رات میں حسب معمول ایک کیفے پر بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا کہ موبائل پر میسج ٹون بجی ، موبائل میں میسج باکس کھولا تو پیپلز یوتھ آرگنائزیشن جنوبی پنجاب کے سئنیر نائب صدر سید کرار حیدر شاہ کا برقی پیغام تھا کہ
افسوس ناک خبر - پی پی پی ملتان شہر کے صدر خورشید خان کا انتقال ہوگیا
خبر پڑھکر میں صدمے ، غم و اندوہ میں ڈوب گیا اور میں نے زرا ٹوئٹر اور فیس بک پر اس خبر کو پوسٹ کیا اور ساتھ ہی بلاول بھٹو زرداری ، فریال تالپور ، رحمان ملک ، قمر الزمان کائرہ ، موسی گیلانی سمیت کئی ایک پی پی پی کے رہنماؤں کے اکاؤنٹ بھی چیک کئے اور اب جب یہ کالم لکھنے بیٹھا تو پھر چیک کیا لیکن خورشید خان کی موت کو 28 گھنٹے سے زیادہ ہوجانے کے باوجود میں نے کسی ایک کی طرف سے بھی کوئی تعزیتی بیان نہیں دیکھا
بلاول بھٹو زرداری نے 12 نومبر 2014ء کو ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں انھوں نے لندن کے اگلے مئیر کو ایک " گورا جیالا " کہہ کر خراج تحسین پیش کیا ہے اور نیچے 8 نومبر کو فہمیدہ مرزا کی والدہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہوا ہے ، حسن مجتبی نے ان کو ٹوئٹوں کا بادشاہ قرار دیا تھا لیکن نہ جانے کیوں ٹوئٹوں کا یہ بادشاہ ایسے موقعوں پر خاموش کیوں رہتا ہے جب اس کا ایک ٹوئٹ اس کے پارٹی کے کارکنوں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے
خورشید خان نے ملتان میں پی پی پی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز نوجوانی میں قائد عوام زوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں کیا ، وہ بنیادی طور پر ایک ٹریڈ یونینسٹ تھا اور جی ٹی ایس یونین میں اہم کردار ادا کرتا رہا ، زوالفقار علی بھٹو کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس نے پارٹی کے انتہائی مشکل دنوں میں بھی جمہوریت ، سماجی انصاف اور سفید پوش طبقے کی ترجمان سیاست کو گلے سے لگائے رکھا اور کبھی چھلانگ لگا کر اس نے بلائی طبقے میں جانے کی کوشش نہ کی
میں نے ان کو اکثر ملتان ڈیرہ اڈا پر فرینڈز ہوٹل میں پارٹی کارکنوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا ، جہاں کبھی کبھی چائے پینے میں بھی چلاجاتا تھا
ایک مال پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ
" حسینی صاحب !آج کل آپ کے قلم کی کاٹ بہت تیز ہوچکی ہے - لفظوں کو نشتر کی جگہ استعمال کررہے ہو ، بلاول اگر " زندان پدر کا قیدی " نہ ہو تو زندان اسٹبلشمنٹ کا قیدی بن جائے ، وہ میرے دو ہفتے پہلے لکھے گئے ایک کالم کا حوالہ دے رہے تھے جو میں نے بلاول بھٹو کی 18 اکتوبر 2014ء کراچی جلسہ میں کی گئی تقریر پر لکھا تھا
خورشید خان کبھی بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے مایوس نہیں ہوئے تھے اگرچہ پارٹی کے اندر تنقید بھی کھل کر کرتے تھے ،اور خورشید خان پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اس نسل کے چند بچے کچھے لزکوں میں سے تھے جن پر اس پارٹی کے اندر سوشلسٹ ، ترقی پسند ، مزدور ، کسان خیالات کی آبیاری کرنے والے رہنماؤں جیسے بابائے سوشلزم شیخ رشید ، سفیر ویت نام اشفاق احمد خان والد شہید راشد رحمان ایڈوکیٹ کا اثر بہت غالب تھا اور وہ پیپلزپارٹی کے اندر " ورکرز پالیٹکس " کے علمبردار تھے
ان کی وفات پر میرا خیال تھا کہ فوری طور پر ملک بھر سے پی پی پی کے رہنماؤں کے بیانات سامنے آئیں گے اور پی پی پی کا ملکی اور صوبائی میڈیا سیل اس خبر کو پارٹی کی طرف سے اخبارات کو جاری کریں گے ، ترجمان بلاول ہاؤس کراچی و لاہور اعجاز درانی و فیصل میر اس پر اپنے خیالات ضرور پریس کو بھیجیں گے
لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ، میں نے پھر یہ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری کو ایک ٹوئٹ کیا اور ایسے ہی ٹوئٹ پی پی پی میڈیا اور بلاول بھٹو زرداری کے آفس سٹاف کو بھی کئے اور ڈھیٹ بنکر ان سے درخواست بھی کی کہ اس پر تعزیتی بیان جاری کریں
لیکن کوئی ردعمل موصول نہين ہوا بلکہ فیصل میر کو تو فون کیا اور اسے یاد بھی نہیں آیا کہ خورشید خان کون تھے ، جب بتایا تو اظہار افسوس کیا ، میں نے فون بند کردیا
عمران خان نے پی پی پی کے 18 اکتوبر کے جلسے کے شرکاء کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں لاشوں نے شرکت کی تھی ، عمران خان نے یہ بات کسی اور معنی میں کی تھی لیکن مجھے یہ ایک اور طرح سے ٹھیک لگتی ہے کہ پی پی پی کے اندر سفید پوش اور غریب کارکن اب زندہ لاشوں میں بدل چکے ہیں اور خورشید خان جیسے کارکن توپارٹی کی صورت بدل جانے پر صدمے اور دکھ کی وجہ سے کومے کی کیفیت کا شکار ہیں اور ان سے ایک لفظ بھی بولا نہیں جاتا
ابھی دو ماہ پہلے پی پی پی کے کئی ایک دیرینہ کارکن اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے لیکن ان غریبوںکے ہآں بڑی قیادت تو دور کی بات ڈویژن اور جنوبی پنجاب سطح کی قیادت بھی نہيں پہنچ پائی ، اس جنوبی پنجاب کی قیادت میں تو ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے آبائی حلقے تلمبہ میں ہی کسی کارکن کی شادی یا مرگ مين شریک نہیں ہوتا ، ایسے بے حس اور مردہ لوگوں سے یہ پارٹی بھری نظر آتی ہے
میں سوچتا ہوں کہ پہلے " کشمیر ملین مارچ " میں اور اب پھر لندن میں بلاول بھٹو زرداری کو ان کشمیریوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر کے شیدائی ہیں ، کیا اس سے بھی یہ قیادت کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے
ابھی روزنامہ خبریں ملتان میں مکرم خان نے اپنے کالم کے اندر آصف علی زرداری کے والد کی چند منٹ کی جس ویڈیو کا زکر کیا تھا ، میں نے وہ ويڈیو دیکھی اور حیران رہ گیا ، ويڈیو اس لیے دیکھی کیونکہ میں مکرم خان کو ضیاء الحقی باقیات سے خیال کرتا ہوں مگر ويڈیو میں جب حاکم علی زرداری کو یہ کہتے سنا کہ
قائد اعظم تو اس ملک کی اے بی سی سے بھی وافق نہیں تھے الخ
تو مجھے مکرم خان کا غصّہ بجا معلوم ہوا ، بھلا حاکم علی زرداری اتنے بڑے قد کا مالک کب سے ہوگیا کہ وہ بابائےقوم محمد علی جناح کے بارے میں ایسے جملے کہہ سکے ، یہ وہ جناح ہيں جن کے بارے میں سطحی اور رزیل جملے کہنے یا لکھنے کی ہمت تو کانگریس کے باپو گاندھی ، جدید ہندوستان کے معمار جواہر لعل نہرو ، تین سابق صدور کانگریس ابوالکلام آزاد ، سی گوپال اچاریہ اور سبھاش چندر بوس کو نہیں ہوئی ، حاکم علی زرداری کے ہآں تاریخ اور ہندوستانی سیاست پر عبور حاصل کرنے کا کوئی جذبہ ہوتا تو وہ جناح کے بارے میں ہندوستان کے بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں کے ستائشی کلمات بارے خوب جانتے ہوتے اور کانگریسی و احراری ملّاؤں کی طرح آفتاب پر تھوکنے کے مرتکب نہ ہوتے
لیکن اس کلپ کے بارے میں پی پی پی کا سوشل میڈیا بھی منہ پر تالے ڈالکر بیٹھا ہے ،ویسے بھی نظریات کو تیاگ دینے کے بعد پیپلزپارٹی کے اندر کس کو پڑی ہے کہ اپنی ںطریاتی اساس پر بات کرے یا صفائی دے
جس پارٹی سے ںظریات رخصت ہوجائیں اور موقعہ پرستی کی خاک اڑتی ہو وہآں کارکن جیتے ہوں یا مرگئے ہوں کسی کو کوئی پرواہ نہیں رہتی
ویسے مجھے ايک نہائت معتبر شخص جوکہ خود بھی ضیاء الحق کے مارشل لائی ضابطے کے تحت شاہی قلعے کے بعد ملتان جیل میں قید کاٹ رہا تھا نے بتایا آج جو لوگ پارٹی کے ان داتا بنےبیٹھے ہیں وہ ضیاءالحق کے حواریوں کے لیے پی پی پی کے جیالوں کی مخبریاں کیا کرتے تھے اور اس کے عوض تنخواہ پاتے تھے ، ایک صاحب ایسے تھے جن کو پی پی پی دور میں آئی ب مين بھرتی کیا گیا اور حیرت انگیز طور پر ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے سب لوگ نکال باہر کئے گئے ، مگر وہ موصوف ترقی پر ترقی پاتے گئے اور آج بہت بعد میں جاکر پتہ چلا کہ ملتان کے بہت سے لوگوں کی گرفتاری اور چھاپوں کے پس پردہ ان کی مخبری کام دکھارہی تھی ،زرداری و گیلانی نے پانچ سالہ دور اقتدار میں اس شخص کو خوب نوازا
خورشید خان ملتان کی ورکر سیاست کا ایک سچا اور کھرا باب تھے اور وہ عمر کے اس حصّے میں اب کسی اور جانب رخ کرنا نہیں چاہتے تھے ، ضیاءالحق نے پاکستان کی سیاست میں " کالے دھن " اور کلائنٹل ازم کے جو وائرس داخل کئے تھے ، اس نے خورشید خان جیسے کارکنوں کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں داخلے کو ویسے ہی ناممکن بناڈالا تھا اورپی پی پی کو یہ توفیق کبھی نہ ہوئی کہ وہ خورشید خان کو سینٹر یا مشیر ہی بنانے کا فیصلہ کرکے یہ ثابت کرتی کہ وہ ورکر سیاست پر یقین سے منحرف نہیں ہوئی ہے
پرانے ورکرز کے ساتھ پی پی پی نے جو حشر کیا ، اسے دیکھتے ہوئے سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والی نئی نسل نے اس پارٹی کی طرف آنا بند کردیا اور اس پارٹی کی قیادت کی بنجر سوچ کی وجہ سے آج پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں نیا خون نظر آتا ہے اور یہ بنجر سوچ کی مالک قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ٹوئٹس اور فیس بک سٹیٹس کے زریعے سے یہ ان کامقابلہ کرلے گی اور نئے خون کو اس طرف جانے سے روک لے گی
پی پی پی نے بہت تیزی سے اپنے سیاسی ورثے اور سیاسی اثاثے کو تباہ کرنے کا کام شروع کیا اور پھر 18 اکتوبر سے پہلے یہ محسوس ہورہا تھا کہ یہ اب ایسے اقدامات اٹھائے گی جس سے کم از کم تھوڑی سی تازگی یہاں محسوس ہوگی لیکن 18 اکتوبر اور اس کے بعد ابتک اس کی روش سے ثابت ہوگیا کہ یہ مکمل طور پر بنجر ذھنوں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے
اس کی اپوزیشن تو مسلم ليگ قائداعظم کی اپوزیشن سے بھی کمتر ہوچکی اور المیہ یہ ہے کہ اس کی سٹریٹ پاور پنجاب میں عوامی تحریک جیسی جماعتوں سے بھی کم دکھائی دینے لگی ہے اور یہ سب نیتیجہ ہے اس نام نہاد مفاہمانہ سیاستکا جس کی زنجیریں پارٹی کے گلے اور پاؤں میں قبلہ آصف علی زرداری نے ڈال رکھی ہیں اور اس کا بوجھ اتنا ہے کہ پارٹی دو قدم بھی اٹھانے سے قاصر نظر آتی ہے
میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کے دیرینہ کارکن جنھوں نے خون جگر سے اسے سینچا تھا وہ اس بوجھ تلے اسقدر دبے ہیں کہ ان میں سے کئی تو حقیقی طور پر گھٹ کر دل کے ہاتھوں ہار گئے اور ان میں خورشید خان ایک تھے ،جن کی مسمت میں ٹوئٹوں کے بادشاہ کا ایک ٹوئٹ بھی نہيں آسکا
No comments:
Post a Comment