Saturday, July 31, 2010

وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان سے گفتگو

وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان سے گفتگو

عامر حسینی





]وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان آج کل ملک بھر کی بارز کے دوروں پر نکلے ہوئے ہیں۔ ان کے ان دوروں کا بڑا شہرہ ہے۔ ایسے ہی ایک دورے کے دوران ”ہم شہری“ نے ان سے حالات حاضرہ پر ایک انٹرویو کیا ہے۔ بابر اعوان نے اس انٹرویو میں کئی انکشافات بھی کیے۔ انٹرویو کے اقتباسات قارئین کی نذر ہیں۔





ہم شہری: آپ بالعموم پاکستان بھر کی بارز کے دورے کر رہے ہیں، پنجاب آپ کا خاص ٹارگٹ ہے۔ ان دوروں پر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی انور، سابق صدر اکرم شیخ ایڈووکیٹ سمیت آپ کی وکلاء برادری کا ایک حصہ آپ پر وکلاء کو خریدنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ میاں نواز شریف، چوہدری نثار بھی آپ کے دوروں پر نالاں ہیں۔ آپ پر یہ بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ آپ عدلیہ کے فاضل ججز کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ ان باتوں میں کہاں تک صداقت ہے؟





بابر اعوان: سب سے پہلے تو ”ہم شہری“ کا شکریہ کہ اس نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میں اپنا مقدمہ کھل کر عوام کی عدالت میں پیش کروں۔ جہاں تک آپ نے یہ جملہ کہا کہ پنجاب میرا ٹارگٹ ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں خود سے کسی بار میں نہیں جا رہا۔ بارز مجھے دعوت نامے ارسال کر رہی ہیں تو میں جا رہا ہوں۔ میں جس بار میں بھی گیا وہاں وکلاء کے اجتماع سے میں نے رائے مانگی کہ مجھے بارز کا دورہ کرنا چاہیے یا نہیں، تو بھاری اکثریت نے میرے دوروں کی حمایت کی۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر کسی بھی بار کے وکلاء کی اکثریت نہ چاہے تو کیا میں اس بار کا دورہ کر سکوں گا؟ کیا میں اس بار سے خطاب کر سکوں گا؟ وکلاء کا مزاج سب جانتے ہیں۔ اگر مجھے پنجاب کی بارز کا اعتماد حاصل نہ ہوتا تو میں کبھی بھی کسی بار سے خطاب نہیں کر سکتا تھا۔ میں سب سے پہلے تو وکیل ہوں، اس کے بعد میرے پاس وزارت قانون کا قلم دان ہے۔ اس وزارت سے میں وکیلوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کر سکتا ہوں تو میں وہ کیوں نہ کروں۔ میں جو گرانٹس دے رہا ہوں وہ کسی کی ذات کو نہیں دے رہا بلکہ اجتماعی اداروں کو امداد دی جا رہی ہے۔ اب میں آپ کو بتاؤں کہ میں ڈسٹرکٹ بار خانیوال گیا تو وہاں ڈسٹرکٹ بار کے صدر سید ضیا حیدر زیدی، جنرل سیکرٹری راشد محمود اور پی ایل ایف کے صدر وزیر اقبال نیازی نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ضلع کی اس بار میں نہ تو سائلین کے لیے شیڈ ہے، نہ مسجد ہے اور نہ ہی کیفے ہے۔ اکثر بارز میں عورتوں کے لیے کوئی ریڈنگ روم نہیں ہے۔ نوجوان وکلاء کے پاس لاء کی حوالہ بکس خاص طور پر میجر ایکٹ اور فیملی لاز مینول خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔ نوجوان وکلاء اگر لاء کی کتابیں نہیں پڑھیں گے تو وہ بہتر وکیل کیسے بنیں گے۔ میں اگر وکلاء کی بڑی مصیبتوں میں سے چند کو ختم کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں تو میں ایسا کیوں نہ کروں۔ پھر محض وکلاء ہی نہیں میں نے وکلاء کے منشیوں کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگر میں نے ایسا کیا تو کیا بُرا کیا؟ اس میں وکلاء کو خریدنے اور جج صاحبان کے خلاف سازش کہاں سے آ گئی؟

ہم شہری: میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف آپ سے سخت ناراض ہیں۔ بلکہ میاں نواز شریف نے تو آپ کے خلاف پے در پے پریس کانفرنسیں کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ پنجاب حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔ کیا ہوا کہ میاں برادران آپ سے سخت ناراض ہو گئے ہیں؟

Eبابر اعوان: وہ کسی کا شعر ہے نا کہ

Qہم عرض بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

Kوہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا





یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف تخت لہور کے شہزادے ہیں۔ انہوں نے دروں بینی اور خود احتسابی کبھی سیکھی نہیں۔ میری غلطی فقط اتنی ہے کہ میں نے ان کو جواباً آئینہ دکھایا ہے تو وہ اس پر بُرا منا گئے ہیں۔ میاں نواز شریف وفاقی حکومت پر بہت برستے ہیں۔ انہیں اچھی حکمرانی وفاق میں نظر نہیں آتی لیکن پنجاب کی بدترین صورت حال پر ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ مجھے پنجاب کے سینئر وزیر راجہ ریاض نے بتایا کہ سانحہ داتا دربار کے بعد بھی پنجاب کابینہ کا اجلاس نہیں بُلایا گیا۔ پنجاب کابینہ کا اجلاس نہ بلانا رول آف بزنس کی خلاف ورزی ہے۔ میں آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ میاں برادران ہمیں کفایت شعاری کا درس دیتے نہیں تھکتے، انہیں غریب وکلاء میں امداد تقسیم کرنا بُرا لگتا ہے، انہیں ملازمین کی 50 فیصد تنخواہوں میں اضافہ بوجھ لگتا ہے لیکن ان کا اپنا طرزِ حکومت شاہانہ ہے کہ پورے سرائیکی بیلٹ کو جتنی رقم دی اس سے 20 گنا زیادہ رقم ٹھوکر نیاز بیگ سے اپنے محل تک آنے والی سڑک پر خرچ کر دی۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی حفاظت کے لیے چار ہزار سے زیادہ پولیس اور ایلیٹ فورس کے جوان تعینات ہیں، جبکہ صوبے اور دارالخلافہ میں 8 محلات کو وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ قرار دے رکھا ہے۔ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ فیصل آباد میں ہمارے دو مسیحی بھائیوں کو ہتھکڑی لگی ہوئی کے ساتھ دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا، سانحہ گوجرہ میں مسیحی بستی نذر آتش ہوئی، ایک وکیل کے چیمبر پر بموں سے حملہ ہوا۔ لاہور میں ہونے والے خود کش حملے ہمارے سامنے ہیں۔ دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ عوام کی جان و مال کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ صوبائی مشینری اور فنڈز تو شہزادوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ لاہور میں ان شہزادوں نے پہلے ریڑھے ٹانگے بند کیے۔ اب رکشے بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غریب کا لاہور میں رہنا برداشت نہیں کرتے۔ یہ غربت کو خوشحالی اور امارت میں بدلنے کے بجائے غریب کے خاتمے کو آسان سمجھتے ہیں۔ میری یہ کڑوی سچی باتیں ہیں جن کے باعث میاں برادران کے ہاں تلخی زیادہ ہو گئی ہے۔

?ہم شہری: اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے بل کی سمری کہاں ہے؟ آپ نے سرگودھا اور فیصل آباد میں ہائی کورٹ بینچز بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟

بابر اعوان: اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کی منظوری پارلیمنٹ کے دونوں ایوان دے چکے ہیں۔ اب اس کی سمری صدر مملکت کو بھیج دی گئی ہے، جلد ہی اس پر دستخط ہو جائیں گے۔ جہاں تک فیصل آباد اور سرگودھا ہائی کورٹ کے الگ بینچز کے قیام کا فیصلہ ہے تو ہم نے گورنر اور سینئر وزیر راجہ ریاض سے کہہ دیا ہے، وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان بینچز کی منظوری پنجاب کابینہ نے دینی ہے۔ جوں ہی پنجاب کابینہ اسے منظور کرے گی الگ بینچز کا قیام عمل میں آ جائے گا۔ اب گیند پنجاب حکومت کے کورٹ میں ہے۔

Oہم شہری: ملک میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ناکامی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ مشرف آمریت موجودہ جمہوریت سے بہتر تھی۔ پنجاب کے اندر سرائیکی اور پوٹھوہار صوبے کی آواز اُٹھ رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

بابر اعوان: جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ناکامی کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے خیال میں یہ خناس بھرا ہوا تھا کہ 2008ء کے انتخابات کا وہ بائیکاٹ کر دیں گے تو عوام ووٹ نہیں دیں گے۔ نظام زیادہ دیر چل نہیں پائے گا لیکن 18ویں ترمیم کے پاس ہونے نے ان کی کئی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 18ویں ترمیم کوئی عام ترمیم نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی ترمیم ہے جو 5 جولائی 1977ء سے پاکستانی سیاست کے غیر جمہوری، غیر انسانی، غیر مساوی نظام ہائے سماجی سیاست اور معاشی سیاست کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے۔

اس نے صرف صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات پر نظرثانی نہیں کی بلکہ اس نے دورِ آمریت کی تمام سیاسی، معاشی، قومیتی، نسلی، لسانی، مذہبی، صنفی ناانصافیوں کا ازالہ کیا ہے، اسی لیے تو اس ترمیم کے خلاف وہ لوگ سپریم کورٹ میں گئے ہیں جو جنرل ضیاالحق کے حقیقی اور معنوی بیٹے ہیں۔ یہ سب مل کر 18ویں ترمیم کا عدالتی قتل چاہتے ہیں اور عدالت کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کے خواہاں ہیں۔ لیکن یہ سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ جہاں تک پنجاب کی تقسیم کے مطالبات کا تعلق ہے تو میں آپ کو بتاؤں کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے ہم نے 28 سے زائد شعبے حکومت پنجاب سمیت دیگر صوبوں کو دیے ہیں۔ ہم نے این ایف سی ایوارڈ کا جو فارمولہ دیا اس کے تحت پنجاب کو جو رقوم ملی ہیں ان میں سب اضلاع اور تحصیلوں کا حصہ ہے۔ پنجاب حکومت اگر فنڈز کی تقسیم کا فارمولہ ضلع و تحصیل لیول پر آبادی، غربت، پسماندگی اور آمدنی کو بنائے تو میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی تقسیم کی آوازیں بند ہو جائیں گی۔ تخت لہور جب تک لاہور سے باہر مساوی بنیادوں پر فنڈز جاری نہیں کرے گا اور تحصیل لاہور کے برابر دیگر تحصیلوں کو فنڈز نہیں ملیں گے تو پھر تقسیم ہی کی آواز بلند ہو گی۔ مجھے تو ڈر ہے کہ لاہور کے، غریب اور نچلے متوسط طبقے کی آبادی والے علاقے ”شہزادوں“ کے محلات والے علاقوں سے الگ صوبے کا مطالبہ نہ کر دیں۔

بدانتظامی اور سیاسی انتقام کا حال یہ ہے کہ میں نے تین سال قبل اپنے گاؤں واقع یونین ڈھوک سہالاں میں 20 کنال زمین کا انتقال پنجاب حکومت کے نام کرایا۔ اس زمین پر ہسپتال کی عمارت تعمیر ہو گئی، مطلوبہ مشینری بھی آ گئی، لیکن تاحال یہاں ڈاکٹر تعینات نہیں ہونے دیا جا رہا۔ خادم اعلیٰ پنجاب مجھ سے دشمنی کی سزا میری یونین کونسل کے تمام لوگوں کو دے رہے ہیں۔ میں آپ کے رسالے کے ذریعے سے بھی ان سے کہتا ہوں کہ وہ میری دشمنی کی سزا میرے علاقے کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت سے محروم کر کے نہ دیں۔ این ایف سی ایوارڈ اور صوبائی خود مختاری کے بعد غربت، پسماندگی اور محرومی کی اصل جڑ کچھ علاقوں کا دوسرے علاقوں سے زیادہ فنڈز لے جانا ہے۔

]ہم شہری: حکومت ویج بورڈ ایوارڈ کب نافذ کرے گی؟

بابر اعوان: میں وہ وکیل ہوں جس نے ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ میں صحافی کارکنوں کا مقدمہ پیش کیا۔ سندھ حکومت نے اس حوالے سے ایک ’سٹے‘ دیا ہوا ہے جس کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ اس ’سٹے‘ کو ختم ہونا چاہیے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اخباری کارکنوں کو جلد خوش خبری دے۔ بلکہ حکومت ریٹائرڈ اور بوڑھے ہو جانے والے صحافیوں کے لیے ای او بی آئی(ایمپلائز اولڈ ایچ بنفیٹس انسٹی ٹیوٹ) طرز کی سکیم لانے کا سوچ رہی ہے۔ جمہوریت پانچ سال کا سفر طے کرنے کے دوران اس ملک کے تمام مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو قعرمذلت سے نکالے گی۔

ہم شہری: حکومت مستقبل قریب میں کون سے اہم اقدامات اٹھانے جارہی ہے؟

بابر اعوان:26 جولائی کو سینٹ کا اجلاس شروع ہورہا ہے جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور بے نظیر انکم سپورٹ ایکٹ منظور کیا جائے گا۔ ہم قومی اسمبلی اور سینٹ کے کل سیشن اجلاسوں کی تعداد میں اضافہ کرنے جارہے ہیں۔



تبصرہ

Saturday, July 17, 2010

کالعدم تنظیمیں نہ صرف مدارس چلا رہی ہیں بلکہ وہ اپنا لٹریچر چھاپنے کے ساتھ ساتھ آزادی سے جلسے جلوس بھی کر رہی ہیں

سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ فضل کریم سے بات چیت

عامر حسینی

صاحبزادہ فضل کریم کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ وہ معروف عالم دین مولانا سردار احمد رضوی کے صاحبزادے ہیں۔ فیصل آباد سے وہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ انتخاب انہوں نے مسلم لیگ (نواز) کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔ وہ مرکزی جمعیت العلمائے پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کی تنظیموں کے اتحاد ’سنی اتحاد کونسل‘ کے سربراہ بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حوالے سے ان سے خصوصی بات چیت کی گئی جو قارئین کی نذر ہے۔

ہم شہری: ملک میں دہشت گردی کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ پنجاب کے مرکز لاہور میں حضرت علی عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کا مزار بھی اس کا نشانہ بنا۔ حکومت اس کی روک تھام کیوں نہیں کر پا رہی؟

فضل کریم: میرے خیال میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو نہ پانے کی سب سے بڑی وجہ تو حکومت کا اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنا ہے۔ وفاقی حکومت کا حال یہ ہے کہ اس نے مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی رشوت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بریلوی اور شیعہ کی نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اہل سنت اس ضلع میں سخت عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ لیکن وہاں کوئی کارروائی اس لیے نہیں کی جا رہی کیونکہ مولانا فضل الرحمان وفاقی حکومت کا حصہ ہیں۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کر رہی۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے اندر اس وقت بھی یہ حال ہے کہ وہاں اہل سنت کے مزارات مقدسہ، جو تباہ کر دیے گئے، ان کی اب تک مرمت کا کام نہیں ہوا جبکہ جن مزارات پر قبضہ ہوا وہ قبضہ بھی واگزار نہ ہوا۔ علمائے اہل سنت و مشائخ عظام کا جو قتل ہوا اس کے ذمہ دار بھی تاحال گرفتار نہیں کیے گئے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بریلوی اور شیعہ عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگا دی گئی ہے۔ یہ قدغن دہشت گردوں نے لگائی ہے اور اس صورت حال پر وفاقی اور صوبائی حکومت خاموش بیٹھی ہیں۔ دوسری بڑی اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ بیدار کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے ’پنجاب علما بورڈ‘ بنایا۔ بدقسمتی سے اس بورڈ کا ممبر ایسے لوگوں کو بھی بنایا گیا جن کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔

ہم شہری: مثال کے طور پر کون سے لوگ؟

فضل کریم: کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی اس کی بڑی مثال ہیں۔

ہم شہری: آپ مسلم لیگ (نواز) کے ٹکٹ پر فیصل آباد سے منتخب ہوئے۔ میاں برادران کے ساتھ آپ کے گہرے روابط موجود ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (نواز) کی حکومت ہے، لیکن لگتا ہے کہ آپ پنجاب حکومت سے خاصے ناراض ہیں۔ کیا شکایات ہیں پنجاب حکومت سے آپ کو؟

فضل کریم: جب سے میاں محمد شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہم نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ پنجاب کے اندر دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس حکمت عملی ترتیب دیں۔ ہمارا ان سے مطالبہ تھا کہ وہ پنجاب حکومت اور پنجاب کی سول ایڈمنسٹریشن کے اندر سے ایسے لوگوں کو فارغ کریں جن کے بارے میں یہ خبریں ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ہمدرد اور حامی ہیں۔ ہم نے انہیں آگاہ کیا تھا کہ علمائے اہل سنت کو دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے کی وجہ سے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی سخت تشویش تھی کہ پنجاب کے اندر کالعدم تنظیمیں نہ صرف مدارس چلا رہی ہیں بلکہ وہ اپنا لٹریچر چھاپنے کے ساتھ ساتھ آزادی سے جلسے جلوس بھی کر رہی ہیں۔ ہمیں بجا طور پر پنجاب کے اندر کالعدم سپاہ صحابہ کے ’اہلسنت والجماعت‘ کے نام سے کام کرنے پر تشویش تھی۔ اس طرح جماعت الدعوة کو پابندی کے باوجود کام کرنے کی آزادی بھی تشویش کا باعث بن رہی تھی۔ ہمارے خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب اہل سنت کے عظیم رہنما مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد جھنگ کے ضمنی انتخاب میں وزیر قانون نے اپنی گاڑی میں کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کو بیٹھا کر کیمپین کی اور ان کی گاڑیاں فیصل آباد میں بارہ ربیع الاوّل کے جلوس میں فائرنگ کے لیے استعمال ہوئیں۔ ہمارے لیے یہ بڑے دُکھ اور تکلیف کی بات تھی کہ پنجاب حکومت کا وزیر قانون، جو وزیر داخلہ بھی ہے، وہ دہشت گردوں کا سرپرست بنا ہوا ہے۔ پنجاب کے اندر عوام اہلسنت میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارا پنجاب حکومت سے اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ حکومتی اور انتظامی عہدوں پر متنازعہ بلکہ ملزم لوگ فائز کیے ہوئے ہے اور ان مدارس کو سرکاری تحویل میں لیے جانے سے قاصر ہے جو کالعدم تنظیموں نے بنائے اور چلائے جا رہے ہیں۔

ہم شہری: کیا آپ ان مدارس کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟

فضل کریم: ویسے تو پنجاب حکومت کے پاس خفیہ اداروں کی جانب سے فراہم کردہ رپورٹیں موجود ہیں، ان میں مدارس کی تفصیل موجود ہے۔ میں آپ کو فیصل آباد میں گول مسجد کے ساتھ قائم مدرسے کی مثال دوں گا۔ یہ مدرسہ سپاہ صحابہ کے سپریم کونسل کے سرپرست مرحوم ضیا القاسمی کا ہے جسے اب ان کا بیٹا زاہد القاسمی چلا رہا ہے۔ یہ وہ آدمی ہے جسے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ اس نے 12 ربیع الاوّل کے جلوس پر مسجد سے مورچہ زن ہو کر فائرنگ کی اور بعد میں کلاشنکوفوں سے لیس ہو کر جلوس بھی نکلا۔ اسی طرح جھنگ کے اندر جامعہ محمودیہ ہے جسے مولوی حق نواز جھنگوی نے قائم کیا اور یہ مدرسہ آج بھی سپاہ صحابہ کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اسی طرح کراچی کے اندر اور جنوبی پنجاب میں کئی مدارس ہیں۔ جامعہ عبداللہ بن مسعود بہاولپور میں مولانا مسعود اظہر، بانی جیش محمد، کا مدرسہ ہے۔ اس مدرسے کے بارے میں ایجنسیوں کی چونکا دینے والی رپورٹس موجود ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر کون سی مجبوری ہے میاں برادران کو کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔

ہم شہری: سانحہ داتا دربار کے بعد سنی اتحاد کونسل کے وزیراعلیٰ سے مذاکرات ہوئے ہیں۔ آپ کی طرف سے 30 سے زائد مطالبات پیش ہوئے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے۔ کیا آپ اس سے بہتری کی امید رکھتے ہیں؟

فضل کریم: دیکھئے۔ سنی اتحاد کونسل کے دو اہم اور بڑے مطالبے ہیں، اوّل وزیر قانون رانا ثنااللہ کی برطرفی کا۔ ہمیں وزارت کی تبدیلی قابل قبول نہیں ہو گی۔ دوم تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی، اور یہ کارروائی ایسی ہو کہ سب کو نظر آئے۔ اگر کالعدم تنظیموں کے لوگ آزادی کے ساتھ کام کرتے رہیں گے تو پھر ایسی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہم جولائی کے آخری ہفتے میں ملک بھر کے علما اور مشائخ کا ایک اجلاس جامعہ حزب الاحناف لاہور، میں بلا رہے ہیں۔ اس اجلاس میں متفقہ طور پر مطالبات کا چارٹر تیار کیا جائے گا۔ ابھی پنجاب حکومت نے 100 سے زائد تنظیموں پر پابندی کے احکامات جاری کیے ہیں، ہم ان پر عمل درآمد کے منتظر ہیں لیکن اس میں ’جماعت الدعوة‘ کو شامل نہ کر کے پھر منفی سگنل دیا گیا ہے، جس پر ہمیں سخت تشویش ہیں۔

ہم شہری: وفاقی حکومت نے اس مسئلے پر قومی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ کیا سنی اتحاد کونسل اس اجلاس میں جائے گی؟

فضل کریم: بالکل۔ دعوت ملی تو ضرور جائیں گے۔ لیکن ایک بات ضرور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہم باور کرانا چاہیں گے اور وہ یہ کہ ان کانفرنسوں میں دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو مت بلایا جائے۔ انہیں سرکاری طور پر عزت و احترام دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کانفرنس بے کار ہے۔

ہم شہری: کچھ لوگ ملی یکجہتی کونسل طرز کا اتحاد تشکیل دینے کی بات کرتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی؟

فضل کریم: دیکھئے! ہم صاف یہ بات کہتے ہیں کہ یہ کوئی مسالک کے درمیان جھگڑے کا معاملہ نہیں ہے۔ ایک گروہ ہے تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، جیش محمد، حرکت الجہاد الاسلامی، جماعت الفرقان، لشکر طیبہ، لشکر اسلام اس گروہ سے تعلق رکھنے والی مساجد، امام بارگاہوں، مزارات مقدسہ، پولیس، فوج، بازار، عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ سارے گروہ پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے مجرم ہیں۔ ان کی فکری حمایت کرنے والے، ان کی مالی اور لاجسٹک مدد کرنے والے اور ان کو پناہ گاہیں فراہم کرنے والے سب کے سب اسلام، پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن ہیں۔ ان سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم تو وفاق المدارس کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان، جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری، دارالعلوم کراچی کے مفتی رفیع الدین، دارالعلوم جامعہ بنوریہ کراچی کے مفتی نعیم اور سابق جج شرعی عدالت نقی عثمانی سے محض اتنا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر مذکورہ بالا تمام تنظیموں سے اعلان لاتعلقی کریں اور ان کے خلاف فتویٰ دیں کہ احمد لدھیانوی، قاری زاہد القاسمی، مسعود اظہر سمیت ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان سے الحاق کو ختم کریں۔ خودکش حملوں کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کریں۔ میں آپ کو بتلاؤں کہ جامعہ اشرفیہ میں خودکش حملوں کے خلاف متفقہ فتویٰ نہیں آیا۔ وفاق المدارس سے تعلق رکھنے والے بعض مدارس کے علما نے پاکستانی ریاست کو دارالحرب قرار دے کر اس کے خلاف لڑنے والوں کے فعل کو جہاد قرار دے دیا۔ اس کے خلاف جب وفاق المدارس کے ایک جید عالم مولانا سرفراز گھگڑوی کے صاحبزادے نصرة العلوم کے مہتمم علامہ زاہد الراشدی نے فتویٰ دیا اور دیگر علما سے رائے مانگی تو اس پر مفتی رفیع الدین عثمانی نے خاموشی اختیار کر لی، جس کا ذکر انہوں نے اپنے ماہنامے میں بھی کیا۔

یہ طرزِ عمل ہمارے تحفظات کا سبب بنتا ہے۔ ہم نے جنرل پرویز مشرف کی نام نہاد روشن خیالی کے خلاف جدوجہد کے لیے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ قائم کیا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی اس میں آگے آگے تھے۔ ہمارا وفاق المدارس سے ہر اجلاس میں مطالبہ ہوتا تھا کہ وہ ایسے مدارس کی رجسٹریشن منسوخ کرے جو ایک طرف کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے تحت چل رہے ہیں اور دوسری طرف ان میں سے کئی مدارس ناجائز قبضہ کر کے بنائے گئے ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ سمیت اکثر دہشت گرد تنظیمیں ہمارے مدارس اور مساجد پر قبضوں میں ملوث ہیں۔ ہم نے وفاق المدارس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان لوگوں سے علانیہ لاتعلقی کریں اور اپنے علما کو ایسے لوگوں کی سرپرستی سے منع فرمائیں لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ یہ جو دو عملی ہے جب تک یہ ختم نہیں ہو گی اس وقت تک ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔

وفاق المدارس کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ اس کی بے عملی، تساہل اور ڈھیل سے ملک کا امن خراب ہو رہا ہے۔ وفاق المدارس قبائلی علاقوں، صوبہ خیبر پختونخوا، سوات اور اسلام آباد میں غازی برادران کی اسلام اور نفاذ شریعت کی آڑ میں دہشت گردی کی لہر کو روکنے اور اس پر دیوبندی اسلام کا لیبل لگانے والوں کو منع کرنے میں اگر تندہی سے کام کرتا اور پاکستان کے اندر نجی لشکر بنانے والوں کو اور غیر سرکاری طور پر اعلان جہاد کرنے والوں کے خلاف ٹھیک ٹھیک اسلامی اور شرعی رائے بیان کرتا تو پاکستان میں دہشت گردی کا کب کا خاتمہ ہو جانا تھا۔
عدلیہ - حکومت تنازعہ، نیب پر کنٹرول کی کوششیں

عامر حسینی

این آر او کے حوالے سے سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے جن اقدامات کی نیب سے توقع کر رہی تھی وہ بالآخر ایک نئے تنازعہ کی شکل اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کو بتلا چکی ہے کہ وہ سوئس کیسز دوبارہ نہیں کھول سکتی۔ اس میں ایک طرف تو آئین کی شق 248 حائل ہے، دوسری طرف سوئس قانون اور تیسری طرف بین الاقوامی قواعد و ضوابط۔ وزیر قانون، سیکرٹری قانون اس حوالے سے اپنی پوزیشن بیان کر چکے ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے این آر او کے کالعدم ہونے کے بعد بحال ہونے والے کیسز پر نیب کے کام کی نگرانی اور پراسکیوشن کو ہدایات جاری کرنے کے عمل نے بھی ایک نیا ایشو کھڑا کیا۔ سپریم کورٹ سابق چیئرمین نیب نوید احسن پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ سوئس عدالتوں کو خط لکھیں اور منی لانڈنگ، کک بیکس کے کیسز دوبارہ شروع کریں۔ ان پر جب دباؤ زیادہ بڑھا تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ابھی تک نیب کا نیا چیئرمین نہیں بنا ہے۔ جب کہ نیب کے قائم مقام چیئرمین جاوید قاضی نے بتایا ہے کہ انہیں کام کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ پنجاب بینک فراڈ کیس کی از خود نوٹس کے تحت جو سماعت کر رہی ہے اس کے دوران ہی نیب کے پراسکیوٹر جنرل عرفان قادر نے سپریم کورٹ کو ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں پراسکیوٹر جنرل عرفان قادر نے سپریم کورٹ پر واضح کیا ہے کہ قومی احتساب آرڈیننس ایکٹ کے تحت نیب کی نگرانی اور کنٹرول کا کوئی اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہے۔ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے انتظامی امور کی نگرانی یا کنٹرول کا سپریم کورٹ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ صرف اس ادارے کے قیام کا سبب بننے والے ایکٹ کی خلاف ورزی پر نوٹس لے سکتی ہے۔ پراسکیوٹر جنرل نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ این آر او کیس اور بینک آف پنجاب فراڈ کیس سمیت کئی معاملات میں نیب کے انتظامی امور اور اختیارات میں غلط مداخلت کی مرتکب ہوئی ہے۔ ان عدالتوں میں نیب کے حکام کی تضحیک اور انہیں ہراساں کرنے کا عمل معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کی کارکردگی پر بُرا اثر پڑا ہے۔ نیب کے شعبہ انوسٹی گیشن اور پراسکیوشن کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں سخت دشواریوں کا سامنا ہے۔ پراسکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ نیب کے سابق چیئرمین نوید احسن نے ہراساں کیے جانے اور تذلیل ہونے پر استعفیٰ دیا تھا۔ انہوں نے اپنے خط میں بینک آف پنجاب کے وکیل سرکار خواجہ حارث اور میاں شہباز شریف پر بھی الزامات لگائے۔ عرفان قادر نے اس کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کو دوران سماعت یہ بھی بتایا کہ امریکا سے ہمیش خان نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے انہیں لکھا تھا کہ میاں شہباز شریف ان سے غیر قانونی فائدے اور حمایت کے خواہاں ہیں۔ پراسکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو نیب کی تحقیقات میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ انہوں نے اس خط میں یہ لکھ کر بھی ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے کہ موجودہ عدلیہ کے بحال شدہ ججز کی بحالی غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ 1973ء کے آئین کی رُو سے وزیر اعظم کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ججز کو معطل یا بحال کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں کو اس کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

ایک طرف تو عدلیہ کی طرف سے نیب کو کنٹرول کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی کوشش کا معاملہ سامنے آ رہا ہے اور دوسری طرف خود نیب کے اندر بھی اکھاڑ بچھاڑ کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ حکومت اس وقت نیب کے 35 افسران کو تبدیل کرنے کا سوچ رہی ہے۔ ان میں سے 10 افراد کو تبادلے کے نوٹیفکیشن مل چکے ہیں۔ ان 35 افسران کے پاس نیب کے اہم مناصب ہیں۔ ان میں نیب کے ڈائریکٹر جنرل پنجاب شاہنواز بدر، خیبر پختونخوا میں نیب کے سربراہ مصدق عباسی، ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ہیڈ کوارٹر خورشید عالم، ڈائریکٹر فنانس شہزاد انور بھٹی، ڈائریکٹر جنرل انسداد بدعنوانی لائحہ عمل عالیہ راشد، ایڈیشل ڈائریکٹر ظاہر شاہ، ایڈیشنل ڈائریکٹر بریگیڈیئر اشفاق، ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن شہزاد سلیم بھی شامل ہیں۔ ان 35 افسران کے بارے میں حکومت کا خیال ہے کہ یہ افراد نیب میں سیاستدانوں اور آمریت مخالف افراد کے خلاف سیاسی انتقام کی بنیاد پر مقدمات بنانے اور جمہوریت کو بدنام کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت کا خیال ہے کہ یہ افراد احتساب کے کام کو شفاف رکھنے کے بجائے اسے سیاسی جماعتوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔

ڈائریکٹر فنانس شہزاد انور بھٹی، جو طویل عرصے سے نیب میں ہیں، وہ ڈائریکٹر جنرل آف آپریشن کے عہدے پر رہ کر صدر آصف علی زرداری، محترمہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی کے دیگر وفاداروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں آگے رہے ہیں۔

ان افسران کا اب بھی رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے انہیں ان کے حالیہ عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن ایک رپورٹ کے مطابق یہ افسران بغاوت اور مزاحمت کے موڈ میں ہیں کہ یہ اپنے عہدوں سے ہرگز نہیں ہٹیں گے اور عہدوں کا چارج دیگر افراد کے حوالے نہیں کریں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب کے یہ افسران اپنی مجاز اتھارٹی کے حکم سے سرتابی کس قانون اور ضابطے کے تحت کرنا چاہتے ہیں۔

اس وقت نیب کے ترجمان غزنی خان کی مثال سامنے آ چکی ہے جنہوں نے اچانک پریس کانفرنس کر کے یہ بتانے کی کوشش کی کہ نیب کے پاس صدر آصف علی زرداری کی کرپشن کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ واضح رہے کہ غزنی خان کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ نیب کے پاس اگر صدر آصف علی زرداری کی کرپشن کے ٹھوس ثبوت تھے تو گزشتہ 10 برسوں میں یہ ثبوت عدالت کے سامنے لا کر صدر آصف علی زرداری کو سزا کیوں نہ دلائی جا سکی۔ نیب کو عدالتی کنٹرول میں دینے اور اس کے اندر سے توڑ پھوڑ کی باتیں اس وقت سے زیادہ کھل کر سامنے آنے لگی ہیں جب سے نیب کے پراسکیوٹر جنرل عرفان قادر نے یہ انکشاف کیا ہے کہ نیب بہت سارے سیاسی لیڈروں پر بنائے گئے ایسے کیسز واپس لینے کی سوچ رہا ہے جو محض قیاس آرائیوں اور بوگس اندازوں سے بنائے گئے تھے۔ ان میں کوٹیکنا کیس بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ، جو کہ بینک آف پنجاب فراڈ کیس کی از خود سماعت کر رہا ہے، اس نے خواجہ حارث کی طرف سے دائر کردہ درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے جس میں عرفان قادر کی بطور پراسکیوٹر جنرل دوسری مرتبہ تقرری اور ڈپٹی چیئرمین نیب جاوید قاضی کی بطور قائم مقام چیئرمین کام کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔

پراسکیوٹر جنرل عرفان قادر نے صحافیوں کو بتایا کہ خواجہ حارث نے اپنی درخواست میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے یہ کہا کہ وہ مدت پوری ہونے کے باوجود اپنے عہدے پر کام کر رہے ہیں حالانکہ ان کو دوبارہ پراسکیوٹر جنرل بنایا گیا ہے اور یہ بالکل قواعد و ضوابط کے مطابق ہے۔ یہ بیان انہوں نے عدالت میں بھی دیا۔

جاوید قاضی قائم مقام چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ انہیں کام سے روکنے کا مطلب نیب جیسے ادارے کی مکمل تباہی ہے۔

نیب، جو کہ میاں نواز شریف کے دور میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف اور بعدازاں جنرل پرویز مشرف کے دور میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر پی پی پی اور مسلم لیگ (نواز) کے خلاف مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے، میں بہتر تبدیلیاں لانے کے لیے وفاقی حکومت نے جہاں قومی احتساب ایکٹ میں تبدیلی کرنے کے لیے ایک بِل متعارف کرایا وہیں اس کے انتظامی، انوسٹی گیشن اور پراسکیوشن کے اندر تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں کو ایک طرف تو پارلیمنٹ کے اندر مشکلات کا سامنا ہے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون سازی کے پاس نیا احتساب بل 56 ہفتوں سے پڑا ہوا ہے، اس بل پر تاحال اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف عدالتوں کے ذریعے نیب کے انتظامی امور میں مداخلت اس ادارے کی کارکردگی میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ بظاہر یہ رکاوٹیں قومی دولت خزانے میں واپس لانے کے نام سے ڈالی جا رہی ہیں لیکن اب عوامی حلقوں میں یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مخالف قوتیں ”نیب اور عدالت“ دو مراکز کا استعمال کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ نئے انتخابات تک پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کیسز اسی طرح سے قائم رہیں اور نیب کو پی پی پی کے خلاف استعمال کیا جاتا رہے۔ اس مہم میں پی پی پی مخالف سیاسی جمہوری قوتیں اگر حصہ نہیں بن رہیں تو وہ اس مذموم مہم پر خاموشی بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بدعنوانی کے شور اور احتساب کے مطالبے میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت اور پارلیمنٹ کو ناکام نظام اور ادارے کہنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور حکومت مخالف رٹس دائر کرنے میں معروف اکرم شیخ ایڈووکیٹ ایک ٹی وی چینل پر موجودہ جمہوریت سے پرویز آمریت کو بہتر قرار دے رہے تھے اور میڈیا، وکلاء اور سیاسی حلقوں کا ایک حصہ صدر آصف علی زرداری کو سویلین آمر کا لقب دے رہا ہے۔ مسلم لیگ (نواز)، جماعت اسلامی، تحریک انصاف وغیرہ پیپلز پارٹی اور حکومت کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے عدالتوں اور میڈیا میں ٹرائل کا سہارا لیے ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پی پی پی کے سیاسی مخالفین چند تجزیہ کاروں اور وکیلوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ گئے ہیں۔


تبصرہ


امیل

Tuesday, July 13, 2010

پنجاب میں نیا سیاسی میدان لگنے کا امکان

پنجاب میں نیا سیاسی میدان لگنے کا امکان
پی پی پی، مسلم لیگ اتحاد پنجاب میں خطرے میں پڑگیا
عامر حسینی
18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ اب کم از کم پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں سٹریٹ پالیٹکس کی طرف جانے کا عندیہ دینا بند کر دیں گی اور ملک میں جمہوری سفر ہموار طریقے سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گا، لیکن اس سفر کے ہموار طریقے سے طے ہونے کے آثار افق سیاست پر نظر نہیں آتے۔ ایک طرف عدلیہ ہے جہاں 18 ویں ترمیم پر سماعت ہو رہی ہے، این آر او کیس کے عمل درآمد ہونے کی سماعت جاری ہے۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ صدر آصف علی زرداری کے دو عہدے رکھے جانے والا کیس سن رہی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف نے گزشتہ دنوں ایک مقامی بار کی تقریب میں مسلم لیگ (نواز) کو پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کا مشورہ دے دیا۔ ان کے اس بیان پر پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر برائے پنجاب راجہ ریاض نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ چیف جسٹس کے خلاف وہ جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کریں گے۔ اس بیان پر عدلیہ بحالی تحریک کے روح رواں چوہدری اعتزاز احسن ایڈووکیٹ نے بھی سخت غصے کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو سیاست کا شوق ہے تو وہ مستعفی ہو کر سیاسی پارٹی کا حصہ بن جائیں۔ اس متنازعہ تقریر میں خواجہ محمد شریف نے میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا بھی اعتراف کیا اور کہا کہ وہ جدہ اور لندن میں میاں نواز شریف کے مہمان بنتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحبان کے ان پر بے تحاشہ احسانات ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کو ایسی کون سی ضرورت آن پڑی تھی کہ انہوں نے مسلم لیگ (نواز) کو علانیہ سیاسی مشورے بھی دیے اور ان سے اپنے تعلقاتِ خاطر کا اظہار بھی کر دیا۔ اس سے قبل انہوں نے دوران سروس ہی جو کتاب لکھی ہے اس کے مندرجات بھی زیر بحث آ رہے ہیں۔ ان پر بعض حلقوں نے جانبداری کا جو الزام عائد کیا اب اس کو شواہد بھی مل رہے ہیں۔
خواجہ محمد شریف کی طرف سے یہ اظہار خیال ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ وکلاءکو پیسے دے کر خریدنا چاہ رہی ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان ایڈووکیٹ پر کافی الزامات لگائے اور سیکرٹری قانون کی تقرری کی مذمت کی۔ میاں نواز شریف نے حکومتی کارکردگی کو سخت الفاظ میں ہدف تنقید بنایا اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف بھرپور جدوجہد کا عندیہ دیا۔ میاں نواز شریف نے عدلیہ کے لیے دوبارہ سٹرکوں پر آنے کا اشارہ بھی دیا۔ مسلم لیگ (نواز) عدالتی، انتظامی اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کا ایک اجلاس بھی بلوانا چاہتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کے قائد میاں محمد نواز شریف اب پارٹی کے عقابوں کے زیر اثر آ گئے ہیں، اسی لیے اب ان کی گفتگو میں جارحانہ رنگ دکھائی دے رہا ہے۔مسلم لیگ (نواز) کا جو اعلیٰ سطحی اجلاس لاہور میں منعقد ہوا اس میں پارٹی کے ہارڈ لائنرر قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف وغیرہ نے پارٹی کو میثاق جمہوریت کی رٹ لگانے سے منع کیا۔ ان کے خیال میں اب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خیر سگالی یاترا اور زرداری صاحب کی فون ڈپلومیسی کا سرد مہری سے جواب دینا چاہیے۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ (نواز) کی جنوبی پنجاب، سندھ، خیبر پختون خوا میں انتہائی کمزور پوزیشن کا جائزہ لیا گیا۔ تفصیلی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ (نواز) کے قائد میاں نواز شریف جنوبی پنجاب اور سندھ کا تفصیلی دورہ کریں گے۔ سندھ میں عوامی تحریک سندھ، سندھ ترقی پسند پارٹی، سندھ نیشنل فرنٹ کے سربراہان رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی اور ممتاز بھٹو سے سیاسی اتحاد کی بات چلانے پر غور کیا گیا۔
اسی طرح سے صوبہ خیبر پختون خوا میں پی پی پی (شیر پاؤ) کے آفتاب احمد خان شیر پاؤ کو سیاسی اتحاد میں شامل کرنے پر غور کیا گیا۔ مسلم لیگ (نواز) اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ہم خیال) کی کئی شخصیات کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرنے کو تیار ہے۔ یہ سب تیاریاں بتلاتی ہیں کہ مسلم لیگ (نواز) ایک طرف تو پارٹی بنیاد وسیع کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اور دوسری طرف وہ حزب اختلاف کا نیا سیاسی پلیٹ فارم بنانے میں کوشاں ہے۔ مسلم لیگ (نواز) کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خوا میں کسی بھی بڑی طاقتور پارلیمانی جماعت سے اتحاد بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جمعیت العلمائے اسلام سے اس کی دوریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب مستقبل قریب میں اتحاد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
مسلم لیگ (نواز) کی ایک بڑی پریشانی بین الصوبائی تنازعوں میں اس کی مبہم پوزیشن بھی ہے۔ وہ پنجاب میں عوامی رائے عامہ کے مطابق کالا باغ ڈیم، این ایف سی ایوارڈ، ارسا میں ہونے والا تنازعہ پر مؤقف اختیار کرتی ہے تو اسے سندھ، صوبہ خیبر پختون خوا، بلوچستان میں غیر مقبولیت کا خطرہ لاحق ہے۔ جیسے ابھی اسے مرضی کے برخلاف صوبہ پختون خوا کو مان لینے سے ہزارہ ڈویژن کے عوام کی ناراضی مول لینا پڑی ہے۔ اسی طرح کالا باغ ڈیم پر اس کا مؤقف سندھی، پشتون اور بلوچ عوام کے لیے غصہ کا باعث بنتا ہے۔ مسلم لیگ (نواز) اپنی پالیسیوں سے صوبوں کے درمیان خاصی سینڈوچ بن چکی ہے۔ اس سے مسلم لیگ کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پنجاب حکومت کی کمزور مالیاتی حالت، صوبہ کا ڈیفالٹ لائن پر کھڑے ہونا، غربت، بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی نے بھی مسلم لیگ (نواز) کا مورال گرایا۔ لاہور پی پی 160 میں پاکستان تحریک انصاف کا 18 ہزار سے زائد ووٹ نکلنا ایک علامت ہے عوامی ناراضی کی۔ مسلم لیگ (نواز) اس بڑھتی ہوئی سیاسی تنہائی سے نکلنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے مسلم لیگ (نواز) جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کا سوچ رہی ہے، جس سے سیاسی درجہ حرارت تیز ہو گا۔ لیکن مسلم لیگ (نواز) اگر حکومت کو مدت پوری کرنے سے پہلے گرانے کی کوشش کرے گی تو اس کا اسے فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔

trial of dictator

بیرونی مداخلت؟ پرویز مشرف پر مقدمہ اور سعودی عرب
عامر حسینی
مسلم لیگ (نواز) جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہی تھی اور اس کے قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی میں پُرجوش تقاریر کر رہے تھے کہ سعودی عرب کی مداخلت نے صورت حال کو بدل دیا۔ میاں نواز شریف کے بعض ساتھی تو اتنے پُرجوش تھے کہ انہوں نے ایک اور لانگ مارچ کی دھمکی دینا شروع کر دی تھی۔ ادھر ایک ماتحت عدالت میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور ان کے بیوی بچوں کو پرویز مشرف کی طرف سے محبوس کیے جانے کے خلاف رٹ دائر ہوئی تو ایک رٹ مسلم لیگ (نواز) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ظفر اقبال جھگڑا نے سپریم کورٹ میں دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کا حکم صادر کرنے کی درخواست کی گئی تھی، اسی طرح ایک درخواست سبی کی عدالت میں نواب اکبر خان بگٹی کے بیٹے نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف ان کے والد کے قتل کا مقدمہ درج کیے جانے کا حکم حاصل کرنے کے لیے دائر کی جبکہ دوسری طرف پارلیمان سے باہر بیٹھی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سڑکوں پر نکلنے کی تیاری کرنے لگی تھیں تاکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے ٹرائل کے لیے عوامی دباﺅ بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ عوامی اور سیاسی حلقوں میں جنرل(ر) پرویز مشرف کے ٹرائل کے لیے بحث کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ میڈیا کے ایک حصے نے بھی پروان چڑھایا اور ظاہر یہ کیا جا رہا تھا کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کا ٹرائل ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل ثابت ہو گا۔ یہ بالکل ویسا ہی وتیرہ اختیار کیا جا رہا تھا جیسا عدلیہ کے ایشو پر کیا گیا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی سے ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے۔
ابھی یہ سارا شور جاری تھا کہ آئی ایس آئی کے ایک اہم کردار اور آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈئیر (ر) امتیاز احمد درمیان میں کود پڑے۔ انہوں نے 88 ءسے 99 ءتک اسٹیبلشمنٹ کی دائیں بازو سے محبت کی کہانی کے چند اہم واقعات سے پردہ اٹھایا اور اپنے انداز میں ان کی تشریح کی جس کا نشانہ زیادہ تر مسلم لیگ (نواز) بنی اور عمومی طور پر اس سے دائیں بازو کی ساکھ کو نقصان پہنچا جو آج بظاہر جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا سب سے بڑا علمبردار اور اصولوں کی سیاست کا تن تنہا ستون کہلانا پسند کرتا ہے۔ اس پر متحدہ قومی موومنٹ نے، جو مسلم لیگ(نواز) کی طرف سے ہونے والے مسلسل حملوں سے کافی رنجیدہ تھی، فائدہ اٹھایا اور اسٹیبلشمنٹ اور میاں نواز شریف کے باہمی رشتوں کو خوب اچھالا۔ مسلم لیگ (نواز) نے اس ساری مہم سے بچنے کا یہ جواز ڈھونڈا کہ یہ سب کچھ جنرل(ر) پرویز مشرف کو ٹرائل سے بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت مسلم لیگ (نواز) کے سخت رویے اور مہم جویانہ کردار کو کم سے کم کرنے کی اپنے تئیں کوشش کرتی رہی ہے۔ اس نے اپنے طور پر کاوش کی ہے کہ ان شرائط کی پابندی کی جائے جن کے تحت ملک میں جمہوریت بحال ہوئی اور ملک سے فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ دبئی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان جو مذاکرات ہوئے ان میں فوج کی اعلیٰ قیادت کسی بھی معاہدے کو صرف پاکستان پیپلز پارٹی تک محدود رکھناچاہتی تھی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کی خواہش تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ان کے ساتھ مل کر بعد از انتخابات منظرنامے کا بھی تعین کریں اور مسلم لیگ (قائد)، ایم کیو ایم سمیت فوج کے دیگر اتحادیوں سے مل کر حکومت بنانے کا عندیہ دیں۔
فوجی قیادت مسلم لیگ (نواز) اور اس کی قیادت کو اس سارے عمل سے باہر رکھنے کی خواہاں تھی۔ یہ بات بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ جنرل(ر) پرویز مشرف اور ان کے فوجی اعلیٰ افسران میں سے کوئی بھی میاں نواز شریف کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتا تھا۔ خود امریکا اور برطانیہ بھی اس حوالے سے زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے فوجی قیادت پر واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کی تمام مقبول سیاسی قیادت کو انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابات سے قبل ملک میں آنے کی اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گی۔ انہوں نے انتخابات کے بعد کے منظر نامے کا تعین کرنے سے بھی انکار کیا اور شنید یہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف بعد ازاں کوئی کارروائی نہ کرنے سے اتفاق کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے فوجی قیادت سے یہ مذاکرات اپنی رفتار سے جاری تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہی دنوں سعودی عرب کی حکومت نے برطانیہ اور امریکا کی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور سیاست میں شرکت کی راہ ہموار کرنے کے لیے کام کریں۔سعودی عرب کے دباﺅ کا یہ سلسلہ جاری تھا اور ادھر محترمہ بے نظیر بھٹو میاں نواز شریف پر زور دے رہی تھیں کہ وہ از خود وطن واپس جانے کا فیصلہ نہ کریں کیونکہ میاں نواز شریف وطن واپسی کا اعلان کر چکے تھے اور انہوں نے وطن واپسی کی تاریخ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آمد سے قبل کی رکھ دی تھی۔ میاں نواز شریف کی یہ سولو فلائیٹ جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھی۔ انہوں نے سعودی حکومت اور ان ضامنوں سے رجوع کیا جن کی مدد سے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی جلا وطنی کا معاہدہ ہو ا تھا۔ اس کے نتیجے میں سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ مکرن بن عبدالعزیز اور سابق وزیر اعظم لبنان رفیق حریری کے بیٹے سعد حریری پاکستان آئے اور انہوں نے پہلی مرتبہ وہ معاہدہ میڈیا کے سامنے پیش کیا جو جنرل(ر) پرویز مشرف اور میاں برادران کے درمیان ہوا تھا۔
اس معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے بھی اس امیج کو نقصان پہنچا جو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پنجاب میں میاں نواز شریف کے ایک اصول پسند سیاست دان ہونے کے طور پر بڑی محنت سے بنا رہا تھا۔ بہر حال میاں نواز شریف پہلی مرتبہ از خود کوشش کے باعث پاکستان نہیں آ سکے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 ءکو ملک میں واپس آئیں تو انہوں نے مسلم لیگ (نواز) سے اپنے تعلقات برقرار رکھے باوجود اس کے کہ مسلم لیگ (نواز) اے آر ڈی توڑ چکی تھی اور اے پی ڈی ایم کا حصہ بن گئی تھی اور دائیں بازو کی ان جماعتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی جو پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے بحالی جمہوریت کی کوششوں کو بظاہر سبو تاژ کرنا چاہتی تھیں۔اس سے معاملات فوج اور سیاسی قوتوں کے درمیان ڈیڈلاک کی طرف جا سکتے تھے۔ تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف، اسفندیار ولی، الطاف حسین سمیت تمام سیاسی رہنماوںکے آزادی سے سیاسی عمل میں حصہ لینے پر زور دیے رکھا۔ ادھر جنرل(ر) پرویز مشرف نے بھی سعودی عرب کے کئی دورے کیے اور سعودی، برطانوی اور امریکی نمائندوں کے مذاکرات بھی اس مسئلے پر شروع ہوئے۔ سعودی عرب کی کوششوں سے برطانیہ اور امریکا نے جنرل(ر) پرویز مشرف کو راضی کیا کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بھی ملک واپس آنے دیا جائے۔ مبینہ طور پر ایک مرتبہ پھر سعودی عرب میاں برادران کا ضامن بنا اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ مسلم لیگ (نواز) جنرل(ر) پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے اور ” نئی ڈیل“ کے تحت بننے والے سیاسی سیٹ اپ میں رخنے نہیں ڈالے گی۔
شاید اسی دباﺅ کا نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ (نواز) ایک وقت میں پی پی پی کے ساتھ مرکزی حکومت میں شریک ہونے پر بھی رضا مند ہو گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد گزرتے دنوں کے ساتھ مسلم لیگ(نواز) کے رویے میں تبدیلی کے آثار نظر آئے۔ مسلم لیگ (نواز) کی قیادت کو شاید یہ احساس ہونے لگا کہ جن شرائط پر ملک میں جمہوریت بحال ہوئی ہے اس کی پاسداری سے اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ پورے ملک میں آئندہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت کو ممکن بنا سکے۔ مسلم لیگ (نواز) کا شاید خیال تھا کہ گھمبیر معاشی صورت حال، ججوں کا معاملہ، جنرل(ر) پرویز مشرف کے حوالے سے پنجاب میں پائے جانے والے جذبات اور زور دار میڈیا مہم کے سہارے وہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کو مڈٹرم انتخابات پر راضی کر لے گی۔ اسی لیے مسلم لیگ (نواز) اور پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی جماعتوں اور ان کے ہم دردوں نے پورے زور و شور سے آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو دھند لانے کے ساتھ یہ کوشش بھی کی کہ کسی طرح اتحادی جماعتوں کو پی پی پی سے الگ کیا جائے لیکن جس طرح سے ججوں کا معاملہ حل ہوا اور پھر 17 ویں ترمیم پر پارلیمانی کمیٹی بنی تو اس سے مہم جوئی کے راستے رک گئے اور ایک نیا راستہ جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے کے اندراج اور اس معاملے کو آگے چلانے کی مہم کی صورت میں نکلا جس کا آغاز ہی بڑے جارحانہ انداز میں ہوا۔ اب یہ معلوم نہیں ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کی قیادت نے اس معاملے پر سخت رویہ اور لچک کے خاتمے پر مبنی جو پالیسی اپنائی تھی اس کے نتائج و عواقب پر بھی غور کیا تھا یا نہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو جذباتی فیصلوں پر بہت سا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کی برطرفی، کارگل مہم جوئی، ازخود وطن واپسی کا فیصلہ، اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے خلاف سخت رویہ، بعدازاں ان سے حلف لیے جانے کا اقدام، انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان اور پھر واپسی وغیرہ، اے پی ڈی ایم میں جانا اور واپس آنا، پرویزمشرف کے خلاف پارلیمنٹ میں قرار داد لانے کا اعلان اور پھر اس سے پھر جانا اس کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی شاید بار بار بھول جاتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی ملک کے اندر سیاست میں دوبارہ سے شریک کار کسی انقلاب کے باعث نہیں ہوئے بلکہ وہ مذاکرات کے ایک طویل سلسلے کے نتیجے میں ملک واپس آئے ہیں جس کی نگرانی امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ نے کی۔ اس حوالے سے ان عالمی قوتوں کی ضمانتیں موجود ہیں۔ ان کی ذات کے حوالے سے سعودی عرب ’بڑے ضامن‘ کی حیثیت سے موجود ہے۔ مسلم لیگ (نواز) نے جب یہ مہم شروع کی تو اسے سب سے پہلے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا جو اس کے لیے بڑی سبکی تھی۔ پھر سپریم کورٹ نے ظفر اقبال جھگڑا کی درخواست مسترد کر دی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (نواز) اس کا حساب ذرائع ابلاغ کے ذریعے اور سڑکوں پر پورا کرنے کی خواہاں تھی۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی خواہش تھی کہ فوجی قیادت جنرل(ر) پرویز مشرف سے اعلان برات کرے۔ لندن میں ایک استقبالیہ میں میاں نواز شریف نے برملا فوجی قیادت کو مخاطب بھی کیا۔ اپنی پارٹی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مشرف کا احتساب نہیں ہو سکتا تو ہمارے سمیت سب کو استعفیٰ دے کر گھر چلنے جانا چاہیے۔ مسلم لیگ (نواز) کی قیادت کی اس پالیسی پر برطانیہ اور امریکا کو بھی تشویش ہے۔ اس حوالے سے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ اور رچرڈ ہالبروک نے مسلم لیگ کی قیادت سے رابطے اور طویل ملاقاتیں کیں۔ سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف پاکستان کے خصوصی دورے پر آئے اور انہوں نے جہاں وزیر داخلہ رحمان ملک سے خصوصی ملاقات کی وہیںمسلم لیگ (نواز) کی قیادت کو بھی پیغامات دیے۔
ادھر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی بہت متحرک نظر آ رہے تھے۔ لندن میں ان کے اعلیٰ حکام سے رابطوں میں تیزی آ گئی تھی۔ پاکستان سے بھی کئی سیاستدان، ریٹائرڈ بیورو کریٹس اور اعلیٰ شخصیات ان سے ملیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری لندن کے دورے میں وزیر اعظم گورڈن براﺅن، وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ، الطاف حسین اور دیگر کئی لوگوں سے ملے۔
ان تمام سرگرمیوں کے بعد سعودی حکمران شاہ عبداللہ نے اپنا خصوصی طیارہ لندن بھجوایا اور جنرل(ر) پرویز مشرف کواپنے پاس بلوایا۔ سعودی عرب میں جنرل(ر) پرویز مشرف کو شاہی پروٹوکول دیا گیا اور دو دن تک جنرل(ر) پرویز مشرف اور سعودی حکام کے درمیان مذکرات ہوئے۔ اسی دوران وزیر داخلہ رحمان ملک ہنگامی طور پر کسی پیشگی شیڈول کے اعلان کے بغیر سعودی عرب پہنچ گئے اور وہ بھی دو دن تک سعودی حکام سے مذاکرات کرتے رہے۔ اس حوالے سے تجزیوں، رپورٹوں اور خبروں سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ جو ڈیل جنرل(ر) پرویز مشرف اور سیاست دانوں میں ہوئی اس کا احترام کرنے کے لیے برطانیہ اور امریکا نے سعودی عرب پر کردار ادا کرنے کے لیے زور ڈالا ہے اور یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس دوران جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے ساتھی کور کمانڈروں کا ایک اجلاس منعقد کیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے ٹرائل کے حوالے سے چلنے والی مہم پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہو گا کیونکہ اس کی زد میں خود جی ایچ کیو بھی آتا ہے۔ اوریہ بات بعیداز قیاس نہیں کہ فوج نے بھی سعودی عرب کو کوئی پیغام دیا ہو۔
سعودی عرب پاکستان کے دائیں بازو کے سیاستدانوں اور دائیں طرف رجحان رکھنے والی نوکر شاہی (فوجی اور سویلین) کے ایک حصے پر خاصا اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ میاں نواز شریف پران کے زبردست اثرو رسوخ سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق میاں نواز شریف بھی سعودی بادشادہ عبداللہ سے ملنے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہی مسلم لیگ (نواز) اور اس کی قیادت کسی قدر پسپائی کے موڈ میں نظر آ رہی ہے۔ سعودی عرب کی مداخلت کا یہ کردار پہلی مرتبہ پاکستانی ریاست کے اندر نمایاں نہیں ہوا لیکن مسلم لیگ (نواز) اور جماعت اسلامی کے لوگ بڑی معصومیت اور انتہائی نرم لہجے میں سعودی عرب کو پاکستانی سیاست کے داخلی مسائل سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ مطالبہ دائیں بازو نے اس وقت کبھی نہیں کیا جب مبینہ سعودی عرب مداخلت کے سبب پاکستان کے اندر فرقہ پرستوں اور بنیاد پرستوں کو امداد فراہم کی گئی یا جب جنرل (ر) پرویز مشرف سے میاں برادران کی جان بخشی اور جلاوطنی کے لیے مذاکرات کیے جا رہے تھے۔ سعودی عرب میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو وہ معاہدے یاد دلا رہا ہے جن کی وجہ سے وہ آج پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں۔

BLAST IN TOMB OF DATA SAHIB


resolution against media by PA


sikhsettelers in west punjab part 3







sikhsettelers in western punjab Part2







Sikhsettelers in punjab before partition