Friday, June 20, 2014

نواز شریف کہتے ہیں -آبیل مجھے مار


پیمرا نے گذشتہ رات گئے اچانک ایک نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کا لائسنس 15 روز کے لیے معطل اور اس پر ایک کروڑ روپیہ جرمانہ عائد کیا ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ اس چینل نے عدلیہ کے خلاف ایک نامناسب پروگرام چلایا تھا پیمرا کی جانب سے بتائی گئی اس وجہ کو بظاہر تو حکومت کے سوا کسی اور نے قبول نہیں کیا ہے کیونکہ اس فیصلے سے ایک دن پہلے تو سپریم کورٹ نے اس ٹی وی چینل کے اینکر مبشر لقمان پر عائد پابندی ہٹائی تھی جس پر عدیلہ مخالف پروگرام کرنے کا الزام ہے اور یہ کیس ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن اس کے باوجود اے آر وائی کے خلاف عجلت میں فیصلہ کیا گیا کہ اس کو باقاعدہ نوٹس تک نہیں دیا گیا جیسے جیو انٹرٹینمینٹ و نیوز چینل کو نوٹس سرو کیا گیا تھا اور جیو گروپ کے معاملے میں حکومت کا وزن جیو کے ساتھ تھا جبکہ وہ اپنے ماتحت ادارے وزرات دفاع اور فوج سے فاصلے پر نظر آرہی تھی اگرچہ اب لگتا ہے کہ اس چینل کے حما‏ئتی سیاسی ،سماجی ،مذھبی اور دفاعی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے مذکورہ چینل کی قربانی دینے کو تیار نظر آتے ہیں جیسا کہ میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف خارجی خطرات سے زیادہ خود ان کے اپنے اندر سے خطرات زیادہ ہیں اور بقول خورشید شاہ کہ ان کے اپنے بھائی ان کی حکومت کے لیے خطرہ ہیں یا بقول یوسف رضا گیلانی کہ نواز شریف خود ہی جمہوریت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں سانحہ لاہور کے بعد تو وفاقی اور پنجاب حکومت غلطیوں پر غلطیاں کرتی چلی جارہی ہے کہ ایک طرف چیف منسٹر شہباز شریف نے ماڈل ٹآؤن لاہور میں عوام پر سیدھی گولیاں چلانے والے اور ان کی قیادت کرنے والے پولیس افسران کو برخاست تک نہیں کیا بلکہ افسران کو او ایس ڈی لگادیا گیا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ ایسا پولیس افسران کی جانب سے بھانڈا پھوڑنے کی دھمکی آنے کے بعد کیا گیا شہباز شریف نے گذشتہ جمعہ کی شب جو پریس کانفرنس کی اور اس میڑ وہ جس طرح سے رانا ثناءاللہ اور ڈاکٹر توقیر کے وکیل صفائی بنے اس نے رانا ثناء اللہ اور توقیر کی برخاستگی جیسے اقدام کا فائدہ مسلم لیگ نواز کو پہنچنے سے محروم کردیا اور شہباز شریف اور نواز شریف پر سے دباؤ نہیں ہٹ سکا حالانکہ ایک نجی چینل کے رپورٹر کی جانب سے سیون کلب روڈ پر ہونے والی رانا ثناء اللہ کی قیادت میں میٹنگوں کا راز کھلنے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ آجانے کے بعد چیف منسٹر شہباز شریف کی زمہ داری بنتی تھی کہ وہ آئی جی پنجاب ،صوبائی وزیر قانون اور اس میٹنگ میں شریک دیگر افسران سب کو نوکری سے برخاست کردیتے لیکن ان کی جانب سے سستی اور اگر مگر نے ان شبہات کو تقویت دی ہے کہ یہ آپریشن اصل میں چیف منسٹر شہباز شریف کی مرضی اور منظوری سے ہوا سانحہ لاہور کی تپش ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ اے آر وائی نیوز کے لائسنس معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آگیا ویسے اس فیصلے کی ٹائمنگ خاصی ڈسکس ہورہی ہے کہ ایک طرف تو طاہر القادری کی آمد سے دو دن پہلے یہ اقدام کیا گیا ،دوسرا یہ اقدام پیمرا نے پیمرا کے قائم مقام چئیرمین پرویز راٹھور کی وزیر اعظم میآں محمد نواز شریف سے ملاقات کے فوری بعد اٹھایا اور تیسرا کہ میاں نواز شریف کی صدرات میں مسلم لیگ نواز کا جو اعلی سطحی اجلاس ہوا اس میں بھی نجی ميڈیا میں ان گروپوں کو سبق سکھانے کو کہا گیا جو مسلم لیگ نواز کے بارے میں معروضی رپورٹنگ کررہے ہیں میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے آزادی صحافت کی راہ میں روڑے اٹکائے جانے کا سلسلہ اور پنجاب کو پولیس سٹیٹ بنانے کی کوششیں اور ملٹری کی قیادت کے خلاف گٹھ جوڑ کرنے والی قوتوں سے دوستانے وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ایک سال بعد ہی گو،گو کے نعرے سننے کو مل رہے ہیں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے لیے یہ نیک شگون ہرگز نہیں ہے کہ انھوں نے 12 اکتوبر 1999ء تک جو بطور پنجاب اور وفاق کے حاکموں کے طور پر کیا اس کا تذکرہ پھر سے لوٹ آیا ہے اور لوگ میاں محمد نواز شریف کو پھر سے اسی آئینے میں دیکھنے لگے ہیں بلکہ اب تو لوگ ان کو مذھبی فاشسٹوں اور مذھبی جنونیوں کے ساتھ نتھی کرتے ہیں اور ان کا امیج قومی لیڈر کی بجائے ایک فرقہ پرست لیڈر کا ہوتا جارہا ہے اور یہ ان کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہونا چاہئیے لیکن وہ سارا قصور آپنے سیاسی مخالفوں کو دے رہے ہیں اور ان کے بھائی اور وزراء انتہائی ہتک آمیز اور اشتعال انگیزی سے کام لے رہے ہیں میآں نواز شریف نے ایک سال میں ہی ایک طرف تو ملٹری لیڈر شپ سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے اور خراب کرلیے ہیں اور ان سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے تعلقات بھی انتہائی خراب ہوچلے ہیں یہاں تک کہ پی پی پی جو عملی طور پر دوست اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی اسے بھی اپن ے لیڈروں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے ،سانحہ لاہور میں ہونے والی ہلاکتوں اور اس سے پہلے کراچی ائر پورٹ پر دھشت گرد حملوں کے بعد سندھ حکومت سے وفاق کی چھیڑ چھاڑ کے بعد کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بھی پنجاب ،وفاق میں حکومت کو ٹف ٹآئم دے اس وقت تمام اشاریے نواز حکومت کے خلاف ہیں اور نواز حکومت کے پیروں سے زمین سرکتی محسوس ہوتی ہے،اگرچہ پاکستان کی معشیت اور ریاست کی سلامتی کے لیے یہ شگون بد ہے لیکن اس میں زیادہ قصور خود نواز شریف ،شہباز شریف اور ان کے بھڑک جانے والے وزیروں اور مشیروں کا ہے رانا ثناء اللہ کے مستعفی ہونے کے بعد وزرات قانون رانا مشہود کو دے دی گئی ہے لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ یہ وزرات آخر سنٹرل پنجاب کا مقدر کیوں بنی ہوئی ہے یہاں پر سرائیکی ریجن سے کسی کو اس نشست پر کیوں نہیں لایا گیا؟اور لوگ رانا ثناء اللہ کی طرح رانا مشہود کے ایک مخصوص کالعدم تنظیم سے روابط پر بھی انگلیاں اٹھارہے ہیں اگرچہ چیف منسٹر شہباز شریف نے اپنی جمعہ کو کی جانے والی پریس کانفرنس میں مانا کہ ان پر دھشت گردوں سے رابطے کے الزام لگ رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ وزرات قانون کا ایڈیشنل چارج رانا مشہود کو دیتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ رانا ثناء اللہ پر جس وجہ سے زیادہ تنقید ہورہی تھی وہ وجہ رانا مشہود کے ہاں بھی موجود ہے کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شہباز شریف پنجاب میں چیف منسٹر کے ساتھ ساتھ بیک وقت صوبائی ہوم منسٹر ،صوبائی وزیر قانون بنے ہوئے ہیں اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ڈی پی اوز تک کو وہ کنٹرول کرتے ہیں ،ہوسکتا ہے کہ یہ محض شبہات ہوں لیکن یہ شبہات آگے بڑھ کر اب پختہ تاثر بنتا جارہا ہے جس مشکلات بڑھیں گی کم نہیں ہوں گی نواز -شہباز شریف کو یہ بھی ذھن میں رکھنا چاہئیے کہ سرائیکی وسیب تو مسلم لیگ نواز کی بے رخی ،بے توجہی اور امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی لاتعلق ہوا ہوا ہے جبکہ اب سنٹرل پنجاب کے اندر بھی ان کے خلاف زبردست مخالفت اور نفرت پیدا ہورہی ہے ایک سال میں نواز حکومت کی جیت مشکوک ٹھہری ،ان کی معاشی پالیسیوں نے سفید پوش طبقے کو ان سے دور کیا اور پنجاب پولیس کے کارناموں نے پنجاب کے ڈاکٹرز،وکلاء،اساتذہ ،لیڈی ہیلتھ ورکرز،کلرکس،کسانوں کو نواز-شہباز سے دور کردیا ہے اس میں قصور کا زیادہ بوجھ خود میاں برادران پر ہی آتا ہے کسی اور پر نہیں

Wednesday, June 18, 2014

چھوٹے،بڑے میاں کا شوق پولیس گردی


پنجاب حکومت نے سانحہ لاہور میں قاتل پولیس کو ہی 11 افراد کے قتل اور 85 زخمیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کا مدعی بناکر مقدمہ تحریک منھاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کے بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین اور دیگر کارکنوں کے خلاف درج کرلیا ہے اور اس مقدمے میں 302 کی دفعہ کے ساتھ ساتھ انسداد دھشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں اور مرکزی ملزم ڈاکٹر حسن محی الدین کو ٹھہرایا گیا ہے یہ ایف آئی آر اس حقیقت کے باوجود درج کرائی گئی ہے کہ چیف منسٹر شہباز شریف نے ہائی کورٹ کے جج جسٹس باقر کی سربراہی میں ایک رکنی عدالتی کمیشن اس سانحے کے زمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے بنایا تھا دوسری طرف آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے ڈیپارٹمنٹل انکوائری ٹیم بھی مقرر کی ہے گویا اپنے ہی جوڈیشل کمیشن کے متوازی انکوائری اور کمیشن کی کاروائی کا آغاز ہونے سے پہلے ہی ملزموں کی نامزدگی شروع کردی گئی ہے مجھے زاتی طور پر مسلم لیگ نواز کے بڑے سے لیکر چھوٹے قائدین کی فسطائی زھنیت کا بخوبی علم ہے اور کل جب میں لاہور میں پنجاب پولیس کے سی پی او اور سات ایس پی صاحبان کی قیادت میں ہونے والی ریاستی دھشت گردی کے مناظر دیکھ رہا تھا تو مجھے اپنے بہت سے مفروضات سے دستبردار ہونا پڑا 12 اکتوبر 1999ء کے بعد جب اے آر ڈی تشکیل پائی تو میں نے اس پلیٹ فارم پر ہونے والی جدوجہد اور میاں صاحبان سے لیکر چھوٹے بڑے لیگی کی زبان سے جمہوریت ،انسانی حقوق اور آزادی رائے وغیرہ کے احترام اور آمریتوں کے خلاف ان کے بھاشن سماعت کئے تو مجھے یوں لگا جیسے کہ 80ء اور 90ء کی دھائی کی انتقامی سیاست کا وہ باب ختم ہوگیا جو سنٹر رائٹ نے اسٹبلشمنٹ کی مدد سے کھولا تھا میں مسلم لیگ نواز کی جمہوریت پسندی اور بلوغت کے حوالے سے بہت سے آرٹیکل ان دنوں تحریر بھی کئے اور ویسے میں نے مسلم لیگیوں کو زوالفقار علی بھٹو کے خلاف ضیاءالحق کی آمریت کا ساتھ دینے پر پیشمانی کا اظہار کرتے ہوئے بھی دیکھا میں نے سوچا کہ شاید مسلم لیگ نواز کے لوگ پولیس گردی کے فلسفے سے باز آگئے ہیں نواز شریف ،شہباز شریف اور ان کے ایم این ایز و ایم پی ایز کی طرف سے 88ء میں پولیس گردی کو عروج پر پہنچانے کا اعزاز حاصل رہا مجھے یاد ہے کہ موسم سرما 1988ء میں جب پنجاب اسمبلی کے الیکشن میاں نواز شریف دھاندلی اور جاگ پنجابی جاگ کے نعرے کے ساتھ جیت گئے تو اگلے روز مسلم لیگیوں نے پورے پنجاب میں جلوس نکالے اور جہآں جہاں ان کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور بیگم نصرت بھٹو ،زوالفقار علی بھٹو کی تصویریں ،پوٹریٹ نظر آئے سب کے سب جلادئے گئے اور ان کو پھاڑ کر پیروں تلے روندا گیا اس پر جب پی پی پی کے کارکنوں نے پنجاب بھر میں جلوس نکالے تو ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر ،جوڈیشل مجسٹریٹ ،ایس پی ایز اور ڈی ایس پیز ،اسٹیشن پولیس افسروں کی سربراہی میں پولیس نے کارکنوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ان پر سنگین دفعات لگواکر جیلوں میں بند کردیا گیا ایسے ہی ایک تھانے کی بیرک میں مجھے اور میرے کچھ اور ساتھیوں کو جانے کا اتفاق ہوا ،اس تھانے کے ایس ایچ او کو مقامی مسلم لیگی ایم پی اے کا فون آیا اور اس ایم پی اے نے کہا کہ ان گرفتار جیالوں کی چیخیں ان کو فون پر سنائی جائیں ایس ایچ او ایک جیالے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس نے دیوار پر چھتر مارے اور ہمیں چیخنے ،چلانے کو کہا اور اس طرح سے مسلم لیگی ایم پی اے کی تسکین ہوسکی نوے میں جب نواز شریف وفاق میں برسراقتدار آگئے اور پنجاب حسب دستور ان کے پاس تھا تو پھر مجھے سیاسی بنیادوں پر خانیوال ،لاہور ،ملتان اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں کی یاترا کرنی پڑی اور اسی طرح سے 97ء میں کراچی ،میر پور خاص اور پھر پنجاب میں کئی ایک جگہ پر پولیس گردی کا سامنا کرنا پڑا میرے سامنے لاہور کے اندرون شہر میں 88ء سے لیکر 99ء تک پی پی پی کے جیالوں کو پولیس اور مقامی بدمعاشوں کے زریعے سبق سکھانے کا سلسلہ جاری رہا اور لاہور شہر کے اندر پی پی پی کے لیے سیاست کرنا ایک طرح سے ناممکن بنادیا گیا نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف نے پہلی مرتبہ گلو بٹ جیسے بدمعاشوں کو استعمال نہیں کیا بلکہ اگر کسی کو یاد نہ ہو یاد کرادوں کہ شہباز شریف اور اس سے پہلے نواز شریف تھے جن کی تخلیق عابد باکسر،ارشد امین چودھری ،عاطف امین چودھری جیسے بستہ الف ،بستہ ب کے بدمعاش تھے جن کے زریعے سیاسی مخالفین کو عبرت کا نشان بنایا جاتا رہا جماعت اسلامی والوں کے غنڈے ہمیشہ معروف رہے لیکن شہباز شریف تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے کہ جب اعلان لاہور ہورہا تھا تو نواز شریف نے لاہور پولیس اور مقامی غنڈوں کے ہاتھوں جماعت اسلامی کے نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے اسی،نوے سال کے بابوں ،عورتوں تک کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور جب ان کے اپنے پالے ہوئے بعض غنڈوں نے ان کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو جعلی پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع کرایا گیا اور شہباز شریف کو آج تک ایسے جعلی پولیس مقابلے کرانے کی عادت بد لگی ہوئی ہے شہباز شریف کی کئی اور کہانیاں بھی زبان زدعام رہی ہیں جن میں شہباز شریف نے کسی شادی شدہ عورت پر ریشہ خطمی ہوکر اس کے شوہر کے لیے پولیس اور مقامی بدمعاشوں سے ایسے حالات پیدا کرائے کہ اسے اپنی بیوی کو طلاق دئے بغیر جان بچانا مشکل ہوگئی نعیم بخاری اور اوکاڑا کے ایک سابق ڈی پی او کی کہانیاں تو سب کو ہی معلوم ہیں میں نے 93ء میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے پولیس گردی کا وہ مظاہرہ بھی دیکھا جس میں پی پی پی کے لانگ مارچ کے کسی شریک کو نہیں بخشا گیا اور پولیس کی لاٹھیوں سے لہولہان ہونے والوں میں محترمہ بےنظیر بھٹو شہید بھی شامل تھیں ستانوے سے لیکر 1999ء تک نواز شریف نے پنجاب پولیس ،سندھ پولیس ے زریعہ سے جو مظالم پی پی پی کے لوگوں پر ڈھائے اور جس طرح سے سندھ کے اس وقت کے آئی جی رانا مقبول کے زریعے سے کراچی جیل میں آصف علی زرداری سے تشدد اور جبر کے زریعے سے بے ںطیر بھٹو کو طلاق دینے کے پیپرز پر سائن کرانے کی کوشش کی گئی وہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے اور یہ دلخراش داستان مجھے خود پولیس افسر ظفر عباس بخاری نے سنائی تھی جو اس وقت کراچی جیل کے انچارج تھے کہ کیسے جب انھوں نے سندھ آئی جی رانا مقبول کے اس ناپاک منصوبے کا حصّہ بننے سے انکار کیا تو ان کو زبردستی رخصت پر بھیج کر یہ مکروہ کام کرنے کی کوشش کی گئی اس دوران ملک قیوم جیسے بہت سارے ججز تھے بشمول جسٹس رمدے اور خواجہ شریف جن کے زریعے نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے ظلم کے ستائے ہوئے لوگوں کے عدالت کے زریعے سے انصاف ملنے کے راستے روکے رکھے اور یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو کو عدالتوں کو کینگرو کورٹس تک کہنا پڑگیا یہ سارا ماضی مجھے اس لیے یاد آگیا کہ آج میاں نواز شریف،ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کے دائيں بائیں بیٹھے ان کے حواری بالکل اسی طرح سے پولیس کو اپنی پارٹی کے ایک ونگ کی طرح استعمال کررہے ہیں جیسے انھوں نے 88ء سے 99ء تک استعمال کیا تھا مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ مسلم لیگ نواز کی جمہوریت پسندی ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے اور جیسے جیسے حقائق سامنے آرہے ہیں تو یہ احساس ہوتا چلا جارہا ہے کہ 97ء کے انتخابات کی انجئنرنگ دھاندلی کچھ بھی نہیں تھی جو مئی 2013ء کے الیکشن میں کی گئی تھی اور شاید اسی جعلی مینڈیٹ کے پول کھل جانے کا ڈر ہے کہ 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے کی مسلم لیگ نواز دوبارہ سے زندہ ہوگئی ہے میں نے اپنےگذشتہ کئی کالموں میں یہ بات تواتر سے لکھی ہے کہ چھوٹے میاں اور بڑے میاں کے ہاں ترک پولیس کی طرز پر پنجاب پولیس کی تربیت اور ماڈل کی تشکیل پنجاب کے سیاسی کارکنوں اور آزادی اظہار کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے نیک شگون ہرگز نہیں ہے کیونکہ طیب اردوگان کی ترکی پولیس اپنی فسطائیت اور احتجاج کو کچل دینے میں کوئی ثانی نہیں رکھتی ہے اور سانحہ لاہور نے یہ ثابت کردیا ہے کہ شہباز شریف کی پنجاب پولیس بھی ترک پولیس سے کم نہیں ہے ویسے کیا یہ محض اتفاق ہے کہ طیب اردوگان ترکی کو دھشت گردوں کا بیس کیمپ بنائے ہوئے ہے اور وہ اسلامی سٹیٹ آف عراق و الشام،النصرہ فرنٹ،اسلامک فرنٹ سمیت مذھبی فاشسٹوں کا مربی اور محافظ بنا ہوا ہے اور میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی مذھبی فاشسٹوں کے سب سے بڑے حمائتی بنکر سامنے آئے ہیں

Sunday, June 15, 2014

بلوچ و پختون قوم تحریکیں اور دیوبندی-وہابی فاشزم


بلوچ قوم کی تحریک کے وہابی-دیوبندی مذھبی فاشزم سے رشتے اور اس کے اینٹی شیعہ دھشت گرد تنظیموں سے تعلق کا سوال نیا نہیں ہے ایران میں شیعہ انقلاب کے آنے کے بعد جب ایران کی مرکزی حکومت اور فارسی خواں اکثریت کی جانب سے بلوچ،عرب ،کرد قومیتیوں کے مسآئل حل نہ ہوئے اور ان قومیتیوں گروپوں میں پھر سے مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا تو ایران-سعودیہ عرب کے درمیان تعلقات کی خرابی اور سعودیہ عرب کی جانب سے ایرانی رجیم کو گرانے کی کوششوں اور امریکی مخالفت کے پس منظر میں سعودیہ عرب ،قطر نے وہابیت اور دیوبندیت کے زریعے ایرانی بلوچ ،خراسانی عرب اور کردوں کے اندر مذھبی فاشزم کو پھیلانے کی کوشش کی جس کا ہدف شیعہ تھے اور اس ضمن میں سعودیہ عرب کی یونورسٹیاں اور پاکستان کے دیوبندی مدارس میں ایرانی بلوچ،کرد اور عربوں کو داخلہ دلایا گیا اور ان کے اندر زبردست شیعہ مخالف سلفی وہابی دیوبندی آئیڈیالوجی کو سرایت کیا گیا اسی کا ایک نشان جنداللہ تھی جو بیک وقت اینٹی شیعہ اور بلوچ قوم پرست دھشت گرد تنظیم تھی اور ایرانی بلوچستان کی آزادی کی داعی تھی جس کے سربراہ عبدالمالک ریگی کوایران نے بعدازاں پھانسی پر چڑھادیا اور یہی جنداللہ بعدازاں القائدہ،لشکر جھنگوی اورٹی ٹی پی کے ساتھ بھی رابطے میں آئی اور جنداللہ پاکستان کے اندر بھی سرگرم ہوئی اور اس نے پاکستان کی فوج اور پولیس پر بھی حملے کئے کیا بلوچ قوم کے اندر خاص طور پر ایرانی بلوچوں کے اندر سعودیہ عرب کی پشت پناہی اور دیوبندی و وہابی دھشت گرد تنظیموں کے تعاون اور مدد سے پیدا ہونے والی جنداللہ اور اس کے دیوبندی-وہابی شیعہ مخالف دھشت گرد تنظیموں سے تعلق اور اشتراک نے پاکستان کے اندر بلوچ قوم کی آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑنے والی بلوچ تںطیموں کے ساتھ بھی کوئی اشتراک اور تعاون قائم کیا؟ یہ وہ سوال ہے جو ایک مرتبہ پھر اس وقت اٹھا جب بلوچ قوم کے آزادی پسند رہنماء اور گوریلہ وار کے بانی شیر بلوچستان نواب خیر بخش مری کا جنازہ کوئٹہ میں ہاکی اسٹیڈیم میں لایا گیا تو اس کی امامت اہل سنت والجماعت/لشکر جھنگوی /سپاہ صحابہ پاکستان نے پڑھایا اس پر سب سے پہلے ردعمل ایک ترقی پسند سیکولر لبرل ویب سائٹ ایل یو بی پاک ڈاٹ کام پر دیکھنے کو ملا اور اس سآئٹ ایڈیٹر انچیف علی عباس تاج نے لکھا کہ سیکولر قوم پرست بلوچ نواب خیر بخش مری کے جنازے کی نماز دیوبندی دھشت گرد تنظیم کے رہنماء رمضان مینگل کے ّرھائے جانے کی خبر ایک شاک ہے اور اس سائٹ نے ایک مرتبہ پھر بلوچ قومی تحریک کے اندر بعض سیکولر بلوچ افراد اور تںظیموں کے شیعہ مخالف دیوبندی مذھبی فاشسٹوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ایل یو بی پاک ویب سائٹ کی جانب سے اس پوسٹ کے لگائے جانے کے بعد پاکستان کے سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ کیا واقعی بلوچ قومی تحریک ایک فرقہ پرست اور مذھبی انتہا پرست دیوبندی فسطائی رجحان کے ساتھ نکاح کرچکی ہے ؟ اس بحث میں پنجاب سے ایسے دوست بھی شریک ہوئے جو ایک لمبے عرصہ سے بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک کو فرقہ پرست اور اینٹی شیعہ تحریک ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور انھوں نے ایک مرتبہ پھر یہ دکھانے کی کوشش کی کہ اصل میں لشکر جھنگوی ،اہل سنت والجماعت -سپاہ صحابہ پاکستان بھی بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا بازوئے شمشیر زن ہیں میرے خیال میں بلوچ قوم کے اندر اس وقت قومی آزادی کی انقلابی مزاحمتی تحریک کا جو رجحان بلوچ نیشنل فرنٹ،بلوچ ریپبلکن پارٹی،بی ایل اے،بی ایل ایف ،بی ایس او آزاد ،دی وائس فار مسنگ بلوچ وغیرہ کے نام سے ابھرا ہے اور جس کے اہم ترین رہنماء حیربیار مری،مہران مری،ماما قدیر بلوچ،براہمداغ بگٹی وغیرہم ہیں بجا طور پر بلوچ قوم کا سیکولر ،ترقی پسند اور مذھبی فاشسٹ مخالف رجحان ہے اور اس رجحان کا دیوبندی-وہابی فاشزم سے کوئی تعلق نہیں ہے بلوچ قوم کے اندر آزادی اور خودمختاری کا جو ترقی پسند،سیکولر اور انقلابی رجحان آج بلوچ قوم کے نوجوان مرد اور عورتوں کے اندر بیداری کی جو شمع روشن کررہا ہے اس رجحان کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور پاکستان کی پولیٹکل اسٹبلشمنٹ ہے اور یہ ملٹری اور پولیٹکل اسٹبلشمنٹ بلوچ قوم کی قومی آزادی و خودمختاری کی لہر اور تحریک کو دبانے کے لیے دیوبندی-وہابی دھشت گرد مشین کے ایک حصّے کو اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کررہی ہے دیوبندی دھشت گرد انتہا پسند تنطیم اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کے دیگر جملہ روپ لشکر جھنگوی ،جیش الاسلام ،جیش العدل پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی سب سے اہم پراکسی ہے جبکہ دوسری نمبر پر جماعت دعوہ وہابی دھشت گرد تنظیم ہے اور تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی ،جے یو آئی نظریاتی وغیرہ ہیں
القائدہ ،لشکر جھنگوی العالمی نے بھی بلوچ ،کرد ،عرب نژاد ایرانیوں کو بھرتی کیا ہوا ہے جو بلوچ قوم کے اندر شیعہ-سنّی بریلوی ،عیسائی ،ہندؤ ،احمدیوں کے خلاف دکنت تیز کررہے ہیں اور وہ بلوچ قوم کی محکومی اور مظلومیت کو سنّی مظلومیت کے طور پر یش کرتے ہیں بلوچ قوم میں موقعہ پرستانہ کردار کا حامل ایک رجحان بلوچستان نیشنل پارٹی کا ہے جس کی مخلوط اتحادی حکومت بلوچستان میں ہے اور یہ مرکز میں مسلم لیگ نواز کی حکومت میں شریک کار ہے ،یہ خود کو ترقی پسند ،روشن خیال ،غیرفرقہ پرست جماعت کہتی ہے لیکن یہ ایک طرف تو مسلم لیگ نواز کی دیوبندی انتہا پسند تنظیم اہل سنت والجماعت کی سرپرستی پر خاموش ہے تو دوسری طرف یہ بلوچستان میں اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے آزادی سے کام کرنے ،شیعہ کے خلاف نفرت پھیلانے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پراکسی کے طور پر کام کرتے ہوئے بلوچ قوم کی نسل کشی کے مربوط پلان میں مرکزی کردار ادا کرنے پر چپ سادھے بیٹھی ہے اور یہ بلوچستان میں جماعت دعوہ کے کام کرنے پر پابندی نہیں لگا سکی ہے اس کا یہ گول مول رویہ ،ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مذھبی فاشزم اور مذھبی دھشت گردی کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے پر خاموشی ایک طرح سے دیوبندی وہابی مذھبی فاشزم کی سپورٹ ہے اس لیے میں برملا کہتا ہوں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور اس کے جملہ بلوچ حامیوں کا سیکولر ازم ،ترقی پسندی ،لبرل ازم ،روشن خیالی سب جعلی ہے اور بلوچ قوم میں یہ پیٹی بورژوا قوم پرستی کی موقعہ پرستی کی سب سے مثالی اور کلاسیکل شکل ہے جہاں تک اختر مینگل کی پارٹی کا تعلق ہے اگرچہ اس نے بھی سردارانہ موقعہ پرستی الیکشن میں حصّہ لیکر اور حکمران بالادست طبقے سے ناکام ڈیل کی کوشش کرکے موقعہ پرستانہ کردار ادا کیا لیکن کم از کم اس میں یہ ہمت تو ہے کہ وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے مذھبی فاشسٹ ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف کھل کر بولتا ہے بلوچ قوم میں دائیں بازو کا ایک انتہائی رجعت پرست اور غدارانہ رجحان موجود ہے جو مسلم لیگ نواز ،پاکستان تحریک انصاف ،دیوبندی -وہابی جماعتوں یا فوج کی سپورٹ کرنے والی مذھبی جماعتوں مین شامل ہے اور اس میں چنگیز خان مری نواب خیر بخش مری کا بیٹا ،سرفراز بگٹی صوبائی وزیر داخلہ ،سردار ثناءاللہ زھری وغیرھم شامل ہیں یہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور پنجابی سرمایہ دار سامراج کی گود مين بیٹھے لوگ ہیں اور دائیں بازو میں دیوبندی-وہابی فاشزم کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ملٹری اسٹبلشمنٹ ،دیوبندی-وہابی مذھبی فاشسٹ تںطیمیں بلوچ قوم میں رجعت پرستی ،اینٹی شیعہ ،اینٹی سنّی بریلوی ،اینٹی کرسچن و اینٹی احمدی و اینٹی ہندؤ رجحانات اور نطریات کو پھلتے پھولتے دیکھنے کی خواہش مند ہیں ملٹری اسٹبلشمنٹ بلوچ قومی تحریک کا سیکولر ،روشن خیال اور اعتدال پسند چہرہ مسخ کرنے کے لیے اس میں دیوبندی -وہابی فاشزم کو داخل کرنے کی بے انتہا کوشش کررہی ہے تاکہ ایک طرف بلوچستان میں رہنے والے شیعہ اور دیگر مذھبی برادریوں کے اندر اس تحریک کی ہمدردی ختم کرائی جاسکے اور بلوچ قوم کو دیگر مذھبی گروہوں سے باہم دست و گربیاں کرایا جاسکے جبکہ دوسری طرف اس تحریک کو پنجاب ،سندھ ،خیبر پختون خوا سے جو حمائت حاصل ہے اور پنجاب و سندھ ميں جو شیعہ و سنّی بریلوی کمیونٹی کے روشن خیال اور ترقی پسند عناصر اس کے حق ميں ہیں ان کو اس کے خلاف کیا جاسکے بلوچ سیکولر روشن خیال قومی آزادی کی تحریک کو دیوبندی-وہابی فاشسٹ عناصر کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش سعودیہ عرب بھی کررہا ہے تاکہ اس تحریک کو ایران سے حساب برابر کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے اور اس مقصد کے لیے دیوبندی مدارس کی مدد سعودی عرب کو پہلے سے ہی حاصل ہے اور سعودی عرب ایرانی بلوچستان میں سعودیہ عرب سے پڑھے ہوئے سلفی وہابی مولویوں کے زریعے سے بلوچ دیوبندی-وہابی دھشت گردوں کو پاکستان ميں بلوچستان کے اندر اپنا نیٹ ورک قائم کرنے میں مدد دے رہا ہے مینگل اور شاہوانی اور کرد بلوچوں کے اندر دیوبندی انتہا پسندوں کا اثر بڑھ رہا ہے جبکہ بلوچ قوم میں مسلم لیگ نواز،پاکستان تحریک انصاف ،جماعت اسلامی ،جے یوآئی نظریاتی وغیرھم میں شامل بلوچ سردار ،سرمایہ دار ،ٹھیکے دار اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے اندر تبلیغی جماعت ،سپاہ صحابہ پاکستان کا اثر بڑھ رہا ہے اور یہ بلوچ قبائل میں اور بلوچ اربن علاقوں میں روائتی طور پر موجود سنّی بریلوی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے زور لگارہے ہیں اور یہ عناصر بلوچستان میں پنجابی آبادکاروں میں موجود دیوبندی انتہا پسند اور وہابی جماعت دعوہ والوں سے اشتراک قائم کررہے ہیں اور ان کا مقصد بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنا ہے ملٹری اسٹبلشمنٹ نے بہت چالاکی کے ساتھ اہل سنت والجماعت کی اینٹی شیعہ ڈرائیو کو غالب کرکے اور اسے بلوچ رنگ میں رنگ کر شیعہ ہزارہ ،شیعہ پنجابی اور افغانستان سے آکر کر صدیوں سے آباد ہونے والی شیعہ آبادی میں اپنے ایجنٹوں کے زریعے ایسے لوگ پیدا کرلیے ہیں جو سارے بلوچوں اور سارے پشتونوں کو شیعہ دشمن اور قاتل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس طرح سے ملٹری اسٹبلشمنٹ ،ایف سی ،آئی ایس آئی ،ایم آئی کو ان کا نجات دھندہ ثابت کرتے ہیں گویا وہی زبح کرے ،وہی لے ثواب الٹا والا معاملہ ہوگیا ہے ملٹری اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ نواز کے پنجابی حکمران بالادست طبقات نے بہت چالاکی کے ساتھ بلوچ ،پشتون ،ہزارہ کے درمیان نسلی ،لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تضادات اور تقسیم کو بڑھایا ہے اور وہ یہ سب کام بہت منظم طریقے سے کررہے ہیں اور دیوبندی کلنگ مشین کا ایک بڑا حصّہ پاکستانی ملٹری اور پولیٹکل اسٹبلشمنٹ کی پراکسی کے طور پر بہت اہم اور بنیادی کردار ادا کررہا ہے جس کردار کو انتہائی گہرائی میں جاکر بلوچ قوم کے حقیقی آزادای پسند سیکولر ،لبرل اور روشن خیال رجحان کے نمائندوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب ،سندھ ،خیبر پختون خوا ،گلگت بلتستان ،سندھی اربن اردو بولنے والے ان گروہوں اور عناصر کے ساتھ ان کا مکالمہ بہت ضروری ہے جو ملٹری اسٹبلشمنٹ اور دیوبندی-وہابی فاشسٹ دھشت گردوں اور ان کے نظریہ سازوں کے خلاف علمی ،سیاسی ،سماجی محازوں پر برسرپیکار ہیں اور ان کو ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہیموں اور فاصلے پیدا کرنے سے بچنے کی اشد ضرورت ہے میں پنجاب کے روشن خیال ،ترقی پسند بائیں بازو کے حلقوں سے کہتا ہوں کہ وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ نواز ،پاکستان تحریک انصاف ،جماعت اسلامی کی جانب سے بلوچستان کی آزادی ،خودمختاری ،حقوق کی انقلابی تحریک کے خلاف سازشی نظریات ،مفروضوں ،پاکستانی نیشنل ازم کے ڈھونگ ،اس تحریک کو امریکی سامراج کا حاشیہ بردار یا اس تحریک کے دیوبندی-وہابی فاشسٹ علمبرداری کا اس کے اینٹی شیعہ ہونے کے مفروضے کی طرف مائل ہونے کی روش ترک کردیں اور بلوچ قوم پر ریاست کی جانب سے جنگ مسلط کرنے کرنے اور اس میں شدت لانے جیسے رجحانات کے خلاف کھل کر سامنے آئیں ،میری یہی رائے سرائیکی خطے کے بآئیں بازو کے لوگوں کے لیے بھی ہے میں اعلانیہ کہتا ہوں کہ بلوچستان کی پشتون پٹی پر پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کی روشن خیالی ،سیکولرازم ،ترقی پسندی ایک قراڈ کے سوا کچھ بھی نہيں ہے اور یہ پارٹی اور اس کے ہمدرد حقیقی طور پر ریاست کے بورژوازی ،جاگیردار ،پیٹی بوژوازی بالادست طبقات اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ انتہائی موقعہ پرستانہ اتحاد میں کھڑے ہیں اور پشتون قوم کے اندر موقعہ پرست رجحانات کے علمبردار ہیں اور یہ دیوبندی-وہابی فاشسٹوں کے پشتون چہروں کو چھپانے اور ان کے بارے میں گول مول خیالات رکھتے ہیں اور یہ اسے محض پنجابی چہرہ قرار دیکر دیوبندی-وہابی فاشسٹ رجحان کے کثیر النسلی،کثیر القومی ٹرانس نیشنل انٹرنیشنل رجحان ہونے جیسی حقیقت کو مسخ کرنے کے جرم میں شریک ہیں پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کا اس حوالے سے کردار عوامی نیشنل پارٹی اور اس کی پختون انٹیلیجنٹیسیا کی اکثریت کے موقعہ پرستانہ رجحان سے مختلف نہیں ہے بلکہ اس کا کردار تو شاید اس سے بھی برا ہے عوامی نیشنل پارٹی کے پختون دانشور ملٹری اسٹبلشمنٹ اور ازبک ،تاجک،چیچن ،عرب وہابی دھشت گردوں کے گٹھ جوڑ کی اعلانیہ اور نام لیکر محالفت کرتے ہیں لیکن ان کی اکثریت دیوبندی-وہابی فاشزم کے پختون ،افغان چہروں کو چھپاتی اور اس کی اہمیت کو کم کرکے دکھانے کی کوشش کرتی ہے اور یہ حقیقت چھپالیتی ہے کہ پختون معاشرے کے اندر دیوبندی-وہابی فاشزم کا پختون چہرہ بھی اتنا ہی خطرناک اور فسطائیت سے بھرپور ہے جتنا اس کا پنجابی چہرہ خطرناک ہے یا اس کا ازبک ،چیچن ،تاجک اور عرب چہرہ خطرناک ہے اور یہ دیوبندی مدارس کے اندر اس فسطائیت کی جڑوں کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہے میں خادم حسین ،فرحت تاج ،زاہد بونیری سمیت پختون سیکولر لبرل روشن خیال تجزیہ نگاروں ،دانشوروں ،سیاسی قائدین میں اس حوالے سے خاموشی ،پردہ پوشی اور ایک قسم کی دیوبندی پختون مذھبی پیشوائیت کو رعائتی نمبر دینے اور ان کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کرنے سے گریز کرنے کا رویہ کارفرما دیکھتا ہوں اے این پی ،پشتون خوا ملی عوامی پارٹی نے پشتون شیعہ ،پشتون سنّی بریلوی کی نسل کشی اور ان کی مذھبی بنیادوں پر دیوبندی فاشسٹ اہل سنت والجماعت کے ہاتھوں پراسیکوشن پر خاموشی اختیار کررکھی ہے ،یہ پارہ چنار ،گلگت بلتستان ،کوہاٹ ،چترال وغیرہ میں شیعہ نسل کشی پر خاموش ہیں اور دیوبندی ملائیت اور دیوبندی دھشت گردتںطیموں کے بارے میں ان کے ہاں وہ مخالفت نظر نہیں آتی جو مخالفت یہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور غیر ملکی مذھبی فاشسٹ جنگجوؤں کے بارے میں بلند آہنگ سے کرتے ہیں بلکہ عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی نے اپنے امریکہ و یورپ نواز امیج کے ساتھ دیوبندی فاشزم کی نام لیکر اتنی مخالفت بھی نہیں کی جتنی مخالفت ہمیں امریکی ،یورپی دانشوروں اور صحافیوں کے ہآں نظر آتی ہے ابھی حال ہی میں امریکی دانشور کرسٹائن فرئر نے اپنی تحریروں ،ٹاک شوز میں حصّہ لیتے ہوئے اور اپنی کتاب میں بہت واضح طور پر لکھا کہ شیعہ کی نسل کشی شیعہ-سنّی واؤلنس کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ دیوبندی دھشت گرد ہیں جو شیعہ کلنگ کے زمہ دار ہیں
اس سے پہلے یہ ہی بات بہت واضح انداز میں رابرٹ فسک جیسے معروف روشن خیال صحافی نے لکھی اور اس سے پہلے نیویارک ٹائمز کی صحافی کاروٹا گیل لکھ چکی ہے اور اسی طرح سے کم وبیش یہی بات برطانوی سیکورٹی امور کے ماہر پیٹرکوک برن نے لکھی ہے
تو پختون قوم پرست ترقی پسندی کے دعوے دار دانشور ،صحافی ،سیاسی رہنماء جن میں سے اکثر نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ کی دھشت گردی کے خلاف جنگ کے حامی بننے اور امریکی و یورپی تھنک ٹینکس اور ڈونر آرگنائزیشںز سے سکالر شپ ،پروجکیٹ لیتے رہے ہیں دیوبندی فاشزم اور دیوبندی دھشت گردی کی مذمت ان کا نام لیکر کیوں نہیں کرتے ؟ میرے کچھ پختون سیکولر ،قوم پرست دانشوروں نے عبدل نیشا پوری کی جانب سے ان پر شیعہ پختون نسل کشی پر خاموشی اور دیوبندی فاشزم کا نام لیکر مذمت کرنے والی ایک تحریر میں سخت الفاظ کے استمعال پر خاصا گلہ شکوہ کیا اور کہا کہ اس سے مذھبی فاشسٹوں کو فائدہ ہوگا میں کہتا ہوں کہ انھیں اپنے اوپر ہونے والی سخت تنقید کا جو گلہ ہے اور وہ پشتون قوم پرستی کے موجودہ رجحان پر ہونے والی تنقید پر جس قدر فکر مند ہوتے ہیں اس سے کئی گنا کم توجہ اور فکر مندی انھوں نے دھشت گردی ،فسطائیت ،ملائیت اور بنیاد پرستی پر اپنے ڈسکورس کو ٹھیک کرنے پر کی ہوتی تو اس طرح کی انتہائی سخت تنقید ان کو شاید سننے اور پڑھنے کو نہ ملتی پختون شیعہ ،بریلوی سیکولر لبرل بائیں بازو کے لوگوں میں شیعہ نسل کشی اور سنّی بریلوی پراسیکوشن پر عوامی نیشنل پارٹی کا گول مول ڈسکورس انتہائی بے چینی پیدا کئے ہوئے ہے اور یلی حال سندھی ،سرائیکی ،پنجابی شیعہ و بریلوی سیکولر ،لبرل اور بائیں بازو کے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کا ہے وہ دیوبندی فاشزم کی علمبردار اہل سنت والجماعت اور دیوبندی ملائیت کے بارے میں پشتون قوم پرست لبرل سیکولر دیوبندی دانشوروں کے گول مول ڈسکورس سے سخت بے چین اور تکلیف میں ہیں اور ان کے اندر یہ سوچ جنم لے رہی ہے کہ اپنے دیوبندی پس مںظر کی وجہ سے اے این پی کے اکثر دانشور دیوبندی مذھبی فاشزم اور اس کی علمبردار جماعتوں کے خلاف کھل کر بولنے سے گریزاں ہیں بلکہ شیعہ کی تکفیر کرنے اور شیعہ کی نسل کشی پر جس قدر جرات مند موقف ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین نے لیا اس کے عشیر عشیر بھی اے این پی والوں نے نہیں لیا اس تاثر کو اے این پی کے دانشوروں کا عملی اقدام ہی ختم کرسکتا ہے اور میں اے این پی کے حامی دانشوروں سے کہتا ہوں کہ وہ معذرت خواہانہ موقف کو ترک کریں اور دیوبندی فاشزم کے خلاف کھل کر لکھیں اور بولیں تاکہ ان کے سیکولر ،لبرل ہونے اور فرقہ و مسلک سے ماوراء ہوکر پشتون قوم پرستی کے دعوے سچ ثابت ہوسکیں

Tuesday, June 10, 2014

نواب خیر بخش مری-------بلوچ ایشو آزادی کا ہے خیرات میں حصّہ داری کا نہیں


آج صبح سو کر اٹھا تو موبائل پر بار بار میسج ٹون بج رہی تھی تو موبائل کھولا تو درجنون پیغامات تھے جو بلوچ ساتھیوں کی طرف سے آئے تھے اور خبر سنارہے تھے کہ بلوچ قوم کے رہنماء اور مری قبیلے کے سردار نواب خیربخش مری کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کرگئے نواب خیر بخش مری جن کی عمر 82 سال ہوگئی تھی کی وفات کی خبر میرے لیے غیرمتوقع نہیں تھی کیونکہ جو خبریں نواب صاحب کے قریبی لوگوں سے موصول ہورہی تھیں ان سے یہ احساس مجھے ہورہا تھا کہ بس چراغ آخر شب ہیں وہ اور یہ چراغ اپنی لو تمام کرنے کو ہے نواب خیر بخش مری کا نام اور ان کے چیدہ چیدہ خیالات ہمیں زمانہ طالب علمی سے ہی سننے کو ملتے رہتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کے زیر اثر وفاق پرستانہ سیاسی خیالات کا قائل نواب خیر بخش مری کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا تھا اور مجھے یوں لگتا تھا کہ وہ بہت زود رنج ہیں اور 74ء کے ملٹری آپریشن نے ان کے اندر ایک انتہا پسند ردعمل کو جنم دیا ہے میں یہ بھی خیال رکھتا تھا کہ پاکستان کو بطور ایک وفاق ،ایک فیڈریشن کے قائم رکھتے ہوئے آئینی و قانونی طور پر پانچ اقوام کے ملک کے طور پر چلایا جاسکتا ہے اور آئینی و جمہوری طریقے سے اس ملک کی اقوام پنجابی-مہاجر اشرافیہ کے استحصال اور دباؤ سے نکل سکتی ہیں اور برابری کی بنیاد پر وہ اکٹھی مل کر رہ سکتی ہیں لیکن آج جب میں زندگی کے چار عشروں سے آگے بڑھ رہا ہوں جو نواب خیر بخش کی عمر کا نصف بنتی ہے اور میرا تجربہ،مشاہدہ اور علم اس عامر حسینی سے کہیں زیادہ بالغ اور پختہ ہے جو طالب علم تھا ،سیاست کے میدان میں نووارد تھا تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ نواب خیر بخش مری اپنے خیالات اور اپنے تصورات میں بالکل ٹھیک تھے نواب خیر بخش مری 28 فروری 1929ء کو بلوچستان کے علاقے کاہان میں مری قبیلے کے سردار مہر اللہ خان کے ہاں پیدا ہوئے اور چار سال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگيا اور وہ گھر کی ملازماؤں اور سوتیلی ماؤں کے ہاتھوں میں پلے مری قبیلہ بلوچ قبائل کے ان قبیلوں میں سے ایک ہے جس نے انگریز سامراج کے سامنے کبھی سرجھکایا نہیں اور خود سردار خیر بخش مری کے دادا سردار خیر بخش مری جن کے نام پر ان کا نام تھا سامراج دشمن اور آزادی پسند سردار تھے انگریز مری قبیلے کو غلامی پر راضی رہنے اور اپنے سامراجی عزائم کے راستے میں روکاوٹیں کھڑی کرنے سے روکنے کے لیے سردار خیر بخش مری کو یتیم ہوجانے کے بعد اپنی سرپرستی میں لے گیا اور ان کو چیفس کالج لاہور داخل کرایا گیا جہآں ان کی تربیت دوسرے سرداروں کی طرح کی گئی اور سردار خیر بخش مری ابتدائی طور پر انگریز کی تعلیم اور تربیت سے ان کی منشاء کے مطابق ڈھل گئے پاکستان بن گیا اور ایوب خان کا زمانہ آگیا اور یہ وہ دور تھا جب غیر سیاسی سردار نواب خیربخش سیاسی بن گیا اور اس نے مزاحمتی سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا ایوب خان کے دور سے لیکر بھٹو کے دور تک نواب خیر بخش مری نیشنل عوامی پارٹی میں رہے جو کہ اس زمانے میں پنجابی ،سرائیکی ،پختون،بلوچ،بنگالی ،سندھی ترقی پسند سوشلسٹ قوم پرستوں کی پارٹی تھی اور یہ پاکستان کو کثیر القومی وفاق بنانے کی حامی تھی اور پاکستان کے پانچوں صوبوں صوبائی خود مختاری جبکہ وفاق کے پاس دفاع ،خارجہ ،کرنسی اور مواصلات کے شعبے رکھنے کی حامی تھی لیکن نواب خیربخش مری کے خیالات میں تبدیلی کا عمل اس وقت شروع ہوا جب 70ء کے بعد ملک دولخت ہوگیا اور بھٹو نے معاہدہ عمرانی کے تحت بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں نیپ کی حکومت کی تشکیل کو تسلیم کیا اور صوبوں کو خودمختیاری دینے کا وعدہ کیا لیکن بھٹو صاحب دن بدن پاکستانی ریاست کی ملٹری اور سویلین نوکر شاہی کی منشاء کے مطابق بلوچوں سے زیادتیاں کرتے رہے اور ان کی سربراہی میں بھی بلوچستان کے ساتھ ایک کالونی کا سا سلوک کیا جاتا رہا اور پھر نیپ کی حکومت کو زبردستی ختم کردیا گیا جس سے نواب خیر بخش مری فیڈرل سیاست کے تصور سے ہی باغی ہوگئے اور انھوں نے اپنے قبیلے کے ساتھ ریاست سے بغاوت کردی اور ان کو ریاستی فوجی آپریشن کے دوران پیدا ہونے والے جبر کی وجہ سے افغانستان ہجرت کرنا پڑی جہاں پر ایک سوشلسٹ حکومت قائم ہوچکی تھی نواب خیر بخش مری ریاستی حبر ،قید و بند کی صعوبتوں اور بلوچ قوم پر ہونے والے مسلسل مظالم اور اس دوران اپنے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ بلوچ قوم کا حقیقی ایشو حصّہ داری نہیں ہے بلکہ آزادی ہے اور ان کے خیال میں پاکستان کوئی آزاد ریاست نہیں ہے اور نہ ہی پاکستانی نام کی کوئی قوم موجود ہے بلکہ پاکستان ایک نیو کالونیل سٹیٹ ہے جس پر پنجابی-مہاجر ملکر حکمرانی کررہے ہیں اور پاکستان کے نام پر پنجابی-مہاجر حکمران طبقے بلوچستان کو ایک مفتوحہ ،مقبوضہ کالونی خیال کرتے ہیں اور بلوچ قوم کے لوگوں کو اپنی ریاعا سمجھتے ہیں اور اس خطے کی لوٹ کھسوٹ ان کا اول و آخر مقصد ہے روزنامہ اساپ کوئٹہ دسمبر 2003ء میں مطلب مینگل نے ان کے ایک اسٹڈی سرکل کی رپورٹ دی جس میں ایک جگہ نواب خیر بخش مری کہتے ہیں پاکستان کے حکمران کہتے ہیں کہ فوج اور اقتصادیات ریاست کے دو ستون ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیسی مبہم بات ہے،فوج اور اقتصادیات کس کے مقابلے میں ہیں؟ہمارے مقابلے میں؟چین ،امریکہ ،افغانستان اور ایران کے مقابلے میں ؟فوج تو ملک کی سلامتی کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ریاست کا ستون ،ریاست کا ستون تو صحیح فکر،انسانی برابری ،عزت اور انصاف ہوا کرتے ہیں بنیادی طور پر یہ سوسائٹی جسے ہم پاکستان کہتے ہیں اس کو قوم کہنا ٹھیک نہيں ہے نواب خیر بخش کہتے ہیں کہ بلادست کے منھ سے محکوم کے لیے ترقی کا لفظ صرف لوٹ کھسوٹ کے لیے نکلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ترقی اور میگا پروجیکٹس کے نام پر بلوچ قوم کو زیر تسلط رکھنے اور لوٹ کھسوٹ جاری رکھنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے رمیوں کی اصطلاح میں کالونیل ازم کا مطلب ہی مقبوضہ علاقوں میں نوآبادیاں قائم کرکے مقاقی آبادی کو بے دخل کرنا ،ان کے وسائل پر قبضہ جمانا ہے –رومن امپائر ،انگریزی قبضہ گیر اور ديگر سامراجی سرمایہ دار ملکوں نے کیا ماضی میں اسی طرح کے ہتھکنڈوں سے ،ترقی کا نام لیکر اقوام کو نہیں لوٹا تھا؟یا آج امریکہ اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ،اقوام کی تہذیب ،کلچر و روایات میں روکاٹیں ڈالکر ان کی تجارت پر قابض نہیں ہورہی ہیں ؟ان کی اقتصادیات کو بگاڑ کر استحصالی زرایع سے انھیں افلاس سے دوچار نہیں کیا جارہا ؟آج بلوچ کے خلاف بھی وہی حربے استعمال کئے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔بلوچ کو اس نہج پر پہنچایا جارہا ہے کہ وہ عالمی سرمایہ داروں کا دست نگر ہونے کے ساتھ مکمل طور پر پنجابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہو-ان کے ترقیاتی منصوبوں میں عالمی سرمایہ دار اور پنجابی کا مفاد پوشیدہ ہے –پنجابی کا کردار یہ ہے کہ وہ اپنے حصّہ کے لیے عالمی سرمایہ داری کی چاپلوسی کررہا ہے اور اس کی حرکتیں اس کے تاریخی کردار کے عین مطابق ہیں نواب خیر بخش مری نے روزنامہ توار کوئٹہ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پنجابی عام آدمی پر بھی ظلم ہوتا ہے وہاں پر چودھری تھانیدار اس کو دباکر رکھتے ہیں لیکن پنجابی عوام اپنی مظلومیت سے آزادی حاصل کرنے کی بجائے ظالم پنجابی حکمران کلاس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور پنجابیوں کے ظلم کی چکی میں پسنے والے بلوچ عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں تو ہم بلوچ پنجابیوں کے جاگنے اور ان کو ساتھ ملانے کے لیے اپنی آزادی کی تحریک اور حقوق کی جنگ کو موخر نہیں کرسکتے اور پنجابیوں کے ساتھ آنے کی آس میں ان کے ساتھ خود بھی ڈوبنا نہیں چاہتے نواب خیر بحش مری نے کہا تھا کہ پنجاب سے جو بھی آتا ہے وہ حصّہ دینے کی بات کرتا ہے گویا ہم کوئی خیرات ان سے مانگ رہے ہیں اور وہ یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ بلوچ قوم کا علاقہ ان کی کالونی اور اس کے وسائل پر وہ قابض ہیں اور ان کو یہ قبضہ چھوڑنا ہوگا –بلوچ ودھی (خیراتی روٹی) لینے والے نہیں ہیں نواب خیر بخش ایک روشن ضمیر اور تجربہ کار مفکر سیاست دان تھے اور یہ ان کی چشم بصیرت تھی کہ انھوں نے غوث بخ بزنجو کے بیٹے اور ان کے سیاسی وارث کہلانے والے حئی،مالک و دیگر مڈل کلاس بلوچوں کی ایک نئی ابھرتی ہوئی موقعہ پرست سیاست کے بارے میں ٹھیک ٹھیک پیشن گوئی کی تھی ان سے پوچھا گیا تھا کہ نیشنل پارٹی پارلیمانی وفاق پرست سیاست کے اندر رہتے ہوئے بلوچوں کی آزادی و خودمختاری کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کام کررہی ہے تو وہ اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جو بھی نوآبادیاتی آقاؤں اور عالمی سرمایہ داری کے تنخواہ داروں کے ساتھ رہ کر آزادی و خودمختاری کی بات کرتا ہے تو اس سے بڑا جھوٹا اور موقعہ پرست کوئی اور نہیں ہے نواب خیر بخش پنجابی مڈل کلاس کے بارے میں کبھی حوش فہمی کا شکار نہیں رہے اور ان کی کہی باتیں ان کی زندگی میں ٹھیک ثابت ہوتی رہیں ہیں آج پنجابی مڈل کلاس میں بھاری اکثریت بلوچ قوم کے استحصال اور ان کی محکومیت کو بڑھانے والے نام نہاد ترقی کے ریاستی ماڈل کی حامی ہے اور وہ اس ماڈل کے راستے میں آنے والی بلوچ قوم کو زبردست فوجی قوت سے کچلنے کے عمل کی حمائت کرتی ہے جیسا کہ پنجاب کے صحافی ،سیاسی رہنماء اور عوام کی اکثریت بلوچستان پر سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والے مظالم پر خاموش نظر آتی ہے اور اگر فوج بلوچستان کے نہتے عوام پر جیٹ طیارے ،ہلکا اور بھاری توپ خانہ بھی استعمال کرے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے پاکستان کی فوج ،اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ،اس کی سرمایہ دار کلاس اور اس کی مڈل کلاس پرتیں سب کی سب بلوچ قوم کی محکومی اور اس کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر متفق ہیں اور پنجاب میں بہت کم اور وہ بھی انتہائی کمزور آوازیں ہیں جو ترقی کے اس نوآبادیاتی ماڈل کے خلاف ہمیں سنائی دیتی ہیں نواب خیر بخش مری نے بلوچ قوم کو قبائلی ،ریجنل نیشنل ازم ،پارلیمانی موقعہ پرستانہ بلوچ مڈل کلاسی پالیٹکس اور درباری اسلام آباد کے غلام سرداروں کی سیاست کے مقابلے میں ایک حقیقی سوشلسٹ ،سامراج دشمن بلوچ قومی سیاست اور مزاحمت کا راستہ دکھایا اور یہی ایک کارنامہ ان کو بلوچ قوم کی نظروں میں ھیرو بنانے کے لیے کافی ہے نواب خیر بخش مری کو میں اپنے سیاسی گرو کے طور پر بھی لیتا ہوں کہ ان کی نظریاتی تعلیم میں بلوچ قوم کے لیے ہی اسباق پنہاں نہیں ہیں بلکہ سرائیکی قوم کے ایک فرد ہونے کے ناطے میرے لیے بھی واضح لائن آف ایکشن موجود ہے سرائیکی وسیب کے باسی بھی ابھی تک پنجاب اور اس کی فوج ،نوکر شاہی اور اس کی سیاسی اشرافیہ کے درمیان باہمی اتحاد اور ان کے کالونیل ڈویلپمنٹل آئیڈیالوجیکل تصورات کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پائے اور اس خطے میں کوئی ایک ایسا قدآور لیڈر موجود نہیں ہے جو آزادی اور مکمل قومی آزادی کی تحریک کی بات کرے بلکہ یہاں سرائیکی وسیب کے عوام کو غلامی اور محکومی سے آزاد کرانے کی بات کرنے والے حصّہ داری سے آگے نہیں بڑھتے اور وہ کالونیل حاکموں سے اپنی قانونی اور آئینی رعایا ہونے کا سٹیٹس مانگتے ہیں مطلب ان کو صوبے کا درجہ دیا جائے بس ان کو نواب خیر بخش سے سبق لینا چاہئیے اور بلوچ قوم کی تاریخ پڑھ لینی چاہئیے

تیرے عشق نجایا کرکے تھیا تھیا


آج حیدر جاوید سید نے اپنی وال پر عابدہ پروین ،عاطف اسلم کی آواز میں بابا بلھے شاہ کی کافی شئیر کی اور اسے اپنے سب دوستوں کے زوق کی نظر کیا اور میں نے جب اس کو سننا شروع کیا تو بے اختیار مجھ پر ایک جذب کی کیفیت طاری ہوگئی اور بے اختیار میرے دل میں رقص کرنے کی خواہش ابھری اور تھوڑی دیر کے لیے واقعی مین رقص کرنے لگ گیا بابا بلھے شاہ نے خواہش کی تھی کہ وہ ایسی جگہ چلا جائے جہان سب اندھے ہوں کہ نہ تو کوئی اس کی زات پہچانے اور نہ کوئی اس کو مانتا ہو،بلھے شاہ نے ایک انسان کی دوسرے انسان سے محبت اور تعلق میں عزت اور احترام کا رشتہ محض ان کی صفت انسانیت اور صفت آدمیت کی بنیاد پر ہونے کی خواہش کو اپنے من کے اندر موجزن ہوتے اس وقت دیکھا تھا جب اسے ایک عام سے کاشتکار عنائت سے محبت ہوگئی تھی اور اس سے یہ محبت عشق پر پہنچی اور جنون بن گئی تو بلھے اور عنائت کے درمیان اش عشق اور محبت کے آڑے بلھے شاہ اور عنائت کے درمیان دونوں کی زات ،حسب نسب اور ان کا سماجی سٹیٹس سے ابھرنے والے معاشرتی تعصبات آگئے تھے ،جس کے تحت بلذے شاہ کا عاشق ہونا اور شاہ عنائت کا معشوق ہونا ،اس کا مرید ہونا اور عنائت کا مراد ہونا ،بلھے کا راہی ہونا اور عنائت کا منزل ہونا اس لیے معیوب ٹھہرا خود بلھے شاہ کے اپنے گھر والوں نے اس کی سپردگی کو برا جانا کیوں کہ سید زات کا ہوکر بلھے نے ایک کاشتکار ارائیں کو اپنا مرشد اور اپنی مراد بنالیا تھا اس لیے تو بلھے کی شاعری میں جگہ جگہ اپنی زات کے سابقوں اور لاحقوں کو فنا کرنے کی بات اور تذکرہ ملتا ہے اور وہ زات اور ہستی کے ان سارے سابقوں اور لاحقوں کو فنا کرنے کی شدید خواہش کے ساتھ سامنے آتا ہے جس سے کسی قسم کا فخر اور امتیاز ابھر کر سامنے آتا تھا اور ہم اس کی اس خواہش کو بلھے کی نظم "بلھا کیہ جاناں میں کون"میں نظر آتی ہے یہ مشکل بلھے کے ساتھ ہی پیش نہیں آئی تھی بلکہ اس سے کہیں گھمبیر مشکل شاہ حسین کے سامنے کھڑی تھی جسے ایک ایسی زات کے ساتھ عشق ہوا تھا جو ایک طرف تو ہندؤ تھا دوسرا وہ عمر میں شاہ حسین کی عمر سے تین گنا کم عمر تھا اور ایسے عشق پر جو طوفان اس وقت معاشرے میں مچا اس کی شدت کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ شاہ حسین کو ایک مرتبہ بھرے مجمع میں آکے کہنا پڑا کہ مادھو لعل کا جسم اس کے لیے اس کی ماں کے جسم کی مثل ہے شاہ حسین اور مادھو لعل ساری عمر اپنے اپنے سابقوں اور لاحقوں کو ایک طرف رکھکر مذھب عشق کی پوجا میں مصروف رہے اور مر کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے رہے اور دونوں کی قبریں ایک ساتھ بن گئیں لیکن ملائیت اور سماج کے واعظوں کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا تو مادھو لعل کے مسلمانہوجانے کی روائت گھڑ لی گئی اور اس کا مسلم نام بھی ڈھونڈ نکالا گیا میاں میر لاہور میں آج ایک کونے میں ہیں ،شاہ حسین بھی حاشئے پر اور بلھے شاہ کے مزار پر ان کے عرس پر لٹھ برداروں کا اجتماع کس لیے ہے یہ ان کی میراث کی نفی ہےاور ان کی بغاوت سے خوفزدگی کی شدت کا اظہار بھی ہے جو آج بھی ملئیت کے وارثوں پر طاری ہے یہ ملائیت بار بار صوفیوں ،سادھوؤں،جوگیوں اور ملامتیوں سے شکت کھاتی رہی ہے اور اپنی جامد اور فرسودگی کے ساتھ مردنی کا شکار ہوتی رہی ہے اور پھر یہ ان سادھوؤں ،صوفیوں ،جوگیوں اور ملامتیوں کو مولانا اور رہبر شریعت بنانے کی کوشش کرتی رہی ہے جس طرح سے دربار والوں نے ننگے پیر ان صوفیوں کی قبروں پر حاضری دے کر وہآن بڑا سا دربار بناکر خانقاہ اور دربار کو ایک کرنے کی کوشش کی لیکن تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کوئی نہ کوئی شہزادہ خود دربار سرکار سے بغاوت کرکے ،کتابوں کو دریا میں بہاکر سب چھوڑ چھاڑ کر بن باس لے لیتا ہے اور نروان پالیتا ہے اور ملائیت کی جبر کے کوڈ پاش پاش کردیتا ہے اور قصر ملوکیت و آمریت کو گرادیتا ہے اور سارے جہان میں یہی کافی گونجنے لگتی ہے تیرا عشق نچایا کرکے تھیا تھیا

Monday, June 9, 2014

خون خلق حلالست و آب بادہ حرام


سنگ میل اشاعت گھر نے کشور ناھید کی یاداشتوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی کتاب "کشور ناہید کی نوٹ بک" کے عنوان سے شایع کی اور اس نوٹ بک میں کشور ناہید نے بہت مختصر سے انداز میں افسر شاہی میں شامل مردوں کے میل شاؤنزم اور ان کی ہوسناکیوں کو قلمبند کیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کیسے ورکنگ ویمنز کو سی ایس پی افسروں اور وزیروں کی نام نہاد مردانگی سے مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا ویسے کئی ترقی پسند شاعر اور ادیبوں کے اینٹی فیمنسٹ رویوں کا پول بھی انہوں نے کھولا جن میں کچھ تو کشور ناہید کے دوست بھی تھے اس نوٹ بک میں ضیاءالحق کی نام نہاد اسلام پسندی سے جنم لینے والی حماقتوں اور اس سے پیدا ہونے والی منافقت کا بھی بڑا تذکرہ بھی کشور ناہید نے جھوٹے بابا تلقین شاہ کا پول بھی خوب کھولا ہے اور بڑے مخصوص انداز میں لکھا ہے کہ پولیس والوں کو قناعت سکھانے جاتے تھے تبھی تو ان کا یہ حال ہے،ٹیلی ویژن پر بابا صاحبا بالکل ایسے کرتے تھے،جیسے بابا کالا اپنا جادو چلاتے اور ملک ملک گھومتے تھے جنرل ضیاء الحق کے مارشل کے ابتدائی زمانے میں نور جہاں کو گاتے وقت بلاؤز پہننے کا معاملہ زیر بحث آیا تو یہ فیصلہ ہوا کیونکہ ضیاء کو نور جہاں کا گانا پسند ہے تو ٹی وی پر ان کے گانے چلیں گے لیکن وہ آدھے بازو کا بلاؤز پہن کر گانا گائیں گی جبکہ عابدہ پروین کے بارے میں جب یہ بتایا گیا کہ وہ گانے کے دوران اپنی چادر بھی اتار پھینکتی ہیں تو ضیاء نے کہا کہ وہ درویش عورت ہے اسے اجازت ہے ظہیر کاشمیری کا ایک دلچسپ واقعہ بھی کشور ناھید نے اپنی نوٹ بک میں تحریر کیا ہے کہ جب نہر سوئز مصر پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا تو خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن علامہ مشرقی کی قیادت میں جلوس نکال رہے تھے اور ظہیر کاشمیری راستے میں کھڑے تھے تو انھوں نے علامہ مشرقی سے پوچھا کہ جناب کہاں تک جانے کا ارادہ ہے علامہ مشرقی نے کہا کہ "سیدھے مصر جائیں گے" ظہیر کاشمیری نے کہا کہ "بیڈن روڈ تھائیں نکل جاؤ نیڑے پئے گا" کشور ناھید نے شاہ حسین سے اپنی عقیدت اور ان کے سالانہ عرس میلہ چراغاں میں باقاعدگی سے شریک ہونے کا زکر کرتے ہوئے لکھا کہ شاہ حسین کے مزار کو محکمہ اوقاف نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور مادھو لعل ہندؤ کی قبر کو چھپادیا ہے اور عورتوں کو قبر پر آنے کی اجازت نہیں ہے ویسے تو محکمہ اوقاف اور مولویوں کی اکثریت نے اکثر مزارات پر مستورات کی احاطہ مزار پر داخلے پر پابندی لگادی ہے اور کئی ایک جگہ تو باقاعدہ ڈنڈا بردار اس پابندی پر عمل درآمد کراتے ہیں اور اکثر مزارات پر لگنے والے میلوں کو غیر شرعی کہہ کر ختم کیا جارہا ہے ،یہ پریکٹس بھی ضیاء الحق کی آمریت کے بعد سے شروع ہوئی اور ظاہر پرست اور سخت گیر ملائیت کے قدم صوفیائے کرام کے مزارات اور خانقاہوں پر بھی پڑنے لگے سندھ میں تو پھر بھی مزارات اور خانقاہوں پر کسی حد تک وحدت الوجودی صلح کلیت کا رنگ چڑھا ہوا ہے لیکن پنجاب میں تو بہت تیزی سے صوفیائے کرام کے مزارات کو ملاّ کی اخلاقیات کے تابع کیا جارہا ہے اگرچہ جھوک عنائت جہاں شاہ عنائت کا مزار ہے وہاں پر عورتوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے اور شاہ عنائت جیسے مجاہد پیر کی عوامیت کو مطلق العنان ملائیت نے اغوا کرلیا ہے سندھ ،پنجاب ،سرائيکی وسیب ،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ایسے صوفی لوگوں کی خانقاہیں موجود تھیں جو ملائیت ،محتسب گیری ،وعظ پسندی ،ظاہریت اور جامد شرع گے خلاف بغاوت اور احتجاج کی علامت رہی ہيں اور ان خانقاہوں کو جنھوں نے آباد کیا وہ ہند-مسلم سماج میں اشراف پنے کے خلاف تھے اور انھوں نے دیر و حرم کو ترک کرکے خانقاہوں کو خلق خدا کے راج کے لیے بنایا تھا اور رب اور عوام میں جو فاصلے ملاّ،پادری،پنڈت ،احبار و رہبان سے پیدا کئے تھے ان کو مٹایا اور افتادگان خاک کو جینے کا حوصلہ دیا لیکن ملائیت اور سرکار و دربار سے جڑی مشائخیت نے اس عوامی تصوف کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی یہ کوشش صرف تصوف کے مخالف شیخ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے چیلوں کی طرف سے ہی نہیں ہورہی بلکہ یہ کوشش ان کی جانب سے بھی ہورہی ہے جو خود کو تصوف و صوفیوں کا وارث کہتے ہیں اور صوفی حلقوں میں نیم وہابیت کا دور دورہ ہوتا جارہا ہے بلھے شاہ ،شاہ حسین ،سلطان باہو،سچل سرمست۔شاہ لطیف ،شاہ شمس ،عبداللہ شاہ غازی ،خواجہ غلام فرید ،بابا فرید گنج شکر اور حضرت میاں میر جیسے صوفیوں کو مولوی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان جیسے ملامتی صوفیوں کی وسیع المشرب مسلک کو مسخ کیا جارہا ہے اور یہ سب اوقاف کے ملازم مولوی کی زیر سرپرستی کیا جارہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ صوفی کے صلح کل مشرب کی گنجائش خود صوفی سنّیوں میں بھی تنگ ہوتی جارہی ہے جن میں ممتاز قادری جیسے لوگوں کو ھیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے اور اس کے ماتھے کو چومنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بنادئے جاتے ہیں

Sunday, June 8, 2014

جعلی سول سوسائٹی کے مفتی اور کاغذی شیر


خانیوال ڈسٹرکٹ پریس کلب میں راشد رحمان ایڈوکیٹ شہید کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس ریفرنس میں پہلے ہم سن رہے تھے کہ شاید عاصمہ جہانگیر ،آئی اے رحمان ،حسین نقی ،حنا جیلانی میں سے کوئی ایک آئے گا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں آیا پتن ترقیاتی تنظیم کے سربراہ سرور باری اسلام آباد سے آئے تو سوال یہ زھن میں اٹھا کہ اسلام آباد سے سرور باری اگر اپنی گاڑی پر آسکتا ہے تو عاصمہ جہانگیر لاہور سے کیوں نہیں آسکتیں تھیں؟ ڈسٹرکٹ پریس کلب میں یہ تعزیتی ریفرنس جب منعقد ہوا تو مجھے شرکاء کو دیکھ کر لگا کہ اگر دسٹرکٹ پریس کلب کے 7 یا 8 صحافی اور ملک طارق نوناری کے ساتھ آنے والے تین وکیل اور ملتان سے آنے والے مہمانوں کو نکال دیا جائے تو شرکاء کی تعداد 20 سے 25 رہ جاتی ہے یہ 20 سے 25 افراد بھی اکرم خرم ایڈوکیٹ اور فرخ رضا ترمذی کی کوشش سے پریس کلب آئے وگرنہ اس جگہ پر مجھے ضلع خانیوال تو دور کی بات خود خانیوال سے تعلق رکھنے والی سول سوسائٹی یا سینکڑوں این جی اوز کا کوئی ایک بھی آدمی نظر نہیں آیا ابھی یوم مئی پر مزدوروں کے عالمی دن پر سول سوسائٹی نیٹ ورک کی ایک صدر جوکہ سابق ممبر ضلع کونسل بھی ہیں اور بہت سرگرم این جی او ورکر ہیں نے ایک این جی او فنڈڈ پروگرام جناح لائبریری میں منعقد کیا تھا اور اس میں ڈی سی او کو مہمان خصوصی بنیا جانا مقصود تھا جو نہ آئے مگر ويگنوں اور رکشوں میں بھر کر لوگ لائے گئے اور پورا ہال بھر لیا گیا تھا وہ سول سوسائٹی نیٹ ورک اس تعزیتی ریفرنس پر غائب تھا اور نظر نہیں آیا وجہ شاید یہ تھی کہ ایک تو راشد رحمان کے قتل پر آواز اٹھانا خطرے سے خالی نہیں ہے دوسرا اس پروگرام میں آنے جانے کا کرایہ اپنی جیب خاص سے بھرا جانا تھا اکرم خرم ایڈوکیٹ جو خانیوال میں انسانی حقوق کے ایک سچے سرگرم کارکن ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ ان کے منہ کو میں اس تعزیتی ریفرنس میں گیا ورنہ لاہور اور ملتان سول سوسائٹی کے نام پر لگنے والے تماشوں میں میرا دل نہیں کیا کہ وہاں جاؤں اور فوٹو سیشن کا حصّہ بنوں مجھے جب سٹیج پر تقریر کے لیے بلایا گیا تو میں نے وہاں پر جاکر وہی سوالات اٹھائے جو میں اپنے گذشتہ بلاگ بعنوان "راشد رحمان ،جعلی سول سوسائٹی "میں اٹھا چکا تھا اور میں نے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے مالکان کی مجرمانہ غفلت پر ایک مرتبہ پھر سے کڑی تنقید کی اور میں نے راشد پر حملے کے دوران زخمی ہونے والے ان کے ساتھی ندیم پرواز اور ان کے معاون کے مبینہ بزدلانہ کردار پر سوالات اٹھائے لیکن یہ بھی کہا کہ جب عاصمہ جہانگیر ،آئی اے رحمان راشد کے مقدمے میں مدعی نہ بنیں ،عاصمہ جنید حفیظ کے کیس میں اپنا وکالت نامہ دائر نہ کرے اور ایچ آرسی پی دوسری ایے آئی آر درج کرانے کی درخواست ایک مہینہ 48 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی نہ دیں تو پھر یہ ندیم پرواز اور اللہ داد جیسے نمانوں سے کیسے امید کرتے ہیں کہ وہ ثابت قدم رہیں گے میں سمجھتا ہوں ملتان بار کے 7000 ہزار وکلاء میں سے کوئی راشد رحمان کا مقدمہ اس لیے بھی لڑنے کو تیار نہیں ہے کہ اس معاملے میں خود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی اشرافیہ کا رویہ بہت غلط اور خود غرضانہ ہوا ہے اس تعزیتی ریفرنس میں مرحوم سید سجاد حیدر زیدی کی اہلیہ آپا سیدہ زھراء سجاد نے میری تقریر میں اٹھائے کئے سوالات کو بالکل جائز قرار دیا اور انھوں نے انکشاف کیا کہ جب عاصمہ جہانگیر راشد کے گھر پہنچیں جہاں راشد کی میت جنازہ گاہ لیجانے کو تیار تھی تو راشد کی بہن جوکہ بیوہ ہے اور اس کے تین بچوں کا راشد واحد کفیل تھا نے آگے بڑھ کر عاصمہ جہانگیر کی جانب سے تعزیت کرنے پر کہا کہ بی بی! میں راشد کے جنازے پر کوئی بدمذگی نہیں چاہتی لیکن تم نے اتنا بھی نہ سوچا کہ جس راشد نے ایک لکڑی کی عام سی کرسی پر سخت سردی اور شدید گرمی میں 31 سال تمہارے ادارے کی خدمت کی اس کے لیے ایک گارڑ کا انۃظام ہی کرڈالتیں ،آج جتنی پولیس اور گارڑ تمہارے ساتھ ہے ان میں سے محض ایک بھی راشد کے دفتر کے باہر ہوتا تو شاید میرا راشد تقدیر کو ٹال دیتا راشد کی بیوہ بہن کے یہ جملے عاصمہ جہانگیر اور پوری سول سوسائٹی کے جعلی لبرلز کے منہ پر طمانچہ ہیں اور آج راشد کے گھر میں سب سے بڑا مرد ایک اس کا بھانجا ہے جس کی عمر ابھی 12 سال ہے جب راشد کے قتل کی ایف آئی آر کٹانے کے لیے کوئی مدعی بننے کو تیار نہیں تھا تو یہ بھانجا تھا جو بار بار کہتا تھا کہ اسے مدعی بناؤ اور بقول آپا زھرا کے یہ 12 سالہ بچہ نام نہاد بہادر مردوں اور عورتوں سے کہیں زیادہ بہادر ہے آپا کو فون کرکے کہتا کہ آنٹی ! میں تو مما اور نانی کو سمجھا سمجھاکر تھک گیا ہوں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں مگر نانی (راشد کی ماں) کہتی ہے کہ بیٹا عاصمہ جہانگیر نواز شریف اور شہباز شریف کے پاس خود چل کر کیزن نہیں جاتی اور میرے بیٹے نے جن کو نامزد کیا تھا ان کو گرفتار کرائے میں نے اس تعزیتی ریفرنس میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ عاصمہ جہانگیر جس طرح صائمہ ارشد کیس میں وکیل بنیں تھیں اور وہ افتخار چودھری کی بھی معاونت کرتی رہیں تو آج کیا وہ راشد اور جنید حفیظ کے کیس میں اپنا وکالت نامہ جمع کرائیں گی ؟اور کیا انسانی حقوق کمیشن کے وکلاء کی ٹیم کے ساتھ ملتان میں شفاف ٹرائل کے لیے جدوجہد کریں گی؟ یہ سوال ان پر قرض ہے اگرچہ انھوں نے ہائپر ہوکر پچھلی مرتبہ میرا فون کاٹ دیا تھا لیکن یہ سوالات ان کا پیچھا کرتے رہیں گے اکرم خرم ایڈوکیٹ نے ایک وضاحت کرکے میری یہ خوش فہمی بھی ختم کردی کہ لاہور میں تعزیتی ریفرنس کے دوران راشد کے مبینہ قاتلوں کی نامزدگی پر مبنی ایف آئی آر کے اندراج کی کوئی قرارداد پیش نہیں ہوئی بلکہ یہ قرارداد تو اسلام آباد میں اکر م خرم کی کوششوں سے پیش ہوئی اکرم خرم ،فرخ رضا اور ان جیسے سفید پوش طبقے کے درجنوں انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانوں کو جو خطرات لاحق ہیں اور ان کے حوالے سے جعلی سوسائٹی کے جعلی لبرلز جس خود غرضی کا ژطاہرہ کرتے ہیں اس سے یہ اندازا کیا جاسکتا ہے کہ سول سوسائٹی کے نام پر چلنے والے نیٹ ورکس میں بھی طبقاتی درجہ بندی موجود ہے راشد رحمان تو پھر بھی کسی حد تک لائم لآئٹ میں تھے اور ان کا حسب نسب بھی قابل زکر تھا لیکن اکر یہ افتاد کسی چھوٹے ٹاؤن کے کسی معمولی بیک گراؤنڈ رکھنے والے روشن خیال پر ٹوٹ پڑتی تو اتنا شور بھی نہ مچ پاتا جتنا راشد کے لیے بظاہر مجایا جارہا ہے راشد رحمان نے مزدوروں،کسانوں،بھٹہ مزدوروں ،مزارعین ،مظلوم و مجبور عورتوں کے 6000 ہزار سے زائد کیس عدالتوں میں دائر کئے ہوئے تھے اور یہ کیسز اب کون لڑے گا کچھ پتہ نہیں ہے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کی قیادت نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے اور انسانی حقوق و سول سوسائٹی کی دیگر ہزاروں تںظیموں کی جانب سے بھی ان بے وکیل ہوجانے والے افتاد گان خاک موکلوں کو اب تک گود لینے کا اعلان کسی جانب سے نہیں ہوا کیونکہ ان میں سے اکثر کیسز راشد مفت لڑ رہا تھا یہاں تک کہ کیس کی فائل پر اٹھنے والے اخراجات بھی راشد لیا نہیں کرتا تھا مگر ایس؛ دریا دلی گفتار کے غازی انسانی حقوق کے اشراف کہاں سے لیکر آئیں گے؟ سرور باری نے اپنی تقریر میں میرے سوالات کو جائز قرار دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کے خیال میں اسے ایشو نہیں بنانا چاہئیے مجھے معلوم ہے کہ سرور باری نہیں چاہیں گے کہ این جی او سیکٹر کے اشراف اور بڑے بروکرز سے تعلقات بکڑنے کے کافی نقصانات ہوا کرتے ہیں جو وہ افورڑ نہیں کرسکتے اور مشرف دور میں مفادات کا یہ ٹکراؤ سول سوسائٹی میں دیکھنے کو ملا تھا جب سرور باری ،حارث خلیق ،حسن ناصر ،فاروق طارق سمیت این جی او سیکٹر کا بڑا حصّہ نواز شریف کی اے پی ڈی ایم کا حصّہ بنا اور مجبور ہوکر بے نظیر بھٹو شہید نے بھی عاصمہ جہانگیر کے گھر سول سوسائٹی کا ایک اجتماع کیا اور مقصد مشرف کی نام نہاد لبرل حامی سول سوسائٹی کا زور توڑنا تھا اس زمانے میں سرور باری صاحب لاڑکانے سے بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی سوچ رہے تھے اور جنرل تنویر نقوی کے بل بوتے پر بقول ان کے وہ مشرف سے وہ کام لینا چاہتے تھے جو بھٹو سے لیفٹ نہیں لے پایا تھا میں یہ ساری باتیں بیٹھا اس وقت سوچ رہا تھا اور وہ مذھبی فاشزم کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ یہ بس ایک بلبلہ ہے اور یہ بہت جلد پھٹ جائے گا وہ قرامطہ کی مثال لیکر آئے اور انھوں نے تاریخ کو پڑھنے کا مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ مذھبی فاشزم کے اس بلبے کو تباہی پھیلانے سے روکنے کا کیا پروگرام ان کی نام نہاد سول سوسائٹی کے پاس ہے جو 80 ء کی دھائی سے پاکستان کے اندر خود کو متبادل سماجی تبدیلی کے علمبردار کے طور پر پیش کرتی آرہی ہے جس کے اکثر ڈائریکٹرز نے اور مالکان نے طبقاتی فلسفے اور مادی طبقاتی جدلیات پر مبنی سماجی تبدیلی کے علمبرداروں کا مذاق اڑانا اپنا وتیرہ بنالیا تھا اور یہ آج بھی محض لبرل نعروں اور معمولی سی فنڈنگ کی خیرات پر اس ملک کے محنت کشوں،کسانوں،طالب علموں ،خواتیں ،مظلوم قومیتیوں کو اپنے پیچھے دیکھنے کے خواہاں ہیں اور جب کبھی ان کے اشراف پنے اور ان کی دولت اور سٹیٹس کی جانب افتادگان خاک کی نظر جاتی ہے تو انھیں بہت شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یہ ان کے مسیحا نہیں ہوسکتے جعلی سول سوسائٹی اور کاغذی لبرل اشرافیہ اس خوش فہمی سے باہر آجائے کہ وہ اپنے فنڈنگ پروجیکٹوں کے تحت اس ملک کے غریب ،محنت کش طبقات کو مذھبی فاشسٹوں کے آگے چارے کے طور پر ڈالے رکھیں گے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں اور ان کی میتوں کی تصاویر اور ان پر ڈاکومنٹریز بناکر مغربی فنڈنگ ایجنسیوں سے اینٹی بلاسفیمی ایکٹ مومنٹ کے نام پر ،عورتوں پر تشدد کے خلاف تحریک کے نام پر مذھبی فاشزم کے خلاف سیکولر بیانیل پھیلانے کے نام پر لاکھوں ،کروڑوں کے پروجیکٹ لاکر عیش کرتے رہیں گے لوگ بے حس نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ مذھبی فاشسٹ ہوئے ہیں بلکہ انھیں میر کارواں کے رہزن ہونے کا شک ہی نہیں یقین ہوگیا ہے اور ان کی غیر حاضری بے حسی نہیں بلکہ جعلی سول سوسائٹی اور کاغذی لبرلز سے بے زاری کی علامت ہے وہ بدعنوان ،خود غرض اور موقعہ پرست اشرافیہ کو مسترد کرتے ہیں تو مطلب ایک روادار ،روشن خیال اور معتدل معاشرے کے قیام کے آدرش کو رد کرنا نہیں ہوتا ہے پچھلی مرتبہ جب میں جعلی اور کاغذی سول سوسائٹی کے بارے میں پورا سچ لکھا تو عائشہ صدیقہ نے لکھا کہ اب ان سول سوسائٹی کے مفتیوں کے فتوؤں سے کیسے بچو گے ؟ یقینی بات ہے کہ پورا سچ تو کسی بھی جانب سے ہضم ہونے والا ہوتا نہیں ہے اسی لیے یک گونہ تنہائی اور بے گانگی کا شکار ہونا لازم ہوتا ہے لیکن یہ بے گانگی اور تنہائی مجھے منافقت کے ساتھ ہمہ وقت جلوت میں رہنے سے کہیں ہزار درجہ عزیز ہے مجھے خوشی ہے کہ نوجوان اور غیر اشرافی سیکولر لبرل بائیں بازو کے لوگ میری بات کو سنتے بھی ہیں اور موقعہ پرستی کے اس کلچر کو رد کرنے میں بھی ان کو کوئی عار نہیں ہے اور یہی سب سے بڑا انعام ہے جو مجھے مل رہا ہے

Friday, June 6, 2014

ملاں نئیں کہیں کار دے،شیوے نہ جانن یار دے


روشنی سے ڈرے ہوئے لوگ-یہ میرے گذشتہ بلاگ کا عنوان تھا میں نے اسے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بھی پوسٹ کیا تو میرے ایک چھوٹے بھائی آصف رضا نے اس پر ایک کمنٹ کیا تو یہ کمنٹ ایسا تھا جس کا سیاق اور سابق مجھے خوب معلوم تھا مجھے اپنی طبعیت زرا موج میں نظر آئی اور لگا کہ جملے قطار در قطار اترنے لگے ہیں اور کہیں زرا رکنے کا موقہ نہیں ملا اور بس لکھتا چلا گیا آصف رضا ایک کمپیوٹر شاپ کا مالک ہے ،بہت اچھا اور تعاون کرنے والا نوجوان ہے ،میرے شہر میں اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا علم عام نوجوانوں میں منتقل کرنے میں خاصا کردار ادا کیا ہے مجھ جیسے نوآموز کو بھی اس نے بہت مدد بہم پہنچائی اور کبھی تعاون کرنے سے انکار نہیں کیا اخلاق اور عادات سے بہت اچھا ہے لیکن میرے خیالات سے وہ کبھی متفق اس لیے نہیں رہا کہ خانیوال کے مریدان سید مودودی کے زیر سایہ وہ رہا ہے اور مریدان بھی ایسے کہ جنھوں نے اسے کبھی حریب فکر کے جام کے قریب جانے نہیں دیا کیونکہ وہ خود کبھی اس جام کے نزدیک نہیں گئے مجھے بھی عاشقان مودودیت کی صحبت سے لطف اٹھانے کا موقعہ میسر آیا لیکن ان میں سے کچھ عاشق زرا زیادہ ظرف اور زیادہ وسعت نظر والے تھے شاید یہی وجہ ہے کہ میں مودودیت کے کنویں میں قید ہونے کی بجائے فکر کے سمندر کی غوطہ زنی کرنے کے قابل ہوگیا حالانکہ مجھے تیراکی عملی طور پر آتی نہیں ہے اور سائیکل چلالیتا ہوں موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے سے نابلد ہوں لیکن فکر و خیال کے سمندر کی گہرائيوں میں جانے سے مجھے ڈر نہیں لگتا آصف رضا ! اپنے اپنے زاویہ ہائے نگاہ ہوتے ہیں ،تم نے تاریخ ،سیاست اور سماجیات کے باب میں اپنی زمانہ طالب علمی میں جو بھی پڑھا وہ اسلامی جمعیت طلباء کے بچونگڑوں سے پڑھا اور ایسے ہی کچھ دروس شاگردان سید مودودی سے لیے اور اب میڈیا میں تمہارے سب سے پسندیدہ لوگ اوریا جان مقبول ،انصار عباسی ،ڈاکٹر شاہد مسعود ،ہارون الرشید جیسے لوگ ہیں جو تاریخ ،ادب ،سیاست ،معشیت ،سماج اس بارے میں جو بھی بتائیں گے وہ یا تو آبپارہ میں سرخ عمارت سے دی گئی ہدایات پر مشتمل ہوگا یا پھر وہ ملاّئیت کی اندھیر نگری سے آیا ہوگا اور سب کا سب مسخ شدہ ،جنونیت سے بھرا اور تعصب کی اندھی وادی میں ڈوبا ہوا ہوگا یہ تاریکی ایسی ہے جو آنکھوں کو واقعی چندھائی دیتی ہے اور تاریکی میں رہنے والے یک دم روشنی میں آجائیں تو ان کی آنکھوں پر اندھا پن آجاتا ہے اور وہ روشنی کو تاریکی کہنے پر مصر ہوجاتے ہیں اور بے اختیار ظلمت کو ضیاء کہنے والے اصل ضیاء پاشی دیکھ کر قلب کی بینائی کے بعد چشم بصارت بھی کھو بیٹھتے ہیں ،روشنی کس قدر روشنی دیتی ہے تبھی تو اسے بار بار بین کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے اگر یہ کاروبار ظلمت ہوتا اور یہ غیر منطقی ،بلا عقل و فہم کے بات پیش کررہی ہوتی تو اس پر اس قدر سیخ پا ہونے کی ضرورت کیا تھا ،اس کا رد کیا جاتا ،جو روشنی کو روشنی نہیں سمجھتے وہ اس کی تاریکی کا پول کھولتے دلائل سے اس کا سیاہ و تاریک ہونا ثابت کرتے ،اس کی گمراہی کے راز ہائے درون کو افشاء کردیا جاتا اور اس کے تار و پود الگ الک کردئے جاتے آصف رضا! تمہارے پاس ٹک کر پوری لگن کے ساتھ کسی معاملے پر غور وفکر کا وقت ہی کہاں ہے ایک کاروباری دنیا کے آدمی ہو سارا دن اور ساری رات نان و شبنہ میں الجھے رہتے ہو اور اس دوران تمہارے پاس وقت صرف اتنا ہے کہ فیس بک پر کوئی امیج دیکھو ،کوئی سٹیٹس اپ ڈیٹ دیکھو اور پھر کسی چلتے چلتے اپنے پسندیدہ بت کی تحریر کو پڑھ ڈالو اور پھر اپنے پرانے تعصبات کی روشنی میں فیصلہ صادر کردو سید مودودی کو میں نے بھی پڑھا تھا سلامتی کا راستہ سے لیکر تفہیم القران تک لیکن ایک مقلد اور مغلوب ہوئے شخص کی طرح نہیں ،تاریخ کے ہر ایک شارح اور ہر ایک مورخ کی تعبیر دیکھی اور اب بھی عقل کل اور حتمیت کا داعی نہیں ہوں اور نہ ہی اندھی تقلید کرتا ہوں مجھ جیسے لوگوں میں یہ حوصلہ اور ہمت یونہی نہیں آئی کہ اپنے محسنوں کے ںظریات اور خیالات سے اختلاف رکھنے کے باوجود جب ان کی خدمات اور ان کی اصل اہلیت کا زکر آئے تو اس کا برملا اعتراف بھی کروں اور ان کو خراج عقیدت بھی پیش کرون ،یہی وجہ ہے کہ میں سید مودودی کی نثر کی سادگی ،پرکاری ،پر اثر ہونے سے کبھی انکاری نہیں ہوا ،یونہی میرے اندر علم و عرفان کی شمع فروازاں کرنے اور کتابوں سے میرا رشتہ جوڑنے میں میرے استاد سعید الرحمان کا جو حصّہ ہے میں نے اسے کبھی فراموش نہیں کیا ،عبدالکریم سروش پر ایک کتاب مرتب کی تو اس کا انتساب ميں نے سعید الرحمان اور وجاہت مسعود کے نام کیا اور سعید الرحمان میرے انگلش کے استاد تھے اور وہ جماعت اسلامی کے بہت پرانے رفیق کار اور مسلک کے اعتبار سے اہل حدیث ہیں لیکن ان کی ایمانداری ،دیانت داری اور ان کی اپنے شاگردوں سے لگن کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے،میں نے شیخ الحدیث داماد علامہ یوسف بنوری بانی جامعہ بنوریہ العالمیہ مولانا طاسین کے دست فیض سے مستفید ہونے کا کبھی انکار نہیں کیا ،آج بھی جعمیت علماء اسلام کے طلباء ترجمان رسالے کے بانی ایڈیٹر شمس القمر قاسمی سے نیاز مندی باقی ہے شورش کاشمیری کے چٹان میں سب ایڈیٹر شعیب الرحمان پکّے احراری تھے لیکن نیاز مندی ان سے رہی اور خوب رہی ان کے فن کا اعتراف بھی ان پر چھپی کتاب میں کیا ،یہ سب باتیں تحدیث نعمت کے طور پر کررہا ہوں کہ انصاف اور دیانت کی باتیں خوب کی جاتیں ہیں لیکن جب کبھی اختلاف کی منزل آجائے اور ایسے موقعہ پر عدل و ظلم کے درمیان مسابقت ہوجائے تو اکثریت عدل کا دامن ترک کردیتی ہے اور پھر ظلم کے سہارے اپنی باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے آصف رضا ! جس تحریر کو آپ روشنی کا نام دیکھکر بس تاریک معانی پہنانے پر تل گئے زرا اسے گہرائی سے پڑھا ہوتا تو پتہ چلتا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں ،دوست نظریات اور افکار پر پہرے بیٹھائے نہیں جاسکتے ،تمہیں کیا بتاؤں کہ عقل اور خرد کو کتنے جوتے ملائیت نے مارے ہیں میں جب ملائیت کہتا ہوں تو اس سے مراد ہر مذھبی سکالر یا مخصوص وضع قطع کا آدمی نہیں ہوتا ہے اگر ایسا ہوتا تو میں سعید الرحمان ،مولانا طاسین ،مفتی محمد اسیر مالتا،مولانا فصل حق خیر آبادی،حفظ الدن سیوھاروی ،مولنا مناظر احسن گیلانی ،عبید اللہ سندھی ،ڈاکٹر کمال ،شمس القمر،مولانا برکت اللہ بھوپالی کا مداح کیوں ہوتا ؟ ملآئیت سے مراد ایک کیفیت اور زھنیت اور سوچ ہے جو اوریا جان مقبول اور انصار عباسی کے ہآں بھی ہے جو صاحب ریش قصیر ہیں اور جاوید چودھری کے ہآں بھی ہے جو بے ریش ہیں اور حافظ سعید و امیر حمزہ کے ہاں بھی ہے جو صاحب ریش طویل ہیں اور یہ اے کے بروہی میں بھی تھی جو بے ریش و بے مونچھ تھے اور تھری پیس سوٹ ،نکٹائی میں ہی رہا کرتے تھے، تو میرے بھائی یہ ملائیت ابن رشد پر جامع مسجد اندلس کے باہر جوتے برساتی نظر آتی ہے زکریا رازی کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلاتی ہے اور اس سے بہت پہلے یہ ملائیت ہمیں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے "اعدل ۔اعدل " کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہے اور باب مدینۃ العلم مولا علی کو کافر کہہ کر مسجد میں شہید کردیتی ہے اور یہی ملائیت تھی جو نواسہ رسول کو باغی ،خروج کا مرتکب کہتی ہے اور اس کی گردن پر خنجر پھیرتی ہے اور یزید کی صحابیت اور اس کی مغفرت کا جواز تلاش کرتی ہے اور یہی ملائیت ہے جو تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرک اور نعت رسول کو بدعت قرار دیتی ہے اور یہی ملائیت ہے جو بنگالیوں کی زبان کو ہندوانہ اور ان کے لباس کو غیر اسلامی قرار دیتی ہے اور اردو کو مقدس اور مذھبی زبان قرار دے دیتی ہے ،یہی ملائیت ہے جو شناخت کے سوال کو مذھبی بناتی ہے اور حق مانگنے کو صوبائیت ،لسانیت نہ جانے کیا کچھ کہتی ہے میرے دوست یہ ملائیت ہے جو نام دیکھر کسی کے زندہ رہنے نہ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے اسی لیے ملائیت ،پاردریت ،احباریت کا دشمن ہر صوفی ،ہر سقراطی ،ہر موسوی،ہر عیسیوی ،ہر بلھا ،شاہ حسین ،کبیر ،ہر ابن رشد ،ہر رازی ،ہر سینا ،ہر منصور ،ہر یعقوب الکندی رہا ہے واعظ ،ناصح ،محتسب ،ملّا اور پیر سے لڑائی رہی عارفوں کی ،باغیوں کی ،رندی عشق میں ڈوب جانے والوں کی ،ہر مست و الست کی ہر عاشق کی ،ہر شناسائے گوجہ محبتاں کی ،ہر مردود حرم مگر اہل صفا کی ،اب اگر اسے تم تاریکی کہو ،اسے تم ظلمت کہو تو پھر دودھ بھی کڑوا اور شہد بھی کالا ہوسکتا ہے اور ہر بینا اندھا ،ہر صاحب عدل ظالم ہوسکتا ہے اور اگر تم اس فلسفے کے قائل ہو بھی جاؤ تو مجھے اس پر چنداں حیرت نہیں ہوگی کیونکہ یہاں پر حسین کو باغی اور یزید کو صحابی اور مغفور کہنے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن تاریخ کا یہ سبق تمہیں اور مجھے بلکہ ہم سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ جس سچ کو پابند سلاسل کرنے یا اسے چھپانے یا اس کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بار بار سامنے آتا ہے اور پھر وہی ایک زمانے میں چیزوں کو ماپنے کا آلہ قرار پاتا ہے آٹھویں صدی سے گیارھويں صدی تک عرب ،وسط ایشیا کے مسلم سماج میں فلسفہ ،سائنسی اور سماجی علوم کے عالموں اور فاضلوں کو زلیل کیا جاتا رہا اور فسلفہ و سائنس کی کتب کو کفریہ اور شرکیہ کتب قرار دیکر جلادیا گیا اور ان موضوعات پر لکھنے کی سزا قتل قرار دے دی گئی کیا بتاؤں کیسا حبس فکر اور خیال تھا جو آٹھویں صدی سے گيارھویں صدی تک مسلم سماج کی قسمت بنا رہا اور علوم کے شہ پارے اور موتی سب کے سب کے ویسے ہی عرب سے ہجرت کرکے یورپ چلے گئے جیسے کبھی یونان سے ہجرت کرکے عرب ملکوں میں آئے تھے ابن رشد ایوی رس ،ابن سینا ایبی سینیا ہوگیا سب عربی عالمان سائین و عمرانیات کے نام لاطینی ہوگئے اور پورا یورپ سچ کے نور سے جگ مگ کرنے لگا اور ساری دنیا سے طالبان علم وہیں کا رخ کرنے لگے آج مسلم ممالک کے اندر سائنس اور سماجی علوم کی نصابی کتب اٹھاکردیکھیں مسلم تہذیب کو علم و عرفان کی روشنی سے جگماگانے والی ثابت کرنے کے لیے ان سارے فلسفیوں ،سائنس دانوں اور ماہرین لسانیات و ادب کا حوالہ دیا جاتا ہے جن کو کبھی زندیق اور کافر کہا گیا تھا اور جن کی کتابوں کو چلادیا گیا ،جن کو جامع مساجد کے دروازے کے سامنے بٹھاکر عوام و حواص سے جوتے پڑوائے گئے اور جن کی لاشوں کو مرنے کے بعد قبر سے نکال کر فلسفہ پڑھنے کی سزا دی گئی تھی آج ابن ہثیم ،موسی خوارزمی ،زکریا رازی ،ابن رشد،ابن سینا ،یقعوب الکندی اور طوسی کے تذکرے کے بغیر مسلمانوں کی علمی و فکری تاریخ کا بیان مکمل نہیں ہوتا ہے ایک بات مجھے آخر میں کہنی ہے ہوسکتا ہے اس پر بہت شور مچے اور ہمارے بہت سے قدامت پرستوں کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں قرون وسط کے جتنے فلسفی ،ماہرین طبعیات،حیاتیات،فلکیات،ریاضی والجبراء و جیومیٹری اور بڑے صرفی و نحوی تھے وہ سب کے سب عقائد کلامی میں معتزلہ اور مسلک کے اعتبار سے یا تو شیعہ امامیہ تھے یا شیعہ اسماعیلی اور تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس نے فزکس کا نوبل انعام جیتا وہ بھی احمدی تھا یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس ک چھٹلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے تو ہم نے ہدائیت و گمراہی کے جو پیمانے اخروی طور پر خود سے متعین کررکھے ہیں ان کا اطلاق کم از کم طبعی سائنسی اور سماجی علوم پر تو نہیں ہوتا آصف رضا ! تم نے سوچا ہے کہ آج پاکستان ،عراق ،شام ،لبنان ،بحرین میں جن لوگوں کو محض شیعہ ہونے کی بنیاد پر قتل کیا گیاوہ بہترین ڈاکٹر ،سرجن ،وکیل ،انجینئر تھے اور خلق خداکی خدمت کرنے کے حوالے سے ان کا ریکارڈ مثالی تھا ایک بات اور بہت اہم ہے کہ ان مقتولوں کو جاننے والے اور ان کے پڑوس میں رہنے والے اور ان سے لین دین کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ خدا ترس تھے،غریبوں اور مجبوروں کے حامی تھے ،غرور و تکبر سے پاک تھے گویا خلق خدا ان کی فقیری کی گواہ تھی ان کی درویشی کی عینی شاہد تو وہ کیوں مار دئے گئے؟ جواب بہت سادہ ہے ان کو مارنے والے ملّائیت کی تاریکی کے مارے ہوئے تھے جبھی تو روشنی کے چراغ گل کرنے آگئے آصف رضا! کسی دن میرے مرنے کی خبر آئے اور تمہیں معلوم ہو کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے مجھے شہر کی کسی سڑک کے کنارے ،کسی گلی کی نکڑ جاتے ہوئے یا کسی چائے کے ہوٹل پر چائےکی چسکی لیتے ہوئے گولیاں مار کر ہلاک کرڈالا تو تم شاید دل میں یہ سوچوگے کہ اگر روشنی ،روشنی نہ کرتا اور پرانے قصوں کو گاہے گاہے تازہ نہ کرتا تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا تم شاید کہو کہ آدمی لین دین کا کھرا تھا ،نیت کا برا نہیں تھا لیکن اس کے خیالات۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور شاید کبھی تم کسی مجمعے میں بیٹھ کر جب یہ دوھراؤ گے تو مجھے یقین واثق ہے کہ میری جیسے خیالات تمہیں پھر کسی اور نام کے آدمی ،کسی اور لہجے والے آدمی یا عورت سے سننے کو ملیں گے اور تم کہو گے احتیاط کرو تم سے پہلے بھی یہ سودا بہت سے لوگوں کے سرمیں سمایا تھا جو تاریخ ہوگئے لیکن دور کہیں قصور سے بلھّے شاہ کی قبر سے آواز آرہی ہوگی وہ تینوں کافر کافر آکھدے تو آہو آہو آکھ

Thursday, June 5, 2014

روشنی سے ڈرے ہوئے لوگ


پاکستان میں نصابی کتب،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو مذھبی فاشسٹوں کے طے کردہ سنسر شپ پالیسی کے تحت کام کر ہی رہے تھے اب یہ مجھے یہ یقین آگیا ہے کہ پاکستان ٹیلی کیمنیکشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے بھی مذھبی فاشسٹوں کے مکمل کنٹرول میں ہے اور ان کے اس کنٹرول کو ممکن اور موجود بنانے میں پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا پورا پورا ہاتھ ہے روشنی پیج سمیت سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بہت سے لبرل اور روشن خیال ،خرد افروز عقلیت پسند آفیشل پیجز کو بند کردیا گیا ہے اور یہ پریکٹس مسلسل دوھرائی جارہی ہے پی ٹی اے کی جانب سے انٹرنیٹ سنسر شپ کی بڑھتی ہوئی روش بارے پاکستان کے کسی ایک بھی میڈیا گروپ نے اپنے انگریزی و اردو اخبار ،ٹی وی چینل یا ویب ایڈشن میں تذکرہ نہیں کیا اور نیوز آئٹم کے طور پر بھی یہ خبر شایع نہیں کی پاکستان میں حریت فکر پر قدغن لگائے جانے کا پراجیکٹ پہلے اگر جابرانہ تھا تو اب یہ مہا جابرانہ ہوگیا ہے ایک طرف پاکستان بھر کے تھانوں میں مذھبی فاشسٹوں نے توھین مذھب کے مقدمات کا اندراج شروع کرارکھا ہے اور 298 اے ،295 اے بی سی اور انسداد دھشت گردی کی دفعات کے ساتھ مقدمات درج کئے جارہے ہیں دوسری طرف یہ مذھبی فاشسٹ شہر بھر میں جعلی سول سوسائٹی کے روپ میں جب چاہتے ہیں شہر بند کراتے ہیں اور مقامی پولیس اور مقامی جوڈیشری پر اثر انداز ہوکر مذھبی فاشزم کی مخالفت کرنے اور آزادی فکر کا علم اٹھانے والوں کو نشان عبرت بنادیتے ہیں میں نے مذھبی فاشزم کو اس قدر طاقتور اور اتنا خون آشام جنرل ضیاءالحق کے دور آمریت میں نہیں دیکھا تھا بلکہ اس زمانے میں بائیں بازو کی سياسی،طلباء ،مزدور اور کسان تںطیمں اور ادبی و پروفیشنل تنظیموں کا ڈھانچہ مذھبی فاشزم کا مقابلہ کرنے آگے آتا تھا اور ہم نے اس زمانے میں جماعت اسلامی سمیت ضیاء الحق کے حامی مذھبی فاشسٹوں کا مقابلہ تعلیمی اداروں،کام کی جگہ اور گلی محلوں میں کیا اور کبھی ان کے فتاوی کفر و الحاد سے خوفزدہ نہیں ہوئے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اب وہ دور آگیا ہے کہ جس پر توھین مذھب کا الزام لگتا ہے وہ اچانک اکیلا اور تنہا ہوجاتا ہے اور کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آتا ہآں اس کی لاش پر بین کرنے اور سیاپا ڈالنے والوں کی کمی نہیں ہوتی ایک زمانہ تھا کہ بائیں بازو کا ہر کارکن ففتھ کالمسٹ تھا اور ملک کی ساری ایجنسیاں اس کا ریکارڈ روزانہ مرتب کرتیں تھیں اور فائلوں پر فائلوں کی تہہ لگی جاتی تھی اور اب وہ دور ہے کہ یہی ایجنسیاں ہمین محتاط رہنے اور اپنی نقل و حمل کو محدود کرنے کو کہتی ہیں ابھی چند دن گزرے جب آئی بی کے ایک پرانے میرے مہربان کہنے لگے کہ محتاط رہوں ہاتھ ہولا رکھوں گویا نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں میں ہنسنے لگا کہ کل تک یہی صاحب میرے اثاثے چیک کرتے پھرتے تھے اور مجھے بلوچ ایشو پر زیادہ اچھل کود سے منع کررہے تھے اور آج میری جان کو درپیش ممکنہ خطرات کی نشاندھی کرنے پر لگے ہیں سیکولرازم ،لبرل ازم،کمیونزم،سوشلزم ،عقیدے کی آزادی ،ماڈریٹ ہونا ایسی بہت سی اصطلا حیں ہیں جو مذھبی فاشسٹوں نے اپنی لغت میں توھین اور گستاخی کے زمرے ميں شامل کرلی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان اصطلاحوں کے استعمال کو روکنے کے لیے اور ان سے دور کرنے کے لیے انٹرنیٹ سنسرشپ کو زیادہ سے زیادہ سخت کیا جارہا ہے اور ہماری ریاست کی ناک موم کی ہوگئی ہے جسے ان اصطلاحوں کی گرمی سے سخت حظرہ لاحق ہے پاکستان میں خرد افروزی کبھی بھی ایک مقبول اور عوامی تحریک نہیں رہی ہے اور یہ ایک طرح سے بہت محدود حلقے تک مقبول رہی اور آج بھی اس کا یہی حال ہے بلکہ پاکستان میں سوشلزم ہو یا خرد افروزی کی تحریک ہو اسے عوام میں مقبول بنانے کے لیے مذھب کا تڑکا لگانا پڑا ابھی میں جی ایم سید کی کتاب مقدمہ سندھ پڑھ رہاتھا معلوم ہوا کہ انھوں نے ترقی پسند قومی پرستی اور سندھ کی آزادی کے لیے بزم صوفیا قائم کی اور اس کے تحت قوم پرستی سوشلزم اور سیاست جدید کو تصوف کے تڑکے کے ساتھ پھیلانے کی کوشش کی پی پی پی نے 70ء کے الیکشن لڑے تو سوشلزم کو اسلامی سوشلزم اور مساوات محمدی کے نام دئے یہاں خرد افروز روائت کو کبھی سرسید سے تو کبھی جناح سے تو کبھی اقبال سے جوڑکر پیش کرنا پڑا گویا عقلیت پسندانہ تحریک آزادانہ یہاں کبھی کام کرنے کے قابل نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود ان مٹھی بھر خردپسندوں سے اس ملک کے جاگیردار،سرمایہ دار ،فوجی و بے وردی نوکر شاہی اور ان کی لے پالک ملائیت خوفزدہ رہی اور خردافروزی کے راستے زبردستی روکنے کے احکامات جاری کئے جاتے رہے پاکستان ٹائمز ،لیل و نہار ،امروز اسی لیے بند کردئے گئے اور سنسر شپ کی قینچی ، ایوب خان کا پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈینس اور پھر ضیاءالحقی لاز یہ سب حریت فکر اور خرد افروزی کو دبانے کے لیے لائے جاتے رہے جب اس سے کام نہیں چلا تو توھین مذھب کے قانون میں تبدیلی کرکے اسے سول جرم کی بجائے فوجداری جرم میں بدل دیا گیا اور اس قانون کے بے محابا استعمال نے خرد افروزی کی تحریک کو کچلنے میں بہت زیادہ مدد فراہم کی پاکستان آزادی رائے کا قبرستان بننے جارہا ہے جہاں یوٹیوب بند ہے اور انٹر نیٹ سنسر شپ روزبروز سخت ہورہا ہے مجھے ن م راشد کی نظم آدمی سے ڈرتے ہو یاد آرہی ہے جس کا ایک مصرعہ یہ بھی ہے کہ روشنی سے ڈرتے ہو روشنی تو میں بھی ہوں روشنی تو تم بھی ہو ریاست واقعی روشنی سے ڈری ہوئی ہے تبھی تو چوتھی بار اس پیج کو بند کردیا گیا ، روشنی کرتی کیا ہے کہ یہ پاکستان کی ریاست کو پورے کا پورا اپنے نور کی زد میں لیتی ہے یہ نور ایسیا ہے کہ پوری ریاست کا آرآئی ایم کردیتا ہے اور اس میں جب پاکستان کے فوجی جرنیل،سویلین حاکم ،مذھبی فاشسٹ ،سول نوکر شاہی سب اپنا اپنا چہرہ دیکھتے ہیں تو بلبلا اٹھتے ہیں اور پھر روشنی کو گل کرنے کی کوشش کرتے ہیں روشنی سمیت بہت سے فیس بک پر پیجز ایسے ہیں جو تصویروں سے کہانی مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تصویریں کبھی جھوٹ نہيں بولتیں بس پھر کیا ہے کہ روشنی کو پی ٹی اے ایک پھونک سے بند کرتا ہے تو روشنی والے دوسری مہارت عقلی سے روشنی کسی اور ایڈرس سے ضوفشانیاں کرنے لگتی ہے پاکستان میں وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب پاکستان کے خرد افروز المناتیوں یا اخوان الصفاء والوں کی طرح بے نامی سے لکھیں گے اور خرد افروزی کا پرچار کریں گے ویسے اب بھی بہت سے لوگ نام شناخت کو چھپاکر خردافروز تحریک چلارہے ہیں اور بے نامی اور بے شاختی بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن پیغام پھر بھی دور دوراز تک پہنچ رہا ہے اگر ایسا نہ ہوتآ تو روشنی سے ڈرنے والے اسے بند نہ کرتے