس ایشوز ایک مرتبہ پھر سے سراٹھانے جارہے ہیں- مسلم لیگ نواز کی موجودہ سیاست نے ایک طرف تو صوبوں کی خود مختاری اور اٹھارویں ترمیم سے ان کو ملنے والے اختیارات کو سلب کئے جانے کا خدشہ پیدا کرڈالا ہے-کیونکہ اس وقت وفاقی کابینہ میں پشتون،سندھی ،بلوچ اور سرائيکی آبادی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے-وسطی پنجاب کے غلبے نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے-پاور پالیسی بناتے ہوئے حکومت نے جیسے خیبر پختون خوا اور سندھ کو نظرانداز کیا اور مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل میں تاخیر کی اور اس کے اجلاس بلانے میں لیت ولعل سے کام لیا اس نے بھی شبہات میں اضافہ کیا- مسلم لیگ نواز کی حکومت کی جانب سے سرائیکستان کو اتنی توجہ نہ ملنا جتنی توجہ یہ پچھلے دور میں دے رہی تھی تھی بھی ایک پریشان کن معاملہ اس خطے کے لوگوں کے لیے بنا ہوا ہے- پنجاب حکومت کے انرجی بورڈ کی جانب سے چولستان کے اندر دو بجلی گھروں کے قیام کے لیے جو سولر انرجی سے چلائیں جائیں گے چولستان کی پانچ ہزار ایکڑ زمین محض ایک ڈالر فی ایکڑ کے حساب سے ایک چینی کمپنی کو بیس سال کی لیز پر دینے کا فیصلہ کیا ہے-اور یہ دو بجلی گھر 322 کلو واٹ بجلی پیدا کریں گے جو نیشنل گرڈ میں شامل کردی جائے گی-اسی طرح سے مظفر گڑھ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ایک منصوبے کے لیے چینی کمپنی کو زمین دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے-یہ بات تو طے ہے چولستان کی 5000 ہزار ایکڑ زمین کو لیز پر دئے جانے کا یہ فیصلہ شہباز شریف نے خود ہی کرلیا ہے اور اس حوالے سے جولستانیوں کی رائے نہیں لی گئی ہے-دوسری بات یہ ہے کہ سولر پینل اور سولر بیٹریز و سولر سیل تیار کرنے کی فیکٹری فیصل آباد میں لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے-ایک کنسورشیم یہ فیکڑی لگانے جارہا ہے-یہ وہ منصوبہ تھا جس سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہونے کا امکان تھا اس منصوبے کو سرائیکی خطے میں نہیں لایا گیا-بلکہ اس خطے کی زمینوں کو ٹوکن لیز پر دےکر اس کو اربوں روپے کا چونا لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے- پھر ابھی تک سرائیکی خطے میں جو پاور پلانٹس موجود ہیں ان کی بجلی پر اصولی طور پر پہلا حق سرائیکی خطے کا ہونا تھا مگر ایسا نہیں ہوا-بلکہ جو اس خطے کا حصّہ بنتا ہے اس سے بجلی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو دی جارہی ہے-اب جو پاور پلانٹس اس خطے میں بننے جارہے ہیں ان کی بجلی پر پہلا حق اس خطے کے لوگوں کا ہونے کا کوئی امکان ںظر نہیں آرہا ہے-جبکہ یہ بات بھی طے ہے کہ زیادہ ہیٹ اور زیادہ آلودگی پھیلانے والے بجلی کے منصوبے سرائیکی خطے میں بنائے جارہے ہیں-جس سے ماحولیاتی تبدیلیاں اس خطے کو براہ راست متاثر کریں گی- مسلم لیگ نواز لوکل گورنمنٹ کا جو بل پنجاب اسمبلی میں لےکر آئی ہے اس میں اضلاع کو پرانے نظام میں منتقل ہونے والے بہت سے اختیارات واپس لے لئے گئے ہیں اور اس سے سب سے زیادہ اثر سرائیکی خطے کے اضلاع میں متاثر ہوں گے-یہ بل ایک ڈرون اٹیک ہے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے تصور پر-اس سے سرائیکی خطے کے لوگوں میں احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا- میں جب یا کالم لکھنے بیٹھا تھا تو میرے ای میل باکس مین بہاول پور کے ایک قاری نے یہ خبر بھیجی کہ نواب آف بہاول پور سر صادق کے آخری بیٹے رشید الحسن بہاول پور ملٹری کمبائنڈ ہسپتال میں انتقال کرگئے-ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد کا انتقال وکٹوریہ ہسپتال بہاول پور کے ڈاکٹرز کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے-ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہاول پور سے تعلق رکھنے والے ایم این اے بلیغ الرحمان اور ایم پی اے چنڑ کو موبائل سے کئی مرتبہ کال کی مگر کسی نے کال کا جواب نہیں دیا-یہ ایک رائل فیملی کے خاندان کے ساتھ ہوا جس کے آباء نے وکٹوریہ ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی-اس سے ہم اندازا لگاسکتے ہیں کہ عام آدمی کا وہاں کیا حشر ہوتا ہوگا- جنوبی پنجاب میں لوگ بجلی کی غیراعلانیہ طویل بندش اور ٹرانسفارمرز کے جل جانے اور کئی کئی دن بجلی کی سپلائی بحال نہ ہونے پر شدید غم وغصّے کا شکار ہیں-ان کی غربت اور مشکلات میں مسلم لیگ نواز کی مہنگائی تیز کرنے والی پالیسیوں نے مزید اضافہ کرڈالا ہے-اور ایسے میں ہمارے نیشنل پریس اور الیکٹرانک میڈیا میں سوائے ملتان سے شایع ہونے والے اخبارات اور ان میں بھی خبریں ملتان میں زیادہ اس خطے کی محرومیوں کے بارے میں کوئی آواز بلند نہیں ہورہی-میں کہتا ہوں اگر پانچ ہزار ایکڑ زمین بلوچستان یا سندھ میں ایک ڈالر فی ایکڑ کے عوض غیر ملکی کمپنی کو لیز پر دئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہوتا تو کیا ایسی ہی خاموشی ہوتی جیسی اب نظر آرہی ہے-یہ مجرمانہ خاموشی اس خطے کے لوگوں کو راست اقدام کی جانب تو دھکیلے گی لیکن ساتھ ساتھ اس خطے کے وفاق کے ساتھ اور سنٹرل پنجاب کے ساتھ رشتے اور کمزور کرے گی- مسلم ليگ نواز نے برطانیہ سے ایک گورنر امپورٹ کرکے اس خطے میں عوام کے اندر مسلم ليگ نواز کی جڑیں بنانے کے لیے دن رات جو محنت کی اس محنت کو کھوہ کھاتے میں ڈالنے کا تاثر پیدا کردیا ہے-اور یہ بھی ایک بہت منفی پیغام دیا گیا ہے- میں اکثر کہتا رہا ہوں کہ اس خطے کے نوجوانوں کو اپنے اور اس خطے میں بسنے والے باشندوں کے حقوق اور ان کے وسائل کو لوٹ مار سے محفوظ بنانے کے لیے سرمایہ داری کے موجودہ ماڈل کو چیلنچ کرنے کی اشد ضرورت ہے-پاکستان کے مظلوم خطوں کو اپنے وسائل کی کارپوریٹ لوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے باہمی اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے-سرائیکی خطے میں آباد لوگوں کو اجتماعی طاقت ور مزاحمت دکھانے کی ضرورت ہے اور چولستان میں کمیونٹی سکولوں کی بندش کا خطرہ،چولسان کی 5000 ہزار ایکٹر زمین کی لیز کا ایشو اس خطے کی عوام کے لیے ٹیسٹ کیس ہیں-یہ یہاں کی سول سوسائٹی،بارز،سرائیکی کاز سے جڑی جماعتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ کیسے اس زیادتی کے خلاف احتجاج منظم کرتے ہیں اور زمینوں کی بندر بانٹ کو روکتے ہیں-

Wednesday, July 24, 2013

سرائیکستان کے باشندوں کی آزادی کا سوال

ایڈورڈ سعید فلسطینی نژاد امریکہ میں ایک آزاد اور باغی دانشور کے طور پر جانے جاتے تھے-انہوں نے اپنی آزاد اور باغی سوچ کی ہمیشہ سے حفاظت کی-ان کا کہنا تھا کہ دانشور کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی حریت فکر کا ہر قیمت پر تحفظ کرے-وہ حکومتی مناصب و عہدوں سے دور رہے-اور بنے بنائے ضابطوں اور مقدمات سے آگے جاکر سوچنے کی اہلیت رکھتا ہو-اس میں سوال اٹھانے کی ہمت ہو-اور وہ سماج میں ایک آوٹ سائیڈر یعنی اجنبی کے طور پر رہنا سیکھ لے-امریکی دانشور نوم چومسکی کہتا ہے کہ اگر آپ سماج میں ایک تلخ اختلاف کار کے طور پر جینے کا سلیقہ نہیں رکھتے تو آپ عوامی دانشور نہیں کہلاسکتے-انتینو گرامچی کہتا ہے کہ اگر آپ سٹیٹس کو کو نہیں توڑتے تو پھر آپ کی دانش انقلابی نہیں ہوسکتی- میرے نظریات بھی اوپر پیراگراف میں بیان کردہ خیالات سے مختلف نہیں ہیں-مجھے ادھورا پن پر قانع ہوجانے والے لوگ ذھنی اعتبار سے امپوٹنٹ لگتے ہیں-اس لیے میں اپنی حریت فکر کو ہر طرح کی مصلحت سے بالاطاق رکھتا ہوں-لیکن کسی بھی سماج کے اندر اختلاف رائے مستحسن ہوتا ہے اگر اس کو اپنی ذات پر حملہ خیال نہ کرلیا جائے- سرائیکستان کے لیے اس وقت جو پوٹینشل ہمارے ہاں موجود ہے اس کو ٹھیک طرح سے بروئے کار نہ لائے جانے کی سب سے بڑی وجہ میرے نزدیک اس خطے میں اکثر قوم پرستوں کے مغالطے ہیں جن کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے-اور میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ان پرکھل کر بات کرلی جائے- قوم پرست جب بھی قومی سوال بارے بات کرتے ہیں ہیں تو ان کے دانش ور طبقے کی پرت پوسٹ کالونیل نظریات اور آئیڈیالوجی کا سہارا لگتی ہے-یہ وہ آئیڈیالوجی ہے جس کو سویت یونین کے زوال کے بعد خاص طور پر عروج ملا اور اس کو جامعات کے اندر بھی قبول عام ملتے دیکھا گیا- افریقہ،عرب اور مشرق بعید وغیرہ میں پوسٹ کالونیل تھیوری سے مستفید ہونے والے قوم پرستوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے کام کرنے کے طریقہ کار اور اس سے پیدا ہونے والی ناانصافی پر بہت تنقید کی لیکن انہوں نے اس دوران طبقاتی فلسفے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا-ایک طرف تو انہوں نے اس کام کے کرنے کا ادعا کیا جو طبقاتی فلسفے کے داعی کرتے ہیں –یعنی انہوں نے دنیا کی تشریح اور اس کو تبدیل کرنے کا طریقہ بتانے کا ادعا کیا-مگر بقول ویویک یہ دونوں کام کرنے میں ناکام رہے-ان کی سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اسطوری انداز اختیار کرجاتی ہے اور آخری تجزیئے میں یہ سرمایہ داروں کے اندر پائی جانے والی تفسیم جو اصل میں مفادات کے افقی ٹکراؤ کے سبب ہواکرتی ہے میں کسی ایک پرت کی حمائت یا مخالفت اس کے ایتھنک یا نسلی پس منظر کی بنیاد پر کرنے لگتے ہیں- مارکس نے کہا تھا کہ "آپ اگر کسی شئے کو سمجھتے نہیں ہو تو آپ اس پر ٹھیک تنقید نہیں کرسکتے ' اگر قوم پرست سرمایہ داری نظام کو ٹھیک سے سمجھتے نہیں ہیں اور اس کی اسطوری (متھالوجکل )تنقید کرتے ہیں تو یہ تنقید ہماری کچھ مدد نہیں کرسکتی- پوسٹ کالونیل تھیوری کی روشنی میں قوم پرست اپنے نظریات کو نہ صرف سرمایہ دار مخالف کہتے ہیں بلکہ اس کو سامراج مخالف اور نوابادیاتی مخالف بھی کہتے ہیں-لیکن وہ سرمایہ داری کی عالمگیریت کو عملی طور پر ماننے سے انکاری نظر آتے ہیں-یہ اس بات کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ سرمایہ داری پوری دنیا میں پھیل چکی ہے-اس کی خصوصیات جو منافع کمانے اور استحصال کرنے کے گرد گھومتی ہیں ہر کمیونٹی ،ہر کلچر ،ہر سماج کے اندر سرائت کرچکی ہیں-سرمایہ داری کو اپنے نفوز کرنے سے غرض ہے اس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ سماج ہندو ہے یا مسلم یا کرسچن ،پشتون یا سرائیکی یا پنجابی-سرمایہ داری اپنے پھیلاؤ کے دوران ساری دنیا کو ایک خاص قسم کے اکنامک سٹرکچر اور معاشی قوتوں کے سیٹ کے اندر لے آتی ہے-اور یہ ساری دنیا کو ان فورسز کے خلاف جدوجہد پر بھی مجبور کرتی ہیں-لیکن پوسٹ کالونیل تھیوری کے والا و شیدا قوم پرست اس حقیقت سے انکاری ہوتے ہیں-یہ اکثر اس مشترک وصف سے انکاری ہوکر کہتے ہیں کہ سرمایہ داری جیسے کراچی اور لاہور میں اپنے اپ کو مسلط کرتی ہے ویسے ملتان ،کوئٹہ یا پشاور میں نہیں کرتی- قوم پرستوں کی یہاں تک بات تو ٹھیک ہے کہ لوگ اپنی عادات،معیارات،،رواج ،کلجر سے بندھے ہوتے ہیں-اور اجتماع کاری اور ثقافتی ابعاد لوگوں کے انتخاب اور ان کے رویوں پر اثر ڈالتے ہیں-مگر ان کا ادعا اس سے بھی آگے ہے-اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع کی تشکیل کلچر کرتا ہے-اور ان کے ہاں سوشلائزیشن کلچر سے بنتی ہے-اور وہ اس معاملے میں لوگوں کی بنیادی ضرورتوں اور ان کے مفاد کو کوئی بنیادی جگہ نہیں دیتے اور ان کے خیال میں سوشلائزیشن کو یہ دو عناصر تبدیل نہیں کرسکتے-کلچر کی بہت زیادہ اہمیت تو ہے لیکن یہ اتنا بھی اہم نہیں ہے کہ لوگ اس کی قیمت پر اپنی بہتری اور مفاد کو ترک کرڈالیں-قوم پرست آئیڈیالوجی کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ اس بات سے انکار کرتی ہے کہ دنیا ایک قوتوں کے مشترکہ سیٹ میں بندھی ہوئی ہے اور ورکنگ کلاس پوری دنیا میں سرمایہ داری نظام کے خلاف مشترکہ مفاد رکھتی ہے-ورکنگ کلاس کا مذھب،نسل،ذات،فرقہ ،قومیت کوئی بھی ہے ان کے مفادات مشترکہ ہیں-اسی لیے سرمایہ داری کے خلاف جو جدوجہد ہے وہ بین الاقوامی بھی ہے اور عالمگیر بھی ہے-قوم پرست یہاں آکر ٹھہر جاتے ہیں-وہ ورکنگ کلاس کے مشترکہ مفاد پر ان کے نسلی یا قومیتی امتیاز پر زور دیتے ہیں-اور یہاں تک کہ وہ جیسے ورکنگ کلاس میں "ہمارے محنت کش اور ان کے محنت کش "کی تقسیم لے آتے ہیں اسی طرح سے وہ وسائل پیداوار کے مالکان کے درمیان بھی اپنے اور غیر کی تمیز لیکر آتے ہیں-اور جو ان کی قوم سے تعلق نہ رکھتا ہو اس سرمایہ دار کی مخالفت کرتے ہیں اور جو ان کی قوم سے تعلق رکھتا ہو اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہین- قوم پرست تحریک میں درمیانہ طبقے کے اکثر دانشوروں کا حال یہ ہے کہ وہ بات تو خطے کی معاشی اور سیاسی خود مختاری کی کرتے ہیں لیکن وہ حکمران طبقے میں شامل اپنی قوم کے حاکم طبقے کی پرت کے ساتھ بار بار ہاتھ ملاتے ہیں-اور اس پرت کو کہتے ہیں کہ وہ ان کی تحریک کی قیادت سنبھال لیں-اگرچہ یہ اور بات ہے کہ ان کی قوم کا حاکم طبقہ بار بار جکمران طبقے میں ہی کوئی سودے بازی کرنے کی کوشش کرتا ہے-لیکن اگر یہ ہو بھی جائے کہ اس قوم کا حاکم طبقہ الگ اکائی کے مطالبے کی تحریک کی قیادت سنبھال بھی لے تو کیا اس قوم کے محنت کش اور کسان طبقات کی قسمت بدل جائے گی؟ اگر فرض کریں کہ یوسف رضا گیلانی،شاہ محمود قریشی،جاوید ہاشمی،احمد محمود،نواب صاحب ،فاروق اعظم،ریاض پیرزادہ اور سارے ہراج،ڈاہے،لاشاری،مزاری ،کھوسہ ،لغاری سردار،فیصل مختار،الہ دین گروپ یہ سب سردار اور سرمایہ دار اکٹھے ہوکر سرائیکستان کی تحریک کی قیادت کرتے ہیں تو کیا اس خطے کے عام آدمی ککو آزادی ملے گی؟ہرگز نہیں-حال تو یہ ہے کہ جب یوسف رضا گیلانی یا جاوید ہاشمی یا شاہ محمود قریشی جیسا آدمی قوم پرستوں کے سٹیج پر آجائے تو باقی سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور بس یہی نظر آتے ہیں-اس لیے طبقاتی سوال کو نظرانداز کرنا استحصال کے خاتمے اور سرائیکستانیوں کی حقیقی آزادی کے لیے خود کش حملے سے کم خطرناک بات نہیں ہے- طبقاتی بنیاد پر یک جہتی کی بات کرنا چجتا بھی ہے-لیکن لیکن ایسے طبقات کے درمیان یک جہتی تلاش کرنا جن کے معاشی مفادات کے درمیان تضاد ہے ایک ایسی مشق ہے جس میں غالب طبقے کا فائدہ یقینی ہے-اس لیے یکجہتی کی بنیاد نظریہ ہونی چاہئے نہ کہ اس کی بنیاد مصلحتوں پر استوار ہونی چاہئے- ہمارے سامنے کئی تجربات موجود ہیں-آل انڈیا مسلم لیگ میں دانیال لطیفی اور گئی مسلم اشتراکی گئے-1946ء کا مسلم ليگ کا انتخابی منشور بھی لکھا گیا-جس میں سوشلزم کی بات تھی-لیکن یہ سب کان سے پکڑکر نکال باہر کردئے گئے-کانگریس میں سجاد ظہیر ،کیفی اعظمی اور کئی لوگ گئے اور وہاں بھی یہ ٹاٹا و برلا جیسے سرمایہ داروں کا مقابلہ نہ کرسکے-ولبھ بھائی پٹیل کے آگے ان کی ایک نہ چلی- پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں بھی کئی متوسط طبقے کے لوگ موجود ہیں-خواجہ رضوان عالم،عامر ڈوگر جیسے اور پرویز رشید جیسے-یہ سب لوگ عملی اور قولی اعتبار سے باس از آلویز رائٹ کے اصول کے سوا کسی اور پر سوچنے یا کام کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کرسکتے-ان کے آقاء رات کو دن کہہ دیں یہ بچارے دن کہتے ہیں-یوسف رضا کل تک ان کو پی پی پی جنوبی پنجاب کے عہدے دار کہتا تھا تو یہ وہی فیتے شولڈر پر لگائے پھرتے تھے-اب ان فیتوں کو بدل کر پی پی پی سرائیکی وسیب کردیا جائے گا تو کون سا فرق پڑنے والا ہے؟ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ سرائیکیستان کے اندر بسنے والی ورکنگ کلاس اس تحریک کو کامیاب بناسکتی ہے اور وہی اس خطے کی ہی نہیں بلکہ دوسرے خطے کی ورکنگ کلاس کے ساتھ ملکر سب کی نجات کا سبب بن سکتی ہے-سرمایہ دار طبقات اور ان کے کاسہ لیس درمیانے طبقے کے موقعہ پرست کسی کو آزادی نہیں دلاسکتے- آخر میں ایک بات مجھے یہاں اس تحریک کے اندر عورتوں کے حوالے سے پائی جانے والی پسماندگی اور پست ذھنیت اور مردانہ شاؤنزم کے بارے میں کہنی ہے-اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی سماجی شعبے میں ایک عورت جب اپنی ذھانت اور اپنی سرگرم شرکت کی وجہ سے ترقی کرتی ہے اور وہ تحریک کی قیادت کے منصب کی امیدوار بھی بن جاتی ہے تو اس پر مردانہ شاؤنزم چاروں طرف سے حملہ آور ہوتا ہے-اور مردوں کو اپنی انا مجروح ہوتے دکھائی دینے لگتی ہے-سارے کے سارے مرد جو شاؤنزم میں اندھے ہوتے ہیں اس خاتون کے درپے ہوجاتے ہیں-اس خاتون کی ذھانت اور اس کے ایکٹوازم کی موت کے لیے جس حد تک جانا پڑے جانے کو تیار ہوتے ہیں-ہم نے یہ مظاہرے بڑی پارٹیوں میں روز ہوتے دیکھے ہیں-لیکن یہ قوم پرستوں میں بھی جابجا دکھائی دیتے ہیں-اصل میں یہ ہمارے سماج کی مجموعی پسماندگی اور بنتہاپسندی پر مبنی بیمار ذھنیت کا عکس ہے جو ہماری سیاست سمیت ہر شعبے میں نظر آتا ہے-ہمارے میں جو خود کو ترقی پسند کہتے ہیں اور تنگ نظری سے کوسوں دور خود کو بتلاتے ہیں اس روش کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی-اور جو خواتین ایسے میدان میں قسمت آزمانے سامنے آتی ہیں جن کو مردوں کی جاگیر خیال کیا جاتا ہے ان کی کھل کر حمائت کرنا ہوگی-تبھی اس خطے کی آزادی اور خوشحالی کا راستہ ہموار ہوگا-