Sunday, December 7, 2014

کیا آصف علی زرداری پی پی پی کے گورباچوف ہیں ؟


پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرپرسن آصف علی زرداری نے پی پی پی کے یوم تاسیس کی بلاول ہاؤس لاہور میں منعقدہ تقریبات میں تین دن جو تقاریر کیں وہ پی پی پی کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اکثریت کی خواہشات کے برعکس تھیں اور سب سے زیادہ مایوس کن وہ سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے پی پی پی کے حلقوں کے لیے تھیں ،کیونکہ ان کے لیے یہ بات سوہان روح ہے کہ پی پی پی اپوزیشن میں رہ کر بھی مسلم لیگ نواز کی اپوزیشن نہ کرے اور پنجاب اور سرائيکی خطے کے عوام کی آرزؤں کی عکاسی نہ کرے آصف علی زرداری نے سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے مشترکہ ورکرز کنونشن میں ایک لفظ بھی سرائيکی خطے کے مسائل پر نہیں کہا اور نہ ہی اس کنونشن میں انھوں نے یہ واضح کیا کہ اس وقت جو علاقے مسلم لیگ نواز کی جانب سے میگا پروجکٹس کے ترقیاتی ماڈل کی وجہ سے بری طرح سے نظرانداز ہورہے ہیں اور جہاں پہلے سے موجود غربت ، بے روزگآری اور پسماندگی نواز لیگ کی سبسڈیز کے خاتمے اور سخت قسم کی مانیٹری پالیسی کی وجہ سے لوگوں کے مسائل میں اور اضافہ ہوگيا ہے ،ان کے پاس ان مسائل سے نکلنے کا کیا حل ہے ؟ اور وہ کیسے پاکستان پیپلزپارٹی کو مجبور کریں گے کہ وہ بڑے سرمایہ داروں اور پوش علاقوں کی ہی ترقی کے ماڈل میں تبدیلی لانے پر مجبور ہو پی پی پی کا سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب میں گراف مسلسل نیچے کی طرف جارہا ہے اور اس گراف کے نیچے جانے کی وجہ سے ان گھوڑوں پر بھی اثرپڑرہا ہے جو کسی غیرمقبول ہوتی جماعت میں رہنے کا رسک کبھی نہیں لیتے آج جب میں یہ کالم تحریر کرہا ہوں تو پاکستان پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے تین بڑے گھوڑے جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان ڈویژن سے ہے اور تینوں ایسے سیاسی گھوڑوں میں شمار ہوتے ہیں کہ جن کی اپنی جیب میں بھی خاصا ذاتی ووٹ بینک ہے اور تینوں اہم زمیندار اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں پی ٹی آئی کے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی کی کوششوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں نیاز جھکڑ اور بہادر خان سہیڑ کا تعلق لیہ سے ہے اور دونوں ایک لمبے عرصے تک پاکستان پیپلزپارٹی میں رہے اور پھر مسلم لیگ ق میں گئے وہاں سے واپس پی پی پی میں آئے ، دونوں عرف عام میں عوامی سیاست کرنے والے اور بھٹو لورز میں شامل ہیں اور ان کے سیاسی ، دانشور ، ادیب دوستوں کا سارا حلقہ وہ ہے جو ضیاءالحقی سیاست سے دور رہا ہے اور ضیاءالحقی جراثیم سے اپنے پاک کو پاک رکھتا آیا ہے ، اس لیے یہ اگر مسلم لیگ ق میں گئے بھی تھے تو ان کا حلقہ احباب زیادہ تر اینٹی ضیآء کیمپ ہی رہا تھا اور ان کا لیہ کی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں لیہ کی بالخصوص سیاست اور جنوبی پنجاب کی سیاست میں بالعموم کسی جماعت کو عوام میں اپنی مقبولیت میں اضافہ ہوتے دیکھ رہے ہیں تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے اور سیف کھوسہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے ڈیرہ غازی خان ضلع میں اگر پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس اگر کوئی بھاری بھر وزن والا آدمی تھا تو وہ سیف الدین کھوسہ تھا جسے پاکستان پیپلزپارٹی گنوا بیٹھی ہے میں نے اپنے کالم میں پہلے بھی لکھا تھا کہ شاہ محمود قریشی کی صلاخیتوں سے زیادہ یہ معروضی حالات ہیں جو پاکستان پیپلزپارٹی کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ نواز کی حقیقی حریف اور مقابل پارٹی کے طور پر سامنے لارہے ہیں اور جنوبی پنجاب کے اندر گراس روٹ لیول پر پی ٹی آئی کو دن بدن مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور مظفرگڑھ میں چنوں لغاری سمیت پی پی پی کے کئی اہم ورکرز دوست رہنماء پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں اور ان لوگوں کے بغیر سابق وفاقی وزیر عبدالقیوم جتوئی کے لئے سیاست میں وزن برقرار رکھنا خاصا مشکل ٹاسک ہوگا اور مجھے ایسے اشارے موصول ہوئے ہیں کہ جلد ہی قیوم جتوئی بھی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرلیں گے اور اس طرح سے مظفرگڑھ ، لیہ ، ڈیرہ غازی خان میں پاکستان تحریک انصاف سیاست کی نئی حرکیات کو جنم دے گی پاکستان پیپلزپارٹی کی پوزیشن اس وقت یہ ہے کہ اس کی پوزیشن ملتان ، مظفرگڑھ ، لیہ ، ڈیرہ غازی خان ، خانیوال ، لودھراں ، بہاول نگر ، ساہیوال میں انتہائی کمزور ہوچکی ہے اور اس کے پاس ہیوی ویٹ گھوڑے وہآں نہیں ہیں (ملتان میں سوائے سید یوسف رضا گیلانی کے اس کے پاس اب کسی بھی این اے کی نشست پر ہیوی ویٹ گھوڑا نہیں ہے )اور سنٹرل پنجاب کے اندر فیصل آباد ، لاہور ، گوجرانوالہ ، راولپنڈی جیسے اربن شہروں میں اس کی حالت مزید پتلی ہوگئی ہے کیونکہ ایک طرف تو ہیوی ویٹس گھوڑے اس کے پاس نہیں رہے تو دوسری طرف اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جو سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے عوام کے اندر اس پارٹی کی طرف کشش پیدا کرے اور شریک چئیرمین سنٹرل و جنوبی پنجاب کے اندر عوامی بے چینی سے پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والی مقبولیت کو بدستور نادیدہ قوتوں کا سکرپٹ قرار دینے پر مصر ہیں جس سے عوام کے اندر تو جو مایوسی پھیل رہی ہے وہ ہے خود ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں کا مورال بری طرح سے ڈاؤن ہورہا ہے مجھے تو اب یوں لگنے لگا ہے کہ شریک چئیرمین پاکستان پیپلزپارٹی اپنی پارٹی کے لیے گورباچوف بنتے جارہے ہیں اور ان کے دور میں پاکستان پیپلزپارٹی ویسے ہی سکڑنے لگی ہے جیسے گورباچوف کے دور میں سویت یونین سکڑنے لگآ تھا اور سویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے اندر سوراخ در سوراخ ہونے لگے تھے اور اس زمانے ميں پاکستان کے گورباچوف کے حامی کمیونسٹ گورباچوف کو اپنے دور کا لینن قرار دیتے تھے اور پھر جب سویت یونین ٹوٹ گيا اور کمیونسٹ پارٹی آف رشیا سمندر سے ندی بن گئی تو یہاں کے کئی کمیونسٹوں نے این جی اوز کا کاروبار سنبھال لیا اور وہ فری مارکیٹ کے سفیر بن گئے ، ایسے ہی آصف علی زرداری کے اردگرد کچھ ایسے لبرل نے گھیرا ڈال رکھا ہے جو آصف علی زرداری کو سب پر بھاری ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، شیری رحمان ٹائپ نام نہاد لیڈروں نے آصف علی زرداری کو یہ باور کرایا ہے کہ ان سے بڑا زھین سیاست دان آج تک پیپلزپارٹی میں پیدا نہیں ہوا پی پی پی سے باہر یہ عاصمہ جہانگير ، ماروی سرمد ، رضا رومی سمیت ایک بڑا نام نہاد لبرل حلقہ ہے جو آصف علی زرداری کو جمہوریت اور مفاہمت کے نام پر پی پی پی کا گورباچوف بنانے پر لگآ ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری یوم تاسیس ہوکہ کوئی اور موقعہ ان کو نہ تو فیصل آباد کے بیروزگار ہوجانے والے 35 لاکھ فیکڑی مزدور نظر آتے ہیں ، نہ ہی فصلوں کی قیمت نہ ملنے پر قرضوں تلے دبے کسان ، نہ ہی پی ٹی سی ایل کے زبردستی ریٹائر کئے جانے والے ہزاروں ملازمین ، نہ ہی جنوبی پنجاب اور سنٹرل پنجاب میں گیس کی لوڈشیڈنگ سے ٹھنڈے پڑجانے والے چولہے اور نہ ہی بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور نئے ٹیکسز کی مد میں مرے ہوئے عوام سے مزید ٹیکسوں کی وصولی اور نہ ہی پنجاب پولیس کے غریب عوام پر مظالم ، جعلی پولیس مقابلے اور عوام کی سڑکوں پر تذلیل ، اس لیے وہ اپنی پارٹی کو احتجاج کرنے ، شوباز شریف کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے سے روکتے ہیں اور ان ایشوز پر احتجاج کو اسٹبلشمنٹ کا سکرپٹ کہنے پر اصرار کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ آصف علی زرداری عوامی ایشوز پر سیاست سے پاکستان پیپلزپارٹی کو دور کرکے اصل میں بالواسطہ اسٹبلشمنٹ کے لیے جنوبی پنجاب اور سنٹرل پنجاب میں ہمدردیاں پیدا کررہے ہیں اور اس ملک میں سب سے طاقتور ثالث سمجھی جانے والی تھرڈپارٹی کی پشت پر عوام کی حمائت کا ہاتھ رکھنے میں مدد فراہم کررہے ہیں کہ وہ مسلم لیگ نواز کی عوام دشمن پالسیوں کے خلاف سینہ سپر ہونے والی جماعتوں کی جدوجہد کو کامیاب کردے اور اس طرح سے پاکستان کا گھمبیر سیاسی بحران اپنے منطقی انجام کو پہنچے آج پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سیاسی و مذھبی جماعتوں کا اتحاد ہمیں نوے کی دھائی کے اس اتحاد کی یاد بھی دلارہا ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو کا پنجاب میں راستہ روکنے کے لیے وجود میں آیا تھا لیکن اس کے باوجود بے نظیر بھٹو نے عوام کی طاقت سے اس اتحاد کے خلاف اپنی سیاست کا راستہ بنایا تھا ، آج عمران خان شاید اسی طرح کی صورت حال کا شکار ہے اور آصف علی زرداری سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاست کی اس حرکیات کا اپنے احساس برتری اور نرگسیت کے باعث ٹھیک تجزیہ کرنے میں ناکام رہے ہیں ، اگر دھرنا ایپی سوڈ کے دوران ہی انھوں نے بھرپور ایجی ٹیشن نہ سہی کم از کم مسلم لیگ نواز سے اپنے آپ کو الگ کیا ہوتا اور اپنے ہی پلیٹ فارم پر جدوجہد کی ہوتی تو مسلم لیگ نواز سے مایوس عوامی حلقے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف بھی دیکھ رہے ہوتے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرپرسن نے عوامی خواہشات کی بجائے پنجاب کے ان کمپراڈور صحافیوں ، تجزیہ نگاروں ، سول سوسائٹی کے جعلی نمائندوں جیسے عاصمہ جہانگیر ، ماروی سرمد ، حامد میر ، نصرت جاوید جیسوں کی باتوں پر کان دھرے جو میریٹ ہوٹل میں مولوی فضل الرحمان اور ملّا لدھیانوی کے ساتھ نواز شریف کے سامنے کورنش بجالارہے تھے ‎

No comments:

Post a Comment