Friday, December 5, 2014

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند


نیچے تصویر میں شاویز تقی ، عاشور حسین اور میرا بھانجا اسد اللہ
ٹینا ثانی " انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند " گا رہی ہیں اور تن کے گھاؤ بھرنے اور من کے گھاؤ نہ بھرنے کی بات نہ سمجھنے کا تذکرہ کررہی ہیں اور اک درشن سے پیاس بھجنے اور اک اگن میں تن کے جھلسنے اور کسی کو نینن میں رکھنے کی بات کررھیں تھیں جب موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی یہ صائمہ بتول کے فون کی گھنٹی تھی ، صآئمہ بتول نے فون اٹھایا تو اس کی بہن ارم ، بشری ، اقراء ، فرزانہ ، بھائی متین ، شہزاد اور شعبان تھے دوسری طرف فون پر ، بغیر تبریک و مبروک کے عاشور حسین سے بات کرانے کو کہا گيا عاشور حسین عرف عاشو میاں آج پورے تین سال کے ہوگئے ہیں ، اس وقت اپنی خالہ ارم فاطمہ سے فون پر بات کررہے ہیں جسے وہ اپنی توتلی زبان سے ارم آنی کہتا ہے عاشو : یہ ٹیپ ٹاپ (لیپ ٹاپ ) ٹوٹ گیا ارم آنی ارم آنی : عاشو جانی کیسے ٹوٹ گیا عاشو: ایسے ہی ٹوٹ جاتا ہے ، شاوی ( شاویز ) ٹوڑ دیتا ہے پھینک پھینک کے توڑتا ہے ، میں نے نہیں توڑا عاشو بابا آج کیا کیا آپ نے ؟ میں کارٹون دیکھ رہا تھا مما برتن دھولے گئی ہے (مما برتن دھونے گئی ہے ) شاوی شکول گیا ہے ، ٹیچر پاس امی ہمارلے گھر ہے امی کاکے کو کھلارہی ہے چچی چھبا (صبا چچی) تو نہیں گئی ملتان بابا آج میری بڑڈے ہے ، موتر سیکل لینی ہے بابا کی جان آپ کو موٹر سائیکل نو ربیع الاول کے بعد دلائیں گے عاشور ایک صبر وتسلیم والا بچہ ہے یہ سنکر وہ خاموش ہوگیا اور ابھی میں نے اسے استاد علی محمد رضوی المعروف سچے میاں کا پڑھا ہوا مرثیہ سنوایا خاموشی سے سنتا رہا اور پھر اچانک ہاتھ لہرا کر کہا یاعلی میں بہت حیران ہوا ، پیار سے پوچھا یہ تم نے کہاں سے سیکھا بھئی ؟ توتلی زبان میں کہا بابا وہ اس دن وہاں متین ماموں کرنہیں رہے تھے یہ کہہ کر اس نے ہاتھ لہرایااور پھر یاعلی کہا مجھے یاد آیا کہ اس دن سکائپ پر متین سے بات ہوئی تو اس نے ویڈیو موڈ آن کیا وہ ایک مجلس میں تھا اور وہاں کا منظر دکھارہا تھا کہ اسی دوران "نعرہ حیدری " لگا تو اس نے ہاتھ لہرا کر یا علی کہا تھا ، عاشو کے زھن میں یہ منظر نقش رہ گیا اور اس نے آج اس کا مظاہرہ بھی کرکے دکھا دیا عاشور تین سال پہلے 10 محرم الحرام پانچ دسمبر کو پیدا ہوا اور یہ اس کی مسلسل تیسری سالگرہ ہے جب محرم اربعین عشرہ ہوتا ہے اور ہم اس کی سالگرہ نہیں منارہے ، اس کے دو چچا سنّی ہیں اور وہ ربیع الاول کے آغاز ہی میں خوشیاں منانے لگتے ہیں اور ان کے ہاں سوگ اور غم پہلے عشرے کے بعد ختم ہوجاتا ہے لیکن ہمیں دیکھتے ہوئے چپکے سے عاشو کو باہر لیجانے کی کوشش کرتے ہیں اور عاشو ایسا ہے کہ باہر جاکر کوئی بھی چیز لے ضد کرتا ہے کہ بابا ،ماما کے ساتھ کھائے گا اور وہ اسے تبریک و مبروک پیش کرتے رہتے ہیں ، ابا میرے ہیں تو سنّی لیکن ان کے پیر و مرشد سید ولی محمد شاہ کیونکہ چالیس روز تک سوگ میں رہتے تھے تو وہ بھی ان چالیس دنوں میں نہ ہی مبارک باد اور نہ ہی تعزیت وصول کرتے ہیں ،تہذیب اور ثقافت ہم پر خاصی غالب ہوا کرتی ہے اور ہم اس کے اندر ہی رہتے ہیں ،مجھ جیسا کمیونسٹ بھی اس میں رنگا ہوا ہے اگرچہ یہ سب میں کسی مابعدالطبعیاتی اثر کے تحت نہیں کرتا ہوں لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی یہ سب نہیں کرتا تو اسے میں ایسا نہ کرنے پر ملامت کروں تہذیب بہت وسیع دائرے کا نام ہے جس میں صرف یہ سوگ ، تعزیت اور ملال و غم میں لپٹی حسینی روایت سے جنم لینے والے ضابطے اور طور طریقے ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں اسی حسینی روایت بارے اسی ہندوستان میں بسنے والے دوسرے مکاتب فکر کے خیالات بھی ہیں اور ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اس روایت کے کوئی معنی نہیں بنتے لیکن ہندوستان کی تہذیب ان سب سے ملکر تشکیل پائی اور اسی لیے تنوع سے بھرپور ہوگئی اور سب کو باقی رہنے کا حق تسلیم کیا گیا لیکن یہ بات طے ہے کہ کربلا کا المیہ اپنے اثرات کے حوالے سے ہندوستان کی تہذیت و ثقافت کی صورت گری کرنے کے حوالے سے بہت بنیادی عنصر میں شامل ہوگیا اور یہ اب اس تہذیب کی رنگینی اور تنوع میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اور اسے مسلمان کیا ، ہندؤ کیا ، سکھ کیا ، پارسی کیا ، عیسائی کیا ، ملحد کیا سبھی نے اپن اپنے انداز میں اپنی ثقافتی روائیت میں جذب کیا ہے اور اگر اسے علاقائی اور لسانی منطقوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں بولی جانے والی ہر زبان نے اس المیہ کو اپنےماحول کے مطابق ڈھالا ہے اور یہ کسی بھی اعتبار سے ایک تنگ فرقہ وارانہ ، مسلکانہ یہاں تک کہ یک نوعی مذھبی تعبیر سے بہت آگے نکل گیا ہے اور حسین نہ تو اب بنوہاشم کی ملکیت ہیں ، نہ حسین حجازیوں کے ہیں ، ایرانیوں اور عراقیوں کے بھی نہیں اور نہ ہی یہ محض شیعہ کے ہیں نہ سنّیوں کے ، نہ مسلمانوں کے بلکہ ساری انسانیت کا یہ مشترکہ ورثہ ہے اور اس متھ کی سب کے اپنے ہاں اپنی اپنی تعبیر ہے اور اپنے اپنے معنی ہیں اور اگر ان سب معنوں اور تعبیرات کا کوئی جوہر ہے تو وہ ہے " حرف انکار ، مزاحمت ، جدوجہد ، غم کو طاقت بنانا ، ہر ظلم کے آگے سرجھکانے سے انکار اور سر قربان کرنے سے دریغ نہ کرنا ، بغاوت اور مظلوم و مجبور کے ساتھ کھڑے ہونا " اس جوہر سے حسینی روایت کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ ہر مظلوم فرقہ ، گروہ ، نسلی گروپ اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے عاشور جب سے پیدا ہوا ہے تو کئی بار اپنے آپ کو چوٹ لگوابیٹھتا ہے اور چوٹ بھی ایسی کہ خون بھل بھل کرکے نکلتا ہے اور ایسے میں یہ خون دیکھ کر گبھراتا نہیں ہے ، تکلیف پر روتا ہے مگر جیسے ہی میں یا اس کی ماں اسے اپنے سینے سے لگآتے ہیں تو ایسے چپ ہوجاتا ہے جیسے کچھ نہ ہوا ہو ، اس کی ماں اور دادی ، دادا کہتے ہیں کہ یہ جس دن پیدا ہوا اس دن کی وجہ سے اور اس کے نام کی وجہ سے اس کو مصائب کا سامنا ہے اور یہ اللہ کے بندوں کی آزمائش ہوا کرتی ہے قافہ حسین میں شمولیت کو‏ئی آسان کام تو نہيں ہے میں نام اور کسی خاص لمحے میں پیدائش کے اثرات پر تو یقین نہیں کرتا لیکن اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ قافلہ حسین میں شمولیت آسان تو نہیں ہے ، ابھی جب میں یہ سوچ رہا تھا تو بے اختیار مجھے میثم یاد آئے کہ کیسے حضرت علی کے اس عاشق کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے لیکن اس نے جناب علی کی مدح اور ان کی تعریف کرنا بند نہ کی اور جب یہ مدحت اپنے عروج پر پہنچی تو ان کی زبان کاٹ دی گئی اور پھر سولی پرچڑھا دیا گیا ، خانوادہ اہل بیت اطہار کا محب ہونا مصلوب ہونے کے مترادف ہے تو اس خانوداہ کا رکن ہونا کس قدر مشکل کام ہے یہ بات کرتے ہی مجھے عباس علم دار یاد آگئے اور فرات کا وہ کنارہ بھی جہاں جب ان کے ہاتھ کٹ گئے تو مشکیزہ دانتوں سے پکڑ لیا اور تیروں سے جب مشکیزہ پھٹ گیا تو بھی کوشش جاری رکھی اور پھر سر کاٹ دیا گيا اور سب سے زیادہ تیر عباس علم دار کے بے سر لاشے پر تھے اور خود اس قافلے کا سردار حسین بھی تھا جس کے جسم پر تلواروں اور تیروں سے پڑنے والے زخموں کے نشان گنے نہیں جاتے تھے اور یہ سب جسمانی تکالیف اور ازیتیں اپنی جگہ میں جب کبھی ان قافلہ سالاروں کی فکری بے گانگی اور اس زھنی تنہائی کے بارے میں سوچتا ہوں جو ان کے ساتھ ساتھ رہی اور یہ ایک خاص طرح کی وجودی بے گآنگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے تو مجھے حرف انکار کی قیمت اصل کا پتہ چلتا ہے جو اسے بلند کرنے والے کو ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ قافلہ صرف مردوں پر ہی نہیں بلکہ عورتوں پر بھی مشتمل تھا اور کس زمانے میں جب " عورت" ایک شئے مملوک سے زیادہ نہیں تھی ویسے تو اب بھی کیا ہے میں چھوٹا سا تھا تو دادی اور نانی اکثر مجھے دعا دیتی ہوئی کہتیں مولا تجھے غم حسین کے سوا کوئی غم نہ دے بہت عرصہ بعد جب میری عقل پختہ ہوئی اور شعور کی کرنیں خوب خوب میرے دماغ کو جگمگانے لگیں تو مجھے پتہ چلا کہ غم حسین کا مطلب ظاہری آہ و ظاہری نہیں تھا بلکہ یہ تو حریت فکر اور آزادی کے ساتھ جڑا وہ مستقل ملال تھا جو جسے لگ جائے وہ پھر غلامی ، ظلم ، ستم اور استحصال پر راضی نہیں رہتا اور ایسا غم و ملال واقعی ایسی چیز ہے جو ہر ایک کی زات کا جزو ہونا چاہئیے اب میری شریک حیات اور والدہ ، میرے بچوں کی نانی بچوں کو یہی دعا دیتی ہیں تو میں بے اختیار مسکرانے لگتا ہوں اور اس وقت کا انتظار کرتا ہوں جب یہ بچے شعور کی منزل کو پہنچیں گے اور عقل ان کی بالغ ہوگی تو میں غم حسین کی یہ تفہیم ان تک پہنچاپاؤں گا ،ویسے اب ہمارے گھر میں شاويز تقی ، عاشور حسین (میرے بیٹے ) ، مغیث حیدر ، عبداللہ حسین ( میرے بھتیجے ) ، اسد اللہ ، علی حیدر ، میمونہ زھرا ، طوبی اور علی عبداللہ ( میرے بھانجے بھانجیاں ) کے ساتھ ایک گلشن آباد ہے اور جس سے خوشبوئے اہل بیت پھوٹتی ہے اور سب کے ناموں اور سب کی قلقاریوں ، باتوں سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے اور مجھے امید ہے اس گلشن کی یہ کلیاں کل جب پورا کھلا ہوا پھول بنیں گی تو یہ گلشن حسینی روایت کو مزید رونق بخشیں گی اور اب یہ ان پر منحصر ہے کہ حسینی روایت کی طرف وہ میرے راستے سے آتے ہیں یا کسی اور راستے سے ، میرا راستہ تو ایسا ہے جس میں تھیالوجی کی قلب ماہیت لازم ہے اور اس راستے سے آنے والے بہت قلیل ہیں کیونکہ یہ فرعون ، قارون ، نمرود ، یزید ، بلم باعور کو لباس موسی ، براہیم و حسین میں بھی شناخت کرلیتا ہے اور مذھبی پیشوائیت کو گلیم بوز و دلق اویس و چادر زھرا چرا کر بیچ کھانے نہیں دیتا اس مرتبہ جب لاہور گیا تو کامریڈ زوار حسین سے سب سے آخر ميں طویل ملاقات کی تھی ، دن کے 11 بجے ان کے ہاں پہنچا تھا اور رات 10 بجے لاہور پریس کلب سے ان سے رحضت لی ، اس دوران باتوں ہی باتوں میں انھوں نے مجھے کہا کہ " کامریڈ یہاں لاہور میں لیفٹ کے حلقوں میں کئی ایک لوگ آپ کے بارے میں یہ تاثر پھیلارہے ہیں اور وہ تاثر پختہ ہوتا جاتا ہے کہ " کامریڈ عامر حسینی اب کمیونسٹ نہیں رہے شیعہ ہوگئے ہیں " میں جانتا ہوں کہ کامریڈ زوار حسین مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور انھوں نے یہ بات بہت خلوص سے کی ویسے بھی وہ ان بہت سے دوستوں میں سے ایک ہیں جو چاہتے ہیں کہ میں اس پرفتن دور میں " لو پروفائل " ہوجاؤں ارے یہ کیا یہ " انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند " مجھے اپنا حال کیوں لکنے لگا ہے ویسے کوئی بھی لاڈلہ اس وقت " انوکھا لاڈلہ " بن جاتا ہے جب وہ " اس سچ " پر اصرار کرے جو ایک طرح سے سبب کو چاند کی طرح ناقبال حصول لگنے لگتا ہے اور جس پہ نہ بیتی وہ کب جانے ، جگ والے آئے سمجھانے ، پاگل من کوئی بات نہ مانے ، کیسی انوکھی بات رے ، انوکھا لاڈلہ ، کھیلن کو مانگے چاند اصل میں یہ " انوکھا پن " اور " انوکھی بات " اور لاڈلے کا انوکھا بن جانا "جگ والوں " کے ہآں ہے اور یہ بنتا ہی تب ہے جب " سچ " چاند جتنی مسافت کی دوری پر چلاجاتا ہے اور وہآں تک پہنچنے کو سب کار محال خیال کرنے لگتے ہيں لیکن آپ نے اوپر میری معروضات سے اندازہ لگالیا ہوگا کہ " حسینی روایت " کا وقت تو شروع ہی پرفتن دور میں ہوتا ہے اور اس روایت کی تازگی کا ثبوت تو ملتا ہی فتنے ، فساد اور قیامت جیسے حالات میں اور اس کی ضرورت ہی اس وقت پیش آتی ہے جب " سچائی " پر مصلحتیں چھاجاتی ہیں اور ان مصلحتوں کو ہی جینے کا اسلوب ، دانش مندی اور عقل کا تقاضا کہا جارہا ہوتا ہے اور سب باطل سے تعاون یا اس کے سامنے خاموشی کی تلقین کرتے نظر آتے ہيں اور ایسے میں ایک حسینی روایت ہے جو آپ کی مدد کو آتی ہے جو اپن چراغ کو تہہ خاک دبانے سے انکار کرتی ہے اور مجھے لوگوں کی اس رائے سے اب اطمینان ہوچلا کہ کہ میں ٹھیک راستے پر ہوں میں یہ سب سورما ، ھیرو بننے کے لیے نہیں کررہا اور نہ ہی کسی آخرت کی لالچ ميں اور نہ ہی کسی کے آگے جوابدہی کے خوف میں اور نہ ہی کسی مابعدالطبعیاتی جذبے یا عقیدے کے تھے ، یہ تو میرے اندر کی گواہی ہے جو معروض کا عکس ہے اور جس کے آگے میں خود کو جوابدہ سمجھتا ہوں اور جس کی خاطر میں یہ سب کچھ کررہا ہوں اور مجھے نہ تو ان باغات کی لالچ ہے جن میں نہریں بہتی ہیں ، میوے ہیں ، غلمان و حور ہیں ، اور جہآں سب کے سب جوان ہوں گے اور شراب طہور سے مستفید ہوں گے ، میں تو دار ورسن کے لالوں کے پڑنے کا یہیں اس زمین پر قائل ہوں اور فیض کے ہم آواز ہوکر کہتا ہوں کہ جو بھی جزا اور سزا ہے یہيں ہوگی اور کوئی کسی کو بچانہيں سکے گا میں اس وضاحت کو کافی خیال نہیں کررہا تھا اور میرے پاس الفاظ بھی نہیں تھے کہ اتنے میں فیس بک پر طلعت زھرا کا ایک نوٹ سامنے آگیا جو انھوں نے عزم بہزاد کی یاد میں لکھا تھا اور اس میں عزم بہزاد کی غزل تھی جس نے میری مشکل آسان کردی ، ان کے شکریہ کے ساتھ عزم بہزاد کی غزل کو آج کے حالات کی عکاسی کے طور پر درج کررہا ہوں بولتے ہیں یوں کہ شاید خود کو سُننا چاہتے ہیں اپنے سر ہم اپنی ہی باتوں پہ دُھننا چاہتے ہیں پہلے اپنی خواہشوں کو ہم نے ہر جانب بکھیرا اب انھیں حسرت زدہ پلکوں سے چُننا چاہتے ہیں اپنی چُپ کا اک سبب یہ ہے کہ فرہنگ_بیاں میں لفظ وہ ناپید ہیں جو لوگ سُننا چاہتے ہیں سب کو احساس_تجفظ نے ہراساں کردیا ہے سب ہی اپنے سامنے دیوار چُننا چاہتے ہیں عزم کُھلتا ہی نہیں اس رائیگانی کی فضامیں ہم یہاں کس زندگی کے خواب بُننا چاہتے ہیں واقی عزم بہزاد نے ٹھیک کہا کہ لفظ وہ ناپید ہیں جو لوگ سُننا چاہتے ہیں شاویز تقی اور عاشور ! تمہارا اس دنیا میں آنا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے مگر تمہارا یہاں سے جانا ضرور انوکھا ہوسکتا ہے اور یہ انوکھا پن روایت حسینی سے جڑجانے اور وقت کے ہر فرعون و قارون و بلم باعور ویزید و نمرود کی دعوت کے سامنے حرف انکار بلند کرنے اور اس راہ میں اگر مصلوب ہونا پڑے تو مصلوب ہونے سے ہی پیدا ہوسکتا ہے اور میری بھی خواہش ہے کہ تمہیں غم حسین اور ملال کے جوہر سے آراستہ کربلاکے سوا کوئی اور غم اور ملال نہ ملے عام سے کھلونوں سے بہل جانے والے شاویز اور عاشور جب شعور کی منزل کو پہنچیں گے تو کیا میرے یہ لاڈلے میری طرح " سچائی کے چاند " سے کھیلن کی ضد کریں گے ؟ آگر یہ ضد کریں گے اور میں زندہ ہوا تو ضرور ان کے ساتھ میں بھی اسی چاند کے ساتھ کھیلنے کی ضد کروں گا چاہے کوئی ہمیں کتنا ہی انوکھا کہے اور ہمیں پاگل کہے ، جھلا کہے ، آج عاشور تین سال کا ہوگیا ہے

No comments:

Post a Comment