Sunday, July 27, 2014

نیا زمانہ - ایک اور روشن خیال جریدہ بند ہوگیا


مجھے زرا خبر دیر سے ہوئی کہ پروفیسر رفیع اللہ شہاب کے بیٹے اور ماہنامہ نیا زمانہ لاہور کے ایڈیٹر شعیب عادل پر توھین مذھب کا الزام لگا ہے اور ان کو مذھبی بنیاد پرستوں کے جنونی عتاب اور غصّے سے بچنے کے لیے ایک تو اپنے رسالے کو بند کرنا پڑا اور ساتھ ہی ان کو لاہور شہر سے فرار ہوکر روپوشی کی زندگی بھی گزارانا پڑ رہی ہے میرے پاس شعیب عادل کا جو فون نمبر ہے وہ بھی بند جارہا ہے اور ان کی کوئی خیر خبر موصول نہیں ہورہی اور ان کے بارے میں ایک انگریزی آرٹیکل بی بی سی سے وابستہ قلم کار محمد حنیف نے بی بی سی میگزین میں لکھا ہے جس کے آخر میں شیعب عادل نے بقول محمد حنیف سے درخواست کی کہ اس کو انگریزی میں شایع کریں کیونکہ اردو میں چھپا تو پھر ان سے ناراض مذھبی جنونی مزید ناراض ہوجائیں گے شعیب عادل کے والد پروفیسر رفیع اللہ شہاب جماعت اسلامی اور سید مودودی سے ہوتے ہوئے اسلامی سوشلزم اور اسلامی فیمنزم و روشن خیال و عقلیت پسند مذھبیت کے داعی ہوئے تھے میں نے ان کی بہت سے کتابیں اور آرٹیکل پڑھے جو دی نیشن میں ہر ہفتے شایع ہوا کرتے تھے اور پروفیسر رفیع اللہ شہاب کی عقلیت پسندی ،خرد افروزی شیعب عادل کے اندر بھی آئی اور جب وہ ایک کارخانے کی ملازمت سے مستعفی ہوکر آئے تو انھوں نے دوست ایسوسی ایٹس کے نام سے اسلامی روشن خیالی ،لبرل ازم ،اسلامی تعقل پسندی کی روایت کو روشن کرنے والی کتب شایع کرنا شروع کردی مجھے اگرچہ پروفيسر رفیع اللہ شہاب سمیت بہت سے اس دور کے تعقل پسندوں کے روایت اور تاریخ اسلام کے بارے میں قائم کئے گئے پروفیسر امین ،پرویز اور گولڈ زیہرمان سمیت بہت سے مستشرقین کے قائم کردہ مقدمات سے اتفاق نہیں تھا لیکن مجھے ان کی خرد افروزی ،روشن گر تفکر سے بہت شغف تھا شعیب عادل سے میری ملاقات 1998ء میں لاہور اردو بازار میں ہوئی اور انھوں نے دوران گفتگو مجھے بتایا کہ وہ ایک سہ ماہی جریدہ شروع کرنے جارہے ہیں جس کا نام ہوگا مکالمہ تو میں نے اس سے اتفاق کیا اور یہ جریدہ شروع ہوگيا جوکہ دور دراز کے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بھی تعقل پسندی پر مکالمے اور بحث کو فروغ دینے کا سبب بن گیا اسی دوران مجھ سمیت بہت سارے مکالمہ کے سرکل میں شامل دوستوں نے شعیب عادل کو مشورہ دیا کہ سہ ماہی ضغیم جریدہ نکالنے کی بجائے ماہنامہ شروع کرنا چاہئیے اور اس کے لیے سب دوستوں نے اپنے اپنے تئیں سالانہ ،دو سالہ ،بعض نے سہ سالہ اور بعض نے پنج سالہ خریداری فیس بھی ایڈوانس شعیب عادل کو بھیج دی ماہنامہ نیا زمانہ کے اولین لکھت کاروں میں احمد بشیر ،نصیر الدین شاہ ،ڈاکٹر پرویزی ،شعیب عادل ،شہزاد بادل(میں ان کے اصل نام سے بھی واقف ہوں)،سعید ابراہیم ،راقم اور دیگر شامل تھے نیا زمانہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی شہرت کے حوالے سے بلندیوں کو چھونے لگا اور اس ماہنامے نے بلاشبہ احمدی ،عیسائی ،ہندؤ ،شیعہ پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے رائے عامہ کو بیدار کرنے اور حقیقت کو بیان کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور خاص طور پر پنجاب ،سندھ ،بلوچستان ،خیبر پختون خوا کے انتہائی دور دراز علاقوں میں اس کی خواندگی ہونے لگی معروف صحافی خالد حسن نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھے ایک مضمون میں نیا زمانہ کا زکر کیا اور میری تحریروں کے حوالے بھی اس میں دئے مجھے بھی اس ماہنامے کی وجہ سے احمد بشیر جیسی مہان ہستی کے قریب ہونے کا موقعہ ملا اور ان کے ساتھ ہونے والی نشستیں میرے لیے قیمتی یادیں ہیں نیا زمانہ نے کرسچن ،ہندؤ سے ہٹ کر جس طرح سے احمدیوں کی مذھبی پراسیکوشن کے بارے میں لکھا اور جس قدر کھل کر لکھا اتنا بولڈ انداز کسی اور اردو میں شایع ہونے والے روشن خیال جریدے دیکھنے کو نہیں اور مجھے شک ہے دیکھنے کو ملے گا بھی نہیں شعیب عادل سے میرے اختلافات بالکل وہی تھے جو طبقاتی سوال کو ابہام پرستی کے حوالے کرںے اور مارکسی فکر کی مبادیات کو رد کرنے والے لبرل دانشوروں سے ہوسکتے ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ میں نیا زمانہ میں اپنا سفر جاری نہ رکھ سکا مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں شعیب کی جانب سے خرد افروزی کے چراغ روشن کرنے کی نفی کردوں اور ان کے معاشرے میں روشن گری پھیلانے کے لیے اٹھائے جانے اقدامات سے انکار کرڈالوں نیا زمانہ یقینی طور پر روشن خیالی ،تعقل پسندی اور اعتدال پسندی کی اقدار سے وابستہ لوگوں کے لیے ایک اتحاد اور رابطے کی جگہ بنا نیا زمانہ جیسا لبرل ،رواداری اور آزادی اظہار کا ترجمان رسالہ اگرچہ علمی میدان میں تو رجعت پرستوں ،بنیاد پرستوں ،انتہا پسندوں کو چاروں شانے چت کرنے میں کامیاب رہا لیکن یہ مذھبی انتہا پسند اور فاشسٹ علمی میدان میں شکست کھاکر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے اور انھوں نے شعیب عادل پر مذھبی توھین کا مرتکب ہونے کا الزام لگادیا اور ایک تیر سے دو شکار ہوئے یعنی ایک طرف تو شعیب عادل زیر زمین چلے گئے اور دوسری طرف نیا زمانہ جیسا روشن خیال جریدہ بھی بند ہوگیا اور اب اس کا دوبارہ شروع ہونا ناممکن ہے

Sunday, July 6, 2014

پنجاب پولیس سٹیٹ بننے جارہا ہے


میڈیا میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے ترکی کے پولیس ماڈل کو بنیاد بناتے ہوئے پنجاب پولیس کی تنظیم نو کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس تنظیم نو کے منصوبے کے مطابق پنجاب پولیس کے تین ونگ بنائے جارہے ہیں ایک ونگ جو کہ ڈولفن ونگ کہلائے گا کسی بھی جگہ شورش سے نمٹنے کے لیے سریع الحرکت پولیس فورس پر مشتمل ہوگا ،اس ونگ کے پاس ہیوی موٹر بائیکس اور جدید ترین ہتھیار و آلات ہوں گے جبکہ یہ ونگ اندرون شہروں کی تنگ و تاریک گلیوں میں بھی سرعت کے ساتھ کاروائی کرے گا دوسرا ونگ انسداد فسادات پولیس ونگ ہوگا جو کسی بھی احتجاج ،ہڑتال ،جلسے جلوس میں حالات کنٹرول سے باہر ہوجانے کی صورت میں معاملات اپنے ہاتھ میں لے گا اور صورت حال کو کنٹرول کرے گا جبکہ تیسرا عام واچ اینڈ وارڑ و انوسٹی گیشن ونگ ہوگا پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ تمام بڑے شہروں میں سی سی ٹی وی کیمروں کے زریعے سے شہر کے اندر جرائم کی ورک تھام کے لیے نگرانی کے مراکز تعمیر کرنے کا فیصلہ بھی کرچکا ہے پنجاب کے چیف منسٹر میاں محمد شہباز شريف ایک عرصہ سے یہ خواہش ظاہر کررہے تھے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں پولیس کا ماڈل ترکی کی پولیس جیسا ہوجائے اور وہ استنبول پولیس ماڈل سے بھی بہت متاثر نظر آتے ہیں میاں محمد نواز شریف پی آیم اور ان کے بھائی شہباز شریف سی ایم ترکی کے معاشی اور ترکی کے سیکورٹی ماڈل سے بہت متاثر ہیں اور وہ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان کے اندر معاشی اور لاء انیڈ آڈر کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانا چاہتے ہیں پاکستان میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنھوں نے ترکی میں طیب رجب اردوگآن کے معاشی اور سیکورٹی ماڈل اور اس کے اثرات و عواقب بارے زرا گہرائی میں جاکر جان کاری حاصل کرنے کی کوشش کی ہوگی طیب رجب اردوگان نے ترکی کے اندر سرمایہ داری کے نیولبرل فری مارکیٹ کے ماڈل کے تحت سرمایہ دار دوست اصلاحات متعارف کیں اور استنبول سمیت بڑے شہروں میں بڑے بڑے پلوں ،فلائی اوورز ،میٹرو بس ،میٹرو ٹرین ،پلازے ،اور دیگر میگاپروجیکٹس کا آغاز کیا اور انھوں نے ترکی کی معشیت میں سخت ترین نجکاری یہاں تک کہ مقامی حکومتوں کے ماتحت آنے والی سوشل سروسز صفائی ،سینی ٹیشن ،ٹاؤن پلاننگ ،سمیت بہت سے شعبے نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کردئے ترکی کے وزیر ا‏عظم اردوگان کے ان میگاپروجیکٹس اور ترقی کے نیولبرل سرمایہ دارانہ ماڈل کے اثرات کا جائزہ لینے والے ماہرین ماحولیات،ماہرین بشریات ،آرکیالوجسٹ ،آرکیٹیکچر ،معاشیات کے ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ اس ماڈل کے ترکی کے کلچرل ورثے ،ماحولیات ،ایکولوجی ،تہذیبی ورثے پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان منصوبوں سے شہروں میں سلم ایریاز ،کچی آبادیادیوں ،غربت میں اضافے اور ورکنگ کلاس کی ملازمتوں کے معیار کا زوال ہوا ہے اس ترقیاتی منصوبوں سے متاثر ہونے والے شہریوں نے اور ورکنگ کلاس کے مختلف حصوں نے جب کبھی طیب اردوگان کی حکومت کے خلاف اور اس کے منصوبوں کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی تو اس سے نمٹنے کے لیے طیب اردوگان نے سیاسی جمہوری رویہ اپنانے کی بجائے پولیس کو استعمال کیا اور اس سلسلے میں ترک پولیس کا ڈولفن اور انسداد فسادات پولیس ونگز کی شہرت بہت خراب ہے ترک پولیس پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آزادی اظہار ،نقل و حمل کی آزادی ،اجتماع کی آزادی کو کچلنے میں مہارت تامہ رکھتی ہے ترکی میں ٹرانسپورٹ ورکرز کی تحریک ہو کہ سرکاری ادروں کی نجکاری کے خلاف مزدور تحریک ہو یا استنبول کے قدیم پارک کو بچانے پر کھڑی ہونے والی تحریک ہو سب کو طیب اردوگان نے سختی کے ساتھ کچلنے کی کوشش کی اور اس میں ترک پولیس کے ڈولفن و انسداد فسادات پولیس ونگز کا بہت بڑا ہاتھ تھا مجھے پنجاب پولیس اور شہباز شریف کی حکومت کے ٹریک ریکارڑ کو دیگھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ میاں شہباز شریف پنجاب کے طیب اردوگان بننے کی کوشش کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب کے اندر وہ جس پولیٹکل اکنامی کے ایجنڈے کو نافذ کررہے ہیں اس سے متاثر ہونے والے ان کے نام نہاد میگا پروجیکٹس پر مبنی ترقی کے ماڈل کے سامنے روکاوٹیں کھڑی نہ کریں مثال کے طور پر پنجاب حکومت کے بہت سارے شعبے ایسے ہیں جہاں بنیادی سروس سٹرکچر اور سکیل سٹرکچر میں بہت بڑی ناانصافیاں موجود ہیں اور ایڈہاک ازم پر کام چلایا جارہا ہے صحت کے شعبے میں نوچوان ڈاکٹرز ،نرسیں ،لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کے بہت سے پیشے ایسے ہیں جہاں پر کنٹریکٹ ،ڈیلی ویجرازم چل رہا ہے اور ان شعبوں کے ہزاروں ملازمین کا مطالبہ ہے کہ ان کو مستقل کیا جائے ،ان کا سروس سٹرکچر ،بیسک پے سکیل وغیرہ کی تشکیل کی جائے اسی طری سے کلریکل جابس کرنے والے لوگ ہیں جیسے اپیکا ہے ،تعلیمی شعبے میں کام کرنے والے اساتذہ ہیں ،اسی طرح بڑے شہروں میں واسا اور چھوٹے شہروں ميں کارپویشن و ٹی ایم ایز کے ملازمین ہیں سب اپنی نوکری کے مستقل ہونے ،تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مراعات کے لیے سرگرداں ہیں پنجاب حکومت کا رویہ یہ رہا ہے کہ وہ ہر مرتبہ وعدے وعید کرتی ہے ،ٹال مٹول کرتی ہے ،مذاکرات کا ڈھونگ رچاتی ہے اور جب یہ ورکنگ کلاس تنگ آکر سڑکوں پر آتی ہے ،احتجاج ،دھرنا اور ہڑتال کا آپشن استعمال کرتی ہے تو پھر ان کے خلاف پولیس کا استعال ہوتا ہے ،میڈیا پر اشتہاری مہم چلاکر احتجاج کرنے والی ورکنگ کلاس کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے اور اس سارے انتظام پر کروڑوں روپے خرچ کردئے جاتے ہیں ہم نے وحشیانہ تشدد ،لاٹھی چارج ،آنسو گیس اور انسداد دھشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کا اندراج ہوتے بارہا دیکھا اور یہاں تک ایک حاملہ نرس بھی پولیس تشدد سے ہلاک ہوئی پولیس کو اپنے زاتی ملازموں کی طرح استعمال کرنے کی شہباز شریف کے پچھلے دور میں ہم نے کئی مثالیں دیکھیں ،لاہور کے وکلاء کے خلاف اس کو استعمال کیا گیا اور وکلاء پر اس پولیس تشدد پر جو جوڈیشل انکوائری ہوئی اس سے شہباز شریف ،رانا ثنا اللہ سمیت کئی پولیس افسران گناہگار ثابت ہوئے لیکن کوئی انصاف مظلوموں کو نہیں ملا حال ہی میں تازہ ترین واقعہ پنجاب پولیس کا ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر بدترین تشدد ،12 کارکنوں بشمول عورتوں کا قتل اور 85 افراد کا شدید زخمی ہونے والا جرم ہے جس کے حوالے سے انگلیاں سیدھی چیف منسٹر شہباز شریف کے اوپر اٹھ رہی ہیں جیف منسٹر شہباز شریف اور پنجاب پولیس کا ٹریک ریکارڑ انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے الارمنگ ہے اور یہ ٹریک ریکارڑ بتاتا ہے کہ پنجاب کی ایڈمنسٹریشن کو عوام نواز رکھنے کی بجائے عوام دشمن اور سرمایہ دار نواز رکھا جاتا ہے پولیس کا جیف منسٹر شہباز شریف کے دور میں مذھبی اقلیتوں پر ٹوٹ پڑنے والی بپتا پر بھی مثالی نہیں رہا بلکہ گوجرہ میں کرسچن کالونی پر بلوہ ہو یا جوزف کالونی لاہور پر بلوائی حملہ ہو پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کالونیوں کو لوٹ لیا گیا ،گرجے گھر جلادئے گئے اور مکانات و دکانات کو آگ لگا دی گئی جبکہ آج تک ان واقعات کے زمہ داروں کو کوئی سزا بھی نہیں مل سکی اس طرح کے بلوؤں میں اور لوٹ مار میں جو گروہ ملوث تھے ان کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹیں یہ کہتی ہیں کہ ان کا تعلق فرقہ وارنہ کالعدم مذھبی فاشسٹ تنظیموں سے تھا جن کے ساتھ پنجاب حکومت کا اتحاد اور کئی ایک وزراء کا ان سے تعلق بھی بتایا جاتا ہے سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور ميں لوگوں کو سیدھی گولیاں مارنے والے ایک کانسٹیبل شہباز بابر کے بارے میں ميڈیا میں یہ بھی رپورٹ ہوا کہ اسے سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ کی سفارش پر بھرتی کیا گیا تھا اور وہ ایک کالعدم تنظیم کا رکن بھی رہا ہے انٹیلی جنس کی رپورٹس جو میڈیا میں آئیں ان کے مطابق پنجاب پولیس میں کئی ایک اہلکار ایسے ہیں جو ملازمت سے پہلے کالعدم تنظیموں کے رکن تھے جیف منسٹر پنجاب شہباز شریف اور ان کے جملہ رفقاء کو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ ان کی حکومت کے پاس ترقی اور نام نہاد خوشحالی کا چاہے جتنا بھی بڑا خوش کن منصوبہ ہو اگر وہ اسے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کریں گے اور سرمایہ دارای کے اقربا پرور نظام کے لیے صوبے کو پولیس سٹیٹ بنادیں گے تو اس سے احتجاج اور مزاحمت ختم نہیں ہوگی بلکہ تشدد کے جواب میں تشدد ابھرے گا کیا یہ بات میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے لیے خود احتسابی کو دعوت دینے والی نہیں ہے کہ اپنے اقتدار کے ایک سال کے اندر ہی ان کو سب سے زیادہ چیلنجز خود پنجاب کے سنٹر جہاں ان کے بقول ان کی بھاری حمائت موجود ہے سامنے آرہے ہیں ان کی حکومت سے جہاں اپوزیشن پی ٹی آئی ،پی اے ٹی ،پي پی پی ،جماعت اسلامی خوش نہیں ہے وہیں پر ان کی حکومت سے نہ تو مزدور خوش ہیں نہ ڈاکٹر ،نہ نرسیں ،نہ کلرک ،نہ اساتذہ نہ ہی واسا کے مزدور اور ان سے ریڑھی ،خوانـچے و تہہ بازاری لگانے والے سینکڑوں گھر سخت ناراض ہیں جن کو ناجائز تجاوازات کے خاتمے کے نام پر بے روزگار کردیا گیا ہے اور یہاکں تک کہ کچی آبادیوں کے مکین بے گھر کئے جانے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں تو ان کے خلاف انسداد دھشت گردی کے مقدمے درج کئے جاتے ہیں جبکہ بلڈر مافیا اور بڑے بڑے قبضہ گیروں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا ہے اور نہ ہی مذھبی منافرت ،فرقہ واریت پھیلانے والوں کو کچھ کہا جاتا ہے ایسے ہی دو ہزار مزارعین اوکاڑا ملٹری فارمز کے اوپر انسداد دھشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ان کا جرم فقط انتنا ہے کہ وہ دو سو سال سے جن زمینوں کو کاشت کررہے ہیں ان کی ملکیت کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ مزارعین کے حق ملکیت مانگنے پر انسداد دھشت گردی کم مقدمہ درج کرنے والی پنجاب حکومت دو ہزار ایکٹر زمین چینی کمپنی کو بہاولپور میں مفت دیتی ہے اور ایک ہزار ایکٹر شيخوپورہ اور قصور میں جبکہ سینکڑوں ایکڑ فیصل آباد میں مفت الاٹ کردیتی ہے ،اس سے ہم حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس حکومت کی نظر میں ورکنگ کلاس ،کسان ،مزارعوں ،کلرکوں کی کوئی حثیت نہیں ہے اور ان سب کو یہ سرمایہ داروں کے منافعوں کے لیے ہونے والی ترقی کے ہاتھی کے پیروں تلے روندنا ٹھیک خیال کرتی ہے اور اس پر اگر احتجاج ہو تو پھر آنے والے دنوں میں ڈولفن ونگ بھی ہے اور انسداد فساد پولیس بھی