Wednesday, May 6, 2015

بلوچستان : آج کا ترقی پسند تناظر


کراچی یونیورسٹی میں " بلوچستان " کے حوالے 6 مئی کو جو سیمینار ہونا تھا ، اس کو بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے رکوادیا ہے اور اس کی کوئی وجہ بھی بیان نہیں کی گئی ، اس سے پہلے ایک نجی سیکٹر میں قائم لاہور یونیورسٹی آ‌ف مینجمنٹ -لمز میں بھی " بلوچستان " میں انسانی حقوق کی حالت زار پر ہونے والے سیمینار کو منعقد ہونے سے روک دیا گیا تھا اور اس حوالے سے وہاں پر پڑھانے والے پروفیسر مارکسی دانشور ڈاکٹر تیمور الرحمان کے خلاف ایکسپریس ٹی وی چینل کے ایک اینکر احمد قریشی نے باقاغدہ مہم چلائی تھی اور اس نے تیمور کو ملک دشمن تک قرار دینے کی کوشش کی بلوچستان میں جبری گمشدگیوں ، اغواء ، مسخ شدہ لاشیں ملنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جبکہ بلوچستان میں مرکز اسلام آباد کے ترقیاتی ماڈل سے اتفاق نہ رکھنے والے اور بلوچ قوم کی شناخت اور ان کے سیاسی ، معاشی حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں ، دانشوروں ، ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ حریت پسند طالب علموں کے خلاف ریاستی جبر ، سیکورٹی فورسز کی زیادتیوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے بلوچستان کے اندر بلوچ قوم کی اکثریت ملٹی نیشنل کمپنیوں اور چینی حکومت کے اقتصادی راہداری کی تعمیر اور بجلی ، گیس اور معدنیات کے منصوبوں میں شرکت پر تحفظات موجود ہیں اور ان کے خیال میں یہ سارے منصوبے بلوچ قوم کے حقوق اور وسائل کی لوٹ مار اور آخرکار بلوچ علاقوں میں بلوچوں کو اقلیت میں لانے کا سبب بنیں گے ، یہی وجہ ہے کہ بلوچ قوم کے اندر اس وقت ایک طرف تو آزادی پسند ایک تحریک موجود ہے جس کے سیاسی چہرے کو سب سے زیادہ مسخ کیا جارہا ہے اور اس تحریک کی سامراج اور اس کے گماشتوں کے آگے مزاحمت کو بھی سخت قسم کے پروپیگنڈے کا سامنا ہے پاکستان کے اندر اس وقت جتنے بھی سرمایہ دار ہیں وہ سب کے سب بلوچستان ، سندھ ، سرائیکی وسیب اور خبیرپختون خوا ، گلگت بلتستان میں نام نہاد ترقی کے بڑے میگا پروجیکٹس اور خاص طور پر چین کی حکومت اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے شروع ہونے والے منصوبوں سے ڈھیروں دولت ہاتھ آنے اور بہت سے سیکٹر میں ان کی پوزیشن مستحکم ہونے کے بارے میں بہت پرامید ہے اور اس سرمایہ دار طبقے کو بلوچستان ، سندھ ، سرائیکیستان ، خیبر پختون خوا ، گلگت بلتستان کے شہری و دیہی غریبوں ، محنت کشوں ، غریب قبائیلوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور اس کو ان علاقوں کی قومیتی ، لسانی ، ثقافتی شناخت کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے اور یہ اس حوالے سے ڈیموگرافک تبدیلیوں کے خدشات پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں ہے
پاکستان ایک طرف چین کے لیے سٹریٹجک شاہراہ کی تعمیر میں ہاتھ بٹا رہا ہے اور پاکستان کے سرمایہ داروں کی رال اس شاہراہ کے ساتھ ساتھ کھلنے والے معاشی امکانات پر ٹپک رہی ہے اور یہ جو چین کے پاکستان کے ساتھ جڑے تزویراتی مفادات ہیں اس کے تناظر میں جتنی بھی سرمایہ کاری ہوگی اس کے فوائد اس ملک کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو بھی ہوں گے اور ملٹری بزنس کی ایمپائر کو بھی نئی زندگی ملے گی لیکن اس حوالے سے بلوچ ، سرائیکی ، پشتون ، سندھی ، گلگتی بلتی عوام کے ساتھ جو کھلواڑ جاری ہے اور یہ جو نیولبرل معشیت کا ترقیاتی ماڈل ہے اس کا غریبوں اور افتادگان خاک کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا بلوچستان ، سندھ اور خیبرپختون خوا میں گیس ، بجلی ، معدنیات کے جو ذخائر موجود ہیں ان ذخائر کو اسلام آباد سامراجی عالمی قوتوں کے ساتھ ملکر جس طریقے سے استعمال لارہی ہیں ، اس میں ان علاقوں کے عوام کے اندر خوشحالی آتی ہے ، نہ ان کو بڑے پیمانے پر نوکریاں ملتی ہیں اور نہ ہی اس علاقے کے عوام کو ان کی دھرتی اپنی لگتی ہے ، حکومت اور کمپنیاں چند سرداروں ، بااثر لوگوں اور محدود پیمانے پر ان کے منظور نظر افراد میں رشوت ، نوکریاں بانٹ کر اپنےپروجیکٹس کا تحفظ تلاش کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں پر بڑے پیمانے پر ایف سی ، فوج اور رینجرز کی تعیناتی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہاں کے مقامی باشندوں کی تذلیل اور زلت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اندر اس وقت ٹھیک ٹھیک معنوں میں وہ صورت حال سامنے آگئی ہے جس کا سامنا افریقی ملکوں کو کالونیل قـبضے کے رسمی خاتمے کے بعد کرنا پڑا تھا اور ان کو جس شدت کے ساتھ اس صورت حال کا سامنا 60ء کی دھائی میں کرنا پڑا تھا ، وہ بلوچستان کو آج علاقائی ، عالمی سٹرٹیجک صورت حال اور بلوچستان کے اندر موجود قیمتی وسائل اور اس کے ساحلوں کی انتہائی تزویراتی پوزیشن کی وجہ سے درپیش ہے چینیوا ایشو بے جو کہ نائجیریا کے بہت بڑے افریقی ادیب ، دانشور اور سیاسی سوجھوان بھی تھے ان سے ایک انٹرویو کرتے ہوئے Conjunctions
نامی ایک مجلّے کے مدیر بریڈ فورڈ مورو نے سوال کیا کہ فطرت سے بغاوت ؛ جنگلوں کو صاف کرنا ، سڑکیں تعمیر کرنا ، شہر بسانا ۔۔۔۔۔ ابتداء سے انسان کی اہم ترین سرگرمیوں میں شامل رہا ہے ، یہ امر خیران کن نہیں ہے کہ اگر کوئی نوع خیات اپنی فطری تعداد سے تجاوز کرجائے تو اس سے ماحول خراب ہوجائے گا ، ایسا ہونا مشکل نہیں تھا ؛ کوئی جانور یہ کرسکتا تھا ، چونٹیاں یہ کرسکتی تھیں ، سیارے ایسا کرسکتے تھے ، پالٹیکس کے موضوغ پر کچھ دیر ٹھہرتے ہوئے میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ سابقہ کیمونسٹ بلاک اور سوویت یونین کی ریاستوں میں آزادی کی موجودہ رو میں آپ موجودہ واقعات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ بیافرا کی نائجیریا سے علیحدگی کی تحریک میں اس رو کا بڑا کردار تھا ؟ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ بیافرا کے ناکام خواب کو کیسا پاتے ہیں ؟ تصور بیافرا تھا کیا ؟ اور آپ کی دانست میں آج بیافرا کو کہاں ہونا چاہئیے ؟ ایشوبے :نائیجیریا سے الگ ہوکر آزاد بیافرا کی اس وقت بہت ضرورت تھی ، کیونکہ بیافرا کی آزادی کی تحریک اصل میں بیافرا کے ستم رسیدہ ، مجبور و محکوم و مقہور عوام کی جبر و ستم ، استحصال اور نسل کشی کے سامنے ڈٹ جانے اور ظالموں ، استحصال کرنے والوں اور جابروں کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کی تحریک تھی ، اس زمانے میں بیافرا کی آزادی کے ژحالف جن کا تعلق زیادہ تر بیافرا سے باہر کے لوگوں سے تھا یا بیافرا کے حاکم طبقات یعنی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی سے تعلق رکھنے والے موقعہ پرست افراد سے تھا اور یہ آزادی کی تحریک کے مقابل " قومی یک جہتی " کی دلیل کے ساتھ سامنے آتے تھے اور یہ اس نوع کے خیالات رکھتے تھے کہ " قوم کی سرحدیں مقدس ہیں " قومی یک جہتی ، سب کا ایک ہوجانا ، قومی سرحدوں کی تقدیس کا یہ بیانیہ ستم رسیدگی ، نسل کشی ، جبر ، ظلم ، استحصال ، محکومیت اور مقہوریت میں زندگی گزارنے والوں کو نہ تو احترام آدمیت دے پاتا ، نہ ہی عوام کو خوشیاں اور ان کی نجات کا پیش خیمہ بننے والے نظام کی آبیاری کرتا نظر آتا تھا، بیافرا والے اپنی آزادی ، خود مختاری ، خوش حالی اور اپنی حاکمیت کے متلاشی تھے جب یہ ساری اقدار ان کو مابعد آزادی نائیجریا جیسی وحدت میں نہ مل پائیں تو انہوں نے الگ ہوجانے اور آزادی کے راستے کو اختیار کرلیا ، لیکن ہماری دنیا میں طاقت اور قوت بھی ایک حقیقت ہیں اور یہ سب تو نائجیریا کے حاکم طبقات اور بالادست قوم کے حاکم طبقات کے پاس تھا تو ایسے میں الگ ہونے اور آزادی کے راستے پر چلنے کی کوشش آپ کو فنا کے گھاٹ اتارنے ، خون ریزی کرنے والی قوتوں اور طاقتوں کے آگے ڈال دیتی ہے تو بیافرا کے عوام کو آزادی اور خود مختاری کی مانگ کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑی مورو : فنا کے گھاٹ اترجانے والے بیافرا کے لاکھوں لوگوں میں بہت بڑی تعداد عام معصوم شہریوں کی تھی جنھوں نے ہتیھار نہیں اٹھائے ہوئے تھے ایشو بے : اور ( لاکھوں لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے بعد ) پھر بھی کوئی ہمیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرے کہ ہم امن قائم کریں گے مورو : ( لاکھوں افراد کی ہلاکتوں کے باوجود بھی ) بیافرا میں تین سال تک مزید جنگ جاری رہی ایشو بے : جی ہاں تقریبا تین برس - کیونکہ یہ انتہائی تلخ تجربہ تھا جس نے پہلے واقعات کا رخ اس جانب موڑا اور پھر یہ جنگ صرف بیافرا اور نائجیریا کے درمیان نہیں رہی بلکہ اس کو طول دینے کے لیے عالمی طاقتیں اس میں کود پڑیں ،، آپ نے دیکھا کہ کیسے بیافرا کے لوگوں کے خون کی اس دوران ارزانی ہوگئی ہم جو دنیا (تھرڈ ورلڈ ) کے چھوٹے لوگ ہوتے ہیں نا مستقل قابل توسیع ہوتے ہیں -بڑی طاقتیں اپنا کھیل کھیلتی ہیں اور بیافرا کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ، چناچہ جب بیافرا کی آزادی کی تحریک کو مکمل طور پر کچل دیا گيا تو ہم صرف یہی کرسکتے تھے کہ واپس لوٹکں اور عوام اپنی زندگياں بچانے کی تلاش کریں ، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہمیں جنگلوں کا رخ کرنا چاہئیے اور جدوجہد جاری رکھنی چاہئیے ، لیکن ایسا کرنا خودکشی کے مترادف ہوتا اور میں نہیں سمجھتا کہ خودکشی کرنی چاہئیے مورو: اگر برطانیہ نے نائجیریا کو غلام نہ بنایا ہوتا ، اگر جنگ عظیم دوم نے برطانوی قوت کی ہوا نہ نکال دی ہوتی جس کی وجہ سے اسے اس ملک کو آزاد کرنا پڑا جسے اس نے صرف چند دھائياں قبل اپنی کالونی بنایا تھا تو کیا ماقبل نائیجریا کے مقامی لوگ اس امر کی ضرورت محسوس کرتے کہ ہر حال میں مختلف اکائیوں میں بٹ جائیں ؟ کیا کسی قوم یا افراد کے گروہ کا افتراق اور الگ ہونا تاریخ کا فطری ناگزیر عمل ہے ؟ ایشوبے :تاریخ کا المیہ ہی یہ ہے کہ جب واقعات کا ایک سلسلہ گزجاتا ہے تو اس کے بعد امکانات کا قیاس کرنا دشوار ہوجاتا ہے - درحقیقت نائیجریا نامی ملک اور نائیجرین نامی قوم برطانیہ کی تخلیق تھے جو پچاس برس سے زائد برطانیہ کے زیر نگين نہیں رہے ، برطانوی راج کے خاتمے کے بعد نائیجریا نامی اس ایک ریاست کے اندر رہنے والوں نے نائیجریا کے تصور کو قبول کرلیا لیکن مابعد نوآبادیاتی دور میں ریاست کا ںطام ٹھیک چل نہیں رہا تھا اور ظاہر ہے اس میں موجود واضح لسانی ، ثقافتی ، قومیتی شناخت رکھنے والے علاقوں کے عوام کو اپنے ساتھ زیادتی ہوتی نظر آرہی تھی اور بیافرا کے لوگوں کو بھی ایسے ہی لگ رہا تھا اور ان کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ برطانیہ کے براہ راست قبضے کے خاتمے کے بعد وہ ایک اور نئے قسم کے نوآبادیاتی دور میں داخل ہوگئے ہیں اور نائیجریا نام کا ایک ملک اور اس کی قوم کو یک جا رکھنے کا بھاشن ان کو اپنے مفادات اور حقوق کے منافی لگنے لگا تھا ، اس زمانے میں امریکہ ، برطانیہ اور سوویت یونین اپنے اپنے معاشی مفادات اور تزویراتی مفادات کے تحت اس ملک کو یک جا رکھنا چاہتے تھے جبکہ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ان کے مفادات کی خاطر نائیجیریا کا یک جا رکھنے کی پالیسی سے بیافرا کے عوام کی ناراضگی دور نہیں ہوتی کیونکہ نائجیریا کی آزادی کے بعد سے لیکر اس وقت تک ان کو آزاد و خودمختار ہونے کا احساس تک نہیں ہوا تھا ، سارے فیصلے تو دارالحکومت سے مسلط کئے جاتے تھے ، جب سے نائجیریا آزاد ملک بنا تھا تب سے اس ملک کے نئے حکمران اپنے سارے فیصلوں کے لیے برطانیہ کی طرف دیکھتے اور برطانیہ کے مشیر ہی ساری پالیسی سازی کررہے تھے جبکہ اس دوران نام نہاد قومی حکومت بھی بیافرا جیسے علاقوں سے ویسا ہی سلوک کررہی تھی جیسا برطانوی نوآبادیاتی مشینری کیا کرتی تھی تو بیافرا والوں کو کبھی بھی حقیقی آزادی اور خودمختاری اور پورے شہری ہونے کا نائیجریا میں احساس ہی نہیں ہوا اور جب اس نئی قسم کی محکومیت ، استحصال ، کالونائزیشن کے خلاف آواز کئی علاقوں میں اٹھی تو وہاں لوگوں کا قتل عام ہوا اور حکومت کھڑی تماشا دیکھتی رہی ، اس کے بعد بیافرا والوں نے آزادی و خودمختاری کی سچی صورت کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کردی میں اتنے طویل اقتباس دینے پر اپنے پڑھنے والوں سے معذرت خوا ہوں لیکن بریڈ فورڑ مورو اور چینیوا ایشوبے کا یہ مکالمہ اور بیافرا کا نائیجریا سے رشتہ بارے تفصیلی بات ہمیں پاکستان اور بلوچستان کے مابین موجود صورت حال کو سمجھنے میں بہت مددگار ثابت ہوگی یہ حقیقت ہے کہ برطانیہ کی جانب سے جنگ عظیم دوم کے بعد ہندوستان کو تقسیم کرنے کا معاملہ ہندوستان اور پاکستان کی اکثریت نے تسلیم کرلیا تھا اور پاکستان جب بنا تو ظاہر ہے اس تصور کو بھی اکثریت نے مان لیا ، اگرچہ پاکستان کے اس تصور کی مخالفت صوبہ سرحد کی اس وقت کی سب سے بڑی سیاسی قوت اور پشتون قوم کے حقوق کی علمبردار خدائی خدمت گار پارٹی نے کی بالکل اسی طرح سے جیسے بلوچستان جو اس وقت ایک صوبے کی شکل میں موجود نہ تھا بلکہ ایک ایجنسی کی شکل میں تھا جس میں جدید ریاست کے قریب قریب اگر کوئی عملداری تھی تو وہ قلات کی ریاست تھی جس کی ایک نیشنل اسمبلی بھی تھی اور اس نے پاکستان سے الحاق نہ کرنے کی قرارداد منظور کی تھی اور پاکستان بننے کے فوری بعد 1948ء میں ہی پاکستان کی فوج قلات اترگئی اور فوجی آپریشن کے نتیجے میں قلات کی آزادی کی پہلی بغاوت کو کچل دیا گیا پاکستان کے حاکم اور بالادست حکمران طبقات جن کا تعلق بدقسمتی سے ایک طرف تو ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے یو پی اور سی پی صوبوں کی اردو بولنے والی اشرافیہ سے تھا اور دوسری طرف اس میں پنجابی اشراف شامل تھے اور یہ بنگالیوں ، سندھیوں ، پشتونوں ، بلوچ سب کو گنوار ، تہذیب و زبان و ثقافت سے عاری اور ان کے حقوق کی مانگ کو سرے سے ہی پاکستان کی سالمیت اور یک جہتی کے خلاف سمجھتے تھے اور انھوں نے قومی یک جہتی ، قومی مفاد اور ملکی سلامتی کا دارومدار ان اقوام کی زبان ، ثقافت ، حقوق سے انکار پر قرار دے ڈالا اور وردری ، بے وردی نوکر شاہی کی طاقت کو ان کو کچلنے کے استعمال کیا اور پاکستان کو جہاں سامراج کی رکھیل بنایا وہیں اس کا مقصد صرف و صرف پنجابی و مہاجر شاؤنسٹ حاکم طبقات کی خدمت قرار دے دیا اور آج بھی صورت حال یہ ہے کہ سب سے زیادہ بلوچ قوم کے اندر یہ احساس جاگزیں ہے کہ وہ پاکستان کی ریاست اور موجودہ جغرافیائی وحدت کے اندر نہ تو حقیقی معنوں میں آزاد ہیں اور نہ ان کے حقوق کو تسلیم کیا جارہا ہے ، ان کے ہاں آزادی ، خودمختاری کی سچی لپک موجود ہے اور اس کے لیے ان کی جدوجہد بھی جاری ہے اب اس سلسلے میں جہاں تک علاقائی اور عالمی قوتوں کی مداخلت کا تعلق ہے تو اس کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے ایشوبے کے الفاظ ميں چھوٹے لوگ مستقل قابل توسیع ہوتے ہیں ، بلوچ اور پاکستان کی ریاست کے درمیان اس وقت جو لڑائی ہے اس میں عالمی طاقتوں کی مداخلت بہت واضح ہے ، ایران آزاد بلوچستان کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس آزاد بلوچستان کا اگلا ہدف صاف صاف ایرانیوں کے زیرقبضہ بلوچستان اور بلوچوں کی آزادی ہوگا ، اسی طرح چین اپنی تجارت اور اپنی فوجی نقل و حرکت کو مخفوظ بنانے کے لیے جس سلک روڈ کی تعمیر کا خواب دیکھ رہا ہے اس ميں آزاد بلوچستان کہیں فٹ نہیں بیٹھتا ، اسی لیے وہ بھی بلوچ آزادی پسندوں سے زیادہ اسلام آباد سے جڑا ہوا ہے ، اس معاملے میں مڈل ایسٹ میں خلیج تعاون کونسل میں شامل ملکوں میں کویت ، بحرین ، یو اے ای ، قطر کی مداخلت کا ثبوپت موجود ہے اور جبکہ سعودی عرب اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ ہے ، امریکہ اور اس کے اتحادی چین کی طاقت کو مستحکم ہوتے دیکھنے کے خواہاں نہیں ہیں اور ہندوستان بھی یہ نہیں چاہتا کہ کشمیر کے پڑوس میں چینی سلک روڈ کی آڑ میں آکر براجمان ہوں لیکن عالمی طاقتوں کی مداخلت اپنی جگہ پر تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ قوم کی ساری جدوجہد عالمی و علاقائی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ہورہی ہے ؟ کیا حقیقی طور پر بلوچ قومی تحریک کی جڑیں اس سماجی تاریخ مادی حالات میں ہے ہی نہیں جو تقسیم کے بعد سے لیکر ابتک رونما ہورہے ہیں ؟ کیا بلوچ حقوق تحریک مصنوعی اور درآمد شدہ ہے ؟ کیا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں ، ماورائے عدالت قتل اور اس طرح کی انسانی حقوق کی پامالی جیسے ایشوز بھی مصنوعی ہیں ؟ اور اس پر جدوجہد کرنے والے سب عناصر علاقائی و عالمی قوتوں کے ایجنٹ ہیں ؟ قومی یک جہتی ، سرحدوں کی تقدیس کے گیت گانے والے ایسے اور اس سے ملتے جلتے سوالات کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بلوچستان کے والے سے جو بھی شور شرابا ہے وہ راء ، سی آئی اے ، موساد کی کاروائياں ہیں اور اس طرح کا شور شرابا کرنے والے غیرملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں ، ان سب کو کچل دینا چاہئیے
پاکستان کی پشتون قوم پرست جماعتیں جن میں اے این پی اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی سرفہرست ہیں ان کو بلوچ قوم کی جدوجہد سے اور ان کے قومی مسائل سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ چینی سرمایہ کاری میں اپنے حصّہ داری کے حصول پر نظریں جمائی بیٹھی ہیں اور کوریڈور کا راستہ بدلنے پر ہی سراپا احتجاج ہیں اور بلوچ قوم پرست پارٹی نیشنل پارٹی کے چیف منسٹر عبدالمالک کو چینی سرمایہ کاری پر بس یہ اعتراض ہے کہ ان کو اس معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا ، ان کی نظر میں بلوچ قوم کی آزادی ، خودمختاری کا سوال سرے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور صوبے کے اندر جو سیکورٹی فورسز ، خفیہ ایجنسیوں اور ان کی پراکسی کی جانب سے بلوچ قومی تحریک کے کارکنوں کی نسلی صفائی کا جو سلسلہ جاری ہے ، اس پر بھی انھوں نے خاموشی کی چادر تان رکھی ہے یہی حال سندھ کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت پی پی پی کا بھی ہے کہ وہ بھی ترقی کے اس نوآبادیاتی اور سامراجی ماڈل کے ساتھ اپنے حصّہ کی یقین دھانی پر راضی ہے اور آصف علی زرداری تو اسلام آباد کی بلوچستان ، چین ، سعودی عرب کے ساتھ حالیہ معاشی اور تزویراتی جڑت پر سرمایہ دار پارٹیوں کا اتفاق بھی ممکن بنانے میں کوشاں نظر آئے ، یہ پاکستان کی بورژوازی سیاسی قیادت کا دیوالیہ پن ہے جو سامنے آرہا ہے اسلام آباد کا بلوچستان پر جو سرکاری بیانیہ ہے وہ اس سے ہٹ کر کسی اور بیانیہ کے وجود اور اس بیانیہ کو پھیلانے کی کوششوں کو برداشت نہیں کررہا ، اس کے پاس 21 ویں آئینی ترمیم سے فوجی ایکٹ میں ہونے والی تبدیلی ، تحفظ پاکستان ایکٹ ، انسداد دھشت گردی ایکٹ ، ساؤنڈ ریگولیشن ایکٹ ، مجوزہ اینٹی سائبر کرائم ایکٹ ، پیمرا ایکٹ جیسے ہتھیار موجود ہیں ، یونیورسٹیوں کو دباؤ میں لینے کے لیے ایجنسیوں کے بدنام ہتھکنڈے موجود ہیں اور پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کے تمام ٹی وی چینلز پر اس نے ایسے اینکرز ، تجزیہ نگار ، صحافی حضرات کی فوج ظفر موج اکٹھی کررکھی ہے جو اسلام آباد کے بلوچستان پر سرکاری بیانیہ سے ہٹ کر آنے والے کسی بھی بیانیہ کو انتہائی خوف ناک بناکر پیش کرنے کی تربیت لیکر آئے ہيں ہارون رشید ، جاوید چوہدری ، انجم رشید ، حسن عسکری ، احمد قریشی ، پارس ، عاصمہ شیرازی سمیت جتنے بھی اینکرز ، تجزیہ نگار ہیں سب کے سب اسلام آباد کی لائن ہی اختیار کئے ہوئے ہیں اور اسے قومی مفاد ، حب الوطنی قرار دینے میں مصروف ہیں پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو مالکان اور اس کے ٹاپ مینجیمنٹ کے زریعے سے بلوچستان کے سوال پر مخصوص قسم کی معلومات کو ہی پاس آؤٹ کرنے کا انتظام کیا گیا ہے اور پنجاب و کراچی کے اکثر شاعر ، ادیب ، دانشور بھی جس میں اب دائیں بازو کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے لوگوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے اسلام آباد کی لائن اختیار کئے ہوئے ہے اور یہ جو سائبر کرائمز کے خلاف قانون سازی کے نام پر اب ایکٹ بنانے کی کوشش ہورہی ہے اس کا مقصد سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے بیانیہ سے ہٹ کر آنے والے بیانیوں کو روکنا ہے اور اس میں خاص طور پر بلوچستان کے معاملے پر سنسر اور معلومات کو روکنے کے لیے اور زیادہ جابرانہ اقدامات کرنا ہے اس ایکٹ میں ایک تو یہ شق بھی ہے کہ پاکستان کے دوست ملکوں پر تنقید بھی جرم ہوگی ، اسی طرح سے قومی مفاد کی کوئی تعریف کئے بغیر اس کے خلاف لکھنے والے کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جاےسکے گآ ، گویا اگر آپ سعودی عرب سمیت گلف ریاستوں کے شیعہ اور صوفی سنیوں کے خلاف کھڑے کیئے جانے والے دھشت گردوں اور نرسریوں کو پروان چڑھانے میں کردار کو بے نقاب کروگے تو آپ اس ایکٹ کی زد میں آجائیں گے ، ایسے ہی اگر آپ نے شاہ سلمان کو کچھ کہا ، چین کی تزویراتی حکمت کے نتیجے میں بلوچ کی تباہی پر کوئی بات کی اور چین کو بھی سامراجی طاقت کہا تو بھی آپ اس ایکٹ کی گرفت میں آجائیں گے ، اسی طرح اگر آپ نے سیکورٹی فورسز ، ایجنسیوں اور اس ملک کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے کسی عہدے دار کے کسی عمل پر انگلی اٹھائی تو بھی آپ ریاست کے مجرم ٹھہر جائیں گے یہ سارے اقدامات ایسے ہیں جن میں پرائمری ہدف جہاں بلوچستان کے خوالے سے مکمل خاموشی کا راج مقصود ہے تو دوسری طرف سعودی عرب اور گلف ریاستوں کے کردار پر پاکستان کے 60 فیصد سنّی بریلوی اور 20 فیصد شیعہ اور اس ملک کے ترقی پسند حلقوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی تنقید اور دباؤ کا سدباب کرنا ہے ، پاکستان کی اس وقت نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتیں ہوں یا سنٹر رائٹ کی پارٹیاں ہوں وہ سب کی سب اس وقت ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ان دو ابتدائی مقاصد میں ہم آہنگ نظر آتی ہیں ، آصف علی زرداری کا حال تو یہ ہے کہ ابھی جبکہ پارلیمنٹ کی بحث جاری تھی یمن پر تو وہ آگے بڑھے اور انھوں نے ہادی حکومت کو جمہوری کہا اور یمن کے حوثی قبائل کے خلاف سعودی جارحیت کی حمائت کی اور اس کی صاف وجہ یو اے ای تھا جس کے حاکموں کی جانب سے دبئی میں حاصل مراعات سے محرومی آصف علی زرداری برداشت نہیں کرسکتے تھے پاکستان کی ملٹری کی قیادت سعودی عرب کے معاملے میں کسی ابہام کا شکار نہیں ہے اس نے زمینی دستے سعودی عرب بھیجنے سے جو معذرت کی اس کی وجہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر سعودی غلامی کا جوا اتار پھینکنے کی خواہش کا جنم لینا نہیں ہے بلکہ اس کی ایک وجہ تو خود پاکستانی فوج کے بلوچستان ، فاٹا میں مصروف ہونا ، اپیکس کی شکل میں پورے پاکستان کے اندر اپنے قدم رکھنا اور ساتھ ساتھ فوج کے اندر مسلکی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم سے بچنا تھا کیونکہ یمن کے معاملے میں زمینی دستوں کو بھیجنا بہت واضح طور پر فوج کے اندر سنّی بریلوی اور شیعہ افسران اور سپاہیوں میں بے چینی پھیلنے کا سبب بنتا اور اس کے داخلی سطح پر بھی نتائج بہت برے نکلنے تھے ، اس لیے چپکے سے سعودی عرب کی لاجسٹک سپورٹ اور انسٹرکٹر سپورٹ پر اکتفاء کرلیا گیا پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے اس ملک کے شیعہ ،صوفی سنّی ، کرسچن ، ہندؤ ہزارہ ، زکری ، احمدی اور سیکولر لبرل انٹیلی جنٹیسیا کے سامنے یہ تاثر دیا ہے کہ وہی ان کو دیوبندی تکفیری دھشت گردوں سے بچا سکتی ہے جبکہ اس نے اپنی نجات دہندگی کے اس تاثر کے ساتھ ان مذھبی اور نسلی برادریوں سے یہ امید رکھی ہے کہ وہ بلوچستان پر اس کے بیانیہ کی حمائت کریں گے اور اسی طرح سے کم از کم شیعہ اور سنّی بریلوی اس کی ڈیپ سٹیٹ پالیسی کی جو اینٹی انڈیا جہت ہے اس کی مخالفت نہیں کریں گے ، اور اس میں کسی حد تک اسے کامیابی ملی ہے ایک طرف تو سنّی اتحاد کونسل ، پاکستان عوامی تحریک ، جے یو پی (سارے دھڑے ) سب کے سب بلوچستان پر اسلام آباد کے بیانیہ پر ایمان رکھتے ہیں تو دوسری طرف مجلس وحدت المسلمین ، جعفریہ الائنس ، شعیہ علماء کونسل ، تحریک جعفریہ سمیت دوسرے گروپ بھی بلوچستان کے حوالے سے عسکری اسٹبلشمنٹ کی لائن کو حب الوطنی اور اسلام دوستی کا تقاضا خیال کررہے ہيں جبکہ دیوبندی اور سلفی مذھبی جماعتیں ، جماعت اسلامی تو بلوچستان کے اندر اسٹبلشمنٹ کی پراکسی کے لیے درکار کیڈر تک فراہم کررہی ہیں جیسے انھوں نے بنگالیوں کے خلاف البدر و الشمس بناکر فراہم کئے تھے دیوبندی مکتبہ فکر میں عسکریت پسندی ، ریڈیکلائزیشن ، طالبنائزیشن کا سب سے مضبوط پروپیگنڈا سنٹر الرشید ٹرسٹ کے تحت چلنے والا روزنامہ اسلام ، ہفت روزہ ضرب مومن ،خواتین اور بچوں کے لیے شایع ہونے والے رسالوں ميں چینی پروجیکٹ کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں اور بلوچستان پر اسلام آباد کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی لائن اختیار کی گئی ہے اور اس حوالے سے مضامین کی بھرمار ہے جبکہ راء ، سی آئی اے ، موساد کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے اسی طرح سے پروفیسر ساجد میر کی تنظیم کا مجلہ " ماہنامہ اہلحدیث " اور جماعت دعوہ کا ماہنامہ " الحرمین " اور ہفت روزہ اخبار " جرار " بھی اسی طرح کی قصّہ کہانیوں سے بھرا ہوا ہے صاف لگتا ہے کہ اسلام آباد کی سرخ عمارت سے سارا سکرپٹ لکھا ہوا آیا اور اس کی پیروی کی جارہی ہے
کشمیر میں اچانک تیزی سے واقعات کی تبدیلی اور علی گیلانی کا سامنے آنا اور کشمیر لبریشن فرنٹ نامی تنظیم کی سرگرمیاں جوکہ اصل میں جماعت دعوہ ، لشک طیبہ، جیش محمد ، پاکستانی حزب المجاہدین ، البدر اور دیگر دیوبندی ، وہابی عسکری تنظیموں کی ایک کور پراکسی ہے اور اس کے پیچھے کون ہے سب جانتے ہیں اور پاکستان میں بھی ان سب عسکری اور فرقہ پرست دیوبندی ، وہابی گروپوں کو تحفظ حاصل ہے جن کی قیادت واضح طور پر پاکستان سے بغاوت کرنے والے دیوبندی ، وہابی تکفیری جہادیوں سے اعلان لاتعلقی کرچکی ہے اور ان گروپوں میں اگر کئی سہولت کار موجود ہے تو اسے پکڑ لیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے دیوبندی اور سلفی پس مںظر کے نام نہاد جہادی فلسفے کی سرپرستی مکمل طور پر بند نہیں کی ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کو اپنی ریزرو فورس سمجھے جانے کی پالیسی کو ترک کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابتک اہلسنت والجماعت (سپاہ صحابہ پاکستان ) پر کوئی پابندی نہیں لگ سکی ہے بلکہ سعودی عرب کے یمن بحران کے عروج کے دنوں میں پاکستان آنے والے سرکاری حکام تو اسلام آباد اور نام نہاد جہادیوں کے درمیان رشتے اور مصبوط کرکے گئے ہیں کراچی آپریشن جسے ابھی کل ہی چیف آف آرمی سٹاف نے اے پولیٹکل قرار دیا جو رخ اختیار کرگیا ہے اور اس دوران یہ جو زوالفقار مرزا ایپی سوڈ سامنے آیا ہے اس سے بھی بے یقینی کی ایک فضا سامنے آئی ہے کہ اس آپریشن کا اب مقصد اسلام آباد کے بلوچستان بیانیہ اور اس کی جہادی پراکسی پر تنقید کرنے والوں کو سبق سکھانے اور اپنے منحرف جہادیوں کو پولیس ، رینجر ان کاؤنٹر میں پار کرنا رہ گیا ہے جبکہ تکفیریت اور خوارجیت پر مبنی دھشت گرد پالیسی کے لیے جو سہولت کار مراکز ہیں ان کو چھیڑا بھی نہيں جارہا ، میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کی فوجی قیادت نے بھی وفاق المدارس سے سمجھوتہ کرنے میں عافیت جانی ہے جیسی عافیت نواز شریف اور زرداری نے تلاش کی تھی
آنے والے دنوں میں پورا سچ بولنے والوں کو مزید مشکلات اور حبس فکر کا سامنا کرنا پڑے گا اور لبوں کو سینے کی مزید کوشش کی جائے گی اور یہ صورت حال حقیقی آزاد دانش وروں اور لکھاریوں کے لیے بہت بڑی مشکلات کا سبب بنے گی ، پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی ، سچ بولنے کا حق اور ریاستی و غیر ریاستی فاشسسٹوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش سب کے لیے ایک نئی جدوجہد کا آغاز وقت کی اہم ضرورت ہے اور میں اسی جدوجہد کو آج کی ترقی پسندی اور سامراج دشمنی قرار دیتا ہوں

Monday, May 4, 2015

ذوالفقار مرزا -زرداری ساگا ۔۔۔۔۔۔۔ سچائی کا سینڈروم


کبھی ہم تم بھی تھے آشنا
سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور کسی زمانے میں آج کی پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے سب سے گہرے دوست اور ہم راز زوالفقار مرزا جن رازوں سے پردہ اٹھارہے ہیں ، اس سے پاکستان کے سیاسی و صحافتی حلقوں کے ہاتھ ایک نیا موضوع ہاتھ لگ گیا ہے ، جس میں چٹخارہ بھی ہے اور بہت سی ناآسودہ خواہشات کی تسکین بھی ہے اور سوشل میڈیا پر تو اس حوالے نئے نئے چٹکلے چھوڑے جارہے ہیں لیکن مرے جیسے سیاست کے طالب علم کے لیے اس ساری قسط میں بہت سے اسباق پنہاں ہیں
میں نہ تو زوالفقار مرزا کے انکشافات پر اس کو پاکستان کی عوام کا محسن قرار دیتا ہوں اور نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی ، سندھ کے عوام کو استحصال سے نجات دلانے کے خواہش مند ہیں ، نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کا جو سیاسی فلسفہ تھا کہ اسلام ہمارا دین سوشلزم ہماری معشیت طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں پر ان کا کوئی ایمان تھا بلکہ وہ تو 80ء کی آخری دھائی میں شہید بے نظیر بھٹو کی " عملیت پسندی " کی پالیسی سے متفق ہونے والوں میں شامل تھے اور اس " عملیت پسندی " سے وہ اس گندی پاور پالیٹکس تک پہنچے تھے جو پیپلزپارٹی کے اندر جہانگیر بدر ، رانا شوکت سمیت ان سب رہنماؤں نے متعارف کروائی تھی جو ضیاء الحق کے کیمپ کے سرمایہ دار سیاست دانوں کی دولت کی چمک سے متاثر ہوکر ان جیسے بننے کا نام نہاد عملیت پسند فلسفہ سامنے لیکر آئے تھے ابھی پچھلے دنوں " کلاسیک " کے مالک اور معروف پبلشر اور مصنف ، زوالفقار علی بھٹو کے رفیق آغا امیر حسین سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے بہت تفصیل سے پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی فلسفے کی تباہی اور 88ء سے لیکر 97ء تک ہونے والی بربادیوں کی داستان سنائی ، انھوں نے مجھے بتایا کہ کیسے 88ء میں پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کو چلانے کی زمہ داری ان کے کندھے پر ڈالی گئی اور کیسے پی پی پی پنجاب کے عہدے دار اس حوالے سے ملنے والے تمام عطیات کو کھا پی گئے اور آغا امیر حسین کو اس زمانے میں کئی لاکھ روپے کا مقروض کرادیا اور اس سلسلے میں جب انھوں نے بیگم نصرت بھٹو کو خط لکھا تو ان کی اس وقت کی پولیٹکل سیکرٹری رخسانہ بنگش نے ان کو کہا کہ بیگم بھٹو ان سے ملنا چاہتی تھیں اور جب آغا امیر حسین بیگم بھٹو سے ملنے پہنچے تو پہلے تو کہا گيا کہ بیگم نصرت بھٹو کی طبعیت ناساز ہے اور جب انھوں نے بہت اصرار کیا تو پھر ان سے ملاقات ہوئی تو بیگم نصرت بھٹو نے سارے معاملے سے اعلان لاتعلقی کیا اور آغا امیر حسین کو کہا کہ وہ پنجاب پیپلزپارٹی پر مقدمہ کردیں ، آغا امیر حسین نے ان سے کہا کہ پارٹی لیٹر پیڈ پر اپنے دسخطوں سے لکھ کر دیں ، انھوں نے اسے لکھ کردیا ، آغا امیر حسین اب اس لیٹر کے عکس کو اپنی آنے والی دھماکہ خیز سوانح عمری میں چھاپ رہے ہیں ، آغا امیر حسین کہتے ہیں کہ جب پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی میں شہید بے نظیر بھٹو کی امریکہ نواز ، سرمایہ داری کی بدترین شکل نیولبرل ازم کی مخالفت بڑھنے لگی ، سنٹرل کمیٹی کے اکثر اراکین نے بے ںظیر بھٹو کو کہا کہ وہ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے طرز سیاست اور ضیاء الحقی سیاست کے ایمان " دولت ، طاقت ، دھونس " کے حصول کو عملیت پسند سیاست کا نام دینے والوں کا ساتھ نہ دیں تو انھوں نے سنٹرل کمیٹی کی میٹنگ میں " خصوصی مدعوین " کی بدعت کا سلسلہ شروع کیا اور یہ " شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار " سنٹرل کمیٹی کے ان اراکین کو بولنے ہی نہیں دیتے تھے جو پی پی پی کے سیاسی فلسفے سے انحراف اور کارکن دشمن پالیسوں کے مخالف تھے آغا امیر حسین کہنے لگے کہ
"گلزار ہاؤس میں ایک اجلاس کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے حاضرین اجلاس سے تجویز مانگی کہ پی پی پی کے اندر نئی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے تو سنٹرل کمیٹی کے کئی ایک انتہائی کمیٹڈ راکین نے ان کو مشورہ دیا کہ ایک تو پارٹی کے اندر صاف اور شفاف انتخابی جمہوریت کو متعارف کروایا جايا ، دوسرا کرپشن اور بدعنوانی کو سنگین ، ناقابل معافی جرم قرار دیا جائے ، جو وزیر ، عہدے دار اس کا مرتکب ہو اس پر پارٹی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردئے جائیں ، یہ تجویز جوں ہی سامنے آئی تو جہانگیر بدر ، رانا شوکت سمیت پی پی پی کے کئی ایک بڑے بڑے نام تلملا اٹھے ، یہ سب وہ لوگ تھے جن کی نظریں اقتدار سے جڑے زاتی مفادات پر تھی اور وہ خوب مال بنانا چاہتے تھے ، ضیاء آلحق کی نرسری کے گملوں میں اگںے والے جعلی سیاست دانوں کے ٹھاٹھ دیکھ کر ان کی رال بری طرح ٹپک رہی تھی ، جہانگیر بدر نے کہا کہ بی بی ! ہمیں نواز شریف کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اراکین اسمبلی و ممبران سینٹ اور پارٹی عہدے داروں کو مالی طور پر مضبوط کرنا ہوگآ ، ان کی بھی ملیں ، کارخانے ، شوگر ملیں ہوں گی ، دولت ہوگی تو نواز شریف کی چمک کی سیاست کا مقابلہ کیا جاسکے گآ میں نے (آغا امیر حسین ) نے بی بی کو کہا کہ اگر آپ نواز شریف اینڈ کمپنی کے پیٹرن پر نواز شریف کا مقابلہ کرنے کی سوچ رہی ہیں تو بھول جائیں کہ پنجاب میں پی پی پی کی سیاست 70ء جیسی دھائی کا عروج دیکھے گی ، کیونکہ اینٹی بھٹو نواز شریف سیاست کے علمبرداروں کی جیبوں میں بیسیوں فیزبیلٹی پڑی ہوتی ہیں ، یہ نہیں تو وہ نہیں ، آپ کے وزیر کوئلے کی دلالی میں منہ کالا ہی کریں گے ، نواز شریف اور اس کے جملہ رفقاء کا کچھ نہیں بگڑے گا اور اس سے پی پی پی کی عوامی سیاست کا جنازہ بھی نکلے گآ لیکن بی بی اپنے وزیروں کی زیرے جتنی کرپشن کو نوآز شریف کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے ناگزیر خیال کرنے لگ گئی تھیں " آغا امیر حسین کہتے ہیں کہ پی پی پی میں موقعہ پرست ، تمام بوالہوس بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کے گرد اکٹھے ہوگئے اور آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کے لیے سرمایہ دار ، بزنس مین ، زر پرستوں کو تلاش کرنے میں لگ گئے ، ڈیرہ اسماعیل خان کے گلزار اینڈ کمپنی ان کی دریافت تھے اور ایک وقت وہ آیا جب پی پی پی کی سیاست جین مندر کے عوامی دفتر سے نکل کر گلزار پیلس میں مقید ہوگئی اور کمیشن ، ککس بیکس ، نوکریاں بیچنے ، پرمٹ ، ٹھیکے عجیب عجیب اسکینڈل نکل کر سامنے آئے ، بے ںظیر بھٹو کی جب 90ء میں حکومت کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کی گئی تو پارٹی کی سینٹرل کیمٹی کے اجلاس میں سنٹرل کیمٹی کے بعض درمند اراکین نے وزراء کی کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھائی تو بے ںظیر بھٹو نے کہا کہ نوآز شریف اور ان کے ساتھی اونٹ کے اونٹ کھاگئے کوئی شور نہیں مچا لیکن مرے وزراء کی زیرے جتنی کرپشن اسٹبلشمنٹ کو برداشت نہ ہوئی یہ تذکرہ بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد نے اپنی سوانح عمری " جہد مسلسل " ميں جگہ جگہ کیا ہے ، اسی طرح کی داستان ہمیں " طاقت کا سراب " میں ڈاکٹر مبشر حسن کے ہاں نظر آتی ہے ، یہی تذکرہ " علی جعفر زیدی " ایڈیٹر ترجمان پی پی پی ہفت روزہ " نصرت " نے اپنی آب بیتی " باہر جنگل ، اندر آگ " میں کیا ہے
انھوں نے لکھا کہ 2007ء میں لندن میں سندھ کے ایک سیاست دان نے اپنے گھر ڈنر کا انتظام کیا ہوا تھا اور اس ڈنر ميں بے ںظیر بھٹو شہید بھی شریک تھیں ، وہیں پر ان کی ملاقات مخدوم امین فہیم سے ہوئی ، علی جعفر زیدی سے بہت عرصہ بعد ملاقات ہوئی تھی تو مخدوم امین فہیم اور علی جعفر زیدی کے درمیان پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا تذکرہ چل پڑا اور بار بار " نصرت " اور اس کی ادارت کا زکر بھی آیا ۔ اس وقت ایک شخص مخدوم امین فہیم کا بریف کیس تھامے ان کے سامنے مودب ہوکر بیٹھا تھا ، اس کے بارے میں علی جعفر زیدی نے خیال کیا کہ یہ مخدوم کا کوئی سیکرٹری ہوگا ، مخدوم تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر گيا تو اس آدمی نے عللی جعفر زیدی سے سوال کیا " کیا آپ بیگم نصرت بھٹو کے ایڈیٹر تھے " علی جعفر زیدی کہتے ہیں مجھے پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا جب بات سمجھ آئی تو ميں کف افسوس ملنے لگا کہ مخدوم امین فہیم کا سیکرٹری اس قدر جاہل ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایڈیٹر رسائل و اخبارات و میگزین کے ہوتے ہیں ، زندہ انسانوں کا کون ایڈیٹر ہوتا ہے ؟ اور پھر اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ " نصرت " نے پی پی پی کی تشکیل سے اس کی تہلی فتح تک کیا کردار ادا کیا تھا علی جعفر زیدی کہتے ہیں کہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ امین فہیم کا سیکرٹری نہیں بلکہ راجہ پرویز اشریف فور پی کے جنرل سیکرٹری تھے اور پی پی پی کے وزیراعظم بھی بنے وہ پاکستان پیپلزپارٹی جس کی قیادت ایک زمانے میں جے اے رحیم ، شیخ رشید ، ڈاکٹر مبشر حسن ، علی جعفر زیدی ، حسین نقی اور ان جیسے کئی اور ذھین و فطین اور اعلی دماغوں کے ہاتھ تھی ، اس کی میراث کیسے لوگوں کے ہاتھ لگی ، اس المیے پر جتنے بھی اشک بہالئے جائیں کم ہیں آصف علی زرداری کی شکل میں پیپلزپارٹی کی " عملیت پسندی " سیاست بدترین دیواليہ پن اور ان ساری بیماریوں سے لتھڑگئی جو پہلے کئی ایک خوبیوں اور کرداری خصوصیات کے ساتھ ساتھ موجود ضرور تھیں لیکن اب تو برائی ، برائی رہ گئی ہے ، پی پی پی کی سیاست کا قبلہ ضیاء الحق کی دھن دھونس اور موقعہ پرستی و زرپرستی کی سیاست رہ گئی ہے ، وہ سیاست جو پاکستان کی سنٹر رائٹ اور فار رائٹ سیاسی جماعتوں کا امتیازی نشان تھی ، اب پی پی پی کا بھی امتیازی نشان ہے زوالفقار مرزا نے جتنی بھی باتیں اور راز کھولے ہیں ان کا اعتبار اس لیے بھی کیا جارہا ہے کیونکہ وہ آصف علی زرداری کی جلوتوں اور خلوتوں کے شاہد ہیں اور انھوں نے لانڈھی جیل میں ، پمز میں آصف علی زرداری کی زندگی کے حفیہ گوشوں پر سے پردہ جو اٹھایا ہے اس کی صداقت کو کلی طور پر اگر تسلیم نہ بھی کیا جائے تو اس میں بہت ساری صداقت موجود ہے اور زوالفقار علی مرزا " آصف علی زرداری " کے خلاف " مارو یا مرجاؤ " مشن پر ہیں ، انھوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ قبر ایک اور اس کے لیے نشانہ دو ہیں اب اس ميں یا ان کو جانا ہے یا ان کے سابق دوست آصف علی زرداری کو جانا ہے " ذوالفقار مرزا کہتے ہیں کہ انھوں نے جھوٹ بول کر آصف علی زرداری اور بے ںظیر بھٹو کی علیحدگی رکوائی تھی اور ان کا کہنا ہے کہ وہ آصف علی زرداری اور ان کے اردگرد سارے مالشیوں سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور فریال تالپور کے بارے ميں ان کا کہنا ہے پی پی پی کی تباہی کی زمہ دار یہ خاتون ہے زوالفقار مرزا کی اس بات میں کچھ سچائی اس لیے بھی ہے کہ پی پی پی کے کئی ایک مخلص ساتھیوں نے بیگم فریال ٹالپر کو مصدقہ اور ثبوت کے ساتھ پی پی پی کے کئی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے نواز شریف و شہباز شریف سے روابط اور آنے والا الیکشن مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے لڑنے کے عزائم بارے خبردار کیا اور یہاں تک کہ ایک قومی اسمبلی کا رکن ایسا بھی تھا جس کو 2 ارب سے زیادہ ترقیاتی فنڈ دئے گئے اور اس کے ضلع کے تمام وفاقی محکموں پر اس کو کنٹرول دیا گيا جب وہ سرور چودھری کے زریعے رائے ونڈ جاتی امراء میں نواز شریف سے ملاقات کررہا تھا تو اس کی ملاقاتوں کا تصویری ثبوت فریال ٹالپر کو بھجوایا گیا ، ان میں سے کئی ایک ثبوت اس راقم نے اکٹھے کئے تھے تو فریال ٹالپر ، خورشید شاہ ، نذر گوندل ، رحمان ملک اس کی حمائت میں آگے آئے ، یہ سب لوگ وہ تھے جن کو اس رکن قومی اسمبلی نے جو جنوبی پنجاب کا ایک بڑا بزنس مین بھی تھا زیرو میٹر گاڑیوں کے تحفے دئے تھے اور اس کو کھاد بنانے کا ایک سرکاری کارخانہ کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا اور زرعی مداخل کی مد میں کرڑوں روپے کی سبسڈی بھی دی گئی اور جب وہ مسلم ليگ نواز کو پیارا ہوا تو اپنے ساتھ پی پی پی کے ایسے ایسے کارکنوں اور پی پی پی کی پوری تنظیم کو لے گیا جنھوں نے ضیآء کے پرآشوب دور میں بھی کوئی ہلکی حرکت نہیں کی تھی ، کیا کیا لکھا جائے ، پی پی پی کے وکلاء ونگ کا مرکزی جنرل سیکرٹری ایسے شخص کو بنایا گيا ہے جو افتخار چوہدری کے خاص مصاحبان میں شامل ہوتا ہے اور اس نے عاصمہ جہانگير کو ہروانے کے لیے ملتان میں پورا پورا کردار ادا کیا اور اس نے خانیوال میں پی پی پی کا یہ حال کیا کہ وہاں اب یہ وارڈ کونسلر کا الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور ایک زمانہ تھا کہ پی پی پی کے میڈیا ٹرائل کے عروج کے دنوں ميں یہ شخص مسٹر ٹین ، مسٹر ٹوئنٹی پرسنٹ کی گردان کرکے پی پی پی کی تباہی کے رونے روتا تھا اور " بھٹو کا یہ خودساختہ سپاہی " ایک زمانے ميں ملتان لاء کالج میں جبار مفتی صاحب کے ساتھ ایم ایس ایف کا امیدوار تھا ، آصف علی زرداری کی دوستی کا شرف ہر اس آدمی کو حاصل ہوا جس نے پی پی پی کے سیاسی فلسفے کو پیروں تلے روندنے میں کوئی شرم ، حیاء محسوس نہ کی اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کو اپنی سیاسی بصیرت قرار دینے پر اصرار کیا ، آصف علی زرداری کا انتخاب پنجاب میں مںظور وٹو ، سرائیکی وسیب میں مخدوم احمد محمود جیسے لوگ ہیں اور پی پی پی کی جسے ورکرز قیادت کہا جاتا ہے اور نائب صدر میاں چنوں کا ایسا مخدوم زادہ ہے جس کو پی پی پی کے غریب ورکرز کیڑے مکوڑے لگتے ہیں اور پی پی پی پنجاب کا جنرل سیکرٹری اشرف کائرہ ںذیر قیصر کے بیٹے جنید قیصر کے سوشل میڈیا لاہور کا انچارج بننے پر کہتا ہے " ایہہ کیہڑا چوڑھا ساڈھے تے مسلط کیتا اے ، اس سوچ کے مالک کو بھلا شہباز بھٹی کی قربانی سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے (جہانگیر بدر سے لیکر قمرالزمان کائرہ تک اور وہاں سے پی پی پی جنوبی پنجاب کے دیہاڑی باز اور جھوٹ و مکاری کے فن میں یکتا نام نہاد ورکر عہدے داروں تک سب کا " کمال سیاست " " بھاگ لگے رہن بادشاہیاں قیم رہن " کے وظیفے کی گردان ہے اور جب کبھی ان میں کسی ایک کی آنکھ لگے اور اس کو بھٹ سے باہر پھینک دیا جائے تو اسے زوالفقار مرزا کی طرح سچ کی الٹیاں ہونے لگتی ہیں ۔ ایسی الٹیاں آج کل سرائيکی وسیب کے لیہ سے تعلق رکھنے والے تحقیقی صحافت کے عظیم علمبردار صحافی کو لگی ہیں لیکن یہ سچ کی الٹیاں اسے بھی اسی لیے لگیں کہ اب وہ " مصاحب شہ " نہیں رہا ،کہا جاتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی جب اسپیکر قومی اسمبلی تھے تو اس کی پرائمری اسکول میں پڑھانے والی اہلیہ کو آؤٹ وے جاکر بیوروکریٹ بنایا گیا تھا اور اس کی بستی کو کڑورں روپے کی مالیت کے ترقیاتی گرانٹس بھی جاری کی گئیں ، مجھے اس پر کوئی اعتراض اس لیے نہیں ہے کہ یہ الزامات تو اس صحافی کا قد اور بڑا کرتے ہیں کہ ایک تو میں زاتی طور پر جانتا ہوں کہ اس کی اہلیہ کس قدر قابل اور ذھین فطین تھی جسے ایم اے انگریزی کرنے کے باوجود حکومت ایک پرائمری اسکول کی جاب ہی آفر کرسکی اور پھر اس صحافی نے اپنی بستی کو گیس ، پکّی سڑکیں ، سیوریج اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے دلوادیا تو اس میں برائی کیا ہے ، اصل معاملہ یہ ہے کہ دیکھنا یہ چاہئیے کہ یہ دیکھا کہ ہسڑیائی یا مالیخولیائی طرز کی حالت میں " سچ بولنے " کا یہ عمل شروع کب ہوا ، مجھے اس صحافی نے ایک ملاقات میں اسلام آباد میں خود بتایا تھا کہ " ایوان صدر میں روزانہ کی بنیاد پر زرداری یاترا کے دوران کس موڑ پر زرداری کی جانب سے ان کی بڑی اناؤں کو ٹھیس پہنچانے اور ان کو آئینہ دکھانے پر "ٹٹ گئی تڑک کرکے " والا معاملہ ہوگیا اور پھر سلمان فاروقی کی سفارش بھی زرداری یاتراء بحال نہ ہوئی تو ان کی حکومت کو روز رات کو خواب میں گرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا " وہ سٹوری میں نے لاہور سے شایع ہونے والے ایک ہفت روزہ " ہم شہری " میں پوری تفصیل کے ساتھ شایع کی تھی تو یہ قربت زرداری سے سرفرازی میں روکاوٹ پیدا ہونے پر پیدا ہونے والی ہسٹریائی کیفیت ہے جس کا شکار ذوالفقار مرزا بھی ہیں اور کئی ایک اور لوگوں کی بھی یہی حالت ہوئی ہے ، اس دوران یہ سب اپنے آپ کو " زیوس " دیوتا ثابت کرنے کی جو کوشش کررہے ہیں وہ سٹیج پر کھیلے جانے والی ایک تھرڈ کلاس کامیڈی / طربیہ کے سواء کچھ نہيں ہے ہم نے یہ تھرڈ کلاس طربیہ ڈرامے جس میں انتہائی جنون کے ساتھ " سچ اور احتساب " کے علمبردار جوکر سٹیج پر اداکاری کرتے دیکھے ہیں ، بریگیڈیر امتیاز عرف بلاّ کا سچ ، اس سے بہت پہلے ایف ایس ایف سربراہ مسعود کا سچ ، پھر سندھ کے قصائی " جام صادق " کے سچ ، لاڑکانہ میں عین بھٹو کی لاش کے دفنانے سے پہلے " اقتدار کے خواب دیکھنے والا " بھٹو کا ٹیلنٹڈ کزن کے سچ ، نواز شریف کے خلاف ظیارہ ہائی جیکنگ کیس کیس میں مدعہ معاف گواہوں کے " سچ " سابق ایس پی راؤ انوار کا " الطاف حسین " کے خلاف " سچ " اور صولت مرزا ، جاوید لنگڑا اور کسی لمبے ومبے کا "سچ " یہ سارے " سچ " اسی مالخولیائی کیفیت میں بولے جانے والے سچ ہیں جس میں کہیں کہیں ہمیں " فرشتوں کا ہاتھ بھی ان "سچائیوں " کی فریمینگ اور فریزنگ میں نظر آتا ہے ۔ یہ ایسے ہی سچ ہیں جیسے قدرت اللہ شہاب نے " شہاب نامہ " اور الطاف گوہر نے " لکھتے رہے جنوں کی حکائت " میں رقم گئے تھے اور اپنے آپ کو خود آپ ہی مدعی ، منصف بنکر رہا کروالیا تھا اور اپنے معتوبین کے سنگساری کی سزا تجویز کی تھی ، مجھے ضیاء الحق کے زمانے میں ایک پنجابی فلم کا انتہائی مقبول ہونے والے گیت کے اولین بول یاد آرہے ہیں ، غالبا گیت فلمسٹار انجمن پر فلمایا گیا تھا
ایتھے اسی نی خراب ایتھے سارے نے جناب جدوں ہووئے گا حساب ادوں ویکھ لیواں گے آصف علی زرداری نے اس ساری صورت حال پر کہا تھا دیکھا جو تیر کھاکے کمین گاہ کی طرف اپنے ہی دوست سے ملاقات ہوگئی لیکن لگتا ہے " از خود ترحم آمیزی اور خود ترسی " کی جو حالت وہ پیدا کرنا چاہتے تھے وہ پیدا نہ ہوسکی تو میدان میں شرمیلا فاروقی ، شہلا رضا کو اتارا لیکن شرمیلا تو بہت کمزور ستون تھا ، زوالفقار مرزا کی زبان ہے کہ اس نے رکنے کی بجائے اور تیز چلنا شروع کردیا اور کئی اور راز اس مالخولیائی حالت میں طشت از بام ہوگیا ذوالفقار مرزا سندھ کے کوئی "کمّی " " ہاری " جو کوئی کمزور پس منظر جیسے ديگ پکائی کا کام کرنے والے کسی کامے کے بیٹے تو نہیں ہیں اور نہ ہی وہ " مڈل کلاسیے " ہیں جو بقول مارکس دیکھتے آسمان کی طرف اور پاؤں کیچڑ میں دھنسائے ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے ان کے خلاف پولیس کا ہتھیار استعمال کرنے کا الٹا نقصان ہورہا ہے وہ سیالکوٹ کے " ملک سلمان " بھی نہیں ہیں جنھوں نے بھٹو صاحب کو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سنبھالے رکھنے کی پی پی پی کی قرارداد پر دستخط نہ کئے اور یوں تین ارکان کے دستخط کے بغیر یہ قرارداد اسمبلی سے منظور ہوئی تو بھٹو صاحب سے سیاسی پینترہ بدلا اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا لیکن اجلاس ختم ہونے کے بعد جب وہ اسمبلی سے باہر آرہے تھے تو انھوں نے دستخط نہ کرنے والے ملک سلمان سے ٹاکرا ہونے پر کہا " اوئے بہن ۔۔۔۔۔۔۔ تیری اوقات کیا ہے تو پولیس کے ایک ایس ایچ او کی مار ہے " بھٹو صاحب نے حمید جتوئی کو تو معاف کردیا کیونکہ وہ ایک سندھ کا بڑا وڈیرہ تھا اور محمود قصوری کی وکالت ان کو بچاگئی لیکن سلمان اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ایف ایس ایف اور پولیس نے جو کیا وہ بہت شرمناک تھا ، زرداری ذوالفقار مرزا کو سبق سکھانے کے لیے بہت سے داؤ استعمال کرنے والے ہیں لیکن ان کو شاید پی پی پی کی تاریخ کے ایسے لمحات میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کے نتائج و عواقب کا اندازہ نہیں ہے ، مرا مشورہ ہے کہ دل پر جبر کرکے ان کو حیات اللہ خان نیازی المعروف کوثر نیازی کی " اور لائن کٹ گئی " رفیع رضا کی کتاب " این انکوائری آف ہسٹری آف پی پی پی " ڈاکٹر مبشر کی " طاقت کا سراب " علی جعفر زیدی کی " باہر جنگل ، اندر آگ " اور خود ذوالفقار علی بھٹو کی " اگر مجھے قتل کیا گیا " پڑھ لینی چاہئیے اور ان کو شیرباز مزاری کی آٹوبائیوگرافی پڑھ لینی چاہئیے تاکہ ان کو پتہ چلے کہ جس " کاریگری " اور چالاکی " کو انھوں نے سیاست ميں کامیابی کی کنجی قرار دیا وہ کتنی ناپائیدار ثابت ہوئی اور کس قدر بیگانگی " مخلص " جانثاروں میں پیدا ہوئی ۔ پی پی پی کے سیاسی فلسفے کی اس کے لیڈروں کے ہاتھوں پامالی اور نسیا منسیا کردینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ ایک کرکٹ کے کھلاڑی ، جوانی میں پلے بوائے کی شہرت رکھنے والے اور حال میں مسٹر طالبان خان کے لقب سے ملقب ہونے ایک شخص کو اعتبار بخشنے لگی ہے ، اب اس سے زیادہ اور کیا لکھوں کیوں جس قدر پردے اٹھیں گے ، پیٹ اپنا ہی ننگا ہوگا ، اس سے کسی بے شرم کو شرم تو آنے سے رہی ، ویسے بھی اب تو اس فقرے کو بھی ان لوگوں نے اچک لیا جن کا اپنا اعتبار مشکوک ہے مطلب یہ کہ " کوئی شرم ہونی چاہئیے ، کوئی حیاء ہونی چاہئیے " کس منہ سے یہ فقرہ کہوں سمجھ سے بالاتر ہے ، مجھے تو یہ کالم لکھتے ہوئے جہاں خون جگر میں انگلیاں ڈبونا پڑیں ، وہیں متاع دل و جاں لٹنے کا احساس مارڈالتا رہا ، اس دوران مجھے گڑھی خدا بخش میں دفن لاشوں کی پرچھائیں بھی دکھائی دیتی رہیں ، وہ کچھ بولتی تو نہیں تھیں لیکن لگتا ایسے تھا کہ اپنی قبروں پر آنے والے غریب ہاری ، کسان ، مزدور ، طالب علموں ، اقلیتوں کے نمائندوں سے شرمسار دکھائی دیتی تھیں جو ان کو اپنا چارہ ساز ، غمگسار ، مسیحا اپنی زندگی ميں سمجھتے رہے اور جب یہ سمجھوتوں کے باوجود شہید کردئے گئے تو ٹپکتی چھتوں والے غریبوں ، دیہات کے کسانوں ، ہاریوں ، غریبوں ، کمیوں نے ان کو " ولائت اصغر " پر فائز کرڈالا اور اب اپنے ہاں " اولاد " ہونے ، اپنی کنواری بیٹیوں کی شادی بالوں ميں چاندنی اترنے سے پہلے ان کے ہاتھ پیلے کرنے ، بیماروں کی شفا کے لیے ان کی قبروں پر آکر منتیں مانتے اور چڑھاوے جڑھاتے ہیں ، قائد عوام اب " ولی عصر ، مستجاب الدعوات " ہے اور مشرق کی بیٹی ، چاروں صوبوں کی زنجیر اب " شہید رانی " ہے "سندھ جو شہید رانی " ہے جبکہ حبیب جالب ابتک عالم برزخ میں یہ پڑھتے ہیں دن پھرے ہیں وقت وزیروں کے "