Thursday, December 11, 2014

ملالہ یوسف زئی - پاکستان میں فکری جدال


بدھ دسمبر کی دس تاریخ کو اوسلو کے تاریخی ہال میں ملالہ یوسف زئی اور پرکاش ستھیارتھی نے امن کا عالمی ایوارڑ نوبل پرائز اکٹھے اور مشترکہ طور پر وصول کیا اور پاکستان کے لیے یقینی بات ہے کہ یہ انتہائی تاریخی لمحات تھے کہ جب اس کے ہاں دوسری مرتبہ یہ نوبل انعام کسی پاکستانی شخصیت کو مل رہا تھا اور اس حوالے سے پوری دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف لگی ہوئی تھیں اوسلو کے اس ہال میں اس دن پہلے تو راحت فتح علی خاں نے قوالی سے سماں باندھا اور اس کے بعد بھارتی ستار نواز نے مشرقی موسیقی اور راگ راگنیوں سے اہل مغرب کو مسحور کرڈالا پاکستان کے لیے بالخصوص اور جنوبی ایشیا کے لیے بالعموم اپنی ثقافت ، اپنی تکثیریت اور اپنی صلح کلیت کے اظہار کا یہ اہم اور نادر موقعہ تھا موسیقی ، قوالی یہ دو ایسی علامتیں ہیں جن کو زبردستی پاکستان اور جنوبی ایشیا سے خارج کرنے کی کوشش بعض ایسے عناصر کررہے ہیں جوکہ مسلم دانشوروں کی ںظر میں تکفیری اور خوارج کی فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ماہر عمرانیات کے نزدیک ایسے عناصر تکثریت ، تنوع اور کثیر النسلی و کثیر الشناخت معاشروں کو یک چہرہ کرنا چاہتے ہیں جوکہ کبھی ہونہیں سکتے اور اس طرح کی کوئی بھی کوشش تکثیری معاشروں میں فساد ، جنگجوئی ، خون ریزی اور تاریک خیالی کا باعث بنتی ہے ملالہ جس کی عمر اس وقت صرف انیس برس ہے نے بہت چھوٹی سی عمر میں پاکستان کے پشتون اکثریت کے علاقے سوات میں اس وقت اسکول جانے والی بچیوں کے "حق تعلیم " کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی جب سوات میں تحریک طالبان اور تحریک نفاذ شریعت محمدی نامی دو تنظیموں نے ملکر اسلام کا ایک رجعتی اور نامانوس چہرہ پیش کرنا شروع کردیا جس میں جدید تعلیم لڑکیوں کے لیے تو درکنار خود لڑکوں کے لیے بھی جائز نہیں تھی اور سوات میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکول ، کالج تباہ کردئے گئے اور سوات کے اندر ایک مخصوص مکتبہ فکر کے نوجوانوں کے اندر یہ رجحان زور پکڑگیا کہ وہ قلم ، کتاب کی بجائے بندوق اٹھائیں ، بدن پر بارودی جیکٹ باندھ لیں اور جو ان سے اتفاق نہ کرے اس سے جینے کا حق چھین لیں ، نیز غیر مسلم مذھبی برادریاں تو دور خود مسلمان کہلانے والوں میں سے بھی جو ان کی جنونیت اور انتہا پسندی کا ساتھ نہ دیں ان مسالک کے ماننے والوں کے بھی ڈیتھ وارنٹ جاری کردئے گئے سوات میں اس وقت تکثیریت کی کوئی بھی علامت چاہے ہو سیاسی جدوجہد پر اصرار ہو ، جاہے جمہوریت و بنیادی انسانی حقوق پر اصرار ہو یا تعلیم جدید پر سب کو ہی "ارتداد " کے مترادف قرار دے دیا گیا طالبانائزیشن نے صرف اسلام کا چہرہ ہی مسخ نہیں کیا بلکہ اس نے پشتون کلچر اور ثقافت کو بھی مسخ کیا اور اس کی وجہ سے پشتونوں کے ایسے جامد سٹیریو ٹآئپ چوکھٹے بنے کہ " لفظ پشتون " ہی دھشت گردی ، انتہا پسندی ، مذھبی جنونیت " کے مترادف ہوگیا ملالہ یوسف زئی نے اس حوالے سے دونوں اسلام اور پختون دونوں کا مقدمہ لڑنے کی سعی کی اور ایک طرح سے یہ پاکستان کا مقدمہ لڑنے کی سعی بھی تھی جو ملالہ یوسف زئی نے کی ملالہ یوسف زئی نے پاکستان کے اندر اسکول جانے سے محروم رہ جانے والی بچیوں کی تعلیم مکمل کرانے اور بچیوں کے اسکولز کے لیے کوششیں کرنے کو اپنا مشن بنایا اور خصوصی طور پر خیبرپختونخوا کی بچیوں کی تعلیم کو فوکس کیا ملالہ یوسف زئی کے والدین ایک اعتدال پسند ، روادار صوفی سنّی ثقافت و مذھبی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والد کے آئیڈیل جناح ، قائد عوام زوالفقار علی بھٹو اور محترمہ شہید بے نظیر بھٹو رہی ہیں اسی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ چونکہ خود اعتدال پسند ،، تکثیریت کے حامل ترقی پسند مسلمان ہیں تو یہی سوچ اور فکر ان کی بیٹی کے اندر بھی منتقل ہوئی اور انھوں نے گل مکئی کو کسی بھی مرحلے پر اس فکر کے ساتھ آگے جانے سے نہیں روکا تو گل مکئی اوائل عمری سے ترقی پسند سوچ کے ساتھ جڑی نظر آئی ملالہ نے جب یہ کام شروع کیا تو اس وقت پورا پاکستانی سماج بالعموم اور سوات کا پختون سماج بالخصوص تکفیری سوچ کی لپیٹ میں تھا اور تکفیری دھشت گردوں کے لیے سوات میں کسی بچّی کا روشن خیالی ،اعتدال پسندی ، رواداری ، صلح کل فکر کے ساتھ منسلک ہوجانا اور اس کے لئے قلم سے جہاد کرنا اور اسکول جانے پر اصرار کرنا بہت بڑا جرم تھا اور اس طرح کی سوچ کو اسلام دشمنی کے ساتھ جوڑنا بہت آسان تھا جبکہ پاکستان کے اندر دانشوروں اور رجحان ساز قلم کاروں ، اینکر پرسنز اور خطیبوں کی شکل میں ایسے لوگوں کی نہ کل کمی تھی اور نہ آج ہے جوکہ تکفیری سوچ کو پورے شدومد کے ساتھ پھیلارہے ہوں اور بارود کو اپنا مذھب قرار دینے والوں کے لیے معذرت خواہی کا کردار ادا کررہے ہوں تو روشنی کے علمبرداروں کو اسلام دشمنوں کا ایجنٹ بتلانا بہت آسان کام بن چکا تھا ملالہ یوسف زئی بھی ایسے تکفیری دانشوروں ، لکھاریوں ، قلم کاروں ، تجزیہ کاروں ، اینکر پرسنز اور ٹیبل نیوز سٹوریز گھڑنے والوں کے پروپیگنڈے کا نشانہ بنی اور اس کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع کی گئی ایک روز جب وہ اسکول وین میں بچیوں کے ساتھ اسکول جارہی تھی تو اس پر تاریکی کی تکفیری قوتون کے نمائندوں نے حملہ کیا اور اپنی طرف سے اس کی زندگی کا چراغ گل کرڈالا اور اس پر حملے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے جو تحریر جاری کی ، اس کے مطابق ملالہ جیسی دھان پان سی لڑکی سے اسلام کو خطرہ لاحق ہوچکا تھا اور وہ اسلام دشمنوں کی آلہ کار بنی ہوئی تھی لیکن ملالہ پر یہ حملہ خود ان تاریکی کی قوتوں کے لیے خودکش اقدام ثابت ہوا ، ملالہ یوسف زئی پر حملے نے کم از کم پاکستان کے ان لاکھوں شہریوں کو تاریکی کی قوتوں کے بارے میں ٹھیک سوچ قائم کرنے کا موقعہ فراہم کردیا جو ابتک ان قوتوں کے مذھبی لبادوں سے دھوکہ کھاکر ان کی مذمت کرنے سے ہچکچاتے تھے اور پاکستان کے اندر نام نہاد طالبنائزیشن کی حقیقت سے زیادہ آشنائی بھی پاکستانی عوام کو حاصل ہوئی ملالہ پختون معاشرے کے لیے ہی نہیں پورے پاکستان کے باسیوں کے لیے ہمت ، سچائی اور حق گوئی کی مثال بنی اور اس ایک بچّی کا اثر اتنا تھا کہ اس نے " ملائیت " اور مذھبی پیشوائیت کو پسپا ہونے پر مجبور کیا ،تبھی تو اس پر ہوئے حملے کو چھپانے اور اس سے پیدا ہونے والی شرمندگی سے بچنے کے لیے ملالہ پر اس حملے کو سرتوڑ کوشش کرکے اسلام دشمنوں کا ڈرامہ قرار دینے کی کوشش ہوئی لیکن آج ملالہ پر حملہ کرنے والے گرفتار ہیں ، ماسٹر مائینڈ عدنان رشید کا معلوم نہیں کہ زندہ ہے کہ مرگیا ملالہ کی ہمت اور حق گوئی کی جہاں عالمی سطح پر تعریف ہورہی تھی اور ہماری منتخب حکومت بھی اس کی بہادری کا اعتراف کررہی تھی تو ایسے وقت میں پاکستان کی قسمت سے کھیلنے والے اور پاکستان کو ہمیشہ سے آزار میں مبتلا دیکھنے کے خواہشمندوں نے ملالہ کے لیے پاکستان میں رہنا مشکل بناڈالا ، وہ جب سے علاج کے لیے باہر گئی ہے اس وقت سے پاکستان میں اس کے خلاف ایک فضاء قائم کی جارہی ہے ،جس میں بہت سارے نام نہاد غیرت مند صحافتی بریگیڈ کے لوگ بھی شامل ہیں آج بھی جب اسے نوبل انعام ملا اور اس نے اوسلو میں اسلام ، پاکستان اور اپنے پختون معاشرے کی وکالت کی تو بھی حبیب اکرم جیسے کئی نام نہاد تجزیہ کاروں کے پیٹ میں بل پڑگئے اور مروڑ اٹھے اور انھوں نے ملالہ کی اس کامیابی کو ماننے سے انکار کیا اصل میں ملالہ کے حامی اور ملالہ کے مخالف پاکستانی سماج کے اندر دو ایسے مکاتب فکر کے درمیان فکری جدال کی نشاندھی کرتے ہیں جو پاکستان بننے سے قبل اور 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہی سامنے آگئے تھے ایک مکتبہ فکر وہ ہے جس کی نمائندگی سرسید ، غالب ، مولانا الطاف حسین حالی ، شبلی نعمانی ، سید امیر علی ، اقبال ، جناح ، مولانا حسرت موہانی ، دادا امیر حیدر ، فیروز الدین منصور ، سبط حسن ، صفدر میر ، ڈاکٹر فضل الرحمان ، خلیفہ حکیم وغیرہ کررہے تھے اور اس مکتبہ فکر کا سیاسی اظہار آل اںڈیا مسلم لیگ ، انجمن ترقی پسند تحریک ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے ترقی پسند جمہوری زعماء ، آزاد پاکستان پارٹی ، کمیونسٹ پارٹی ، نیشنل پارٹی ، عوامی لیگ وغیرہ کی شکل میں ہوا اور اسے ہم جدیدیت پسند طبقہ اور ماڈرن مسلم ذھن کا نام دے سکتے ہیں جبکہ دوسرا مکتبہ فکر وہ تھا جس نے جدیدیت کو من حیث الکل رد کیا اور دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء جیسے اداروں کی بنیاد رکھی اور جمعیت العلمائے ہند ، مجلس احرار جیسی جماعتیں بنوائیں اور مسلم آبادی میں قدامت پرست ، رجعت پسند زھن کی نمائندگی کی اور اسی کے اندر سے زیادہ شدت پسند ، زیادہ فاشسٹ رجحان بھی برآمد ہوئے جیسے جماعت اسلامی ، سپاہ صحابہ پاکستان اور آگے چل کر اسی رجحان کے اندر سے تکفیری دھشت گرد فکر کا جنم بھی ہوا جس کی ملالہ نشانہ بنی پاکستانی ریاست اور سماج 80 ء کی دھائی سے اس رجعت پسند ، مذھبی جنونیت اور انتہا پسند رجحان کے قبضے میں جکڑا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اس کی معاشی ، سماجی ، سیاسی ترقی اور ارتقاء کا سفر تعطل کا شکار نظر آتا ہے اور ستم در ستم یہ ہے کہ پاکستان کی تشکیل کی جن لوگوں سے سرتوڑ مخالفت کی تھی اور وہ پاکستان کے قیام کے پس پردہ کارفرما آئیڈیالوجی سے متفق نہ تھے ،وہی اس ملک کی ںظریاتی سرحدوں کے محافظ ہونے کے دعوے دار بنکر سامنے آگئے ہیں اور بندوق و خودکش جیکٹوں کے ساتھ اس کا نفاذ چاہتے ہیں اور جو ان کو بے نقاب کرے اس کا پاکستان کے اندر رہنا ناممکن بناڈالتے ہیں پاکستان کی ریاست اور یہاں کی عوام کے لیے اصل چیلنچ ہی یہی ہے کہ آیا وہ قائد اعظم محمد علی جناح ، اقبال و سرسید کی جدید مسلم ذھنیت پر مبنی فکر کو پروان چڑھانے والوں کی جلاوطنی کا سفر ختم کراکے ان کو پاکستان میں لاکر اپنا مےستقبل روشن کرنا چاہتے ہیں یا پھر ملالہ کی طرح اس فکر کے حامل لوگوں کو دیس نکالا دیتے رہیں گے پاکستان میں جہالت کو ختم کرنا اور تعلیم کی روشنی پھیلانے کا کام کرنا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا ہے ، اقبال احمد پاکستان خلدونیہ یونیورسٹی قائم کرنے آئے تھے تو ان کے ساتھ کیا حشر کیا گیا ، اسلام آباد پریس کلب میں ان کی پریس کانفرنس کے دوران ہی ایک مذھبی طلباء تنظیم کے غنڈوں نے دھاوا بول دیا ، عبدالسلام پاکستان کے اندر ‌فزکس کی بین الاقوامی تعلیم ممکن بنانے کے لیے مدد دینے والا انسٹی ٹیوٹ قائم نہ کرسکے اور ملالہ کے عزم کو بھی تاریکی کی قوتوں سے خطرہ لاحق ہے ، سویڈن میں جس طرح سے عبداسلام کے قائم کردہ انسٹی ٹیوٹ سے بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے غریب اور متوسط طبقے کے طلباء زیادہ فائدہ اٹھارہے ہیں مجھے خطرہ ہے کہ ملالہ کو ملنے والی بین الاقوامی تعلیمی امداد کا زیادہ حصّہ بھی پاکستان کی بجائے دنیا کے دوسرے حصوّں میں صرف نہ ہونے لگے ، ہم سب کو رجعت پسندی اور تاریک خیالی کے خلاف محاز بنانا ہوگا

1 comment:

  1. Excellent point of view! I am hopeful that Mulala will be back in Pakistan. Extremism is about to end.

    ReplyDelete