Thursday, May 29, 2014

راشد رحمان کا قتل ،جعلی سول سوسائٹی اور این جی اوز


پیپلز رائٹس کے پلیٹ فارم تلے انسانی حقوق کے مقتول کارکن راشد رحمان ایڈوکیٹ کی یاد میں لاہور میں ایوان اقبال میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جبکہ اس سے پہلے ملتان سول سوسائٹی نیٹ ورک نے ملتان آرٹس کونسل میں راشد رحمان کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا تھا یہ دو بڑے اجتماعات جن کو ہم پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے کے نمائندہ اجتماعات کہہ سکتے ہیں دو ہفتوں کے درمیان ہوئے اور راشد رحمان کی ایف آئی آر درج ہوئے تین ہفتوں سے زیادہ ہوگئے ہیں اس دوران بہت سے حقائق ایسے سامنے آئے ہیں جن سے این جی اوز کی اپنی ساکھ اور خاص طور پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ساکھ پر کافی سوالات اٹھتے نظر آتے ہیں سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ راشد رحمان ایڈوکیٹ کے قتل میں خود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان مدعی کیوں نہ بنا؟دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مدعی راشد رحمان کے کسی وارث کو بنایا جانا مقصود تھا تو یہ مدعی آئی اے رحمان یا اگر ان کی پیرانہ سالی مسئلہ تھی تو ان کے بیٹے اشعر رحمان جوکہ ایک معروف انگرزی اخبار کے لاہور میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی ہیں کیوں نہ مدعی بنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ھیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے راشد رحمان کے قتل پر اپنے موقف کے حوالے سے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں ان تین افراد کا زکر ہے جنھوں نے راشد رحمان کو قتل کی دھمکی دی تھی اور راشد نے ان کے خلاف ایک درخواست ملتان پولیس کو دی جس میں ان کے نام بتائے تھے اور ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ ان تین افراد کے نام ایف آئی آر میں درج کئے جائیں لیکن یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ جب راشد کے برادر نسبتی نے اپنی مدعیت میں راشد کے قتل کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے درخواست پولیس کو دی تو اس درخواست کا مصنف اور مشیر کون تھا؟کیونکہ اس درخواست میں راشد کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست اور اس میں زکر ناموں کا کوئی زکر موجود نہیں ہے میرے ایک ایک سورس نے بتایا کہ اس درخواست میں ملزمان نامعلوم رکھنے کا مشورہ دینے والے بار کے ایک اہم عہدے دار تھے تھے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ملتان آرٹس کونسل میں سول سوسائٹی کی جانب سے ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں جب ان کو خطاب کے لیے بلایا گیا تو ایچ آر سی پی کے کارکن راؤ اکرم خرم ایڈوکیٹ اور بھٹہ مزدوروں کی کمپئن چلانے والے محمد حسین بھٹہ نے زبردست احتجاج کیا اور اس موقعہ پر یہ بھی کہا کہ مذکورہ عہدے دار ان تین لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جن کے نام راشد نے اپنی درخواست میں درج کئے تھے پیپلز رائٹس کے راشد تعزیتی ریفرنس میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں ان تین افراد کے نام ایف آئی آر میں درج کرنے کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر شامل کیا گیا اور اس میں ایک نام جس کے بھائی وفاقی سیکرٹری قانون بتلائے جاتے ہیں کو بھی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن میرے لیے حیرت کی بات ہے کہ پولیس کہتی ہے کہ مدعی کی جانب سے تاحال ان کو ایف آئی آر میں مذکورہ تین افراد کے نام شامل کرنے کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی حیرت ہے جو پہلا قانونی تقاضا بنتا ہے اسے پورا کرنے سے ایچ آر سی پی کیوں قاصر ہے؟میں نے اس حوالے سے جب آئی اے رحمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ لاہور میں تھے جب راشد کا قتل ہوا اور ان کے سالے نے ایف آئی آر درج کرائی جبکہ ایچ آر پی سی نے چیف منسٹر،پرائم منسٹر ،آئی جی پنجاب ،ہوم سیکرٹری کو فیکسز کرائی ہیں کہ تین افراد کے نام ایف آئی آر میں شامل کئے جائیں وہ کہتے ہیں کہ ملتان پولیس جھوٹ بولتی ہے کہ مدعی نے ان سے رابطہ نہیں کیا لیکن ملتان پولیس کا کہنا ہے کہ مدعی کا رابطہ ایف آئی آر میں تبدیلی کے حوالے سے نہیں ہوا اور نہ ہی درخواست مدعی نے ان تین افراد کے نام ایف آئی آر میں درج کرنے کی دی ہے اس کا جواب ایچ آرسی پی کے لوگوں کے پاس شاید نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب میں نے عاصمہ جہانگیر سے یہ سوال کیا کہ ملتان میں جب بی بی بی سی کا نمائندہ ان سے راشد کے مبینہ قاتلوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو عاصمہ نے کیوں ان تین افراد کا نام نہیں لیا جن کے بارے میں بی بی سی کے نمائندے نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ اس دھمکی کے بعد ایچ آر سی پی نے راشد رحمان کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کئے تھے؟ عاصمہ جہانگیر صاحبہ اس سوال پر اپنا ٹمپرامنٹ لوز کربیٹھیں تھیں جو اس بات کی نشانی ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اپنی غلطی یا غفلت کا کوئی لنگڑا لولا جواز بھی موجود نہیں ہے پاکستان کی اکثر و بیشتر این جی اوز ایک فیک اور جعلی سول سوسائٹی کی تشکیل کرتی ہیں اور اس این جی او سیکٹر کے بڑے بڑے نام اپنے شاندار ماضی کی کمائی کھانے میں مصروف ہیں اور وہ بنیادی طور پر صرف اور صرف غیر ملکی پروجیکٹس کو حاصل کرنے کی مہارت سکھانے والے بن گئے ہیں ان میں سے اکثر ماضی کے کمیونسٹ،سوشلسٹ اور لبرل لیفٹسٹ ہیں جو عرصہ ہوا مارکس،اینگلس ،پلیخانوف،لینن،تراتسکی وغیرل کے خیالات سے توبہ تائب ہوگئے ہیں آئی اے رحمان پاکستان کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے لیون ٹراٹسکی کا علم اٹھایا اور پھر اسے چھوڑ دیا اور آج یہ سارا این جی او سیکٹر بھولے سے بھی مارکس ،اینگلس،لینن،سٹالن ،ٹراٹسکی کا نام نہیں لیتا اور نہ ہی اس کی گفتگو میں ان اصطلاحات کا نام و نشان ملتا ہے جن کو یہ 70 ء اور 80ء کی دھائی میں اکثر استعمال کیا کرتے تھے پوسٹ ماڈرن ازم اور پوسٹ سٹرکچرل ازم میں جنم لینے والی این جی اوز کی فلاسفی اور اس کی ٹرمنالوجی جو بنیادی طور پر مارکسی انقلابی ٹرمنالوجی کے مقابلے میں لائیں گئی تھیں ان کی حرز جاں ہیں ایک نوجوان جوکہ حسین نقی ،آئی اے رحمان اور عاصمہ کی صحبتوں سے مستفید ہوا آج میری بات سے متفق ہے کہ پاکستان میں این جی او سیکٹر کوئی بنیادی تبدیلی لانے سے قاصر ہے بلکہ اس سیکٹر کا کام ہی اینٹی سوشل چینج ماحول کی تخلیق ہے اس سیکٹر کے لوگ مرض کے علاج کرنے کی بجائے علامتوں کے پیچھے پڑے ہیں اور بنیادی پروڈکٹ کی بجائے بائی پروڈکٹ کو نشانہ بناتے ہیں،یہ مارکیٹ ماڈل اکنامی اور سامراجی تصور ترقی کو جائز اور اسے دنیا میں پھیلنے والی سماجی برائیوں کی اصل جڑ خیال نہیں کرتے بلکہ این جی او سیکٹر مارکیٹ ماڈل کی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ریاست اور سرکاری شعبہ جات لوگوں کو صحت ،تعلیم ،صفائی وغیرہ کی سہولتیں فراہم نہیں کرسکتے تو این جی اوز آگے بڑھ کر سرکاری تعلیمی اداروں ،ہسپتالوں کو اپنی تحویل میں لینے کا پروگرام بناتی ہیں جس سے نجی شعبے کو صحت اور تعلیم کے شعبے کو بھی نج کار کرنے کا موقعہ میسر آجاتا ہے لبرل ازم جس کے پیچھے سرمایہ داری کے روشن خیال ہونے اور اس کے جمہوری ہونے کا خیال سمویا ہوا ہے اور اسی لیے این جی اوز عالمی سرمایہ داری سے جڑے پاکستان کو آج بھی جاگیرداری ملک کہتی ہیں اور بھولے سے بھی کارپوریٹ سیکٹر کی تباہ کاریوں کا زکر زبان پر لیکر نہیں آتیں ان کے ہاں جس انداز سے ابھر کر سامنے آتا ہے اس سے اس ملک کی اکثریت یعنی مزدوروں،کسانوں،غریب طالب علموں اور نچلے و متوسط طبقے کی عورتوں کی اکثریت کو کوئی تحریک نہیں ملتی ہے اس لیے جب کبھی مذھبی فاشزم سے ان کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو یہ بری طرح سے ایکسپوز ہوکر سامنے آتی ہیں اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ این جی اوز جو پاکستان کی سول سوسائٹی کا سب سے طاقتور جزو خود کو گردانتی ہیں ان کی عوام میں جڑوں کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے این جی اوز کی لبرل اشرافیہ اس ملک کے کارپوریٹ سیکٹر کے حملوں کے متاثرین کے شانہ بشانہ کبھی کھڑا ہونے کی ہمت اپنے اندر لیکر نہیں آتیں ،میں نے تو کبھی یہاں ویسے اندولن چلتے نہیں دیکھے جیسے ہندوستان میں نربدا ڈیم وغیرہ کی تعمیر پر چلے پاکستان میں لبرل اشرافیہ ایک بھی تحریک ایسی نہیں چلاسکی جو گراس روٹ لیول پر مذھبی،نسلی فاشسٹوں کو چیلنچ کرسکتی ہو ویسے جیسی ہندوستان میں مسلم فار ڈیموکرسی اور انسٹیوٹ فار سوشل ڈیموکریسی ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا،سماج وادی پارٹی وغیرہ نے چلائی میرے سامنے پنجاب میں مزارعین کی تحریک،سندھ میں ہاری تحریک،ماہی گیروں کی تحریک ،لیاری ایکسپریس کے متاثرین کی تحریک کی مثالیں موجود ہیں یہ ست تحریکیں بالاخر پروجیکٹس میں بدل گئیں اور ان تحریکوں سے جو مقامی قیادت ابھر کر سامنے آئی ان میں سے اکثر بڑی ڈونر ایجنسیوں کی ملازم یا اپنی این جی او بناکر پروجیکٹ حاصل کرنے میں لگ گئی اور جو پیسہ غیرملکی فنڈنگ سے آیا اس پر لڑائی ہوئی اور ہر تحریک اندر سے ٹوٹ گئی مزدوروں کی مستقل ہونے کی تحریکوں کو بھی ایسے ہی کرپٹ کیا گیا اور یہاں بھی آئی ایل او ،ایف یو آئی سمیت بہت سی تنظیموں کے دلالوں نے مزدوروں کی تحریکوں کو منظم کرنے کے نام پر کرپٹ اور بدعنوان کرڈالا اور ایسی تحریکوں کا حشر بھی یہی کچھ ہوا اصل میں غیرملکی ڈونرز یہ تعین کرتے ہیں کہ کون سے ایشو پر فنڈنگ کی جائے گی اور این جی اوز بھی اسی ایشو پر سارا زور لگاتی ہیں میں ایک مثال دیتا ہوں کہ ڈی ایف آئی ڈی جو کہ برطانیہ کی ایک نیم سرکاری ڈونر ایجنسی ہے اس نے 7 سال کا ایک پروجیکٹ دیا جس کس تحت لوکل گورنمنٹس اور وفاقی و صوبائی اداروں کے شہریوں سے تعلقات میں بہتری اور ان کے مسائل کے حل کے لیے باہمی کوآرڈینشن قائم کرنا ہے اور اس کے لیے ہر ضلع میں آواز سول سوسائٹی نیٹ ورک قائم کرنا ہے اور یہ پروجیکٹس پاکستان کی مختلف این جی اوز کو دئے گئے اس میں جو ایڈوکیسی مہم ہے وہ ملتان اور بہاول پور میں ایس پی او کے پاس ہے تو میرے ایک دوست نے بتایا کہ خانیوال میں ایس پی او نے ایک سال میں چار کروڑ روپے اور لودھراں ،بہاول پور وغیرہ میں بھی تقریبا اتنے ہی روپے خرچ کئے ہیں گویا ایک سال میں 12 کروڑ روپے کی ایڈوکیسی مہم چلائی گئی اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ آپ کو ایوویلویشن رپورٹس کا ایک گٹھہ مل جائے گا ،فائلوں کا انبار ،سینکڑون ای میلز اور اور نہ جانے کیا الا بلا مل جائے گا ،لفظوں کا کوڑا دان ہے جو این جی اوز کی کارکردگی رپورٹس آپ کو دے سکتی ہیں اور ایک مافیا ہے جو آپ کو دیگر شعبوں کی طرح یہاں مل جائے گا مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان کے جعلی لبرل،جعلی روشن خیال جن کی ہر مہم ڈالر مائل اور فنڈنگ مائل ہوتی نے پاکستان میں روشن خیال ،ترقی پسند تحریک کو جتنا نقصان پہنچایا کسی نے نہیں پہنچایا اسی لیے ارون دھتی رائے این جی او ایکٹوسٹ کو عمل سے عاری امپوٹنٹ کہتی ہیں اور ان کی عدم تشدد کی گردان اصل میں سوآئے بے عملی کے کچھ بھی نہیں ہے ارون دھتی رائے مشرف دور میں پاکستان آئیں تو ان کو پتہ چلا کہ ان کو بلانے والے تو پاکستان میں نیولبرل سرمایہ داری اور اس کی جنگوں کی حمائت کرتے ہیں اور مشرف کا نام نہاد لبرل ازم ان کو بہت پسند ہے تو بہت حیران ہوئیں ،یہی حیرت نوم چومسکی کو ہوئی تھی کہ اس کی جنگ مخالف پالیسی سے الٹ سوچ رکھنے والوں نے آخر اسے پاکستان میں خطاب کرنے کی دعوت کیوں دی ہے؟ کیا آپ کو یاد نہیں کہ کیسے لاہور میں عاصمہ سمیت ان جعلی فیک لبرلز نے میراتھن ریسوں کو ہی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی معراج قرار دے ڈالا تھا کیا حشر ہوا تھا پاکستان میں اینٹی افغان و عراق وار کمیٹیوں کی تشکیل کا جو این جی اوز کےسائے میں بنی تھیں اور یہ این جی اوز عرب بہار اور آکوپائے وال سٹریٹ پر منھ بند کرکے بیٹھی رہیں کیونکہ جمہوریت ان کی مرضی کےخدوخال لیکر مصر اور تیونس میں نہیں ابھری تھی آج مصر میں السیسی نے مظاہروں میں 1000 اخوان المسلمون کے لوگ مار ڈالے یہ خاموش رہے کیونکہ نظریاتی مخالفوں کا مرنا ان کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتا راشد رحمان جس کیمپ میں کھڑا تھا وہ کیمپ تو اس کے قتل کو ایک عالمی ایشو بناکر مغربی ڈونرز کو ڈالروں کی بوریوں کے منھ کھلوانے کے چکر میں ہے ،زرا ڈونرز کو رام ہونے دیں اور ڈالرز کی برسات ہونے دیں پھر دیکھنا کہ کون کون اپنے پرانے کام جہاں کم پیسے والے پروجیکٹس تھے چھوڑ کر بلاسفیمی لاز کے خلاف ایڈوکیسی مہم چلاتا نظر آئے گا غیرت کے نام پر قتل ،بلاسفیمی ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والوں،مذھبی و نسلی اقلیتوں کی حالت زار پر ڈیٹا اور رپورٹس اکٹھی کرنا پروجیکٹ،ان کے حل کے لیے ایڈوکیسی مہم پروجیکٹ اور ان مسائل پر اپنی رائے وہی بنانا جو انٹرنیشنل ھیومن رائٹس تنظیمیں جن میں سے اکثر امریکی حکومت کے زیر اثر ہوتی ہیں ان کو ھدایات دیتی ہیں اور اس حوالے سے ان کی اپنی کوئی رائے سامنے نہیں آتی یہ پورے معاشرے کے جو باہمی سماجی ربط اور تعلق ہیں ان کو توڑنے پر لگی ہوئی ہیں جبکہ ان کے دوسری طرف بھی ایک اجنبی ایجنڈا ہے جو قانون،عدالت ،اسلام کے طریقہ انصاف اور اسلامی اقدار کے منافی اقدامات میں ملوث ہے اور مذھبی جنونیت سے اسلام کو بدنام کررہا ہے ایک طرف اسلامو فوبیا ہے جو مغرب سے ہجرت کرکے پاکستان آن پہنچا ہے تو دوسری طرف مذھبی جنونیت و انتہا پسندی ہے جو مڈل ایسٹ سے ایکسپورٹ یہاں کیا جارہا ہے ان دونوں سے ہمارا کوئی رشتہ ناتہ نہیں ہے پھر بھی یہی دو چہرے ہیں جو پاکستان کا امیج بنادئے گئے ہیں

Tuesday, May 27, 2014

پاکستانی پریس مالکان آزادی صحافت کے کاغذی شیر


پاکستانی میڈیا کے مالکان کی جانب سے آزادی صحافت اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے دعوے ہمیشہ سے بہت بلند آہنگ سے ہمیشہ کئے جاتے رہے ہیں اور سنسر شپ کے خلاف ان مالکان کی جانب سے خود کو منصور ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش ہوتی رہی لیکن اگر ضمیر نیازی کی "صحافت پابند سلاسل" حکائت خون چکاں" اور انگلیاں فگار اپنی"جیسی تین کتابوں کا ہی مطالعہ کرلیا جائے تو ان دعوؤں کا پول کھل جائے گا اور پتہ چلے گا کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں انعام الحق کی کتاب سٹاپ دی پریس کا مطالعہ کرلیا جائے تو کہانی کھل جائے گی اور پتہ چلے گا کہ جب بھی صحافت پر برے دن آئے تو جس گروپ پر سب سے پہلے برا وقت آیا تو اس کے مقابلے میں جتنے گروپ تھے ان کے مالکان بھی ریاست اور ان گروہوں کے ساتھ ہوگئے جو معتوب گروپ کا گلہ گھونٹنا چاہتے ہیں اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جو معتوب گروپ خود کو آزادی صحافت کا علمبردار اور اسٹبلشمنٹ مخالفت کا آخری مورچہ کہہ رہے تھے اچانک سے ڈھیر ہوگئے مجھے یہ سب باتیں اس لیے کرنا پڑرہی ہیں کہ کل جیو-جنگ-نیوز انٹرنیشنل یعنی انڈی پینڈنٹ میڈیا گروپ نے ایک معافی نامہ اپنے اخبارات اور ٹی وی چینل پر شایع اور نشر کیا ہے جس میں انھوں نے آئی ایس آئی اور فوج سے معافی مانگی ہے اور حامد میر پر حملے کے بعد ان کے بھائی عامر میر کے بیان کو نشرکرنا غیرمناسب قرار دے دیا ہے یہ میڈیا گروپ تھا جس نے حامد میر پر حملے کے بعد سے مسلسل خود کو آزادی صحافت کا علمبردار کہنے کے بلند و بانگ دعوے شروع کئے اور یہ کہنا شروع کیا کہ اس کی نظر میں کوئی شخصیت مقدس گائے نہیں ہے چاہے اس کا تعلق پاکستان کے کسی بھی ادارے سے ہو اور اس کا کوئی بھی عہدہ ہو ویسے جیو گروپ نے تو یہ دعوی مشرف دور سے شروع کردیا تھا اور اس نے اپنے تنقیدی بلکہ تنقیصی ایجنڈے پر جس طرح سے آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو رگیدا تھا اس کی تاریخ میں شاید ہی مثال ملے گی اور اس وقت تو ہمارے چیف جسٹس ،موجودہ وزیر اعظم نواز شریف،شہباز شریف سب کو ہی بار بار حضرت عمر کا دور حکمرانی یاد آتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ جب عمر جیسے خلیفہ عدالت کے سامنے پیش ہوسکتے ہیں تو پھر کسی زرداری صدر کی کیا ہمت کہ وہ عدالت میں پیش نہ ہو ،اس زمانے میں تو پی پی پی کی حکومت نے کبھی پیمرا سے رجوع نہیں کیا اور جو کچھ میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران جیو گروپ نے جوڈیشری اور ملٹری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کے ساتھ ملکر زرداری حکومت کے ساتھ کیا تھا تو بھی اس وقت جیو گروپ کے خلاف پی پی پی کی حکومت نے نہ مذھب کو استعمال کیا اور نہ ہی کوئی اور ہتھکنڈہ اپنایا لیکن آج جیو گروپ آئی ایس آئی اور فوج کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا اور اس کا معافی نامہ یہ بتاتا ہے کہ الزام کا آدھے سے زیادہ ملبہ اس گروپ کے مالکان نے حامد میر اور ان کے بھائی حامد میر پر ڈال ڈیا ہے اور اس معافی نامے نے حامد میر اور عامر میر کے کیس کو جوڈیشل کیس کے سامنے بھی کمزور بنا ڈالا ہے یہ معافی نامہ جب شایع ہوا تو اس سے ایک روز بعد ہی دی نیوذ ویک اعجاز حیدر ایکسپریس ٹرائیبون میں بھی مستقل لکھتے رہے میں ایک آرٹیکل شایع ہوا ہے جس کا عنوان ہے سیلف ڈسٹرکشن اس میں اعجاز حیدر نے لکھا کہ کس طرح سے ایکسپریس ٹرائیبون جوکہ آزادی اظہار کے کھلے مواقع فراہم کرنے والے انگریزی روزنامے کے طور پر شروع ہوا تھا اور جس نے لبرل خیالات کو زیادہ سے زیادہ جگہ فراہم کرنے کے دعوے کئے تھے اور علی سیٹھی کا کہنا ہے ایکسپریس ٹرائیبون نے اپنے ابتدائی سالوں میں اس دعوے کی سچائی کو کسی قدر پورا بھی کیا لیکن ان کا کہنا ہے کہ بعد میں یہ انگریزی روزنامہ اپنے دعوے پر قائم نہیں رہا انھوں نے اس روزنامے کی پسپائی کا زکر کرتے ہوئے ایک مثال تو ایکسپریس کے ایڈیٹر کمال صدیقی کی اپنے سٹاف کو بھیجی کئی اس ای میل کی دی جس میں طالبان کے خلاف کوئی بھی خبر شایع کرنے سے روکا گیا تھا اور یہ ای میل کمال صدیقی نے ایکسپریس نیوز کی ٹیم پر کراچی میں حملے کے فوری بعد جاری کی گئی تھی جبکہ دوسری مثال انھوں نے یہ دی کہ جب انھوں نے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے پہلے ڈرافٹ کے افشا ہوجانے والی خبر کو بنیاد بناکر آرٹیکل لکھا اوراس میں آئی ایس آئی کی بطور تنظیم کے ناکامی پر بحث کی تھی تو اس آرٹیکل کو شایع کرنے سے معذرت کرلی گئی اور کہا کہ یہ پالیسی کے خلاف ہے اور بقول سیٹھی وہ پالیسی کیا تھی ان کو آج تک معلوم نہیں ہوسکی ان کی تیسری مثال ان کے آرٹیکلز میں سے بعض لائنوں کو سنسر کئے جانے کے پے درپے واقعات کی تھی اور پھر انھوں نے بتایا کہ علی سیٹھی نے بلاسفیمی پر نیویارک ٹائمز کے انٹرنیشنل ایڈیشن میں جو آرٹیکل لکھا اسے ایکسپریس ٹرائیبون نے اس ایڈیشن سے نکال دیا اور اس کی جگہ بلینک صحفہ شایع کیا اعجاز حیدر کا کہنا ہے کہ ایکسپریس ٹرائیبون نے پہلے جو سرنڈر کیا طالبان کے حملوں یا ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر آئی ایس آئی کے خلاف ان کے آرٹیکل سنسر کرکے وہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی بقا اور اپنے سٹاف ممبرز کی جانوں کو بچانے کے لیے کیا اور اسے گویا اعجاز حیدر کے بقول رعایتی نمبرز دئے جاسکتے ہیں لیکن علی سیٹھی کا کہنا ہے کہ اب جو ایکسپریس ٹرائيبون نے نیویارک ٹائمز کے انٹرنیشنل ایڈیشن سے ان کا بلاسفیمی پر لکھا جو آرٹیکل سنسر کیا ہے وہ اپنی بقا کی خاطر نہیں بلکہ اپنے سخت مقابل میڈیا گروپ کو نیچا دکھانے کے لیے سنسر کیا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ بلاسفیمی کا ہتھیار ہی اپنے اس حریف ميڈیا گروپ کو بند کرانے کے لیے اسی طرح استعمال کررہا ہے جیسے اے آر وآئی اور دوسرے گروپ جیو گروپ کو گرانے کے لیے استعمال کررہے ہیں اور یہ ایک طرح سے آئی ایس آئی کے ساتھ ملنا بھی ہے اس سے پہلے کہ میں اعجاز حیدر کی بات پر اپنے خیالات کا اظہار کروں تو میں کمال صدیقی سے ملتان پریس کلب میں ہونے والی ایک گفتگو کا زکر کرنا چاہوں گا ایکسپریس ٹرائیبون کے ایڈیٹر کمال صدیقی سے میں نے سوال کیا تھا کہ ان کا اخبار طالبان،آئی ایس آئی ،ملٹری اسٹبلشمنٹ اور دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے آگے ڈھیر ہوچکا ہے اور اس کا ثبوت ان کی اپنے سٹاف کو بھیجی گئی ای میل ہے تو وہ کیسے خود کو آزادی صحافت کا علمبردار کہتے ہیں؟ اس پر کمال صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی ای میل عارضی تھی اور مطلب یہ تھا کہ مستقل پالیسی بن جانے پر مزید ہدایات جاری کی جائیں گی اور بقول ان کے بعد میں وہ پالیسی سیٹ ہوگئی جس کی اطلاع بذریعہ ای میل ہی کی گئی لیکن دوسری ای میل کمال صدیقی نے تادم تحریر مجھے فراہم نہیں کی اور میں نے ان سے پوچھا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری ،ایف سی کے موقف سے ہٹ کر کبھی وہ بلوچستان ،فاٹا میں ہونے والی ائیر سٹرائیک اور ملٹری آپریشن پر وہ کوئی موقف شایع نہیں کرتے اور عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ان کے آرٹیکلز جو بلوچستان پر خاص طور ہوتے ہیں ان کو سنسر کردیا جاتا ہے اور ان کے خیال میں ملٹری اسٹبلشمنٹ پاکستانی میڈیا کو اپنی پالیسیوں کے مطابق مینج کرتی ہے اس پر کمال صدیقی کا کہنا تھا بلوچستان میں کوئٹہ میں ان کا جو نمائندہ ہے وہ شورش زدہ علاقوں کی رپورٹنگ کرنے سے معذرت کرچکا ہے جبکہ کراچی اور لاہور سے وہاں کوئی جانے کو تیار نہیں ہے جبکہ فاٹا میں خاص طور پر وزیرستان میں ميڈیا کو جانے کی اجازت نہیں ہے تو کیسے رپورٹنگ ہو جہاں تک عائشہ صدیقہ کے بلوچستان پر آرٹیکل سنسر ہونے کا تعلق ہے تو وہ جو ان کا دل کرتا ہے لکھ ڈالتی ہیں جبکہ ان کی باتوں کے ہمارے پاس تصدیق کے دوسرے زرایع موجود نہیں ہیں تو یہ زمہ داری کا سوال ہے جو میرا اخبار نہیں لے سکتا دیوبندی دھشت گردوں کی شناخت اور ان کے بارے میں معروضی رپورٹنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت خطرناک کام ہے اور اگر اخبار یہ کرے تو سٹاف میں کسی کی جان کی ضمانت دینا مشکل ہوجائے گا میں نے ایکسپریس ٹرآئیبون کے ایڈیٹر کی یہ گفتگو سنی تو ساری بات سمجھ لی تھی لیکن میں مزید ان سے اگلوانے کی فکر میں تھا ،ان سے پوچھا کہ پاکستان کا انگریزی پریس کا چہرہ ہمیشہ اردو پریس کے چہرے سے مختلف رہا ہے اور کبھی یہ فرق صرف پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کمپنی کے اخبارات نے ختم کیا تھا کہ پاکستان ٹائمز اور امروز کا چہرہ ایک جیسا تھا لیکن آپ کا گروپ بھی نمک کی کان میں نمک ثابت ہوا ہے تو کہنے لگے کہ آپ کی بات درست ہے جو چہرہ ایکسپریس ٹرائیبون کا ہے وہ ایکسپریس اخبار کا نہیں ہے اور نہ ہی ایکسپریس نیوز چینل کا ہے نہ جانے پاکستان کے نامور صحافی جو خود کو لبرل ازم اور سیکولر روایات کا علمبردار بھی کہتے ہیں یا وہ جو خود کو دائیں بازو کا سرخیل کہتے ہیں اس منافقت کے ساتھ کیسے زندہ رہتے ہیں کہ کمال صدیقی کو اپنے گروپ کے ایکسپریس اردو اخبار و چینل کی مذھبی انتہا پسندی اور اسٹبلشمنٹ کی چمچہ گیری سے کوئی شکائت نہیں تو نیوز کے صلاح الدین حیدر کو جنگ اور جیو کی قدامت پرستی سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور انگریزی اور اردو کے دو مختلف چہروں کو ایکسپوز کرنے کی طرف ان کو تحریک نہیں ملتی میں تو کہتا ہوں کہ اب پاکستان کا انگریزی پریس بھی اپنے آپ کو اردو اخبارات کے طرز پر ڈھال رہا ہے اور کم از کم ملٹری اسٹبلشمنٹ کے باب میں یہ مکمل سرنڈر کرچکا ہے دوسری طرف انگریزی پریس نے خود کو پاکستان کے تنگ نظر کرونی کیپٹل ازم کے آگے بھی سجدہ ریز کرڈالا ہے جبھی تو جیو-جنگ-نیوز گروپ سمیت پاکستان کا انگریزی پریس میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کے دیوبندی دھشت گردوں سے تعلقات اور ملک اسحاق و لدھیانوی ٹولوں اور جماعۃ الدعوۃ کی سرپرستی کو چھپاکر نواز شریف کی پاک-بھارت امن کے ڈرامے کو پروجیکٹ کرتا ہے اور یہ بتانے سے قاصر ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن حافظ سعید ،ملک اسحاق ،لدھیانوی اینڈ کمپنی کے ساتھ تعلقات قائم رہنے تک نہیں قائم ہوسکتا ہے ہاں تنگ قسم کا تجارتی تعلق قائم ہوسکتا ہے اور نواز شریف کے جو تجارتی ہوس گیری کے منصوبے ہیں وہ پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں لیکن پاکستان کا لبرل پوز دینے والا پریس مودی-نواز ملاقات پر اس پہلو کو زیر بحث لانے کو تیار نہیں ہے میں نے روزنامہ ڈان سمیت انگریزی پریس کی وزیرستان اور خیبر ایجنسی و باجوڑ میں پاکستان ملٹری کی فضائی کاروائی پر رپورٹنگ پڑھی ہے مجھے اس رپورٹنگ کی بہت زیادہ کوریج اور پروجیکشن پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مجھے یہ اعتراض ضرور ہے کہ پاکستان کا انگریزی پریس شیعہ نسل کشی پر وہ تنقیدی رپورٹنگ بلند آہنگ کے ساتھ اور زیادہ بڑی کوریج کے طور پر نہیں کرتا بلکہ سیلف سنسر شپ کو اپنے اوپر لاگو کرتا ہے پاکستانی پریس کومینج کرنے میں صرف ملٹری اسٹبلشمنٹ بشمول آئی ایس آئی ہی ملوث نہیں ہے بلکہ اس کی مینجمنٹ میں پاکستان کا سرمایہ دار کارپوریٹ سیکٹر بھی پوری طاقت سے ملوث ہے اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز بھی اس کو مینج کررہی ہیں اور پریس کا ایک بہت بڑا حصّہ جس میں اردو انگریزی پریس دونوں شامل ہیں کو سعودی عرب سمیت عرب ممالک بھی مینیج کررہے ہیں میں نے یوسف نذر کے آرٹیکل کا حوالہ بہت پہلے لکھا تھا کہ یوسف نذر نے کہا تھا کہ ہمیں جیو -جنگ -آئی ایس آئی لڑائی کو مکمل طور پر میڈیا کی آزادی کے سوال کے ساتھ کنفیوز نہیں کرنا چاہئیے جیسے ہم نے جیف جسٹس کی بحالی کو جوڈیشری کی آزادی سے کنفیوز کردیا تھا پھر کہتا ہوں کہ پاکستان کے اندر اس وقت جو تنازعہ ہمیں نظر آرہا ہے یہ عوام بمقابلہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے درمیان نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی سیاسی،ملٹری،عدالتی اسٹبلشمنٹ کے مختلف گروپوں کے درمیان اختیارات اور طاقت و مفادات کی تقسیم اور حصّے کی لڑائی ہے جس میں مشغول ہر فریق ایک تو "جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے "کے فارمولے پر عمل پیرا ہے جبکہ اس میں ہمیں اگر ایک حصّے کی جانب سے دو قومی نظریہ ،نظریاتی سرحدوں ،اسلام ،پاکستان کو خطرے کی گردان سنائی دیتی ہے ت دوسرے فریق کی جانب سے جمہوریت ،آئین ،قانون کی بالادستی،آزادی اظہار اور اختلاف کا حق جیسی اقدار کے قائم رکھنے کے نعرے سنائی دیتے ہیں تو ان فریقوں کے یہ بینرز سوائے دھوکے اور فریب کے کچھ بھی نہیں ہیں ان کے پیچھے طاقت،اختیار اور معاشی مفادات کا جو جھگڑا کارفرماہے اس کو دیکھنے اور اسے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے اور جو کوئی اسے بے نقاب کرے گا تو یہ سارے باہم لڑنے جھگڑنے والے فریق فوری طور پر اکٹھے ہوکر اس بے نقاب کرنے والے پر ہلّہ بول دے گا عائشہ صدیقہ اپنے حلقہ صحافت میں اگر آج تنہا نظر آتی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے میڈیا مینیج کرنے والی سیاسی و عسکری و کارپوریٹ اسٹبلشمنٹ میں سے کسی ایک سے صلح کرنے یا سمجھوتہ کرنے اور کسی ایک کا سچ بولنے اور دوسرے کا چھپانے کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے اس لیے اوسط درجے کی زھانت رکھنے والا کمال صدیقی جو بڑا کاسٹیوم پہن کر اور زرا اونچے سول کے جوتے پہن کر صحافتی دنیا میں اپنا قدکاٹھ بڑھانے کے چکر میں ہے وہ عائشہ صدیقہ کو کہتا ہے کہ ان کے جو ذھن ميں آتا ہے لکھ ڈالتی ہیں اپنے آرٹیکل کو ختم کرنے سے پہلے میں اعجاز حیدر کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں کہ کیسے اس شخص نے شیعہ نسل کشی پر دیوبندی تکفیریوں سے الائنس بنایا اور کیسے بلوچ قومی سوال پر اس کی لائن آئی ایس آئی نواز ہوگئی اور اب یہ یہاں خود کو آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا ماما چاچا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے پورا سچ اس نے کبھی نہیں بولا نہ ہی بولے گا ہمارا فرض بنتا ہے کہ پاکستان کا انگریزی یا اردو پریس جہاں جہاں منافقت سے کام لیتا ہے اور جس جگہ وہ اسٹبلشمنٹ کے کسی گروہ سے مفاہمت کرتا ہے اور کسی دھشت گرد ،انتہا پسند مافیا کے سامنے سرنڈر کرتا ہے اسے بے نقاب کریں اور کم از کم سوشل میڈیا پر ہم یہ کام بخوبی کرسکتے ہیں

مودی -نواز ملاقات --منتخب جمہوری مطلق العنان حاکموں کی ملاقات تھی


آج پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور ہندوستانی نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات ہوئی-تو نواز شریف نے مودی سے کیا کہا زرا ملاحظہ کریں “I stressed to the prime minister that we have a common agenda of development and economic revival, which is not possible to achieve without peace and stability in the region,” Sharif told reporters in New Delhi after meeting Modi. “ جبکہ اس موقعہ پر نریندر مودی نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی “Modi said the two nations could move immediately to improve trade ties مطلب صاف ظاہر ہے کہ دونوں ملکوں کے سنٹر رائٹ حکمران پارٹیوں کے وزرائے اعظم کے درمیان تجارت اور کارپوریٹ سیکٹر کو فروغ دینے پر اتفاق ہے بھارت میں الیکشن ہوئے اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلی اور اسے اب پارلیمنٹ میں کسی بھی اتحادی جماعت کی ضرورت نہیں ہے اور وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح کمزور حکومت نہیں ہوگی بھارتی جنتا پارٹی کی ملک گیر جیت کا تجزیہ کرنے والوں کی اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ نریندر مودی کا وزیر اعظم کا امیدوار ہونا اور بھارتی جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کا نگران مودی کا ہونا ہی بھارتی جنتا پارٹی کی جیت کا سب سے بڑا سبب بنا ہے مودی آخر کیسے ہندوستان میں جہاں سیاست عرصہ ہوا بہت زیادہ علاقائی ہوچلی تھی اور یہ کہا جاتا رہا کہ اب کسی ایک قومی جماعت کا واضح اکثریت کے ساتھ جیتنا مشکل ہے جیت گئے اور بھارتی جنتا پارٹی کو دوبارہ سے اوج ثریا پر لے گئے پاکستان میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں اور تجزیہ نگاروں نے مودی کی اس جیت سے سیدھا سیدھا یہ نتیجہ نکالا کہ ہندوستان میں ہندؤں کی اکثریت دائیں سمت جھک گئی ہے اور ہندؤ آبادی کے اندر بھارتی جنتا پارٹی کے فاشسٹ نظریات کو مقبولیت حاصل ہوگئی ہے نریندر مودی کی حالیہ کامیابی کے بارے میں پاکستان کے زرایع ابلاغ میں کچھ حلقوں کا خیال یہ بھی ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں ہوا ہے ایسے ہی ایک تجزیہ نگار نے لکھا کہ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کی کامیابی اور بھارت میں نریندر مودی کی کامیابی سے پاکستان ان دونوں کی پالیسیوں کے درمیان سینڈوچ بن سکتا ہے گویا پاکستان کے اندر نریندر مودی کی کامیابی کو امید سے زیادہ خوف اور اندیشوں کے ساتھ دیکھا گیا اور ان خوف و اندیشوں کی ایک بنیاد بھی موجود ہے اور وہ ہے نریندر مودی کا ماضی نریندر مودی نے اپنی سیاست کا آغاز راشٹریہ سیوک سنگھ سے کیا جوکہ ہندؤ فاشزم کی سب سے بڑی علمبردار تنظیم ہے اور نریندر مودی جب گجرات کے چیف منسٹر تھے تو گجرات میں احمد آباد سمیت مسلم آبادی کی اکثریت والے علاقوں میں زبردست طریقے سے مسلم آبادی کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور بربریت کے وہ وحشیانہ مناظر دیکھنے کو ملے کہ ہٹلر نازی ،اسپین کے فرانکو اور چلّی کے پنوشے کے مظالم بھی کم پڑگئے اور نریندر مودی نے ان واقعات پر شرمندہ ہونے یا معافی مانگنے سے انکار کیا اور اس پر اسے کجرات کے قصائی کا نام بھی دیا گیا جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو معروف ہندوستانی صحافی اور اینکر کرن تھارپر کو انٹرویو دیتے ہوئے نریندر مودی نے ایک مرتبہ پھر گجرات واقعات پر معافی مانگنے یا اس پر اپنا قصور ماننے سے انکار کیا اور محض اتنا کہا کہ اس کو اس پر افسوس ہے پھر ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں مظفر نگر میں ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے انتخابی جلسوں کے دوران انتہائی فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز تقریریں کیں جس سے خدشات اور بھی بڑھے لیکن نریندر مودی نے بتدریج اپنی انتخابی مہم کو اس انداز سے چلایا کہ رفتہ رفتہ یہ ثابت ہوگیا کہ انھوں نے اپنے ماضی خاص طور پر کجرات فسادات کو الیکشن کا بنیادی ایشو بننے نہیں دیا نریندر مودی کی کچرات میں حکومت کے دو ادوار اور پھر مودی کی جانب سے بھارتی معشیت کو سست رفتاری کے چنگل سے نکالنے کے لیے جن خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ان خیالات نے ہندوستان کے کارپوریٹ سرمایہ کے بڑے گروپوں اور ہندوستان کی ابھرنے والی نئی طاقتور مڈل کلاس کے اندر مقبولیت بہت زیادہ حاصل کی نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم پر 100 کروڑ ہندوستانی روپیہ خرچ کیا اور یہ پاکستانی دو سو کروڑ بنتا ہے جبکہ ان کے دیگر امیدواروں کے خرچے الگ تھے اور یہ مرکزی انتخابی مہم اگر بغور دیکھی جائے تو انڈیا ٹوڈے کا معروف عمرانیاتی تجزیہ نگار وشوا پرشید ناتھ ٹھیک کہتا ہے نریندر مودی ایک روائتی سیاستدان کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنی کے مینجر یا کارپویٹ تنظیم کے سی ای او کے طور پر ابھر کر سامنے آئے شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے اڈانی،امبانی اور ٹاٹا جیسے طاقتور کارپوریٹ بزنس کے مالکان اور ہندوستانی پروفیشنل مڈل کلاس میں نریندر مودی کی زبردست حمائت دیکھنے کو ملی اور یہ حمائت کرنے والے لبرل،قدامت پرست ،سنٹر رائٹ اور سنٹر لیفٹ دونوں طرح کے خیالات رکھنے والے کاروباری اور متوسط طبقے کے لوگ تھے گویا مودی نے گڈ کورننس جس کا ٹھیک ترجمہ بہتر انتظام کاری ہے اچھی حکمرانی نہیں کا خواب بہتر طریقے سے ہندوستانی عوام کو بیچنے میں کامیابی حاصل کی اور اس کامیابی کے پیچھے ہندوستانی کارپوریٹ سرمایہ کی بے پناہ حمائت بھی مودی کے ساتھ تھی جو ہندوستانی میڈیا کے 99 فیصدی حصے کا مالک ہے نریندر مودی کی جیت میں دوسرا بڑا عنصر یہ بھی تھا کہ کانگریس کے وزیراعظم منموہن سنگھ اور نئے امیدوار راہول گاندھی کے قوت فیصلہ کے بارے میں عوام کے اندر بہت سے تحفظات موجود تھے اور گاندھی-نہرو وراثتی لیڈر شپ کا کرشمہ بھی ماند پڑا تھا جبکہ کرپشن کے اسکینڈلز اور غربت و مہنگاہی میں اضافے نے بھی کانگریس کے خلاف میڈیا اور عوام میں ایک رائے بنارکھی تھی کانگریس کی قیادت کی غیر مقبولیت کا عالم پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے بھی کہیں زیادہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ راہول گاندھی بھی سخت مقابلے کے بعد اپنی نشست بچاپائے نریندر مودی نے الیکشن کے دوران ہی اپنی ٹون کو ہندوتوا کے قریب کرنے کی بجائے اس سے کافی دوری پر رکھا اور ایسی فضا پیدا کی جس میں ہم نے یہ تجزئے خوب سنے کہ مودی اگر جیتے اور اقتدار کی کرسی پر پہنچے تو وزیر اعظم مودی چیف منسٹر گجرات والے مودی سے بالکل مختلف ہوگا نریندر مودی کے بارے میں اوپر کہی گئی بات اس وقت سچ ثابت ہوگئی جب 16 اشوک روڈ دھلی جہاں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر رہتے تھے سے 7-ریس کورس روڈ یعنی وزیراعظم ہاؤس منتقل ہوئے اور انھیں پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا مبارکباد کا فون آیا تو انھوں نے میاں نواز شریف کو اپنی تقریب حلف برادری کے لیے ہندوستان آنے کی دعوت دی جب میاں محمد نواز شریف کو راشٹر پتی بھون (ایوان صدر)میں نریندر مودی کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تو پاکستان میں وہ حلقے جو نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بارے میں انتہا پسندانہ خوف اور خدشات پھیلارہے تھے تو انھوں نے میاں محمد نواز شریف کی جانب سے نریندر مودی کو مبارک باد دینے اور دورہ ہندوستان کو قبول نہ کرنے پر زور دیا لیکن میاں نواز شریف نے جب دعوت قبول کرلی تو ان حلقوں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ میاں محمد نواز شریف بھارت خیر سگالی کے جذبے کی بجائے عقابی فطرت کے ساتھ وہاں جائیں اصل میں نریندر مودی کے ماضی کو ڈسکس کرنے والے اور نواز شریف کو عقابی ایجنڈا اپنانے پر زور دینے والے یہ بھول گئے کہ 1999ء میں بھی اور اب 2014ء میں پاکستان کے سنٹر رائٹ کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ نواز اور بھارت کی سنٹر رائٹ کی سب سے بڑی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان جو اعلان لاہور ہوا اور پھر مشرف کے زمانے میں جو آگرہ سمٹ ہوا تو اس کا سبب دونوں جماعتوں کا لبرل ازم یا سیکولر ازم سے پیار نہیں تھا بلکہ یہ دونوں اطراف کے کارپوریٹ سرمایہ داروں اور علاقائی و عالمی سرمایہ داری کی حرکیات کا دباؤ تھا جس نے دونوں اطراف کی سنٹر رائٹ پارٹیوں کے روائتی سیاسی موقف میں تبدیلی لانے پر مجبور کردیا تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان کارپوریٹ بزنس کے باہمی مفادات اور دونوں اطراف کے پروفیشنل مڈل کلاس کی ایک بہت بڑی تعداد کو ان مفادات کے پورے ہونے سے زبردست فوائد کا امکان ہے اور اس وقت میاں محمد نواز شریف کے حامی اور ساتھی کارپوریٹ سرمایہ دار ہیں ان کا بھی مفاد پاک-بھارت تجارتی تعلقات میں پنہاں ہے اور دونوں اطراف کی یہ کارپوریٹ بزنس لابیز یہ خیال رکھتی ہیں کہ پاکستان کو اپنے تنازعات پر بات چیت کرتے ہوئے ان کے حل سے تجارت کو مشروط نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تجارتی تعلقات کو بڑھاتے چلے جانا چاہئیے اور آزاد تجارت کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہئیے میاں محمد نواز شریف ہوں یا آصف علی زرداری یا اسفند یار ولی یا پھر الطاف حسین یہ سب کے سب بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے دو طرفہ تجارت اور دونوں اطراف کے لوگوں کو ملنے میں آسانیاں پیدا کرنے کے حق میں ہیں اور ان کی اپنے کارپوریٹ سرمایہ داروں سے ہمدردیوں میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن کارپوریٹ سرمایہ سے ہٹ کر اکر دیکھا جائے تو بھارت سے تعلقات کی مخالفت ایک جانب تو ایسے کاروباری پرتوں کی جانب سے ہورہی ہے جو امپورٹ کا بزنس دبئی یا دیگر ریاستوں سے کرتے ہیں اور اگر بھارت سے تجارت بالکل آزاد ہوئی تو بہت سی امپورٹ پھر انڈیا سے ہوگی اور اس امپورٹ بزنس پر دوسرے لوگ حاوی ہوسکتے ہیں اور ایسے مینوفیکچر بھی اس کے مخالف ہیں جن کی مینوفیکچرڈ اشیاء بھارتی اشیاء کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی اور اس میں بڑے بڑے زرعی فارموں کے مالکان بھی مخالفت میں شریک ہیں جن کے خیال میں بھارت سے اگر سبزیات و پھل کی آزاد تجارت شروع ہوئی تو پھر ان کے کروڑوں کے منافع جات لاکھوں میں رہ جائیں گے لیکن سردست پاکستان کے بگ کارپوریٹ بزنس سیکشنز کے زیر اثر میاں نواز شریف اور ان کی حکومت نظر آرہی ہے اور بھارت کے اندر بھی کارپوریٹ بزنس لابی پاکستان سے تجارت کے حق میں نظر آتی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات تواتر کے ساتھ آتے تھے جب سے نواز شریف اور مودی ملاقات ہوئی ہے تب سے وہ اس ملاقات کا دفاع کررہی ہے اور کانگریس پارٹی اس پر سخت تنقید کررہی ہے مودی سرکار کی جیت کا ایک مطلب اور بھی ہے جس کا بھارتی کارپوریٹ میڈیا نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے یا اس کو مناسب کوریج نہیں دی جارہی اور یہ مطلب اخذ کیا ہے کارپوریٹ سرمایہ داری کے مخالفوں نے جو سرمایہ دارانہ سامراجیت کے مخالف ہیں اور ان کو عرف ‏عام میں کمیونسٹ یا اشتراکی بھی کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ آج کل عالمی سرمایہ داری کی سامراجیت اور مارکیٹ اکنامی کے تباہ کن ماڈل کے خلاف سب سے توانا آوازیں وہ ہیں جو خود کو کمیونسٹ یا سرخا کہلانا پسند نہیں کرتیں اور زیادہ سے زیادہ خود کو اینٹی کیپٹلسٹ یا اینٹی کپٹلسٹ گلوبلائزیشن ایکٹوسٹ کہنا پسند کرتی ہیں ہندوستان میں کارپوریٹ سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل کے خلاف سب سے طاقتور آواز سوزانہ ارون دھتی رائے کی ہے اور مودی کی جیت کے خلاف انھوں نے جو تبصرہ کیا ہے وہ بہت کمال کا ہے اور میری نظر میں ان کے جملوں کی تخلیقی ،ادبی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے ارون دھتی رائے نے ایک مقامی انگریزی اخبار کے نمائندے کو مودی کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا “Bloodshed is inherent to this model of development. There are already thousands of people in jails,” she says. “But that is not enough any longer. The resistance has to be crushed and eradicated. Big money now needs the man who can walk the last mile. That is why big industry poured millions into Modi’s election campaign.” ارون دھتی رائے کہتی ہیں کہ خون ریزی سرمایہ داری کے ترقی کے اس ماڈل کے اندر پیوست ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سرمایہ داروں کا اس خون آشام ماڈل کا آحری سنگ میل عبور کرنے والے آدمی کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے کئی ملین روپے مودی کی الیکشن مہم میں جھونک ڈالے India’s demographic dynamics are such that even mundane projects, such as constructing a road, displace thousands of people, never mind large dams and massive mining projects. The country has a thriving civil society, labour unions and polity that channel this resistance. The resistance frustrates corporate ambitions. “They now want to militarise it and quell it through military means,” she says. Ms Roy thinks that the quelling “does not necessarily mean one has to massacre people, it can also be achieved by putting them under siege, starving them out, killing and putting those who are seen to be ‘leaders’ or’ ‘instigators’ into prison.” Also, the hyper Hindu-nationalist discourse which has been given popular affirmation will allow those resisting ‘development’ to be called anti-nationals. She narrates the example of destitute small farmers who had to abandon their old ways of subsistence and plug in to the market economy. ارون دھتی رائے کے یہ جملے آپ کو کارپوریٹ میڈیا کے کسی تجزیہ نگار کے ہاں نہیں ملیں گے اور کوئی آپ کو نہیں بتائے گا کہ کیسے کجرات میں مقامی دست کاری اور چھوٹی کاٹیج انڈسٹری کو ختم کرنے اور اس کی جگہ کارپوریٹ سرمایہ کاری کو لانے کے لیے نریندر مودی سرکار نے ہندؤ فاشزم کا سہارا لیا کیونکہ مقامی دست کاری صعنت اور کاٹیج انڈسٹری گجرات کے مسلمانوں کے پاس تھی اور کارپوریٹ سرمایہ کی نظر اسے ہڑپ کرکے اپنے منافعوں میں بے تحاشا اضافہ کرنا چاہتی تھی ،ارون دھتی رائے نے ٹھیک کہا کہ ہائپر ہندؤ نیشنلسٹ ڈسکورس خون آشام ترقی کی مزاحمت کرنے والوں کو اینٹی نیشنل قرار دینے کی اجازت دیتا ہے ارون کہتی ہے کہ سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل کی مزاحمت ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے عزائم اور مقاصد کے آڑے آتی ہے تو وہ اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے ایسی حکومت کی تمنا کرتے ہیں جو عسکری طاقت کے استعمال کے زریعے سے اس مزاحمت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور ارون کا خیال یہ ہے کہ مودی سرکار کے آنے کا یہی مطلب ہے ارون دھتی رائے اپنے تجزئے کا اختتام ان جملوں پر کرتی ہے “Now, we have a democratically elected totalitarian government,” she continues. “Technically and legally, there is no party with enough seats to constitute an opposition. But many of us have maintained for several years that there never was a real opposition. The two main parties agreed on most policies, and each had the skeleton of a mass pogrom against a minority community in its cupboard. So now, it’s all out in the open. The system lies exposed.” اب ہم ایک ایسی مطلق العنان حکومت رکھتے ہیں جو جمہوری طریقے سے منتخب ہوئی ہے -تکنیکی اور قانونی اعتبار سے کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے پاس اتنی نشستیں ہوں کہ وہ اپوزیشن پارٹی کہلائے لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ کئی سل پہلے سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں کئی سالوں سے کوئی حقیقی حزب اختلاف ہے ہی نہیں ،دونوں مرکزی جماعتیں اکثر پالیسیوں پر اتفاق رکھتی ہیں اور ہر ایک جماعت کے پاس کسی نہ کسی اقلیتی برادری کے خلاف ماس پروگرام کا ڈھانچہ اس کی الماری میں پڑا ہوا ہے اور اب یہ بات کھل چکی ہے اور پورا سسٹم بے نقاب ہوگیا ہے ویسے ارون دھتی رائے کی ہندوستان میں سیاست اور معشیت پر کی جانے والی تنقید اور اس حوالے سے اٹھائے جانے والے نکات کا کسقدر آسانی کے ساتھ پاکستان کی سیاست اور معشیت کے باہمی رشتوں اور پاکستان میں 2008ء کے بعد سے لیکر اب تک حقیقی اپوزیشن کے سوال سے جوڑا جاسکتا ہے پاکستان میں سابق حکومت اور نواز شریف کی موجودہ حکومت کی جانب سے معشیت کے میکرو اشاریوں کو بہتر کرنے کے دعوے کے جواب میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اس سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری کیوں نہیں آئی؟ میاں نواز شریف کی پاکستان میں حکومت کارپوریٹ کرونی کیپٹل ازم کی مطلق العنانیت کو قائم کرنے کے راستے کی طرف گامزن ہے اور یہ بھی سرمایہ دارنہ سامراجی ترقی کے ماڈل کی راہ میں آنے والی روکاوٹوں اور مزاحمت کو ریاست کی فوجی اور ہوائی طاقت کے زریعے سے ختم کرنے پر یقین رکھتی ہے اور پاکستان کے اندر ریاستی مشینری نے بلوچستان میں اس ترقی کے ماڈل کو مسترد کرنے والوں کے خلاف ملک دشمنی اور اینٹی نیشنل ہونے کا الزام لگاکر بربریت کے سارے ریکارڑ توڑے ہیں اور یہ سب بلوچ قوم کی قیمت پر کیا جارہا ہے میاں نواز شریف پاک -جین ٹریڈ کوریڈور ،انرجی میگا پروجیکٹ اور دیگر جتنے بھی ترقی کے ماڈل پیش کررہے ہیں وہ بگ کاررپوریٹ سرمایہ داری کو تو چند سالوں میں اربوں کمانے کا موقعہ فراہم کریں گے اور اس دوران پروفیشنل مڈل کلاس کی ایک چھوٹی سی پرت کو فائدہ پہنچے گا لیکن شہروں اور دیہاتوں میں بسنے والی اکثریتی غریب آبادی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جو اس ماڈل کی راہ میں آئے گا اسے انسداد دھشت گردی ایکٹ،پی پی او سمیت بہت سے ایسے قوانین کے تحت ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑے گا جو بظاہر دھشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائیں گے ہیں اور آپ کو ہزاروں لاکھوں لوگ جیلوں میں پڑے نظرآئیں گے ترقی کا ایسا ماڈل جو لاکھوں لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرے ،ان کی زمینوں کو چھین لے اور دیکھتے ہی دیکھے ہزاروں چھوٹے موٹے کاروبار اور صنعتوں کو تباہ کرکے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردے تب اگر اس گے خلاف کوئی مزاحمت کرے اور ان میں سے کوئی اپنی زمین پر ڈیموگرافگ تبدیلیوں اور ایکولوجیکل تبدیلیوں کے خلاف آواز اٹھائے تو ان کو دھشت گرد قرار دے دیا جائے اور مزاحمت کرنے والوں کی لاشیں ویرانوں میں ملیں کراچی پریس کلب کے باہر بی ایس او آزاد کے جوہر لطیف کی بھوک ہڑتال کو اسی لیے نظر انداز کیا جارہا ہے کہ معاملہ صرف بی ایس او کے جئیرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کا نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ بی ایس او آزاد جیسی تنظیموں کی طرف سے بلوچستان میں کارپوریٹ ترقی کے جدید نوآبادیاتی ماڈل کی مخالفت اور مزاحمت ہے اور ان کی طرف سے کارپوریٹ سرمایہ داری کی غلامی سے آزادی کے مطالبے کے سامنے آنا ہے ،اسی لیے ملٹری آپریشن ،فضائیہ کا استعمال اور بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرنے ،پھر ان کو اذیت دیکر ان کی مارنا اور ان کی لاشوں کو ویرانے میں پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے ،یہ سب کارپوریٹ بزنس کی ہوس کا نتیجہ ہے جسے حب الوطنی کی آڑ میں سرانجام دیا جارہا ہے

Sunday, May 18, 2014

کھوتی بوہڑ تھلے


پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے دو طاقت ور دھڑوں کے درمیان اختیارات کی لڑائی میں ایک پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کے ایک دو ٹی وی چینلز اور اخبارات کو چھوڑ کر باقی سب کے سب ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس کے اتحادی مذھبی فسطائیوں کا ڈسکورس چھاگیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ یہ غلبہ فطری پروسس اور غیر جاندارانہ کھلی مسابقت کے زریعے نہیں ہوا بلکہ کرایا گیا ہے مثال کے طور پر آپ کو پاکستان کے جیو نیوز کو چھوڑ کر باقی سب اردو نیوز ٹی وی چینلز پر بھارت دشمنی اور ہندوستان کے صرف عقابی ،ہندو فاشسٹ چہرے کی رونمائی کے سوا اور کوئی چہرہ نظر نہیں آئے گا اس یک رخی چہرے کو لیکر نریندر مودی کی ہندوستان میں جیت پر پاکستان کے اردو ٹی وی چینلز پر جتنے ٹاک شوز ہوئے سب میں بھارت کی توسیع پسندی اور جارحیت کا ڈھول پیٹا گیا اور ایسے تجزیہ نگار اور سیاست دانوں کو دعوت دی گئی جن کو عرف عام میں پاکستانی عقاب کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اوریا جان مقبول،فرید پراچہ،حمید گل،ریٹائرڈ میجر جنرل ظفراللہ خان نیازی سمیت کئی سابق عہدے داران آئی ایس آئی و آئی بی و ایم آئی کی گویا لاٹری کھل گئی اور سنجی گلیوں مین بس یہی مرزا بنے پھرتے ہین یہ سب وہ ہیں جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جہادی پراکسیز کا حصّہ ہیں اور اسی کے بل بوتے پر اپنے فرمائے ہوئے کو مستند خیال کرتے ہیں ایک اور تبدیلی یہ آئی ہے کہ پاکستانی نیوز چینل کے نمبرز کی کیبل پر ترتیب بھی بدل گئی ہے ایکسپریس نیوز ،اے آر وائی اور دنیا نیوز تو ابتدائی نمبرز پر آئے ہی ہیں لیکن چینل فائیو ،میٹرو اور ڈان نیوز کی تقدیر بھی بدل گئی ہے جیو نیوز تو اکثر کیبل آپریٹرز نے بند کردیا ہے جبکہ جنھوں نے اسے بند نہیں کیا انھوں نے ایسے ایسے نمبر پر رکھا ہے جہاں آواز آئے تو تصویر غائب اور تصویر آئے تو آواز غائب ہوجاتی ہے جنگ،نیوز انٹر نیشنل اور روزنامہ ڈان کو چھوڑ کر باقی کے تمام انگریزی اور اردو اخبارات میں خبریں،تجزئے اور ادارئے و کالم سب کے سب ایک بڑی پروپیگنڈا وار چلاتے نظر آتے ہیں اور سازشی مفروضوں کا دور دورہ ہے اور ان کو پڑھ کر ایسے لگتا ہے جیسے ساری دنیا فوج اور آئی ایس آئی کو گرانا چاہتی ہے اور یہ گرانے کی کوشش اس لیے ہے کہ اس کے بعد پاکستان کو گرانا آسان ہوجائے گا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مین سٹریم دھارے کے ناظرین اور قارئین کے سامنے ایک ہی تصویر اور ایک ہی رخ موجود ہے جس سے ہٹ کر ان کو کسی اور رخ کو دیکھنے کی جو آزادی حاصل تھی وہ ان سے سلب کرلی گئی ہے کیبل آپریٹرز نے ایسے چینلز کو اپنی ترجیح بنالیا ہے جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق مواد پیش کررہے ہیں سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ابھی تک ملٹری اسٹبلشمنٹ کو اپنے پاؤں ٹھیک طرح سے جمانے کا موقعہ نہیں ملا ہے لیکن کسی کو خوش فہمی میں مبتلاء نہیں رہنا چاہئیے ،میری اطلاع کے مطابق آئی ایس آئی کا سائبر ونگ اور آئی ایس پی ار ایک طرف تو ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنے آفیشل اکاؤنٹس بڑے تزک و احتشام سے بناکر پروپیگنڈا وار مین کود پڑا ہے تو دوسری طرف اس کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے ایک بہت منطم اور پوری طرح سے مسلح سوشل میڈیا ونگ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اس ونگ کا ڈھانچہ اوپر سے نیچے گاؤں کی سطح تک لانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جبکہ اس دوران ٹوئٹر پر اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان،پاکستان علماء کونسل وغیرہ کی قیادت کو بھی متحرک کیا گیا ہے آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے ہم بستر صحافیوں کی ایک پوری لاٹ اپنے فیس بک اور ٹوئٹر پر آفیشل پیجز کے ساتھ ابھری ہے اور ان پر ہونے والی پوسٹس ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے عزائم کیا ہیں اس لیے میرا اندازہ یہ ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ سوشل میڈیا پر اپنے کنٹرول کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور اس کنٹرول کا ایک جزو یہ ہے کہ اپنے سخت ترین ناقدین کے خلاف جب بھی موقعہ ملے مذھبی توھین یا گستاخی کا الزام لگاکر حساب چکتا کرلیا جائے ویسے یہ جو نئی تبدیلی ہم الکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں دیکھ رہے ہیں اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تازہ معرکے میں ملٹری اسٹبلشمنٹ اپنے فیک لبرلز اور ماڈریٹس کو لیکر میدان میں نہیں کودی جی ہاں ملیحہ لودھی،نجم سیٹھی،شریں رحمان،اعجاز حیدر ،رضا رومی یہ سب کے سب لگتا ہے تازہ میدان جنگ میں کارآمد گھوڑے ثابت نہ ہوئے اور ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ضیاء الحق کے دستر خوان سے فیض یاب ہونے والے خاص طور پر اردو میڈیم کے جہادی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی افادیت اور اہمیت کا پھر سے اندازہ ہوچلا ہے تبھی تو نئے پرانے ضیاءالحقیوں کی ایک لائن ہے جو ختم ہونے کو نہیں آرہی ہے،ویسے کسی نے کہا تھا کہ کھوتی بوہڑ تھلے ہی آتی ہے چاہے جہاں مرضی پھر لے

Saturday, May 17, 2014

سعودی-ایران بیک ڈور چینل------------کئی پیدل سپاہیوں کے باب تاریک ہونے والے ہیں


سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے اپنے ہم منصب ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی باضابطہ دعوت دی ہے سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے یہ دعوت پہلے عرب کوآپریشن اینڈ اکنامک ریلشن فورم ود سنٹرل ایشاء اینڈ آزربائیجان کے اجلاس سے خطاب کے دوران دی میں نے جب یہ خبر پڑھی تو مجھے یاد آیا کہ 6 اپریل 2014ء میں بیروت سے شایع ہونے والے اخبار الاکبر کے آن لائن انگریزی ایڈیشن میں ایک خبر پڑھی تھی جس میں اخبار نے دعوی کیا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پردے کے پیچھے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور سعودیہ عرب و ایران کے درمیان لبنان میں مستقبل کے حکومتی ڈھانچے بارے اتفاق رائے ہوگیا ہے جبکہ شام پر ابھی تک کوئی معاہدہ تو نہیں ہوا لیکن اس پر آہستہ آہستہ بات آگے بڑھ رہی ہے اسی بیروت سے شایع ہونے والے اخبار نے پہلے یہ خبر بھی دی تھی کہ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے سعودیہ عرب سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ایک فریم ورک کی تیاری شروع کی تھی اور اس پر حتمی کام موجودہ حکومت نے شروع کیا اور اس کی منظوری سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے لی گئی تھی آن لائن اخبار مانیٹر میں ایک تجزیہ نگار نے بھی بیک ڈور چینل سے سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے شروع ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ اسی آن لائن اخبار نے لکھا ہے کہ سعودیہ عرب اور ایران کو بیک ڈور چینل پر سب سے زیادہ آمادہ کرنے میں یورپ اور امریکہ نے کردار ادا کیا ہے جبکہ اس میں پاکستان کی سابق حکومت اور موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی بیک ڈور کوششوں کا ہاتھ بھی بتایا جارہا ہے لیکن اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ عراق،یمن،بحرین میں اس وقت جو صورت حال ہے اس نے سعودیہ عرب کو ایران سے اپنی سرد جنگ کی شدت میں کمی لانے پر مجبور کیا ہے کیونکہ ایک طرف تو عراق میں اس وقت جو شیعہ اور تکفیری وہابی-دیوبندی تضاد نے جو صورت اختیار کی اور یمن میں جس طرح سے تکفیری سلفی اور اخوان المسلمون میں اتحاد ہوا اور عین سعودیہ عرب کے دروازے پر آل سعود کے مخالفین کی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے تو اس نے سعودیہ عرب کو دفاعی پوزیشن پر لیکر آیا ہے اور وہ ایران سے مذاکرات پر آمادہ نظر آرہا ہے لیکن کیا اس سے سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان جاری سرد جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا؟ اس سوال کا ایک جواب تو حسن نصراللہ نے دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کی جانب سے لبنان کے حوالے سے جو اتفاق رائے ہوا ہے اس پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن سعودیہ عرب جب تک بحرین،عراق،شام میں اپنی مداخلت ختم نہیں کرے گا اور اپنی دھشت گرد پراکسیز کو ترک نہیں کرے گا تو خطے میں امن کا قیام ناممکن ہوگا حزب اللہ کے سپریم کماںڈر حسن نصراللہ نے یہ بات ایک عربی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ویسے بھی سعودیہ عرب کے لیے یہ ناممکن بات ہے کہ وہ گلف ریاستوں میں کسی بھی طرح کی جمہوریت بحالی اور بادشاہت کے خاتمے کی تحریکوں کو جگہ دے اور خاص طور پر بحرین میں جاری جمہوریت کے قیام کی تحریک کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرلے مانیٹر نے یہ دعوی کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے مرحلے پر حکومتی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے اور میڈیا مین جاری جنگ کو لو پروفائل کیا جائے اور اس کا اندازہ ایرانی اور سعودی نواز میڈیا گروپس پر ہونے والی رپورٹنگ ،فیچررز ،مضامین پڑھ کر بھی کیا جاسکتا ہے میرے خیال میں سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان یہ جو بیک ڈور چینل رابطے اور آپس کی سرد جنگ کی شدت میں کمی لانے کی وجہ کوئی جذبہ خیر خواہی نہيں ہے بلکہ خود سعودی عرب کے شاہی خاندان کے اقتدار کو لاحق خطرات اور عالمی سطح پر تنہائی کا خطرہ ہے سعودی بادشاہ عبداللہ نے پہلی مرتبہ اپنے نائب ولی عہد کا عہدہ نامزد کرنے کی بجائے ایک کمیشن کے حوالے کردیا ہے اور صدیری خاندان کے غلبے سے بچنے کے لیے کئی اہم تبدیلیاں کیں ہیں اور امریکہ و یورپ سے تعلقات میں بہتری کے لیے سعودی انٹیلی جنس چیف سمیت بہت سے عہدے دار تبدیل کردئے گئے ہیں اور خاص طور پر ایسے عہدے دار جن کے تکفیری سلفی دھشت گردوں سے تعلقات تھے اور وہ ان سے نرم رویہ رکھتے تھے اور یہ صرف سعودی عرب میں نہیں ہوا بلکہ کویت کے وزیر مذھبی امور کو بھی شام میں تکفیری دھشت گردوں سے رابطوں کی وجہ سے ہٹا دیا گیا اور اس ميں بھی اہم کردار سعودیہ عرب کا تھا جس نے امریکہ کی خواہش پر یہ کیا ہے سعودیہ عرب نے ایران -جی پلس فائیو کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے ایشو پر مذاکرات اور شام پر حملے سے امریکی دست برداری پر پہلے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور اس نے سولو فلائٹ کی کوشش کی تھی لیکن آل سعود کو القائدہ سمیت تکفیری دھشت گردوں اور اخوان المسلمون کی بڑھتی ہوئی قوت اور اس سے لاحق بادشاہت کو خطرات اور سعودیہ عرب کی دنیا میں بڑھتی تنہائی نے اس جارحیت کو بریک لگادی اور اب سعودی عرب اپنی جارحانہ روش کی شدت میں تبدیلی لانے کی کوشش کررہا ہے یہ کوشش خوش آئیند ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بتلانے کے لیے بھی کافی ہے کہ آل سعود سمیت عرب بادشاہوں کو اپنے اقتدار کس قدر عزیز ہیں اور وہ تکفیری سلفی -دیوبندی نیٹ ورکس کو اپنے اقتدار اور غلبے کو باقی رکھنے کے لیے پیدل سپاہیوں کے طور پر استعمال کررہی ہے اس کا ایک چھوٹا سا اظہار پنجاب کے اندر دیکھا جاسکتا ہے جہاں دیوبندی دھشت گرد تنظیم میں ملک اسحاق نیٹ ورک کو بہت تیزی ٹریس کرکے گرفتار کیا جارہا ہےاور حال ہی میں لاہور،گجرات اور جہلم میں اس نیٹ ورک کے اہم دھشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس کارکردگی میں سعودی عرب کی تکفیری سلفیوں کے خلاف مہم کا عمل دخل ہے جب بھی دو ملکوں کے درمیان ملیٹنٹ پراکسی ختم یا اس کو بریک لگتی ہے تو اس میں بہت سے پیدل سپاہیوں کا باب بھی تاریک ہوجاتا ہے اور آنے والے دن ایسے کئی پیدل سپاہیوں کے باب تاریک کریں گے اور بہت سے پیدل سپاہی اپنے ہی آقاؤں کے خلاف سرگرم ہوجائیں گے http://english.al-akhbar.com/content/rafsanjani-urges-better-iran-saudi-ties http://www.al-monitor.com/pulse/originals/2014/05/saudi-arabia-iran-region-deescalation. htmhttp://english.al-akhbar.com/node/19350l#

سعودیہ عرب-ایران بیک ڈور چینل------کئی پیدل سپاہیوں کے باب تاریک ہونے والے ہیں


سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے اپنے ہم منصب ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی باضابطہ دعوت دی ہے سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے یہ دعوت پہلے عرب کوآپریشن اینڈ اکنامک ریلشن فورم ود سنٹرل ایشاء اینڈ آزربائیجان کے اجلاس سے خطاب کے دوران دی میں نے جب یہ خبر پڑھی تو مجھے یاد آیا کہ 6 اپریل 2014ء میں بیروت سے شایع ہونے والے اخبار الاکبر کے آن لائن انگریزی ایڈیشن میں ایک خبر پڑھی تھی جس میں اخبار نے دعوی کیا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پردے کے پیچھے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور سعودیہ عرب و ایران کے درمیان لبنان میں مستقبل کے حکومتی ڈھانچے بارے اتفاق رائے ہوگیا ہے جبکہ شام پر ابھی تک کوئی معاہدہ تو نہیں ہوا لیکن اس پر آہستہ آہستہ بات آگے بڑھ رہی ہے اسی بیروت سے شایع ہونے والے اخبار نے پہلے یہ خبر بھی دی تھی کہ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے سعودیہ عرب سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ایک فریم ورک کی تیاری شروع کی تھی اور اس پر حتمی کام موجودہ حکومت نے شروع کیا اور اس کی منظوری سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے لی گئی تھی آن لائن اخبار مانیٹر میں ایک تجزیہ نگار نے بھی بیک ڈور چینل سے سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے شروع ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ اسی آن لائن اخبار نے لکھا ہے کہ سعودیہ عرب اور ایران کو بیک ڈور چینل پر سب سے زیادہ آمادہ کرنے میں یورپ اور امریکہ نے کردار ادا کیا ہے جبکہ اس میں پاکستان کی سابق حکومت اور موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی بیک ڈور کوششوں کا ہاتھ بھی بتایا جارہا ہے لیکن اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ عراق،یمن،بحرین میں اس وقت جو صورت حال ہے اس نے سعودیہ عرب کو ایران سے اپنی سرد جنگ کی شدت میں کمی لانے پر مجبور کیا ہے کیونکہ ایک طرف تو عراق میں اس وقت جو شیعہ اور تکفیری وہابی-دیوبندی تضاد نے جو صورت اختیار کی اور یمن میں جس طرح سے تکفیری سلفی اور اخوان المسلمون میں اتحاد ہوا اور عین سعودیہ عرب کے دروازے پر آل سعود کے مخالفین کی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے تو اس نے سعودیہ عرب کو دفاعی پوزیشن پر لیکر آیا ہے اور وہ ایران سے مذاکرات پر آمادہ نظر آرہا ہے لیکن کیا اس سے سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان جاری سرد جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا؟ اس سوال کا ایک جواب تو حسن نصراللہ نے دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کی جانب سے لبنان کے حوالے سے جو اتفاق رائے ہوا ہے اس پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن سعودیہ عرب جب تک بحرین،عراق،شام میں اپنی مداخلت ختم نہیں کرے گا اور اپنی دھشت گرد پراکسیز کو ترک نہیں کرے گا تو خطے میں امن کا قیام ناممکن ہوگا حزب اللہ کے سپریم کماںڈر حسن نصراللہ نے یہ بات ایک عربی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ویسے بھی سعودیہ عرب کے لیے یہ ناممکن بات ہے کہ وہ گلف ریاستوں میں کسی بھی طرح کی جمہوریت بحالی اور بادشاہت کے خاتمے کی تحریکوں کو جگہ دے اور خاص طور پر بحرین میں جاری جمہوریت کے قیام کی تحریک کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرلے مانیٹر نے یہ دعوی کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے مرحلے پر حکومتی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے اور میڈیا مین جاری جنگ کو لو پروفائل کیا جائے اور اس کا اندازہ ایرانی اور سعودی نواز میڈیا گروپس پر ہونے والی رپورٹنگ ،فیچررز ،مضامین پڑھ کر بھی کیا جاسکتا ہے میرے خیال میں سعودیہ عرب اور ایران کے درمیان یہ جو بیک ڈور چینل رابطے اور آپس کی سرد جنگ کی شدت میں کمی لانے کی وجہ کوئی جذبہ خیر خواہی نہيں ہے بلکہ خود سعودی عرب کے شاہی خاندان کے اقتدار کو لاحق خطرات اور عالمی سطح پر تنہائی کا خطرہ ہے سعودی بادشاہ عبداللہ نے پہلی مرتبہ اپنے نائب ولی عہد کا عہدہ نامزد کرنے کی بجائے ایک کمیشن کے حوالے کردیا ہے اور صدیری خاندان کے غلبے سے بچنے کے لیے کئی اہم تبدیلیاں کیں ہیں اور امریکہ و یورپ سے تعلقات میں بہتری کے لیے سعودی انٹیلی جنس چیف سمیت بہت سے عہدے دار تبدیل کردئے گئے ہیں اور خاص طور پر ایسے عہدے دار جن کے تکفیری سلفی دھشت گردوں سے تعلقات تھے اور وہ ان سے نرم رویہ رکھتے تھے اور یہ صرف سعودی عرب میں نہیں ہوا بلکہ کویت کے وزیر مذھبی امور کو بھی شام میں تکفیری دھشت گردوں سے رابطوں کی وجہ سے ہٹا دیا گیا اور اس ميں بھی اہم کردار سعودیہ عرب کا تھا جس نے امریکہ کی خواہش پر یہ کیا ہے سعودیہ عرب نے ایران -جی پلس فائیو کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے ایشو پر مذاکرات اور شام پر حملے سے امریکی دست برداری پر پہلے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور اس نے سولو فلائٹ کی کوشش کی تھی لیکن آل سعود کو القائدہ سمیت تکفیری دھشت گردوں اور اخوان المسلمون کی بڑھتی ہوئی قوت اور اس سے لاحق بادشاہت کو خطرات اور سعودیہ عرب کی دنیا میں بڑھتی تنہائی نے اس جارحیت کو بریک لگادی اور اب سعودی عرب اپنی جارحانہ روش کی شدت میں تبدیلی لانے کی کوشش کررہا ہے یہ کوشش خوش آئیند ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بتلانے کے لیے بھی کافی ہے کہ آل سعود سمیت عرب بادشاہوں کو اپنے اقتدار کس قدر عزیز ہیں اور وہ تکفیری سلفی -دیوبندی نیٹ ورکس کو اپنے اقتدار اور غلبے کو باقی رکھنے کے لیے پیدل سپاہیوں کے طور پر استعمال کررہی ہے اس کا ایک چھوٹا سا اظہار پنجاب کے اندر دیکھا جاسکتا ہے جہاں دیوبندی دھشت گرد تنظیم میں ملک اسحاق نیٹ ورک کو بہت تیزی ٹریس کرکے گرفتار کیا جارہا ہےاور حال ہی میں لاہور،گجرات اور جہلم میں اس نیٹ ورک کے اہم دھشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس کارکردگی میں سعودی عرب کی تکفیری سلفیوں کے خلاف مہم کا عمل دخل ہے جب بھی دو ملکوں کے درمیان ملیٹنٹ پراکسی ختم یا اس کو بریک لگتی ہے تو اس میں بہت سے پیدل سپاہیوں کا باب بھی تاریک ہوجاتا ہے اور آنے والے دن ایسے کئی پیدل سپاہیوں کے باب تاریک کریں گے اور بہت سے پیدل سپاہی اپنے ہی آقاؤں کے خلاف سرگرم ہوجائیں گے http://english.al-akhbar.com/node/19350 http://www.al-monitor.com/pulse/originals/2014/05/saudi-arabia-iran-region-deescalation.html# http://english.al-akhbar.com/content/rafsanjani-urges-better-iran-saudi-ties

دھشت گردوں کا کھرا کہاں جاتا ہے؟


انگریزی روزنامہ ڈان،نیشن،دی نیوز انٹرنیشنل اور ڈان اردو نے خبر دی ہے کہ لاہور سی آئی اے پولیس نے آٹھ مبینہ دھشت گردوں کو صحافیوں کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ ان دھشت گردوں کا تعلق ٹی ٹی پی اور لشکن جھنگوی سے ہے یہ آٹھ دھشت گرد لاہور کے علاقوں کے رہنے والے ہیں جن میں ایک ٹریفک وارڈن اعظم بھی شامل ہے جس کی نشاندھی پر باقی سات دھشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ڈان اردو ویب سائٹ کے مطابق ٹریفک وارڈن اعظم جو ایک ماہ قبل سے لاہور سی آئی اے پولیس کی حراست میں تھا ہی کی نشاندھی پر سی آئی اے پولیس لاہور نے ڈاکٹر حیدر علی اور ان کے 12 سالہ بیٹے سمیت لاہور میں کئی اہم شیعہ ڈاکٹر،تاجر اور وکلاء کو قتل کرنے والے گروہ کو گرفتار کیا گیا تھا جس کا سرغنہ اشفاق گجر تھا اور ان آٹھ دھشت گردوں کا تعلق بھی اسی نیٹ ورک سے بتایا جارہا ہے اس نیٹ ورک کا سرغنہ شفیق شاہ جوکہ بند روڈ لاہور کا رہائشی ہے نے 1992ء میں سپاہ صحابہ پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور وہ بتدریخ سپاہ صحابہ پاکستان کا اہم اور سرگرم کارکن بن گیا اور پھر اس کی ملاقات ملک اسحاق سے ہوئی اور یہ شفیق شاہ سپاہ صحابہ پاکستان کے عسکری چہرے لشکر جھنگوی کا حصّہ بن گیا اور یہ بہت سی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھا اسی نیٹ ورک میں قاری آصف ہے جو کہ گلشن راوی لاہور کا رہائشی اور دیوبندی مدرسہ قاسمیہ رحمانیہ کا مدرس ہے اور یہ ان دھشت گردوں کو پناہ دیا کرتا تھا اس سے قبل جب اشفاق گجر نیٹ ورک کو پکڑا گیا تو اس میں بھی ایک دیوبندی مدرسے کا طالب علم بھی گرفتار ہوا اب تک شیعہ نسل کشی،اہل سنت بریلوی کے علماء کے قتل،امام بارگاہوں و مساجد پر حملے ،احمدیوں،ہندؤں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں اور کالونیوں پر حملے کے زمہ دار جو گرفتار ہوئے ان کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے ہے اور اکثر منصوبوں میں کسی دیوبندی مدرسے اور مسجد کا نام آتا رہا ہے کیا یہ بات وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان اور جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری کے باعث تشویش نہیں ہونی چاہئیے کہ ان کے ساتھ الحاق رکھنے والے مدارس اور مساجد کے ساتھ دھشت گردوں کے رابطے اور تعلق پے درپے ثابت ہوتے چلے جارہے ہیں خود مولانا سلیم اللہ خان کا مدرسہ جامعہ فاروقیہ وہ مدرسہ ہے جہاں پر ایس پی چودھری اسلم کے اوپر خود کش حملہ آور نے رات بسر کی اور اس کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتیں اور حملے کی منصوبہ بندی بھی یہیں سے کی جاتی رہی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتل اکوڑہ خٹک میں جامعہ حقانیہ میں ٹھہرے اور وہیں پر منصوبہ بندی ہوئی ڈاکٹر سرفراز نعیمی جوکہ معروف سنّی بریلوی عالم دین تھے پر خود کش بم دھماکہ کرنے والا بھکر میں دیوبندی مدرسہ کا طالب علم تھا حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حملے میں لاہور کے ایک دیوبندی مدرسے سے تعلق رکھنے والے لوگ ملوث تھے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وفاق المدارس کی قیادت عدل وانصاف سے بہت دور جاپڑی ہے اور وہ بجائے اپنے مدارس کے اندر تکفیری دھشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے اور ان مدرسوں کے خلاف راست اقدام اٹھانے کے جو دھشت گردی میں لوث ہیں ان کو بچانے میں زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں وفاق المدارس کا موقف ہے کہ ان سے منسلک دیوبندی مدارس دین کی تعلیم دیتے ہیں اور امن و سلامتی کی بات یہاں کی جاتی ہے اور دھشت گردی کا ان مدارس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ حال ہی میں جب تحفظ مدارس دینیہ کنونشن کے نام سے ملتان،لاہور،کراچی،پشاور،کوئٹہ وغیرہ میں وفاق المدارس کے جھنڈے تلے بڑے بڑے جلسے کئے گئے تو ان جلسوں میں دھشت گرد تکفیری جماعت اہل سنت والجماعت جوکہ سپاہ صحابہ پاکستان کا دوسرا نام ہے اپنی پوری قیادت اور طاقت کے ساتھ شریک ہوئی اور اس تکفیری دھشت گرد جماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کو مولانا سلیم اللہ خان،قاری حنیف جالندھری سمیت ہر دیوبندی عالم نے پروٹوکول دیا اسی جماعت کے اور انتہا پسند،تکفیری سوچ رکھنے والے دھشت گردوں کو جن میں اورنگ زیب فاروقی بھی شامل ہے ملک کے سب سے بڑے دیوبندی مدرسوں جن میں جامعہ بنوریہ،دارالعلوم کراچی،دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک،جامعہ اشرفیہ لاہور،جامعہ خیرالمدارس ملتان وغیرھم شامل ہیں کو پروٹوکول ملتا ہے اور ان کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے وفاق المدارس جو دیوبندی مدارس کی نمائندہ تنظیم ہے اور اس تنظیم نے ہمیشہ سے تحریک طالبان پاکستان و افغانستان کی دھشت گردی اور ان کی تکفیری آئیڈیالوجی کو حمائت دی ہے اور اگر کبھی دباؤ کا سامنا کونا پڑا تو یہ کہہ دیا جات ہے کہ ان کی دھشت گردی ردعمل ہے امریکی حملے کا دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء کی یہ جانبدارانہ روش ہے جس نے اس ملک میں رہنے والے ہر آدمی کو تشویش میں مبتلاکررکھا ہے جب بھی دیوبندی دھشت گردوں کی کور تنظیموں پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی تو یہ وفاق المدارس ہی تھا جو آگے آیا اور اس کے پلیٹ فارم سے اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے حامیوں کا دفاع کرتا رہا سچی بات ہے کہ میں آغاز کار میں یہ خیال کرتا تھا کہ مولانا سلیم اللہ خان،مفتی تقی عثمانی ،مفتی رفیع عثمانی ،زاہد الراشدی اور دیگر علمائے دیوبند اپنی صفوں سے تکفیری،دھشت گرد،انتہا پسندوں کو نکال باہر کریں گے اور اپنے مدارس میں ٹی ٹی پی،لشکر جھنگوی،جیش محمد ،اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق،رکنیت رکھنے والے لوگوں کو بین کرے اور پابندی لگائے کہ ایسے لوگوں کو نہ تو وفاق المدارس کے کسی بھی مدرسے میں نوکری یا داخلہ ملے گا لیکن ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا بلکہ جید علمائے دیوبند نے محمد احمد لدھیانوی ،اورنگ زیب فاروقی اور ملک اسحاق کو اپنا بیٹا کہا اور ان جیسے دھشت گردوں کو علمائے دیوبند کو دیوبند مسلک کا سپاہ سالار،جرنیل بناتے ہوئے دیکھا تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر مجموعی طور پر شیعہ ،سنّی بریلوی اور غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف جو دھشت گرد اور انتہا پسند لہر اٹھی ہوئی ہے اس کے جواز کا خیال لاشعور میں کہیں جاگزیں ہے اور اسے جہاد خیال کیا جارہا ہے میرے بہت سے دیوبندی دوست ہیں جو بہت اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ان میں مفتی صاحبان ہیں لیکن جب کبھی میں نے ان سے کہا کہ وہ اگر سپاہ صحابہ پاکستان،ٹی ٹی پی ،جیش محمد سمیت دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کے افعال و اقدام کو غیر شرعی ،غیر اسلامی خیال کرتے ہیں تو پھر جامعہ بنوریہ،دارالعلوم کراچی سے ہی ان کے خلاف فتوی لے آئیں تو وہ کہتے ہیں کہ نام لیکر ان کے خلاف فتوی لانا مشکل ہے اب اگر صورت حال یہ ہو تو پھر جب کبھی میں دیوبندی دھشت گرد مشین اور دیوبندی دھشت گرد تنظیموں جیسی اصطلاح استعمال کرتا ہوں تو میرے بہت سے دیوبندی دوست اس پر مجھے فرقہ پرستی کا طعنہ دیتے ہیں لیکن یہ دوست دیوبندی علماء کو یہ نہیں کہتے وہ اپنے جانبدارانہ روئے ختم کریں اور عدل و انصاف سے کام لیں اور جو لوگ پاکستان میں شیعہ کی نسل کشی میں ملوث ہیں ان سے بالکل خود کو الگ کریں کیونکہ ان کا کور ہی ہے جس سے یہ قاتلان و ظالمان اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہیں http://www.dawn.com/news/1106857/terror-network-having-ttp-link-busted

Friday, May 16, 2014

سلگ اور مذھبی فسطائیت


ابھی کچھ دن ہوئے جب میں نے ایک فلم دیکھی ہیمنگوئے اور گیل ہارن ،یہ فلم ایک ایسے پریمی جوڑے کی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران رونماء ہونے والے واقعات کی براہ راست رپورٹنگ کرتا ہے اور پھر اس دوران لوگوں کے فسطائیت کو شکست دینے کے مناظر اور واقعات کو دنیا بھر کے لوگوں تک پہنچاتا ہے گیل ہارن کا کردار اس میں بہت اہم ہے اور خاص طور پر وہ ایک مقام پر ایک جملہ کہتی ہے کہ اگر آپ کھڑے ہوسکتے ہوں تو آپ لڑبھی سکتے ہیں اور بچ بھی سکتے ہیں فاشزم کس قدر خوفناک چیلنچ تھا پوری دنیا کے لیے اس کا اندازہ اس زمانے کے خوالے سے بنی فلموں،لکھے گئے ناولوں اور رپورتاژ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر کے شاعروں،ادیبوں،دانشوروں نے انٹلیکیچوئل سطح پر جاکر اس فاشزم کا مقابلہ کیا اور اسے شکست فاش سے دوچار کیا لیکن ایک بات ہے کہ فاشزم سے جںگ کے دوران پوری دنیا میں جو تباہی پھیلی اس نے انسانیت کے ترقی کے خواب کو بہت دھچکا لگایا اور اس دوران لایعنیت اور انسان کی عظمت کی نفی کے خیالات نے جڑ پکڑنا شروع کردی اور بہت مایوسی پھیلی اس مایوسی کے خلاف کھڑے ہونے،پھر سے جی اٹھنے اور پھر سے ایک نئی دنیا اباد کرنے کا خواب دانشوروں میں روشن گر دانشوروں نے دلانا شروع کیا آج ہمارے سماج کو کچھ ایسی ہی فسطائیت کا سامنا ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو ساری عمر فاشزم کے خلاف نبرد آزما رہے اور عوام کی سیکولر ،لبرل توانائی کو باقی رکھنے کے لیے کوشاں رہے وہ بھی فاشزم کے آگے علم سرنگوں کرنے کی بات کرتے نظر آتے ہیں فاشزم کسی بھی رنگ میں چاہے نسلی ،چاہے مذھبی وہ یک نوعی ہونے ،مونولتھک ہونے اور تنوع کا انکار کرنے کی کوشش پر مبنی ہوا کرتا ہے اور اس سے معاشرے میں حبس اور گھٹن میں اضافہ ناگزیر ہوا کرتا ہے اور اس میں کچھ گروہ زندہ درگور کردئے جاتے ہیں اور ان کو ایلین ،خارجی،دوجا،غیر قرار دیا جاتا ہے اور جب فاشزم اپنے عروج پر ہوتا ہے تو ایسے وقت میں پورا معاشرہ ایک قسم کی سرسامی حالت میں ہوتا ہے اور فاشسٹ نام نہاد اہل علم ہی قوم کے رہبر بن جاتے ہیں اور اس سے ہٹ کو جو بھی عقل اور دانش کی بات کرتا ہے تو اسے فوری طور پر پاگل قرار دے دیا جاتا ہے اور اسے پاگل خانے بھیج دیا جاتا ہے میں نے حال ہی میں ن -م -دانش کا ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانہ جو سعادت حسن منٹو کا مشہور و معروف افسانہ کی تعبیر پر لکھا ہوا ایک مضمون پڑھا جس میں انھوں نے پورٹر رائے کی پاگل پن کے بارے میں رائے درج کرتے ہوئے لکھا کہ جب سماج کی اکثریت کسی جنون کے زیر اثر عقل و دانش کے استعمال کو ہی جرم قرار دے دیتی ہے اور ایسے کسی بھی فرد کو ایلین قرار دیکر سماج سے خارج کردیا جاتا ہے اور بنتھیلیم اپنے ایک ڈرامے کے کردار سے یہ بات کہلواتا ہےکہ "وہ سب مجھے پاگل قرار دیتے ہیں اور میں ان کو،وہ زیادہ تھے تو انھوں نے مجھے ہرادیا" تو سماج آج ایک خاص قسم کے فسطائی سرسام میں مبتلا ہے اور جو اس سرسامی فسطائیت کی نشاندھی کرے یا اس کو پاگل پن سے تعبیر کرے اسی کو سماج ملکر پاگل قرار دیتے ہیں اور اسے پورے سماج میں اچھوت بناکر رکھ دیتے ہیں فسطائیت اپنے عروج پر مشترکات کی بجائے اختلاف ڈھونڈتی ہے اور زیادہ سے زیادہ خارج کرنے،باہر کردینے،اجنبی بناڈالنے اور یہاں تک کہ خارج کردئے،باہر کرڈالے گئے اور اجنبی قرار دے دئے گئے لوگوں کا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹاڈالنے کی کوشش کرتی ہے آپ میں سے بہت سوں کو نازی کیمپوں کا معلوم ہوگا اور پھر اجتماعی قبروں کی بازیافت کا بھی اور اسپین سابقہ اندلس میں فرانکو کے زمانہ جبر میں مخالفین فسطائیت کو مار ڈالنے والے ڈیتھ اسکواڈ جن کو آپ موت کے ہرکارے بھی کہہ سکتے ہیں تو ایسے موت کے ہرکارے ہمیں ہر گلی،ہر سڑک اور ہر چوک میں کہیں سے اچانک نمودار ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور بس چند منٹوں میں وہ اپنی کاروائی کرتے ہیں اور یہ جا اور وہ جا کہیں نہیں ہے کہیں نہیں لہو کا سراغ کہیں نہیں ہے اس سے بھی زیادہ ٹریجڈی یہ ہے کہ جو موت کے ہرکاروں کا نشانہ بن جاتا ہے تو اس سے ہمدردی کرنے سے پہلے اور ہرکاروں کی مذمت کرنے سے پہلے یہ سوال پوچھا جاتا ہے اس کا کیا نام تھا؟ اس کا کیا نام تھا؟جی ہاں !اسی عنوان سے ایک افسانہ مسعود اشعر نے لکھا ہے اور ڈاکٹر علی حیدر اور اس کے بارہ سال کے بچے کے مارے جانے کو مرکز بنایا ہے اور مسعود اشعر نے فسطائیت کو سلگ سے تعبیر کیا ہے جو نئی کونپلوں اور پودوں کو کھا جاتا ہے اور یقین کیجئیے یہ جس فسطائیت کا ہم سامنا کررہے ہیں وہ سلگ ہے جو نئی گھاس،نئی کونپل،نئی کلی کو شوق سے کھاتی ہے اور یہ بس اچانک کہیں سے نمودار ہوتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے مجھے مسعود اشعر کا یہ افسانہ راولپنڈی میں اس وقت بھی بہت یاد آتا رہا جب میں کرسچن اسٹڈی سنٹر میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے فاضل اور معروف ہندوستانی سماج وادی اور فمینسٹ ڈاکٹر خورشید انور کے تعزیتی ریفرنس میں ہندو فاشزم اور اس کے رد عمل میں ابھرنے والے اسلامو فوبک فاشزم پر بات کررہا تھا لیکن یہاں مجھے امید کی ایک کرن بھی نظر آئی اور وہ پشاور سے آئے علامہ مقصود سلفی کی صورت میں نظر آئی انھوں نے جس طرح سے فرقہ واریت اور انسان دشمنی کی مذمت کی اور اس کو دلائل سے ثابت کیا اس نے مجھ پر چھائی قنوطیت کو کافی حد تک ختم کردیا اور پشتون بنوں سے تعلق رکھنے والے انٹر نیشنل ریلشن میں سند فراغت رکھنے والے حسنین فلک نے سماج پر چھائے فسطائی پاگل پن کو رد کیا اس سے مجھے بہت حوصلہ ملا یہ کوئی سو سے زیادہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھے جو مختلف شعبوں میں کا تو پڑھائی کے آخری مرحلے میں تھے یا وہ عملی زندگی کا آغاز کرنے والے تھے اور سب کے سب پاکستانی معاشرے کی تعمیر کے جذبے سے سرشار تھے اور مذھبی و نسلی فسطائیت کو جڑ سے اکھاڑنے پھینکنے کا عزم کئے ہوئے تھے اور سب کے سب کمپوزٹ کلچر مشترکہ ثقافتی ورثے کی بنیاد پر تنوع کی بقاء کے لیے کام کرنے کا عزم کررہے تھے

Saturday, May 10, 2014

راشد ،بھٹی،تاثیر اور عارف اقبال کا قصور کیا تھا؟

ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی موت سے کچھ ہفتوں قبل کہا تھا کہ میں اپنا کام مکمل کئے بغیر مرنا نہیں چاہتا اس وقت ایران کی سرزمین پر شاہ ایران کے ظلم کی انتہا ہوچکی تھی اور شاہ ایران ایرانی قوم کی آزادی ،قومی خود مختاری اور سامراج سے نجات کے لیے اٹھنے والی ہر موثر آواز کو دبانے اور خاموش کرنے پر تلا ہوا تھا ڈیتھ اسکواڈ تھے جو شاہ ایران کے ہر مخالف کو موت کے گھاٹ اتارنے کی پوری کوشش کرتے تھے اور شاہ ایران کی بدنام زمانہ ایجنسی ساواک کا ہدف ڈاکٹر علی شریعتی تھے ڈاکٹر علی شریعتی نے پہلے پہل ایران کے اندر زیر زمین رہ کر ایرانی قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا لیکن جب یہ دیکھا کہ اب سامنے دو راستے ہیں ایک یہ کہ ایران کے اندر رہ کر شاہ کی ساواک کے ہاتھوں مارا جایا جائے دوسرا یہ کہ جلاوطنی اختیار کی جائے اور باہر سے بیٹھ کر رہنمائی کی جائے ڈاکٹر علی شریعتی موت سے ڈرنے والے آدمی نہیں تھے ورنہ اوکھلی میں سر دیتے ہی کیوں لیکن وہ ایرانی سماج میں انقلاب اور تبدیلی کے عمل کو بلوغت تک پہنچائے بغیر مرنے کی تمنا کرنے والے آدمی نہیں تھے اسی تناظر میں انھوں نے کہا کہ میں وقت سے پہلے مرنا پسند نہیں کروں گا اور وہ لندن چلے آئے یہاں آکر ان کی پراسرار موت ہوئی،کچھ کہتے ہیں کہ ساواک نے ان کو شہید کیا اور کچھ کا خیال ہے کہ ان کی موت طبعی تھی یہ قصّہ یہاں چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے میرے رفقاء،سئنیرز اور دوستوں کی ایک منڈلی نے بلایا اور مجھ سے کہا کہ آپ کو اپنا کام کئے بغیر کسی وقتی اشتعال کو دعوت دیکر اپنی زندگی کے باب کو ختم نہیں کرلینا چاہئیے جیو ٹی وی چینل ملتان کے جمشید رضوانی،انگریزی روزنامہ ڈان کے شکیل ،شکیل پٹھان مرحوم کے ہونہار صاحبزادے عدیل پٹھان،روزن تنظیم کی شبانہ عارف ،اے پی پی کے رضی الدین رضی ،ڈیلی ایکسپریس ٹرئیبون کے ایڈیٹر کمال صدیقی ،ایکپریس ٹرئبیون ملتان کے رپورٹر اویس شاہ،خالدہ مہتاب،رومانہ جعفر یہ وہ احباب ہیں جنھوں نے کل ملتان میں مجھ سے کہا تحریر کے اسلوب میں کچھ ایسا بدلاؤ لانے کی ضرورت ہے کہ پیغام بھی پہنچے اور بچاؤ کا راستہ بھی نکلے مجھے ان سب دوستوں اور اپنے سے بڑے اور زیادہ تجربہ کار دوستوں کی محبت اور تجویز پر یک گونہ فخر ہے کہ اس بے حسی اور آپا دھاپی کے دور میں ہے بھی چارہ ساز اور غمگساروں کی منڈلیاں موجود ہیں جو آپ کی فکر کرتے ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں میں ان سب دوست احباب کا بہت مشکور ہوں جو جسمانی طور پر تو دور بیٹھے ہیں ،کچھ تو پردیس میں ہیں اور جن میں سے اکثر سے میں کبھی نہیں ملا اور پھر بھی وہ وطن میں چلتی گرم لو تھپیڑوں سے مجھے بچانے کی فکر کرتے ہیں میں اپنے ان تمام ساتھیوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بات کہنے کا ایک قدرے نرم اسلوب اختیار کرنے کی کوشش کروں گا لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ معاملہ اسلوب کو نرم یا گرم رکھنے کا ہے نہیں،معاملہ تو آپ کے سٹینڈ اور آپ کی پوزیشن کا ہے کمال صدیقی مجھ پر ناراض تھے کہ ایکسپریس نیوز کے تین لوگوں پر حملے کے فوری بعد جو ای میل انہوں نے اپنے سٹاف کو جاری کی وہ پالیےی پر نظر ثانی تک طالبان کے حوالے سے خبروں کو روکے رکھنے کی تھی نہ کہ مستقل طور پر طالبان کے ہاتھوں سرنڈر کرنے کی اور بعد میں ایک پالیسی بنالی گئی میری کمال صدیقی سے زیادہ بات ہو نہیں پائی ورنہ میں ان کو مثال دیکر ثابت کرتا کہ کیسے ٹرائیبون کی رپورٹنگ اور کالمز کے چناؤ میں فرق آیا اس کے بعد جو اب تک نہیں بدلا ان سے میں نے عائشہ صدیقہ کے بلوچستان پر لکھے جانے والے آرٹیکلز کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کا شکوہ کیا اور بلوچستان پر ان کے اخبار میں ریاستی موقف سے ہٹ کر رپورٹنگ کے فقدان کا زکر کیا کمال صدیقی کا کہنا تھا کہ عائشہ تو جو من میں آتا ہے لکھ ڈالتی ہیں لیکن اس کو اگر چھاپا جائے تو بعد میں جو ہوگا اسے اخبار کے ایڈیٹر کو بھگتنا ہوگا انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر کوئٹہ میں ان کا رپورٹر آئی ایس پی آر،ایف سی،بلوچستان کور سے ہٹ کر کسی بھی واقعہ پر دوسرا موقف رپورٹ کرنے پر تیار نہیں ہے کیونکہ اس کے خیال میں اگر اس نے ایسا کیا تو اس پر حملہ ہوگا یا اسے اغواء کرلیا جائے گا اور اگر کسی اور جگہ سے رپورٹر کو بلوچستان بھیجا جائے تو اس کا اغواء ہوجانا یا قتل ہوجانا یقینی ہے کمال صدیقی کی طرح ملتان سے شایع ہونے والے اخبارات کے ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ مذھبی فاشسٹوں کا ان پر سخت دباؤ ہے اور ان کے رپورٹرز کی جانوں کو شدید خطرہ ہے اس لیے وہ بہت سے ایسے ایشوز جن پر مذھبی فاشسسٹ بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کو رپورٹ کرنے سے گريزاں ہیں مجھے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے کہا کہ راشد رحمان کے کیس میں ریاست اور اس کے اداروں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ راشد نے اپنی درخواست میں جن لوگوں کا زکر کیا تھا کو گرفتار کرلیں یا ان کے نام ایف آئی آر میں درج کریں اس ایڈیٹر کے بقول جب ریاست کالعدم تنظیموں اور ان کی سرپرستی کرنے والے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے ڈر رہی ہو تو ایسے میں ایسے لوگ جن کے پاس سوائے قلم کے اور کچھ نہیں ہے وہ کیسے سورماء بن سکتے ہیں اس ایڈیٹر نے مجھ سے پوچھا کہ راشد کے جنازے میں راشد جن کے مقدے لڑا کرتا تھا یا وہ تھے یا راشد کی اپنی برادری کے لوگ تھا یا پھر اس کے مشکل سے وہ دوست احباب جو 100 ہوں گے تھے لیکن ملتان بار سے صرف اور صرف 20 سے 25 وکلاء شامل ہوئے تو جب ایک شخص کی اپنی وکلاء کمیونٹی کی اکثریت اس کے جنازے میں نہ شریک ہوئی اور نہ ہی اس کے رسم سوئم میں تو ایک اخبار سے آپ لوگ کیوں جہاد کی توقع رکھے ہیں وہ مدیر مجھے کہنے لگے کہ تم نے محمد حنیف،ثناء اور چند دوسرے لکھاریوں پر ندیم سعید کی تنقید کو حمائت دی اور کہا کہ جس وجہ سے راشد کی جان گئی اس سے بات کو کہیں اور لے گئے،لیکن ندیم سعید یہ بات لندن کی بجائے پاکستان بیٹھ کر خاص طور پر ملتان میں بیٹھ کرکرتا تو میں وزن محسوس کرتا اس مدیر کا مجھے کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو سمجھائے بغیر اور ان کو علم کی اے بی سی یعنی مبادیات پڑھائے بغیر آپ ایم کا نصاب پڑھانے کی کوشش کریں گے اور ایک دم آپ انتہا پر گئے اور کسی ان دیکھی گولی کا شکار ہوگئے تو پھر اگر لوگ خاموش رہیں تو گلہ کرنے کا حق نہیں میں نے یہ ساری باتیں خاموشی سے سن لیں اور مجھے اس مدیر کی نیت پر بھی شک نہیں ہے لیکن میں اپنے سارے دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ سلمان تاثیر،شہباز بھٹی ،راشد رحمان اور اس سے پہلے جسٹس عارف اقبال بھٹی کے ساتھ جو ہوا وہ اس لیے نہیں ہوا کہ یہ لوگ الٹرا ماڈرن تھے یا انہوں نے وکٹ پر اگلے قدموں کا استعمال کرکے بیٹنگ شروع کردی تھی مجھ سمیت جتنے لوگ بھی راشد رحمان سے واقف تھے وہ سب جانتے ہیں کہ راشد نے کبھی بھی کسی پبلک میٹنگ میں یا دوستوں کی منڈلی میں ریڈیکل الٹراماڈرن رویہ نہیں اپنایا اور نہ ہی اس نے لبرل جنونی ہونے کا کردار ادا کیا اپنے 30 سالہ قانون کی پریکٹس کے دوران راشد نے انتہائی ٹھنڈے اور منطقی انداز میں بات کی اور وہ تو دھیمے لہجے کا آدمی تھا اور اسے ہنگامہ پروری کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی اس نے جنید حفیظ کے کیس میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے موکل پر بلاسفمی ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے اور اگر اس کو یہ کیس لڑنے دیا جاتا تو وہ اپنے موقف کو ثابت بھی کردکھاتا جسٹس عارف اقبال بھٹی نے کہیں یہ نہیں کہا تھا کہ بلاسفمی جائز ہے بلکہ جسٹس نے تو یہ دیکھا کہ اس کی عدالت میں جن دو مسیحی بھائیوں کو توھین رسالت پر مبنی مبینہ پرچیاں لکھنے کا الزام لگا ہے وہ تو ان پڑھ اور لکھنے سے بھی عاری ہیں تو صاف نظر آرہا تھا کہ ان پر یہ مقدمہ بدنیتی سے قائم کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے دونوں بھائیوں کی ضمانت بعد از گرفتاری قبول کرلی سلمان تاثیر نے بھٹہ مزدور آسیہ بی بی پر لگے الزام کی تردید کی تھی اور اس نے یہ کہا تھا کہ اس طرح کے کیسز کے انداراج اور تفتیشش کے طریقہ کار کو بدلنے کی صرورت ہے شہباز بھٹی کا بھی یہی موقف تھا کہ توھین رسالت ایکٹ میں اندراج مقدمہ اور طریقہ تفتیشش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس قانون کو بے گناہوں کو تنگ کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے یہ بہت عاجزانہ اور لبرل آدرشوں کی مثالیت پسندی و آزادی اظہار کے اعلی ترین نمونے کہیں نیچے کی بات تھی جسے مذھبی فسطائیوں نے نہیں برداشت کیا ان چار مقتولین کے بارے میں ایک گھٹیا پروپیگنڈا مہم چلائی گئی اور ان کی ہر طرح سے بری تصویر پیش کرنے کی کوشش ہوئی اور توھین مذھب کے اکثر کیسز میں متاثرین کا ایک الٹرا ماڈرن،مذھب مخالف اور ملحدانہ امیج سے آگے بڑھ کر گستاخانہ امیج خود مذھبی فسطائیوں کے گوئبلز کے اپنے شیطانی ذھنوں کی کارستانی تھااور اس کا مقصد عام مسلمانوں کو بھڑکانے،ان کو مشتعل کرنے کے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہم اپنے انداز و بیان میں تب تبدیلی لائیں جب واقعی ہمارا موقف اور سٹینڈ بہت زیادہ ریڈیکل لبرل یا مذھب مخالف ریڈیکل ازم پر مبنی ہو اور ہم اس کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوں
ہم پاکستان میں مذھب کے نام پر مذھبی اقلیتوں پر جبر،شعیہ نسل کشی،اہل سنت بریلوی عوام پر حملوں کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور اگر ہم مذھب کے خلاف کسی جنگ کا اعلان کئے ہوتے تو ہمیں ممتاز قادری کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بریلویوں کے حق میں آواز بلند کرنا ترک کردینی چاہئیے تھی اور ہمیں شیعہ نسل کشی پر خاموشی اختیار کرلینی چاہئیے تھی اور مذھب سے نفرت کرنے والے کیا اس ملک کے عیسائیوں،احمدیوں،اسماعیلی ،سکھ ،پارسی وغیرہ کی مذھبی آزادی کے حق میں آواز بلند کررہے ہوتے کیونکہ وہ بھی تو مذاہب ہی ہیں اس لیے یہ مقدمہ ہی غلط ہے کہ جن ملزموں اور وکلاء ،اساتذہ ،صحافیوں ،دانشوروں پر اب تک حملے ہوئے یا ان کا قتل ہوا اس کی وجہ ان متاثرین یا مقتولین کی جانب سے لوگوں کے جذبات یا عقائد کو مجروح کیا جانا تھا یا وہ مذھب کے بارے میں الٹرا خیالات کا آطہار کرہے تھے مذھبی فاشزم یا فسطائیت جس کا سب سے بڑا اظہار دیوبندی-وہابی تکفیری اور خارجی شکل میں ابھرنے والی مسلح دھشت گرد تںطیمیں ہیں اور پھر ان کو کور دینے والی سنٹر رائٹ دیوبندی و وہابی تنظیمیں ہیں اصل میں روادار،عدم تشدد اور امن وآتشی پر مبنی خیالات کے مالک اور پاکستان میں شہریوں سے ان کے مذھب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے والوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور جو شخص یا گروہ ان کے ایجنڈے کو رد کرتا ہو ،ان کی اصل کو بے نقاب کرتا ہو اور ملائیت کے کاروبار کی جڑوں پر حملہ آور ہوتا ہو اسے یہ اپنی ہٹ لسٹ پر رکھتے ہیں مذھبی فاشزم برصغیر پاک و ہند کی اس مذھبی ،سماجی اور معاشرتی ہم آہنگی کی روایت کو فنا کرنے کے درپے ہے جو اس خطے میں ہزاروں سال سے مختلف مذاہب و مسالک کے درمیان تفاعل اور باہمی لین دین کے عمل سے گزرنے سے وجود میں آئی ہے اور اس کے لیے تکفیر اور توھین کا الزام و فتوی سب سے کارگر ثابت ہوا ہے اصل میں ہمیں اس جھوٹ کا پردہ فاش کرنا چاہئیے جو مذھبی فسطائی انسانی حقوق کے کارکنوں،روشن خیال سیاسی کارکن ،روشن خیال ادیب و شاعروں ،صحافیوں ،وکیلوں سے منسوب کیا جاتا ہے اور ہمارے اہل قلم کو بے گناہوں کو مذھب کے نام پر راندہ درگاہ کئے جانے کے سلسلے کو بے نقاب کرنے اور اپنے قاری کو اس حوالے سے سچ بتانے کی کوشش کرنی چاہئیے اور اگر اس راستے میں موت کا جام پینا پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا جاہئيے بلوچستان کے حوالے سے سنسر شپ پر آئیندہ بلاگ لکھوں گا

Thursday, May 8, 2014

راشد رحمان کے نام

ابھی ابھی ملتان سے واپس لوٹا ہوں ،آج شام راشد رحمان ایڈوکیٹ کے جنازے میں شرکت کی تو جنازے میں خلق خدا کا ایک ہجوم تھا اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس جنازے میں شریک تھے بس ایک طبقہ غائب تھا جسے اقبال کی زبان میں آپ لغت ہائے حجازی کا قارون کہہ لیں،مولانا روم کی زبان میں مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم کہہ لیں ،خواجہ غلام فرید کی زبان میں ملاّں نئیں کہیں کار دے ،جانن نہ شیوے یاد دے والے ملاّں کہہ لیں ،دین فی سبیل اللہ فساد والے مولوی کہہ لیں یا خود قران کی زبان میں لوگوں کا حق باطل طریقے سے کھا جانے والے اور یصدون عن سبیل اللہ کے مصداق کہہ لیں یا جو دل میں آئے کہہ لیں وہ اس عاشق کے جنازے سے غائب تھے ان کا خیال یہ تھا کہ وہ جنازے کو پڑھائیں گے نہیں تو لوگ راشد کے جنازے میں نہیں جائیں گے اور وہاں کسی کو جنازہ پڑھانے کی توفیق نہیں ہوگی کیونکہ یہ لوگوں کی پیدائش اور ان کی موت پر اجارہ داری کے دعوے دار ہیں اور ان کے خیال میں یہ جسے مردود حرم کہہ دیں وہ مردود حرم ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بارے میں خلق خدا وہی وبان بولے گی جو ان اجارہ داروں نے بولنی شروع کردی ہوگی لیکن اسے اجارہ دار اور ٹھیکے دار بھول جاتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند ہی نہیں پوری مسلم دنیا کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جسے ملاّں اور قاضی و مفتی نے مردود قرار دیا اسے خلق خدا کی اکثریت نے مقبول ٹھہرادیا بلھّے شاہ نے کہا تھا کہ وہ تینوں کافر کافر آکھ دے تو آھو،آھو آکھ کیوں کہ ملامتی صوفی کو پتہ تھا کہ ریا کار اور ہوس کار واعظ ،ملاّں ،شیخ حرم جس کو مردود کہے گا خلق خدا اسے ہی مقبول کہے گی راشد کے جنازے مین خلق خدا کا اژدھام اور اس کی میت پر اشک بہاتی ہزاروں آنکھوں نے دین و مذھب کے ٹھیکے داروں کو واضح پیغام دیا ہے ہر بات پہ کردیتا ہے تو اسلام سے خارج اسلام تیرے باپ کی جاگیر نہیں ہے مجھے ندیم سعید کی بات کا تذکرہ یہاں کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ایک انسان سچائی کے راستے پر چلتا ہے اور جس بات کو ٹھیک خیال کرتا ہے تو اسے اس سچ کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ قیمت اس کی بیوی کے بیوہ ہوجانے،ماں کے بیٹے سے محروم ہوجانے الغرض کے طرح طرح کے ذاتی المیوں کی شکل میں نکل آتی ہے اور اس پر دکھی ہونا لازم ہوتا ہے لیکن ان ذاتی المیوں کی کہانی اس قدر طویل نہ ہو کہ جس مقصد کے لیے قیمت ادا کی گئی ہوتی ہے وہ آنکھ سے اوجھل ہوجائے ندیم سعید نے ٹھیک کہا کہ ندرت بیان کے چکر میں کچھ لوگ سلمان تاثیر ،شہباز بھٹی اور راشد رحمان کی شہادتوں کے زاتی المیوں کو بیان کرنے میں تو اپنی ساری صلاحتیں صرف کررہے ہیں لیکن وہ اس طرف نہیں آتے کہ یہ لوگ شہید کیوں ہوئے؟ ریاست لوگوں کی جان کا تحفظ کرنے اور خود قانون و عدالت بن جانے اور لوگوں کے خون بہانے والوں کی بیخ کنی کرنے مین ناکام ہوچکی ہے اور اس ریاست نے کالعدم تںطیموں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہیں جب چاہیں کسی کی بھی جان لے لیں کڑوا سچ یہ ہے کہ بلاسفمی قوانیں ہوں کہ حدود ایکٹ سب کا نشانہ اس ملک کے وہ تمام لوگ اور افراد ہیں جو ملّا کی تعبیر و فہم مذھب سے اتفاق نہیں کرتے یا وہ غریب لوگ جن کے مکانات ،زمین یا مال و دولت پر ان کی ںظریں گڑی ہیں اور جو بھی اس الزام کے تحت گرفتار ہوتا ہے تو اس کے حق میں آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے کارکن ہوں،پیروی کرنے والے وکیل ہوں،ملزم کی صفائی دینے والے گواہ ہوں اور جج ہوں سب کو بے پناہ دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے جو جج مقدمے کو جھوٹ خیال کرکے ملزم کی ضمانت لے لے تو اس کو اس کے چیمبر ميں بہت آسانی کے ساتھ قتل کردیا جاتا ہے یقینی طور پر آپ کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عارف اقبال بھٹی کا انجام یاد ہوگا اس واقعے کے بعد پریکٹس یہ ہوگئی کہ جو جج توھین مذھب کیس میں کسی ملزم کی ضمانت لے یا اس کو رہا کرے تو وہ جج اپنے خاندان سمیت اس ملک سے باہر چلا جاتا ہے اور اکثر ججز ایسے ہیں جو ان کیسوں کو سننے سے انکار نہیں کرتے مگر التواء میں ڈالے رکھتے ہیں تاکہ وہ کسی مصیبت کا شکار نہ ہوں راشد کے کیس میں ریاست کی اور عدالت کی کمزوری بے نقاب ہوگئی ہے جس جج کے سامنے تین آدمیوں نے راشد کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی ان کے خلاف جج نے کوئی کاروائی نہ کی جبکہ پولیس کے پاس نامزد درخواست گئی تو بھی پولیس نے نامزد ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا اور آج رات گئے تک جو ایف آئی آر راشد کے قتل کے مقدمے کی پولیس نے درج کی ہے اس میں ملزم نامعلوم لکھے گئے ہیں اور ان تین افراد کو مقدمے میں نامزد نہیں کیا گیا یہ ایف آئی ار اور جج کا سامنے دھمکی ملنے پر بھی خاموش ہونا یہ بتلاتا ہے کہ ہماری انتظامیہ اور عدلیہ دونوں ہی مذھبی جنونیت اور فسطائیت کے ہاتھوں یرغمال بن گئی ہیں اور وہ ان جنونیوں کو شامل تفتیش کرنے تک یہ قاصر ہے مذھبی جنونی اور فاشسسٹ ریاست کے اندر ریاست اور ریاستی اداروں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور ان کے مقابلے میں دانشوروں،ادیبوں،اساتذہ اور عام شہریوں کو ریاست نے مذھبی جنونیوں کے لیے آسان شکار بناڈالا ہے ہمیں سب سے زیادہ مذھبی جنونیوں اور ریاست سے ان کے مبینہ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ہی ایک راستہ ہے راشد،سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو لال سلام پیش کرنے کا

Monday, May 5, 2014

فوج،آئی ایس آئی،ہم بستر میڈیا،جہادی اور سیاسی جماعتیں

نوٹ:میں اپنے ان قارئین سے بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں جو مجھے روزنامہ خبریں ملتان کے ادارتی صفحہ پر پڑھتے ہیں اور شکائت کررہے ہیں کہ وہاں آج کل میں اس طنطنے اور کاٹ کے ساتھ نہیں لکھ پارہا جو میرا اسلوب خیال کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ مجھے صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج،آئی ایس آئی کی پالیسیوں اور ان کے ماضی بارے آج کے خاص تناظر میں لکھنے کی اجازت نہیں ہے اور میں نے بہت کوشش کی کہ اس موضوع پر بین السطور بات کہنے کا اسلوب اپناؤں لیکن جہاں تھوڑی سی بات نکلی وہیں کالم ردی کی ٹوکری میں چلا گیا تو اب لے دیکر یہ بلاگ ہے جس پر یہ سب کچھ لکھا جاسکتا ہے تو جن قارئین کو میرے بلاگ تک رسائی ہے وہ اسے پڑھ سکتے ہیں ،ویسے میں نے ایل یو بی پاک ڈاٹ کام کے ایڈیٹر انچیف سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ میرے کالمز کو کراس پوسٹ کے طور پر شایع کرے پاکستان کی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی کی قیادت اور ان کے اہلکار اپنی طاقت کے بھرپور مظاہرے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور طاقت کے اس مظاہرے کا مقصد پاکستان کے اندر اپنے ناقدوں کی زبان بندی کرنا اور ان کے لیے موجود کسی حد تک جگہ کو ختم کرنا ہے اس مقصد کے لیے ایک طرف تو پاکستان کی اس عسکری اسٹبلشمنٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے پاس میڈیا کے اکثر مالکان اور ان میں کام کرنے والے صحافی بادام غلام بنے ہوئے ہیں اور اس اکثریت کو وہ ہرروز اپنے ناقدین کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں پاکستان کی ملٹری اور انٹیلی جنس کے ادارے کو جو لوگ کنٹرول کررہے ہیں ان کی حمائت میں اس وقت ایکسپریس گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینل ،روزنامہ خبریں اور اس کا چینل و دیگر اخبارات،روزنامہ پاکستان،روزنامہ دنیا اور اس کا ٹی وی چینل ،اے آروائی ٹی وی چینل ایسے میڈیا کے اخبارات اور ٹی وی چینل ہیں جن کی مالکان کی پالیسی یہ نظر آتی ہے کہ وہ فوج اور اس کے ذیلی اداروں اور آئی ایس آئی کے کردار بارے کسی بھی طرح کی تنقید اور تبصرے کے باب کو بند کرنے کی حمائت کررہے ہیں یا کم از کم وہ اس تنقید کو مین سٹریم میڈیا سے غائب کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان اخبارات اور چینلز نے ملٹری اور خفیہ اداروں کی پاکستان کے اندر سیاست میں مداخلت ،ان کی جہادی پراکسیز،دھشت گردی کی سپانسر شپ اور اور ان کے معشیت کے ایک خاصے بڑے حصّے پر قبضے ،زمینوں اور رقبوں کی الاٹمنٹس سمیت بہت سے معاملات پر تنقیدی گفتگو کو ازخود نافذ کردہ سنسر شپ کے تحت بین کرڈالا ہے فوج اور آئی ایس آئی کے اس حامی میڈیا میں آپ نا تو اوپر زکرکردہ معاملات پر کوئی کالم لکھ سکتے ہیں ،نہ ہی کوئی فیچر،نہ کوئی تحقیقی رپورٹ شایع کرسکتے ہیں اور ان میڈیا گروپوں کے ٹی وی چینلز پر آپ آکر ان معاملات پر کوئی تنقیدی تبصرہ شایع نہیں کرسکتے بلوچستان ،خبیر پختون خوا،وزیرستان ،سندھ میں فوج،ایجنسیاں ،ایف سی وغیرہ انسانی حقوق کی جن سنگین خلہف ورزیوں میں ملوث ہیں اور جس طرح سے بلوچوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اس پر بھی کسی قسم کی بات کرنا ان مذکورہ بالا میڈیا گروپس میں ازخود نافذ کردہ سنسر شپ کی نذر ہوچکا ہے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے حمائت میں سامنے آنے والے یہ میڈیا گروپس اور فوج و آئی ایس آئی کے ہم بستر صحافی ایک طرف تو فوج اور ایجنسیوں کے ماضی میں کئے جانے والے جرائم کی کہانی کو بیان کرنے پر بین لگا چکے تو دوسری طرف یہ فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آغی کے خلاف پر تنقید کے بارے میں بہت دور کی کوڑی لانے اور ایک سازشی تھیوری کو پھیلا رہے ہیں ایک مشترکہ کہانی جو ان میڈیا گروپوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ بیان اور نشر کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں دنیا کی پانچ انٹیلی جنس ایجنسیوں جن میں ایرانی انٹیلی جنس ایجنی کو بھی شریک بتایا گیا کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں مشترکہ طور پر پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے خلاف جدوجہد کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ایک دوسری سازشی تھیوری یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے اور امریکی حکومت کے تھنک ٹینکس اور ان کے ہم بستر صحافیوں کی جانب سے آئی ایس آئی ،فوج کے خلاف عوام کے اندر منظم طور پر نفرت پھیلانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستانی میڈیا،این جی اوز،سیاسی کارکنوں اور دیگر شعبوں سے افراد کو ہائر کیا گیا ہے اور ان کا کام پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف منظم پروپیگنڈا کرنا ہے تیسری سازشی تھیوری یہ ہے کہ راء اور سی آئی اے و موساد و راما نے ملکر پاکستان کے خلاف سائبر ٹیکنالوجی کی مدد سے جنگ چھیڑی ہے اور لاکھوں فیک آئی ڈی بناکر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے فوج کا حامی میڈیا اور فوج کے ہم بستر صحافیوں کا دعوی ہے کہ وہ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے میدان عمل می نکلے ہیں اگر آپ ایکسپریس سمیت دیگر فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر تنقید کو اپنے چینل اور اخبارات میں مکمل طور پر سنسر کرنے والے میڈیا گروپوں کے نشر کردہ اور شایع کردہ مواد کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس ساری مہم کا پاکستان میں انچارج میر شکیل الرحمان اور ان کے ادارے میں کام کرنے والے ایسے صحافیوں کو بتارہے ہیں جن کی جانب سے فوج اور ایجنسیوں کی سیاسی مداخلت،بلوچستان میں ڈرٹی وار اور مشرف کیس میں مشرف کی فوج کی جانب سے طرف داری پر تنقید سامنے آئی فوج ایک طرف تو اپنے حامی میڈیا گروپوں کو میدان میں لیکر اتری ہے تو دوسری طرف اس نے اپنے ان تمام حامیوں کو اکٹھا کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جن کو وہ سیاسی منظر نامے اور مین سٹریم میں لانے کے لیے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتی رہی ہے اس حامی ٹولے میں ایک جانب تو وہ عسکریت پسند جماعتیں ہیں جو افغانستان ،کشمیر،ہندوستان،روس،وسط ایشیا اور اب مڈل ایسٹ میں اس کے آلہ کار کے طور پر لڑتی رہیں ہیں جن میں لشکر طیبہ (جماعۃ الدعوۃ )،جیش محمد،اہل سنت والجماعت(سپاہ صحابہ پاکستان)شامل ہے اور اس ٹولے کو حافظ سعید لیڈ کررہے ہیں اور اس کی سیکنڈ قیادت محمد احمد لدھیانوی کے پاس ہے اور یہ بھی سب کو پتہ ہونا ضروری ہے کہ یہ جماعتیں پاکستان کے اندر بلوچستان اور سندھ میں بھی خاص طور پر فوج اور آئی ایس آئی کی بلوچوں اور سندھیوں کے خلاف بطور پراکسی کے استعمال ہورہی ہیں اور ان کی جانب سے دفاع پاکستان کونسل کا پلیٹ فارم اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے دوسری طرف فوج کے پاس مذھبی تنظیموں کا ایک اور نیٹ ورک موجود ہے جو اس کی سودا کاری کی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے کام آتا ہے اور یہ نیٹ ورک خاص طور پر پنجاب کے اندر مضبوط بنیادوں پر خود فوج کی نوازشات سے تیار ہوا ہے اس طرح کا ایک نیٹ ورک طاہر القادری کا ہے اور وہ پوری طرح سے فوج اور آئی ایس آئی کے کہنے پر ہر وہ خدمت سرانجام دیتے ہیں جو ان کو فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سونپی جاتی ہے فوج کو بریلوی سنٹر رائٹ کی ایسی شخصیات کا تعاون بھی حاصل ہوا ہے جن کو مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف نے اپنے دور اس لیے کیا کہ وہ سعودیہ عرب اور ان کے پسندیدہ دیوبندی-وہابی دھشت گرد انتہا پسند لیڈروں کو ناراض نہیں کرسکتے تھے اور یہ لیڈر اس قدر زخم خوردہ ہیں کہ وہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو گرانے میں ہر عمل کو جائز خیال کررہے ہیں اور ہم ایک طرح سے ان لیڈروں کو فوج کی نئی ڈارلنگ کہہ سکتے ہیں اور یہ ڈار لنگ صاحبزادہ حامد رضا ہیں جبکہ کراچی کے سنٹر رائٹ بریلوی مولوی ثروت رضا قادری سمیت اکثر بریلوی مولویوں کا خیال یہ ہے کہ دیوبندی دھشت گرد جو بریلویوں اور شیعہ و دیگر غیر مسلم اقلیتوں پر حملے کررہے ہیں وہ فوج اور آئی ایس آئی کے دشمن بھی ہیں اور فوج کے ساتھ اتحاد بناکر ہی ان سے نمٹا جاسکتا ہے تو وہ بھی فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے ہونے والی صف بندی میں شریک ہوگئے ہیں ،فوج نے شاید ان کو یہ یقین دھانی بھی کرائی ہے کہ ان کے کنٹرول میں جو دیوبندی-وہابی تنظیمں ان سے ان کا تصفیہ کرادیا جائے گا اور شیعہ سنر رائٹ مولویوں کو بھی یہی یقین دھانی کرائی جارہی ہے کل علامہ ساجد علی نقوی اور ثاقب اکبر کی ملاقات مولانا فضل الرحمان سے جو ہوئی اس کے پیچھے بھی فرشتے ہیں لیکن مجھے لگتا نہیں ہے کہ فضل الرحمان فوج اور آئی ایس آئی کے دام میں آئیں گے لیکن یہ طے ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی اس وقت ملک میں جس صف بندی کی طرف بڑھنا چاہتی ہے تو وہ سنٹر رائٹ بریلوی ،سنٹر رائٹ شیعہ کا کم از کم دیوبندی عسکریت پسندی کے سیاسی فیس اور نام نہاد سافٹ امیج کے ساتھ ایک عارضی سا اتحاد ضرور کرائے گی ایک اور صف بندی بلکہ پیش بندی پاکستان تحریک انصاف ،عوامی مسلم لیگ،پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان مسلم لیگ ق کی شکل میں ہے اور یہ ایک طرح سے زرا زیادہ خالص قسم کا سیاسی فیس ہے جہاں فوج اور آئی ایس آئی اپنے مفادات کو کور کرے گی فوج اور آئی ایس آئی کے پاس اس کے علاوہ قصبات اور چھوٹے شہروں میں بھی ایسے نام نہاد گروپوں اور شخصیات کی کمی نہیں ہے جو بڑے دھڑلے سے اپنے آپ کو فوج یا آئی ایس آئی کا سورس کہتے ہیں اور یہ عمومی طور پر چٹی دلال ہوتے ہیں اور زیادہ تر یہ صحافی یا تھانوں یا عدالتوں میں دلال کا کام کرتے ہیں یا پھر مختلف قسم کی کاغذی تنظیموں کے عہدے دار ہوتے ہیں یا پھر ایسے کاروباروں سے منسلک ہوتے ہیں جن کی حفاظت فوج کا کوئی حاضر سروس یا سابق افسر کررہا ہوتا ہے اور یہ بھی فوج اور ایجنسیوں کا حامی حلقہ ہے اس لیے جب پاکستان میں بائیں بازو اور جمہوری حلقے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے منظم سیاسی پارٹی فوج ہے تو کچھ غلط نہیں کہتے پاکستان کے اندر آزاد میڈیا،آزاد عدلیہ اور آزاد سیاست اتنی آزاد کبھی نہیں تھی جس کا بہت چرچا کیا جاتا تھا اور جب تک میمو گیٹ سامنے نہیں آیا تھا تو امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی بھی کہا کرتے تھے کہ یہ نیا پاکستان ہے جس میں فوج اور آئی ایس آئی اپنے سابق کردار سے رجوع کرچکی ہے لیکن فوج اور اس کی معاون ایجنسیوں نے 2008ء سے لیکر آج 2014ء تک یہ ثابت کردکھایا ہے کہ وہ ایک طرف تو خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی پالیسی کی ملکیت سے کسی بھی طرح دست بردار نہیں ہوگی اور دوسری طرف وہ اپنی معاشی ایمپائر کو بھی سکڑنے نہیں دے گی اور جب کبھی اس کی کوشش کوئی کرے گآ تو یہ اسے مجبور کرے گی کہ وہ فوج اور آئی ایس آئی کی مرضی کے مطابق پاور شئرنگ کے فارمولے کو تشکیل دے اور جو یہ تناسب طے کرے اس پر کام کرے پانچ سال پاکستان پیپلزپارٹی نے اسی تناؤ کے ساتھ پورے کئے تھے اگرچہ میاں نواز شریف نے کئی فاؤل اس دوران کھیلے جو وہ نہ کھیلتے تو آج حالات شاید مختلف ہوتے لیکن پھر بھی وہ پانچ سال نکلوانے میں مددگار ثابت ہوئے مگر آج میاں نواز شریف کو کم از کم پاکستان پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے این پی کی جانب سے ایسے فاؤل کھیلے جانے کا سامنا نہيں ہے ویسے ایک اور بات بھی اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کو سب سے زیادہ حمائت سنٹرل پنجاب سے میسر آرہی ہے اور زیادہ زور بھی وہیں ہے جبکہ سب کو علم ہے کہ سرائیکی بیلٹ ،اندرون سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں اس فوج نواز اور آئی ایس آئی نواز ہیجان انگیزی کا وجود نہیں ہے اور یہ بات عیاں ہے کہ فوج کی جہادی پراکسیز اور اس کی معاشی ایمپائر کے اصل محافظ بھی سنٹرل پنجاب میں ہی زیادہ رہ گئے ہیں اور ایک طرح سے یہ آخری مورچہ ہے فوج اور آئی ایس آئی کے پاس جو وہ اپنی ماورائے آئین و قانون اور جمہوریت مخالف ،عوام دشمن اور چھوٹے صوبوں کی مظلوم عوام کے خلاف اختیار کی جانے والی پالیسیوں کو بچانے کے لیے استعمال کررہی ہے اور ہاں ایک بات اور کہ اس دوران بہت سے کلین شیو،تھری پیس سوٹ زیب تن کرنے والے،پٹر پٹر انگریزی بولنے والے ،خود کو اصلی تے وڈا صحافی بتلانے والے اور بعض تو خود کو قانون کا سب سے بڑا ماہر بتلانے والے بھی بری طرح سے ایکسپوز ہوئے ہیں جن میں معید پیرزادہ،بابر ستار اور طلعت حسین جیسے مسٹر کلین بھی شامل ہیں جبکہ ملیحہ لودھی،شیری رحمان،نجم سیٹھی ،اعجاز حیدر تو بہت پہلے بے نقاب ہوگئے تھے میں ملتان سمیت کئی ایک شہروں کی اس چھوٹے استاد ٹآئپ صحافیوں کا زکر نہیں کررہا جو ان شہروں میں تو یقینی بات ہے کہ گاڈ فادر ہیں لیکن اس سے باہر ان کا قومی امیج نہیں ہے مگر فوج اور آئی ایس آئی کی چاکری میں ان کا جواب بھی نہیں ہے فوج اور آئی ایس آئی تو یقین مانئے اپنی حمائت میں جرائم پیشہ ،قبضہ گیروں اور رشورت خور مافیا کو بھی سامنے لے آئی ہے کیونکہ درجن بھر غنڈوں کو سفید لباس پہنا کر شرفاء بناکر پریس کلبوں کے سامنے مظاہرے تو یہ بھی کراسکتے ہیں یہ وہ حقائق ہیں جو جنگ ،دی نیوز اور ان تمام بچے کچھے اخبارات اور چینلز پر بھی شایع یا نشر نہیں ہوسکتے جو کسی نہ کسی حد تک آزادی صحافت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں ابھی لاہور میں پی ایف یو جے اور لاہور پریس کلب کی جانب سے قومی صحافتی کنونشن اور خواتین صحافیوں کا اجتماع ہوا ،یہ دونوں تقریبات نہ ہوتیں اگر ان کا خرچہ جرمنی کا ایک لبرل ازم اور فری مارکیٹ کو فروغ دینے والا ڈونر گروپ سپورٹ نہ کرتا یہ کلچر کہ اگر کسی این جی او سے فنڈ ملیں تو کنونشن ہوں اور آزادی صحافت و جمہوریت کے لیے مظاہرلہ بھی کرلیا جائے ورنہ اپنے خرچ سے نہ تو کوئی سفر کرے ،نہ ملتان سے یا دیگر حصوں سے لاہور آکر شریک مظاہرہ ہو عرصہ ہوا ختم گیا کلچر ہے پاکستان میں خود بائیں بازو کی سیاست کو بہت سے روگ لاحق ہوچکے ہیں جن میں ایک روگ تو یہی کرپشن اور بدعنوانی کا ہے اور سب سے بڑا روگ تو نظریاتی دیوالیہ پن کا ہے جس سے نمٹنا سب سے اہم فریضہ ہے ‎