بینش پرویز پشاور آرمی اسکول میں پانچویں کلاس کے بچوں کو ّپڑھانے پر مامور تھی ، وہ ایک میجر رینک کے آرمی افسر کی بیوی اور دو بچوں کی ماں تھی اور اسے تدریس کا جنون تھا اور اسی جنون کی تشفی کے لیے وہ آرمی پبلک اسکول میں ننھے منّے بچوں کو پڑھانے پر مامور تھی
سولہ دسمبر 2014ء کی صبح بھی اپنے اسی جنون کے ساتھ وہ وارسک روڈ پشاور پر بنے آرمی پبلک اسکول آئی اور اپنی کلاس کو پڑھانے ان کے کمرے میں آگئی اور بچوں کو پڑھانے میں مشغول ہوگئی کہ اتنے میں زور دار فائرنگ اور دھماکے شروع ہوگئے ، اس نے بچوں کو ڈیسکوں کے نیچے پناہ لینے کو کہا اور اس انتہائی مصیبت اور خوف کی گھڑی میں بھی وہ بچوں کو نہ ڈرنے کی تلقین کرتی رہی کہ اسی دوران دو دھشت گرد کلاس روم میں داخل ہوئے اور انھوں نے جب ڈیسکوں کے نیچے چھپے بچوں کو مارنا شروع کیا تو بینش سے برداشت نہ ہوا اور وہ بے اختیار ان دھشت گردوں پر چھپٹی ، ایک کمزور ، نہتی ، کتاب ، کاپی ، پنسل سے شغف رکھنے والی استانی کی یہ جرات اور ہمت ان دھشت گردوں کو پسند نہيں آئی ، وہ غضب ناک ہوگئے اور انھوں نے سوچا کہ اسے ایسا سبق دیں کہ پھر کوئی اس طرح کی ہمت نہ کرے تو انھوں نے بینش پرویز کو قابو کیا اور اسے زندہ جلادیا
طاہرہ قاضی جوکہ اس بدنصیب اسکول کی پرنسپل تھیں ، ان کے پاس موقعہ تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہوجاتیں لیکن انھوں نے اپنے اسکول کے بچوں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور انھوں نے بھی جرات و ہمت سے دھشت گردوں کو للکارا اور ان کو بھی دھشت گردوں نے شہید کردیا
دھشت گردوں نے معصوم بچوں کے سر اور آنکھوں میں سیدھی گولیاں ماریں تاکہ بچنے کا امکان نہ رہے ، ان کی کتابوں ، کاپیوں کو آگ لگادی اور ایک کلاس روم ہے جس کے قالین پر فزیالوجی کی ایک کتاب پڑی ہے ، جس کو شیلف سے نکال کر دھشت گردوں نے زمین پر پھینکا ، جگہ جگہ کتابیں پھی ہوئی ، جلی ہوئی پڑی ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے ان دھشت گردوں کو سب سے زیادہ غصّہ ان ہی کتابوں پر تھا اور انھوں نے اپنی نفرت کو ان کی تباہی میں اظہار کی صورت بھی دے ڈالی
آڈیٹوریم جہاں دھشت گرد سب سے پہلے گئے اور قتل عام کیا ، وہاں پر ایک گری ہوئی کرسی کے نزدیک ایک خون آلود پیپر پڑا ہوا ہے اور اس پر کہیں پنسل دھری ہے اور یوں لگتا ہے کہ جب اس کرسی پر بیٹھے بچے کو گولی لگی تو اس کے پاس موجود پیپر پہلے گرا اور پھر اس کے لہو نے اس سفید کاغذ پر لال رنگ سے اپنی بے گناہی کو نقش کیا اور پھر پنسل بطور مہر اس پر گرگئی
کتاب ، پنسل اور اس سے جنم لینے والے افکار تازہ سے تاریک گروں کا ڈرنا بہت پرانا ہے اور یہ وہ ڈر ہے جس میں یہ بیٹھ جاتا ہے وہ اس قدر جنون و پاگل پن کا شکار ہوتا ہے کہ اپنے ڈر کو کم کرنے کے لیے سماج کے سب سے کمزور سیکشن پر حملہ آور ہوتا ہے ، بربریت دکھاتا ہے
امین مالوف نے " سمر قند " کے نام سے جو ناول لکھا ہے ،اس میں سمرقند کو " علم کی روشنی " سے خوفزدہ شہر دکھاتے ہوئے کئی اہل علم کو تاریک خیالوں کی بربریت کا شکار ہوتے دکھاتا ہے اور ایک منظر دکھاتا ہے کہ کیسے بوعلی سینا کہ شاگرد جابر کو سمرقند کے ایک چوک لوگوں کے درمیان گھرا اور اس کے ساتھ انتہائی برا سلوک ہوتے دکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کیسے اس زمانے میں سائنس ، طب ، فزکس ، بائیولوجی ، فلسفہ ، فلکیات سب ہی ارتداد کی نشانی قرار دے دی گئیں تھیں اور ان کے ساتھ شغف رکھنے والا اگر مرجاتا اور اس کے بعد انکشاف ہوتا اس شغف کا تو اس کی قبر کھود دی جاتی اور ہڈیاں نکال کر آگ لگادی جاتی
ابن رشد کو قرطبہ کی جامع مسجد کے دروازے پر فلسفہ سے شغف رکھنے کی بنیاد پر باندھ دیا گیا اور جمعہ پڑھ کر نکلنے والے کو حکم تھا کہ اس کے سر پر دو جوتے ماریں
تو یہ علم ، کتاب ، پنسل ، روشن خیالی سے نفرت اور دشمنی کا سبق جب پختہ ہوگیا تو ایک دن اس وقت کے سب ہی بڑے ترقی یافتہ مسلم شہروں کے اندر فلسفیوں ،باغی شاعروں ، میڈیسن کے ماہرین ، سائنس دانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا اور شیعہ و سنّی ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے لگے اور اسی افتراق نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجوادی اور ہلاکو نے یہاں انسانی کھوپڑیوں کا مینار تعمیر کیا
پشاور آڈیٹوریم کے قالین پر پڑی فزیالوجی کی کتاب اور اس سے تھوڑے سے فاصلے پر سرخ قالین کو (مزید سرخ بناتا) پڑا ہوا سرخ و تازہ خون دھشت گردوں کی ذھنیت ، ان کی سوچ کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے
اسکول میں دھشت گردوں نے بارودی سرںگیں بچھائیں اور یہ پیغام دیا کہ انھیں درس گاہ سے نفرت ہے اور ان کو تو مساجد اور ان مدارس سے بھی نفرت ہے جو ان کی تکفیری سوچ سے متفق نہیں ہیں اور سب سے بڑھ کر انھوں نے معصوم بچوں کی آنکھوں میں گولیاں مار کر ثابت کیا کہ وہ تو بچوں کی آنکھوں سے جھلکنے والی معصومیت سے خوفزدہ ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ مذھبی جنونیوں کا جنون اس خوف کی پیداوار ہے جو ان کو روشن گر چہرے سے آتا ہے
No comments:
Post a Comment