Monday, November 24, 2014

پاکستان میں سیاست کا فرقہ پرست ڈسکورس طاقتور اور سیکولر لیفٹ ڈسکورس کمزور ہوگیا


دو ہزار آٹھ میں جب اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف سے ایک مبینہ ڈیل کے نتیجے میں عالمی و علاقائی ضمانتیوں کے ساتھ پاکستان کے اندر جمہوریت بحال ہوئی اور سنٹر لیفٹ پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی نے اے این پی جیسی سنٹر لیفٹ نینشلسٹ پارٹی اے این پی اور سنٹر رائٹ پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز کے ساتھ ملکر مرکز میں ایک مخلوط حکومت بنائی اور پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے اپنے تئیں " قومی سیاسی مفاہمت " کا ایک تصور پیش کرتے ہوئے ایک روشن خیال ، ترقی پسند ، فلاحی ریاست کے تصور کو اپنا نصب العین قرار دیا تو یہ امید کی جارہی تھی کہ پاکستان کی سیاست اب تیزی سے غیر فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ خیالات کے ساتھ آگے بڑھے گی بہت سے ہلکے یہ بھی کہتے نظر آتے تھے کہ پاکستان ضیاء الحق کی سیاست کے سایوں سے باہر نکلتانظر آرہا ہے اور 80 ء اور 90 ء کی دھائیوں میں فرقہ پرست سیاست کا جو جن باہر آیا تھا اب وہ بوتل میں واپس بند ہونے جارہا ہے لیکن یہ سب امیدیں ایک سال کے اندر ہی دم توڑتی نظر آنے لگیں ، پہلے پنجاب کے اندر سابق گورنر سلمان تاثیر کا قتل ہوا ، پھر اسلام آباد کے اندر ہی شہباز بھٹی سابق وفاقی وزیر مارے گئے ، اس کے ساتھ ہی لاہور ہی میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہد کردئے گئے اور پے در پے داتا گنج بخش ، بابا فرید ، بری امام ، عبداللہ شاہ غازی ، سخی سرور سمیت کئی ایک مزارات پر بم دھماکے ہوئے ، نشتر پارک میں سنّی بریلوی کمیونٹی پر خود کش بم دھماکہ ہوا جبکہ درجنوں امام بارگاہوں ، عاشورہ کے جلوس حملوں کی زد میں آئے اور اس کے ساتھ ساتھ شیعہ ، سنّی ، دیوبندی کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نواز ، اے این پی کی وفاق ، پنجاب ، خیبرپختون خوا ، سندھ اور بلوچستان ، گلگت بلتستان کے اندر حکومتوں کے دوران غیر فرقہ وارانہ ترقی پسند قومی سیاست مضبوط ہونے کی بجائے مزید شکست وریخت کا شکار ہوگئی مسلم لیگ نواز جوکہ دائیں بازو کی ایک ایسی جماعت خیال کی جاتی تھی جس کو شیعہ ، سنّی بریلوی ، دیوبندی ، وہابی سب فرقوں کے لوگ سپورٹ کرتے تھے بہت تیزی سے سنّی بریلوی اور شیعہ سپورٹ سے محروم ہونے لگی یہی کچھ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوا ، شیعہ اور سنّی بریلوی میں جو لبرل ، ترقی پسند عنصر تھا وہ اس پارٹی سے مایوس ہونے لگا اور اس اثناء میں سنّی بریلویوں کی ایک بڑی تعداد نے جہاں ڈاکٹ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک ، ضاحبزادہ فضل کریم کی سنّی اتحاد کونسل اور علامہ ثروت اعجاز قادری کی پاکستان سنّی تحریک کا رخ کیا ، وہیں پر خود دیوبندی مکتبہ فکر کی نوجوان نسل بہت تیزی سے ایک طرف تو تکفیری دھشت گرد تنظیموں کی طرف متوجہ ہوئی تو وہیں اس نوجوان نسل خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے اندر نے سپاہ صحابہ سے جنم لینے والی اہلسنت والجماعت کے پلیٹ فارم کو چن لیا جبکہ شیعہ کمیونٹی کے اندر تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی باقیات سے مجلس وحدت المسلمین کا ظہور ہوا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے شیعہ کمیونٹی کے اندر اپنی جگہ بنانے لگی ، جبکہ اہل حدیث کی نوجوانوں کی اکثریت اب حافظ سعید کی جماعت جماعت دعوہ کے اندر ہے جو خود تو الیکشن سیاست کا حصّہ نہیں ہے لیکن وہ آئیڈیالوجیکل اعتبار سے خود کو جماعت اسلامی سمیت ان مذھبی جماعتوں کے قریت خود کو خیال کرتی ہے جو اسلامی انقلاب پر مبنی خلافت اسلامی کے تصور سے جڑے ہوئے ہیں مذھبی سیاست میں سنّی بریلوی ، شیعہ ، دیوبندی ، اہلحدیث کی جو روائتی پارٹیاں جن میں جمعیت علمائے پاکستان (نورانی ) ، تحریک جعفریہ ، جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت اہلحدیث شامل ہیں وہ اسی کی دھائی سے دھڑے بندی کا شکار چلی آرہی ہیں اور ان کا حلقہ اثر مسلسل زوال پذیر ہے اور یہ تنظیمں اگرچہ مسلکی بنیادوں پر استوار ہوئیں لیکن انھوں نے فرقہ پرستانہ انتہا پسندی سے خود کو دور رکھا تھا لیکن افغانستان پر حملے کے بعد بتدریج دیوبندی جماعتیں جن میں فضل الرحمان اور سمیع الحق کی جماعتیں شامل تھیں کی روش یہ نظر آنے لگی کہ وہ تیزی سے فرقہ پرستی کی تنگ نظر سیاست کی جانب جھکتی چلی گئیں اور ریڈیکل مسلکی سیاست کی طرف ان کا جھکاؤ مڈل ایسٹ میں القائدہ اور جنوبی ایشاء میں طالبانائزیشن کی دیوبندی نوجوانوں اور خاص طور پر مدرسے کے نوجوان اور کم سن طالب علموں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے ہوا یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں اسلام آباد میں دیوبند مکتبہ فکر کی 25 کے قریب تںطیموں کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں ان 25 تنظیموں نے ملکر دیوبندی سپریم کونسل کے قیام کا اعلان کیا اور ایک طرف ملک میں سیکولر ازم کے خلاف جنگ کے لیے لڑائی کرنے کے لیے مولانا رزاق سکندر مہتمم جامعہ بنوریہ کو صدر بنایا گیا تو دوسری طرف دیوبندی سیاسی تنظیموں کی جانب سے ایک پلیٹ فارم اور ایک انتخابی نشان کے ساتھ آئيندہ الیکشن میں اترنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے والی سیاسی کمیٹی کی سربراہی مجلس احرار کے موجود صدر اور معروف دیوبندی عالم عطاء اللہ شاہ بخاری کو سونپ دی گئی اہل سنت والجماعت اور جمعیت العلمائے اسلام کے اندرونی زرایع کا کہنا ہے کہ دیوبندی تنظیموں کے اتحاد اور ان کی سیاسی قوت کو مجتمع کرنے کا تصور اہلسنت والجماعت کے سرپرست اعلی مولانا محمد احمد لدھیانوی نے پیش کیا اور انھوں نے اس حوالے سے تین سال سے فضل الرحمان ، سمیع الحق ، وفاق المدارس کی قیادت مولانا سلیم اللہ خان ، قاری حنیف جالندھری ، مولانا رزاق سکندر ، مفتی نعیم ، پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ اور مرحوم مولانا سرفراز کے بیٹے علامہ زاہد الراشدی اور مجلس احرار و انٹرنیشنل ختم نبوت کی قیادت سے رابطہ استوار رکھا ہوا تھا اصل میں دیوبندی سیاست کو ایک طرف تو اپنے مدارس اور حمائیتی حلقوں کے اندر سے مسلح عسکریت پسندی اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف بڑھنے والی حمائت سے زبردست چیلنج اور دباؤ کا سامنا تھا ، دوسری طرف ظاہر ہے کہ جے یوآئی ایف ، اہل سنت والجماعت کا جھکاؤ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی طرف تھا لیکن ان کے اپنے نچلے سرکل میں ضرب عضب آپریشن کے بعد سے اس جکاؤ کے خلاف ردعمل دیکھنے کو مل رہا تھا اور خارجی سطح پر پوری دیوبندی سیاست کو دھشت گردوں اور تکفیریوں کی حمائت کے ساتھ نتھی کیا جارہا تھا اور اس حوالے سے شیعہ ، سنّی بریلوی اور پاک فوج کے حامی حلقوں میں دیوبندی سیاست کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہورہا تھا اور حال ہی میں دھرنا سیاست جس میں عوامی تحریک ، سنّی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین شیعہ - سنّی بریلوی اتحادی سیاست کے ساتھ ابھریں نے دیوبندی سیاست کو زیادہ دباؤ کا شکار کیا اور پاکستان میں مذھبی سیاست اور زیادہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگئی جماعت اسلامی پاکستان جس کے سابق سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد مشرف دور میں تمام مسلکی جماعتوں کی روائتی سیاسی پارٹیوں کا اتحاد قائم کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور اسٹبلشمنٹ نے بھی اس پر ہاتھ رکھا تھا بعد میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے ایسے کسی بھی اتحاد کے قیام میں ناکام نظر آتی ہے اور اس کی وجہ پاکستان کے اندر طالبان کے خلاف شروع ہونے والے ملٹری آپریشنز اور طالبان کے دھشت گرد یا مجاہد ہونے پر اس کا مخمصہ تھا جس نے اسے سنّی بریلوی اور شیعہ سے بالکل دور کردیا اور جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کے بیانات اور پالیسی نے تو جماعت کی مذھبی جماعتوں کے اتحاد کی سیاست کے امکان کو ہی ختم نہیں کیا بلکہ جماعت اسلامی کے لیے پارلیمانی سیاست میں اس طرح کی پاپولر سیاسی جماعت بننے کا امکان کم نظر آرہا ہے جیسی پاپولر جماعتیں مصر میں اخوان ، تیونس میں جماعت اسلامی اور ترکی میں جٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنکر ابھری تھیں جہادی سیاست جو 80 ء کی دھائی سے دیوبندی ،وہابی ، جماعتی دائروں میں گردش کرتی تھی اب تو بہت ہی تنگ نظر قسم کی فرقہ پرست سیاست ہوگئی ہے اور اس نے پوری مذھبی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور پاکستانی سماج کے اندر تکفیری سوچ اور فکر پر مبنی سیاست بہت گہرائی میں جاکر اپنی جڑیں بنارہی ہے اور اس سیاست کے ترقی کرنے سے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختون خوا اور گلگت بلتستان کے اندر فرقہ پرست بنیادوں پر سیاست نئے عروج کو چھو رہی ہے پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی سیاست اور دھرنا سیاست سے نبٹنے کی نواز شریف کی حالیہ حکمت عملی نے مسلم لیگ نواز کے لیے پنجاب میں سنّی بریلوی اور شیعہ کے دائیں اور بائیں بازو کے ووٹ بینک کو بہت تیزی سے پاکستان تجریک انصاف ، عوامی تحریک ، مسلم لیگ ق ، مجلس وحدت المسلمین کی جانب منتقل کیا ہے اور نواز شریف کی پنجاب کے بااثر سںّی بریلوی سیاسی مذھبی خانوادوں پر گرفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور دیوبندی مکتبہ فکر کی 25 تںطیموں کے اتحاد کے سامنے آنے کے بعد لازمی امر ہے کہ اس طرح کا اتحاد سںّی بریلویوں کی جانب سے بھی سامنےآئے گا جماعت اہل سنت بریلوی صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری فاروق خان سعیدی کے مطابق ایک جھنڈے ، ایک نشان کے تحت انتخاب لڑنے کے لئے اتحاد اہلسنت کا اعلان جلد متوقع ہے ، حامد رضا چئیرمین سنّی اتحاد کونسل بھی یہی بات کررہے ہیں اس ساری پیش رفت سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے اندر مذھبی سیاست کا اونٹ فرقہ پرستی کی کروٹ پہلے سے کہیں زیادہ بیٹھنے جارہا ہے ستر ، اسی کی دھائیوں تک پاکستانی کی مذھبی سیاست مسلکی خدوخال رکھنے کے باوجود بہرحال سیکولر ، کیمونزم ، اشتراکیت ، اینٹی پی پی پی بنیادوں پر زیادہ فوکس تھی اور اس میں فرقہ وارانہ جنگ کا عنصر طاقتور نہیں تھا اور پارلیمانی سیاست میں ان کا کوئی وزن بننتا بھی نہیں تھا ، لیکن اب صورت حال تبدیل ہورہی ہے پاکستان میں نہ صرف سیاست کا سیکولر ، لبرل ، لیفٹ ڈسکورس کمزور ہوا ہے بلکہ نسبتا غیر فرقہ پرست سیاسی اسلام پسند رجحان بھی تیزی سے کمزور ہوا ہے اور اس کی جگہ فرقہ پرست ، انتہا پسند تکفیری سیاسی ڈسکورس نے لے لی اور اس ڈسکورس میں جس قدر خطرات چھپے ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی کا ایک سابق امیر جس کی جماعت اسلامی کے حلقوں میں بہت عزت اور احترام ہے وہ مذھبی سیاست ميں اعلانیہ جہاد بالقتال کی دعوت دے رہا ہے اور اسے ہم صرف پروفیسر منور حسین کی زاتی سوچ اور خیال کہہ کر نظر انداز نہیں کرسکتے اب دیکھنا یہ ہے کیا پاکستان کی قومی سیاسی جماعتیں اس قدر اہلیت رکھتی ہیں کہ وہ سیاست کے اس فرقہ پرست ، تکفیری ڈسکورس کو کاؤنٹر کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں ؟ کیا وہ پاکستان کو انارکسٹ سیاست کے طوفان سے بچاکر آگے کی طرف لیجاسکتی ہیں ؟

Saturday, November 15, 2014

خورشید خان - ایک ٹوئٹ کا حقدار بھی نہیں


رات میں حسب معمول ایک کیفے پر بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا کہ موبائل پر میسج ٹون بجی ، موبائل میں میسج باکس کھولا تو پیپلز یوتھ آرگنائزیشن جنوبی پنجاب کے سئنیر نائب صدر سید کرار حیدر شاہ کا برقی پیغام تھا کہ افسوس ناک خبر - پی پی پی ملتان شہر کے صدر خورشید خان کا انتقال ہوگیا خبر پڑھکر میں صدمے ، غم و اندوہ میں ڈوب گیا اور میں نے زرا ٹوئٹر اور فیس بک پر اس خبر کو پوسٹ کیا اور ساتھ ہی بلاول بھٹو زرداری ، فریال تالپور ، رحمان ملک ، قمر الزمان کائرہ ، موسی گیلانی سمیت کئی ایک پی پی پی کے رہنماؤں کے اکاؤنٹ بھی چیک کئے اور اب جب یہ کالم لکھنے بیٹھا تو پھر چیک کیا لیکن خورشید خان کی موت کو 28 گھنٹے سے زیادہ ہوجانے کے باوجود میں نے کسی ایک کی طرف سے بھی کوئی تعزیتی بیان نہیں دیکھا بلاول بھٹو زرداری نے 12 نومبر 2014ء کو ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں انھوں نے لندن کے اگلے مئیر کو ایک " گورا جیالا " کہہ کر خراج تحسین پیش کیا ہے اور نیچے 8 نومبر کو فہمیدہ مرزا کی والدہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہوا ہے ، حسن مجتبی نے ان کو ٹوئٹوں کا بادشاہ قرار دیا تھا لیکن نہ جانے کیوں ٹوئٹوں کا یہ بادشاہ ایسے موقعوں پر خاموش کیوں رہتا ہے جب اس کا ایک ٹوئٹ اس کے پارٹی کے کارکنوں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے خورشید خان نے ملتان میں پی پی پی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز نوجوانی میں قائد عوام زوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں کیا ، وہ بنیادی طور پر ایک ٹریڈ یونینسٹ تھا اور جی ٹی ایس یونین میں اہم کردار ادا کرتا رہا ، زوالفقار علی بھٹو کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس نے پارٹی کے انتہائی مشکل دنوں میں بھی جمہوریت ، سماجی انصاف اور سفید پوش طبقے کی ترجمان سیاست کو گلے سے لگائے رکھا اور کبھی چھلانگ لگا کر اس نے بلائی طبقے میں جانے کی کوشش نہ کی میں نے ان کو اکثر ملتان ڈیرہ اڈا پر فرینڈز ہوٹل میں پارٹی کارکنوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا ، جہاں کبھی کبھی چائے پینے میں بھی چلاجاتا تھا ایک مال پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ " حسینی صاحب !آج کل آپ کے قلم کی کاٹ بہت تیز ہوچکی ہے - لفظوں کو نشتر کی جگہ استعمال کررہے ہو ، بلاول اگر " زندان پدر کا قیدی " نہ ہو تو زندان اسٹبلشمنٹ کا قیدی بن جائے ، وہ میرے دو ہفتے پہلے لکھے گئے ایک کالم کا حوالہ دے رہے تھے جو میں نے بلاول بھٹو کی 18 اکتوبر 2014ء کراچی جلسہ میں کی گئی تقریر پر لکھا تھا خورشید خان کبھی بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے مایوس نہیں ہوئے تھے اگرچہ پارٹی کے اندر تنقید بھی کھل کر کرتے تھے ،اور خورشید خان پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اس نسل کے چند بچے کچھے لزکوں میں سے تھے جن پر اس پارٹی کے اندر سوشلسٹ ، ترقی پسند ، مزدور ، کسان خیالات کی آبیاری کرنے والے رہنماؤں جیسے بابائے سوشلزم شیخ رشید ، سفیر ویت نام اشفاق احمد خان والد شہید راشد رحمان ایڈوکیٹ کا اثر بہت غالب تھا اور وہ پیپلزپارٹی کے اندر " ورکرز پالیٹکس " کے علمبردار تھے ان کی وفات پر میرا خیال تھا کہ فوری طور پر ملک بھر سے پی پی پی کے رہنماؤں کے بیانات سامنے آئیں گے اور پی پی پی کا ملکی اور صوبائی میڈیا سیل اس خبر کو پارٹی کی طرف سے اخبارات کو جاری کریں گے ، ترجمان بلاول ہاؤس کراچی و لاہور اعجاز درانی و فیصل میر اس پر اپنے خیالات ضرور پریس کو بھیجیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ، میں نے پھر یہ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری کو ایک ٹوئٹ کیا اور ایسے ہی ٹوئٹ پی پی پی میڈیا اور بلاول بھٹو زرداری کے آفس سٹاف کو بھی کئے اور ڈھیٹ بنکر ان سے درخواست بھی کی کہ اس پر تعزیتی بیان جاری کریں لیکن کو‏ئی ردعمل موصول نہين ہوا بلکہ فیصل میر کو تو فون کیا اور اسے یاد بھی نہیں آیا کہ خورشید خان کون تھے ، جب بتایا تو اظہار افسوس کیا ، میں نے فون بند کردیا عمران خان نے پی پی پی کے 18 اکتوبر کے جلسے کے شرکاء کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں لاشوں نے شرکت کی تھی ، عمران خان نے یہ بات کسی اور معنی میں کی تھی لیکن مجھے یہ ایک اور طرح سے ٹھیک لگتی ہے کہ پی پی پی کے اندر سفید پوش اور غریب کارکن اب زندہ لاشوں میں بدل چکے ہیں اور خورشید خان جیسے کارکن توپارٹی کی صورت بدل جانے پر صدمے اور دکھ کی وجہ سے کومے کی کیفیت کا شکار ہیں اور ان سے ایک لفظ بھی بولا نہیں جاتا ابھی دو ماہ پہلے پی پی پی کے کئی ایک دیرینہ کارکن اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے لیکن ان غریبوںکے ہآں بڑی قیادت تو دور کی بات ڈویژن اور جنوبی پنجاب سطح کی قیادت بھی نہيں پہنچ پائی ، اس جنوبی پنجاب کی قیادت میں تو ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے آبائی حلقے تلمبہ میں ہی کسی کارکن کی شادی یا مرگ مين شریک نہیں ہوتا ، ایسے بے حس اور مردہ لوگوں سے یہ پارٹی بھری نظر آتی ہے میں سوچتا ہوں کہ پہلے " کشمیر ملین مارچ " میں اور اب پھر لندن میں بلاول بھٹو زرداری کو ان کشمیریوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر کے شیدائی ہیں ، کیا اس سے بھی یہ قیادت کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے ابھی روزنامہ خبریں ملتان میں مکرم خان نے اپنے کالم کے اندر آصف علی زرداری کے والد کی چند منٹ کی جس ویڈیو کا زکر کیا تھا ، میں نے وہ ويڈیو دیکھی اور حیران رہ گیا ، ويڈیو اس لیے دیکھی کیونکہ میں مکرم خان کو ضیاء الحقی باقیات سے خیال کرتا ہوں مگر ويڈیو میں جب حاکم علی زرداری کو یہ کہتے سنا کہ قائد اعظم تو اس ملک کی اے بی سی سے بھی وافق نہیں تھے الخ تو مجھے مکرم خان کا غصّہ بجا معلوم ہوا ، بھلا حاکم علی زرداری اتنے بڑے قد کا مالک کب سے ہوگیا کہ وہ بابائےقوم محمد علی جناح کے بارے میں ایسے جملے کہہ سکے ، یہ وہ جناح ہيں جن کے بارے میں سطحی اور رزیل جملے کہنے یا لکھنے کی ہمت تو کانگریس کے باپو گاندھی ، جدید ہندوستان کے معمار جواہر لعل نہرو ، تین سابق صدور کانگریس ابوالکلام آزاد ، سی گوپال اچاریہ اور سبھاش چندر بوس کو نہیں ہوئی ، حاکم علی زرداری کے ہآں تاریخ اور ہندوستانی سیاست پر عبور حاصل کرنے کا کوئی جذبہ ہوتا تو وہ جناح کے بارے میں ہندوستان کے بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں کے ستائشی کلمات بارے خوب جانتے ہوتے اور کانگریسی و احراری ملّاؤں کی طرح آفتاب پر تھوکنے کے مرتکب نہ ہوتے لیکن اس کلپ کے بارے میں پی پی پی کا سوشل میڈیا بھی منہ پر تالے ڈالکر بیٹھا ہے ،ویسے بھی نظریات کو تیاگ دینے کے بعد پیپلزپارٹی کے اندر کس کو پڑی ہے کہ اپنی ںطریاتی اساس پر بات کرے یا صفائی دے جس پارٹی سے ںظریات رخصت ہوجائیں اور موقعہ پرستی کی خاک اڑتی ہو وہآں کارکن جیتے ہوں یا مرگئے ہوں کسی کو کوئی پرواہ نہیں رہتی ویسے مجھے ايک نہائت معتبر شخص جوکہ خود بھی ضیاء الحق کے مارشل لائی ضابطے کے تحت شاہی قلعے کے بعد ملتان جیل میں قید کاٹ رہا تھا نے بتایا آج جو لوگ پارٹی کے ان داتا بنےبیٹھے ہیں وہ ضیاءالحق کے حواریوں کے لیے پی پی پی کے جیالوں کی مخبریاں کیا کرتے تھے اور اس کے عوض تنخواہ پاتے تھے ، ایک صاحب ایسے تھے جن کو پی پی پی دور میں آئی ب مين بھرتی کیا گیا اور حیرت انگیز طور پر ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے سب لوگ نکال باہر کئے گئے ، مگر وہ موصوف ترقی پر ترقی پاتے گئے اور آج بہت بعد میں جاکر پتہ چلا کہ ملتان کے بہت سے لوگوں کی گرفتاری اور چھاپوں کے پس پردہ ان کی مخبری کام دکھارہی تھی ،زرداری و گیلانی نے پانچ سالہ دور اقتدار میں اس شخص کو خوب نوازا خورشید خان ملتان کی ورکر سیاست کا ایک سچا اور کھرا باب تھے اور وہ عمر کے اس حصّے میں اب کسی اور جانب رخ کرنا نہیں چاہتے تھے ، ضیاءالحق نے پاکستان کی سیاست میں " کالے دھن " اور کلائنٹل ازم کے جو وائرس داخل کئے تھے ، اس نے خورشید خان جیسے کارکنوں کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں داخلے کو ویسے ہی ناممکن بناڈالا تھا اورپی پی پی کو یہ توفیق کبھی نہ ہوئی کہ وہ خورشید خان کو سینٹر یا مشیر ہی بنانے کا فیصلہ کرکے یہ ثابت کرتی کہ وہ ورکر سیاست پر یقین سے منحرف نہیں ہوئی ہے پرانے ورکرز کے ساتھ پی پی پی نے جو حشر کیا ، اسے دیکھتے ہوئے سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والی نئی نسل نے اس پارٹی کی طرف آنا بند کردیا اور اس پارٹی کی قیادت کی بنجر سوچ کی وجہ سے آج پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں نیا خون نظر آتا ہے اور یہ بنجر سوچ کی مالک قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ٹوئٹس اور فیس بک سٹیٹس کے زریعے سے یہ ان کامقابلہ کرلے گی اور نئے خون کو اس طرف جانے سے روک لے گی پی پی پی نے بہت تیزی سے اپنے سیاسی ورثے اور سیاسی اثاثے کو تباہ کرنے کا کام شروع کیا اور پھر 18 اکتوبر سے پہلے یہ محسوس ہورہا تھا کہ یہ اب ایسے اقدامات اٹھائے گی جس سے کم از کم تھوڑی سی تازگی یہاں محسوس ہوگی لیکن 18 اکتوبر اور اس کے بعد ابتک اس کی روش سے ثابت ہوگیا کہ یہ مکمل طور پر بنجر ذھنوں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے اس کی اپوزیشن تو مسلم ليگ قائداعظم کی اپوزیشن سے بھی کمتر ہوچکی اور المیہ یہ ہے کہ اس کی سٹریٹ پاور پنجاب میں عوامی تحریک جیسی جماعتوں سے بھی کم دکھائی دینے لگی ہے اور یہ سب نیتیجہ ہے اس نام نہاد مفاہمانہ سیاستکا جس کی زنجیریں پارٹی کے گلے اور پاؤں میں قبلہ آصف علی زرداری نے ڈال رکھی ہیں اور اس کا بوجھ اتنا ہے کہ پارٹی دو قدم بھی اٹھانے سے قاصر نظر آتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کے دیرینہ کارکن جنھوں نے خون جگر سے اسے سینچا تھا وہ اس بوجھ تلے اسقدر دبے ہیں کہ ان میں سے کئی تو حقیقی طور پر گھٹ کر دل کے ہاتھوں ہار گئے اور ان میں خورشید خان ایک تھے ،جن کی مسمت میں ٹوئٹوں کے بادشاہ کا ایک ٹوئٹ بھی نہيں آسکا

تکفیری فاشزم ، پاک و ہند کے کمیونسٹ اور ثقافت


عبداللہ ملک جوکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور پھر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک رکن تھے ،انھوں نے اپنے "حج بیت اللّہ " کی ایک روداد " حدیث دل - ایک مسلم کمیونسٹ کا روزنامچہ حج " کے عنوان سے لکھی تھی عبداللہ ملک کی یہ کتاب میرے لیے دلچسپی کا باعث اس لیے بنی کہ عبداللہ ملک نے پنجاب کی سیاسی تحریکوں کا احوال رقم کرتے ہوئے جب پنجاب کی مذھبی تحریکوں پر اپنا تجزیہ لکھا تو وہ مجھے جدلیاتی تاریخی مادیت پرستی سے زیادہ ،ان کے اپنے خاندان کے مذھبی پس منظر سے ان پر پڑںے والے اثرات سے زیادہ قریب لگا اور وہ خاص طور پر تحریک خلافت ، مجلس احرار کی اینٹی قادیانی اور اینٹی شیعہ اور وہابیت نواز تحریکوں کا سائنسی تجزیہ کرنے میں ناکام نظر آئے میرا ان کی پنجاب کے نوآبادیاتی دور کی سیاسی - سماجی زندگی کے بارے میں یہ کمزور اور کسی حد تک ان کے اپنے مذھبی پس منظر کے دباؤ میں لکھا جانے والا خیال آج پیدا نہیں ہوا تھا جب کہ عبدل نیشا پوری ، فرحت تاج ، رضا رومی ، اعجاز حیدر نجم سیٹھی وغیرہ کے درمیان اور ان کے ساتھ ساتھ بھائی علی ارقم ، سید تقی اور چند ایک نوجوانوں کے درمیان " مذھبی فاشزم اور اس کے دارالعلوم دیوبند سے روابط اور اس تناظر میں مجلس احرار بارے تکفیری فاشزم وغیرہ کے دعوؤں " کی بحث شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ شاہ اسماعیل ، سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد کے بارے میں تو میں پہلے ہی بہت کلئیر تھا اس لیے اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں ایل یو بی پاک کی جانب سے یا عبدل نیشا پوری کی طرف سے یا خالد نورانی کی جانب سے دیوبندی تکفیریت بارے موقف سے اپنے موقف کو مطابق کیا ہے ایک مسلم کیمونسٹ کا روزنامچہ حج عبداللہ ملک کی ایک ایسی کتاب ہے جس نے میرے خیال کی تائید کردی ہے اور اب مجھے یہ بات بھی سمجھ آنے لگی ہے کہ ہماری کئی ایک کمیونسٹوں ، لبرلز کے اندر وہابیت اور دیوبندی ازم کی تکفیریت اور کلچر دشمنی کے بارے میں دوستی اور جھکاؤ کیوں پایا جاتا ہے مجھے اب یہ بھی یاد آرہا ہے کہ دیوبندیوں کے ایک اور معروف پنجابی عالم مولانا نفیس الحسینی ، اور پاکستان شریعت کونسل کے صدر علامہ زاہد الراشدی اور جامعہ اشرفیہ کے عالم مرحوم عبید اللہ انور ، ضیاء الحق کے رشتہ دار اور سابق مہتم جامعہ اشرفیہ مولانا ادریس کاندھلوی کیوں عبداللہ ملک سمیت کئی ایک وہابی ،دیوبندی پس منظر کے حامل کمیونسٹوں سے اپنی یاد اللہ کا فخریہ تذکرہ کیا کرتے تھے اور مولانا نفیس الحسینی مرحوم نے روزنامہ پاکستان لاہور میں دو اقساط پر مبنی ایک مضمون اپنی میاںوالی جیل میں نظر بندی کے عرصہ بارے لکھتے ہوئے سبط حسن مرحوم کو قرآن پڑھانے بمعہ تفسیر کا زکر کرتے ہوئے یہ دعوی کیوں کیا تھا کہ ان کے اور مرحوم سبط حسن کے تاریخ مسلم بارے ایک جیسے نظریات تھے عبداللہ ملک نے وہابی تصور توحید سے اپنی شیفتگی کا زکر اس کتاب کے شروع میں لکھے اپنے سوانحی نوٹ میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کا خاندان کٹّر وہابی یعنی اہلحدیث تھا اور انھیں آغاز کار سے وہابی عالم مولانا داؤد غزنوی ،دیوبندی عالم مولانا احمد علی اور مولانا غلام مرشد سے عقیدت و تعلق تھا اور وہ کہتے ہیں کہ ان سے وابستگی کی وجہ سے وہ ہمیشہ شرک سے دور رہے اور توحید سے ان کو خاصا شغف رہا وہ اس سوانحی نوٹ کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ برصغیر پاک وہند میں شرک و فجور کی جو یلغار اور ابن سعود کی مملکت کے خلاف جو مہم 126ء سے 1931ء تک چلی اس کو بھی ان دونوں خانوادوں نے ہی ملکر روکا تھا سچ یہ ہے کہ مولانا احمد علی کی خدمات غزنوی خانوادے سے کہیں زیادہ ہیں ، مولانا احمد علی عقیدتا جنفی تھے اور دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے لیکن بریلویوں کے نزدیک دیوبندی وہابی ہی تصور ہوتے تھے ،چناچہ ہر وہ مکتب فکر جو سلطان ابن سعود کے قبّے گرانے کی مہم کی حمائت کرتا تھا اس کو یہاں کے کچھ سیاسی اور مذھبی علماء وہابی کا لقب تیکر معتوب ٹھہرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے ،چنانچہ مجھے یاد ہے کہ 1930ء سے لیکر 1943ء تک اس ضمن میں باقاعدہ مناظرے ہوا کرتے تھے اور مناظروں کا موضوع مذھبی ہوا کرتا تھا ، اس مہم میں مولانا احمد علی لاہوری نے سولہ سولہ اور بارہ بارہ صفحات کے درجنوں پمفلٹ رقمکئے اور معمولی قیمت پر عوام تک پہنچائے اور لاہور کی فضا کو بدلنے میں اہم رول ادا کیا مقابلے پر بریلوی مولوی دیدار علی اور ان کا گروپ تھا اور ان کا واحد مرکز وزیر خان کی مسجد ہوا کرتا تھا ،اس زمانے میں مولانا احمد علی لاہوری نے تعلیم یافتہ لوگوں کی تربیت کے لیے جوکہ عام طور پر ملازمت پیشہ ہوتے تھے کے لیے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور اس درس نے لوگوں کا ایک خاصا بڑا حلقہ پیدا کیا اسی طرح اسی سوانحی نوٹ میں انھوں نے ایک جگہ لکھا جب 1926ء میں سلطان ابن سعود کے خلاف ہندوستان میں مہم چلی تھی کہ اس نے قبے گرادئے تو اس بنا پر مسلمانوں میں دو گروہ پیدا ہوگئے تھے - ایک طرف سلطان ابن سعود کا حامی گروہ تھا جس کی قیادت مولانا ابوالکلام کررہے تھے ، اس گروہ میں تمام لوگ وہی تھے جو بعد میں " احرار " کے نام سے موسوم ہوئے دوسری طرف مولانا شوکت علی اور ان کی خلافت کمیٹی تھی ، ہمارا خاندان چونکہ غزنوی خاندان کا معتقد تھا بلکہ ان کے سلطان سے قریبی مراسم تھے ،سلطان ابن سعود اس خاندان اور ان کے زریعے اہل حدیثوں کی تھوڑی بہت مالی امداد کیا کرتے تھے اس لیے ہماری ہمدردیاں سلطان ابن سعود کے ساتھ تھیں عبداللہ ملک اس کتاب میں ص 167 اور 168 پر مزید آل سعود کے بارے میں اپنےخیالات کا اظہار کرتے ہیں ویسے ان دونوں حکومتوں کے طرز تعمیر سے ان کے مسلک بھی نمایاں ہوتے ہیں ، کم از کم مجھے محسوس ہوتے ہیں ،اولا سعودی حکومت حرم کی وسعت و کشادگی کو ترجیح دیتی ہے عثمانیوں میں شخصیت پرستی تھی ، یہ شخصیت پرستی یک گونہ شرک کی حدوں کو چھونے لگتی ہے اور وہ رسول خدا کو خدا کا درجہ دینے کی طرف مائل لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ ملک نے یہ تحریر مدینہ میں بیٹھ کر لکھی اور پہلے انھوں نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ وہ ایک تہذیبی مسلمان ہیں اور اپنے تہذیبی ورثے اور روایات کا احترام اور ان سے پیار کرتے ہیں ، اور پھر انھوں نے ایک لمبا لیکچر اس بات کا دیا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں سے انھوں نے لوگوں کی مذھبی تہذیت اور ثقافت کا احترام کرنا سیکھا ، سوہن سنگھ جوش کا ان کی شادی میں شرکت کرنا اور کھانا نہ کھانے کا زکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سوہن سنگھ جوش کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ان گے خلاف انگریز سامراج کو ان کے بارے میں عام سکھوں کو بھڑکانے کا موقعہ نہیں ملے گا لکین یہی عبداللہ ملک اسی تحریر میں ایک طرف تو پنجاب اور لاہور سمیت برصغیر کے مجموعی کلچر کو شرک و فجور سے تعبیر کرکے اور ابن سعود کی جانب قبے گرانے کے عمل کے خلاف داؤد غزنوی اور احمد علی لاہوری کی کوششوں کو سراہتے ہیں اور دوسری طرف وہ دیوبندی اور اہل حدیث کی وہابیانہ کوششوں کے ساتھ کلچر مخالف مہم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے لوگوں کی مذمت کرتے ہیں ان کو عثمانی دور کا کلچر اور آرٹ مدینہ میں جس کے آثار ان کے سفر حج کے موقعہ پر موجود تھے شخصیت پرستی اور شرک کا عکس لگتے ہيں اور وہ آل سعود کی توسیع حرم کے نام پر حجاز کے صدیوں پرانے کلچر کو ملیا میٹ کردینے کی توصیف و تائید کرتے نظر آتے ہيں عبداللہ ملک نے اپنی اس تحریر میں کم از کم احرار کی وہابیت کی توثیق یہ کہہ کر کردی کہ آل سعود کی جانب سے حجاز میں قدیم مذھبی تاريحی ثقافتی آثار کو گرائے جانے کے حق میں مہم چلانے والے سب کے سب وہ تھے جو بعد میں احرار کہلائے عبداللہ ملک نے ان واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ کیسے 1926ء میں یہ تحریک صرف پاک و ہند میں ہی نہیں چلی تھی بلکہ اس میں مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ کے مسلم ملک کے لوگ بھی شامل تھے اور ایک وفد ہندوستان سے حجاز گیا ، جس میں مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی ، سلیمان ندوی اور علامہ شبیر احمد ‏عثمانی بھی شامل تھے ، مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار " ہمدرد " میں اس حوالے سے ایک طویل مضمون ميں یہ انکشاف کیا تھا کہ کیسے اس وفد میں شامل کئی ایک دیوبندی مولوی بھی " احراریوں " کی طرح ابن سعود سے ملاقات کے بعد ابن سعود کے حامی ہوگئے تھے اور اس مضمون میں مولانا محمد علی جوہر نے ابن سعود کے تصورتوحید پر سخت تنقید کی تھی علامّہ شبیر احمد عثمانی کے خطبات جو مدون ہوکر سامنے آئے ان کی دوسری جلد میں ‏عثمانی ابن سعود اور وہابی مولویوں سے اپنی ملاقات کا احوال لکھا ہے اور ابن سعود کی تعریفیں کی ہیں عبداللہ ملک اس کتاب میں ابن سعود اور ہندوستان کے اہل حدیث کے درمیان تعلق میں مالی امداد کا تذکرہ کرتے ہیں اور وہ حقائق کے برعکس یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ ان دنوں ابن سعود کو انگريز غیر مستحکم دیکھنا چاہتے تھے اور اس نے ہندوستانی وہابی دیوبندیوں کے ابن سعود کے ساتھ اشتراک کو انگریز دشمنی کی مشترکہ بنیاد بتاکر جواز دینے کی کوشش کی ہے یہ وہ عذر لنگ ہیں جن پر عبداللہ ملک ہندوستان میں وہابی تحریک کی کلچر دشمنی اور ابن سعود کی تباہ کن سوچ اور تحریک کا جواز تلاش کرتے ہيں جسے عبداللہ ملک " شرک و فجور " قرار دیتے ہیں ، اس کے بارے ميں ایک اور ترقی پسند محمود فاروقی جوکہ معروف رجعت پسند شمس الرحمان فاروقی کے بھتیجے ہیں اور داستان گوئی میں شہرت تامہ رکھتے ہیں ہندوستان کے معروف تھیٹرکے آدمی حبیب تنویر کی یاد داشتوں کے دیباچے میں لکھتے ہيں جینے کا کبھی ختم نہ ہونے والا ولولہ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت تھا - خوش باشی کا یہی خواشگوار احساس تھا ، شادمانی کی تلاش اور زندگی میں خوشیاں پیدا کرلینے کی ان کی یہی صلاحیت تھی جس کے سہارے وہ آگے بڑھتے رہے ، ایک ندرت اوراحساس طمانیت کے ساتھ ، ان کا یہ لامختتم جوش ان کے بچپن کے مخصوص حالات کی دین تھا ، - ان کے والد پٹھان مہاجروں کی اس پہلی نسل میں سے تھے جو ہجرت کرکے پشاور سے آئی تھی - وہ رواں ادرو میں کبھی بات نہ کرسکے اور اس کے لیے عمر بھر اپنی بیوی اور سسرالی رشتہ داروں کے مذاق کا نشانہ بنتے رہے - ان کے والد ایک متقی ، پرہیز کآر اور راسخ مسلمان تھے ،اس لیے انھوں نے کم عمری سے ہی حبیب تنویر کو پابندی سے نماز پڑھنے کی عادت ڈلوائی اور شرک جیسی بدعتوں سے دور رکھا، لیکن حبیب تنویر کے ڈھیر سارے ننھیالی رشتہ دار نہ صرف رائے پور اور نواح میں رہتے تھے بلکہ کئی ایک تو چھتیس گڑھ ، برار اور مرکوی علاقہ جات کے جنگلات تک میں رہائش پذیر تھے ، جنھوں نے باپ کے سخت گیر اور وہابی عقائد کے باوجود ان کے دل میں گانے کے لیے لگاؤ پیدا کیا ، اور اس کی ابتدائی ٹریننگ انھیں اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ میلاد کی محفلوں میں شرکت کے سبب ملی -خالہ ، خالوؤں ، ماموں ممانیوں ، ممیرے خلیرے بھائیوں اور بہنوں کی ایک لمبی قطار ہے جن کو انھوں نے اپنی یادداشتوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے کیونکہ ان کے دل پر اردو شاعری کی محبت کی سان انھوں نے ہی رکھی تھی اور انھیں عمر سے پہلے ہی شاعر بناڈالا تھا - ان کی ماں اور دوسری عورتوں کا ایک ایسا مذھبی سنسار بھی ہے جو مسرتوں اور تقریبوں سے معمور ہے ، جن میں دعوتیں ہین ، گیت ہیں اور میلاد کی محفلیں ہیں ، کچھ ایسی ہی مذھبی زندگی مجھے بھی اپنی نانی کی وجہ سے یاد ہیں جس میں طرح طرح کے کھانے بنانا ، تقسیم کرانا ، خیرات کرنا اور ایسی مذھبی رسوم منانا بھی شامل ہیں جن کا مسجد سے دور دور تک کچھ واسطہ نہیں ، حتی کہ راسخ مذھبی نکتہ نظر سے جن کا قرآن سے بھی کچھ واسطہ نہیں ہے - یہ ہندوستانی مسلمانوں کی گہری مذہبیت کی ہی کارفرمائی تھی کہ 1857ء تک اور اس کے بعد بھی ، یہآں کے مسلمانوں کی رسومات کا اپنا کلینڈر ہوتا تھا - ہ کلینڈر اکثر موسموں کے مطابق طے کیا جاتا تھا اور مقامی واقعات ، مقامی صوفی ، سنت اور مقامی رسم و رواج اس کے محرک ہوتے تھے ایک سوانح نوٹ عبداللہ ملک نے اپنے تہذیبی مسلمان ہونے اور اپنے تہذیبی ورثے اور اقدار پر مفخر ہونے کے دعوے کے ساتھ لکھا اور اس میں صرف اپنے وہابی ورثے کو ہی جگہ دی جبکہ دوسرا یادداشت تنویر حبیب نے رقم کی اور انھوں نے ہندوستان کے مسلم تہذیبی ورثے کی اس جان کا زکر کیا جسے " شرک و فجور " کہہ کر عبداللہ ملک نے اسے مٹانے کی کوشش کرنے والے داؤد غزنوی اور احمد علی لاہور کی تعریف کی ، عثمانیوں کو لتاڑا اور ابن سعود کی تعریف کرڈالی عبداللہ ملک نے دارالعلوم دیوبند سمیت دیوبندی اور اہلحدیث کے ہآں جنم لینے والی وہابیت کی تزئین وآرائش کا کام کیا اور احراریوں ، خلافتییوں میں تکفیری فاشزم کے ابتدائی جراثیم کا کر تک نہ کیا ، وہ احمد علی اور داؤد غزنوی کو مولانا اور بریلوی عالم دیدار علی کے مولوی اور بریلوی گروہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ویسے جہاں انھوں نے یہ کہا ہے کہ احمد علی لاہوری کے مناظراتی سولہ سولہ صفحات کے پمفلٹوں نے لاہور کی فضا کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، اس سے یہ انداہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزنوی اور احمد علی کس فضاء کے خلاف کمربستہ تھے یہ وہ فضا تھی جس کے بارے میں ایک اور معروف کمیونسٹ شاعر اور رہنماء سردار جعفری اپنی کتاب " کبیر " میں رطب اللسان ہے اور وہ کبیر کی بھگتی اور تصوف کو برصغیر پاک و ہند کی ترقی پسندانہ تہذیبی روح قرار دیتا ہے اور کبیر بانی کے دیباچے کے آخر میں لکھتا ہے ہمیں آج بھی کبیر کی رہنمائی کی ضرورت ہے - اس روشنی کی ضرورت ہے جو اس سنت صوفی کے دل سے پیدا ہوئی تھی ، آج دنیا آزاد ہورہی ہے ، سائنس کی بے پناہ ترقی نے انسان کا اقتدار بڑھا دیا ہے ، صنعتوں نے اس کے دست و بازو کی طاقت میں اضافہ کردیا ہے ، انسان ستاروں پر کمندیں پھینک رہا ہے ، پھر بھی حقیر ہے ، مصیبت زدہ ہے ، دردمند ہے ، وہ رںگوں میں ٹہ ہوا ہے ، قوموں میں تقسیم ہے ، اس کے درمیان مذھب کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں ، فرقہ وارانہ نفرتیں ہیں ، طبقاتی کشمکش کیتواریں کھنچی ہوئی ہیں ، بادشاہوں اور حکمرانوں کی جگہ بیوروکریسی نے لے لی ہے ،دلوں کے اندھیرے ہیں یہ کبیر کی ، رومی کی ، غرض کہ تمام سنتوں صوفیوں کی تعلیمات کی نئی تفسیر ہے جو ایک نئی انسانیت کی بشارت لئے ہوئے ہے سردار جعفری نے یہ تحریر اگست 1965 ء میں لکھی تھی اور عبداللہ ملک نے حج 70ء کی دھائی میں کیا تھا اور وہ اپنی اس تحریر میں جب غزنوی ، احمد علی ، احراریوں کو سیاسی اور سماجی اعتبار سے ترقی پسند قرار دیتے ہیں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس ترقی پسندی میں ان کی کلچر مخالف اور تصوف مخالف سرگرمیوں کو بھی شامل کرلیتے ہیں جبکہ علی سردار جعفری ، صفدر میر ، سبط حسن ، دادا امیر حیدر ، فیروز الدین منصور ، سجاد ظہیر ،حبیب تنویر ، فیض احمد فیض ، کامریڈ پی سی جوشی کبیر ، رومی ، اور سنتوں ، صوفیوں کی تحریکوں سے بننے والے کلچر کو ترقی پسندانہ اور انسانیت کے لیے بشارت قرار دیتے ہیں یہ وہ فرق ہے جسے علی ارقم اور کئی ترقی پسند دوستوں نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے ںظر انداز کردیا ، ویسے اگر عبداللہ ملک کی روشن خیالی اور سیاسی ترقی پسندی کی تعریف کو اگر قبول کرلیا جائے تو پھر طالبان کی جانب سے بامیان کے مسجموں کی تباہی ، مزارات پر حملے ، عاشور و میلاد اور موسیقی کے اجتماعات پر حملوں اور ان کی آئیڈیالوجیکل توجیحات پیش کرنے والوں بھی سیاسیو سماجی اعتبار سے ترقی پسند کہنا پڑے گا ویسے عبداللہ ملک سویت یونین اور روسی انقلابی رہنماؤں کے گن گاتے ہیں اور سویت یونین میں نئے انسان کی پیدائش کی خبر دیتے ہیں جبکہ لینن اور اس کے بعد جانشینوں نے تو سویت روس کی ثقافتی تاریخ کو ختم نہیں کیا تھا جبکہ خود لینن کی حنوط شدہ لاش ریڈاسکوائر کے میوزیم میں رکھوادی تھی اور اس کے مجسمے جگہ نصب تھے اور روس کی کسی بھی تاریخ کے دور کو ںہ تو کتابوں سے غائب کیا اور نہ ہی اس کے ثقافتی آثار کو تباہ کیا تھا اور جس شخصیت پرستی کو عبداللہ ملک نے ترک عثمانیوں کے دور کے حجاز میں پائے جانے والے آرٹ سے منسوب کرکے مذمت کی وہ تو خود سویت یونین میں اشتراکی آرٹ اور فن تعمیر کی جان تھی میں نے یہ ديکھا ہے کہ جو وہابیت کے اثر ميں ہوتے ہیں ان کے جمالیاتی ثقافت سے نفرت کے آثار بہت نمایاں ںظر آتے ہيں چاہے وہ عبداللہ ملک جیسے کمیونسٹ کیوں نہ ہوں اس کتاب میں عبداللہ ملک نے گاندھی کی عظمت کے بارے میں بھی کچھ باتیں کی ہیں ، ان کو میں اپنے کسی اور مضمون میں موضوع بنانے کے لیے چھوڑے جارہا ہوں ، جو مجھے پرویز ہود بھائی ، ارون دھتی رآئے اور ان کی کے گاندھی بارے لکھے ایک مقالہ بارے بہت جلد لکھنا ہے حال ہی میں دارالعلوم دیوبند میں حدیث پڑھانے والے ایک عالم جوکہ اعظم گڑھ سے ہیں نے میرا ایک آرٹیکل دیوبندی وہابی تکفیریت بارے پڑھنے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا اور اس نے کہا کہ میں دیوبندی وہابی تکفیریت کی اصطلاح غلط استعمال کررہا ہوں اور اس نے شبیر احمد عثمانی ، سلیمان ندوی کی جانب سے ابن سعود کی قبے گرائے جانے کی مہم کے خلاف بننے والی کمیٹی کا حصّہ بننے اور سفر حجاز مين ابن سعود سے اس امر کی مخالفت کرنے کا زکر کیا ، میں نے جب اس سے پوچھا اگر دیوبندی ازم کے اندر تکفیریت اور وہابیت کا نشان نہیں ہے تو پھر آج کے طالبان ازم ، داعش ازم کے مزارات گرانے اور تصوف کے خلاف اعلان جنگ کرنے کو کس صف میں رکھا جائے گا اور سلفی ازم سے دیوبند کے تعلق کو کہاں رکھیں گے اور کیا احمد علی لاہوری ، احراریوں کو اس صف سے خارج کیا جائے گا ؟ اس سوال کا جواب اس عالم کے پاس نہیں ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند سمیت جتنی بھی کلرجی اور مذھبی پیشوائیت ہے اس نے ہندوستان کے مشترکہ کلچر کے خلاف اصلاح پسندی کے نام سے جو اعلان جنگ کیا اس کی کوکھ سے تکفیری مذھبی فاشزم کا جنم ہوا اور آج ہمیں جس دھشت گردی اور بربریت کا سامنا ہے اس کی فکری ، ںظریاتی جڑیں اسی تکفیری فاشزم کے اندر پیوست ہیں

Saturday, November 8, 2014

پاکستانی داعش کے بارے میں ایک کمیونسٹ کی گفتگو


نوٹ : خانیوال ضلع میں ایک ٹاؤن عبدالحکیم کے نام سے معروف ہے ، اس کی دیواروں پر داعش کے حق میں وال چاکنگ سامنے آئی ہے اور ملٹری انٹیلی جنس کے ایک کرنل نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ " دولت اسلامیہ " کا پاکستا کے اندر قیام کا منصوبہ اگر شروع ہوا تو اس کے لیے لڑائی کے میدان جنوبی پنجاب ، بلوچستان ، کراچی اور اندرون سندھ زیادہ ہونے کے امکان ہیں اور انھی علاقوں میں داعش کی حمائت سب سے زیادہ موجود ہے ، اس افسر نے یہ بھی کہا کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے حوالے سے پنجاب اور جنوبی پنجاب کے جو اضلاع ابتک قدرے پرسکون رہے ، وہ آنے والے دنوں میں بہت زیادہ گرم ہوسکتے ہیں ، پنجاب پولیس کے ایک افسر کا کہنا بھی ہے کہ کراچی اور جنوبی پنجاب کے اندر فرقہ وارانہ کلنگ کی لہر دوبارہ سے اپنے عروج پر پہنچنے کا اندیشہ نظر آرہا ہے جبکہ اس حوالے سے جنوبی پنجاب کے اندر ریجنل پولیس افسران اپنے اپنے ریجن میں انتہائی اعلی سطحی اجلاسوں کا انعقاد بھی کرچکے ہیں جبکہ ایم آئی اور آئی ایس آئی بھی اپنی لوکل انٹیلی جنس نیٹ ورکس کو مزید پھیلارہی ہیں ، پاکستانی ریاست کو اپنی رٹ اس مرتبہ انتہائی سیٹل ایریاز اور پنجاب کے اندر سے بھی چیلنج ہوتی نظر آرہی ہے اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنیساں پاکستانی داعش کو ایک حقیقت کے طور پر لے رہی ہیں کل دوپہر کو مجھے کراچی سے ایک انتہائی معتبر اور نظریاتی طور پر کمیونسٹ دوست کا فون آیا ، جس کا خاندان کٹّر سنّی خاندان رہا ہے لیکن وہ کمیونسٹ ہیں اور ظاہر ہے کہ ملحد بھی ہیں ، پاکستان میں ایک بڑے معروف کمیونسٹ گروپ سے وابستہ بھی ہیں اور ںظریہ ساز بھی ہیں ، انھوں نے تو مجھے کہا تھا کہ ان کے نام سے ان کی کہی ہوئی باتیں شایع کردوں ، نام کو شایع کرنے کا مقصد ان کا یہ تھا کہ اس سے یہ ہوگا کہ ان کی کہی ہوئی باتوں کو کسی شیعہ خاندانی پس منظر کے آدمی کی باتیں خیال نہیں کی جائیں گی ، لیکن ان کی کہی باتوں میں بہت سی حساس باتیں ایسی تھیں جن سے ان کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے ، اور ان کے خاندان کو آسانی سے گھیرا جاسکتا ہے ، اس لیے میں ان کا نام دانستہ درج نہیں کررہا ، ان کی بیان کردہ لوکیلٹی بھی میں جان بوجھ کر پوشیدہ رکھی ہے اور ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی آبادی کے اندر اینٹی شیعہ خیالات کس حد تک جاگزیں ہوچکے ہیں اور ان میں شیعہ نسل کشی کے بارے میں کس قدر ظالمانہ سوچ جڑیں پکڑنے لگیں ہیں اور شیعہ کمیونٹی کیسے اپنی شناخت کو چھپانے اور اپنے آپ کو سنّی آبادی میں گم کرنے کی سعی کرتی نظر آتی ہے ، یہ ساری باتیں ایک ایسے کمیونسٹ لیڈر نے کی ہیں ،جس کا شیعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، لیکن وہ شیعہ نسل کشی کے سوال اور اس نسل کشی کے زمہ دار اور ان زمہ داروں کی شناخت کے سوال پر بھی بہت واضح ہے اور اس کا کہنا یہ ہے کہ سپاہ صحابہ پاکستان سمیت وہ سب عناصر جو شیعہ نسل کشی کو ٹھیک خيال کرتے ہیں اب ایک قدم آگے بڑھ کر داعش کی طرح ریاست کے ساتھ مکمل طور پر جنگ کرنے اور اس ریاست کی جگہ ایسی ریاست تشکیل دینے کی طرف جارہے ہیں جو داعش کی دولت اسلامیہ سے مختلف ہرگز نہیں ہوگی ان کی یہ بات سنکر مجھے یہ خیال آیا کہ وہ شاید حال ہی میں ہمارے کچھ نام نہاد لبرل لیفٹیوں کی جانب سے اور ایک بہت بڑے سیکولر لبرل حلقے کی جانب سے شیعہ نسل کشی کو مکمل طور پر ملٹری اسٹبلشمنٹ ایجنڈا قرار دینے پر اصرار کرنے والوں اور اسے بس آئی ایس آئی سے جوڑنے والوں کے غلط اور گمراہ کن تجزیہ کی درستگی کرنا چارہے تھے ،یعنی اینٹی شیعہ ایجنڈا رکھنے والی دیوبندی وہابی کلنگ مشین کی بتدریج ریاست سے ٹوٹتی ہوئی طنابوں کی رفتار میں اضافہ ،جس کا ادراک فرقہ پرست سیکولر ، اور اس کلنگ مشین سے روابط رکھنے والے نام نہاد لبرلز کو تو ہرگز نہیں ہے مڈل کلاس دیوبندی اور شیعہ نسل کشی گفتگو : آر اے ڈی مولف : عامر حسینی کراچی میں گذشتہ دس سالوں سے بہت کچھ بدلنے لگا ہے اور میرے زاتی مشاہدے میں بہت سی ایسی باتیں آئی ہیں ،جن سے ان تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے میں نے یہ دیکھا ہے کہ یہاں دیوبندی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس ان سالوں میں زیادہ اینٹی شیعہ ہوگئی ہے اور وہ اب شیعہ کی نسل کشی ، ان کے مارے جانے کو برا بھی نہیں کہتی جبکہ اس سے پہلے اسی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے دیوبندی کہا کرتے تھے کہ شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ غلط ہے اور ساتھ ہی یل اضافہ بھی کرتے تھے کہ ہم (دیوبندی ) بھی تو مارے جارہے ہیں، اب وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ "ہاں مارے تو جارہے ہیں ، لیکن کم پھر بھی نہیں ہورہے میرے گھر میں ایک پلمبر کافی عرصے سے کام کرنے آتا ہے ، جب پہلے پہل اس نے آنا شروع کیا تو مجھے اس نے بتایا کہ وہ سپاہ صحابہ پاکستان کا رکن تھا لیکن اب نہیں ہے ، پھر اب ایک سال سے وہ دوبارہ سپاہ صحابہ پاکستان (اہل سنت والجماعت ) کے قریب ہوگیا ہے اور بہت زیادہ شیعہ مخالف نظر آتا ہے ، وہ شبیر آباد میں بوہری آبادی کے گھرانوں میں سے ایک ، ایک گھر کو جانتا ہے ، اس کے علاوہ اسے اپنے علاقے میں بھی شیعہ گھرانوں ، دکانداروں کے بارے میں بہت معلومات ہیں کہنے لگا کہ آپ کو پتہ ہے کہ فلاں نکڑ پر جو ہوٹل تھا وہ کیوں بند ہوا؟ میں نے پوچھا کیوں کہنے لگا اس ہوٹل پر شیعہ لٹریچر آتا تھا ، ہوٹل والا شیعہ تھا ، ہوٹل والک کو مارنے آئے تھے ، بیٹا مرگیا ، اس لیے ہوٹل بند ہوگیا میں نے زرا اور کرید کی کہ " شیعہ لٹریچر " کہنے لگا کہ نمائش پر وہ فلاں پرنٹنگ پریس ہے نا ، وہاں سے یہ لٹریچر چھپتا ہے ، میں وہاں گیا بھی تھا اصل بات کا پتہ لگانے ، لیکن شاید ان کو مجھ پر شک ہوگیا ، اس لیے میں زیادہ پتہ نہ کرسکا ، لیکن بہت جلد وہ پرنٹنگ پریس مجاہدین کے نشانہ پر آجائے گا یونمورسٹی میں میرے ایک کولیگ ہیں ، ان سے میری شیعہ نسل کشی پر اکثر بات ہوتی تھی ، پہلے وہ کہا کرتے تھے کہ ہاں شیعہ کو مارنا غلط ہے لیکن ہم بھی تو مارے جارہے ہیں ، لیکن اس مرتبہ جب میں نے کہا کہ یار اب تو حد ہی ہوگئی ہے ، شیعہ کو تو باقاعدہ گھیر کر مارا جارہا ہے تو اس نے کہا کہ ہاں مر تو رہے ہيں سالے پھر بھی کم نہیں ہورہے میں اس کی بات سنکر حیران رہ گیا اس مرتبہ بھی نو محرم کو ہم نے حلیم پکایا ، میری بیوی بہت اہتمام سے یہ حلیم پکواتی ہیں اور ہم دونوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ یہ روائت بہت تیزی سے ختم ہورہی ہے ، اسے زندہ کرنا بہت ضروری ہے ، ہم نے بہت سے خاندانوں کو مدعو کیا ، اس پلمبر کو بھی ایک دن پہلے میں نے مدعو کیا ، اس نے کہا کہ آپ تو کمیونسٹ ہیں اور یہ حلیم کیوں ؟ میں نے کہا کہ بس ایک روائت کے طور پر تو کہنے لگا اچھا آپ دونوں طرف چلتے ہيں میری بیوی کا نام صوفیہ حسنین ہے تو اس نام سے اس نے سوچا کہ میری بیوی شیعہ ہوں گی ہمارے ٹاؤن میں جہاں ہم کرائے پر رہتے ہیں ، ساتھ ہی پڑوس میں ایک شیعہ گھر بھی ہے ، ان کے ہاں میں حلیم دیکر آگیا تو شام کو وہ میرے گھر آئے ، مجھ سے میرا نام پوچھنے لگے ، میں نے ان کو نام بتایا تو میں نے ان کے چہرے پر تجسس دیکھا ، یہ گھرانا اپنی شیعہ شناخت چھپاتا ہے ، اور وہ شاید مجھ سے یہ تصدیق کرنا چآہتا تھا کہ کیا میں بھی شیعہ ہوں ، جو حلیم کی نیاز تکا اور بانٹ رہا ہے حلیم کھانے پر مدعو کئی ایک دیوبندی مڈل کلاس گھرانوں کی جانب سے اینٹی شیعہ خیالات کا کھل کر اظہار دیکھنے کو ملا ، جبکہ وہاں پر مدعو دو شیعہ مڈل کلاس خاندانوں کے شرکاء نے وہاں اپنے شیعہ پس منظر کوبتانے کی ہمت بھی نہیں کی ، کراچی میں شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مڈل کلاس پس منظر کے حامل گھرانے اپنے نام اور مذھبی شناخت چھپانے کی طرف مائل ہیں جبکہ دیوبندی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اب کھل کر شیعہ مخالف خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور لوئر مڈل کلاس کی دیوبندی پرت بہت تیزی سے ملیٹنٹ ہوتی نظر آرہی ہے سپاہ صحابہ پاکستان کراچی کے اندر شیعہ کو مارتی اور ریاست سے سمھوتہ کرتی اور اکثر وبیشتر ان کی مخبر بھی بن جاتی تھی ، لیکن اب یہ ایک قدم آگے نظر آتی ہے ، یعنی یہ ریاست سے لڑنے اور خود ایک اپنی ریاست بنانے کی طرف گامزن ہوتی نظر آرہی ہے اور یہ پاکستانی داعش کا ظہور ہے شیعہ کراچی میں باقاعدہ طور پر گھیر کر ، ریکی کے بعد مارے جارہے ہیں ، اور اس کا اندازہ مجھے ایسے بھی ہوا کہ میری بیوی اور بہن کو اپنا گھر خریدنے کا شوق چرایا تو میں نے اس پلمبر سے کہا کہ ان کو گھر دکھائے ، میری بیوی کو اس پلمبر نے بہت سے مڈل کلاس کی آبادی کے اچھے علاقوں کا بتایا ، اور حیرت اس بات کی تھی کہ اسے اکثر مڈل کلاس علاقوں کی بہت زیادہ معلومات تھیں اور اس نے کئی ایک ایسے علاقے جہاں شیعہ خاندان رہ رہے تھے وہاں مکان لینے سے منع کیا اور اسے وہاں ایک ، ایک گھر کے بارے میں بہت اچھی طرح معلوم تھا اس نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ جب وہ سپاہ صحابہ پاکستان میں تھا تو ان دنوں تنظیم کراچی میں شیعہ گھرانوں اور ان کے اکثریتی علاقوں کا شماریاتی سروے کرنے کی منصوبہ بندی بھی کررہی تھی اور اس حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام تو بہت سالوں سے شروع کیا جاچکا تھا اور یہ کام سپاہ صحابہ پاکستان پر پابندی کے دنوں میں بھی نہیں رکا تھا ، پوری تنظیم انڈر گراؤنڈ کام کرتی ںطر آتی تھی مجھے ایک اور میرے کولیگ نے بتایا کہ سپاہ صحابہ پاکستان نے بریلوی ایسی تنظیموں کے بارے میں بھی کام شروع کیا تھا ، جو ان کی اینٹی شیعہ مہم کی مخالفت کررہی تھیں اور ایسی تنظیموں سے وابستہ لوگوں کی باقاعدہ ریکی بھی کی گئی مڈل کلاس بیک گراؤنڈ رکھنے والی شیعہ آبادی کے اندر اپنی شناخت چھپانے اور بہت زیادہ خود کو اپنے اندر ہی قید کرنے کا رجحان ترقی پر ہے اور اس کمیونٹی کی نسل کشی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ، شیعہ کمیونٹی ایک پسی ہوئی ، مظلوم اور مجبور کمیونٹی کے سٹیٹس کے قریب تر ہوتی جارہی ہے اور کل تک جو مقابلہ کرنے کی بات کرتے تھے اب وہ بھی چھپانے میں عافیت خیال کرنے لگے ہیں

Thursday, November 6, 2014

خالد احمد , پاکستان میں دھشت گردی اور اس کی فکری بنیادوں کا ڈسکورس


خالد احمد اپنی کتاب " فرقہ وارانہ جنگ ۔۔۔۔پاکستان میں شیعہ - سنّی تشدد اور اس کے مڈل ایسٹ سے رشتے " کے چوتھے باب کے فٹ نوٹ میں انکشاف کرتے ہیں " میں نے پبلک ایڈمنسٹریشن سٹاف کالج میں " فرقہ واریت " پر ایک لیکچر دیا اور دوران لیکچر زیر تربیت افسران کو کہا کہ جب وہ کراچی جائیں تو جامعہ بنوریہ اور مفتی شامزئی کے بارے میں میرے بیان کردہ حقائق کی تحقیق کریں ، ان افسران نے کراچی جاکر جب ڈی آئی جی سندھ کے سامنے جامعہ بنوریہ کے خوالے سے حقائق کی جانچ کرنا چاہی تو ڈی آئی جی اپنا ٹمپرامنٹ لوز کر بیٹھے اور انھوں نے شامزئی اور جامعہ بنوریہ کی تعڑیفیں شرو‏ع کردیں خالد احمد کی کتاب کا اگرچہ عنوان خاصا مبہم ہے اور وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاری مذھبی دھشت گردی کی تعبیر و تشریح کا بنیادی فیکٹر ایرانی انقلاب کو مان کر آگے چلتے ہیں ، اگرچہ وہ اس میں افغان جنگ ،پاکستان ، امریکہ ، سعودیہ کی پراکسی جنگوں اور دیگر کئی فیکٹر بھی بیان کرتے ہیں ، لیکن ان کا بنیادی زور ایک تو دیوبندی دھشت گردی کے لیے بار بار سنّی دھشت گردی اور شدت پسندی کی اصطلاحوں کو بیان کرنے پر ہے اگرچہ جب وہ تفصیل میں جاتے ہیں تو دیوبندی شناخت کو بہت واضح کرتے ہیں لیکن اگر آپ اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے باب کو پڑھیں اور اس کے بعد چوتھے باب کو بھی پڑھ لیں تو اس میں جو مواد اور واقعات اور جن فکری لہروں پر بات کی گئی ہے تو ان سے یہ نتیجہ صاف نکالا جاسکتا ہے کہ مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص دھشت گردی کی فکری جڑیں سلفی وہابی آئیڈیالوجی کے اندر پیوست ہیں جسے دیوبندی تںطیموں اور سکالرز نے اپنا لیا ہے جبکہ 99 فیصد دھشت گردی کی وارداتوں کا کھرا پاکستان کے اندر دیوبندی تنظیموں ، مدارس اور افراد تک جاتا ہے دیوبندی وہابی تکفیری پاکستانی نازی ہیں بقول عبدل نیشا پوری کے اور یہ پاکستان کو نازستان بنانے میں کوشاں ہیں اسی کتاب میں ایک جگہ چوتھے باب میں کئی ایک جگہ خالد احمد پاکستان کی وردی ، بے وردی نوکر شاہی کے اندر دیوبندی وہابی تکفیری لابی کے منظم نیٹ ورک کے بارے میں اشارے دیتے ہیں ، گلگت کے کیس کو درج کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ کیسے وہاں ّجنرل ضیاء الحق کے اہم ساتھی جنرل کے ایم عارف کے وہابی داماد کو چیف سیکرٹری گلگت بلتستان لگایا جاتا ہے اور ایسے ہی ایک اور دیوبندی کھیتران کو پولیس سربراہ لگایا جاتا ہے اور یہ دونوں کے دونوں انتہائی متعصب فرقہ پرست اور اینٹی شیعہ و سنّی بریلوی تھے خالد احمد جنول ضیاء الحق اور لاہور کے دیوبندی مردسہ جامعہ اشرفیہ کے مہتمم عبدالمالک کاندھلوی کی آپس میں رشتہ داری اور جنرل ضیاء الحق کی دیوبندی وہابی سرپرستی کی کئی ایک مثالیں درج کرتے ہیں خالد احمد دیوبندی اور سنّی بریلوی کے درمیان تقسیم کے لیے ہائی سنّی چرچ اور لو سنّی چرچ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور یہ تقسیم بھی انھوں نے دونوں فرقوں کے شیعہ کے بارے میں رویہ اور خیالات کے فرق اور شیعہ سے دونوں کے سماجی تعلقات بارے فرق کو بیان کرنے کے لیے بنائی ہے اور بین السطور وہ یہ بتاتے ہيں کہ شیعہ کے خلاف وائلنس اور دھشت گردی اور علمی اعتبار سے منظم تکفیر کا کاروبار اہل حدیث اور دیوبندی وہابی کی جانب سے ہوا اور سنّی بریلوی اس کا حصّہ نہیں بنے بلکہ خالد احمد کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیوبندی وہابی تکفیری مہم اور اس سے ابھرنے والی دھشت گردی کا دائرہ سنّی بریلویوں تک بھی پہنچ گیا جس کے ردعمل میں پاکستان سنّی تحریک معرض وجود میں آئی اور خالد احمد سنّی بریلویوں کو کسی بھی طرح کی منظم دھشت گردی اور نظریاتی تکفیری نیٹ ورک کا حصّہ نہیں بتلاتے ، لیکن وہ جیو پالیٹکس ، علاقائی تنازعوں ، فرقہ وارانہ جدال اور اور موجودہ دھشت گردی کی جڑیں تاریخی اعتبار سے قرون وسطی میں شیعہ - سنّی تنازعہ سے جوڑتے ہیں اور نوآبادیاتی دور میں اور مابعد نوآبادیاتی دور میں وہ اس کو پھر سعودی وہابیت کے ساتھ اور ایرانی شیعت کے ساتھ جوڑ کر سعودیہ عرب کو سنّی ازم کا نمائندہ بتلاتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ واقعاتی اور تاریخی اعتبار سے درست نہیں ہے ، انھوں نے بنو امیہ کے اقتدار اور امویوں سے حضرت علی اور ان کے حامیوں کی لڑائی کو شیعہ - سنّی تنازعہ بناڈالاہے حالانکہ سنّیوں کی اکثریت کے ہاں خلافت اور حق علیکے ہاں متحقق ہے اور فکری اعتبار سے سنّیوں نے امام حسن کے بعد آنے والوں کو ملوک قرار دیا اور سب کو دوسرے مانا میں غاصب قرار دیا اور اس معاملے میں شیعہ اور سنّی تو ایک باب پر نظر آتے ہیں اور جبکہ ملوک کے حامی دوسری طرف نظر آتے ہیں جبکہ وہابیت اول دن سے کلاسیکل سنّی ازم کی مخالفت پر استوار ہونے والی تحریک تھی اور اسی لیے جب اس سے دار العلوم دیوبند کے رشتے استوار ہوئے تو پاک و ہند کی سنّی اکثریت نے اسے مسترد کردیا اور دار العلوم دیوبند کا معاملہ یہ رہا کہ اس نے نہ تو وہابیت سے اپنا رشتہ توڑا اور نہ ہی اس نے سنّی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے خاجی امداد اللہ مہاجر مکّی کی سنّی صوفی روایت کو الوداع کیا ، لیکن یہ روایت ان کے اندر بتدریچ مغلوب ہوتی گئی اور آج بہت کمزور حالت میں یہ ہمیں سرائیکی خطے میں خانپور کی حانقاہ سمیت چند ایک جگہوں پر نظر آتی ہے ، لیکن مجموعی طور پر پاکستان کے اندر دیوبندیت پر دار العلوم اکوڑہ خٹک ، دارالعلوم جامعہ بنوریہ ، دارالعلوم جامعہ فاروقیہ ، دارالعلوم کبیروالہ ، دارالعلوم عبداللہ بن مسعود خانپور جیسے مدارس کا اثر ہے جوکہ ایک طرف تو سعودی وہابیت کے ساتھ مکمل طور پر عقائدی اعتبار سے گھل مل گئے ہیں تو دوسری طرف ان کے ہاں تکفیری منظم مہم بہت زیادہ پراثر ہے خالد اہم نے اوپر زکر کردہ مدرسوں اور ان کی اہم ترین شخصیات کے ساتھ جہادی تکفیری دھشت گرد تنظیموں خاص طور پر سپاہ صحابہ پاکستان اور اس سے جنم لینے والی جہادی تکفیری تنظیموں کے باہمی رشتے پر بہت تفصیل سے " فرقہ پرست سپاہی " کے عنوان سے لکھے جانے والے باب میں روشنی ڈالی ہے اور خالد احمد سپاہ صحابہ پاکستان کو " مدر آف دیوبندی ٹیرراسٹس " یعنی دھشت گردوں کی ماں قرار دیتا ہے خالد احمد یہ بھی جائزہ لیتا ہے کہ کیا سپاہ صحابہ پاکستان / ملت اسلامیہ / اہل سنت والجماعت ، لشکر جھنگوی ، جیش محمد ، حرکۃ الانصار ، حرکۃ المجاہدین ، فرقان ، جند اللہ یہ الگ الگ تنظیمں ہیں ، اس پر خالد احمد نے واضح لکھا ہے کہ یہ سب کی سب اندرونی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور لشکر جھنگوی تو سپاہ صحابہ پاکستان سے کوئی الگ تنظیم نہیں ہے بلکہ ان کی باہمی علیحدگی ایک ڈرامے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے خالد احمد نے بہت تفصیل سے طارق اعظم ، مسعود اظہر ، لشکر جھنگوی کے اہم دھشت گردوں ، فضل الرحمان خلیل ، سیف اللہ اختر کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے اور پھر ان سب فرقہ پرستوں اور شیعہ ،صوفی سنّی ، احمدی ، عیسائی وغیرہ کے قتل اور ان کے اوپر حملوں کے زمہ داران کے رشتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ، اس سارے نیٹ ورک کے پاکستان کے دیوبندی اہم ترین مدارس اور ان کی اہم ترین بنیادی شخصیات کے ساتھ تعلقات اور رشتوں کا جائزہ لیا ہے جوکہ بہت اہم ہے خالد شیعہ نسل کشی ، ٹارگٹ کلنگ میں شیعہ کے خلاف تکفیر کی منظم مہم جو کہ دیوبندی اہم ترین مدارس سے شروع ہوئی اور شیعہ ثاگٹ کلنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی زمانی قربت کا جائزہ بھی لیتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ منظم تکفیر اور شیعہ نسل کشی میں گہرا تعلق ہے اور تیسرا باب جس کا عنوان " Shia -Sunni Schism " ہے ( جس سے مجھے اختلاف ہے ، کیونکہ اس حوالے سے جو مواد خالد احمد نے پیش کیا ہے اس سے تو یہ شیعہ کے خلاف دیوبندی وہابی ڈرائیو لگتی ہے نہ کہ کوئی برابر کا Schism خالد احمد بین السطور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کس طرح پاکستان کا اردو پریس ، دیوبندی اور وہابی حلقے اور خود پاکستانی سٹیٹ کا سرکاری موقف پاکستان کے اندر شیعہ ٹارگٹ کلنگ ، شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی مزارات اور جلوسوں پر حملوں کو امریکی ، ہندوستانی اور اسرائیلی ایجنٹوں کی کارستانی قرار دیتا رہا اور اس حوالے سے جماعت اسلامی ، جماعت دعوہ ، جے یوآئی ، سمیت دیوبندی ، وہابی تنظیموں اور ان کے حامیوں اور پاکستانی اردو پریس کے غالب حصّہ کی شیعہ نسل کشی کو چھپانے کی کوشش اور اس کے اصل زمہ داروں کی شناخت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کو بہت واضح کرکے بیان کرتا ہے اور مجھے ایسے لگتا ہے کہ وہ اس کی مقامی جڑوں کو چھپانے اور اس کی سعودی بنیادوں کو چھپانے کی روش کا زکر کنتا ہے لیکن نتیجہ نکالتے ہوئے ، وہ اس کو شیعہ - سنّی جنگ قرار دیتا ہے جبکہ پاکستانی تناظر میں تو یہ اصطلاح بہت ہی گمراہ کن بن جاتی ہے اور خالد احمد اسے سنّی ہائی چرچ کا مظہر قرار دیتا ہے اگرچہ اک جگہ وہ پاکستان کے اندر " جہادی نیٹ ورک " کی دیوبندیانے deobandisation کی بات کرتا ہے لیکن یہ وہ پروسس ہے جسے حود انگریزی پریس کے بھی غالب حصّے نے مبہم بنانے کی کوشش کی ہے اور اس پر پردے ڈالے ہیں جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی خالد احمد کی اس کتاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے بہت وضاحت سے لکھا تھا کہ خالد احمد دستیاب موادہونے کے باوجود پاکستان میں دھشت گردی اور تکفیری ڈسکورس سنّی - شیعہ وائلنس اور اسے shia - sunni schism جیسی مبہم اصطلاجوں مين بیان کرنے پر مجبور اپنی ریسرچ کی فنڈنگ کرنے والے ادارے کی دی گئی پالیسی لائن کو فالو کرنے کی وجہ سے ہوئے اور جن دنوں وہ ووڈرو ولسن سنٹر مين ریسرچ کرنے گئے ان دنوں اس پروجیکٹ کے امریکی نگرانوں کے خیالات کا تذکرہ میں نے اپے اس آرٹیکل میں بھی کیا تھا مجھے اس دوران چند ایک کتابیں جوکہ ووڈرو ولسن سنٹر ، کارنیگی انڈومنٹ اور کئی ایک اور امریکی فنڈنگ سے چھپنے والی کتابیں پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا ، ان میں حسین حقانی کی " ملاّ ، مسجد اور فوج " بھی اہم ہے تو مجھے ایک تو یہ نظر آتا ہے کہ امریکی فنڈنگ کرنے والے اداروں کی تحقیق کا فوکس ایک تو پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ تھی ، دوسرا ایران تھا اور وہ اس تحقیق میں مڈل ایسٹ میں ان دنوں امریکی پالیسی سے منحرف تحقیقی نتائج پر تیار نہیں تھے اور وہ دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گردی اور اس کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں اتنے زیادہ فوکس اپنے پالیسی بریف میں نہیں تھے اور مشرق وسطی کے شیعہ کے بارے میں ان کا فوکس معاندانہ زیادہ تھا ، ویسے اس کا تذکرہ خالد احمد پانچویں باب میں مڈل ایسٹ کی تاریخ بارے ایک بریف کے دوران سرسری طور پر کرتا ہے لیکن اس پر زیادہ بات نہیں کرتا امریکی فوکس اس کتاب کے چھپنے کے بعد بہت حد تک تبدیل ہوا ہے اور آج کم از کم امریکی فوکس میں دیوبندی تکفیری ٹیررازم اتنا کم اہم نہیں ہے جتنا یہ کبھی تھا اور آج عالمی انسانی حقوق کی تنظیميں اور خود امریکی حکومت مڈل ایسٹ میں اور پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی پر اس قدر لاتعلق نہیں ہے جتنی یہ پہلے نظر آتی تھی ، اس لیے اس موضوع پر امریکہ نواز لبرل اور سیکولر کے رویوں میں کچھ تبدیلی ہمیں نظر آنے لگی ہے پاکستان کے اندر دھشت گردی اور اس کی فکری جڑوں کے ڈسکورس کی آزادانہ اور دیانت داری پر مبنی کسی ملک کی خارجہ پالیسیوں اور پراکسی وار سے آزاد بنیادوں پر تشکیل کا سوال کل بھی اہم تھا اور آج بھی اہم ہے اور میرے خیال میں اس حوالے سے انگریزی میں عبدل نیشا پوری ، علی عباس تاج ، علی عباس زیدی ، نسیم چوہدری ، پیجا مستری ، شہرام علی رسٹی واکر ، کرسٹنین فرئر ، کارلوٹا گيل نے کافی اچھا کام کیا ہے مگر خالد احمد کی کتاب " فرقہ وارانہ جنگ " کے مواد کو بنیاد بناکر اور مزید حوالے شامل کرکے بہت ہی زبردست کام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور اس کی فکری جڑوں پر خالد ابوالفضل نے زبردست کام کیا ہے وہ اگرچہ مڈل ایسٹ کے خوالے سے زیادہ ہے لیکن اس میں شاہ اسماعیل دھلوی ، نواب صدیق قنوجی ، مفتی رشید گنگوہی ، مودودی ، ضیاء الرحمان فاروقی ، مفتی نظام شامزئی وغیرہ کو اس پیٹرن میں جانچ کر پاکستانی تناظر مکمل کیا جاسکتا ہے

Wednesday, November 5, 2014

مذھبی فاشزم - کوٹ رادھا کشن میں مسیحی میاں بیوی زندہ جلادئے گئے


ایک تو غربت کا عذاب کسی سے سزا سے کم نہیں ہوتا اور اس پر اگر آپ ایک نام نہاد نظریاتی ریاست میں رہتے ہو ، جہاں ریاست اور اس کے حاکم طبقات مذھب اور مسلک کے فرق پر آپ کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ویسے ہی ناممکن بناڈالتے ہوں اور پھر وہ سماج زات ، پات ، فرقہ پرستی کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہو تو اس سماج میں زندگی ایک غنمیت ہی بن جاتی ہے اور کسی وقت بھی آپ سماج میں جنونیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں کوٹ رادھا کشن جن کا نام پاک و ہند کی ان دو عظیم پریم اور شانتی بانٹنے والی ہستیوں پر رکھا گیا ہے ، جہاں ہمیں ایک دلخراش خبر ملی ہے کہ اس کے نواحی گاؤں میں ایک بھٹہ پر کام کرنے والے میاں بیوی کو قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کا الزام لگاکر زندہ جلادیا مرنے والے جوان میاں ،بیوی تھے ، شہزاد کی عمر 26سال تھی اور شمع کی عمر 24 سال تھی اور ان کے ہاں چوتھے بچے کی پیدائش متوقع تھی ، گویا شمع کے ساتھ ایک اور معصوم جان جس نے ابھی اس دنیا میں آنا تھا بھی اس مذھبی جنونیت سے اٹھنے والے شعلوں کی نذر ہوگئی اسے بلوائی دھشت گردی کہا جارہا ہے اور اس بلوائی دھشت گردی کا نشانہ زیادہ تر اس ملک کی مذھبی اقلیتیں بن رہی ہیں جوکہ اپنے سیلف ڈیفنس کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں اور ان کے لیے بس یہ کافی ہے کہ ان پر توھین مذھب / بلاسفیمی کا الزام لگایا جائے اور اس کے بعد ان پر ہلّہ بولہ جائے اور لوٹ ، مار ، آتش زدنی اور مدعا علیہ کو وحشیانہ طریقہ سے مار دیا جائے یہ پہلی مرتبہ تو نہیں ہوا کہ کرسچن کمیونٹی کے کسی مرد اور ،ورت پر توھین قرآن کا الزام لگا ہو اور پھر ان کو بلوائی دھشت گردی کا سامنا کرنا پڑا ہو مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے کہ جب رمضان کا 26 واں روزہ ابھی افطار ہوا تھا اور خانیوال کے چوک غفی والا ميں ایک جامع مسجد کے سامنے مشتعل ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوگيا ، مساجد سے انتہائی مشتعل اعلانات شروع ہوگئے تھے اور نوجوانوں کی ٹولیاں اکٹھی ہونی شروع ہوگئیں تھیں میں جو اپنے چند دوستوں کے ساتھ لاہور جانے کے لیے نکلا تھا اور ہم چوک غفی والا پہنچے تو کئی شناسا ، جانے پہجانے مولوی اور مذھبی تنظیموں کے عہدے دار تھے جو چوک میں ایک پھٹے کے اوپر چڑھ کر انتہائی جذباتی تقریریں کررہے تھے اور وہ امت مسلمہ کے تمام دکھوں ، مصبیتوں ، عذاب اور مشکلات کا زمہ دار خانیوال کی کرسچن کمیونٹی کو ٹھہرارہے تھے ، گلے کی رگیں پھولی ہوئیں تھیں ، آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں ، اور منہ سے جھاگ نکل رہے تھے نیچے ان کے سامنے کھڑے کئی ایک نوجوان فضاء مین پستول ، سیون ایم ایم ، کلاشنکوف اور چھرے ، ڈنڈے لہرارہے تھے ، ایسے میں ، میں نے چند ایسے نوجوان بھی دیکھے جو اس وقت کے مقبول جہادی لباس میں ملبوس تھے اور وہ وقفے وقفے سے ایک ہی نعرہ لگارہے تھے یہود و نصاری کا ایک علاج - الجہاد ، الجہاد یہ نوجوان اس وقت کی لشکر طیبہ اور آج کی جماعۃ دعوہ کے ارکان تھے اور ان کے ساتھ ساتھ میں نے ایک اور ٹولی کو دیکھا جو کہ غلہ منڈی خانیوال کی دیوبندی مسجد و مدرسہ کے طالب علموں پر مشتمل تھی اور انھوں نے سپاہ صحابہ پاکستان کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا اور ان کا لیڈر کہہ رہا تھا کہ آج ہم ان "چوہڑوں " کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیں گے اور ایک طرف بریلوی تنظیم سنّی تحریک کے نوجوان تھے اور یہ سب اس بات پر متفق نظر آتے تھے کہ اسلام کی عزت اور حرمت کو خطرہ ہے تو خانیوال کے گردونواح میں بسنے والی مسیحی برادری سے ہے ادھر غفی والا چوک سے بس کجھ دور سول لائن اور اندرون شہر کے درمیان بفر زون کے طور پر موجود " کرسچن بستی " کے مکین گھروں سے ضروری سامان سمیٹ رہے تھے اور اپنے گھروں کو چھوڑ کر فرار ہورہے تھے ، کانپ رہے تھے ، اور ان میں کئی ایک گھرانے ہمیں اسٹیشن پر ملے جہاں لاہور جانے کے لیے موسی پاک ایکسپریس ملتان سے آنے والی تھی ، جبکہ راستے ميں بس اسٹینڈ پر بھی میں نے افراتفری میں کئی عیسائی خاندانوں کو لاہور جانے والی بسوں ميں سوار ہوتے دیکھا تھا میں نے یہ منظر دیکھا تو مجھے اپنے دادا ، دادی ، نانا ،نانی اور کئی ایک گھر کے بزرگوں سے 14 اگست 1947ء کو مشرقی پنجاب اںڈیا اور اتر پردیش کے شہروں اور گاؤں ، دھلی ، ممبئی مہاراشٹر کے اندر تقسیم ہند کے وقت شروع ہونے والے فسادات کے دوران مسلم اقلیت پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت اور ادھر مغربی پنجاب ، سندھ ، خیبر پختون خوا کے اندر ہندؤں اور سکھوں پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت کے واقعات اور قصّے یاد آئے اور چونکہ شہر کے اس چوک میں جمع ہونے والوں کی 99 فیصد تعداد مشرقی پنجاب میں بربریت کا شکار ہونے والوں کی اولاد تھی تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ اگر ہماری ریاست ، تعلیمی اداروں ، ميڈیا اور مساجد و مدارس کی اسٹبلشمنٹ نے اس انسانیت سوزی کو فرقہ وارانہ تشریح کی بجائے انسانیت کے نکتہ نظر سے دیکھنے اور جاننے کی تعلیم دی ہوتی اور رواداری پر مبنی ڈسکورس کو تشکیل دیا ہوتا تو شاید ویسا منظر ہمیں پھر نہ دیکھنا پڑتا میں دوستوں کے ساتھ لاہور آگیا اور اگلے دن ہمیں پتہ چلاکہ شانتی نگر کو اردگرد کے دیہاتوں اور شہر سے آنے والے ایک بہت بڑے جلوس نے جلاکر خاکستر کردیا ، گھر اور دکانیں لوٹ لی گئیں جبکہ شہر میں بھی کرسچن بستی ، خرم پورہ پر دھاوا بولا گیا جبکہ میاں چنوں تحصیل خانیوال جہاں خالص کرسچن چکوک بھی ہیں پر بھی حملے کئے گئے اور بلوائی راج قائم رہا ، فوج بلوائی گئی تب کہيں جاکر معاملات کنٹرول میں آئے میں نے اس تباہی اور بربادی کے آثار اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس کے بعد یہ بھی دیکھا کہ جن مذھبی پیشواؤں اور مذھبی تنظیموں کے عہدے داروں کے اس رات گلے کی پھولی رگیں ، آنکھوں سے اگلتے شعلے اور منہ سے جھاگ نکلتے میں نے دیکھا تھا وہی امن سیمیناروں ، انٹرفیتھ ہارمنی کی ورکشاپس اور امن کمیٹیوں کے اجلاسوں میں " امن اور اسلام کی درخشندہ روایات " کے حوالے دے رہے تھے اور ان سے بڑا امن پسند جیسے کوئی تھا بھی نہیں ، جن کو احتساب کے کہٹرے میں کھڑا ہونا چاہئیے تھا وہ امن و آشتی کے پیامبر بنے بیٹھے اس واقعے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ شانتی نگر جب جل کر بھسم ہوگیا اور اس کی تعمیر نو کی بات چلی اور اس حوالے سے حکومت اور غیرملکی ڈونر ایجنسیز نے اس کی تعمیر نو اور برباد خاندانوں کی بحالی کے لیے اقدامات شروع کئے تو صدیوں سے افتاد گان خاک میں شمار ہونے والے ان کرسچن گھرانوں کی امارت اور دولت کے جھوٹے افسانے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے اور ان افسانوں ميں پھر ان آبادیوں کو شیطان بنانے اور ان کو مغرب کے یہود و نصاری کے ایجنٹ ثابت کرنے اور ان کی پاکستان سے وابستگی کو مشکوک بنانے کے لیے کئی جھوٹی کہانیاں گھڑ لی گئیں مین نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے جن کے ضمیر نے ان کو ملامت کی اور وہ اس حوالے سے شرمندگی کے مرحلے سے گزرے ہوں اور شہر کے اجتماعی ضمیر نے یہ محسوس کیا ہو کہ اگر اس روز ہم نے ہوش سے انسانیت کا دامن تھاما ہوتا تو ایسا نہ ہوتا لیکن افسوس کہ اس واقعے کے بعد ہمارا اجتماعی ضمیر پھر کہيں دفن ہوگیا اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پھر گوجرہ اسی عمل سے گزرا جس سے کبھی خانیوال گزرا تھا اور خآنیوال میں تو کوئی انسانی جان نہیں گئی تھی لیکن گوجرہ میں تو اس مرتبہ کئی ایک عیسائی زندہ جلادئے گئے اور پھر جوزف کالونی والا واقعہ سامنے آیا ، رمشا ء مسیح ، آسیہ مسیح تو پھر خوش قسمت ہیں زندہ ہیں ، رمشاء تو ملک سے باہر چلی گئی اور آسیہ مسیح کو ابھی سپریم کورٹ سے امید ہے لیکن شہزاد اور شمع کو اتنا موقعہ نہیں مل سکا اور وہ مذھبی جنونیت کا نشانہ بن گئے آسیہ مسیح کو انصاف دلوانے اور اس سے ہوئی زیادتی کا ازالہ کرنے کی کوشش اس وقت کے ایک گورنر سلمان تاثیر نے کی تھی جوکہ ایک بہت امیر اور طاقتور خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے اس معاملے پر جب اس ملک میں مذھبی جنونیت کے ٹھیکے داروں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی اور خم ٹھونک کر میدان میں آیا تو اس کو بیچ سڑک میں اس کے ہی محافظ نے شہید کردیا اور ایک اور وفاقی منسٹر جو بلاسفیمی ایکٹ کے اندر پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے اور اسے بہتر بنانے والی ایک کمیٹی کا چئیرمین بنایا گیا تھا اسے بھی اس کے گھر کے سامنے قتل کردیا گيا اور ایک اور وکیل راشد الرحمان ایک بلاسفیمی کے الزام میں قید لیکچرار جنید کی وکالت کے جرم میں قتل کردیا گیا اور اس طرح سے مذھبی جنونیت اور بربریت کے خلاف ہر ممکنہ مزاحمت کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی اور کچھ ایسا سماں پیدا کیا گیا کہ ظلم و بربریت کا شکار کوئی بھی کمیونٹی بس خود ہی تنہا میدان میں ہو اور پورے سماج میں خاموشی چھا جائے پنجاب حکومت کے چیف منسٹر شہباز شریف نے اس واقعہ پر حسب سابق ایک انکوائری بٹھائی ہے اور انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنے اداریہ ، رؤف کلاسرا ، قاضی سعید سمیت بہت سے لوگوں نے بجا طور پر ٹھیک ہی لکھا ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ تو نکلے گا نہیں ، کیونکہ ماضی میں گوجرہ کے سانحہ کی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں زمہ داری جن لوگوں پر عائد کی گئی ، ان کو کوئی سزا نہیں ملی ، نااہلی اور غفلت جن پولیس افسران کی ثابت ہوئی ان کو پولیس سروس سے فارغ کرنے کی بجائے ترقی کردی گئی اور جو سچ پاکستان کا میڈیا بتانے سے ڈرتا ہے میں اسے بھی یہاں لکھ دوں کہ پنجاب حکومت اور اس کے چیق منسٹر شہباز شریف بلوائی حملوں کی شکل میں دھشت گردی پھیلانے والے اصل چہروں کو بے نقاب کرنے اور ان کو انصاف کے کہٹرے تک لانے کی ہمت اس لیے نہیں کرتے کہ وہ تو خود ان میں سے کئی چہروں کو اپنے اتحادی بناکر بیٹھے ہیں اور ان کے سابق وزیر قانون جو اب بھی ڈی فیکٹو چیف منسٹر ہیں اور رانا مشہود جیسے ڈمی کے پیچھے وہی بیٹھے ہیں ان میں سے کئی ایک دھشت گردوں کے سپانسرز اور ماسٹر مائینڈ کے مربی اور آقا ہیں

Tuesday, November 4, 2014

کس قدر بے توفیق ہوئے فقیہان حرم


ابھی زیادہ دن نہيں گزرے جب ایل یو بی پاک ڈاٹ کام کے بانی مدیر عبدل نیشا پوری کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اسلام آباد اور کراچی سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں فہد رضوان اور فراز قریشی سے ایک بحث شروع ہوئی - بحث عبدل نیشا پوری کی اس بات سے شروع ہوئی کہ پاکستان کے اندر ایک حلقہ ایسا ہے جو شیعہ ، صوفی سنّی ، احمدی ، عیسائی اور ہندؤں کے خلاف منظم دھشت گردی کرنے والی تںظیموں کی مسلکی شناخت کو مبہم رکھتا ہے اور وہ شیعہ کے قتل کو نسل کشی کہنے کی بجائے اسے شیعہ - سنّی جنگ جیسی مبہم اصطلاح استعمال کرتا ہے اور اس طرح سے وہ اصل قاتلوں کی پہچان اور ان کے خلاف رائے عامہ کو منظم ہونے سے روکتا ہ عبدل نیشا پوری کی رائے یہ ہے کہ پاکستان میں شیعہ اور صوفی نسل کشی کی تمام تر زمہ داری جن تںطیموں پر عائد کی جاتی ہے وہ سب کی سب دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں ، دیوبندی مکتبہ فکر کی فکری بنیادیں وہابیت پر استوار ہیں جس سے تکفیریت اور دھشت گردی کا ظہور ہوا ہے اور دیوبندی مولویوں اور جماعتوں میں ایک بھی جماعت ایسی نہیں ہے جس نے آج تک شیعہ ، صوفی سنّی قتل کی زمہ دار جماعتوں جن میں سپاہ صحابہ پاکستان سرفہرست ہے کے بارے میں یہ کہا ہو کہ ان کا دیوبندی فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی لیے عبدل نیشاپوری کی رائے یہ ہے کہ دیوبندی جب تک اپنی تکفیری تنظیموں کو غیر دیوبندی ہونے کا فتوی نہیں دیتے اور ان کو اپنے مدرسوں و مساجد سے نکال باہر نہیں کرتے ،اس وقت تک یہی سمجھا جائے گا کہ وہ شیعہ و صوفی سنّی مخالف انتہا پسند، دھشت گرد آئیڈیالوجی اور ایجنڈے کی حمائت کرتے ہیں اور براہ راست یا بالواسطہ تکفیری آئیڈیالوجی کے حامی ہیں عبدل نیشا پوری نے دارالعلوم دیوبند کی فکری بنیاد کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ اس کی بنیاد ہی وہابیت کے پیورٹن ازم پر استوار ہے اور یہ وہابیت کا ہی ایک ماڈل ہے فرق صرف اتنا ہے کہ عرب وہابیت خود کو امام احمد بن حنبل کی مقلد کہتی ہے تو دیوبندی خود کو امام ابو حنیفہ کے مقلد کہتے ہیں اورعبدل نیشاپوری اپنی بات کی وضاحت کے لیے دارالعلوم دیوبند کے بانیان کی جانب سے خود کو شاہ ولی اللہ کے خاندان کا معتقد بتانے اور شاہ ولی اللہ کی فکر کو آگے لیکر چلنے کے دعوے کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں وہابیت کو متعارف کرانے میں سب سے بڑا کردار شاہ ولی اللہ کے خاندان کا تھا اور اس ضمن میں شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز ، شاہ اسماعیل دھلوی ، سید احمد بریلوی تحریروں سے شہادت لیکر آتے ہيں عبدل نیشاپوری کی جانب سے یہ دو مقدمات ایسے ہیں جو بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ ، تحقیق اور علمی طرز سے پرکھے جانے کا تقاضہ کرتے ہیں ، کیونکہ جب عبدل نیشا پوری نے یہ مقدمہ قائم کیا کہ پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی برادری کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کی زمہ دار دیوبندی دھشت گرد تنظیمیں ہیں اور ان کی فکری بنیاد وہابیت ہے جس کے پرچارک ہندوستان کے اندر دیوبندی ہیں اور اس دھشت گردی کو دیوبندی وہابی دھشت گردی کہنا بالکل درست ہے تو ایسے کئی ایک لوگ جن کا تعلق پاکستان کی سیکولر اور لیفٹ لابی سے ہے دارالعلوم دیوبند کو وہابیت کا پرچارک اور دارالعلوم دیوبند موجودہ شیعہ ، صوفی سنّی مخالف دھشت گردی کا زمہ دار تسلیم کرنے سے انکار کیا اور انھوں نے اس انکار کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے دارالعلوم دیوبند کو ترقی پسندانہ مفہوم میں سامراجیت کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی مضبوط بنیادیں رکھنے والا مدرسہ قرار دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ اس کا وہابی پیورٹن ازم ، ظاہر پسندی سے کوئی تعلق نہيں ہے اور یہ سب دعوے انھوں نے علمی انداز ميں نہیں کئے بلکہ انتہائی نابالغانہ اور بچگانہ انداز ميں کئے فہد رضوان جوکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والا ایک اکیس سال کا نوجوان ہے اور اس کے بقول وہ مارکسسٹ ہے اور مارکسزم کی طرف وہ شیعہ پس منظر سے آیا ہے ، یعنی اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ شیعہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو فکری انقلاب کے نتیجہ میں مارکسسٹ ہوگیا ہے ، اس نے عبدل نیشاپوری کی تنقید کے جواب میں یہ دعوی کیا کہ دارالعلوم دیوبند نے تو سامراجیت کے خلاف ایک تحریک کی بنییاد رکھی اور اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ دارالعلوم دیوبند کی دین تھی کہ جس نے ابوالکلام آزاد ، مولانا برکت اللہ بھوپالی ، مفتی محمود حسن ، عبید اللہ سندھی جیسے سامراج دشمن ، سرمایہ داری نظام کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہد پیدا کئے فہد رضوان کے اس دعوے نے ایک بات تو فوری طور پر ثابت کردی کہ فہد رضوان نے دارالعلوم دیوبند کے بینر تلے پروان چڑھنے والی تحریکوں کا تاریخی جدلیاتی مادی طریقہ کار کے تحت کوئی منضبط اور مبسوط جائزہ نہیں لیا اور نہ ہی اس نے جن لوگوں کو دارالعلوم دیوبند سے وابستہ کیا ان کا ٹھیک طرح سے مطالعہ کیا ورنہ وہ کبھی ایک ہی سانس میں ابو الکلام آزاد ، برکت اللہ بھوپالی کو مفتی محمود حسن اور عبیداللہ سندھی کے ساتھ نہ ملاتا ، دوسرا وہ دارالعلوم دیوبند میں مفتی محمود حسن اور عبید اللہ سندھی کی انگریز کے ہندوستان پر قبضے کے جواب ميں کی جانے والی جدوجہد کی فکری بنیادوں کی رجعت پرستانہ اور مثالیت پسندی کو بھی واضح کرتا اگر وہ ان پر مارکسی جدلیاتی مادیت کے اصول کو لاگو کرتا یہاں میں یہ واضح کردوں کہ عبدل نیشا پوری نے دارالعلوم دیوبند کی فکر اور نظریات کی جب کھوج لگانا شروع کی تو ان کی تحریر یہ بتاتی ہے کہ انھوں نے اسے مسلم فکر کے سنّی تھیالوجیکل تاریخی ارتقاء کی روشنی میں دیکھا اور اسی وجہ سے انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ دیوبندی ازم کا فکری رشتہ وہابیت ، پیورٹن ازم ، ظاہریت اور تکفیریت سے ملتا ہے جس کا کلاسیکل سنّی تھیالوجی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس خیال کی وجہ انھوں نے یہ لکھی کہ دیوبند کے بانیان جن ميں مولوی قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی ، اشرف علی تھانوی ، مفتی محمود حسن ، حسین احمد مدنی وغیرہ شامل تھے اور ان بانیان کے فکری گرو شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز ، شاہ اسماعیل دھلوی ، سید احمد بریلوی سب کا پیورٹن ازم محمد بن عبدالوہاب اور شیخ ابن تیمیہ سے ملتا ہے اور ان کے شیعہ ، صوفی سنّی کے خلاف تعصبات ، تکفیری اور دھشت گردی و قتل و غارت گری پر اکسانے والے نظریات بہت واضح اور صاف تھے اور یہی فکر آگے سپاہ صحابہ سمیت تمام دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کے اندر پیوست نظر آتی ہے عبدل نیشاپوری نے کئی ایک مقامات پر یہ بھی واضح کرنے کی کوشش بھی کی کہ شیعہ اور صوفی سنّیوں کو مرتد قرار دیکر انھیں صفحہ ہستی سے مٹادینے کی بنیاد تکفیر پر ہے جوکہ دیوبندی اور اس سے پہلے وہابیت کے ہاں ہی ملتی ہے جبکہ سنّی کلاسیکل تھیالوجی میں کسی شخص یا کسی گروہ کے عقائد و خیالات کی تحقیق کے دوران اس شخص یا گروہ کے کفر و گمراہی کی تحقیق میں اثبات کا فتوی دینے کی روائت میں پہلے کہیں نظر نہیں آتی، عبدل نیشاپوری کا کہنا ہے کہ دیوبندی و وہابی کو چھوڑ کر سنّی کلاسیکل تھیالوجسٹوں کے ہاں تکفیریت یعنی کافر قرار دیگر کسی گروہ کی منظم نسل کشی کی روائت نہیں ملتی ، جیسے ہندوستان میں سںّی عالم احمد رضا خان بریلوی تھے اور ان کا مدرسہ دار العلوم بریلی تھا یا دارالعلوم بدایوں تھا یالکھنؤ کا دارالعلوم فرنگی محل تھا کہ وہاں سے اگر شیعہ کے کسی گروہ کے بارے میں اگر کفر یا تضلیل کا فتوی آیا بھی تو اس کے ساتھ قتل و غارت گری اور نسل کشی کا مظہر سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس کفر و تضلیل کی بنیاد پر کسی غیر دیوبندی وہابی عالم نے جہاد کے جواز کا فتوی صادر کیا فہد رضوان ، فراز قریشی اور اسی قبیل کے کچھ اور بزعم خویش سیکولر ، مارکسسٹ ، لبرل کہلانے والے حلقے نے دیوبندی وہابیت اور عرب وہابیت کی اس خصوصیت اور امتیاز کو نہ سمجھتے ہوئے یا جان بوجھ کر خلط مبحث کرتے ہوئے کلاسیکل سنّی تھیالوجی کے چند بڑے ناموں کی جانب سے شیعہ اور سنّی دو بڑے مسلکی دھاروں کے اندر پائے جانے والے ذیلی دھاروں کے کفر یا تضلیل کے فیصلوں کو سامنے لاتے ہوئے اسے دیوبندی وہابیت اور عرب وہابیت کی تکفیریت کے مماثل قرار دینے پر اصرار کیا اور کہا اس بنیاد پر تو بریلوی یا صوفی سنّی بھی اس بات کے سزاوار ٹھہرتے ہیں کہ ان کو بریلوی تکفیری دھشت گرد لکھا جائے ، یہ ویسا ہی استدلال تھا جیسے کئی اور سیکولر اور لبرل حلقے ممتاز قادری جیسے اکّا دکاّ لوگوں کی مثال سامنے لاکر دیوبندی دھشت گردی کی طرح بریلوی دھشت گردی کی اصطلاح سامنے لانا چاہتے ہیں اور مقصد شیعہ - سنّی جنگ ، شیعہ - سنّی فرقہ وارانہ جنگ جیسی اصطلاحوں کو درست ثابت کرنا اور منظم دھشت گردی اور نسل کشی کی دیوبندی وہابی شناخت کو گم کرنا نظر آتا ہے ان جیسے لوگوں کی پراگندہ خیالی اور موقعہ پرستانہ بدیانتی کا ثبوت یہ بھی ہے کہ اسی دوران جب عبدل نیشاپوری نے طارق فتح نامی ایک نام نہاد سیکولر کی جانب سے شیعہ نسل کشی کو نتیجہ قرار دیا شیعہ کی جانب سے مفروضہ گالیوں کا اور پاکستان میں ہونے والی شیعہ نسل کشی کے لیے مثالیں مڈل ایسٹ سے ڈھونڈ کر لانے کے عمل کی مذمت کی اور اس کی دو عملی ، منافقت کا پردہ چاک کیا تو طارق فتح کے انتہائی نامناسب اور متعصب موقف کی مذمت کرنے کی بجائے انھوں نے اس تنقید کو سیکولر ازم اور روشن خیالی پر حملہ قرار دے ڈالا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عبدل نیشاپوری اور ایل یو بی پاک اصل میں سیکولر ازم اور روشن خیالی کے خلاف کسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے میں نے پہلے جیسے اوپر لکھا کہ عبدل نیشاپوری اور ایل یو بی پاک کی جانب سے دارالعلوم دیوبند ، اور دیوبندی اکابرین کے بارے میں اٹھائے گئے نکات ایک سنجیدہ علمی بحث کا تقاضہ کرتے تھے لیکن اس طرف جانے کی بجائے عذر لنگ تراشے جانے لگے اور پھر اسی دوران ایک سازشی مفروضہ بھی سامنے لے آیا گیا فہد رضوان ، فراز قریشی ، اظہر مشتاق ، خرم علی سمیت لگ بھگ ایک درجن کے قریب لوگ یہ خیال لیکر سامنے آگئے کہ ایل یو بی پاک کو چلانے والے لوگ امریکہ سے فنڈ لیکر فرقہ وارانہ ایجںڈا چلارہے ہیں اور وہ امریکی سامراجیت کے خلاف کسی بھی مزاحمت کو ختم کرنے کے درپے ہیں ، اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گيا کہ یہ پاکستان کی ملٹری ، آئی ایس آئی کو بچانا چاہتے ہيں اور ساتھ ہی ان کو ایرانی فنڈڈ لوگ بھی کہا گیا میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ سازشی مفروضات گھڑنے والے کیونکہ نجم سیٹھی ، سلیم صافی ، حامد میر ، ماروی سرمد ، عاصمہ جہانگیر ، اعجاز حیدر وغیرہ کی طرح نہ تو خرانٹ ہیں اور نہ ہی لندن پلان / لندن سازش جیسے مفروضات کی ایجاد کرنے والی تکفیری لابی کے دماغوں کے زیر سایہ ہیں ، ابھی طفل مکتب ہیں ، تھوڑے سے کچّے ہیں تو یہ اتنے پرفیکٹ پروپیگنڈا ساز تو نہیں ہیں لیکن اپنے طور پر انھوں نے ویسا بننے کی کوشش ضرور کی اور میرے اس حسن ظن کو بھی ختم کرڈالا جو میں کم از کم ابتدائی طور پر اوپر زکر کردہ کچھ ناموں کے ساتھ رکھتا تھا اور مجھے یہ گمان تھا کہ اگر ان کے سامنے ایک تحقیقی ، علمی راستہ رکھا گیا تو یہ ضرور اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے جلد بازی ميں اور کچے پن کے ساتھ قائم کئے ہوئے مفروضات پر غور کریں گے اور واپس پلٹ آئیں گے ان میں بعض کو یہ گمان بھی ہوگیا ہے کہ پاکستان میں یہ حقیقی ترقی پسند ، روشن خیال ، سیکولر جدوجہد کرہے ہیں اور ایل یو بی پاک کے سارے لوگ ہی شاید امریکہ میں بیٹھے ، پاکستان سے دور ہر ایک خطرے سے خود کو بچائے کام کررہے ہیں جوکہ میں جانتا ہوں ان کا انتہائی گمراہ کن اور باطل خیال ہے اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پاکستان کے اندر جو لوگ دیوبندی وہابی تکفیری فاشسٹ آئیڈیالوجی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور جن کی رسائی اس ملک کے متاثرین دیوبندی وہابی تکفیری فاشزم تک ہورہی ہے اور ان کی زھن سازی میں ان کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی سی حثیت رکھتا ہے ان کی ٹریکنگ آسان بنادی جائے ، میں عبدل نیشا پوری ، علی عباس تاج ، نسیم چوہدری ، شہرام علی کو داد دیتا ہوں کہ انھوں نے بہت سے جذباتی حملوں کے باوجود پاکستان میں اپنے لوگوں کی شناخت کو دیوبندی وہابی دھشت گردوں کے اپالوجسٹ اور عذرخواہوں سے چھپاکر رکھا ہے اور ان کے مشکل کام کو مزید مشکل نہیں بنایا ہاں ایل یو بی پاک کو چلانے والوں کے دو ہمدرد سامنے ہیں ، جن کی شناخت نہیں چھپی ہوئی ، جن کے فیس بک ، ٹوئٹر پر اکاؤنٹ قلمی ناموں سے نہیں ہیں اور صحافت کی دنیا میں بھی وہ قلمی ناموں کی بجائے حقیقی ناموں سے کام کررہے ہیں ، ایک عامر حسینی ہے ، دوسرا عمار کاظمی ہے اور میرے بزرگ وار علمی مرشد حیدر جاوید سید تو ہم سے کہیں آگے ہيں اور ہمارے مادی اثاثے کیا ہیں ، کتنی آسائشیں ہمارے پاس ہیں ، کس قدر ہم عیش کررہے ہیں ہم سے واقف لوگ سب جانتے ہیں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں تک جن کی رسائی ہے ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ہمارے اثاثوں اور ہماری مالیات کی کیا رپورٹس ہماری فائلوں میں درج ہے ، جبکہ کچھ لآئم لائٹ میں نہیں ہيں مگر فیس بک ، ٹوئٹر ، اور صحافتی ، سیاسی زندگی میں ان کا کردار مجھ سے تو کہیں زیادہ ، کئی گناہ قابل قدر ہے ،میں ان کے نام لکھکر انھیں کسی ہٹ لسٹ میں لانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا لیکن کچھ لوگوں کو اصرار ہے کہ دیوبندی وہابی تکفیری فاشزم کے خلاف برہنہ سیف بنے لوگوں کو امریکہ ، ایران ، پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی فنڈنگ اور اشیرباد حاصل ہے مجھے حیرت اس امر پر ہے کہ امریکی ایڈ اور فنڈنگ کا طعنہ بعض وہ لوگ بھی دے رہے ہیں جن سے میری اپنی ملاقات جب ایک ایسی این جی او کے پروگرام میں ہوئی جس کی اپنی ساری فنڈنگ یو ایس ایڈ ، گلوبل اینٹی ٹیررازم فنڈ ، ڈی ایف آئی ڈی یوکے ، ایکشن ایڈ وغیرہ سے ہوئی اور ان کی اپنی این جی اوز اس این جی او لوکل شراکت دار تھیں ایک پروجیکٹ میں جبکہ میں نے اس وقت بھی اسے روزی روٹی کی مجبوری سے تعبیر کیا تھا اور آج بھی کرتا ہوں اور وہیں ان کے ممدوح اور آئیڈیل ارشد محمود بھی موجود تھے ، وہیں ڈاکٹر مبارک علی بھی تھے ، پرویز ہود بھائی بھی تھے ، اے ایچ نیئر بھی تھے اور کون کون تھے لکھنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے ایک صاحب نے بہت زور و شور سے اصول پرستی اور نہ جانے کن کن بلند آدرشوں کا زکر عبدل نیشاپوری کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کیا اور میں اس نوجوان کی اس قدر بلند آہنگی کے ساتھ اصول پرستی کی نعرے بازی دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اس نے کبھی اپنے کئی ایک سابق طالب علم رہنماؤں کے بارے میں سامنے منہ پر نہ سہی کبھی اسی طرح سے کوئی تھریڈ لکھ کر یہ سوال اٹھیا کہ وہ حیدر آباد میں ایک کٹر شیعہ آرگنائزیشن کس ترقی پسندی کے اصول کے تحت چلارہے ہیں ، ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر الیکشن کس بنیاد پر لڑے تھے اور ایک اور صاحب مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ کس بنیاد پر لیکر کھڑے ہوئے تھے اور نجی محفلوں میں تاج حیدر ، نجمی عالم ، اقبال خاور کے زریعے کچھ نذرانوں کے عوض سرکاری نوکریاں دلوانے کی پیش کش کن اصولوں کے تحت کرتے رہتے ہیں میں عبدل نیشا پوری قائم کردہ مقدمات کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہوں ، کیونکہ اس سے اس ملک کی 20 سے 25 فیصد شیعہ آبادی اور 50 سے 60 فیصد سنّی بریلوی آبادی کی زںدگیوں کا سوال جڑا ہوا ہے اور یہ کوئی مجرد تھیالوجیکل ، مناظراتی ، کلامی مقدمات نہیں ہیں بلکہ ان کی جڑیں مادیت کے اندر پیوست ہیں ، جن کا جائزہ لینے کے لیے میں رات کے اس پہر بھی جاگ رہا ہوں ۔مقصد ان کا اپنی علمیت کی دھاک بیٹھانا نہیں ہے ، نہ ہی اپنے آپ کو ہر حال میں ٹھیک ثابت کرنا ہے اور نہ ہی ان لوگوں کو غلط ثابت کرنا ہے جن کے نام یہاں درج ہوئے ہیں ، میں پاکستان کو عراق ، شام بنتا نہیں دیکھنا چاہتا جوکہ دیوبندی وہابی تکفیری فاشزم کی خواہش اولین ہے ، میرے پاس تیر وتفنگ نہیں ہیں اور نہ ہی لشکر کوئی آراستہ سامان و حرب ہے ایک ذھن ہے جس کو اس ملک کی اکثریت کو مذھبی فاشزم کی دلدل میں دھنسنے سے بچانے کے لیے پوری فعالیت کے ساتھ استعمال کرنا چاہتا ہوں

Saturday, November 1, 2014

لباس معکوس پہنے ہوئے فرقہ پرست


جو بھی میری یہ تحریر پڑھنے جارہا ہے ، اس سے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں اگر وہ کہیں یہ محسوس کرے کہ میں اس کے جذبات کو مشتعل کررہا ہوں یا اس کا جذباتی استحصال کررہا ہوں روزنامہ ڈان مجھے صبح دس بجے مل جاتا ہے اور اسے میں پڑھے بغیر خود کو ادھورا سا محسوس کرتا ہوں ، آج صبح جب اس اخبار کو پڑھ رہا تھا تو ایک صفحے پر میری نظر ٹھہر گئی ، ڈان کے اسلام آباد کے رپورٹر نے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے سر شام ایران کی خاتون ریحانہ جباری کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کی سول سوسائٹی کی ایک تنظیم کی تقریب کی روداد رقم کی گئی تھی ، میں نے پڑھا کہ اسلام سے تعلق رکھنے والے کالج اور جامعات کے طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ریحانہ جابری کی مظلومی میں موت پر آنسو بھی بہائے اور ایرانی حکومت اور اس کے ہاں حدودات ک حوالے سے بنائے ہوئے قوانین میں موجود عورت دشمنی کی بھی مذمت کی اور ایک اسد نامی طالب علم نے کہا کہ وہ ریحانہ جباری کی یاد میں اس لیے بھی شمعیں روشن کررہے ہیں کیونکہ اس حوالے سے پاکستان کے اندر بھی خواتیں کے حوالے سے امتیازی قوانیں پائے جاتے ہیں اور یہاں بھی عورتوں کو انصاف نہیں ملتا میرے نزدیک یہ بہت اچھی بات تھی لیکن نہ جانے کیوں میرے دل کے کسی گوشے سے آواز اٹھی کہ " انسانی حقوق " کے لیے آواز اٹھانے والی یہ این جی او کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ کراچی میں اس شیر خوار بچی کی یاد میں بھی شمعیں روشن کرنے کا اہتمام کرتی ، جسے اسلامک ریسرچ سنٹر امام بارگاہ کراچی میں ایک گرینڈ بم کے پھٹنے سے زخم آئے تھے اور وہ ان زحموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئی تھی یہاں پر 6 سال کی سحر بتول کے لیے بھی شمعیں ہونی چاہئیں تھیں جسے اغواء کیا گیا اور پھر بے دردی سے گلے پر چھری پھیر کر زبح کردیا گیا اور اس کی لاش پولیس لائن کوئٹہ کے ڈسپوزل سے ملی اور اس اغواء اور قتل میں لشکر جھنگوی کے رمضان مینگل گروپ کو ملوث بتایا جارہا ہے میں اس بات کی خواہش کررہا تھا کہ سحر بتول اور اس شیر خوار بچی کے قاتلوں کی مذمت بھی کی جاتی تاکہ پوری دنیا تک پیغام پہنچتا کہ یہاں پاکستان کے اندر شیر خوار بچیوں اور 6 سال کی بچیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور ان کو بھی اس تکفیری دھشت گردی کا اسی طرح سے سامنا ہے ، جس طرح سے نوجوانوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو سامنا ہے اور جن کے ڈیتھ وارنٹ اس لیے جاری کردئے گئے ہیں کہ وہ شیعہ ہیں لیکن سحر بتول ، محضر زھراء اور اس شير خوار بتول زھراء کی ایسی قسمت کہاں کہ ان کی یاد میں سول سوسائٹی کے اندر شمعیں روشن کی جائیں اور ان کے مبینہ قاتلوں کی مذمت کی جائے ، ان پر سوشل میڈیا پر خصوصی پوسٹ دیکھنے کو ملیں اور اس تکفیری لابی کو بے نقاب کیا جائے جس کے ایما پر یہ سب کچھ ہورہا ہے اور کسی کو پتہ ہے کہ اس خاتون ڈاکٹر کا کیا نام تھا جو اپنے شوہر کے ساتھ کراچی میں کار میں سوار اپنے گھر کی طرف جارہی تھی جب ان پر دو موٹر سائیکل سواروں نے فائر کھول دیا اور یہ موٹر سائیکل سوار پھر پکڑے گئے اور ان کا تعلق لشکر جھنگوی سے نکلا ، جبکہ ایک خاتون کا شوہر بینکر اپنی بیوی کو کھونے کے بعد لاہور میں آکر بیٹھ گیا ہے اور یہ دونوں خواتین بھی شیعہ تھیں ، لیکن آج دو ماہ گزر گئے ہیں ،ریحانہ جباری کے غم میں ہلکان ہونے والے ، شمعیں روشن کرنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو ان دو عورتوں کا نام بھی پتہ نہیں ہوگا ، میں بھی اب وہ نام نہیں لکھ رہا ہوں صباح حسن تو اپنے اس بینکر دوست سے ملے بھی تھے اور پھر انھوں نے اس کی داستان بھی فیس بک پر اپنی وال اور شیعہ نسل کشی کے نام سے بنے اس پیج پر رقم بھی کی تھی لیکن اس کے باوجود بھی ریحانہ جباری کی موت پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والے فرقہ پرستوں کی وال پر ، ان کے آزاد خیالی کو فروغ دینے والے صفحات پر اور ان کے سوشلزم و کمیونزم کی دھائی دینے والے ، انسانی نجات کی آواز لگانے والے صفحات پر ان عورتوں کے قاتلوں اور ان کی شناخت کے بارے میں کوئی پوسٹ دیکھنے کو نہیں ملی تھی میں نے شام اور اب آہستہ آہستہ اترنے والی رات تک انتظار کیا ، ایک شکل جو مجھے اس کینڈل لائٹ وجل میں نظر آئی جس کا رابطہ نمبر مرے پاس تھا کو میسج بھی بھیجا اور جن تصویروں کو آپ کے ساتھ شئیر کرنے لگا ہوں ، ان کو اس کے ان باکس میں بھی بھیجا اور کہا کہ ان حوروں کے لیے بھی شمعیں فروزاں کریں اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ان تکفیری دیوبندی وہابی فسطائیوں کی مذمت کریں جن کے ظلم کا یہ شکار ہوگئیں میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہمارے سماج میں ایسے فراڈئے پیدا ہوگئے ہیں جو اصل میں انسانیت سے پیار نہیں کرتے ، انسانی حقوق کی ان کو پرواہ نہیں ہے ، عورتوں کی آزادی سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے ، نہ ہی وہ کوئی تحریک چلاتے ہیں ، وہ تو بس پروجیکٹ چلاتے ہیں اور کئی ایک مال بناتے ہیں کچھ ایسے ہیں کہ جن کے لاشعور سے ان کا فرقہ پرست ماضی تاحال نہیں نکل سکا اور وہ انسانیت نواز ہونے کی بات تو کرتے ہیں لیکن جہاں کہیں ان کو مخصوص نام اور اظہار کے حامل افراد لہو میں لپٹے نظر آئیں ، ان کے حقوق کی پامالی کا سوال اٹھے تو یہ صم بکم عمی فھم لایرجعون کی تصویر بن جاتے ہیں اور ان کے قلوب پر ان کے فرقہ پرست ماضی کی گٹھا ٹوپ چھا جاتی ہے جسے عربی میں غشاوۃ علی قلوبھم کہتے ہیں اور ایسے بھولے بن جاتے ہیں جیسے ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ بتول زھرا ، سحر بتول ، محضر زھراء جیسی کلیاں بھی لہو ، لہو ہوئی ہیں ، ان کی جان بھی لی گئی ہے اور ان کے گلے پر بھی چھری پھری ہے اور یہ جان لینے والے ، چھری پھیرنے والے اور ان کو لہو ، لہو کرنے والے کون ہیں ؟ یہ سوال سامنے آیا نہیں ، اور بتّی گل ہوئی نہیں حسن عسکری نے فسادات کے زمانے میں لکھے جانے والے اکثر افسانہ نگاروں کی جانب سے ہندؤ اور مسلمانوں کی بربریت بارے کہانی بیان کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ اپنے افسانے میں اکڑ دس مسلمان ہندؤ کے ہاتھ مرتے دکھاتے تو دس ہندؤ بھی مسلمان کے ہاتھوں مرتے دکھاتے اور حساب کی برابری ضرور دکھاتے لیکن سعارت حسن منٹو نے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ جو ہورہا تھا اسے دکھایا اور اسی لیے شاید اشرف علی تھانوی کے مرید عبدالماجد دریا آبادی نے منٹو کو نہ تو ان کی زندگی میں ان کو بخشا اور نہ ہی ان کے مرنے پر ان کو بخشا آج کیا ہورہا ہے کہ پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی کا جو بازار گرم ہے اس کے زمہ داروں کی مذمت کرنے اور ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی بجائے کئی ایک سیکولر فرقہ پرست حساب برابر کرکے دکھانے کی فکر زیادہ کررہے ہیں اور جب پاکستان سے کوئی شیعہ نہ ملے تو ایران ، عراق ، لبنان ، شام سے اٹھا کر لے آتے ہیں کہ کسی طرح حساب برابر ہو اور یہ کہا جاسکے کہ یہ شیعہ نسل کشی نہیں بلکہ فرقہ وارانہ دو طرفہ جنگ ہے جس میں لوگ دونوں اطراف سے مارے جارہے ہیں اور پاکستان میں کسی قسم کی دیوبندی وہابی تکفیری دھشت گردی موجود نہیں ہے جس کا ہدف شیعہ نسل کشی ہے ایک طارق فتح ہے جو شیعہ کو زبح کرنے کی زمہ داری شیعہ پر ہی ڈالتا ہے اور وہ ڈھونڈ ،ڈھونڈ کر ایسی مثالیں لیکر آتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ ثابت ہوجائے کہ شیعہ ہیں جو دیوبندی وہابیوں کو اکساتے ہیں ، مشتعل کرتے ہیں اور وہ ان کو زبح کردیتے ہیں جب اسے ٹوکا جائے اور اس کو بے نقاب کیا جائے تو پھر کہا جاتا ہے کہ آزادی اظہار پر حملہ ہوگیا ، سیکولر ازم کی توھین ہوگئی اور سوشلزم کا ستون گرانے کی کوشش شروع کردی گئی اتنی بے شرمی ہے کہ ایسی ہر کوشش کی جارہی ہے کہ جو بھی شیعہ نسل کشی پر آواز اٹھائے اور اس کے زمہ داروں کو بے نقاب کرے فوری طور پر اسے سیکولر صف سے خارج کیا جائے ، اس کو رجعت پسند قرار دیا جائے ، اگر وہ خود کو لیفٹسٹ کہتا ہو تو اس کے اس دعوے کو رد کیا جائے ، کیونکہ وہ دیوبندی تکفیری دھشت گردی اور آئیڈیالوجی کی مذمت کررہا ہے میں نے شیعہ نسل کشی کے عروج پر پہنچ جانے پر فیس بک اکاؤنٹ پر کور فوٹو تبدیل کرکے امام عالی مقام علیہ السلام کی مدح اور ان کے روضے کی تصویر لگائی تھی اور پروفائل پکچر کو میں نے امام سجاد کے وال پیپر سے بدل ڈالا تھا اور یہ بجا طور پر مظلوم شیعہ سے اظہار یک جہتی کی علامت تھا ، شاید میں کچھ عرصہ بعد کئی اور اہم ایشوز کے حوالے سے اپنی پروفائل پکچر اور کور فوٹو تبدیل کرتا ، جیسے میں نے بلوچوں سے اظہار یک جہتی کے لیے " میں بلوچ ہوں ، دھشت گرد نہیں " کا وال پوسٹر اپنی وال پر کور فوٹو کے طور پر لگایا تھا لیکن اس دوران میں نے یہ دیکھ لیا کہ سیکوہر فرقہ پرستوں نے میری شیعہ نسل کشی کی مذمت اور اس کے زمہ داروں کو بے نقاب کی جانے والی ہر تحریر کو دیکھ فوری طور پر مجھے ایرانیوں کے ساتھ جوڑا اور لامحالہ مجھے کٹّر کلامی شیعت ساتھ بھی جوڑا گیا اور کسی نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ میں کہہ کیا رہا ہوں اور اس طرح سے بہت سے فرقہ پرست سیکولرز کے سیکولر ازم ، لبرل ازم ، روشن خیالی ، عقلیت پسندی ، فلسیفیانہ تفکر پسندی کا پول بھی کھل گیا اور اسی لیے میں نے اپنی وال کا کور اور پروفائل فوٹو تبدیل نہیں کیا اگرچہ بعض اوقات ایرانی تھیوکریسی اور ایرانی رجیم بارے میرے خیالات جان کر ان لوگوں کو صدمہ پہنچتا جو میری پروفائل فوٹو اور کور فوٹو دیکھ کر میری وال پر آتے اور وہ تھیوکریسی و مہاجنی شیعت کے دلدادہ ہوتے اور پھر زرا مجھ پر غصّہ بھی اتارتے لیکن سچی بات ہے کہ ان کے غصّے میں کینہ ، بغض ہرگز نہیں ہوتا تھا ، وہ پھر بھی کہیں نہ کہیں رعائت دیتے لیکن فرقہ پرست سیکولر ان کا ردعمل تو یہی ہوتا کہ بس کسی طرح سے بھی ان بس چلے تو لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر انٹر کی کمانڈ سے مجھے اڑادیں سچی بات یہ ہے کہ مجھے خود بھی خاصی مشکل محسوس ہوتی ہے جب مجھے انسانی حقوق کی پاسداری میں کسی " ایسے " کا قصور نظر آئے جس نے کاسٹیوم مارکس ، اینگلس ، چی گیویرا ، پہن رکھا ہو تو جیسے ہی اس کو آئینہ دکھایا جائے تو وہ تلملانے لگتا ہے اور کچھ تو ایسے نمرود ، یزید ، بلعم باعور ، قارون و فرعون ہیں جنھوں نے اپنی ضد کو لباس بنارکھا ہے اور جب اس لباس معکوس کو اتارا جاتا ہے تو ان کی کیفیت بھی دیدنی ہوجاتی ہے لیکن لباس معکوس پہننے والوں اور دور بہت دور کسی کی موت پر آنسو بہانے کی اڑ میں اپنے کسی مبغوض کو رگیدنے والوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ نہ تو لباس معکوس زیادہ دیر جسم پر برقرار رہ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی محبت کا ڈرامہ رچاکر اپنے بغض کو چھپایا جاسکتا ہے ان بچیوں کی تصویریں دیکھ لیں اور پھر سوچیں ان باتوں کو جو میں نے اوپر لکھیں ہیں ، مقصد آپ کا جذباتی استحصال ہرگز نہیں ہے