Wednesday, August 26, 2015

سیکولر ازم کی جیت یا ہار


شاداب رشید معروف ادیب و صحافی ساجد رشید مرحوم کے صاحبزادے ہیں اور ساجد رشید کی وفات کے بعد ممبئی مہاراشٹر ہندوستان سے وہ ساجد رشید کی یادگار " نیا ورق " کو باقاعدگی سے نکال رہے ہیں -مرے سامنے نیا ورق کا تنتالیسیواں شمارا ہے اور شاداب نے اس رسالے میں اپنے والد کے شروع کئے ہوئے اپنے ہی منفرد سٹائل کے اداريے ( جس کو انھوں نے دستخط کا نام دیا تھا ) کو لکھا ہے اور اداريے کا عنوان ہے " سیکولرازم کی جیت یا ہار " اس اداريے میں شاداب رشید نے ہندوستان کی مخصوص فضا میں جس اہم ترین سوال کو بغیر اس سوال کے اٹھائے ڈسکس کیا ہے ، ہمارے ہاں بھی اسی سے ملتی جلتی فضا موجود ہے اور یہ سوال اس فضا کے اندر ہمیں بھی اس موضوع کو زیر بحث لانے کا موقعہ فراہم کرتا ہے مہاراشٹر میں مسلمانوں کی ایک نئی جماعت سامنے آئی ہے اور اس کا نام ہے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور یہ پارٹی اس بنیاد پر بنی کہ بھارت کو ایک تو سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کے لئے سازگار ملک بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا اور دوسرا بھارت میں مسلمانوں کو " ہندوتوا " کی علمبردار جماعت کے سامنے لاچار بناکر ڈال دیا گیا تو اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمان بھارت کی روائیتی " سیکولر " پارٹیوں سے الگ ہوجائیں اور وہ اپنی پارٹی بنالیں تاکہ ان کی بقا کو لاحق خطرات میں کمی آئے شاداب رشید کو مسلم کمیونٹی کو ہندوستان میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی ایک سیاسی پارٹی بنانے اور ملک بھر کی " سیکولر سیاست " اور اس سے جڑی سیاسی پارٹیوں سے الگ تھلگ ہونے کی تجویز دینے اور ایسی پارٹیوں کی حمایت کرنے والوں سے شدید اختلاف ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب کزشتہ اکتوبر میں بھائیکلہ ممبئی مہاراشٹر ہندوستان کی سیٹ پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین - آے ایم آئی ایم آئی ) کے وارث پٹھان کے جیتنے پر ان کو کسی نے وٹس ایپ پر مبارکبادک کا پیغام بھیجا تو انھوں نے پیغام بھیجنے والے کو لکھا کہ افسوس صد افسوس اس پر پیغام بھیجنے والے کو بڑی حیرانی ہوئی اور اس نے جواب لکھا کہ کس بات کا افسوس ؟ تو شاداب نے جواب میں لکھا ایم آئی ایم کے جیتنے کا تو اس دوست نے جواب دیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے امیدوار کی جیت کی خوشی نہیں ہوئی ؟ میں تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگیا لیکن میں جانتا تھا کہ کانگریس کا ہارنا سیکولر ازم کے لئے جتنا فائدہ مند ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ ایم آئی ایم کا جیتنا ہے شاداب رشید کی دلیل یہ ہے کہ جب بھی کوئی مسلم لیڈر مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کی بات کرتا ہے ، بابری مسجد کو مہرہ بناکر ان کے جذبات بھڑکاتا ہے تب پتہ نہیں کیوں ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مسلم لیڈر کے پیچھے مسلمانوں کا بال ٹھاکرے بول رہا ہے جب ہم بال ٹھاکرے یا راج ٹھاکرے کی تقریر یا اس کے بھڑکاؤ بھاشن برداشت نہیں کرسکتے تو کیوں ہم ایم آئی ایم کے امیدواروں کی بے لاگ جذباتی تقریر اور ان کے اشتعال انگیز فقروں پر تالی پیٹتے ہیں ! شاداب لکھتے ہیں کہ یہ خیال آتے ہی مجھے اس سوال کا جواب سوجھ گیا اور میں نے لکھا " مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی یا ان کے جذبات سے کھیلنے والی پارٹی ! ؟ " شاداب کہتے ہیں کہ مری اس سطر پر مرے ساتھی نے خاموشی اختیار کرلی اور شاید اس سطر نے اسے بھی سوچنے کی ترغیب دی ہوگی شاداب نے اس سے آگے اپنے " اداریہ " میں مہاراشٹر میں اے آئی ایم آئی کے ابھار سمیت ہندوستان میں اقلیتوں کی اگوائی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے نام پر بننے والی پارٹیوں کی سیاست کا جائزہ لیا ہے اور شاداب رشید کا تجزیہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے بننے والی اکثر پارٹیاں خود کو " سیکولر پارٹیاں " کہلاتی ہیں لیکن یہ ساری کی ساری پارٹیاں اپنے آخری تجزیہ میں " فرقہ پرستی " کا شکار ہوتی ہیں اور یہ مذھبی اقلیتوں کے جذبات کو مشتعل کرتی ہیں اور اکثریت کی فرقہ پرست پارٹیوں کی طرح کا کام کرتی ہیں ، شاداب کا کہنا یہ ہے کہ اگر مہاراشٹر میں پروین توگڑیا اور ورون گاندھی کی زھر افشانی غلط ہے تو اکبر الدین اویسی کی زھر افشانی کیونکر ٹھیک ہوسکتی ہے ، شاداب کہتے ہیں کہ آئی ایم آئی کے امیدوار انتخابی مہم کے دوران ہندؤں کے عقائد اور ان کی مقدس ہستیوں کے خلاف توھین آمیز تقاریر کرتے رہے اور یہ کون سا سیکولر ازم ہے شاداب نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین جیسی جماعتیں سیکولر ازم کی مثال بن سکتی ہیں ؟ شاداب اس کا جواب نفی میں دیتا ہے شاداب کے اس اہم ایشو کو اٹھانے کی اہمیت مجھے پاکستان کے اندر بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے - پاکستان کے اندر سیکولر ، لبرل رجحان کو ویسے تو ہمیشہ سے سخت ترین چیلنجز کا سامنا رہا ہے لیکن 80ء کی دھائی تک پاکستان کے اندر بسنے والی غیر مسلم اقلیتیں اور خود مسلمانوں کی جو مسلکی اقلیتیں تھیں وہ سیکولر جماعتوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا کرتی تھیں لیکن 90ء کے بعد ابتک صورت حال میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے ، ایک تو یہ ہے کہ پاکستان میں مذھبی اقلیتوں اور یہاں تک کہ مسلمانوں ميں جو صوفی اکثریت تھی وہ بھی بری طرح سے عدم تحفظ کا شکار ہوئی ہے اور اسے سخت ترین پرتشدد انتہائی تنگ نظر مسلم مذھبی فسطائیت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس فسطائیت سے ان کی جان ،مال ، آبرو ، عزت ، شناخت سبھی پر سخت ترین حملے ہوئے ہيں ، اس میں خاص طور پر شیعہ ، کرسچن ، ہندؤ ، احمدی اور سنّی بریلوی قابل زکر ہیں - ان کمیونٹیز پر نام نہاد " جہادی اسلام پسندوں " کی جو یلغار ہے اس کا ایک جواب تو ویسا ہی سامنے آیا ہے جیسا ہم نے ہندوستان میں مہاراشٹر سے اٹھنے والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی شکل میں دیکھا -ہم نے پاکستان میں جب شیعہ نسل کشی میں تیزی آئی اور شیعہ کو ایک تیز ترین عسکری ، تکفیری فرقہ وارانہ جنگجوئی کا سامنا ہوا تو دیکھا کہ ایک طرف تو شیعہ کی پرانی تنظیم تحریک جعفریہ جو خود بھی 80ء کی دھائی ميں ضیاء الحق کی وہابائزیشن کے پروسس کو زبردستی نافذ کرنے کے ردعمل میں سامنے آئی تھی بے اثر سی ہونے لگی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ملیٹنٹ تنظیم " مجلس وحدت المسلمین " نے شیعہ اکثریت کی آبادی کے علاقوں ميں اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردیں اور یہ پارٹی ایک طرف تو گلگت بلتستان تو دوسری طرف یہ ہزارہ ٹاؤن ، علمدار روڈ سمیت کئی ایک علاقوں ميں خود کو شیعہ کی نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے لگی اور اس نے بھی بظاہر خود کو " غیر فرقہ پرست اسلامی انقلاب " کی علمبردار بتلایا - اسی طرح سے بریلوی حضرات نے " سنّی اتحاد کونسل " " پاکستان سنّی تحریک " سمیت کئی ایک بریلوی کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے نام پر سیاسی جماعتیں بنائیں - اگرچہ پاکستان میں دھشت گردی کا شکار مسلم فرقوں کی جانب سے جو سیاسی جماعتیں بنائیں گی وہ اس حد تک غیر فرقہ پرستانہ ہیں کہ وہ اپنے اوپر دیوبندی - سلفی دھشت گرد تںطیموں کے حملوں اور ان کی جانب سے مساجد ، امام بارگاہوں پر حملوں کی مذمت کرتی ہیں اور وہ عقیدے کی بنیاد پر کسی کے کم از کم " قتل " کی حمائت نہیں کرتیں جبکہ ان میں سے شیعہ کی نمآئندہ ہونے کی دعوے دار جماعت " مجلس وحدت المسلمین " کم از کم بریلوی ، دیوبندی ، وہابی کی تکفیر کی قائل نہیں ہے لیکن یہ سب جماعتیں احمدیوں ، اسماعیلیوں ، پرویزیوں وغیرہ کی تکفیر کی قائل ہیں اور یہ احمدیوں سمیت پاکستان میں بسنے والے ہندؤ ، کرسچن ، احمدیوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے پر بھی متفق ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جماعتیں پاکستان کے اندر " اسلامی نظام " لانے کی داعی بھی ہیں ، گویا ہندوستان میں مسلم جماعتیں جو منہ سے " سیکولر " ہونے کی داعی ہیں جس میں اے آئی ایم آئی ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی ہند ، جمعیت اللعمائے ہند بھی شامل ہیں اور تو اور اس میں ہندوستان کی احمد رضا بریلوی کی روائت کو فالو کرنے والی " جماعت رضائے مصطفی " بھی شامل ہے ، احمد رضا خاں بریلوی کے پوتے مولوی توقیر رضا خان بھی " سیکولر ازم " کے حامی خود کو بتلاتے ہیں لیکن یہ سب کے سب اپنے تئیں مسلم کمیونٹی کے حقوق کی سیاست کے نام پر فرقہ پرستانہ سیاست ہی کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ، شاداب رشید نے اس حقیقت کی نشاندھی کرتے ہوئے بہت کمال کا اختتامی پیرا لکھا ہے دراصل ہمارے کچھ انتہا پسند ملّا ، پنڈت الگ الگ مسلک اور فرقوں ميں بٹ کر اپنے زاتی مفاد کے تئیں پوری قوم کے خودساختہ نمآئندے کی حثیت سے اپنی اپنی پسند کی پارٹیوں کی حمائت کا اعلان کرتے ہیں اور ہمیشہ ہی دھوکا کھانے والی ہماری بے بس و لاچار قوم ہر بار کی طرح ان انتہا پسند ملّاوئ اور پنڈتوں کی باتوں میں آکر اپنا ووٹ بھی ایسے ہی لیڈران کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے -جبتک انتہا پسند ملّا اور پنڈت ، مسلک اور فرقوں کی کالی پٹیاں عوام کی آنکھوں پر باندھے رہیں گے تب تک اتحاد کی روشنی تک پہنچنا ناممکن ہے شاداب میں اتنی ہمت اور بے باکی ہے کہ وہ ہندوستان میں " سیکولر لبادے " میں چھپے فرقہ پرست ملّاؤں اور پنڈتوں کو بے نقاب کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے بعض لبرل آئیکونز ایسے ہیں جن کے اخبارات و جرائد ایسے نام نہاد اعتدال پسند ملّاؤں کو امن کے پیامبر بتلاتے ہیں ، ان کی جماعت کی " امن کی داعی " کے طور پر پروجیکشن بھی کی جاتی ہے ہمارے سامنے " پاکستان علماء کونسل " کی مثال موجود ہے - یہ پارٹی سپاہ صحابہ پاکستان کے پرانے کیڈرز نے ملکر بنائی ہے اور اس کے موجودہ سربراہ مولوی طاہر اشرفی کو پاکستان میں کئی ایک لبرل صحافی ، تجزیہ نگار اور دانشور " امن کا داعی " بناکر پیش کرتے ہیں اور اسے ماڈریٹ مولوی بناکر بھی دکھایا جارہا ہے اور پاکستان کے کئی ایک صحافی جو خود کو بہت ہی اعتدال پسند ظاہر کرتے ہیں اس سے آگے بڑھ کر سپاہ صحابہ پاکستان کی کور پارٹی اہلسنت والجماعت کی قیادت کو اعتدال پسند قیادت بناکر پیش کرتے ہیں - حال ہی میں جب لشکر جھنگوی سربراہ ملک اسحاق اور اس کے ساتھی مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے تو پاکستان کے ایک بڑے " لبرل " جریدے " فرائیڈے ٹائمز " نے ایک مرتبہ پھر " طاہر اشرفی " کو ماڈریٹ مولوی کے طور پر پیش کیا جبکہ طاہر اشرفی کی پوزیشن سب کو معلوم ہے ، ملک اسحاق کے بارے میں اس کا موقف یہ تھا کہ ملک اسحاق سے اس کی ملاقاتیں اس کو تشدد کی راہ چھوڑ کر " اپنے مطالبات " کے لئے پرامن سیاسی جدوجہد کی راہ اختیار کرنے پر راضی کرنا تھا اور اہلسنت والجماعت کی طرح عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانے پر قائل کرنا تھا طاہر اشرفی کی اس دلیل کو بنیاد بناکر طاہر اشرفی کو ایکاعتدال پسند مولوی بناکر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اس دلیل کا مدعا اور مقصد صرف یہ تھا کہ ملک اسحاق اور اس کے ساتھی شیعہ ، احمدی سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف " جنگجو " راستہ اختیار کرنے کی بجائے " محمد احمد لدھیانوی ، اورنگ زیب فاروقی " کی طرح زبانی طور پر بس یہ کہیں کہ وہ " شیعہ کو آئین ، قانون اور شرع " کی رو سے کافر قرار دینے اور ان کا سٹیٹس " احمدیوں " کے برابر لانے کی جدوجہد کریں اور اسے اعتدال پسندی سے تعبیر کیا جارہا ہے جبکہ یہی اشرفی بہت کھل کر پاکستان میں آل سعود اور ان کے ایجنڈے کے حمائتی بنکر سامنے آئے ہیں لیکن ہمارے نجم سیٹھی اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل بہت سارے لوگ اشرفی اور ان کی جماعت کو اعتدال پسند ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے حامد میر اہلسنت والجماعت اور محمد احمد لدھیانوی کو اعتدال پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر جتنی بھی مذھبی جماعتیں ہیں چاہے وہ غیر فرقہ پرست ہونے کا رعوی کیوں نہ کریں ان کی سیاست اول و آخر فرقہ پرستانہ ہے اور وہ سیاست سیکولر ، لبرل ، روشن خیالی ، خرد افروزی کی سیاست سے دور ہے اقلیتی مذھبی برادریوں اور دھشت گردی کی متاثرہ اور نسل کشی کا شکار شیعہ و صوفی برادریوں کے حقوق کی جنگ اور ان کو ظلم و بربریت سے بچانے کی جنگ ان مظلوم و محکوم و کچلے و پسے ہوئے فرقوں اور مسالک کے نام پر ایک اور انداز کی فرقہ پرست سیاست شروع کرنے میں نہیں ہے یا اس کا حل مذھبی پیشیوائیت کی کسی ایک پرت کو آئیڈیل بناکر پیش کرنے میں نہیں ہے اور اس سے سیکولر ، لبرل روایات کو کسی بھی طرح سے مضبوطی حاصل نہیں ہوسکتی ہمیں پاکستان میں سیکولر ، لبرل جماعتوں کے اندر فرقہ پرستوں کی حمائت ، ان کی سرپرستی کی ضرور کرنی چاہئیے اور ان سرپرستوں کو بے نقاب بھی کرنا چاہئیے لیکن سیکولر ، لبرل سیاست کا متبادل فرقہ پرست سیاست کو گلوریفائی کرنا نہیں ہونا چاہئیے پاکستان کے اندر سیکولر لبرلز کو طاہر اشرفی ، محمد احمد لدھیانوی ، سراج الحق ، امین شہیدی ، ساجد نقوی جیسے لوگوں کو " فرقہ پرست سیاست کا توڑ " کے طور پیش نہیں کرنا چاہئیے - یہ بہت بڑی فاش غلطی ہے اور اس کو دوھرانے سے بچنے کی ضرورت ہے

Thursday, August 20, 2015

شیخ احمد سرہندی ایک تجزیہ


نوٹ : یہ سلسلہ مضمون میں بہت پہلے لکھنا چاہتا تھا ، خاص طور پر اس وقت جب " عبدل نیشا پوری " ، علی ارقم عرف انور دورانی ، فرحت تاج اور دیگر کئی لوگوں کی جانب سے عصر حاضر کی تکفیریت اور خارجیت ، ساتھ ، ساتھ دھشت گردی کی تاریخی جڑوں کی تلاش شروع ہوئی تو عبدل نیشا پوری نے " شیخ احمد سرہندی " بارے کچھ باتیں کیں اور کچھ نظریاتی و فکری مقدمات بھی سامنے رکھے ، پھر یوں ہوا کہ مجھے بھی احساس ہوا کہ اس بارے میں روائتی موافق و مخالف باتوں سے ہٹ کر بات کرنا ضروری ہوگئی ہے ،ایک اور ساتھی نے مجھے پیغام بھیجا کہ شیخ احمد سرہندی کے بارے میں جو متھ اور حقیقت کے درمیان کی کیفیت ہے اسے ختم کیا جائے اور اس دوست کا انباکس میسجز میں اصرار ہی اس سلسلہ ہائے مضمون کا زیادہ سبب بنا شیخ احمد سرہندی مشرقی پنجاب کے شہر سرہند میں 1564ء میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ محمد واحد سلسلہ چشتیہ صابریہ سے منسلک تھے اور شیخ ابن عربی کے متعقد تھے اور فصوص الحکم ان کی محبوب ترین کتب ہائے دروس میں شامل تھی اور شیخ احمد خود بھی اوائل عمری میں " وحدت الوجود " کے قآئل تھے اور انھوں نے ایک مکتوب میں لکھا کہ اوائل ميں ان کے اندر کفر و ایمان دونوں اکٹھے تھے یعنی وہ وحدت الوجود کے بھی قائل تھے جو بقول ان کے کفر تھا پـدرش شـيخ 5 خليفه دوم ميرسيد.- و به همين دليل به فاروق عبدالاحد از مشايخ طريقه صابرين چشتيه در سرهند جلسات درس بـه پـا كـرده و متعلمـان را كلام و عرفان ميآموخت. شيخ عبدالاحد گرايشهاي وحـدت وجـودي داشـت و محبـوبتـرين متون درسياش كتاب التعرف بخاري، عوارف المعارف سـهروردي و فـصوص الحكـم ابـن عربـي بود»(8، ص: 205). شيخ احمد تحصيلات مقدماتي خود را، نزد پدر آموخت كه صـبغه وحـدت وجودياش از همان اوايل مشهود بود. در يكي از مكتوبات اوليه شيخ احمد به خواجه بـاقي بـاالله (مرادش) چنين آمده است: اي دريغا كين شريعت ملت ايماني است ملت ما كافري و ملت ترسايي است كفر و ايمان زلف و روي آن پري زيبايي است كفر و ايمان هر دو اندر راه ما يكتايي است(5،دفتر دوم، مكتوب اول) شیخ نے ابتدائی تعلیم تو گھر پر ہی حاصل کی لیکن مزید تعلیم کے لئے وہ سیالکوٹ گئے اور وہاں مولوی کمال الدین کشمیری اور مولوی یعقوب سے حدیث اور دیگر علوم پڑھے براي تكميل معلومات خـود بـه سـيالكوت رفـت. در آن جـا نـزد مولانـا كمـال الـدين كشميري، علوم منقول و نزد شيخ يعقوب كشميري، فقه و حديث آموخت اور ان کے مریدان اور پیروان نے لکھا ہے کہ سترہ سال کی عمر میں انھوں نے تمام علوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل کرلیا اور ان کو اجازت تدریس علوم بھی مل گئی تھی اور قاضی بھلول بدخشی جو کہ شیخ عبدالرحمان کے شاگرد تھے انھوں نے ان کو روایت حدیث کی اجازت دی اور تفسیو قرآن و صحاح ستہ کی بھی اجآزت ان سے مل؛ ، اسی دوران تدریس کے علاوہ وہ عربی و فارسی کے اندر تصنیف و تالیف میں بھی مشغول ہوگئے پيروانش نوشتهاند در هفده سالگي علوم ظاهر و باطن را به دست آورده و بـا اذن قاضـي بهلـول بدخشي، شاگرد شيخ عبدالرحمن بنفهد، جواز روايت گرفته و با تصويب و توصيه او به تـدريسِ تفسير و صحاح سته پرداخت. در همين دوران بود كه او علاوه بر تـدريس بـه تـصنيف و تـأليف رسالههايي به زبان فارسي و عربي همت گماشت ہم اگرشیخ احمد سرہندی کے فکری ارتقاء کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے چند ایک باتیں ضرور رہنی چاہيں ایک تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ شیخ احمد سرہندی جب تدریس اور تالیف کی طرف آئے تو ان کے عزائم اس دور کی ان کی تحریروں میں ہی بہت بلند نظر آتے ہيں ، اور یہ وہ زمانہ تھا جب اکبّر نے ہندوستان کے اندر مضبوط مغلیہ سلطنت کی بنیادیں ڈال دی تھیں اور اکبّر مغل راج کو برقرار رکھنے کے لئے ہندوستان کے اندر مختلف مذھبی اور نسلی گروپوں کے درمیان " صلح کل " کی بنیاد تلاش کررہا تھا ، جس سے کوئی مذھبی تضاد آگے بڑھکر مغلیہ اقتداد کی چڑيں کھوکھلی نہ کرسکے ، اکبّر نے ہمایوں سے آگے جاکر یہ کیا کہ اس نے اپنے دربار میں جہآں پہلے سے ایرانی ، افغان (روھیلہ وغیرہ ) مقربین مين شامل تھے وہیں اس نے ہندؤ بااثر قبیلوں کے سرکردہ لوگوں کو بھی جگہ دی ، اس کے دربار میں شیعہ ، سنّی ، صوفی ، ہندؤ برہمن ، سادھو ، سنیاسی سبھی تھے اور اکبّر نے اپنے قریب ایسے علماء کو کیا جوکہ صلح کل صوفی المشرب تھے جیسے علامہ مبارک ناگپوری ، فرزندان مولوی یعقوب کشمیری اور ابوالفضل فیضی وغیرہ اور ان کا زیادہ جھکاؤ ایرانی شیعہ اور صوفی صلح کل کی جانب تھا اور جو اکبّر کی روادار ، سیکولر ، لبرل پالیسی کی حمائت کررہے تھے اور اس پالیسی کے جواز کے لئے ظاہر ہے ایسی مذھبی تعبیرات کو اولیت دی جارہی تھی جو کہ صلح کل کے حق میں ہوں اور بین المسالک اور بین الادیان لڑائی ڈالنے والی نہ ہوں ، اکّبر نے ہندوستان میں اپنے زیر تسلط علاقوں میں مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان تعلق کی نوعیت کو دو برادار اقوام کے طور پر سیٹل کرنے کی پالیسی جو اپنائی تھی اس کے پیش نظر یہ ممکن نہیں تھا کہ ہندؤں کو حربی کافر قرار دیا جاتا ، یا ان کو زمّی قرار دیکر ان پر جزیہ نافذ کیا جاتا ، اکّبر اور اس پہلے ہمایوں کے زمانے ميں بھی ہندوستانی مغلیہ سلطنت ایک جانب تو ایرانی صفوی شیعہ ریاست سے اپنے تعلقات دوستانہ رکھنے کی خواہش مند تھی ، دوسری طرف ایران اور آج کے مڈل ایسٹ کے اندر چل رہی شیعہ - سنّی چتقلش سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتی تھی ، ایسا نظر آتا ہے کہ مغلیہ سلطنت نے آغاز کار سے اپنے آپ کو نسبتا ایک سیکولر ریاست کے طور پر پیش کیا اور اکّبر نے نے اس کو اور زیادہ اچھی طرح سے بطور مغل سلطنت کی پالیسی کے طور پر اپنایا اس موقعہ پر ہمیں زرا یہ بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ مغل سلطنت جس کی بنیاد مغلوں کے جد تیمور لنگ نے رکھی تھی اور تیمور ، بابر ، ہمایوں نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیادوں کو مذھبی بنیاد کی بجائے ، سیکولر بنیاد پر استوار کیا اور ہندوستان کے اندر مجموعی طور پر ایک روادار طرز حکومت کو فروغ دیا تھا لیکن پھر دربار پر ایسے علماء کا اثر و رسوخ موجود تھا جو کہیں نہ کہیں ریاست کو فرقہ وارانہ یا کمیونل بنیادوں پر اقدام اٹھانے پر مجبور کردیا کرتے تھے ، اکبّر نے جب عنان حکومت سنبھالی تو اس زمانے میں ایک شدت پسند عالم تھے قاضی شیخ عبدالنبی انھوں نے اکبّر کو قائل کیا کہ وہ شیعہ عالم میر مرتضی شریف شیرازی ثم دھلوی کی قبر کو کھدوادیں جوکہ امیر خسرو کے ساتھ تھی اور اس کی بنیاد انھوں نے یہ قرار دی کہ ایک سنّی مسلمان کی قبر کے ساتھ ایک رافضی کی قبر نہیں ہونی چاہئیے اکبّر کی پیدائش 15 اکتوبر 1542ء میں ہوئی اور وہ تیرہ سال کی عمر میں بیرام خان کی اتالیقی میں مغل سلطنت کا بادشاہ بنا اور 1556ء کا سال تھا اور آثار و تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اکبّر پر آرتھوڈوکسی کا غلبہ 1570ء تک رہا اور اس عرصہ میں اس نے گجرات میں جو مہدویت کی تحریک تھی اسے سختی سے کچل ڈالا تھا اور اس کے روح رواں شیخ مصطفی المعروف بندگی میاں کو پابازنجیر فتح پور سیکری میں دربار اکبّر میں لایا گیا اور قید کیا گیا ، یہ وہ دور تھا جب اکبّر خود بھی ایک بڑے فکری ارتقاء سے گزر رہا تھا ، یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے جو اساتذہ تھے ان میں اگرچہ سب کے سب آرتھوڈوکس تھے لیکن اور ان اساتذہ میں دو ایرانی شیعہ بھی تھے جبکہ باقی سب سنّی حنفی تھے مگر یہ سب شدت پسندی سے دور تھے اور معتدل نظریات کے حامل تھے 1570ء سے 1579ء تک کا دور اکبّر کی زندگی کا اہم ترین دور ہے ، اس دور میں اکبّر نے تصوف میں صلح کل کے مشرب اور راستے کی جانب سفر شروع کیا اور زیادہ سے زیادہ ایسے علماء و صوفیاء کی صحبت اختیار کی جن کا رجحان وحدت الوجود کی طرف تھا اور وہ آرتھوڈوکسی کی فرقہ وارانہ اور کمیونل شکلوں سے دور تھے ، اکبّر نے اسی زمانے میں اپنے دربار کے اندر ایک طرف تو سنّی علماء کے ساتھ ساتھ شیعہ علماء کو بھی بلایا ، پھر اس نے دیگر مذاہب کے علماء کو بھی دربار میں جگہ دی ، اس کے ساتھ مختلف مذاہب کے اندر جو روحانیت اور باطنیت کی روایات کے علمبردار مکاتب فکر تھے ان کے ماہرین کو بھی اپنے دربار میں جگہ دی اکبّر کے دور میں کہا جاتا ہے کہ اکبّر کی " صلح کل " کی پالیسی کی وجہ سے مغل فن تعمیر ، آرٹ ، پینٹنگ ، کیلی گرافی اور دیگر فنون لطیفہ ارتقاء کی اس منزل پن پہنچے جہاں ان کو Indo - Perso Islamic Culture یا ہند - فارسی اسلامی کلچر کا نام دیا گیا اور اسے ہند - فارسی تہذیب کا نام بھی دیا گیا - اکبّر نے اسی دور میں اپنے ہاں ایک عبادت خانہ کے نام سے ایک عمارت تعمیر کروائی جس کے اندر سنسکرت ، فارسی ، عربی ، ہندوی اور یونانی زبان کے عالموں ، ادیبوں کو جگہ دی گئی اور اس میں ہی ایک کتب خانے کی تعمیر ہوئی جس میں سنسکرت ، عربی ، فارسی ، ہندوی ، یونانی ، کشمیری زبانوں میں لکھی 24 ہزار سے زائد کتب اکٹھی کی گئیں یہ وہ دور ہے جب اکبّر نے ایک طرف تو شیخ مبارک کے بیٹوں کو اپنے قریب کیا جو کہ علم وفضل میں یکتا اور آرتھوڈوکسی سے دور تھے اور اسی دور میں اکبّر کے قریب میر احمد نصراللہ ٹھٹھوی اور پھر طاہر محمود بن حسن نسیانی سبزواری ٹھٹھوی اکبّر کے مقربین میں شامل ہوئے میر احمد نصر اللہ ٹھٹھوی کی پیدائش سندھ میں ہوئی تھی لیکن اس نے اس زمانے میں ‏عثمانی ترک سلطنت ، صفوی سلطنت اور مغل سلطنت کے جتنے علم و عرفان اور تجارت کے بڑے مراکز تھے ان کا دورہ کیا تھا اور اس نے پھر اس زمانے میں جو ہندوستان ، فارس ، جحاز اور شام وغیرہ میں دیگر مذاہب کی جو گونا گونی تھی اس کا علم بھی حاصل کیا تھا ، افسوس یہ ہے کہ میر احمد نصراللہ ٹھٹھوی جس کو اکبّر کا بہت زیادہ قرب حاصل تھا اور یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ اکبّر کی صلح کلیت کی فکر کی تشکیل میں اور اسے بلوغت تک پہنچانے میں میر احمد نصر اللہ ٹھٹھوی کا بہت بڑا ہاتھ تھا ، اس کے بارے میں تفصیلات بہت کم ہیں اور یہی حال شیخ طاہر ٹھٹھوی کا بھی ہے جس نے روضۃ الطاہرین نامی کتاب کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا اکبّر نے اسی اہم ترین فکری ارتقاء کے عرصہ کے دوران ایسے عالم فاضل لوگوں کا انتخاب کیا جن کی تاریخ پر عبور ہو اور ان کے زمہ اس نے مسلم تاریخ کی ابتداء سے لیکر اپنے دور تک کی تاریخ کو مدون کرنے کا کام کیا اور شیخ طاہر ٹھٹھوی اس پروجیکٹ کا نگران بھی تھا اور اس نے سندھ ، حجاز ، ترک علاقوں سمیت کافی علاقوں کی تاریخ خود مدون کی اور اس نے 36 ابواب پر مشتمل روضۃ الطاہرین کو ترتیب دیا اور اس کی وفات جہانگیر کے دور میں ہوئی جبکہ شیخ احمد نصراللہ ٹھٹھوی کا انتقال اکبّر کی زندگی میں 1588ء میں ہوگیا تھا اکبّر نے 1570ء سے 1579ء تک جس طرح کے خیالات کو قبول کیا اور جس طرف اس نے حرکت کی وہ ایک بات تو طے ہے کہ وہ آرتھوڈوکس مسلم تھیوکریسی سے ہٹ کر تھے اور خاص طور پر اس مسلم تھیوکریسی کے سیکشن کے بالکل برخلاف تھے جوکہ ہندوستان میں سخت گیر ، فرقہ پرستانہ سنّی حنفی ماڈل کا نفاذ چاہتے تھے ، جو ہندوستان میں بسنے والے ہندوؤں ، سکھوں ، پارسیوں ، بدھ مت اور جین مت کے ماننے والوں پر جزیہ جبکہ مسلمانوں میں جو آرتھوڈوکس سنّی مکتبہ فکر سے ہٹ کر دوسرے فرقے اور مسالک تھے جیسے شیعہ ( اثناء عشریہ ، اسماعیلی ، قرامطہ وغیرہ ) ان کو مرتد قرار دیکر یا تو ان سے توبہ تائب ہونے یا ان کے قتل کا نظریہ رکھتے تھے اور ہمیں ایسے شواہد ملے ہیں کہ اکبّر کے ابتدائی دور میں یعنی 1556ء سے 1570ء تک ان علماء کو اکبّر کے دربار میں خاصا اثرورسوخ حاصل تھا اور اکبّر کے دربار میں ایسے نقشبندی صوفیاء کو بھی بڑا اثر و رسوخ حاصل تھا جو وسط ایشیائی علاقوں ، افغانستان پر خاصا اثر رکھتے تھے اور ان کے شیعہ مذھب کے بارے میں نظریات خاصے فرقہ وارانہ تھے اور اس کی ایک وجہ ترک عثمانی سلطنت ، صفوی سلطنت کے درمیان کشاکش اور اسی طرح سے صفویوں کی وسط ایشیائی چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں پر قبضہ گیری اور وہاں پر شیعہ مذھب کا تسلط اور جواب میں سنّی ازبک ، تاجک ، افغان ، تاتار ، ترکمانیوں وغیرہ کا ردعمل بھی تھا اکبّر نے 1570ء میں اس فرقہ پرستانہ اور کمیونل ڈسکورس سے دور ہونا شروع کیا ، اور اس کی سوچ میں تبدیلی کے آثار اس وقت نظر آئے جب اس نے مہدوی تحریک کے روحانی پیشوا بندگی میاں شیخ مصطفی کو قید سے رہا کردیا اور اس نے اپنے دربار میں شیعہ - سنّی اختلاف کو ابھارنے والی پالیسی پر پابندی لگادی اور یہ وہ دور تھا جب سخت گیر ، آرتھوڈوکس میں واضح طور پر فرقہ پرستانہ رجحان کی جانب جھکاؤ رکھنے والے اور literalism کی جانب واضح جھکاؤ رکھنے والے مذھبی پیشواؤں اور سخت گیر نقشبندی صوفیاء سے اکبّر کی دوری کا سلسلہ شروع ہوا ورنہ اس سے پہلے اس کے دربار میں یہ دونوں سیکشن مقرب تھے اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آرتھوڈوکس مسلم علماء و مشائخ کے سارے کے سارے سیکشن جو تھے وہ اکبّر کی صلح کل ، وحدت الوجودی روش کے خلاف ہوگئے تھے کیونکہ ہم نے خود پڑھ لیا کہ شیخ احمد سرہندی کے والد شیخ واحد صابریہ چشتیہ سلسلہ کے خلیفہ تھے اور وہ شیخ اکبّر کے نظریہ وحدت الوجود کے سب سے بڑے مبلغ اور پرچارک تھے ، اسی طرح ہم نے بہت سے علماء بشمول شیخ عبدالحق محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ اکبّر کے حامی تھے اور اسے مسلمان ، موحد اور صوفی خیال کرتے تھے دھلی اور آج کے اتر پردیش اس وقت کے اودھ میں بدایوں ، بریلی سمیت کئی علاقے ایسے تھے جہاں علماء و مشائخ کی ایک پرت سامنے آئی اور اس نے اکبّر بادشاہ کے خلاف فتوی جاری کردیا اور اکبّر پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ ایک نئے دین کی بنیاد رکھنے جارہا ہے اور اس پر خود کو خدا کہلوانے کا الزام بھی لگایا گیا ، ایسے قاضی جنھوں نے اکبّر پر کفر کا فتوی دیا تھا ان کو اکبّر نے سخت سزائیں دیں اور ساتھ ساتھ اکبّر نے علماء و مشائخ سے رجوع کیا اور اپنے خیالات ان کے سامنے رکھے ، جنھوں نے ایک محضر نامہ تیار کیا جس کے نیچے کئی سو علماء کے دستخط و تائید موجود تھی اور اس میں اکبّر کو مغل سلطنت کا خلیفہ قرار دیا گیا اور اکبّر کو یہ آختیار دیا گیا کہ وہ مجتھدین مذاہب اسلامیہ کی مختلف آراء و فتاوی جات میں جس کو سلطنت کے موافق سمجھے نافذ کردے اور اکبّر کو اس حوالے سے آحری اتھارٹی مان لیا گیا ، اس محضر نامہ پر دستخط کرنے والوں میں بڑے بڑے نام شامل تھے جو سنّی آرتھوڈوکسی کے بڑے نام تھے ہمیں مغل سلطنت کے اکبّر کے دور تک آتے آتے ہندوستانی سماج کے اندر لوگوں کے اندر رونماء ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا چاہئیے اور اس زمانے میں ہمیں مسلم تصوف ، ہندؤ ویدانت ، بدھ مت و جین مت کے باہمی تعامل اور سماجی زندگی میں لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ سے پیدا ہونے والے اس فکری ڈسکورس کو بھی ذھن میں رکھنا چاہئیے جو مذاہب کی آرتھوڈوکس اشرافی روائت کے ردعمل اور مقابلے میں نیچے سے خود عوامی حلقوں ميں پیدا ہوا اور اس حوالے سے اگر ہم مغلیہ سلطنت کے اندر موجود لاہور ، بھکر ، ملتان اور دھلی تک دیکھیں تو گرونانک اور ان کے ساتھ ساتھ مسلم حلقوں ميں شاہ حسین اور ہندی بیلٹ میں بھگت کبیر جیسے نام نظر آتے ہیں اور ان کی جانب سے صلح کلیت کو ایک واضح عوامی ڈسکورس کے طور پر اپنالیا گیا اور انھوں نے آرتھوڈوکسی کو رد کیا اور مذھب ، فرقہ ، زات پات سمیت جتنے تعصبات موجود تھے ان کے خلاف فیصلہ دیا ، اکبّر نے اس رجحان کو موڈیفائی کیا اور اسے جواز فراہم کرنے کے لئے مغل ایمپائر کی بڑھتی ہوئی طاقت کا کندھا پیش کیا اور اس نے فرقہ پرست اور کمیونل سیکشن کو ناراض کیا بلکہ وہ اکبّر کے خلاف صف آراء ہوئے ، اگرچہ اکبّر نے اپنے زمانے میں ان کو سر اٹھانے کا موقعہ فراہم نہ کیا اور نہ ہی یہ سیکشن اکبّر کو اس زمانے میں کوئی بہت بڑا چیلنچ دینے میں ناکام رہے اور خود شیخ احمد سرہندی بھی ایک اوسط درجے کے اور جہانگیر کے نزدیک خبط کا شکار مولوی تھے اور ان کو خود نقشبندی صوفیہ کے اندر بھی کوئی بہت بڑا مقام حاصل نہیں ہوسکا تھا ، مگر بعد میں اورنگ زیب کے آتے آتے ، مغل پیریڈ کے آخری دنوں ميں جب مغل سلطنت دوبارہ راجواڑوں ، چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئی تھی اور طوائف الملوکی پھیل گئی تھی اور مغل سلطنت میں جو اشراف طبقات تھے ان کو اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کا خیال ستایا تو اکثر نے رجوع شیخ احمد سرہندی کے ںظریات سے کیا اور اس میں مبالغہ بھی بعید از قیاس نہیں اور پھر شاہ ولی اللہ نے بھی اس ہی روائت کی پیروی کی کیونکہ اس میں ہی ان کو اورنگ زیب کے زمانے کی ہندوستانی اشراف کے سماجی مرتبے کی بحالی نظر آتی تھی اور پھر بعدازان اس میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی کے آتے آتے عرب سے اٹھنے والی محمد بن عبدالوہاب کی وہابی عرب نیشنلسٹ تحریک کے ںظریات کا اثر بھی داخل ہوا اور اسی راستے سے شیخ ابن تیمیہ کے ںظریات بھی زندہ ہوئے اور ایک بری طرح سے تقسیم شدہ ہندوستانی سماج جو تھا اس میں اکبّر کی صلح کلیت اور گرو نانک ، بھگت کبیر ، شاہ حسین ، بلّھے شاہ ، میآن میر ، دار شکوہ ، شیخ محب الہ آبادی سمیت جتنے صلح کل تھے کی روادار ، سیکولر روایت انسپائریشن کا سبب نہیں تھی اور یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے یہ جو فرقہ پرستانہ تحریک تھی جسے وحدت الشہودی رجحان بھی کہا گیا اور اس کو بعد ازاں دارالعلوم دیوبند ، دارالعلوم بدایوں ، دارالعلوم دھلی ، یہآں تک کہ دارالعلوم بریلی وغیرہ میں بھی اپنایا گیا اور اس کے بطن سے ہم نے دو قومی نظریہ بھی ابھرتے دیکھا اور پین اسلام ازم بھی ابھرا اور آج جسے پولیٹکل اسلام کہا جاتا ہے اس کی جڑیں بھی اس ميں پیوست ہیں اکثر ہندوستان کے ان مغلیہ علاقوں ميں غلبہ پائے دکھائی دئے جو مغلیہ سلطنت میں اہم شہری علاقوں کے طور پر ابھرے تھے اور خود آرتھوڈوکس ملائیت بعد ازاں مکمل طور پر صلح کلیت سے دست بردار ہوتی چلی گئی اور سیکولر ، لبرل اور رواداری پر مبنی وہ روائت جو اکبّر کے دور میں بالغ ہوکر سامنے آئی رفتہ رفتہ زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی گئی اور شریعت و طریقت کے درمیان مطابقت کے نام پر جو رجحان تصوف میں غالب آیا وہ بھی ایک اسی جانب اشارہ تھا اکبّر کی اگر آپ خارجہ پالیسی دیکھیں تو اس نے ایک جانب صفوی سلطنت سے بھی اپنے روابط میں فرق نہیں آنے دیا اگرچہ اس نے بڑی حکمت عملی سے قندھار کو اپنی سلطنت کا حصّہ بنایا اور ساتھ ہی اس نے ازبک سردار عبداللہ خان اور صفوی سلطنت کی باہمی لڑآئی جوکہ شیعہ - سنّی رنگ لیکر رونماء ہوئی تھی اور عبداللہ خان نے وسط ایشیا کے کئی سںّی افغان ، ازبک سنّی حنفی علماء سے فتوی لے لیا تھا کہ شیعہ مرتد ہیں اور اس کی جان و مال مباح ہیں اور اس فتوے کو علماء ماوراء النھر کا فتوی بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن اکبّر نے ایک طرف تو عبداللہ خان سے ایک معاہدہ کیا کہ وہ مغل سلطنت سے صف آراء افغان قبائل جن میں سوات اور باجوڑ کے یوسف زئی قبائل اور کاکڑ قبیلے کے لوگ زیادہ تھے اور یہ اکثر عبداللہ خان کے پاس جاکر پناہ گزین ہوتے تھے کو پناہ نہیں دے گا ، بدلے میں اکبّر صفویوں کو عبداللہ خان کے خلاف مدد نہیں دے گا ، اکبّر نے ترک عثمانوں کے ساتھ بھی بہترین تعلقات بنائے ، نقشبندی اور قادری صوفیہ کے کئی ایک کاروان ‏الیپو جو اب شام مين ہے اس وقت سلطنت ترک عثمانیہ کا اہم تجارتی شہر تھا ، اسی طرح سے حجاز جو کہ ترک عثمانی سلطنت کا ایک صوبہ تھا میں روانہ کئے اور اکبّر نے حجاز میں ‏عثمانی ترکوں کے گورنر کی کافی اقتصادی مدد بھی کی جبکہ حجاز میں ہی اکبّر نے ایک قادریہ خانقاہ بھی تعمیر کرائی ، اکبّر کی بحریہ کا ایڈمرل یحیحی ترک عثمانوں سے بہترین تعلقات رکھتا تھا ، اکبّر نے پرتگیزیوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات استوار کئے لیکن پرتگزیوں نے جب کبھی ترک عثمانیوں پر حملہ کیا تو اس نے پرتگیزوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا - 1587ء میں پرتگیزی بحری جہاز یمن کی بندرگاہ عدن پر حملہ آور ہوئے جوکہ ترک عثمانوں کی اہم تزویراتی اہمیت کی حامل بندرگاہ تھی تو اکبّر نے اپنا اتحاد پرتگیزیوں سے اپنا اتحاد ختم کردیا اکبّر نے صفوی سلطنت سے بھی اپنے تعلقات استوار رکھے ، صفوی شاہی خاندان کی شہزادی قندھاری بیگم کا نگاہ اکبّر کے پوتے خرم سے ہوا تھا اور کئی اور ایرانی اشراف خاندان کی عورتیں مغل شہزادوں سے بیاہی گئی تھیں اکبّر نے 1585ء سے 1598ء تک کا عرصہ اپنے دربار کو لاہور میں منتقل کرکے گزارا اور اس پورے عرصہ میں اکبّر نے ایک طرف تو مغلیہ سلطنت کو افغانستان تک قندھار تک پھیلادیا اور دو سری طرف اس نے انڈس ویلی میں اپنے اقتدار کو سندھ ، مکران تک پھیلایا اور اس عرصہ میں ہم آج کے پنجاب ، سرائیکی ریجن کے اندر مغل صوبوں کی تشکیل یعنی لاہور ، ملتان ، بھکر اور پھر آگے سندھ کے اندر تصوف کی جو صلح کل روایت ہے اس کو پوری قوت کے ساتھ عروج پاتے دیکھتے ہیں اکبّر کے دور کا لاہور اور اس کے گرد و نواح میں سب سے بڑا نام شاہ حسین کا ہے اور ملتان میں ہم بھگت پرہلاد مندر اور سہروری خانقاہ کو ساتھ ساتھ دیکھتے ہیں یہاں پر مجھے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ایم فل کے طالب علم اور شعبہ تاریخ سے وابستہ سکالر مطیع الرحمان کا جے این یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نیو دھلی کے شعبہ ہائے تاریخ کے ایک مشترکہ پروجیکٹ کے لئے لکھے گئے مقالہ کا خیال آرہا ہے ، جس کا عنوان ہے Treatment of ‘Others’ in Muntakhab- ul-Tawarikh(Vol-2) of Abdul Qadir Badauni ویسے تو یہ پورا مقالہ پڑھنے کی چیز ہے جس سے اکبّر کے زمانے میں سنّی آرتھوڈوکس مسلم مورخ کی جانب سے دوسرے مسالک جیسے شیعہ اور صلح کل صوفیاء نیز ہندؤ کے بارے میں اسلوب کا پتہ چلتا ہے لیکن یہاں میں اس مقالے کے چند اقتباسات اپنے موضوع سے متعلقہ پیش کرنا چاہتا ہوں مطیع الرحمان لکھتے ہیں کہ " اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدایونی نے " منتخب التواریخ " میں شیعہ کو " غیر ، دوسرے ، دوجے " کے طور پر دیکھا ہے اور وہ ان کو منحرفین عن الدین کہتا ہے اور ان کے بارے میں بہت سی کہانیاں سناتا ہے -وہ شیعہ حضرات کو اس بنیاد پر برا بھلا کہتا ہے کہ وہ صحابہ کرام کے بارے میں بری اور غلط کہانیاں پھیلاتے ہیں اور اکبّر کے زمانے میں حکیم ٹھٹھوی کا مبینہ طور پر صحابہ کرام کے بارے ميں زبان طعن دراز کرنے پر جو قتل ہوا ، اس کو درست خیال کرتا ہے اور قاتل کی تعریف کرتا ہے اور ملّا احمد ٹھٹھوی کے مرنے کے بعد چہرے کے مسخ ہونے کا قصّہ بھی سناتا ہے اور حکیم احمد ٹھٹھوی کے قتل کا زکر کرتے ہوئے وہ شیعہ کے اپنے مردوں کو دوران غسل مقعد میں کیل سے صفائی کرنے اور دریا میں کئی مرتبہ ڈبوکر اشنان کرنے کا قصّہ بھی بیان کرتا ہے اور اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ شیعہ سے کس قدر بے گانہ تھا اور اس کا شیعہ بارے جو علم تھا وہ سنے سنائے قصوّں پر مشتمل تھا " مطیع الرحمان کہتا ہے کہ ایک طرف تو عبدالقادر بدایونی شیعہ سے ان کے عقائد کی بنیاد پر اپنی بیزاری کا اظہار کرتا ہے تو اسی منتخب التواریخ میں وہ شیعہ علماء کے علم ، ان کے عرفاء کے تقوی کی تعریف کرتا ہے - وہ اکبّر بادشاہ کے ریجنٹ ایجنٹ اور اکبّر کو ہمایوں کی وفات کے بعد تخت پر بٹھانے اور اکبّر کی تربیت کے زمہ دار بیرام خان کو خان خاناں سے یاد کرتا ہے جوکہ اسے اکبّر بادشاہ نے خطاب دیا تھا اور بیرام خان مذھبا شیعہ تھا اس کے باوجود وہ بیرام خان کو بہترین منتظم قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے زمانے میں ہندوستان ایک دلہن کی طرح تھا وہ حیرت انگیز طور پر اکبّر کے چیف جسٹس / قاضی القضاۃ شیخ عبدالنبی کی جانب سے میر مرتضی شریف شیرازی کی قبر کو کھدوانے کو بڑی ناانصافی قرار دیتا ہے اور وہ قاضی نور اللہ شوستری کو منصف ، نرم دل ، غیر جانبدار کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ شیعہ عالم اگر سنّی مذاہب فقہ اربعہ ( حنفی ، مالکی ، جنبلی ، شافعی ) کا عالم ہو تو اسے قاضی مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اسی لئے اس نے نور اللہ شوستری کے قاضی لاہور مقرر ہونے پر اعتراض نہیں کرتا ، بدایونی نے اپنی تاریخ میں صوفیآء پر اور بالخصوص وجودی صوفیآء پر شدید تنقید کی اور شیخ تاج الدین پر وہ الزام لگاتا ہے کہ اس نے اکبّر کو وحدت الوجودی بنایا جوکہ اگے چل کر اکبّر کے گمراہ ہونے کا سبب بنا ، وہ ملّا یزدی اور ابوالفتح گیلانی پر الزام لگاتا ہے کہ انھوں نے اکبّر کو مذھب شیعت کی جانب مائل کیا اور ابوافضل اور فیضی پر وہ یہ الزام لگاتا ہے کہ اسے " دین اللہی " کی جانب لیجانے والے یہ تھے ، بدایونی ہر اس عالم پر تنقید کرتا ہے جو اکبّر کی مذھبی پالیسی کی حمایت کرتا ہے مطیع الرحمان کہتا ہے کہ اکبّر کی مذھبی پالیسی یہ تھی کہ اگر کوئی مکتبہ فکر اپنے عقائد کو کسی سیاسی آئیڈیالوجی میں ڈھال کر مغل سلطنت کو چیلنچ نہیں کرتا تو اکبّر اس مکتبہ فکر کو " غیر ، دوجے ، دشمن " کے طور پر نہیں لیتا ( اور مرے خیال ميں اس کی دلیل اکبّر کا تحریک مہدویت کی سیاسی طاقت ختم کرنے کے بعد اس کے پیشواء کی رہائی کا آڈر دینے ، ہندوستان کے سابق حکمران قبیلوں جن کا تعلق ہندؤ مت سے تھا سے رشتے داری اور ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرنے ، شیعہ کی جانب معاندانہ رویہ ختم کرنے کی صورت میں نکلا اور روشنیہ تحریک کے خلاف بھی اس کی فوجی کاروائی اس کا مذھب کی آڑ ميں مغل سلطنت کو چیلنج کرنے والی آئیڈیالوجی کے سبب سے تھا -عامر حسینی ) مطیع الرحمان کا کہنا ہے کہ منتخب التواریخ میں ایک فقرہ بھی شیخ احمد سرہندی کے بارے میں موجود نہیں ہے اور جبکہ مطیع الرحمان کا خیال یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی نے اکبّر کو بہت سخت چیلنج دیا تھا مرے نزدیک اصل میں اکبّر کے دور ميں اس کی وفات تک شیخ احمد سرہندی کوئی بہت بڑی پوزیشن کے حامل نہیں تھے اور نہ ہی اکبّر کے مخالف سنّی آرتھوڈوکس ملاّ کریسی میں ان کی کوئی مرکزی پوزیشن تھی ، شیخ احمد سرہندی کا قد کاٹھ ان کی وفات کے بہت بعد اورنگ زیب کے دور ميں پڑھنا شروع ہوا اور اورنگ زیب شیخ احمد سرہندی کے خلیفہ غازی سیف سرہندی کا مرید تھا اور ان کو ایک بڑے مصلح ، ریفارمر کے طور پر کالونیل دور اور ترک عثمانی آخری دور میں پروجیکٹ کیا گیا یہاں شیخ احمد سرہندی کے بارے کچھ اور حقیقتوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ، پہلی بات یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی کی پیدائش 1564ء میں ہوئی جبکہ اکبّر 1556 ء یعنی ان کی پیدائش کے 8 سال پہلے ہی اقتدار پر براجمان ہوچکا تھا اور 1570ء جس کے بعد اکبّر کی سوچ آرتھوڈوکس سنّی حنفی اسلام سے صلح کلیت کی جانب منتقل ہونا شروع ہوئی تو شیخ احمد سرہندی کی عمر محض 6 سال تھی اور جب اکبّر کے خلاف کچھ قاضیوں نے بغاوت کی اور فتوی کفر جاری کیا تو وہ سال تھا 1579ء اور تبھی ایک محضر جاری ہوا تو شیخ کی اپنی عمر محض 15 سال تھی اور یہ وہ دور ہے جب شیخ احمد غالبا سیالکوٹ میں عبدالحکیم سیالکوٹی ، یعقوب کشمیری وغیرھم سے تعلیم پارہے تھے اور 17 سال کی عمر یعنی 1581ء تک یہ وہآن سے فارغ ہوئے اور اس زمانے کے بارے میں شیخ احمد سرہندی نے اپنے مرشد خواجہ باقی باللہ کو ایک خط میں لکھکر بتایا کہ وہ بہت عرصہ تک وحدت الوجود کے اسیر رہے اور اپنی دینی تعلیم اور وجودی تصوف سے وابستگی کو انھوں نے " ایمان و کفر " کی یکتائی قرار دیا یہاں ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک اسرائیلی دانشور تھے یوحنان فرائیڈ مین ، انھوں نے ایک پی ایچ ڈی کا ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا Shyikh Ahmad Sirhindi : An outline of his thought and a study of him image in the eyes of posteriety اس کتاب میں شیخ احمد سرہندی کی زندگی ، معمولات اور ان کی فکر کی بنیادوں کو تلاشنے کے ساتھ ساتھ یوحنان فرائیڈمین نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے معاصرین میں ان کی کیا حثیت تھی اور بعد میں آنے والی نسلوں نے ان کو کیسے دیکھا یوحنان فرائیڈمین نے اپنی اس کتاب میں پہلا مقدمہ تو یہ بیان کیا کہ شیخ احمد سرہندی کا اصل میدان تصوف تھا نہ کہ وہ ریاست و مذھب کے درمیان رشتے کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے ہوئے تھے اور اسی بنیاد پر ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ ان کو عوام الناس کے اندر جو شہرت ملی اور قبولیت ہوئی ، اس کی وجہ ان کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی کے شریعت ، شرعی قوانین بارے خیالات نہ تھے اور نہ ہی ان کے خیالات کو مغل عہدے داروں ميں اکبّر کے زمانے میں خاص مقبولیت حاصل ہوئی ، یوحنان فرائیڈمین لکھتا ہے کہ شاہ جہان نے ایک مرتبہ شیخ احمد سرہندی کو دربار میں بلوایا تھا اور سوالات کئے تو ان کے جوابات سے وہ مطمئن نہ ہوا اور اس نے شیخ احمد سرہندی کو ذھنی طور پر عدم توازن کا شکار قرار دیکر ایک سال تک قید رکھا اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیخ احمد سرہندی کے بعض جو صوفیانہ دعاوی تھے ان کی ہندوستان و حجاز کی مسلم آرتھوڈوکسی نے شدید مخالفت کی اور یہ جو شیخ احمد سرہندی کو مسلم آرتھوڈوکسی کا سرخیل اور معمار بنایا گیا ، اس کی ابتداء مصنف کے بقول بیسویں صدی میں ہندوستان کے اندر مسلم آرتھوڈوکسی کے ابھار کے دوران کی گئی ، اگرچہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ یوحنان فرائیڈ مین نے شیخ احمد سرہندی کو مسلم آرتھوڈوکسی میں بنیادی حثیت دینے اور اسے اکبّر بادشاہ کی مذھبی پالیسی کو سب سے زیادہ ٹف ٹائم دینے والا بناکر پیش کرنے والا کس 20 ویں صدی کے مسلم سکالر کو قرار دیا لیکن مجھے اس حوالے سے یہ سہرا یا الزام ابوالکلام آزاد کے سر جاتا دکھائی دیتا ، کیونکہ ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب " تذکرہ " میں پہلی مرتبہ شیخ احمد سرہندی کو صوفی کی بجآئے ایک مسلم سیاسی مہان آرتھوڈوکس کے طور پر پیش کیا اور کئی ایک افسانے بھی گھڑے ، ایک افسانہ جسے مغربی اور ہندوستانی اکثر تاریخی تجزیہ کار بغیر تحقیق کے درج کرتے چلے آرہے ہیں ابوکلام آزاد کے زھن کی تخلیق لگتا ہے ، جس میں شیخ احمد سرہندی اور اورنگ زیب کی ملاقات دکھائی گئی اور اورنگ زیب کو شیخ احمد سرہندی نے ایک شیعہ قاضی کو قتل کرنے کو کہا جو اورنگ زیب نے کردیا ، جبکہ شیخ احمد سرہندی کی جب وفات ہوئی تو اورنگ زیب اس وقت مشکل سے چھے سال کا تھا ، اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغل سلطنت پر شیخ احمد سرہندی کے اثر ورسوخ کے جو افسانے کھڑے کئے ان کی حثیت کیا ہوگی ، یوحنان نے ہی ایک اور کتاب " نقشبندیہ اور اورنگ زیب " لکھی ہے اور دونوں کے باہمی تعلق اور اورنگ زیب پر ان کے مرشد اور شیخ احمد سرہندی کے پوتے خواجہ سیف الدین فاروقی کے درمیان تعامل اور اس کے مغل سلطنت پر اثرات کا جائزہ لیا ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اورنگ زیب نے صلح کلیت کے نظریہ کے خلاف نقشبندیہ کو استعمال کیا اور اقتدار پر قبضہ کے لئے اس نظریہ کے حامی قوتوں یعنی دارشکوہ کے ساتھ صلح کل صوفیوں کو رگیدا بھی لیکن یہ ایک وقتی اور موقعہ پرستانہ اقدام تھا لیکن پھر بعد ازاں سرہند میں شیخ احمد سرہندی کی اولاد ایک خانقاہی سلسلے کی روح رواں کے طور پر سامنے آئی لیکن آرتھووڈوکسی پولیٹکل پیشوائی مرکز کے طور پر اس کی جگہ وہآں نہیں بنی تھی شيخ احمد در اين دوره از زندگي خود، صاحب دو اثر معـروف اسـت : اثـر اول كتـاب اثبـات النبوه كه در آن متأثر از انديشههاي غزالي در المنقذ من الضلال، به اثبات بعثت پيـامبر، نبـوت، خاتميـت، حقيقـت معجـزات انبيـا و نفـي و رد آراي فيلـسوفان پرداختـه و در آن بـه صـراحت انديشهها و اعتقادات اكبرشاه و نيز ابوالفضل (فرزند شيخ مبارك ناگوري) را مورد انتقاد قرار داده شیخ احمد سرہندی کے بارے میں مندرجہ ذیل فارسی عبارت کا ایک اقتباس ان کے اپنے گھر کی گواہی ہے جو یہ بتاتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی نے اس زمانے میں وہ غزالی کی کتاب " المنقذ من الضلال سے متاثر ہوکر ایک کتاب " اثبات النبوۃ " لکھی اور غزالی سے وہ اس لئے متاثر ہوئے کہ غزالی نے فلاسفہ ، حکماء کا رد کیا تھا اور شیخ احمد سرہندی کی جوانی کے زمانے میں شیخ مبارک ناگوری کے فرزند ابوالفضل فیضی اور اکبّر بادشاہ کے بارے میں ان کی پالیسی کے مخالفین ان کو بعثت انبیاء اور خاتمیت انبیاء اور معجزات وغیرہ کا منکر قرار دے رہے تھے یہاں پر مجھے ایک اور چیز کی طرف اشارہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی کے بارے میں ان کے عصر میں ان مقام کا تعین کرتے ہوئے جہاں فاش غلطیاں کی گئیں ، وہیں پر کچھ اور حقائق سے بھی نظریں چرائی گئیں ، مثال کے طور پر عبدالقادر بدایونی جس کی منتخب التواریخ کا بہت تذکرہ کیا جاتا ہے ، اس کے مرشد اور پیر شیخ ابو فتح گجراتی تھے جوکہ شیخ محمد جونپوری بانی تحریک مہدویت تھے کے داماد تھے اور اس نسبت سے کہا جاتا ہے شیخ عبدالقادر بدایونی مہدوی یا مائل بہ مہدویت تھے اور سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ مہدوی تحریک جب خطرہ بنی اکبّر کے لئے تو اسے بری طرح سے کچل دیا گیا تھا لیکن اسی دوران اکبّر کی کایا کلپ بھی ہوئی ایک اور حقیقت جس کا اعتراف بہت کم کیا جاتا ہے اور عام طور پر شیخ احمد سرہندی کو ایک صوفی سے زیادہ سیاسی مولوی بناکر دکھانے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ہے خواجہ خورد عبداللہ فرزند خواجہ باقی باللہ کا چودہ سال کی عمر میں 86 سالہ شیخ احمد سرہندی کے ہاں تربیت کے لئے جانا لیکن ان کا ایک تو موسیقی اور سماع کی جانب رغبت اور شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کا عاشق ہونا اور اس کا گرویدہ ہوجانا ، پھر انھی خواجہ خورد کا میاں میر قادری کے خلیقہ شاہ اللہ کا گرویدہ ہونا اور ان سے بیعت کی کوشش کرنا اور جب شاہ اللہ قادری نے خواجہ خورد کو یہ کہہ کر شاگرد کرنے سے انکار کیا کہ وہ خود ایک بڑے صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے ہيں ، خواجہ خورد نے ایک " رسالہ سماع " تحریر کیا اور اس میں موسیقی کو روح کی غذا قرار دیا اور دھلی میں خواجہ خورد نے ایک آزاد صوفی نقشبندی سلسلے کی بنیاد رکھی اور اس کام میں خواجہ کے سوتیلے بھائی خواجہ کلاں نے بھی پورا ساتھ دیا اور انہی خواجہ کلاں کے خلیفہ عبدالرضا شاہ ولی اللہ کے چچا تھے اور خواجہ کلاں نے وحدت الوجود سے رشتہ جوڑے رکھا اور اپنے والد کے سب سے بڑے خلیفہ شیخ احمد سرہندی کے " وحدت الشہودی " راستے کے الٹ سفر کیا اور دھلی کے مرکز ميں خواجہ خورد اور خواجہ کلاں دونوں نے محافل سماع مزامیر کے ساتھ دھلی میں دوبارہ رائج کردیں تھیں ، خواجہ خورد امن کے پروموٹرز میں سے تھے اور ایک طرح سے انھوں نے برصغیر پاک و ہند کے تنوع کا تحفظ کیا ، لیکن خواجہ خورد کے کردار کو نہ تو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ ان کے اس پہلو کو آج بھی چھپایا جاتا ہے ، اگلے مضمون میں ، میں یہ تلاش کروں گا کہ شیخ ابن عربی کے ںظریات اور افکار سے قدیم و ابتدائی نقشبندیوں کے روابط کا جائزہ لیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا ابن عربی کی روش اور شیخ سرہندی سے ابھرنے والی نقشبندیہ مجددیہ شاخ کی روش در باب توحید کیا تھی اور اس کے سماجی اثرات کیا تھے ؟یہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس کو سرکاری ، درباری تاریخ نے بہت نظر انداز کیا ہے

Monday, August 17, 2015

کرنل شجاع خانزادہ کی ہلاکت اور پنجاب حکومت کا کردار


کرنل شجاع خانزادہ صوبائی وزیر داخلہ پنجاب اور انچارج نیشنل ایکشن پلان ان پنجاب سمیت متعدد افراد کی اٹک میں ان کے آبائی گاؤں مبینہ خود کش حملے میں شہادت بارے میں آپ کے سامنے اپنی زاتی معلومات اور میڈیا سے اخذ کی گئی چند چیزوں کو اپنے پڑھنے والوں سے شئیر کرنا چاہتا ہوں اور یہ ایسی باتیں ہیں جن سے عمومی طرف پر ہوسکتا ہے کہ صرف نظر کیا جارہا ہو یا حکومتی شور شرابے میں اس پر کسی کا دھیان نہ جائے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کام کرنے والے مختلف رپورٹرز نے سانحہ اٹک پر جو نیوز سٹوریز اور تجزیئے فائل کئے وہ کرنل شجاع کو لاحق خطرات بارے متضاد دعووں پر مشتمل ہیں لیکن ان تمام رپورٹرز نے سوائے ایکسپریس ٹرائبون اور روزنامہ دنیا لاہور کے کسی اور اخبار یا ٹی وی چینل نے کرنل شجاع خانزداہ کی سیکورٹی سے غفلت برتے جانے پر کوئی تفصیلی نیوز سٹوری شایع نہیں کی اور مجھے لگتا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے خود کو بچانے کے لئے کروڑوں روپے کے اشتہارات کی رشوت ہمارے میڈیا کو دی ، کوارٹر پیج کا اشتہار آج سب اخبارات کو ملا ہوا ہے ڈان کی انگریزی ویب سائٹ پر راولپنڈی سے سٹاف رپورٹر محمد اصغر کی سٹوری http://www.dawn.com/news/1200970/questions-arise-about-is-presence-in-attock بتاتی ہے سی ٹی ڈی کے افسران اور انٹیلی جنس آفیشل نے بتایا ہے کہ کرنل شجاع خاںزداہ کو ان پر کسی خود کش حملے کی پیشگی خبردار کرنے والا الرٹ جاری نہیں کیا گیا تھا However, he said, they had not issued any specific alert regarding threats to Mr Khanzada’s life. جبکہ ڈیلی ڈان کے لاہور میں سٹاف رپورٹر عمران گبول کی ڈان کی اردو ویب سائٹ پر پوسٹ ہونے والی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ وزیر داخلہ اس لسٹ کے ناموں میں شامل تھے جن پر ملک اسحاق کی ہلاکت کے بعد حملے کا خطرہ ظاہر کیا گیا اور ان کو آگاہ کیا گیا تھا اور یہ بات بقول نبیل گبول آئی جی پنجاب کی جانب سے چیف منسٹر پنجاب شہباز شریف کو کرنل شجاع خانزداہ کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں کہی گئی ہے http://www.dawnnews.tv/news/1025332/ ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ سینیئر سرکاری حکام کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے جس میں پنجاب کے وزیر داخلہ بھی شامل تھے مجھے ایسے لگتا ہے کہ لاہور میں ڈان کے سٹاف رپورٹرز میں نسبتا نئے شامل ہونے والے یہ رپورٹر عمران گبول " کم تجربہ کار " ہیں اور ان کی رسائی ابتک تک " ان سورسز " تک نہیں ہے جہاں تک محمد اصغر کی ہے ، اسی لئے انھوں نے پنجاب پولیس کے زرایع پر ہی انحصار کیا ہے جبکہ ڈان راولپنڈی کے سٹاف رپورٹر کی خبر زیادہ مصدقہ زرایع سے حاصل کی ہوئی لگتی ہے ، لیکن مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ محمد اصغر کی رپورٹ انگريزی ڈان میں شایع ہوئے 6 گھنٹے ہوچکے ہیں جبکہ عمران گبول کی رپورٹ دو گھنٹے پہلے شایع ہوئی تو کیا عمران گبول نے اپنے ہی ادارے کی انگریزی ویب سائٹ کا وزٹ نہیں کیا ، وہ اس پر اگر محمد اضغر سے ہی رابطہ کرتے تو ان کی سٹوری میچور ہوسکتی تھی ڈان کے لاہور کے سٹاف رپورٹر انتخاب حنیف نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جس کا عنوان ہے Colonel calm departs کرنل کی رخصتی کا حوالہ دیتے ہوئے جو انکشاف انتخاب حنیف نے کیا ، وہ یہ ہے کہ کرنل شجاع خانزادہ سے شہباز شریف کے قریبی ساتھی خار کھاتے تھے اور ان کو خانزادہ کے وزیر داخلہ بننے کی بہت تکلیف تھی میں نے کل اپنی ایک پوسٹ میں جتنی باتیں کرنل شجاع خانزادہ کے بارے میں لکھ دی تھیں آج انگریزی پرس میں وہ کئی " فالو اپ سٹوریز " میں بکھری پڑی ہیں http://www.dawn.com/news/1200919/colonel-calm-departs ایک اور خبر انگریزی میں ڈان کی ویب سائٹ پر موجود ہے جو اردو سائٹ میں نہیں ہے اور عنوان ہے Sindh waits for Islamabad’s nod to launch drive against banned outfits اس خبر کے مطابق سندھ ہوم منسٹری وفاقی وزرات داخلہ کے ونگ نیکٹا کی جانب سے اس لسٹ کا انتظار کررہا ہے جس میں ان کالعدم تنظیموں کی نشاندھی کی گئی ہے جو نئے ناموں سے کام کررہی ہیں اور ابتک نیکٹا نے وہ لسٹ فراہم نہیں کی کیا نیکٹا وہ لسٹ اس لئے فراہم نہيں کررہا کہ اس میں الرشید ٹرسٹ ، اہلسنت والجماعت کا نام بھی شامل ہے ؟ الرشید ٹرسٹ وہ ٹرسٹ ہے جس کے تحت روزنامہ اسلام ، ضرب مومن اور کئی رسائل و جرائد شایع کئے جارہے ہیں اور اسی کے تحت جامعہ رشیدیہ بھی ہے جو یونیورسٹی کا درجہ پاچکی اور اس کے پاکستان کے اسلامی بینکنک سیکٹر میں کثیر سرمایہ بھی لگا ہوا ہے ؟ اور اسی سٹوری میں یہ خبر بھی ہے کہ سندھ حکومت ابھی تک سندھ میں قائم مدرسوں کی میپنگ کا کام مکمل نہیں کرپائی اور غیر رجسٹرڈ مدارس کے خلاف بھی کاروائی مکمل نہیں ہوسکی روزنامہ جنگ لاہور کے سٹاف رپورٹرز نے بس باوثوق زرایع سے یہ بتایا ہے کہ ملک اسحاق کے قتل کے بعد سے ان کو مسلسل دھمکیاں مل نہی تھیں ، یہ بات انسداد دھشت گردی کے محکمے پنجاب کے زرایع سے درج کی گئی ہے ، اسی روزنامہ جنگ کا ایک اور رپورٹر کہتا ہے کہ ملک اسحاق کے قتل کے بعد لشکر جھنگوی کا سولہ رکنی گروہ ان کے تعاقب میں تھا اور اسی روزنامہ کے مطابق کرنل شجاع خانزادہ کے ساتھ پنجاب ایلیٹ فورس کا اسکواڈ بھی نہين تھا https://e.jang.com.pk/08-17-2015/lahore/page1.asp#; دنیا نیوز کے رپورٹر رانا عظیم اور حسن رضا نے تھوڑی سی کوشش کی ہے اور ان کو یہ پتہ چلا کہ پنجاب پولیس کے آئی جی ، ڈی آئی جی آپریشنز ، سی پی لاہور ، چیف سیکرٹری اور دیگر کئی افسران کی سیکورٹی میں اضافہ ہوا مگر کرنل شجاع خانزادہ کی سیکورٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا اور پولیس حکام سے خانزادہ کی سیکورٹی نہ بڑھانے کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ایسے تھریٹس آتے رہتے ہیں ، یہ سٹوری بہت کچھ بتاتی ہے http://dunya.epaper.pk/lahore.php اردو اور انگریزی پریس دونوں میں زیادہ تر نے جس سوال کو اٹھاکر آج اور کل سانحہ اٹک کے تناظر میں سیکورٹی لیپس بارے کوئی نیوز سٹوری یا تجزیہ نہیں دیا اور یہ رجحان عمومی طور پر دوسرے صوبوں خاص طور پر سندھ میں رونماء ہونے والے ایسے سانحات میں دیکھنے کو نہیں ملتا ایکسپریس ٹرائبون میں کامران یوسف نے جو نیوز سٹوری فائل کی ہے اس کا عنوان ہے Security lapse or sign of terrorists’ invulnerability کامران یوسف کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقے جس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ کیا شجاع خانزادہ کے معاملے میں سیکورٹی لیپس سامنے آتا ہے ؟ کیا یہ واقعہ سیکورٹی لیپس کا نتیجہ ہے ؟ کامران یوسف کا کہنا ہے کہ جتنے بھی دفاعی امور کے تجزیہ نگار ہیں اور دھشت گردی کے امور پر ماہرانہ رائے رکھنے والے ہیں وہ اسے سیکورٹی لیپس ہی کہہ رہے ہیں http://tribune.com.pk/story/939353/security-lapse-or-sign-of-terrorists-invulnerability/ اسی ایکسپریس ٹرائبون میں زاہد گشکوری نے فائل کی ہے اور اس کا عنوان ہے Leading the way for a terror-free Punjab اور سٹوری میں زاہد گشکوری نے کرنل (ر ) شجاع خانزادہ کے ساتھ سی ٹی ڈی اور ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں کام کرنے والے دو افسران سے انٹرویوز کئے ہیں اور انھوں نے انتہائی اہم انکشافات کئے ہیں کرنل شجاع خانزادہ نے پنجاب کے اندر پنجاب کے اندر 170 مدرسے بند کرنے کا حکم دیا تھا جن کے بارے میں شواہد موجود تھے کہ وہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ مدارس کوٹ ادو ، لیہ ، مظفر گڑھ ، وہاڑی ، ڈیرہ غازی خان ، تونسہ ، حاصل پور اور دیگر اضلاع سے تعلق رکھتے تھے ( زاہد شرماگیا ان مدارس بارے یہ زکر کرتے ہوئے کہ یہ سب مدارس وہ تھے جن کی انتظامیہ بظاہر " پرامن ، سیاسی و قانونی طور پر شیعہ کو کافر قرار دلوانے کی تحریک چلانے والی دیوبندی تنظیم اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتے تھے ) شجاع خانزادہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت لشکر جھنگوی ، تحریک طالبان ، جماعت الاحرار کی جڑیں پنجاب سے اکھاڑنے کے لئے سرگرداں تھے افسر نے انکشاف کیا ہوم منسٹر کی جانب سے ملنے والے ڈائریکٹو کے بعد ہم پنجاب میں ایسے تمام مدارس کو بند کرنے جارہے تھے جن کے دھشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ موجود تھا ----- مذکورہ افسر نے مزید بتایا زرا ایک اور انٹیلی جنس افسر کا انکشاف بھی پڑھ لیں Another official who worked with Khanzada said that with serious threats posed to his life, particularly after Ishaq’s killing, the home minister held a meeting with intelligence officials, who briefed him how the LeJ had established links with the Islamic State, TTP, Jamaatul Ahrar, Lashkar-e-Islam and other sectarian groups, planning to seek revenge with a ‘now or never’ bearing. “He was told that some of them had also established links with India.” The official said the meeting was informed of a 13-member death squad that comprised al-Qaeda and LeJ militants and was tasked with eliminating all the officials involved in the crackdown on militants in the province. “Its infrastructure has existed in southern Punjab even before Ishaq’s killing.” لشکر جھنگوی کے روابط داعش ، ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار ، لشکر اسلام اور دوسرے گروپوں سے بن چکے ہیں اور اب وہ " اب نہیں تو کبھی نہیں " کے جذبے کے ساتھ بدلے کی سوچ رہے ہیں اسی آفیشل کا کہنا ہے کہ 13 افراد پر مشتمل موت کے ہرکاروں کا ایک سکواڈ القائدہ ، لشکر جھنگوی کے دھشت گردوں نے تشکیل دیا ہے جس کا کام ان تمام آفیشلز کا خاتمہ کرنا ہے جو صوبے میں دھشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کررہے ہیں اور جنوبی پنجاب میں یہ انفراسٹرکچر پہلے سے ہی موجود ہے اس کے باوجود بھی پنجاب حکومت اور اس کی سیکورٹی اداروں نے اپنے وزیر داخلہ کو لاہور سے ایسے اٹک بھیجا کہ اس کے ساتھ نہ تو جیمرز تھے ، نہ ہی ایلیٹ فورس کا محافظ دستہ ، وفاقی حکومت نے اسے رینجرز کا کوئی اسکواڈ فراہم نہیں کیا اور یہاں قدرتی طور پر سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ پاکستان کا سب سے مضبوط ادارہ فوج اور اس کے ونگز اپنے سب سے قابل اعتماد پنجاب ایڈمنسٹریشن ميں آدمی کی حفاظت سے کیسے بے خبر رہ گئے ؟ کرنل شجاع خانزادہ کے ساتھ بہت عرصہ کام کرنے والے محمود شاہ کہتے ہیں کہ Brig (retd) Mahmood Shah, who served with Khanzada in the military, said it would be very difficult for the Punjab government to fill the vacuum in the ongoing operation against militants. رستم شاہ مہمند جنھوں نے نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا کہتے ہیں کہ Rustam Shah Mohmand, a key member of the team that prepared the 20-point NAP, said Khanzada’s death had dealt a serious blow to the government’s efforts to tackle militancy in Punjab. http://tribune.com.pk/story/939352/leading-the-way-for-a-terror-free-punjab/ نقصان تو اب ہوگیا ہے ، لیکر پیٹنے کا فائدہ بھی کوئی نہیں لیکن کیا جو ٹیم کرنل شجاع خانزادہ نے تکشکیل دی تھی اسے پنجاب کی مسلم لیگ نواز کے اراکین اسمبلی میں سے کوئی ایسا آل راؤنڈر مل پائے گا جو اس قدر تجربہ رکھتا ہو جس قدر تجربہ " کرنل شجاع خانزادہ " کے پاس تھا مجھے تو یہ انتہائی مشکل ٹاسک لگ رہا ہے اور اب پنجاب میں ہوم منسٹر کوئی " سرفراز بگٹی " یا سندھ کے ہوم منسٹر کی طرح کے آنے کے امکان زیادہ ہیں اور ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور اس کا محکمہ سی ٹی ڈی اب کہیں اور سے کنٹرول اور ہینڈل کئے جانے کے امکانات زیادہ ہیں

Saturday, August 15, 2015

پسماندگان گل حمید و قبیلہ ضیاع الحق کے نام


سنتا ہوں کہ آج تزویراتی گٹر کا ایک اور پاسدار شریان دماغ پھٹ جانے سے گزر گیا ہے اور تم سب اس کا غم غلط کرنے کے لئے چند اور بارودی جیکٹیں وعدہ حور دیکر گم کردہ نوجوانوں کو پہنانے میں مصروف ہو اور اپنے آباء کی سنت کو پورا کرتے ہوئے ان کو روشنی والوں میں پھٹ جانے کا ہدف رے رہے ہوں گے ویسے دیکھ لو کہ آج سوشل میڈیا پر لوگ اپنی نفرت اور کراہت کا برملا اظہار کررہے ہو ، تمہارے مردود کے متاثرین اتنے ہیں کہ حساب کرنا محال ہے اور یہ سب تمہارے گرو کھنٹال سے بے زار اور بے گانے نظر آتے ہیں تمہارے تزویراتی گٹر کا یہ پاسدار کیس قدر بے رحم فطرت کا مالک تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ حمید گل کی توجہ جب بھی کوئی اس خون ریزی ، تباہی ، بربادی کی طرف دلاتا جو " جہاد افغانستان " کی برکات سے پاکستان اور افغانستان والوں کو حصّے میں آئیں تھیں تو ان کا پہلا جواب تو یہ ہوتا تھا کہ بڑے مقاصد کے لئے یہ معمولی سی قیمت ہے اور دوسرا جواب " سازش اغیار " ہوتا تھا تو اس پر اگر کوئی گستاخ اسے آگے جاکر یہ سوال کربیٹھتا کہ " تزویراتی گہرائی " کی پالیسی بنانے والے اعلی دماغوں نے کیا " اغیار کی سازش " سے پیدا ہونے والے جہنم کی آگ سرد کرنے کے ۂئے " پلان بی و پلان سی " تیار نہیں کیا تھا ؟ تو موصوف بہت جزبز ہوتے تھے مگر ڈھیٹ بہت تھے اور جواب میں اس قدر فیوض و برکات " جہاد " (جو اصل میں گماشتگی ریگن و شاہ فہد کے اور کچھ نہیں تھا )بیان کرتے کہ جہادی جھوم جھوم جاتے تھے اور اس ملک میں دھشت گردی کی آگ میں جھلسنے والے ، ہیروئین زدہ شریانوں والے نوجوانوں کے زندہ لاشے اٹھائے بوڑھے کندھوں والے ہزاروں گھرانے اور لوتھڑوں کی شکل میں اپنے پیاروں کا جسم اکٹھا کرنے والوں اور پھر ان کے جنازوں کو پڑھنے کے دوران کسی خودکش کا نشانہ بننے والے اور پیاروں کے ٹکڑے سمیٹنے والوں کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی تھی ، میری مٹھیاں خود بخود بند ہوتیں تھیں ، سر سے اٹھنے والی غصّے کی لہر مرے پورے بدن میں گھر کرلیتی اور مرا دل کرتا کہ اس جیسوں کا گریبان پکڑوں اور پوچھوں کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ نسیم حجازی کے ناولوں کے جہادیوں کی تجسیم گری کرنے والو ! یہ کیسے جہادی فیوض و برکات تھے جنھوں نے افغانستان کو خون کا کیک بنایا ، وادی جنت نظیر میں چناروں کو ہی آگ نہ لگائی بلکہ ہر مزار کو بھی بدعت قرار دیکر آگ لگادی اور ممبئی کی سڑکوں پر عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، جوانوں کسی کو معاف نہ کیا اور پاکستان کا وہ کون سا علاقہ ہے جہاں مسجد و امام بارگاہ و مرکز احمدیہ و مزار و مندر و کلیسا ميں انھوں نے اپنے آپ کو پھاڑا نہ ہو حمید گل صاحب ! آج تم اپنے انجام کو پہنچے ، اور جو لوگ " خدا " پر یقین رکھتے ہیں ان کے ںزدیک جو بھی انسان اس دنیا سے جاتا ہے تو ایک نئی زندگی پاتا ہے - اگر وہ انسان نیک تھا ، اچھے اعمال کرتا تھا تو اس کے لئے " بہشتی برزخی زندگی ہوتی ہے " اور اگر وہ بد تھا ، شیطنت کا پیروکار تھا اور خلق خدا کو عذاب میں ڈالنے والا تھا تو اس کے لئے " جہنمی برزخ " کی عذاب والی ، دردناک زندگی منتظر ہوتی ہے اور وہ اپنے کئے کا پھل پاتا ہے تو اس یقین والوں کے نزدیک تو تمہاری دنیاوی زندگی کا باب بند ہوتے ہی تم پر " برزخی جہنمی زندگی " کا دروازہ کھل گیا ہے اور وہاں تم نے اپنے گاڈ فادر شاہ فہد ، ابن باز ، ریگن ، ضیاع الحق ، اختر عبدالشیطان وغیرہ سے ملاقات کی ہوگی اور اس دردناک عذاب کا مزا چکھ لیا ہوگا جو وہ کافی سالوں سے چکھ رہے ہوں گے اور یہآں تم نے ان کی نفرت انگیز نگاہوں کا سامنا بھی کیا ہوگا جن کو تمہارے پالے ہوئے نام نہاد جہادی استاد بہلا پھسلا کر بارودی جیکٹیں پہناتے تھے اور پھر ان سے حوروں کے ملنے کا وعدہ کرتے تھے ، ان کو ایسے باغات کے ملنے کا خواب دکھاتے تھے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں رواں دواں ہوتی ہیں اور ان سے " حزن اور غم " کے مٹ جانے کا وعدہ کرتے تھے لیکن یہ کیا ہوا کہ ان کو تو وادی " ویل " ملی ہے اور برزخ میں عذاب الیم ۔۔۔۔ کچھ تو اس قدر برگشتہ ہوں گے کہ اپنا پیپ و خون ملا تھوک تمہارے چہرے پر پھینکا ہوگآ اور آواران بس سروس کی طرح ڈالروں اور ریالوں کی دولت اور جائے داد تم پیچھے چھوڑ آئے تھے وہ سانپ اور بچھو بنکر تمہیں ڈسنے کو تیار ہوں گی کیونکہ خدا پر یقین رکھنے والوں کو ان کے خدا نے بتارکھا ہے کہ جو اللہ کی آیات کو چند پیسوں کے عوض بیچ ڈالتے ہیں اور اصلاح کے نام پر فساد کرتے ہیں ان کا انجام ہرگز اچھا نہیں ہوگا حمید گل ! یہاں بہت سے ایسے بھی ہیں جو عرف عام میں ملحد ہیں ، دھريے ہیں ، ان کو مابعدالطبعیات پر کوئی یقین نہیں ہے اور ان کے ہاں تو بس حرکت جدلیاتی ہے اور حقیقت دو متضاد حرکتوں سے ملکر بنی ہے اور ایک منفی چیز اپنی منفیت کو خود اس عالم مادہ میں ہی ظاہر کردیتی ہے ، ان کے نزدیک تمہاری " تزویراتی گہرائی " لوگوں کے سامنے ہی " کھائی " میں بدل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کھائی لاکھوں لوگوں کو نگل گئی ، صرف 2001ء سے 2015ء تک اس نے 70 ہزار پاکستانی شہریوں کی جان لے لی اور یہ کھائی ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی ، گلوبل جہاد کی سب سے بہترین شکل داعش ، القائدہ ، باکو حرام ، طالبان کی شکل میں سامنے ہیں اور لوگ ان سب کے "جہاد کی برکات " دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور ان برکات کو لوٹنے والے اسقدر فیض یاب ہوتے ہیں کہ کہ لوتھڑوں میں بدل جاتے ہیں ، اعضاء سے معذور ہوتے ہیں اور دیکھو تو سہی جہاد کی برکات کہ آئی بی اے ، پنجاب یونیورسٹی ، کراچی یونیورسٹی ، میڈیکل کالجوں اور انجئیرنگ کالجوں سے فارغ التحصیل " سبیلنا ، سبیلنا - الجہاد الجہاد " کہتے ہوئے کبھی تو اسکول کے بچوں ميں پھٹ جاتے ہیں تو کبھی صفورا گوٹھ سے نکلنے والی ایک بس میں پھٹ جاتے ہیں ، ہزارہ ٹاؤن مين پھٹ جاتے ہیں تو کبھی صوفیا کے مزارات پر دکھی لوگوں پر برس جاتے ہیں اور کسی مندر کو آگ لگاتے ہيں تو کسی کلیسا میں پھٹتے ہیں حمید گل ! جن کو تم ملحد کہا کرتے تھے ، جن کو بے دین اشتراکی بتلاتے تھے اور سرخ عمارت کے اندر ٹارچر سیلوں ميں ، شاہی قلعے کے عقوبت خانوں میں جن سے تم شعور زندگی چھین لیا کرتے ، وہ تمہاری تمام تر درندگی اور بربریت کو سہن کرنے کے باوجود اپنی " انسانیت " سے دستبردار نہ ہوئے اور تم زرا اپنے " باایمان ، صاحبان جبّہ و دستار " کو دیکھو ، زرا ان اقبال کے " ستاری و غفاری و قہاری و جبروتی " کو دیکھو ، جہاں اللہ کا نام بلند ہو وہاں پھٹ جائیں ، جہآں یا علی و یا حسین کی صدا بلند ہو وہآں بارود کی بارش کریں ، جہاں سے یارسول اللہ کا نعرہ بلند ہو وہاں قیاقت برپا کردیں ، اور ایشور و گاڈ سے پکارنے والوں کو تو ویسے ہی نہ بخشیں اور اب تو یہ تمہارے گاڈ فادر آل سعود کے ہاں بھی پھٹتے ہیں ،گویا نسیم حجازی کے جن کرداروں کو تم اور تمہارے قبیلے نے جو تجسیم دی تھی وہ اب ان پر بھی پھٹتے ہیں جن کے ہاتھوں سے یہ ڈیٹونیٹر بنے تھے حمید گل صاحب ! آپ اور آپ کے "جہادی " بریگیڈ نے جن کی لاشیں مسخ کیں اور چپکے سے دفنادیں جن کو تم نے جمہوریت ، مساوات ، رواداری ، صلح کل ، امن ، شانتی ، تکثیر سے پیار کرنے کی سزا دی تھی ، وہ مصائب کے پہاڑ سہہ کر بھی کبھی بے گناہوں پر تو کیا گناہ گاروں کے درمیان جاکر بھی پھٹے نہیں تھے اور ماضی میں حسن ناصر ، نذیر عباسی ، رزاق جھرنا ، ادریس طوطی ، ایاز سموں ناصر بلوچ سب کے سب بہادری سے خود مصلوب ہوئے لیکن انھوں نے تمہارے گناہوں اور تمہاری بربریت کی سزا معصوموں کو نہیں دی تھی اور تمہارے " جہادی " تو اگر امریکی اڈوں ميں داخل نہ ہوپائیں تو اس اڈے کے قریب مصروف سڑک پر پھٹ جاتے ہیں اور وہاں سے گزرنے والے بچّے ، بوڑھے ، عورتیں ، نوجوان لوتھڑوں مین بدل جاتے ہیں ، پاکستان میں ہو تو زمہ داری قبول کرلی جاتی ہے اور افغانستان میں ہو تو خاموشی تاکہ تم جیسوں کو کہنے کا موقعہ ملے کہ نہیں " افغان طالبانی " تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ، حقیقت یہ ہے کہ جن جہادیوں کو تم نے مسلمانوں کو عظمت رفتہ کو پلٹانے کے لئے تیار کیا تھا انھوں نے تو " زوال کی زندگی " بھی ان سے چھین لی ، تم سکھ کا سانس تو کیا واپس کرتے ، دکھ والا سانس بھی چھین کر لے گئے سوویٹ روس ٹوٹ گیا مگر سوویت ریاستوں کے اشتراکیوں نے اکتوبر 1917ء کا بالشیویک انقلاب لانے کے لئے " خود کش " تیار نہ کئے ، اور اپنوں پر ہی زندگی " عذاب " نہ کی کہ وہ ان کی طرف واپس کیوں نہیں آتے ؟ حمید گل ! تم پیچھے کوئی نیک ورثہ چھوڑ کر نہیں گئے ، اسقدر کانٹے ہیں کہ کوئی ان سے زخمی ہونے سے بچے گا نہیں اور جس کو بھی ضرر پہنچے گی وہ تمیں اور تمہارے قبیلے کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرے گا حمید گل اور اے قبیلہ ضیاع الحق ! یاد رکھو ! تم نے پاکستان کو تکفیریت کا گڑھ بنایا اور تمہارے فسطائی بّچے جگہ جگہ فساد پھیلائے ہوئے ہیں ، تم نے جناح کی آروزؤں کا خون کیا ، تم نے اقبال کی تعبیر کو مسخ کیا اور پھر تم نے اس ملک کے بسنے والوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بوئے کہ آج لوگ محض مخصوص نام پر قتل کردئے جاتے ہیں اور شناختی کارڑ پر شہر و صوبے کے نام پر مارے جاتے ہیں ، تم نے اس ملک میں کوڑھ کی کاشت کی ہے آج پورا ملک کوڑھیوں سے بھر گیا ہے اور تمہاری فسطائیت ، تکفیری جذام ملکی سرحدوں سے نکل کر چار دانگ عالم میں پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت والے ملکوں سے میں گھر اور بازا سونے اور مہاجر کیمپ آباد ہیں یہ سب تمہارے " جہاد " کی برکات و فیوض ہیں اور اس گہرائی کے کھائی میں بدل جانے کا نتیجہ جس کی تلاش میں تم نے کچے ذھنوں کو باردوی جیکٹس پہنائی ، راکٹ لانچر چلانا سکھایا اور دھماکہ خیز ڈیوائسز سے تباہی پھیلانا سکھائی اے پسماندگان حمید گل و قبیلہ ضیاع الحق ! میں تم سے حمید گل کے فنا ہوجانے پر کوئی تعزیت پیش نہیں کروں گا ، نہ ہی تم کو پرسہ پیش کروں گا ، بلکہ تم جسے خلا سمجھ رہے ہو ، اور بڑا دکھ خیال کررہے ہو ، اس سے کہیں زیادہ دکھ میں اس باپ کے لئے محسوس کرتا ہوں جو اوجڑی کیمپ سے کچھ فاصلے پر 10 اپریل 1988ء کے دن سے پہلے ایک بھری پری کالونی میں رہتا تھا اور جب 10 اپریل کو مزائیل اڑ اڑ کر اس کالونی کو ملبے میں بدل رہے تھے تو وہ اپنی بچی کو بچانے میں ناکام رہا تھا اور جب فرنٹئیر پوسٹ کا رپورٹر عادل نجم وہاں فوٹو گرافر کے ساتھ وہاں پہنچا تو وہ ایک جوتی لیکر اپنے ملبہ بنے گھر کے آگے بیٹھا اور عادل نجم کو دیکھ کر اس نے بس اتنا کہا تھا کہ بس یہ جوتی بطور نشانی رہ گئی ہے ، گڑیا تو نہیں رہی ، میں سوچتا تھا کہ یہ اکلوتی بیٹی کسی دن مری میت پر روئے گی اور مجھے یہ ارمان تو نہیں رہے گا کہ مجھ پر کوئی رونے والا بھی نہين ہوگا عادل نجم کہتا ہے اس روز اس نے اس کالونی میں کسی گریہ کناں ، کسی ماتم گزیدہ چہرے کا فوٹو اپنے فوٹو گرافر کو لیتے نہیں دیکھا ، اس میں بھی ہمت نہیں تھی اور مجھ میں بھی حوصلہ نہ تھا کہ کسی کو یہ کہہ دوں ! صبر کریں ، بہت افسوس ہوا میں کیسے اس قبیلہ یزید و شمر کو تعزیت پیش کروں کہ جس کے قبیلے والوں نے میرے کئی گبھرو نوجوان ، کئی معصوم بچوں کو چھین لیا اور ہمارے بوڑھوں ، عورتوں تک معاف نہ کیا محض اس بنا پر کہ ان کے نام روشنی والوں سے ، کساء والوں سے ، بیت والوں سے ملتے تھے ، ان کے ناموں سے جنت البقیع میں بے چھت و قبہ اور کنکریوں کے ساتھ رہنے والوں کی خوشبو آتی تھی اور ان کے ناموں سے باب العلم سے عقیدت جھلکتی تھی اور ان کے نام ان کو ندیم دوست ظاہر کرتی تھی

Saturday, August 1, 2015

سیلاب ، انکوائری کمیشن کی رپورٹ ۔۔۔۔۔۔۔ سیلاب بلا سے بے پروا نوکر شاہی


23 جولائی کی شام جب وزیرا‏عظم پاکستان میاں محمد نواز شریف انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے شواہد کا جائزہ لینے والے انکوائری کمیشن کی آنے والی رپورٹ پر قوم سے خطاب کررہے تھے تو اس وقت روزنامہ خبریں ملتان کی 24 جولائی 2015ء کی شایع ہونے والی خبر کے مطابق ان کی انسپکشن ٹیم تونسہ بیراج ، عباس والہ بند سمیت ان علاقوں کا جائزہ لے رہی تھی جہاں سیلابی پانی آچکا تھا یا جہاں بند ٹوٹنے کا خطرہ موجود تھا ، جبکہ اس سے ایک روز پہلے جکھڑ امام شاہ ڈیرہ غازی خان بند میں شگاف پڑچکا تھا اور ہمارے چیف منسٹر شہباز شریف کے بقول وہ لندن سے اپنا علاج چھوڑکر وہاں آگئے تھے ، ایک انگریزی روزنامے کے انتہائی سئنیر رپورٹر کی خبر کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جیسے ہی وزیراعظم کو موصول ہوئی تو وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں حکومتی وزراء اور مسلم لیگ نواز کے کے قائدین اکٹھے ہوئے اور 6 گھنٹے یہ اجلاس جاری رہا لیکن اس اجلاس میں کسی ایک کی جانب سے بھی متاثرین سیلاب کی حالت زار اور افسر شاہی کی روائتی سستی اور غفلت کے بارے میں سوال نہیں اٹھایا گیا چیف منسٹر شہباز شریف نوکر شاہی کی جھرمٹ میں جھکڑامام شاہ بند کا معانہ کرنے پہنچے اور اس دوران یہ موسم تھا جس نے ان کو 7 گھنٹے ملتان میں قیام کرنے پر مجبور کردیا اور اس دوران بھی ان سے عام آدمی تو مل ہی نہيں سکا ، اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا ان کے دورے کے دوران بار بار خالی نمائشی کیمپ دکھا رہا تھا اور روزنامہ خبریں ملتان کی ہی ایک خبر ضلع مظفر گڑھ میں صوبائی وزراء ڈاکٹر فرخ جاوید ، ملک اقبال چنڑ اور صوبائی سیکرٹر افتخار علی سہو کے دورے بارے شایع ہوئی ، جس میں وزراء نے کہا کہ سیلاب کے متاثرین کے لئے ریلیف کیمپ قائم کیا گیا لیکن اس میں متاثرین آئے ہی نہیں جبکہ اس کے اوپر ہی ایک خبر موجود ہے کہ جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ، متاثرین بدستور امداد کے منتظر روزنامہ خبریں کی انسپکشن ٹیم کے مطابق 2010ء میں سیلاب نے جنوبی پنجاب میں جو تباہی مچائی تھی ، اس کو دیکھتے ہوئے جن حفاظتی اقدامات کی پیشگی تیاری کی جانی چاہئے تھی ، وہ افسر شاہی نے نہیں کی ، مبینہ طور پر کروڑوں کے فنڈ ڈکار لئے گئے ، ڈی سی او ملتان کے حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی کہ انھوں نے ملتان ریجن مین نچلے درجے کا سیلاب ماننے سے بھی انکار کرڈالا ، تونسہ بیراج پر جو غیر قانونی شکار گاہيں بنائی گئیں اور بااثر زمینداروں نے جو درخت کٹوائے ، اس پر بھی کوئی کاروائی بیوروکریسی نے نہیں کی میں ایک ہفتے سے جنوبی پنجاب میں سیلاب کے حوالے سے ہونے والی انوسٹی گیٹو رپورٹنگ کو فالو کررہا ہوں اور یہ دیکھنے کا خواہش مند ہوں کہ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کا کہیں وجود نظر آئے لیکن اس بارے کوئی خبر نہیں مل رہی ، چیف منسٹر کے دورے کی جو خبر شایع ہوئی اخبارات میں اور ٹی وی چینلز نے جو نشر کی اس میں بھی اس اتھارٹی کے کسی نمائندے کا نام موجود نہیں ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ مجھے لگتا ہے کہ ابھی تک صوبائی اور ضلعی سطح پر ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں آسکا اور اٹکل پچو طریقوں سے کام لیا جارہا ہے ، محکمہ انھار کے افسران کی سستی بھی صاف ظاہر ہے ، ایک رپورٹ مظفر گڑھ کے ایک صحافی ملک تحسین نے ایک ماہ شایع کی تھی کیا مظفر گڑھ سیلاب کے لئے تیار ہے ؟ اس رپورٹ میں صاف صاف افسر شاہی کی بے حسی ، کرپشن اور لوٹ مار کا تذکرہ کیا گیا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ چیف سیکرٹری سے لیکر دیگر مجاز افسران نے اس جیسی اور اس سے ملتی جلتی درجنوں رپورٹس کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی چیف منسٹر کے مانیٹرنگ سیل کی جانب سے کوئی کاروائی نظر آئی ، اس سیلاب سے جنوبی پنجاب کے ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے ، بے سروسامان ہوئے ، طلباء و طالبات کے اسکولز پانی میں گھر گئے ، اس ساری صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹھوس پیشگی اقدامات کہیں نہیں کئے گئے ، چیف منسٹر کی جنوبی پنجاب کی آمد پر چند کیمپ لگا کر آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی اور چیف منسٹر نے بھی خیال کیا کہ لانگ شوز پہن کر ، ماؤ سٹائل لانگ کوٹ پہن کر جھکڑامام شاہ بن پر بنی ان کی تصویریں اس خطے کے لوگوں کی بے سروسامانی کا مدوا کردیں گی اور انھوں نے ملتان اپنے قیام اور جھکڑ امام شاہ بند کے دورے پر بھی سب سے زیادہ گفتگو جوڈیشل انکوائری کمیشن کے بارے میں کی اور قوم کو الیکشن کے شفاف ہونے پر مبارکبار پیش کی ، اور ساتھ ہی ایک بڑی نوید دی کہ بندوں کی مرمت کے تیس کروڑ روپے مختص کردئے گئے ہیں اور ان کو سرخ فیتے کی نظر نہیں ہونے دیا جائے گآ ، یہاں فوری طور پر سوال یہ پیدا ہوا کہ 2010ء میں سیلاب کے حوالے سے افسر شاہی کی جو نااہلی سامنے آئی تھی ، اس حوالے سے انکوائری رپورٹ آج تک پبلک کیوں نہیں کی گئی ، ان افسروں کو کیا سزا دی گئی جو سیلاب کی تباہ کاریوں کے زژہ ٹھہرائے گئے تھے ، سپریم کورٹ نے اس حوالے سے جو نشاندھی کی تھی اس پر کہاں تک عمل کیا گيا ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آج 2015ء ہے پانچ سال تک جنوبی پنجاب کے شکستہ بندوں کی مرمت کا سامان کیوں نہیں ہوسکا ؟ جب سیلاب آن پہنچتا ہے تب ہی سارے اعلانات سامنے آتے ہیں ، کیا دریاؤں کے کنارے اور سیلاب کے خطرے کی زد ميں آنے والے شہروں اور دیہاتوں کے بچاؤ کے لئے پیشگی اقدامات کوئی فوری ضرورت کی بات نہیں ہیں ؟لندن سے شہباز شریف کا آنا ثابت کرتا ہے کہ آگر وہ اپنا علاج کچھ روز ملتوی کردیتے اور یہیں پاکستان رہتے تو کچھ نہیں ہونے کا تھا ، ویسے وہ کون سا علاج ہے جو صرف لندن ہی میں ہوتا ہے اور پاکستان میں نہیں ہوتا ؟ اس کا تسلی بخش جواب آنا چاہئیے ، 30 کروڑ روپے بندوں کی مرمت کے لئے مختص کرنے پر مجھے یار آیا کہ ابھی شہباز شریف اور نوآز شریف کی نواسی کا نیویارک میں شادی کا جو پروگرام تھا اس میں شرکت کے لئے پی آئی اے کے جہآز کو استعمال کیا گیا اور اس حوالے سے سرکار کے اربوں روپے خرچ کردئۓ گئے جبکہ چینوٹ میں دریائے چناب پر ڈیم کی تجويز 25 سال سے پنجاب کی نوکر شاہی نے سردخانے میں ڈالی ہوئی ہے ، روزنامہ خبریں ملتان کی خبر کے مطابق دریائے چناب پر چینوٹ میں یہ ڈیم اگر تعمیر ہوجائے تو سیلاب سے بھی بچا جاسکتا ہے اور اس سے 11 ہزار ایکٹر زمین سیراب کی جاسکتی ہے جبکہ 68 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ، پنجاب حکومت کو گزشتہ برس بھی اس ڈیم کی تعمیر کے لئے کہا گيا ، لیکن انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی ، دیہی غریبوں اور شہری غریبوں کی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ جلدی سے منظور نہیں ہوتا ، کیونکہ اس میں سرمایہ داروں اور بڑے کیمشن کھانے والوں کا زیادہ مفاد نہیں ہوتا ہے ، عباس والا بند 2010ء ميں جہآں سے ٹوٹا ، وہیں سے دوبارہ رسنا شروع ہوگیا ، اس کا نوٹس کس نے لینا ہے ، ہیڈ محمد والا پر جو شگاف ہے اگر سیلاب وہاں کا رخ کرلیتا تو کیا ہوتا ؟ افسر شاہی اس سوال پر یہی کہے گی کہ سیلاب نے رخ نہیں کیا نا ؟ گویا یہ قدرت ہے جس نے ہیڈ محمد والا کے گرد رہنے والوں کو بچا لیا ، ورنہ اس ملک کی سول بیوروکریسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے جمہوریت ، منتخب حکومت یہ ساری باتیں جب سول حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام رہتی ہے تو فضول لگنے لگتی ہیں ، ابھی آئی اے اے رحمان کے بیٹے اور ایک انگریزی اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے اپنے کالم میں بائی پاپولر چوائس کے عنوان سے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ لاہور سمیت پنجاب کے اکثر شہروں اور دیہاتوں ميں جنرل راحیل شریف کی مقبولیت اور ساکھ میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور سیاست دانوں کی مقبولیت گراف نیچے جارہا ہے ، کیونکہ " نیا پاکستان " بنانے والے خیبرپختون خوا ميں اور پرانا پاکستان کو ہی بہتر بنانے والے پنجاب میں کوئی معجزہ دکھا نہ سکے ، ابتری مزید ابتری میں بدل گئی ہے ، لوگوں کو غربت ، مہنگائی ، دربدری ، اور سسٹم کے ڈیلیور نہ کرنے کا احساس ستا رہا ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف قوم سے خطاب ميں کہتے ہیں کہ آج کا پاکستان دو سال کے پاکستان سے بہت بہتر ہے ، اس میں سچائی اس حد تک ہے کہ لوگوں کو آپریشن ضرب عضب ، خیبر 1 کی کامیابی اور پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کی روش نظر آتی ہے جبکہ سویلین ایڈمنسٹریٹو سیٹ اپ عوام کو ڈیلیور کرنے ميں ناکام نظر آتا ہے ، تعلیم ، صحت ، کا انفراسٹرکچر تباہی کا شکار ہے لیکن سول ایڈمنسٹریشن کا دعوی ہے کہ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ، دربار کا راوی چین لکھتا ہے اور دربار سے باہر راوی عذاب لکھتے ہیں وزیراعلی پنجاب اگر عوام کی کھلی کہچریوں ميں عوام کے دکھڑے سننے سے گھبراتے ہیں تو ان کو چاہئیے کہ صرف تعلیم ، صحت ، پولیس ، ریونیو اور ٹی ایم ایز و کارپوریشنز کی کھلی کہچریاں ان مخکموں کے صوبائی سیکرٹریز سے کہيں جاکر منعقد کریں اور وہ وڈیو لنک کے زریعے سے اس کو دیکھیں ان کو پتہ چل جائے گا کہ لاہور سے دور اضلاع میں عوام کس قدر مصائب میں مبتلا ہیں ، ابھی ریجنل پولیس آفسیر ملتان طارق مسعود یاسین ڈسٹرکٹس ميں گئے اور کھلی کہچریوں کا انعقاد کیا تو ان کا اپنا یہ کہنا ہے کہ تھانوں ميں سائلین کو ذلیل کرنے اور دھکے دینے اور مدعی سے ملزم جیسا سلوک اور ملزم سے مجرم جیسا سلوک کرنے کا کلچر عام ہے ، صحت ، تعلیم ، پولیس ، ریونیو میں چیف منسٹر جن ریفارمز کا دعوی کرتے ہيں وہ کہيں ںطر نہیں آتیں ، ہاں ان کی شاندار پروجیکشن اور پریذینٹشن ہميں پروجیکٹر کے زریعے سے سکرین پر بہت نظر آتی ہے ایک لفظ چیف منسٹر بار بار بولتے ہیں اور وہ ہے " ترقی کا وژن " آخر یہ وژن عمل کی صورت میں اسقدر بھیانک کیوں لگتا ہے کہ اربوں روپے کے میٹرو بس پروجیکٹ بننتے ہیں لیکن ریسکیو 1122 کے لئے چندے کی اپیل کی جاتی ہے ، وزیرآباد کارڑیالوجی نہیں فنکشنل ہوتا ، ملتان کارڑیالوجی کے فنڈز ميں کٹوتی کی جاتی ہے ، پہلے سے موجود نشتر ہسپتال مسلسل زوال پذیر ہوتا ہے ، سرکاری سیکٹر ميں ہسپتال ، اور تعلیمی سیکٹر پيچھے اور پرائیویٹ سیکٹر آگے جاتا ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ تعلیم اور صحت جن کے پاس پیسے نہیں ہیں یا بہت تھوڑے ہيں ، ان کا حق نہیں ہے ، وہ بیماریوں سے مریں ، وہ سیلاب سے مریں ، وہ بارشوں سے مريں ، وہ حادثات سے مريں ، ہماری نوکر شاہی اس کی زمہ دار نہيں ہے