Wednesday, December 3, 2014

جیالے کھڑے بس کو تلاش کرتے ہیں


تیس نومبر 2014ء کو بلاول ہاؤس لاہور میں سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب سے پی پی پی کے تمام اضلاع سے پارٹی اور اس کے ذیلی ونگز کی نمائندگی موجود تھی اور اس موقعہ پر پارٹی کے اندر دھڑے بندی واضح نظر آئی ، پی پی پی سنٹرل پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو ، پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمر الزماں کائرہ اور بلاول بھٹو زرداری کے میڈیا کوارڈینٹر جہانگیر بدر کے درمیان دھڑے بندی بہت واضح نظر آئی ،یہ دھڑے بندی نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ لاہور میں پی پی پی کے کنٹرول کا لیور کس کے ہاتھ میں ہو پر ہے پی پی پی کے ورکر کنونشن میں دھڑے بندی سے ہٹ کر جو عام کارکن تھے ان میں زیادہ تر پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کی نواز شریف سے مفاہمت اور پنجاب و وفاق میں مسلم لیگ نواز کو مشکل ٹائم نہ دینے کی پالیسی پر نالاں نظر آرہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سٹیج کے قریب پہنچے تو کنونشن میں بیٹھے جیالوں کے ایک گروپ نے نعرے لگائے گو نواز گو ، نواز کا جو یار ہے - غدار ہے غدار ، اس پار ہے ، اس پار ہے -غدار ہے غدار ہے ان نعروں کے بلند ہونے کے بعد پھر گو نواز گو کا نعرہ نہیں رکا اور کسی بھی مقرر کی تقریر کے دوران اس نعرے نے کنونشن کی فضا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا پیپلزپارٹی کے شریک چئیرپرسن آصف علی زرداری جب سٹیج پر آئے تو ایک مرتبہ پھر زور و شور سے گو نواز گو کے نعرے لگنے شروع ہوئے ، گرتی ہوئی دیواروں کو ایک جھٹکا اور دو کا نعرہ بھی لگآ ، آصف علی زرداری یہ نعرے سنکر مسکراتے رہے آصف زرداری جیسے ہی تقریر کرنے کے لیے ڈائس کی طرف آئے تو کارکنوں نے ایک کورس میں "بلاول ، بلاول ، بلاول " کے نعرے لگانا شروع کردئے اور ان کے آنے سے پہلے ایک ورکر نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول بھٹو کہاں ہے ؟ زرداری صاحب آج پارٹی کا یوم تاسیس ہے اور پارٹی کا چئیرمین غائب ہے ، بلاول کی آمد کو شیر آیا شیر آیا والا قصّہ بنادا گیا ہے ، شیر اصل میں آئے گا تو بھی کوئی یقین نہیں کرے گا ، اس کی تنقید سے جہانگیر بدر کی پیشانی پر پسینہ دکھائی دینے لگا اور جرات تنقید کرنے والے غریب جیالے سے مائيک چھین لیا گیا آصف علی زرداری ایک مرتبہ پھر کارکنوں کی جانب سے ںواز لیگ سے مفاہمتی پالیسی کی مخالفت سے زرا بھی متاثر دکھائی نہ دئے اور انھوں نے دھرنا ایپی سوڈ کے دوران بلاول ہاؤس میں پی پی پی سنٹرل پنجاب کی ڈویژن لیول کی تنظیموں سے ملاقات کے دوران جس طرح سے نواز لیگ کے ساتھ محاز آرائی کے خکال کو مسترد کیا ، اس مرتبہ بھی کیا اور قابل غور بات یہ ہے کہ پی پی پی کے جن مرکزی اور صوبائی عہدے داروں نے اس کنونشن میں تقاریر کیں وہ سب کی سب مفاہمت کی مخالفت پر مبنی تھی اور نواز شریف پر سخت تنقید کا عکس تھیں لیکن شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں تنقید بلکہ تنقیص کا زیادہ زور حکومت پر کرنے کی بجائے اپنی طرح کی اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان پر رکھا اور انھوں نے پی ٹی آئی کی سیاست کو کھلے لفظوں میں اسٹبلشمنٹ کا لکھا سکرپٹ پر مبنی قرار دیا آصف علی زرداری کی تقریر کا لب لباب اگر نکالا جائے تو انھوں نے پی پی پی کے کارکنوں کی اجتماعی بصیرت اور ان کی اکثریت کی خواہش کا احترام کرنے سے انکار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ سب ان کی پیروی کریں آصف علی زرداری نے اپنی تقریر کے دوران دو دعوے ایسے کئے ہیں جو اگر بیک فائر کرگئے تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا ، ایک تو انھوں نے پارٹی کے اندر دھڑے بندی کے سرغنوں کو کہا کہ پی پی پی کے کارکن ان کے ساتھ ہیں اور کسی اور کے ساتھ نہیں ہیں ، دوسرا انھوں نے کہا کہ پارٹی کارکنوں کی قربانیوں سے کہیں زیادہ قربانیاں ان کی ہیں جبکہ میرا ہی نہیں بلکہ خود پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر انتہائی تجربہ کار رہنماؤں کا خیال ہے کہ پی پی پی اگر اپنے آپ کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاکر رکھنا چاہتی ہے تو اسے " اجتماعی قیادت " کے تصور کو ابھارنا ہوگا کیونکہ پی پی پی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو شہید کے بعد اس پارٹی میں ایسی کوئی کرشماتی شخصیت نہیں ہے جس کی جانب سے اپنی بصیرت ، تجربے اور دانش کے ناقابل چیلنج ہونے کے دعوے کو بلاچون وچراں مان لیا جائے ، اجتماعی قیادت کی بات چودھری اعتزاز احسن نے بھی کی تھی ، جسے ابتک درخور اعتناء نہیں سمجھا گيا ملتان سے راؤ ساجد نے آصف علی زرداری کے سامنے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسی تلخ حقیقت کا آظہار کیا جو جس پر بھی آشکار ہوتی ہے تو وہ لرزنے لگتا ہے راؤ ساجد نے آصف علی زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب جب اس کے جیسے کارکنوں کی داڑھی کے بال بھی سفید ہونے گے ہیں تو کم از کم لیڈر شپ اسے دیں جس کو ہر ملاقات پر یہ نہبتانا پڑے کہ انجیسے کارکن کون ہیں راؤ ساجد کی بات سنکر مجھے یاد آگیا کہ پی پی پی ضلع خانیوال کے صدر ممبر پنجاب بار کونسل جاوید اقبال قریشی ہاشمی ایڈوکیٹ کے گھر جو پی پی پی کا ضلعی دفتر بھی ہے میں اس وقت کے پنجاب کے صدر قاسم ضیاء تشریف لائے تو کارکنوں سے انھوں نے اظہار خیال کرنے کو کہا ، سب سے پہلے اس وقت پی پی پی اسٹڈی سرکل ونگ کے صدر اعظم خان جو ضیاء الحق کے دور آمریت میں پی ایس ایف کے صوبائی رہنماء ، پی پی پی سٹی خانیوال کے جنرل سیکرٹری رہے تھے اور سب سے بڑھکر وہ " قزاق کون " نامی مشہور زمانہ پمفلٹ کے خالق بھی تھے جس پر پمفلٹ سازش کیس بنا تھا اور پورے ملک سے سینکڑوں کارکن گرفتار کئے گئے تھے ، کھڑے ہوئے اور بولنا شروع کیا تو اچانک قاسم ضیاء اور بیگم ناہید خان نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں ، اپنا تعارف کرائیں یہ سننا تھا کہ میں نے اعظم خان کے جسم میں کپکپاہٹ دیکھی ، لزرتی انگلیوں کے ساتھ وہ بجائے اپنے بارے میں کچھ بتانے کے خاموشی سے بیٹھ گئے ، یا عبدالقادر شاہین تھے جنھوں نے قاسم ضیاء کو اعظم خان کے بارے میں بتایا میں نے حال ہی میں خورشید خان کی وفات پر پی پی پی کے لوگوں کی بے حسی کے بارے میں جو کالم لکھا اسے پڑھنے کے بعد پیر ناظم حسین شاہ کا فون آیا اور وہ کہنے لگے کہ وہ علیل ہیں اور ان کو ایسے لگتا ہے جیسے پارٹی ان کو بھول گئی ہے ، کیا ان کی اتنی طویل جدوجہد کا صلہ یہ ہے کہ ان کو فراموش کردیا جائے آصف علی زرداری نے اپنی اس تقریر میں کارکنوں کو ایک فقرے میں بھی یہ یقین دھانی نہیں کروائی کہ پارٹی میں ان کی عزت اور مقام کو بحال کیا جآئے گا ، کارکنوں کی عزت اور وقار تو تب بحال ہوگا جب ایسی قیادت سامنے لائی جائے گی جو ان کی پہچان رکھتی ہوگی ، خود آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو بھی اپنے حافظے اور یادداشت کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو غریب ورکرز کی پہچان ہوسکے آصف علی زرداری اور سندھ پیپلزپارٹی کے حکومتی عہدوں پر فائز لوگ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کی اپوزیشن کرنے کی بجائے ان سے مفاہمت کی پینگیں بڑھارہے ہیں اور وہ آزادانہ طور پر اپنی اپوزیشن بھی کرتے دکھائی نہیں دیتے ، لوگوں کے زھنوں میں یہ سوال بجا طور پر پیدا ہورہا ہے کہ اگر ان کو پاکستان تحریک انصاف کی ایجی ٹیشن کے پس پردہ اسٹبلشمنٹ نظر آتی ہے تو وہ اپنے پلیٹ فارم سے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جمہوری اپوزیشن کرتے نظر کیوں نہیں آرہے ؟ آصف علی زرداری جب اپنی پارٹی کا 48 واں یوم تاسیس منارہے تھے تو اسی وقت تھر میں بھوک سے فوت ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافے کی خبریں موصول ہورہی تھیں ، ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے سندھ کے اندر ملنا شروع ہوگئی تھیں اور تین دسمبر کو کراچی میں پیرامیڈیکل سٹاف ایسوسی ایشن نے کراچی کے ہسپتالوں کو این جی اوز کے حوالے کئے جانے کے خلاف احتجاج شروع کررکھا تھا جبکہ پی ٹی سی ایل کے ورکرز رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کے نام پر زبردستی فارغ کئے جانے کی کوششوں پر پریشان حال تھے مگر پی پی پی کے کسی رہنماء کا کوئی ردعمل اس حوالے سے سامنے نہیں آیا ، یہ سب عوام کے مسائل ہیں ، روزنامہ خبریں ملتان کی خبر کے مطابق حکومت اگلے دو ماہ میں اضافی ٹیکس کے ساتھ بجلی کے بلوں پر عام صارفین سے ڈیڑھ ارب روپے زائد وصول کرنے والی ہے جبکہ سرائیکی خطے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بعد گیس کی ظویل بندش کا عذاب بھی یہاں کے لوگوں کو سہنا پڑرہا ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی جو کہ پارلیمانی جمہوری اپوزیشن کی بات کرتی ہے ان ایشوز پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکی ہے پاکستان میں اس وقت جو سیاست کی حرکیات ہے اس میں سب سے نمایاں کردار نئی ابھرنے والی پروفیشنل مڈل کلاس کا ہے جو سروسز سیکٹر سے وابستہ ہے اور اقتدار میں اپنا حصّہ چاہنے کے ساتھ ساتھ وہ کلائنٹل بیسڈ سیاست کے خلاف بھی ردعمل کا آظہار کررہی ہے ، اگرچہ وہ سوشلسٹ یا سوشل ڈیموکریٹک بیسڈ ریاست کے تصور کی حامی نہیں ہے لیکن وہ کم از کم انسانی فلاح پر مبنی ایک مارکیٹ ماڈل ( جو میرے نزدیک ایک یوٹوپیا ہے ) کی بات کرتی ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ایسی پروفیشنل مڈل کلاس کا کھڑا ہونا اسی لیے ناممکن نظر آرہا ہے کہ وہ اس طبقے کی خواہشات کی عکاسی نہیں کررہی اور عرصہ دراز سے وہ اپنی عوام دوست ، غریب دوست ، کسان دوست ، طالب علم دوست سیاست کو سمجھوتے بازی کی نذر کرچکی ہے یہی وجہ ہے کہ آج اگر پنجاب ، سندھ کے شہری علاقوں ، خیبرپختون خوا میں سب سے زیادہ خطرے میں جس جماعت کے سٹیک لگے ہوئے ہیں وہ پاکستان پیپلزپارٹی ہے اور اس وقت سب سے زیادہ یتیمی اور بے چارگی کا احساس اس ملک کے مزدوروں ، کسانوں کو ہے جن کی آرزؤں کی عکاسی کرنے والی کوئی سیاسی جماعت اس وقت موجود نہیں ہے پی پی پی کے یوم تاسیس پر میں نے بہت سارے چھوٹے بڑے رہنماؤں سے بات چيت کی ، سب بہت کنفیوژ نظر آئے ، سیاست کا کلئیر وژن کسی کے پاس نہیں تھا اور کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا کہ پی پی پی پنجاب میں کیسے اپنی بوری میں پڑنے والے چھیدوں کو سینے کا کام کرے گی آصف علی زرداری نے ندیم افضل چن کو پنجاب کی یوتھ کے لیے اپنا سیاسی معاون بنایا ہے اور شیری رحمان کو مرکزی نائب صدر بنایا ہے بس یہی ایک تنظیمی تبدیلی ہے جو اس قدر شور شرابے کے بعد اٹھائی گئی ہے یہ ایک طرح سے موجودہ فرسودہ ، نکمے ، نااہل اور بے کار تنظیمی ڈھانچوں کے متوازی ایک اور سیاسی انتظام ہے جو اٹھایا جارہا ہے آصف علی زرداری کنونشن میں بہت جلدی میں نظر آئے اور بمشکل ایک گھنٹہ وہ سٹیج پر رہے اور پھر واپس چند مقربین کے ساتھ اس قلعے میں بند ہوگئے جس کے بڑے جہازی سائز کے گیٹ کارکنوں کا منہ چڑارہے تھے بلاول ہاؤس اس بحریہ ٹاؤن میں ہے جہاں تک اندرون لاہور سے آنے والے کسی بھی کارکن کی جیب میں ایک ہزار روپے پٹرول کے لیے تو ضرور ہونے چاہیں اگر گاڑی اس کی اپنی ہو ، اگر نہیں تو پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کی مد میں اس کے پاس کم از کم تین ہزار روپے ہوں اور اگر صبح سے شام تک ٹھہرنا ہے تو 10 ہزار روپے ضروری ہیں اور یہ بھی یقینی بات نہیں ہے کہ اس محل کے دروازے اس کے لیے کھلیں گے بھی یا نہیں مجھے پی پی پی بہاول پور کے تجربہ کار سئنیر رہنماء ملے اور یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اللہ جانے یہ کونسی سیاست اور کیسی سیاست ہے جو بادشاہ مفاہمت نے شروع کی ہے جس میں عام کارکن کی رسائی بے نظیر بھٹو کے دور سے بھی زیادہ مشکل ہوگئی ہے ، گویا کارکن تو اب تک پی پی پی کی قیادت تک رسائی کا راستہ تلاش کررہا ہے کیونکہ اسے تو ابتک محرم راز کی تلاش ہے جو اسے ملکر ہی نہیں دے رہا میں تاسیسی کنونشن کے خاتمے کے بعد جب باہر نکلا تو میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے پی ایس ایف کے طلباء کو دیکھا کہ وہ پریشان کھڑے تھے ، ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کو جو ویگن اتنی دور تک لیکر آئی تھی ،اس سے یک طرفہ لانے کا معاہدہ پی پی پی پنجاب کی تنظیم کے عہدے دار نے کیا تھا ، وہ اب کھڑے لفٹ کے منتظر تھے اور لفٹ ملتی نظر نہیں آرہی تھی ، رہے نام اللہ کا ‎

No comments:

Post a Comment