Thursday, November 10, 2011

پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟

پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟
تحریر :عامر حسینی
اس وقت یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اہم کھلاڑی پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکزی فوکس بناے ہوئے ہیں-مسلم لیگ نواز کا جو اجلاس رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کے گھر پر ہوا -اس میں پہلی مرتبہ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی شرکت کی-وہاں سے یہ خبریں ملی ہیں کہ مریم نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارا جا رہا ہے-ان کو سیاست میں اتارے جانے کا ایک تو مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں خواتین کے اندر مسلم لیگ نواز کو مقبول بنانا مقصود ہے-مسلم لیگ نواز کے لوگوں کے مطابق اس وقت مسلم لیگ کو ایسی نوجوان خاتون کی اشد ضرورت ہے جو پنجاب میں تاجروں،مڈل کلاس پرتوں کی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین کو پاکستان تحریک انصاف میں جانے سے روک سکے-اس سے قبل میں نواز شریف اور شہباز شریف نے حمزہ شیباز شریف کو میدان میں اس لئے اتارا تھا کہ وہ نوجوانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کر سکیں-لکین لگتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کی امیدوں پر اس طرح سے پورا نہیں اترے -جس کی امید کی جا رہی تھی-وہ مسلم لیگ کے نوجوانوں کے لئے متاثر کن اور سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت ثابت نہیں ہو سکے-مریم نواز کی سیاست میں آمد مسلم لیگ نواز کے لئے سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوسکے گی-پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بلاول کو پہلے لئے سیاست کے میدان میں اتار چکے ہیں-ان کے لئے لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی چن لیا گیا ہے-جبکہ یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے قادر گیلانی کو متحرک کر دیا ہے-دوسری طرف شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتار چکے ہیں-چوہدری برداران مونس الہی کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ پاکستان کے طاقتور سیاستدانوں کی نوجوان اولاد پاکستانی سیاست میں کسی تبدلی کا سبب بن سکے گی؟کیا پاکستان کی نوجوان نسل ان نوجوان چہروں کی تازگی سے متاثر ہو کر ان کو اپنا رہبر اور رہنما ماں لیں گے؟یہ سوالات ایسے ہیں کہ ان کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ یہ نوجوان اپنے اپنے خاندان کے سیاسی ورثہ کو بچانے کے لئے میدان میں آئے ہیں-ان کے پیش نظر سیاست پر اپنے خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے کا ہدف زیادہ اور پہلی اہمیت کا حامل ہے-ان نوجوان لیڈروں کو جہاں اپنے خاندانوں کی سیاسی پہچان کا فائدہ ہے-وہاں پر ان خاندانوں کے ساتھ جو بدنامیاں لگی ہوئی ہیں ان کا نقصان بھی کافی ہے-مرمیم نواز شریف پنجاب کی نوجوان خواتین کو اس وقت متاثر کر سکتی ہیں -جب وہ کم از کم نواز لیگ کے روایتی سلوگنز سے ہٹ کر اس نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کریں-یہ بات بہت واضح ہے کہ پنجاب کی شہری آبادی کے نوجوان مرد اور عورتوں کی اکثریت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی سیاست سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف جا رہی ہے-یہ نوجوان ٨٨ کے بعد سے لیکر اب تک چلی آنے والی سیاست سے بہت زیادہ بیزار ہیں-یہ کرپشن کے خلاف تو ہیں ہی-یہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے ڈسے ہوئے بھی ہیں-اسی لئے ان کو عمران خان کی طرف سے میرٹ اور انصاف کو سلوگن بہت زیادہ اپیل کر رہا ہے-پنجاب کے اربن مرکز میں خصوصی طور پر اور پورے پنجاب میں عمومی طور پر پڑھے لکھ نوجوانوں میں سفارش ،بے انصافی اور کرپشیں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے-اور یہ نوجوان نسل ان تین برائیوں کا سبب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو خیال کرتی ہے-مسلم لیگ نواز ہی پنجاب میں نوجوان نسل کی حمایت سے محروم نہیں ہو رہی بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی نوجوان نسل کی طرف سے حمیت نہیں مل رہی ہے-مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کو لکھ اسٹبلشمنٹ کی جماعت کہیں-عمران خان کی اصلاح پسندی پر مجھ سمیت دوسرے لوگ کتنی ہی ٹھوس تنقید کر لیں-پنجاب کی خصوصی طور پر نوجوان نسل روایتی سیاسی جماعتوں سے باغی ہو چکی ہے-مریم نواز ،بلاول بھٹو زرداری کی طرف اس نوجوان نسل کا جھکاؤ ایک مشکل ٹاسک نظر آ رہا ہے-
پی پی پی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا سوچ رہی ہے -اس کا اندازہ ہم یوں کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاست کے محور پنجاب میں سب سے زیادہ پنجاب کی تقسیم کے ایشو کو بنا رکھا ہے-پی پی پی اپر پنجاب کے حوالے سے شائد کسی حد تک خود کو ناکام خیال کر رہی ہے-کیونکہ اپر پنجاب میں اس کے پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں ہے جو وہاں لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا رکھ سکے-اپر پنجاب میں پی پی پی کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ وہاں پر محنت کشوں کی سیاست کا ایجنڈہ لیکر سامنے آتی-لکین اس کی جاگیردار اور سرمایہ دار قیادت کی موقعہ پرستی اس کو ایسا کوئی بھی ایجنڈہ سامنے لیکر آنے سے روک رہی ہے-اپر پنجاب میں اس کے پاس زمینداروں،متوسط طبقے کے سیاسی لیڈروں اور سرمایہ داروں سے تعلق رکھنے والی جو قیادت ہے -ان کو اپنے اپنے طبقے میں وہ اثر رسوخ نہیں ہے جو مسلم لیگ نواز کی قیادت کو حاصل ہے-یا اب تحریک انصاف کو ملا ہوا ہے-اس لئے وہاں پر پی پی پی کی خواہش یہ ہے کہ یشن دائیں بازو کا پی پی پی مخالف ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور اپر پنجاب سے کوئی بھی پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر نا ابھرے-جبکہ وہ جنوبی پنجاب میں سیاست کو الگ صوبے کے ایشو کے گرد ہی رکھنا چاہتی ہے-اسی لئے پی پی پی نے پنجاب کی تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے-وسطی پنجاب کی تنظیم اس وقت ساہیوال ،لاہور،فیصل آباد ،راول پنڈی ،گوجرانوالہ ،سرگودھا ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر اب صفدر ورائچ ہیں-جبکہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ملتان،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان ،ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر مخدوم شہاب الدین کو بنایا گیا ہے-انھوں نے صدر بننے کے ساتھ ہی شد و مد سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات شروع کی ہے-آنے والے دنوں میں پی پی پی جنوبی پنجاب کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ساری سیاست کا محور و مرکز الگ صوبہ کو بنائے-یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کی وجہ سے اس خطہ میں نا صرف مسلم لیگ نواز دفاعی انداز میں کھیلنے پر مجبور ہے-بلکہ یہاں پی پی پی سے ناراض شاہ محمود قریشی کا گروپ اور مسلم لیگ ق کے پی پی پی سے اتحاد کی وجہ سے الگ رہ کی تلاش میں نکلے ڈیرہ غازی خان کے لغاری اور رحیم یار خان کے ترین بھی مشکل کا شکار ہوں گے-پی پی پی جنوبی پنجاب میں جمشید دستی سے ردکل اور تیز تر کام لے سکتی ہے-جو اس کے حریفوں کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے-شاہ محمود قریشی اور مرزا ذوالفقار کے گروپ ایسے ہیں جو جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں-صدر زرداری جن کو بہترین سیاسی کھلاڑی کہا جا رہا ہے-اب تک ان دو بڑوں کے ساتھ نمٹنے میں ناکام رہے ہیں-شہمھمود قریشی اگر تحریک انصاف میں نہیں جاتے -اور ذوالفقار مرزا بھی کسی اور جگہ نہیں جاتے -اور پی پی پی کے لیبل کو بھی نہیں اتارتے -اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ شہید بنظر بھٹو کی سیاسی میراث کے دعوے دار بھی رہتے ہیں-اور وہ کرپشن اور ملکی اداروں کی بعد حالی کے سلوگنز کو بھی ساتھ رکھتے ہیں -تو پھر جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کے اندر اور باہر سے وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں-جو پی پی پی کے کارکن یا حامی تصور کے جاتے ہیں-جنوبی پنجاب اور سندھ میں شاہ محمود اور ذوالفقار مرزا کی طرح کچھ اور سیاست دان بھی ہیں-جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں-اور ان کی شہرت بھی نیک ہے-یہ سارے لوگ اگر پی پی پی کے شریک چیرمین کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہو گئے-اور یہ آگے چل کر موجودہ حکومت کے خلاف محرم کے بعد تحریک چلنے پر اتفاق کر لیتے ہیں -تو پھر سیاسی نقشہ وہ نہیں ہوگا -جو پی پی پی اپنے ذھن میں رکھے ہوئے ہے-تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو مختلف قوتیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ وہ اگلے انتخاب کا انتظار نہ کریں-سینٹ کے انتخاب سے قبل ہی اسلام آباد کا رکھ کر لیں-زرداری ہٹاؤ مہم چلائی جائے-میاں نواز شریف زرداری ہٹاؤ مہم پر اتفاق کرچکے ہیں-ان کی طرف سے یہ عندیہ نظر آ رہا ہے کہ وہ محرم کے بعد زرداری ہٹاؤ تحریک کو نکلی سطح تک لے جائیں گے-جب کہ عمران خان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بھی چند دنوں تک کوئی اصولی فیصلہ لینے والی ہے-شہمھمود قریشی ٢٧ نومبر کو گھوٹکی جلسہ میں ملک بچاؤ مہم کا آغاز کرنے والے ہیں-ذولفقار مرزا بھی سندھ کے شہروں میں جلسے کر رہے ہیں-سندھی قوم پرست بھی میدان میں آ رہے ہیں-ان سب کی مہم کا مقصد مرکزی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہیں-اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آئینی راستہ تو ہے نہیں-اگر لانگ مارچ ہوتا ہے-حکومت تحریک کو زبردستی روکتی ہے-سیاسی جبر کا دور آتا ہے تو کیا یہ طریقہ پی پی پی کی حکومت کو فوجی مداخلت سے بچا سکے گا؟اگر فوج اور مقتدر طاقتیں صدر زرداری کو استعفا دینے پر مجبور کرتی ہیں تو کیا صدر زرداری ایسا کر دین گے؟صدر زرداری ایسا نہیں کرتے اور جواب میں فوج زبردستی ایسا کرتی ہے تو کیا حزب اختلاف کی پارٹیوں میں پھر سے پہلے انتخاب پھر احتساب یا پہلے احتساب پھر انتخاب والا اختلاف سامنے نہیں آئے گا؟یہی وہ اختلاف تھا جس نے قومی اتحاد میں پھوٹ ڈلوا دی تھی-اور ضیاء الحق ١١ سال حکومت کرتے رہے تھے-نوجوان نسل پاکستان میں کرپٹ سیاسی سماجی نظام سے نجات کے لئے سڑکوں پی آنے کے لئے بچیں ہے-سڑکوں پر یہ نئی نسل اگر ای تو پھر ان کی جدوجہد صرف زرداری ہٹاؤ مہم تک محدود نہیں رہے گی-اگر اس تحریک میں محنت کش طبقہ بھی شامل ہوگیا تو پھر یہ تحریک اور کئی قسم کے زیادہ ریڈکل سلوگنز کو بھی اپنا سکتی ہے-یہ تحریک ارب انقلاب کی تراز بھی اختیار کر سکتی ہے-جب حکومت کو ہٹائے جانے کے لئے سڑک سیاست کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح کے امکانات اور خدشات چھپے ہوتے ہیں-اور تحریک بھی پھر لیڈروں کی آرزوں کے مطابق نہیں چلا کرتی -یہ وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان،میاں نواز شریف،شاہ محمود اور دیگر حکمران طبقات کے لوگ تحریک کو فی الفور چلانے میں تذبذب کا شکار ہیں-حکمران طبقات کی یہ تقسیم اور تذبذب نیچے سے بحران کے نیتجے میں اٹھنے والی بے چینی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے باہر نکل کے آنے کے خطرے کو دور نہیں کر سکتے-معاشی بحران،مہنگائی میں اضافہ ،بے روزگاری کا طوفان،مسلسل بیروزگار ہوتے مزدور ،اور بند ہوتے کارخانے اور تباہ ہوتے چھوٹے کاروبار ،مڈل کلاس پرتوں پر بڑھتا ہوا بوجھ کسی بھی وقت عوام کی مختلف پرتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر سکتا ہے-اور ایک بڑا سیاسی سماجی عبار دیکھنے کو مل سکتا ہے-

پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟

پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟
تحریر :عامر حسینی
اس وقت یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اہم کھلاڑی پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکزی فوکس بناے ہوئے ہیں-مسلم لیگ نواز کا جو اجلاس رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کے گھر پر ہوا -اس میں پہلی مرتبہ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی شرکت کی-وہاں سے یہ خبریں ملی ہیں کہ مریم نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارا جا رہا ہے-ان کو سیاست میں اتارے جانے کا ایک تو مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں خواتین کے اندر مسلم لیگ نواز کو مقبول بنانا مقصود ہے-مسلم لیگ نواز کے لوگوں کے مطابق اس وقت مسلم لیگ کو ایسی نوجوان خاتون کی اشد ضرورت ہے جو پنجاب میں تاجروں،مڈل کلاس پرتوں کی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین کو پاکستان تحریک انصاف میں جانے سے روک سکے-اس سے قبل میں نواز شریف اور شہباز شریف نے حمزہ شیباز شریف کو میدان میں اس لئے اتارا تھا کہ وہ نوجوانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کر سکیں-لکین لگتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کی امیدوں پر اس طرح سے پورا نہیں اترے -جس کی امید کی جا رہی تھی-وہ مسلم لیگ کے نوجوانوں کے لئے متاثر کن اور سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت ثابت نہیں ہو سکے-مریم نواز کی سیاست میں آمد مسلم لیگ نواز کے لئے سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوسکے گی-پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بلاول کو پہلے لئے سیاست کے میدان میں اتار چکے ہیں-ان کے لئے لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی چن لیا گیا ہے-جبکہ یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے قادر گیلانی کو متحرک کر دیا ہے-دوسری طرف شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتار چکے ہیں-چوہدری برداران مونس الہی کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ پاکستان کے طاقتور سیاستدانوں کی نوجوان اولاد پاکستانی سیاست میں کسی تبدلی کا سبب بن سکے گی؟کیا پاکستان کی نوجوان نسل ان نوجوان چہروں کی تازگی سے متاثر ہو کر ان کو اپنا رہبر اور رہنما ماں لیں گے؟یہ سوالات ایسے ہیں کہ ان کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ یہ نوجوان اپنے اپنے خاندان کے سیاسی ورثہ کو بچانے کے لئے میدان میں آئے ہیں-ان کے پیش نظر سیاست پر اپنے خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے کا ہدف زیادہ اور پہلی اہمیت کا حامل ہے-ان نوجوان لیڈروں کو جہاں اپنے خاندانوں کی سیاسی پہچان کا فائدہ ہے-وہاں پر ان خاندانوں کے ساتھ جو بدنامیاں لگی ہوئی ہیں ان کا نقصان بھی کافی ہے-مرمیم نواز شریف پنجاب کی نوجوان خواتین کو اس وقت متاثر کر سکتی ہیں -جب وہ کم از کم نواز لیگ کے روایتی سلوگنز سے ہٹ کر اس نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کریں-یہ بات بہت واضح ہے کہ پنجاب کی شہری آبادی کے نوجوان مرد اور عورتوں کی اکثریت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی سیاست سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف جا رہی ہے-یہ نوجوان ٨٨ کے بعد سے لیکر اب تک چلی آنے والی سیاست سے بہت زیادہ بیزار ہیں-یہ کرپشن کے خلاف تو ہیں ہی-یہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے ڈسے ہوئے بھی ہیں-اسی لئے ان کو عمران خان کی طرف سے میرٹ اور انصاف کو سلوگن بہت زیادہ اپیل کر رہا ہے-پنجاب کے اربن مرکز میں خصوصی طور پر اور پورے پنجاب میں عمومی طور پر پڑھے لکھ نوجوانوں میں سفارش ،بے انصافی اور کرپشیں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے-اور یہ نوجوان نسل ان تین برائیوں کا سبب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو خیال کرتی ہے-مسلم لیگ نواز ہی پنجاب میں نوجوان نسل کی حمایت سے محروم نہیں ہو رہی بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی نوجوان نسل کی طرف سے حمیت نہیں مل رہی ہے-مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کو لکھ اسٹبلشمنٹ کی جماعت کہیں-عمران خان کی اصلاح پسندی پر مجھ سمیت دوسرے لوگ کتنی ہی ٹھوس تنقید کر لیں-پنجاب کی خصوصی طور پر نوجوان نسل روایتی سیاسی جماعتوں سے باغی ہو چکی ہے-مریم نواز ،بلاول بھٹو زرداری کی طرف اس نوجوان نسل کا جھکاؤ ایک مشکل ٹاسک نظر آ رہا ہے-
پی پی پی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا سوچ رہی ہے -اس کا اندازہ ہم یوں کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاست کے محور پنجاب میں سب سے زیادہ پنجاب کی تقسیم کے ایشو کو بنا رکھا ہے-پی پی پی اپر پنجاب کے حوالے سے شائد کسی حد تک خود کو ناکام خیال کر رہی ہے-کیونکہ اپر پنجاب میں اس کے پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں ہے جو وہاں لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا رکھ سکے-اپر پنجاب میں پی پی پی کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ وہاں پر محنت کشوں کی سیاست کا ایجنڈہ لیکر سامنے آتی-لکین اس کی جاگیردار اور سرمایہ دار قیادت کی موقعہ پرستی اس کو ایسا کوئی بھی ایجنڈہ سامنے لیکر آنے سے روک رہی ہے-اپر پنجاب میں اس کے پاس زمینداروں،متوسط طبقے کے سیاسی لیڈروں اور سرمایہ داروں سے تعلق رکھنے والی جو قیادت ہے -ان کو اپنے اپنے طبقے میں وہ اثر رسوخ نہیں ہے جو مسلم لیگ نواز کی قیادت کو حاصل ہے-یا اب تحریک انصاف کو ملا ہوا ہے-اس لئے وہاں پر پی پی پی کی خواہش یہ ہے کہ یشن دائیں بازو کا پی پی پی مخالف ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور اپر پنجاب سے کوئی بھی پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر نا ابھرے-جبکہ وہ جنوبی پنجاب میں سیاست کو الگ صوبے کے ایشو کے گرد ہی رکھنا چاہتی ہے-اسی لئے پی پی پی نے پنجاب کی تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے-وسطی پنجاب کی تنظیم اس وقت ساہیوال ،لاہور،فیصل آباد ،راول پنڈی ،گوجرانوالہ ،سرگودھا ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر اب صفدر ورائچ ہیں-جبکہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ملتان،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان ،ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر مخدوم شہاب الدین کو بنایا گیا ہے-انھوں نے صدر بننے کے ساتھ ہی شد و مد سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات شروع کی ہے-آنے والے دنوں میں پی پی پی جنوبی پنجاب کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ساری سیاست کا محور و مرکز الگ صوبہ کو بنائے-یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کی وجہ سے اس خطہ میں نا صرف مسلم لیگ نواز دفاعی انداز میں کھیلنے پر مجبور ہے-بلکہ یہاں پی پی پی سے ناراض شاہ محمود قریشی کا گروپ اور مسلم لیگ ق کے پی پی پی سے اتحاد کی وجہ سے الگ رہ کی تلاش میں نکلے ڈیرہ غازی خان کے لغاری اور رحیم یار خان کے ترین بھی مشکل کا شکار ہوں گے-پی پی پی جنوبی پنجاب میں جمشید دستی سے ردکل اور تیز تر کام لے سکتی ہے-جو اس کے حریفوں کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے-شاہ محمود قریشی اور مرزا ذوالفقار کے گروپ ایسے ہیں جو جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں-صدر زرداری جن کو بہترین سیاسی کھلاڑی کہا جا رہا ہے-اب تک ان دو بڑوں کے ساتھ نمٹنے میں ناکام رہے ہیں-شہمھمود قریشی اگر تحریک انصاف میں نہیں جاتے -اور ذوالفقار مرزا بھی کسی اور جگہ نہیں جاتے -اور پی پی پی کے لیبل کو بھی نہیں اتارتے -اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ شہید بنظر بھٹو کی سیاسی میراث کے دعوے دار بھی رہتے ہیں-اور وہ کرپشن اور ملکی اداروں کی بعد حالی کے سلوگنز کو بھی ساتھ رکھتے ہیں -تو پھر جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کے اندر اور باہر سے وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں-جو پی پی پی کے کارکن یا حامی تصور کے جاتے ہیں-جنوبی پنجاب اور سندھ میں شاہ محمود اور ذوالفقار مرزا کی طرح کچھ اور سیاست دان بھی ہیں-جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں-اور ان کی شہرت بھی نیک ہے-یہ سارے لوگ اگر پی پی پی کے شریک چیرمین کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہو گئے-اور یہ آگے چل کر موجودہ حکومت کے خلاف محرم کے بعد تحریک چلنے پر اتفاق کر لیتے ہیں -تو پھر سیاسی نقشہ وہ نہیں ہوگا -جو پی پی پی اپنے ذھن میں رکھے ہوئے ہے-تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو مختلف قوتیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ وہ اگلے انتخاب کا انتظار نہ کریں-سینٹ کے انتخاب سے قبل ہی اسلام آباد کا رکھ کر لیں-زرداری ہٹاؤ مہم چلائی جائے-میاں نواز شریف زرداری ہٹاؤ مہم پر اتفاق کرچکے ہیں-ان کی طرف سے یہ عندیہ نظر آ رہا ہے کہ وہ محرم کے بعد زرداری ہٹاؤ تحریک کو نکلی سطح تک لے جائیں گے-جب کہ عمران خان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بھی چند دنوں تک کوئی اصولی فیصلہ لینے والی ہے-شہمھمود قریشی ٢٧ نومبر کو گھوٹکی جلسہ میں ملک بچاؤ مہم کا آغاز کرنے والے ہیں-ذولفقار مرزا بھی سندھ کے شہروں میں جلسے کر رہے ہیں-سندھی قوم پرست بھی میدان میں آ رہے ہیں-ان سب کی مہم کا مقصد مرکزی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہیں-اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آئینی راستہ تو ہے نہیں-اگر لانگ مارچ ہوتا ہے-حکومت تحریک کو زبردستی روکتی ہے-سیاسی جبر کا دور آتا ہے تو کیا یہ طریقہ پی پی پی کی حکومت کو فوجی مداخلت سے بچا سکے گا؟اگر فوج اور مقتدر طاقتیں صدر زرداری کو استعفا دینے پر مجبور کرتی ہیں تو کیا صدر زرداری ایسا کر دین گے؟صدر زرداری ایسا نہیں کرتے اور جواب میں فوج زبردستی ایسا کرتی ہے تو کیا حزب اختلاف کی پارٹیوں میں پھر سے پہلے انتخاب پھر احتساب یا پہلے احتساب پھر انتخاب والا اختلاف سامنے نہیں آئے گا؟یہی وہ اختلاف تھا جس نے قومی اتحاد میں پھوٹ ڈلوا دی تھی-اور ضیاء الحق ١١ سال حکومت کرتے رہے تھے-نوجوان نسل پاکستان میں کرپٹ سیاسی سماجی نظام سے نجات کے لئے سڑکوں پی آنے کے لئے بچیں ہے-سڑکوں پر یہ نئی نسل اگر ای تو پھر ان کی جدوجہد صرف زرداری ہٹاؤ مہم تک محدود نہیں رہے گی-اگر اس تحریک میں محنت کش طبقہ بھی شامل ہوگیا تو پھر یہ تحریک اور کئی قسم کے زیادہ ریڈکل سلوگنز کو بھی اپنا سکتی ہے-یہ تحریک ارب انقلاب کی تراز بھی اختیار کر سکتی ہے-جب حکومت کو ہٹائے جانے کے لئے سڑک سیاست کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح کے امکانات اور خدشات چھپے ہوتے ہیں-اور تحریک بھی پھر لیڈروں کی آرزوں کے مطابق نہیں چلا کرتی -یہ وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان،میاں نواز شریف،شاہ محمود اور دیگر حکمران طبقات کے لوگ تحریک کو فی الفور چلانے میں تذبذب کا شکار ہیں-حکمران طبقات کی یہ تقسیم اور تذبذب نیچے سے بحران کے نیتجے میں اٹھنے والی بے چینی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے باہر نکل کے آنے کے خطرے کو دور نہیں کر سکتے-معاشی بحران،مہنگائی میں اضافہ ،بے روزگاری کا طوفان،مسلسل بیروزگار ہوتے مزدور ،اور بند ہوتے کارخانے اور تباہ ہوتے چھوٹے کاروبار ،مڈل کلاس پرتوں پر بڑھتا ہوا بوجھ کسی بھی وقت عوام کی مختلف پرتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر سکتا ہے-اور ایک بڑا سیاسی سماجی عبار دیکھنے کو مل سکتا ہے-

Monday, November 7, 2011

ایڈٹر تھا جس کا نام ..........

ایڈٹر تھا جس کا نام .............
لیل و نہار/عامر حسینی
ایک معاصر اخبار میں نوائے وقت کے مالک اور چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی کا ایک انٹرویو شایع ہوا ہے-اس انٹرویو میں انھوں نے اس بات کا رونا رویا ہے کہ آج کے زمانہ میں ایڈیٹر کا عہدہ غائب ہوگیا ہے-ان سے جب سوال کرنے والوں نے پوچھا کہ وہ کس ایڈیٹر سے متاثر ہوئے -تو انھوں نے" ڈان" کے ایڈیٹر الطاف قریشی کا نام لیا -میں یہ نام دیکھ کر چونک گیا-مجھے یاد آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا -اس موقعہ پر وہ یہ بھی بتاتے کہ کیسے الطاف صاحب نے ریاست کے ان مقتدر لوگوں کی سازش ناکام بنا دی تھی -جو قائد اعظم محمد علی جناح کی ١١ اگست والی تقریر کو سنسر کرنا چاہتے تھے-کیونکہ اس تقریر کی بنیاد پر پاکستان کی ریاست کے آئین کی تشکیل اگر کی جاتی تو پاکستان کو کبھی بھی ایک ایسی مذہبی ریاست میں نہیں بدلا جا سکتا تھا -جو اس ملک کے جاگیر داروں،وردی و با وردی نوکر شاہی کی جاگیروں اور آمرانہ طرز حکمرانی کا تحفظ کرتی ہو-
محترم مجید نظامی اس واقعہ کو ایڈیٹر کی ہمت اور بیباکی کے طور پر پیش کر سکتے تھے-لکین انھوں نے ایسا نہ جیا-اس کی جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے -وہ یہ ہے کہ یہ تقریر خود اس سارے جھوٹ کا پول بھی کھول دیتی ہے جو محترم مجید نظامی کا اخباری گروپ "نظریہ پاکستان "کے نام پر اتنے عرصۂ سے بولتا آ رہا ہے-ظاہر جب آپ جھوٹ بولتے ہیں تو اس کے پیچھے مفادات کی کہانی ہوتی ہے-یہ مفادات "نظریہ پاکستان ٹرسٹ "کی صورت میں بھی تو سب کے سامنے ہیں-پھر پرانی نوائے وقت کے دفتر والی عمارت بھی تو اس کا ایک ثبوت ہے-جو محترم حمید نظامی اور مجید نظامی نے مہاجر بن کر الاٹ کرالی تھی-سب جانتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کا تعلق سانگلہ ہل سے ہے-اور شائد یہ انوکھا واقعہ تھا کہ سانگلہ ہل جیسے کسی پاکستان کے علاقہ سے لاہور آنے والے کو متروکہ املاک میں سے کوئی جائیداد الاٹ کردی گئی ہو-
اخبارات کے مدیروں کا تذکره چلا تو محترم مجید نظامی صاحب کو پاکستان ٹائمز اور امروز میں کام کرنے والے کسی مدیر کو مدیر ماننے کا حوصلہ نہیں ہوا -وہ فیض احمد فیض،چراغ حسن حسرت،ظہیر بابر کشمیری ،احمد ندیم قاسمی ،حمید اختر ،مسعود اشعر،سردار احمد علی کسی کو بھی ٹھیک طرح کا مدیر ماننے کو تیار نظر نہیں آئے-فیض احمد فیض ان کے نزدیک شاعر تھے-مدیر نہیں تھے-باقی نام تو ان کو یاد ہی نہیں آئے-انھوں نے ایک سچ بس محترم میر خلیل الرحمن صاحب کے بارے میں بولا کہ وہ جب ایوب خان سے ملنے گئے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ جو اخباری مالک صحافتی آزادی مانگتا ہے وہ اس کو دے دی جائے-مجھے تو اشتہارات چاہئیں-کاش وہ یہ بھی تو بتادیتے کہ ضیاء الحق اپنے زمانے میں مغرب کی طرف سے صحافت کی آزادی کو مصلوب کرنے کے سوالات کے جواب میں اپنے دور میں نوائے وقت گروپ کی ترقی کا حوالہ دیا کرتے تھے-کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جب دوسرے اخبارات مسلسل دباؤ کا شکار تھے-صحافیوں کو کوڑے پڑ رہے تھے تو ان کا اخبار ترقی کیسے کر رہا تھا؟اور اگر وہ واقعی ضیاء الحق کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے -تو ضیاء الحق کے جبر کا شکار ان کا گروپ کیوں نہ بنا ؟
آج سوائے "روزنامہ ڈان "کے کسی اور ادارہ میں مدیر آزادی کے ساتھ کام نہیں کرتا-کئی اخبارات نے تو اس عہدہ کو گھر میں ہی رکھ لیا ہے-باپ بیٹا چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر بن بیٹھے ہیں-آزادی صحافت کا گلہ تو خود اخباری مالکوں نے اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا ہے-
صحافت پر بات کرتے ہوئے -مجید نظامی ضمیر نیازی کی کتابوں کا تذکرہ بھول گئے-ان کی ایک کتاب "صحافت پابند سلاسل "میں بہت سی کہانیاں موجود ہیں-جن میں محترم مجید نظامی اور ان کے گروپ کا تذکره بھی موجود ہے-
ویسے ضمیر نیازی کی کتاب "صحافت پابند سلاسل "کے ساتھ پچھلے دنوں ایک ہاتھ آکسفورڈ پریس نے کیا -اس کتاب میں جو بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں جو سیاست کو پابند سلاسل کرنے کا احوال تھا -اس کو سرے سے غائب کر دیا گیا -آکسفورڈ پریس نے یہ کیوں کیا معلوم نہیں ہے-
پاکستان میں صحافت کی تاریخ تعصبات سے الگ ہو کر اور پورے سچ کے ساتھ کون لکھے گا-مدیر کی سیٹ پر بیٹھنے والے ضمیر نیازی نے تو اپنا فرض ادا کر دیا-لکین یہاں ابھی تک کوئی خشونت سنگھ جیسا بیباک مدیر نہیں جنم لے سکا -جو صحافت کی دنیا میں لوگوں تک خبر کو پہنچانے سے روکنے کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کا احوال ٹھیک ٹھیک قلمبند کر دے-

Sunday, November 6, 2011

امام کعبہ کا خطبہ حج

امام کعبہ کا خطبہ حج
لیل و نہار /عامر حسینی
حج مسلمانوں کے ہاں بہت اہم فریضہ ہے-یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے-جو بھی مسلم حج کی طاقت رکھتا ہو -اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض بنتا ہے-جب مسلم دنیا میں خلافت جیسا سیاسی نظام قائم تھا -تو سنی اسلام کے ماننے والوں کو حج کا خطبہ بھی وقت کا خلیفہ ہی دیا کرتا تھا-خطبہ حج کی روایت میں بس اب تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ یہ خطبہ اب امام کعبہ دیتے ہیں-شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو شائد اس خطبہ کی اس قدر اہمیت نہ ہو-لکین سنی مسلمان اس خطبہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں-
پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا بھی اس خطبہ کو خاص طور پر ضیاء الحق کے زمانے سے بہت اہمیت دیتا آرہا ہے-اور اس خطبہ کو سب سے پہلے پی تی وی سے براہ راست نشر کرنے کا سلسہ شروع کیا گیا -پھر آج کے دور میں نجی تی وی چینل بھی اس کو نشر کرتے ہیں-
امام کعبہ نے اس مرتبہ جو خطبہ دیا -اس میں ویسے تو بہت سی باتیں ہیں جن پر بات کی جانی چاہئے-لکین میرے نزدیک ان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے پس پردہ محرکات کو آشکار کیا جانا بہت ضروری ہے-
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے-انھوں نے میڈیا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے-یہ باتیں جزوی طور پر تو ٹھیک ہوں گی-لکین حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہیں مڈل ایسٹ اور دیگر خطوں میں موجود مسلم ملکوں میں حکومتوں اور رجیموں کی طرف سے اپنے مظالم کو چھپانے اور سخصی آزادیوں کو ختم کرنے جیسی کوششوں ،مذہبی اقلیتوں اور کئی نسلی گروپوں پر سیاسی جبر اور معاشی جبر کی داستانوں کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے میڈیا کو کلی،جزوی طور پر جو کنٹرول کیا ہوا ہے-اس پر کوئی بات نہیں کی-انھوں نے میڈیا کے اس کردار کو بھی نہیں سراہا جو اس نے مڈل ایسٹ میں نوجوانوں کی طرف سے کئی سالوں سے قائم جبر کی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے کیا -اس خطبہ میں اغیار کی سازشوں بارے تو بہت زور و شور سے بولا گیا -لکین مسلم ملکوں کی اپنی حکمران اشرافیہ جو کچھ اپنی ملکوں کی عوام کے ساتھ کر رہی ہے -اس پر بھی خاموشی اختیار کر لی گئی-
امام کعبہ نے مسلم ممالک کی عورتوں کی تحریک پر بھی منفی تبصرہ کیا-انھوں نے کہا کہ مسلم عورتیں جس قسم کی آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں -وہ مغرب کا دھوکہ ہے-کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام کعبہ یہ بتا دیتے کہ جب سعودیہ عرب کی خواتین اپنے لئے ڈرائیونگ کرنے کا حق مانگتی ہیں،وہ جب ووٹ کا حق طلب کرتی ہیں،نوکری کے مساوی موقعہ مانگتی ہیں ،صنفی امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہیں اور وہ سیاست کرنے کا حق مانگتی ہیں تو ان مطالبات میں کون سی خرابی ہے-اور یہ کون سی غرب زدگی ہے-جس کا تذکرہ امام کعبہ کو اپنے خطبہ میں کرنا پڑ گیا ہے-
انھوں نے اپنے خطبہ میں مڈل ایسٹ میں خاص طور پر خلیجی ریاستوں میں سالوں سے قائم بادشاہتوں اور آمریتوں پر ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا-انھوں نے مڈل ایسٹ میں کردوں ،شیعہ ،بہائی،آرمنیوں سمیت مذہبی اور نسلی گروہوں پر ڈھائے جانے والے ستم اور ظلم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا -بحرین کے حکمران اپنی عوام کو جس طرح سے دبا رہے ہیں اور وہاں پر جس طرح سے سعودی فوج داخل ہوئی ہے-اس پر بھی ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا-
ان کا یہ خطبہ سرکاری خطبہ ہی کہا جا سکتا ہے-جس میں کوئی ریڈکل ازم نہیں تھا-نہ ہی اس بات کی طرف کوئی اشارہ تھا کہ امام کعبہ کی مسند پر بیٹھا شخص مسلم ملکوں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات اور گلوبل سرمایہ داری کے بٹن سے جنم لینے والے جیو پولیٹکل اور معاشی مساقبت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے واقفیت رکھتا ہے-
میرا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ تو امام کعبہ گلوبل فنانس سے جنم لینے والی گلوبل سامراجیت کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالے گا-اور وہ مسند اسلام پر بیٹھ کر سعودی حکمرانوں کی امریکی سامراجیت کی خدمت کے لئے کے گئے اقدامات کی مذمت کرے گا-لکین اس طرح کا کوئی بیان امام کعبہ نے نہیں دیا-وہ حسب سابق طبقاتی خلیج کو اسلام کے خلاف قرار دیتے رہے -لکین اس خلیج کا سبب بننے والے نظام کے بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہ کیا-انھوں نے یہ بھی بتانا پسند نہ کیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیل کی کمپنیوں میں مثل سرمیداروں کے علمی سرمیہ داری کے ساتھ کیا رشتے اور ناتے ہیں-سعودیہ عرب،متحدہ عرب امارات ،بحرین،قطر ،سمیت خلیجی تعاون کنسل میں شامل ملکوں کی حکمران کلاس کا عالمی سرمایہ میں کیا ہیسہ بنتا ہے-اور یہ کس طرح سے مڈل ایسٹ میں سامراج کے قبضہ اور اس کی طرف سے ان ملکوں میں سامراجی سازشوں کو پروں چڑھانے میں ممد و معاون بنے ہوئے ہیں-یہ جو پورے عالم اسلام میں سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے -اس کو پروں چڑھانے میں کس ملک کا سرمایہ کام آ رہا ہے-لبنان ،شام،فلسطین میں امریکی سامراجی ایجنڈہ کو کون سا ملک اور کون کون سے مقامی کردار آگے لیجا رہے ہیں-لکین وہ اس طرح کی کوئی بات بھی اپنے خطبہ میں نہ لا سکے-مجھے تو لگتا ہے کہ جس طرح جمعہ کے خطبے خلیج کی ریاستوں میں ریاستی سنسر شپ سے گرتے ہیں-اسی طرح یہ خطبہ بھی سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں تیار ہوا ہوگا -کیونکہ اس خطبہ میں سعودیہ عرب کے حکمرانوں کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے-
مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس خطبہ میں کسی بھی جگہ لوگوں کے جمہوری،انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی-کسی بھی جگہ عورتوں ،اقلیتوں(مذہبی،نسلی) کے حقوق پر زور نہیں دیا گیا-مسلم ریاستوں میں فرسودہ جاگیرداری،قبائلی جاہلانہ رسوم و رواج کی مذمت نہیں کی گئی-بلکہ عورتوں کی آزادی اور سیاسی آزادی کی تحریکوں کی طرف حقارت اور مذمت کا رویہ اختیار کیا گیا-مسلم دنیا میں مدزہبی بنیادوں پر نفرت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق دبے جانے کا جو سلسلہ جاری ہے -اس پر بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی-
یہ ساری معروضات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے-کہ مسلم ملکوں کی مذهبی اشرفیہ کی سوچ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی اس خطبہ کے مندرجات سے ہوتی ہے-مذهبی اشرافیہ مسلم ملکوں کی سرمایہ دار اور جاگیردار پرتوں کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کر رہی ہے-اس کو ان ملکوں میں رہنے والے محنت کشوں،کسانوں اور شہری اور دیہی غریبوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے-نہ ہی ان کو ان ملکوں میں عورتوں ،بچوں اور مظلوم قومیتوں سے کوئی سوروکار ہے-وہ ان پرتوں کی طرف سے اتگھنے والی تحریکوں کو بھی اسلام دشمن اور مسلم دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کرتیں-ان کے ہاں مسلم ملکوں کے سرمیہ داروں کا جو اتحاد سامراجی سرمایہ کے ساتھ ہے -وہ کوئی خلاف اسلام نہیں ہے-یہ خرد افروزی کی دشمن ہے-اور ایک طرح سے مسلم سماجوں کو پسماندگی اور رجعت پسندی کی دلدل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتی-

امام کعبہ کا خطبہ حج

امام کعبہ کا خطبہ حج
لیل و نہار /عامر حسینی
حج مسلمانوں کے ہاں بہت اہم فریضہ ہے-یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے-جو بھی مسلم حج کی طاقت رکھتا ہو -اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض بنتا ہے-جب مسلم دنیا میں خلافت جیسا سیاسی نظام قائم تھا -تو سنی اسلام کے ماننے والوں کو حج کا خطبہ بھی وقت کا خلیفہ ہی دیا کرتا تھا-خطبہ حج کی روایت میں بس اب تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ یہ خطبہ اب امام کعبہ دیتے ہیں-شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو شائد اس خطبہ کی اس قدر اہمیت نہ ہو-لکین سنی مسلمان اس خطبہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں-
پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا بھی اس خطبہ کو خاص طور پر ضیاء الحق کے زمانے سے بہت اہمیت دیتا آرہا ہے-اور اس خطبہ کو سب سے پہلے پی تی وی سے براہ راست نشر کرنے کا سلسہ شروع کیا گیا -پھر آج کے دور میں نجی تی وی چینل بھی اس کو نشر کرتے ہیں-
امام کعبہ نے اس مرتبہ جو خطبہ دیا -اس میں ویسے تو بہت سی باتیں ہیں جن پر بات کی جانی چاہئے-لکین میرے نزدیک ان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے پس پردہ محرکات کو آشکار کیا جانا بہت ضروری ہے-
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے-انھوں نے میڈیا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے-یہ باتیں جزوی طور پر تو ٹھیک ہوں گی-لکین حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہیں مڈل ایسٹ اور دیگر خطوں میں موجود مسلم ملکوں میں حکومتوں اور رجیموں کی طرف سے اپنے مظالم کو چھپانے اور سخصی آزادیوں کو ختم کرنے جیسی کوششوں ،مذہبی اقلیتوں اور کئی نسلی گروپوں پر سیاسی جبر اور معاشی جبر کی داستانوں کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے میڈیا کو کلی،جزوی طور پر جو کنٹرول کیا ہوا ہے-اس پر کوئی بات نہیں کی-انھوں نے میڈیا کے اس کردار کو بھی نہیں سراہا جو اس نے مڈل ایسٹ میں نوجوانوں کی طرف سے کئی سالوں سے قائم جبر کی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے کیا -اس خطبہ میں اغیار کی سازشوں بارے تو بہت زور و شور سے بولا گیا -لکین مسلم ملکوں کی اپنی حکمران اشرافیہ جو کچھ اپنی ملکوں کی عوام کے ساتھ کر رہی ہے -اس پر بھی خاموشی اختیار کر لی گئی-
امام کعبہ نے مسلم ممالک کی عورتوں کی تحریک پر بھی منفی تبصرہ کیا-انھوں نے کہا کہ مسلم عورتیں جس قسم کی آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں -وہ مغرب کا دھوکہ ہے-کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام کعبہ یہ بتا دیتے کہ جب سعودیہ عرب کی خواتین اپنے لئے ڈرائیونگ کرنے کا حق مانگتی ہیں،وہ جب ووٹ کا حق طلب کرتی ہیں،نوکری کے مساوی موقعہ مانگتی ہیں ،صنفی امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہیں اور وہ سیاست کرنے کا حق مانگتی ہیں تو ان مطالبات میں کون سی خرابی ہے-اور یہ کون سی غرب زدگی ہے-جس کا تذکرہ امام کعبہ کو اپنے خطبہ میں کرنا پڑ گیا ہے-
انھوں نے اپنے خطبہ میں مڈل ایسٹ میں خاص طور پر خلیجی ریاستوں میں سالوں سے قائم بادشاہتوں اور آمریتوں پر ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا-انھوں نے مڈل ایسٹ میں کردوں ،شیعہ ،بہائی،آرمنیوں سمیت مذہبی اور نسلی گروہوں پر ڈھائے جانے والے ستم اور ظلم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا -بحرین کے حکمران اپنی عوام کو جس طرح سے دبا رہے ہیں اور وہاں پر جس طرح سے سعودی فوج داخل ہوئی ہے-اس پر بھی ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا-
ان کا یہ خطبہ سرکاری خطبہ ہی کہا جا سکتا ہے-جس میں کوئی ریڈکل ازم نہیں تھا-نہ ہی اس بات کی طرف کوئی اشارہ تھا کہ امام کعبہ کی مسند پر بیٹھا شخص مسلم ملکوں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات اور گلوبل سرمایہ داری کے بٹن سے جنم لینے والے جیو پولیٹکل اور معاشی مساقبت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے واقفیت رکھتا ہے-
میرا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ تو امام کعبہ گلوبل فنانس سے جنم لینے والی گلوبل سامراجیت کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالے گا-اور وہ مسند اسلام پر بیٹھ کر سعودی حکمرانوں کی امریکی سامراجیت کی خدمت کے لئے کے گئے اقدامات کی مذمت کرے گا-لکین اس طرح کا کوئی بیان امام کعبہ نے نہیں دیا-وہ حسب سابق طبقاتی خلیج کو اسلام کے خلاف قرار دیتے رہے -لکین اس خلیج کا سبب بننے والے نظام کے بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہ کیا-انھوں نے یہ بھی بتانا پسند نہ کیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیل کی کمپنیوں میں مثل سرمیداروں کے علمی سرمیہ داری کے ساتھ کیا رشتے اور ناتے ہیں-سعودیہ عرب،متحدہ عرب امارات ،بحرین،قطر ،سمیت خلیجی تعاون کنسل میں شامل ملکوں کی حکمران کلاس کا عالمی سرمایہ میں کیا ہیسہ بنتا ہے-اور یہ کس طرح سے مڈل ایسٹ میں سامراج کے قبضہ اور اس کی طرف سے ان ملکوں میں سامراجی سازشوں کو پروں چڑھانے میں ممد و معاون بنے ہوئے ہیں-یہ جو پورے عالم اسلام میں سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے -اس کو پروں چڑھانے میں کس ملک کا سرمایہ کام آ رہا ہے-لبنان ،شام،فلسطین میں امریکی سامراجی ایجنڈہ کو کون سا ملک اور کون کون سے مقامی کردار آگے لیجا رہے ہیں-لکین وہ اس طرح کی کوئی بات بھی اپنے خطبہ میں نہ لا سکے-مجھے تو لگتا ہے کہ جس طرح جمعہ کے خطبے خلیج کی ریاستوں میں ریاستی سنسر شپ سے گرتے ہیں-اسی طرح یہ خطبہ بھی سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں تیار ہوا ہوگا -کیونکہ اس خطبہ میں سعودیہ عرب کے حکمرانوں کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے-
مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس خطبہ میں کسی بھی جگہ لوگوں کے جمہوری،انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی-کسی بھی جگہ عورتوں ،اقلیتوں(مذہبی،نسلی) کے حقوق پر زور نہیں دیا گیا-مسلم ریاستوں میں فرسودہ جاگیرداری،قبائلی جاہلانہ رسوم و رواج کی مذمت نہیں کی گئی-بلکہ عورتوں کی آزادی اور سیاسی آزادی کی تحریکوں کی طرف حقارت اور مذمت کا رویہ اختیار کیا گیا-مسلم دنیا میں مدزہبی بنیادوں پر نفرت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق دبے جانے کا جو سلسلہ جاری ہے -اس پر بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی-
یہ ساری معروضات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے-کہ مسلم ملکوں کی مذهبی اشرفیہ کی سوچ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی اس خطبہ کے مندرجات سے ہوتی ہے-مذهبی اشرافیہ مسلم ملکوں کی سرمایہ دار اور جاگیردار پرتوں کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کر رہی ہے-اس کو ان ملکوں میں رہنے والے محنت کشوں،کسانوں اور شہری اور دیہی غریبوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے-نہ ہی ان کو ان ملکوں میں عورتوں ،بچوں اور مظلوم قومیتوں سے کوئی سوروکار ہے-وہ ان پرتوں کی طرف سے اتگھنے والی تحریکوں کو بھی اسلام دشمن اور مسلم دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کرتیں-ان کے ہاں مسلم ملکوں کے سرمیہ داروں کا جو اتحاد سامراجی سرمایہ کے ساتھ ہے -وہ کوئی خلاف اسلام نہیں ہے-یہ خرد افروزی کی دشمن ہے-اور ایک طرح سے مسلم سماجوں کو پسماندگی اور رجعت پسندی کی دلدل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتی-

Friday, November 4, 2011

کیا نئی سیاست کا آغاز ہونے والا ہے ؟

کیا نئی سیاست کا آغاز ہونے والا ہے ؟
لیل و نہار/عامر حسینی
عمران خان کے تیس اکتوبر والے جلسہ کا چرچا اب تک ہے-اس پر درجنوں کالم اور مضمون ،تجزیے آ چکے ہیں-سب عمران خان کو نئی سیاست کا آغاز کرنے والا کہ رہے ہیں-ایک جلسے کے بعد میں سٹریم میڈیا میں بیٹھے سیاسی پنڈت عمران خان کو اب بھٹو کے برابر لانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں-لکین نجانے کیوں مجھے کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب"لوی پونا پارٹ کی اٹھارویں برومئر "میں لکھے الفاظ یاد آرہے ہیں-اس میں کارل مارکس نے لکھا تھا کہ "تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے-پہلی دفعہ یہ المیہ ہوتی ہے-دوسری دفعہ یہ طربیہ (کامیڈی)ہوتی ہے" اسی کتاب میں کارل مارکس نے لکھا تھا کہ "لوگ ماضی کے سورماؤں کا لباس پہن کر ماضی کو بھونڈے طریقے سے زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں"اب کوئی ماضی کے کسی سورما کا لباس پہن کر آ بھی جائے تو وہ وہ سورما تو نہیں ہوتا-نہ ہی وہ اس طرح کے زمانے میں پیدا ہوا ہوتا ہے جو ماضی کے سورما کا زمانہ ہوتا ہے-کچھ ایسا کچھ ہی عمران خان کی سیاست کے ساتھ بھی ہے-عمران خان صاحب کی سیاست بھٹو کی سیاست میں سے جو کچھ ڈھونڈ کر لا سکی ہے -وہ صرف ان کی سیاست میں کہیں کہیں پائے جانے والے پاکستانی قوم پرستی کے وہ اجزاء ہیں جن کو پاکستان میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کسی دانش وار نے آج تک رد نہیں کیا-ان کی سیاست میں "کرش انڈیا "کا سلوگن'ہزار سال تک جنگ لڑنے کی بات ،اعتم بم بنانے کی بات،فوج کا مورال بلند کرنے کی بات ،اور اس طرح کے وہ سارے کام جو بھٹو صاحب نے ایوب کی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ کے تھے-یا پھر پاکستان ٹوٹنے کے بعد نئے پاکستان کی تعمیر کرتے ہوئے کے تھے-جن سے دائیں بازو کا نیشنل ازم طاقت وار ہوتا تھا-ان سب کو عمران خان نے اپنے سلوگنز کا حصہ بنا لیا ہے-لکین عمران خان کے ہاں محنت کشوں،کسانوں کے لئے کوئی انقلابی سلوگن نہیں ہے-عمران خان بھٹو کی طرح لفظ سرمایہ دار اور جاگیر دار نہیں بولتے-ان کے ہاں جاگیردار اور سرمایہ دار لوٹ کھسوٹ کی علامت نہیں بن پتے-وہ اس ملک کے ججز،جرنیل اور باوردی نوکر شاہی پر بھی نہیں برستے-ان کا سارا کا سارا غصہ یا تو نواز شریف پر نکلتا ہے-یا پھر زرداری پر نکلتا ہے-
٣٠ اکتوبر کو انھوں نے مینار پاکستان پر جو تقریر کی اس میں اہنوں نے ایک مرتبہ بھی لفظ سرمایہ دار ،جسگیردار استعمال نہیں کیا-اہنوں نے اس ملک کی وردی باوردی نوکر شاہی کی ساخت پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی-ان کے خیال میں عوام کی ساری تکلیفوں کا سبب پٹواری ہیں یا پھر علاقے کے تھانیدار -وہ ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہ پائے کے اس ملک کی وردی باوردی نوکر شاہی حکمران طبقات کے مفادات کی محافظ ہے-یہاں وہ بھٹو سے بلکل مختلف نظر آئے-کیوں کہ بھٹو کے زمانے میں سیاست میں جہاں نیشنلزم عروج پر تھا -جس کا زیادہ اثر پنجاب میں تھا -تو ساتھ ساتھ بھٹو صاحب نے اپنی تقریروں میں اس ملک کے مزدوروں،کسانوں اور پسے ہوئے طبقہ کو یقین دلیہ تھا کہ وہ ان پر ظلم ڈھانے والوں کو عبرت کا نشان بنا دین گے-
پی پی پی کی بنیادی دستاویز کو اٹھا کر دیکھئے -اس میں آپ کو سوشلزم اور عوامی راج بارے جو تحریر ملے گی اس سے صاف اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو صاحب کی سیاست کا جو امتیازی نشان بنتا ہے-وہ سلسلہ تو عمران خان کے ہاں نظر ہی نہیں آتا-
کیا وجہ ہے کہ عمران خان اپنی تقریر میں سرمایہ داری کے بحران پر ایک لفظ بھی نہیں بولے-اہنوں نے پاکستان کی عوام کی غربت میں ان پالسیوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی زرہ بھر بھی کوشش نہیں کی جن کی وجہ سے نجکاری ہوئی-لاکھوں لوگوں سے نوکریاں چین لی گئیں-انھوں نے غربت اور مہنگائی بڑھنے میں سٹیٹ بنک کی آزادی اور فنانس منسٹری کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی کوششوں کا ذکر تک نہ کیا-انھوں نے عوام کے خلاف بنانے والے ان کارٹلز اور اجروں کا بھی ذکر نہیں کیا -جن کے نتیجہ میں اس ملک میں لوہا،چینی ،سیمنٹ ،گھی ،گندم سب چیزیں مہنگی ہو گئیں-وہ مالیاتی پالیسیوں پر بھی کچھ نہیں بولے-اہنوں نے جب سیاست دانوں سے اپن منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں اور کھاتوں کو عوام کے سامنے لانے کا مطلبہ کیا تو اس موقعہ پر وہ پھر وردی باوردی نوکر شاہی اور عدلیہ کے ججز صاحبان کو بھول گئے-وہ زرد صحافت کرنے والوں کو بھول گئے-یہ بھولنا مجھے کچھ شعوری لگتا ہے-عمران خان نے اس جلسہ میں مزدوروں کی تنخواہ بڑھنے کا ذکر کیا -لکین ان کے ترید یونین رائیٹس کی بات نہیں کی-وہ تعلیم کے ایشو پر بولے لکین انھوں نے تعلیم کی نجکاری پر ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا-انھوں نے صحت کی نجکاری کے خلاف بات نہیں کی-مجھے ان کی تقریر سن کر یہ خیال آتا رہا کہ عمران خان کی اصلاح پسندی تو ماضی کی سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں جتنی ردکل بھی نہیں نکلی-جو کم از کم ریاست کے کردار کو زیادہ سے زیادہ مزدوروں ،کسانوں ،مڈل کلاس کے حق میں کرنے کی کوشش کرتی تھی-عمران خان بھٹو بننے کے خواہش مند ہیں-مگر سوشل ریفارمز کے بغیر-اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی میں ہمیں اکثریت میں مڈل کلاس (پروفیشنل پرتیں،بیروزگار نوجوان ،چھوٹے کاروباری،میڈیم سطح کا مینو فکچرر )نظر آتی ہے-جو اس بات پر تنگ ہے کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت ان پر بوجھ ڈالنا چاہتی ہے -ٹیکس ریفارمز کا-بجلی،گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے چھوٹا کاروباری اور مینو فکچرر تباہ ہورہا ہے-اور اس کے دیوالیہ ہونے سے پروفیسنیلز کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑھ رہے ہیں-مارکیٹ میں نئے آنے والے مڈل کلاس کے نوجوانوں کو روزگار یا نوکری نہیں مل رہی-ان چھوٹے سرمایہ داروں کو بینک بھی سستے قرضے نہیں دے رہے -نہ ہکموتی پروجیکٹس ان کو مل پا رہے ہیں-اس کے ساتھ ساتھ حکومت ایسی کٹوتیاں کر رہی ہے -اور ایسے ٹیکسز لگنے پر بزد ہے -جن کا اثر اسی مڈل کلاس کی پرتوں پر پڑتا ہے-تو یہ پرتیں احتجاج کے موڈ میں ہیں-یہ روایتی پرتیں اس سے قبل میاں نواز شریف کو پنجاب میں سپورٹ کرتی آئیں تھیں-ان کو مسلم لیگ کی قیادت نے مایوس کیا ہے-اسی لئے ان پرتوں کا رجحان اب عمران خان کی طرف ہوا ہے-لکین عمران خان کی اب تک باتوں سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ مالیاتی سرمایہ کے کیک کے بڑے حصہ پر قابض ان سرمایہ داروں سے بھی کیا لڑائی لڑیں گے جن کے دباؤ کی وجہ سے حکومت مڈل کلاس اور محنت کشوں پر بوجھ بڑھا رہی ہے-ان کی تقریروں میں ڈھونڈھے سے بھی یہ پتہ تک نہیں چلتا کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور سامراج کی معشیت کے میدان میں سامراجیت کا کیسے مقابلہ کریں گے-اہنوں نے پنجابیوں کو پاکستان میں ڈالروں کی بہار آنے کی خوشخبری سنائی تو مجھے خیال آیا کہ عالمی سرمایہ داری جس کساد بازاری سے گزر رہی ہے -اس کے ہوتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری کے آنے اور یہاں معشیت میں بوم کے آنے کی نوید سنانا تو بہت عجیب لگتا ہے-عمران خان سے وابستہ مڈل کلاس کی پرتیں اور خود عمران خان موجدہ سرمایہ داری کی فری مارکیٹ کے ماڈل سے مایوس نہیں ہیں-ان کے ساتھ نوجوان سمجھتے ہیں کہ پرانی ریاستی مشینری اور معشیت کے سرمایہ دارانہ ڈھانچے میں کسی بھی قسم کی انقلابی تبدیلی کی بجائے وہ اسسمبلی میں مسٹر کلین لوگوں کو لیجا کر جب بیٹھا دین گے تو سرمایہ داری کا موجودہ ماڈل ساری سست بازاری کو ختم کر دے گا-پاکستانی معشیت کو پر لگ جائیں گے-اور پاکستان میں غربت،بھوک،مہنگائی ،بیروزگاری سب ختم ہو جائیں گی-وہ خیالی سوشلسٹوں کی طرح بہت آسان حل بھی بتلاتے ہیں-جو بہت سادہ اور دلفرائف بھی ہیں-"ہم سوئیس بنکوں سے لوٹی دولت لے آئیں گے""ہم امریکہ کو کہیں گے کہ ہم سے دوستی کرو لکین ہم آپ کی غلامی نہیں کریں گے""ہم تھر کا کوئلہ نکل لیں گے "مجھے ثمر مند مبارک کے بیانات یاد آئے جو انھوں نے پچھلے سال بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ دئے تھے-لکین وہ اب مانتے ہیں کہ اتنا آسان نہیں ہے تھر کے کوئلوں کو گیس میں بدلنا -عمران خان بہت سادگی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حل بتلاتے ہیں-ان کو سامراج اور سامراجیت کے بڑے میں بہت شدید ضرورت ہے پڑھنے کی-جیوپالیٹکس سے ابھرنے والی مسابقت کا خاتمہ اتنا آسان ہوتا تو ٧٠ کی پاپولسٹ سیاست سے ابھرنے والی قوم پرستی کا وہ حشر نہ ہوتا -جو ہم نے ہوتا دیکھا-عمران خان پنجاب کے شہری علاقوں کی مڈل کلاس ،چھوٹے کاروباری ،بیروزگار نوجوان اور پروفیشنل پرتوں کے مفادات اور دائیں سمت کے رجحان کے ساتھ ابھرنے والی قوم پرستی کے ترجمان بن کر ابھر رہے ہیں-بس یہ ہے وہ حقیقت جس کو یار لوگ کبھی بھٹو کی سیاست سے تو کبھی بے نظیر کی سیاست سے تعبیر کر رہے ہیں-عمران خان کی سیاست سے مزدوروں اور محنت کش پرتوں کو کچھ نہیں ملنے والا-نہ ہی ان کی سیاست میں سندھ،بلوچستان ،سرائیکی بیلٹ اور جنوبی خیبر پختونخوا کے نوجوانوں اور مڈل کلاس کے لئے کوئی کشش موجود ہے-عمران خان کا دیں بازو والا نیشنلزم ان کو جرنیلوں ،ججز اور باوردی نوکر شاہی کے خلاف کچھ بولنے نہیں دیتا -وہاں کی مڈل کلاس اور نوجوان اسی لئے سندھی،سرائیکی ،بلوچ اور پختون نیشنلزم کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتے ہیں-اسی لئے ان علاقوں میں عمران خان کو مقبولیت نہیں مل رہی-آنے والی دنوں یہ پہلو اور زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے گا-