Thursday, October 30, 2014

خالد احمد اور ان کی کتاب " فرقہ وارانہ جنگ " - خالد احمد کہاں غلط ہیں ؟


خالد احمد جوکہ پاکستان کے ایک نمایاں انگریزی میں لکھنے والے سیکولر ، لبرل کالمسٹ شمار ہوتے ہیں ، انھوں نے ایک کتاب " فرقہ وارانہ جنگ - پاکستان کی شیعہ - سنّی لڑائی اور اس کے مڈل ایسٹ سے رشتے " لکھی ہے یہ کتاب خالد احمد نے ووڈرو ولسن سنٹر جوکہ واشنگٹن میں کامیاب ایک امریکی تھنک ٹینک ہے میں اپنے قیام کے دوران لکھی اور ان کا یہ قیام 2006ء میں تھا اس وقت اس سنٹر کے ڈائریکٹر لی ایچ ہملٹن تھے جنھون نے 2006ء میں " عراق اسٹڈی گروپ رپورٹ " مرتب کرنے والی کمیٹی کی سربراہی بھی کی تھی جبکہ لی ایچ ہملٹن آج کل ہوم لینڈ سیکورٹی ایڈوائزی کونسل آف امریکہ کا رکن ہے ، اس سے پہلے وہ امریکی ایوان نمائیندگان کا رکن بھی رہا اور اسی طرح اس کے پاس امریکی سینٹ میں انٹیلی جنس کمیٹی اور فارن ریلیشن کمیٹی کی سربراہی بھی رہی اور وہ نائن الیون کے حوالے سے بننے والے امریکی تحقیقاتی کمیشن کا رکن بھی تھا ، سیاسی طور پر وہ امریکی حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور اوبامہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ لی ایچ ہملٹن کے خیالات جو ان کی تحریروں سے مترشح ہوتے ہیں وہ ایران کے حوالے سے خاصے متعصب ہیں اور لی ایچ ہملٹن مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر دھشت گردی کا بنیادی سبب انیس سو اناسی میں ایران میں آنے والے انقلاب اور آیت اللہ خمینی کے برسراقتدار آنے کو ٹھہراتا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہی خیالات خالد احمد کی کتاب کے مسودے پر نظرثانی کرنے والی سابق امریکی سفیر اور اس وقت ووڈرو ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر رابرٹ ایچ میتھوے کے بھی ہیں خالد احمد بھی اپنی کتاب کا جب آغاز کرتے ہیں تو وہ مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص فرقہ وارانہ تناؤ اور دھشت گردی کے ظہور کا سب سے بنیادی سبب ایرانی انقلاب کو قرار دیتے ہیں مجھے اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ کتاب ایک غیر جانبدارانہ ، معروضی بنیادوں سے زیادہ اور ایک پاکستانی کے تناظر سے کہیں زیادہ امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سنٹر کے تناظر میں اور امریکہ کے مڈل ایسٹ پر بنے ہوئے خارجہ و سیکورٹی پالیسی بیانات کی روشنی میں لکھی گئی ہے خالد احمد نے اپنی اس کتاب میں پاکستان اور مڈل ایسٹ میں فرقہ وارانہ تنازعہ کو نظری اور سماجی -معاشی ، سماجی - سیاسی دونوں طرح سے دیکھنے کی جو کوشش کی ہے وہ مجھے امریکہ کے اندر اس لابی کے زیادہ زیر اثر لگتا ہے جو اس سارے معاملے کو ایران - سعودیہ جیو پالیٹکل سیاسی مفادات کے ٹکراؤ اور نظری طور پر اسے شعیہ - سنّی جنگ کی عمومی اصطلاح میں بیان کرکے دیکھنے پر زیادہ زور دیتی ہے اگرچہ خالد احمد پاکستان میں شیعہ - سنّی تنازعہ پر بات کرتے ہوئے اسے دیوبندی - شیعہ لڑائی کے طور پر بھی بیان کرتے ہیں لیکن وہ اس ایشو کو اپنے آخری نتیجے میں سعودی عرب - ایران لڑائی کے تناظر میں زیادہ دیکھتے ہیں لی ایچ ہملٹن کا ایک تازہ مضمون امریکی جریدہ فارن پالیسی میں میری نظر سے گزرا ہے جس میں حیران کن طور پر انھوں نے عراق میں حالیہ داعش کے ظہور ، شیعہ - وہابی دیوبندی تکفیری تصادم اور دھشت گردی میں سعودیہ عرب ، وہابی دیوبندی تکفیری نظریات ، عرب وہابی بادشاہتوں کی مداخلت اور ترکی وغیرہ کے کردار کو بالکل ڈسکس نہیں کیا ، انھوں نے مالکی کی متعصبانہ پالیسی اور کاروائی کو تو بحث کا موضوع بنایا لیکن سعودیہ عرب کے کردار کا تذکرہ تک کرنا پسند نہیں کیا اور بلکہ وہ تو مڈل ایسٹ میں عراق والے معاملے پر ڈپلومیسی کی اصطلاح کے ساتھ داعش کو بس کنٹرول کرنے کا مشورہ دیتے نظر آئے نہ کہ اس کے مکمل خاتمے کے حامی نظر آئے ووڈرو ولسن سنٹر کے مڈل ایسٹ پر میں پالیسی بریف پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ لی ایچ ہملٹن کی ڈائریکٹر شپ اور صدارت کے زمانے میں جوکہ 2010ء تک رہی ووڈرو ولسن ایرانیوں سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کی پالیسی کا حامی نہیں تھا جبکہ وہ عرب میں وہابی سلفی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جوکہ مصر ، تنزانیہ ، لیبیا میں غالب آتے دکھائی دے رہی تھیں بات چیت اور تعلقات بڑھانے کا حامی دکھائی دیتا تھا اور وہ ان کے لیے وہابی سلفی جماعتوں کی بجائے پولیٹکل اسلامسٹ پارٹیوں کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور عرب ملکوں میں سنّی اسلام میں وہابی اسلام کو سنّی عربوں کی اکثریتی حمائت کا حامل قرار دیتا ہے خالد احمد کی کتاب میں عرب دنیا میں سنّی حلقوں میں بھی اکثریتی حمائت وہابی پویٹکل اسلام کے ساتھ دکھائی گئی ہے اور سعودیہ عرب کو سنّی اسلام کا علمبردار بتایا گیا ہے خالد احمد نے 2006ء میں جب یہ کتاب لکھی تھی تو اس زمانے میں عام تاثر یہ تھا کہ امریکہ شاید ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے اور امریکی سیاسی ، صحافتی حلقون میں ایران کے حوالے سے سخت خیالات بہت زیادہ دیکھے جارہے تھے اور سعودیہ عرب کے حوالے سے فضاء اس قدر معاندانہ نہیں تھی اور اس خاص فضا کا اثر اس کتاب میں بیان کئے گئے خیالات پر بھی ںظر آتا ہے مجھے ایسے لگتا ہے کہ امریکہ کی طرف دیکھنے والے بہت سے پاکستانی لبرل ، سیکولر ڈیموکریٹ دانشور ، صحافی اور سول سوسائٹی کے لوگ ابھی تک اسی فضاء میں سانس لے رہے ہیں جبکہ امریکی حکومت اور اس کے تھنک ٹینکس میں مڈل ایسٹ میں ایران اور شیعہ کمیونٹی کے کردار بارے پالیسی خیالات میں آہستہ ، آہستہ تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے اور سعودیہ عرب کے حوالے سے اب صورت حال وہ نہیں ہے جو 2006ء میں تھی پاکستان کے اندر شیعہ ، صوفی سنّی ، کرسچن ، احمدی ، ہزارہ شیعہ اور ہندؤں کے خلاف دھشت گردی ، انتہا پسندی ، امتیاز اور تعصب جیسے معاملات کی فکری بنیادوں اور ان کی سماجی مادی بنیادوں پر امریکی ، روسی ، سعودی ، ایرانی ، فرانسیسی اور خود پاکستانی ریاست کی آفیشل خارجہ و سیکورٹی پالیسی نظریات سے آزاد اور زیادہ معروضی ، زیادہ غیرجانبدارانہ ریسرچ اور تحقیق پر مبنی کام کی انتہائی کمی ہے اور پاکستان کے اندر جو لبرل ، سیکولر ، جمہوری ہونے کے دعوے دار دانشور ، صحافی ہیں وہ بدقسمتی سے ان اثرات سے خود کو آزاد نہیں کراپارہے وہابی -دیوبندی فاشسٹ آئیڈیا لوجی جوکہ اس وقت کے سیاسی اسلام اور جہادی اسلام کی بنیاد ہے اس کے تاریخی سماجی اظہار اور مشہود ہونے کی ٹھیک ٹھیک عکاسی ان اثرات کے غالب ہونے کی وجہ سے اوجھل ہوجاتی ہے اور اس میں شیعہ تو متاثر ہوتے ہی ہیں لیکن خود سنّی اسلام کا سب سے بڑا صوفی اظہار بھی متاثر ہوتا ہے اور وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے اور اسے سیاسی ، صحافتی اظہار کے مرکزی دھارے میں بہت کم جگہ ملتی ہے خالد احمد نے شیعہ کی تکفیر کی تاریخی جڑوں کی تلاش کرتے ہوئے برصغیر میں مغل دور کے اندر خاص طور پر دو شخصیات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور ان میں ایک شیخ احمد سرہندی ہیں اور دوسرے شاہ ولی اللہ ہیں شیخ احمد سرہندی کو ڈسکس کرتے ہوئے ،خالد احمد دھلی کے ہی ایک اور سنّی عالم جن کو مغل طور میں شیخ احمد سرہندی سے کہیں زیادہ مغل دربار میں اور دھلی اور اس کے گردونواح میں سنّی مسلمانوں کے اندر عزت و احترام اور بلند رتبہ مقام حاصل تھا نظر انداز کرگئے یا ان کو اس کے بارے میں پوری معلومات نہیں تھی شیخ احمد سرہندی سے تنازعہ صرف شیعہ کا نہیں تھا بلکہ ان کا تنازعہ اس وقت کے چاروں سنّی سلاسل طریقت اور سنّی علماء کی اکثریت کے ساتھ تھا اور شیخ احمد سرہندی کے مقابلے میں اس شخصیت کا دھلی پر اثر زیادہ تھا یہ شخصیت شیخ عبدالحق محدث دھلوی کی تھی اور انھوں نے شیخ احمد سرہندی کے نظریات سے اختلاف کیا اور اس وقت کے سنّی صوفی علماء کی اکثریت نے شیخ احمد سرہندی کے خیالات کو مسترد کردیا تھا اور انھوں نے لفظ شیعہ پر کفر کا اطلاق کرنے سے بھی انکار کیا تھا اس لیے یہ کہنا کہ شیخ احمد سرہندی کے نظریات کو مغلوں کے دور میں مکمل غلبہ سنّی کمیونٹی میں ہوگیا تھا درست نہیں ہے اور اورنگ زیب کے دور میں سنی علما کے اندر تصوف کے خلاف وہابی رجحان اور شیعہ مخالف رجحان کے غالب آنے کے تصور کو خود ہندوستانی مورخین جن میں پروفیسر حبیب ، عرفان حبیب ، ستیش آنندی وغیرہ نے چیلنج بھی کیا ہے اور نظری اعتبار سے سلاطین دھلی کے نظریات اور روش کیا تھی اس پر خلیق انجم نے ضغیم کتاب لکھی جس میں اس تاثر کی نفی کی ہے کہ مغلیہ دور سے قبل کے سلاطین دھلی کے نظریات بھی سیکولر تھے میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پکچر اتنی سادہ نہیں ہے جتنی بناکر دیکھنے کی کوشش خالد احمد نے اس کتاب میں کی ہے اور اس کی وجہ مجھے ان کی رسائی ہندوستان کی تاریخ کے فارسی اور عربی اور جدید ہندوستانی مورخوں کی تحریروں سے دوری بھی نظر آتی ہے اور اس کی ایک وجہ خود ووڈرو ولسن سنٹر کی جانب سے تحقیق کا پالیسی پیٹرن بھی نظر آتا ہے ان ماخذ سے دوری کی وجہ سے خالد احمد نے شاہ ولی اللہ کے بارے میں شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوہاب نجدی ، شاہ اسماعیل دھلوی اور سیداحمد بریلوی کے نظریات سے متاثر ہونے والے دیوبندی ، وہابی اور جماعت اسلامی کے حامی دانشوروں کی تحقیقات کو ہی ٹھیک مان لیا ہے ، جنھوں نے شاہ ولی اللہ کو شیخ احمد سرہندی کی طرح برصغیر میں شیعہ کی تکفیر پر مبنی نظریہ سازی کا امام قرار دینے کی کوشش کی اور اس باب میں انھوں نے شاہ ولی اللہ کے نام سے کچھ کتابیں تک گھڑ لیں شاہ ولی اللہ کے بارے میں خالد احمد نے فیوض الحرمین میں ان کے ایک مکاشفہ سے جس میں انھوں نے روح محمدی کے ان کے خواب میں آنے اور ابوبکر و عمر پر علی کو افضلیت نہ دینے کا فرمان جاری کرنے کا واقعہ بیان ہوا ہے کو اس بات کی دلیل بنایا کہ شاہ ولی اللہ شیعہ کی تکفیر کے قائل تھے اور پھر انھوں نے قرۃ العنین نامی کتاب کو ان کی طرف نسبت کو ٹھیک بغیر کسی دلیل سے دے ڈالا جبکہ ان سے شیعہ کی تکفیر تو خود تکفیر کرنے والے دیوبندیوں نے منسوب نہیں کی تھی شاہ عبدالعزیز نے جب اپنی کتاب " تحفۃ الشعیہ " لکھی تھی تو اس میں انھوں نے بہت سی ایسی رسومات اور طریقوں کو بھی شیعی رسوم و طریق لکھا تھا جو کہ خود اہل سنت کے اندر صدیوں سے رائج تھے ، جس پر اس وقت کے علمائے دھلی ، رامپور ، بدایوں اور فرنگی محل لکھنؤ نے بھی اعتراضات کئے اور قاضی فیض اللہ بدایونی نے تو اس پر ایک پوری کتاب لکھی شاہ ولی اللہ شیعہ اور سنّی تنازعے کو کم کرنا اور دونوں کے درمیان اتحاد کی بنا تلاش کرنے کی جانب زیادہ راغب تھے اور انھوں نے تصوف میں بھی خود کو وحدت الوجودی صوفی کے طور پر متعارف کروایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ عبیداللہ سندھی نے جب شاہ ولی اللہ کی فکر کو ایک باقاعدہ مکتبہ فکر کی شکل دی تو انھوں نے اسے وہابی ،پیورٹن مکتبہ فکر نہیں بنایا تھا اور نہ ہی ان کے ہاں شاہ ولی اللہ شیعہ مخالف کوئی لیڈر یا نظریہ ساز بنکر ابھرے تھے خالد احمد اس حوالے سے شاہ ولی اللہ کو شیعہ کے خلاف تکفیری عمارت کا معمار ہونے والے نکتہ نظر کی جو تائید کرتے ہیں ، اس کا ثبوت شاہ ولی اللہ کی کتب اور سوانح عمری سے نہیں ملتا ، جو انھوں نے خود لکھی اور ایک ان کے کزن عاشق اللھی نے لکھی یہ درست ہے کہ دیوبندی اور اہلحدیث کے حلقوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیعہ اور تصوف کے ساتھ معاندانہ رویہ تکفیر میں بدلتا چلا گیا اور اسی کی دھائی میں یہ ایک پوری تحریک کی شکل میں شیعہ کے خلاف زیادہ اعلانیہ اور صوفی سنّیوں کے بارے زرا کم شدت کے ساتھ سامنے آیا اور 90ء سے تادم تحریر دونوں کے خلاف فکری اور عملی سظح پر پرتشدد ، عسکریت پسند اور ہنگامہ خیز صورت میں سامنے آگیا

Tuesday, October 28, 2014

بہار عرب - شیعہ - سنّی جنگ نہیں ، فرقہ پرست سیکولر ٹولے سے ہوشیار باش - پہلا حصّہ


بیداری عرب تحریک
جوزف دھر مصنف آرٹیکل
انقلاب شام اور بہار عرب - فرقہ پرست لیفٹ اور سیکولر اسے پڑھ لیں - پہلا حصّہ جوزف دھر /ترجمہ و تلخیص عامر حسینی جوزف دھر جوکہ شام میں انقلابی تحریک کے ایک سرگرم دانشور رہے ہیں انقلاب شام کے بارے میں ابتک گردش کرنے والے سوالات کے جوابات دینے کے لیے انھوں نے اپریل 2014ء میں یہ مضمون لکھا تھا اور یہ چار قسطوں میں مضمون شایع ہوا ، میں اس کے لیے سرتاج خان کامریڈ کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اس مضمون کا لنک بھیجا مڈل ایسٹ پر اس سے پہلے میں پیٹرک کوک برن اور طارق علی کا ایک باہمی مکالمہ درج کرچکا ہوں اور جس میں مجھے طارق علی کا القائدہ ، داعش سمیت وہابی تکفیری دھشت گرد تنظیموں کے بارے میں موقف تضاد سے بھرا ہوا لگا اور اسے انھوں نے وہابی دیوبندی مظہر کی بجائے سنّی سامراج مخالف مزاحمت بناکر پیش کیا جبکہ ان کے ساتھ مکالمہ کرنے والے پیٹرک کوک برن کا تجزیہ خاصا متوازن تھا مڈل ایسٹ کی صورت حال کو شیعہ - سنّی لڑائی بناکر پیش کرنے والے شارحین کی ہمارے ہاں کمی نہیں ہے ، اب اس میں کچھ ملحدین اور سیکولر کہلانے والے بھی کود پڑے ہیں ، وہ اس معاملے کو مذھبی بلکہ دیوبندی ، وہابی عینک سے دیکھ رہے ہیں اور اس بنیاد پر ہی پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی کے سوال پر خاصا متعصب اور نفرت انگیز موقف پیش کرنے میں مصروف ہیں ، کچھ مارکسسٹ بھی اس سوال پر فوری طور پر دیوبندی بن جاتے ہیں شام کے انقلاب کو بہت سے لوگ ابتک جیو پالیٹکل یا فرقہ وارانہ اصطلاح میں تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اس انقلاب کی زمین پر جو سماجی - معاشی حرکیات تھیں اس کو انھوں نے نظر انداز کیا ہے - مغرب کی جانب سے مداخلت کے خطرے نے شام کے معاملے کو دو کیمپوں کی باہمی مخالفت بناڈالا ، یعنی ایک طرف تو مغربی ریاستیں اور عرب بادشاہتیں تو دوسری طرف ایران ، روس ، حزب اللہ ہیں اور انھی دو کیمپوں کے درمیان لڑائی کی روشنی میں شام کے انقلاب کی تشریح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جوزف ڈاہر کہتا ہے کہ وہ ان دو کیمپوں میں سے کسی ایک کو بھی چننے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اور ہم کمتر برائی کے تصور کو رد کرتے ہیں جوکہ شام کے انقلاب کو مکمل طور پر کھودینے کا سبب بنے گی اور اس انقلاب کا مقصد فوت ہوجائے گا ، جوکہ جمہوریت ، سماجی انصاف اور فرقہ پرستی کو رد کرنا تھا جوزف ڈاہر کہتا ہے کہ مغرب اور مڈل ایسٹ کا مین سٹریم میڈیا ، مغربی و علاقائی حکومتیں ہمیں اس بات پر یقین کرنے کو کہہ رہی ہیں کہ شام کا انقلاب ختم ہوچکا ہے اور اب یہ سنّی اکثریت اور مذھبی و نسلی اقلیتی گروہوں کے درمیان جنگ میں بدل چکا ہے - یہ اب سوائے فرقہ وارانہ جنگ کے اور کچھ بھی نہیں ہے - یا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ اب یہ انقلاب اسد حکومت اور جہادیوں کے درمیان لڑائی میں بدل چکا ہے اور آخرالذکر میں وہ دائیں بازو اور کم معلومات رکھنے والے سامراج مخالف لوگ ہیں جو اسد کو جہادیوں سے کم برائی خیال کرتے ہیں اور جوزف ڈاہر کے خيال میں ہمیں ان دونوں طرح کے خیالات کی تردید کرنی چاہئیے جوکہ اصل میں شام کے اندر آمرانہ نظام کو قائم کرنا چاہتے ہیں نوٹ : میرے نزدیک طارق فتح ، ایاز نظامی ، حسین حقانی سمیت بہت سارے لوگ مغربی اور عرب بادشاہتوں کے اسی کمیپ کے ہمنواء لگتے ہیں جو شام کو شیعہ - سنّی جنگ میں بانٹ کر دیکھتے ہیں اور بہار عرب کو مردہ قرار دیکر اس کے شیعہ - سنّی جنگ میں بدل جانے کی بات کرتے ہیں جوزف ڈاہر کے خیال مین صرف دائیں بازو کے اندر ہی شام کے انقلاب کے ہائی جیک ہونے کی وجہ سے مردہ ہوجانے کا خیال رکھنے والے ہی نہیں پائے جاتے بلکہ اس میں لیف کا ایک سیکشن بھی شامل ہے جس نے ابتداء میں اس انقلاب کی حمائت کی تھی مثال کے طور پر طارق نے یہ اعلان کیا ہے کہ عرب بہار کی تحریک پر اب اخوان المسلمون ، دیگر دائیں بازو کے گروپوں ، قطر اور سعودیہ عرب کا قبضہ ہوچکا ہے اور اسد سے باغی ہونے والوں پر ترکی اور فرانس والے غالب آچکے ہیں ، اس لیے انقلابی ابھار کی نوعیت ابتدائی پہلے 12 ماہ میں بدل چکی ہے - اس کی ںطر ميں کوئی اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے ؟ متحارب فوتوں کے درمیان اس وقت جو رشتے ہیں وہ کسی بھی سیکولر یا ترقی پسند گروپ کے حق میں ںظر نہیں آتے - اس حقیقت سے انکار کرنا طارق علی کی نظر میں یا تو ابہام کی وجہ سے اندھا ہوجانا ہے یا پھر لیفٹ سیاست کے اندر موجود داخلی فرقہ پرستی کا تقاضہ ہے جوزف کہتا ہے کہ حالات کتنے ہی ناموافق ہوں شام اب واپس اس دور جبر وظلم میں نہیں جائے گا جو اسد کے خلاف بہار شام سے پہلے تھا اور نہ ہی جبر وستم کی دوسری شکلوں پر مبنی کوئی ںظام شام پر مسلط کیا جاسکے گا - حل اور متبادل صرف بہار شام کو جاری و ساری رکھنے میں ہے - اور بہار شام کا یہ نعرہ اب بھی افادیت رکھتا ہے کہ زلّت کی زندگی جینے سے مرجانا اچھا ہے جوزف ڈاہر نے اپریل 2014ء میں واضح طور اسلامی رجعتیوں ( وہابی دیوبندی دھشت گردوں ) کے بارے میں بہت واضح طور پر کہا تھا کہ ہمیں اسلامی رجعت پرست گروپوں کے بارے میں بہت واضح ہونا ہوگا کہ یہ گروہ انقلاب کے سخت خطرہ ہیں اور اگر وہ انقلابیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ جس طرح سے بھی ہو ان کو چیلنج کرنا پڑے گا ہمیں ان انقلاب کے دشمنوں اور ردانقلابی رجعت پسند گروپوں کی مخالفت کرنا ہوگی اور ایک تیسرا انقلابی محاذ بنانا ہوگا جوکہ انقلاب کے مقاصد کے لیے جدوجہد کرے - یعنی وہ جمہوریت ، سماجی انصاف کے قیام اور فرقہ پرستی کو مسترد کرنے کے لیے کام کرے انقلابی کا کام ان مقبول عوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرنا ہے جوکہ آزادی ، وقار اور جس حد تک ممکن ہوسکے ترقی پسند مقاصد کے لیے تحریک کو متحرک کرنے کے لیے کام کررہی ہوں جبکہ وہ موقعہ پرستوں ، رجعتی طاقتوں کے خلاف برسرپیکر ہوں جوکہ عوامی مقبول طبقاتی مفادات کی مخالفت کررہی ہیں جوزف ڈاہر کہتا ہے کہ اس کی ںظر میں کسی بھی طرح کا حل اس وقت تک شام میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ جمہوری اور سماجی دونوں مسائل کو اکٹھے حل کرنے پر یقین رکھتا ہو - سماج مطالبات کو جمہوری مطالبوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان جمہوری مطالبات کے تابع رکھا جاسکتا ہے بلکہ وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں فرانسیسی مارکسی دانشور نے ایک مرتبہ لکھا تھا آئیں ہم یہ دیکھیں کہ عظیم ترین مارکسی نظریہ سازوں نے بورژوا رجیم / سرمایہ دارانہ حکومت کی سیاسی ساخت کی تشریح اس موقف سے جانچنے کی کوشش سے نہیں کی جوکہ وہ بوژوا رجیم خارجہ پالیسی کے میدان میں رکھتا ہے بلکہ انھوں نے تو اس کی سیاسی ساخت کی تشریخ اس موقف کی روشنی میں کی جو کہ یہ اس قوم کی طبقاتی ترکیب میں اپنے رشتے کی مناسبت سے رکھتا ہے جوزف ڈاہر کے خیال میں شامی انقلاب کے پروسس کی جڑیں جمہوریت کا نا ہونا اور نیو لبرل پالیسیوں کی وجہ سے سماجی بے انصافی میں اضافے کے اندر پیوست ہیں اور خاص طور یہ پالسیاں بشار الاسد کے 2010ء میں اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ تیزی سے نافذ کی گئیں حافظ الاسد جب اقتدار میں آیا تو شام کے اندر ایک نئے دور کا آغاز ہوا جہاں پر مقبول عوامی تنظیمیں بشمول ٹریڈ یونین سے لیکر پروفیشنل ایسوسی ایشن اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں تک زبردست جبر کے بعد حکومت کے کنٹرول میں آگئیں ، ڈاکٹرز ، وکلاء ، انجنئیرز اور فارما سیوٹکیلز کی تنظیموں کو 1980ء میں تحلیل کردیا گيا تھا اور یہ وہ مرکزی تنظیمیں تھیں جوکہ جمہوری آزادیوں کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہی تھیں اور ایمرجنسی اٹھانے کے لیے کوشاں تھیں -ان کی دوبارہ تشکیل نو کی گئی اور ان کے مقبول لیڈروں کو ہٹاکر اپنے کٹھ پتلی لیڈر لائے گئے حافظ الاسد نے سکول سسٹم میں بنیادی طور پر ان اساتذہ کو نشانہ بنایا جوکہ 1970ء کی دھائی میں لیفٹ کے مختلف رجحانات سے تعلق رکھتے تھے اور تیزی سے مذھبی بنیاد پرستوں کو ترقی پانے دیا گیا - آزاد دانشور جیسے ماغيکل کائلو ، واحدی اسکندر ، یونیورسٹی استاذہ بشمول رفعت سیوفی ،آصف شاہیں حکومت کے ناقدوں کو بھی نشانہ بنایا کيا جامعات کے کیمپسز کو بھی معاف نہیں کیا گیا ، نہ تو اساتذہ کو بخشا گیا اور نہ ہی طلباء کو - سیکورٹی ایجنسیاں تو طلباء کو لیکچر ہال کے اندر سے یا کیمپس کے اندر سے پکڑ لیتی تھیں اور ان کے ساتھ بہت برا سلوک کرتی تھیں بالکل اسی طریقے سے حکومت نے ٹریڈ یونین ورکر کی نوکر شاہی پر اپنا قبضہ کیا اور اسی وجہ سے محنت کشوں کی نیولبرل پالیسیوں کے خلاف جدوجہد میں روکاوٹ پیدا ہوئی جن کا آغاز آمر حکومت نے 2000 سے کیا تھا اور ان پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کے رہن سہن کا معیار گرگیا اور سیاسی جبر میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوگیا یہ ہ بنیادی اسباب تھے جن کی وجہ سے احتجاج کی لہریں اٹھیں اور ان سالوں میں احتجاج جس شئے کے گرد گھومتے رہے وہ معشیت تھی - مثال کے طور مئی 2006ء میں دمشق میں ایک تعمیراتی کمپنی کے خلاف سینکڑوں مزدوروں نے اس کے دفتر کے سامنے احتجاج منظم کیا اور اس کا تصادم سیکورٹی فورسز سے ہوگیا اور یہ وہی وقت تھا جب الیپو میں ٹیکسی ڈرائيور نے بھی ہڑتال کردی تھی حال ہی میں شام عوام پر ہونے والے جبر کے دوران ٹریڈ یونینز خاموش رہیں ، یہاں تک کہ اگر محنت کشوں پرربھی جبر ہوا اور خود ٹریڈ یونین نشانہ بنی تو بھی یہ غیرفعال اور خاموش ہی رہیں -دسمبر 2011ء میں شام کے اندر کامیاب عام ہڑتاليں اور سول نافرمانی کی تحریکوں نے پورا ملک مفلوج کردیا تھا اس سے محنت کش طبقے کی طرف سے احتجاجی سرگرمیوں کا لیول پتہ چلتا ہے جوکہ اصل میں شامی انقلاب کی جان ہیں جبر کا سامنا ان تمام سیاسی جماعتوں کو بھی کرنا پڑا تھا جنھوں نے حافظ الاسد کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا اور جس نے نیشنل پروگریسو فرنٹ کی چھتری تلے آنے سے انکار کیا اسے کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی کرنے کی اجازت نہ ملی ، ان سیاسی جماعتوں کو حکومت کی جانب سے اتنے ہی سخت جبر کا سامنا کرنا پڑا تھا جتنا ان پر اخوان المسلمون نے کیا تھا - حکومتی جبر کا 70ء سے نشانہ سیکولر سیاسی جماعتیں بنتی آرہی تھیں جن میں فروری 23 تحریک بعث پارٹی کا ریڈیکل گروپ جوکہ صالح الجدید کے قریب تھا ، لیگ اف کمیونسٹ ایکشن جس کے اکثر ممبران علوی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے اور زرا کم پیمانے پر جبر کا نشانہ بننے والی ریاض ترک کی کمیونسٹ پارٹی پولیٹکل بیورو شامل تھیں - نیشنل اسمبلی جس میں کئی لیفٹسٹ پارٹیاں شامل تھیں 80ء کے آغاز میں زبردست جبر کا نشانہ بنی تھیں سن 2000ء میں بشار الاسد کے اقتدار سنبھالنے تک دانشوروں ، آرٹسٹوں ، لکھاریوں ، سکالرز اور یہاں تک کہ سیاست دانوں کی حزب مخالف کی تحریک جوکہ 2000ء سے 2006ء تک اصلاحات اور جمہوری آزادیوں کا مطالبہ کررہی تھی کو سیکورٹی اداروں نے بری طرح سے دبایا - حزب مخالف کی اس تحریک کے ساتھ ساتھ بہت سے مبحاثاتی فورم بھی کھل گئے تھے ، 2004ء سے 2006ء کے درمیان متعدد دھرنے بھی سامنے آئے جوکہ شام میں ایک نیا سیاسی عمل متعارف ہوا تھا - دھرنوں کی کال سیاسی جماعتوں اور شہری تنظیموں کی جانب سے ایک ہی وقت میں سامنے آئی - بشار الاسد کی حکومت نے ان دھنروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ، فورم بند کردئے گئے ، دھرنوں کو سختی سے کچلا گیا اور جن دانشوروں نے سول سوسائٹی اور جمہوریت سازی کی کال دی تھی کو جیلوں میں بند کردیا گیا - اور اسی دوران کردوں کی انتفاضہ کو بھی 2004ء میں سختی سے کچل دیا گيا شام کے سماج کو بشار الاسد کی حکومت کے مختلف کل پرزوں نے تیزی سے اپنے کنٹرول میں لینا شروع کردیا اور یہ صرف بعث پارٹی تھی جس کو سیاست کرنے ، جلسے جلوس کرنے اور سیاسی تقریبات کرنے کی آزادی تھی ، لیکچرز اور مظاہرے یونورسٹی کے کیمپس اور ملٹری بیرکوں میں کرنا صرف بعث پارٹی کا حق تھا اور اخبارات کو شایع کرنا اور تقسیم کرنا بھی بعث پارٹی کا حق تھا- یہاں تک کہ نیشنل پروگریسو فرنٹ مں شامل دیگر سیاسی جماعتیں اپنا پروگرام آزادانہ طور پر منعقد نہیں کرسکتیں تھیں بعث پارٹی نے بعض کارپوریٹ سیکٹرز پر بھی اجارہ قائم کرکھا تھا - اور بہت سے سوشل سیکٹرز بھی ان کے قبضے میں تھے جہاں عورتوں ، نوجوانوں اور کسانوں کو اکٹھا کرکے اپنی حکومت کی عوامی بنیادیں ظاہر کرنے کا ڈرامہ ہوتا تھا سماجی انصاف شام کی مقبول عوامی تحریک کا سب سے زیادہ بنیادی مطالبہ بن چکا ہے - اس میں حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ شامی انقلابی تحریک کا سب سے بڑا سیکشن معاشی طور پر پسے ہوئے دیہی اور شہری محنت کشوں اور مڈل کیلاس کی ان پرتوں پر مشتمل ہے جوکہ بشار الاسد کی تیزی کے ساتھ نافذ کی ہوئی نیولبرل پالیسیوں کے نفاز کا تجربہ اس کے اقتدار میں آنے کے وقت سے کررہے ہیں یہ پالیساں ایک چھوٹی سے اشرافیہ اور ان کے کلائنٹس کو فائدہ پہنچارہی ہیں - رامی مخلوف بشار الاسد کا کزن بشار الاسد حکومت کے اس مافیا سٹائل نجکاری پروسس کو چلارہا ہے نجکاری کے اس پروسس نے نئی اجارہ داریاں پیدا کی ہیں جن کے مالک بشارالاسد کے رشتہ دار ہیں جبکہ اشیاء کے معیار اور سروسز کی فراہمی کا معیار گرچکا ہے - ان اقتصادی اصلاحات نے معشیت کو صرف و صرف امیروں اور طاقت وروں کی خدمت پر مامور کردیا ہے - سرکاری اداروں کی نجکاری کا پروسس ایسے طریقے سے چلایا گیا کہ اس کا فائدہ حکومت کے قریب لوگوں نے اٹھایا - اور اسی دوران فنانشل سیکٹر نے نجی بینکوں ، انشورنس کمپنیوں ، دمشق سٹاک ایکسچینج کمپنیوں اور منی ایکسچینج بیورو کی اسٹبلشمنٹ کے اندر اپنے بندے داخل کئے حکومت کی جانب سے نافذ کردہ نیولبرل پالسیوں کی وجہ سے بالائی طبقہ اور غیر ملکی سرمایہ کار خاص طور پر عرب ملکوں کے سرمایہ کار مطمئن ہوگئے اور شامی معشیت کی لبرلائزیشن کا انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا جبکہ شامی عوام کی اکثریت کو افراط زر اور مہنگے طرز زندگی کا بوجھ اٹھانا پڑا اس کے علاوہ شام میں زراعت اور پبلک سیکٹر کے سکڑنے کی وجہ سے اور ان کو مستحکم نہ کرنے کی کوئی مضبوط پالیسی نہ ہونے کے سبب ملک کا پہلے سے کمزور ریاستی ، سماجی تحفظ فراہم کرنے والا ڈھانچہ اور شکست و ریخت کا شکار ہوا اور خوراک اور نان فوڈ بنیادی ضرورت کی اشیاء میں اضاقے کا خمیازہ بھی غریب عوام کو بھگتنا پڑا معشیت کی لبرلائزیشن کے پروسس نے شام کے اندر عدم مساوات کو بڑھادیا - غریبوں کو نئی طرز کی معشیت میں جینا مشکل تھا تو متوسط طبقہ تیزی سے ئربت کی لیکر کی طرف بڑھ رہا تھتا ، کیونکہ ان کی آمدنی اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی تھی جس رفتار سے افراط زر بڑھ رہا تھا جوکہ 2008ء میں 17 فیصد تک جاپہنچا تھا اب وہاں شام میں 20-25 فیصد بے روزگاری ہے ، جبکہ شام کی کل آبادی میں 25 سال کی عمر کے نوجوان 55 فیصد اور 30 تک کے نوجوان 65 فیصد ہیں -2010 ء تک شام میں غربت کی شرح 33 فیصد ہوچکی تھی اور یہ 70 لاکھ کی تعداد بنتی ہے لاکھوں کسانوں کی شمال مشرق میں اپنی زمینوں سے محرومی جوکہ قحط سے ہوئی کو قدرتی آفات نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ايگرو بزنس کی جانب سے زمین کا بہت زیادہ استعمال بشمول مقامی انۃطامیہ کی جانب سے غیر قانونی پانی کے کنویں ڈرل کرنے نے بھی زراعت کے بحران کو بڑھایا ہے بڑے کمرشل زمینداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر زمینوں کی کاشت ، چراگآہوں کے لیے مختص زمینوں پر فصلوں کی کاشت اور بڑے پیمانے پر پانی چوری کرنے کے لیے غیرقانونی پائپ نے زرعی زمینوں کی خشک سالی کو بڑھایا اور 2010 میں اقوام متحدہ کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ لوگ شمال مشرقی شامی علاقے سے جبری طور پر شہری مراکز کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے شام میں جب بہار عرب کا آغاز ہوا تو اس میں عدلیب ، دیرا اور دمشق کے و الیپو کے دیہاتی علاقون سے بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور یہ علاقے بعث پارٹی کے قلعے تصور ہوا کرتے تھے اور 1980ء میں جب بڑے پیمانے پر تحریک کھڑی ہوئی تھی تو اس وقت ان علاقوں سے بڑے پیمانے پر لوگ کھڑے نہیں ہوئے تھے ، اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ شام کی حکومت کی نیولبرل پالسیوں نے کس قدر بڑے پیمانے پر بشار الاسد کی حکومت کو ان علاقوں میں بھی غیر مقبول کیا جہاں پر اس کے حامی کثرت میں تھے اور اس علاقے کے لوگوں کی اکثریت نے آزاد شامی فوج میں بھی شرکت کی تھی About the author Joseph Daher, member of the Revolutionary Left Current in Syria, is a PhD student and assistant at the University of Lausanne in Switzerland. Co-founder of the blog Cafe Thawra and founder of the Syria Freedom Forever blog, he is co editor of the book "Penser l’émancipation. Offensives capitalistes et résistances internationals" and author (with John Rees) of “The People Demand. A short history of the Arab revolutions”, Counterfire, London 2011.

Monday, October 27, 2014

سیاست سیکھو ، سکھاؤ نہیں


عامر ڈوگر نے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد روزنامہ خبریں کے سنڈے میگزین کو ایک نہایت ہی چشم کشا انٹرویو دیا ہے ، جس میں انھوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر کی سیاست کے کچھ راز افشاء کئے ہیں اور ان کی پاکستان کی سیاست کے لیے بالعموم اور سرائیکی خطے کی سیاست کے لیے بالخصوص خاصی اہمیت بنتی ہے عامر ڈوگر نے پاکستان پیپلزپارٹی کا ٹکٹ نہ لینے کی پوری کہانی اس انٹرویو میں بیان کی ہے - ان کے مطابق جب جاوید ہاشمی این اے 149 سے مستعفی ہوگئے تو ضمنی انتخاب کے لیے انھوں نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کرلیا - لیکن ان کو یہ بتایا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کی خواہش یہ ہے کہ ضمنی الیکشن میں جاوید ہاشمی کے مقابلے میں امیدوار نہ لایا جائے ، یہی رائے خورشید شاہ کی بھی تھی ، لیکن عامر ڈوگر کے مطابق پی پی پی جنوبی پنجاب کے اجلاس میں ضمنی الیکشن میں میدان خالی نہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور ایک وفد کراچی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے لیے روانہ ہوا ، جسے عامر ڈوگر کے بقول تین دن تک ملاقات کے لیے انتظار کروایا گیا اور جب ملاقات ہوئی تو بلاول بھٹو زرداری نے عامر ڈوگر سے پوچھا کہ وہ کس ایجنڈے پر الیکشن لڑیں گے تو ڈوگر نے کہا کہ " گو نواز گو " کے نعرے پر ، اس پر بلاول بھٹو زرداری جوش میں آگئے اور میز پر زور سے ہاتھ مارا جس سے میز پر پڑی چيزیں گرگئیں اور کہا آپ میرے بابا کی پالیسی کو بائی پاس کرکے الیکشن لڑیں گے ، ایسا نہیں ہوگا عامر ڈوگر کے مطابق اس ملاقات میں یہ طے ہوگیا کہ بلاول بھٹو زرداری جب ملتان کا دورہ سیلاب متاثرین کے حوالے سے کریں گے تو عامر ڈوگر کو پارٹی کا این اے 149 سے امیدوار نامزد کرنے کا اعلان سابق وزیراعظم سی یوسف رضا گیلانی کے گھر پر ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کریں گے لیکن اس طرح کا کوئی اعلان بلاول بھٹو زرداری نے نہیں کیا اور یہ نظر آنے لگا کہ پی پی پی جاوید ہاشمی کے مقابلے میں ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے عامر ڈوگر پاکستان پیپلزپارٹی کا عام کارکن نہیں تھا ، وہ اس پارٹی کی صوبائی حثیت کی حامل تنظیم کا جنرل سیکرٹری تھا ، ٹکٹ ہولڈر تھا ، ملتان کی سیاست میں ایک مضبوط دھڑے کا قائد تھا اس کے باوجود اسے بلاول بھٹو زرداری سے ملنے کے لئے تین دن انتظار کرنا پڑا تو عام ورکر کی بلاول بھٹو زرداری تک رسائی کیسے ممکن ہوگی پھر عامر ڈوگر نے ایک اور واقعہ کا زکر کیا ہے کہ 2012ء کے الیکشن میں شکست کے بعد پی پی پی کا جو اجلاس منعقد ہوا اس میں پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے ان کو بتایا کہ یہ الیکشن فکسڈ تھا اور آراوز نے چیف جسٹس کے ایماء پر باقاعدہ میچ فکسنگ کی ، جس پر عامر ڈوگر نے آصف علی زرداری کو کہا کہ پھر تو اس دھاندلی کے خلاف تحریک چلانی چاہئیے ، ورنہ پنجاب میں پی پی پی کے لیے سیاست کرنا مشکل ہوجائے گا ، عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے ان کو کہا کہ سیاست سیکھو ، سکھاؤ نہیں شریک چئیرمین پی پی پی آصف علی زرداری کا اپنے پارٹی کے لوگوں کے ساتھ رویہ کس قدر انانیت سے بھرا ہوا ہے اس کا اندازہ اس جملے سے کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے عامر ڈوگر کو جواب میں کہا یہ پہلی مثال نہیں ہے جو آصف علی زرداری کی انانیت بارے سامنے آئی ہے ، وہ حال ہی میں جب لاہور آئے تو انھوں نے پی پی پی کے انتہائی تجربہ کار پرانے سیاست دانوں ، نوجوان کارکنوں اور پی پی پی کے ڈویژنل ، ضلعی اور سٹی سطح کےعہدے داروں کی اکثریت کی جانب سے پنجاب اور وفاق میں حکومت کے خلاف حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے اور سندھ میں اپنی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے مشوروں پر کان نہیں دھرے ، بلکہ جس نے زیادہ اصرار کیا اس کو جھڑک بھی دیا پی پی پی پنجاب کے موجودہ جنرل سیکرٹری جو پنجاب کے وزیر خزانہ بھی رہے شہباز شریف کے ساتھ اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات کے چھوٹے بھائی ہیں کے بارے میں مجھے ایک انتہائی ثقہ اور پی پی پی پنجاب کے عہدے دار نے بتایا کہ وہ پی پی پی پنجاب کے میڈیا سیل کے ایک رکن جو کہ کرسچن کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے کے بارے میں یہ کہتے ہوئے اکثر پائے جاتے ہیں کہ ایہہ وٹو نے کیہ چوہڑا ساڈے اتے مسلط کردتا اے جس عہدے دار کے بارے میں پی پی پی پنجاب کے صوبائی جنرل سیکرٹری یہ تحقیر آمیز اور نسل پرستانہ جملے استعمال کرتے ہیں اس کا خاندان پی پی پی کی تاسیس کے زمانے سے ہی بھٹو خاندان کے سیاسی سفر کے ہم رکاب ہے اور اس کے والد بھٹو صاحب کے انتہائی قریبی رفقاء میں شمار ہوتے ہیں اور اردو و پنجابی کے معروف شاعر ہیں ، ایک زمانہ ان کا احترام کرتا ہے مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ جس منظور وٹو کو ضیاء کی باقیات کہہ کر پی پی پی کا قبضہ گروپ شور مچاتا ہے ، اس کے بارے میں لاہور کے اکثر پارٹی کارکن یہ کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں کہ وہ پارٹی ورکرز کو عزت دینے میں بخیلی سے کام نہیں لے رہا اور اس نے انتہائی متحرک نوجوانوں کی ایک ٹیم سوشل اور ماس میڈیا پر پارٹی کو متحرک کرنے کے لیے تیار کی ہے لیکن پی پی پی میں قربت آصف علی زرداری سے مستفید ہونے والا قبضہ گروپ پارٹی کے عام کارکنوں اور پنجاب کی رائے عامہ کی دل کی آواز سننے کو تیار نہیں ہے عامر ڈوگر نے اس انٹرویو میں جوش جذبات میں یہ بات بھی کہی ہے کہ جب وہ جنرل سیکرٹری بنے تو انھوں نے جنوبی پنجاب میں پارٹی تنظیموں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا ،لیکن میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ انھوں نے اس مقام پر اپنی زاتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لیے سچ نہیں بولا ، سچ یہ ہے کہ وہ اپنے حلقے کی سطح پر تو بہت متحرک رہے لیکن پارٹی کی تنظیم سازی اور تنظیموں ، ونگز کو متحرک کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکے کیونکہ یہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ہی ڈمی تھی ، ان کا عہدہ ایک نمائشی عہدہ تھا اور ان کو یہ سچ بھی بتانا چاہئیے تھا کہ میں نے ان کی تںطیم کے جملہ عہدے داروں کو پی پی پی جنوبی پنجاب کے انتہائی اہم کارکنوں کی ایک فہرست پکڑائی تھی اور سب کو باری باری پانچ سال کہا کہ ان کو پارٹی عزت ، جائز مقام دے اور ان کی معاشی حالت بہتر بنائے اور وہ لسٹ پھر فریال تالپور تک گئی لیکن اس کا انجام کیا ہوا کہ مجھے زاتی طور پر مالی امداد کی رشوت پیش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ میں اس حوالے سے پارٹی کے اندر اور باہر بات کرنا بند کردوں ، یہ جو فہرست تھی اس میں میرا نام بھی شامل نہیں تھا تو جس پارٹی میں ایسا قبضہ گروپ براجمان ہو جو اصلاح اور تنقید پر یا تو انانیت کا مظاہرہ کرے یا اس آواز کو رشوت دیکر دبانے کی کوشش کرے وہاں اصلاح احوال کی امید لگآنا مشکل ہوجاتا ہے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین نے سندھ حکومت لیکر اور نواز شریف کو بڑا بھائی بناکر ان سے بناکر رکھنے کی ضد کرکے ایک طرف تو پنجاب ، خیبرپختون خوا سمیت ملک کے اندر عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کو پارٹی سے دور کرڈالا ، دوسرا ان کی جانب سے اپوزیشن کی اپوزیشن پالیسی نے ان کو خود اپوزیشن سے بھی دور کردیا ہے آصف علی زرداری کی مفاہمت پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف سندھ کے اندر لسانی بنیادوں پر خلیج وسیع ہورہی ہے ، ایم کیو ایم الگ ہوگئی ہے تو دوسری طرف میاں نواز شریف سے ایم کیو ایم کے یارانے بڑھ گئے ہیں ، نواز شریف نے سندھ میں پھر سے ممتاز بھٹو ، لیاقت جتوئی ، غوث علی شاہ کو مناکر سندھ میں مسلم لیگ نواز کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، یہ ایک طرف توان رہنماؤں کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کو روکنے کی کوشش ہے تو دوسری طرف یہ سندھ میں پی پی پی کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بھی ہے ، سندھ میں پاکستان تحریک انصاف میرٹ ، انصاف اور غربت کے خاتمے جیسے پاپولر نعروں کے ساتھ میدان میں اترے گی تو سندھ میں غریب ، بے روزگار اور متوسط طبقے کے لوگوں کی بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کی کال کو قبول کرے گی اور پاکستان تحریک انصاف اگر سندھ کے اندرون میں پی پی پی کی بہتر اپوزیشن ثابت ہوئی تو پھر اندرون سندھ مں پی پی پی کے اندر شامل اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے مخالف حریف ، طاقتور مقامی سیاسی دھڑے رکھنے والے بھی اس میں شامل ہونے کو ترجیح دیں گے پی پی پی دو طرفہ بحران تنہائی کا شکار ہے ، ایک طرف اس کا اپنا کارکن مایوسی کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے تو دوسری طرف اس کے پاس کوئی ایسی اپیل موجود نہیں ہے جو نوجوان نسل کو اس طرف کھینچ لائے کیونکہ ساری سیاست تو بس اقتدار سے چمٹے رہنے اور قبضہ گروپ کی جانب مال بنانے کے گرد گھوم رہی ہے اور مجھے پہلی مرتبہ پاکستان کی واحد قومی ، ملک گیر سیاسی جماعت کے سکڑ کر ایک چھوٹی جماعت بننے کا خدشہ لاحق ہورہا ہے سرائیکی وسیب میں پی پی پی کی سیاست سے لوگوں کے الگ ہونے کا سبب جہاں اس کی نواز شریف سے دوستی نبھائے جانا ہے ، وہیں پر اس کا ایک سبب سندھ کی تقسیم کے معاملے پر ایسے بیانات داغنا بھی ہے جن سے خود سرائیکی خطّہ کے الگ صوبہ بنائے جانے کا کیس کمزور ہورہا ہے آصف علی زرداری نے سندھ کی انتظامی تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا یہ ناقابل عمل ہے اس سے مالی بوجھ بڑھ جائے گا صوبائی وزیر داخلہ سندھ مںظور وسان کہتے ہیں کہ نئے صوبے بنانے کا مطالبہ ضیاء کا منصوبہ تھا یہ دونوں بیانات پی پی پی کی قیادت کے بقول سندھ کے بارے میں کہے گئے ہیں نہ سرائیکی خطّہ کے بارے ميں لیکن جو دلیل اور اعتراض سندھ کی تقسیم کی مخالفت کے حوالے سے دئے اور لگائے جارہے ہیں وہ پنجاب کی تقسیم کی مخالفت کرنے والوں کے لیے بھی بہت کارآمد ہیں اور پی پی پی کی سرائیکی صوبہ کے حوالے سے ابتک کی روش سے یہ تاثر بھی پختہ ہوگیا ہے کہ وہ اسے ایک سیاسی کارڈ اور پریشر ڈویلپ کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے ، مقصد اس خطے کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا نہیں ہے عامر ڈوگر اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں لوڈشیڈنگ ، غربت ، مہنگائی ، الگ صوبے کے ایشو پر پی پی پی جنوبی پنجاب کے اندر بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کرنا چاہتے تھے اور ایک تحریک شروع کرنا چاہتے تھے لیکن ان کو پی پی پی کی مرکزی قیادت نے ایسا کرنے سے روک دیا عامر ڈوگر نے پی پی پی کی قیادت کے خلاف ایک بڑی چارج شیٹ پیش کی اور ان کا یہ انداز بیاں قربت شاہ محمود قریشی کی دین بھی لگتا ہے جو کہ جنوبی پنجاب میں پی پی پی کی بوری میں چھید پہ چھید ڈالتے چلے جارہے ہیں اور انھوں نے شجاع آباد میں ایک طرف تو غلام عباس کھاکھی کو شامل کیا تو دوسری طرف میری اطلاعات کے مطابق انھوں نے قاسم نون کو بھی گرین سگنل دے دیا ہے ، جہانیاں سے پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈر کیپٹن اختر واہلہ بھی تحریک انصاف کو پیارے ہونے جارہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ملتان ڈویژن ، بہاول پور ڈویژون ،ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں شاہ محمود قریشی پی پی پی کے اندر اور بہت سے ق لیگ کے جیتنے کی یا مقابلہ کرنے کی سکت رکھنے والے گھوڑوں کو اپنی جماعت میں شامل کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور سندھ میں بھی ان کے کئی ایک بااثر سیاسی خانوادوں سے رابطے دو نومبر کو کافی رنگ لیکر آئیں گے یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے پی پی پی کے اندر اور باہر بہت سے بھٹو خاندان کی محبت میں سرشار لوگ پی پی پی کی قیادت کو پڑھوانا چاہتے ہیں لیکن آصف علی زرداری ان کو مشورہ دیتے ہیں کہ سیاست سیکھو ، سکھاؤ نہیں ویسے عامر ڈوگر نے پھر سیاست سیکھی لیکن آصف علی زرداری سے نہیں بلکہ شاہ محمود قریشی سے اور سیکھنے کے بعد وہ اب وہ خود آصف علی زرداری کو یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ سیاست سیکھو ، سکھاؤ نہیں

Saturday, October 18, 2014

شیخ باقر نمر النمر - سعودی عرب میں ضمیر کا قیدی


شیعہ مکتبہ فکر میں " انکار ، مزاحمت ، جہاد اور آزادی " کی روائیت بہت پرانی ہے اور اس کا آغاز خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی زات گرامی سے ہی ہوجاتا ہے اور شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن کا ماٹو بھی شیعہ مکتبہ فکر میں بنیادی حثیت کا حامل ہے شہادت کا راستہ شیعہ مکتبہ فکر میں وہ راستہ ہے جس پر ابتک لاکھوں لوگوں نے سفر کیا ہے اور اس راستے پر ہزاروں سنگ میل ایسے ہیں جن پر ہزاروں نام جگ مگ ، جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں ، ڈاکٹر علی شریعتی نے کہا تھا کہ شیعت تو کربلا میں حسین کی شہادت سے دمشق تک شریکۃ الحسین ، ام المصائب کے دربار و زندان دمشق تک کے سفر کا نام ہے اور اس کا صفوی / مہاجنی شیعت سے کوئی علاقہ ہے نہ واسطہ شہادتوں کا جب زکر شیعہ کے ہاں ہوتا ہے تو میدان کارزار سے محراب و منبر تک اپنے نظریات اور افکار پر قائم رہ کر شہادتیں پانے والوں میں کئی لوگوں کے نام آتے ہیں ، لیکن علم و فکر کے میدان میں بھی شیعہ کے ہاں ایسے چھے شہید موجود ہیں جو اس لیے شہید کردئے گئے کہ ان کے قلم اور ان کے زبان سے جو تخلیق کے سوتے پھوٹ رہے تھے ، ان سے شعور ، بیدار ، حریت فکر کی روشنی چار سو پھیلنے لگی تھی اور ظالموں کے ظلم کی حکومت کو ہر طرف سے چیلنچ کیا جانے لگا تھا ، ان شہیدوں کو شیعی کتابوں میں " چھے شہیدوں " کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ چھے شہید اپنے علم و فکر کے پھیلاؤ کی وجہ سے شہید کردئے گئے اب آثار ایسے نظر آرہے ہیں کہ سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے شہر العوامیہ سے شیعہ مکتبہ فکر شہید سابع یعنی ساتواں شہید ملنے والا ہے اور اس شخصیت کا نام شیخ باقر نمر النمر ہے جن کو سعودیہ عرب کی ایک عدالت نے سزائے موت سنادی ہے شیخ نمر النمر سعودیہ عرب میں ایک طرف تو شیعہ اکثریت کے دو صوبوں الحصاء اور قطیف کے حقوق اور شیعہ آبادی کے سول و جمہوری حقوق کے لیے عدم تشدد پر مبنی جدوجہد اور مزاحمت کررہے ہیں تو دوسری طرف وہ سعودی عرب میں آل سعود و وہابی ملائيت کے اتحاد پر مبنی فاشسٹ نظام حکومت کے خاتمے کے علمبردار بھی ہیں شیخ باقر نمر النمر کہتے ہیں کہ اگر آل سعود سعودی عرب کے مشرقی صوبوں کی اکثریت آبادی کے ںطریات ، عقائد اور خیالات کی عزت نہیں کرسکتی اور ان کو دوسرے صوبوں کے لوگوں کی طرح حقوق نہیں دے سکتی تو پھر ان صوبوں کو آزادی ملنی چاہئیے ، شیخ باقر نمر النمر عراق کے کردستان کو بھی آزادی دینے کی حمائت کرتے ہیں اور کہتے ہیں جو بھی قوم آزادی چاہتی ہو ، اسے زبردستی کسی دوسری قوم کی طرف سے اپنے ساتھ ملانے پر اصرار نہیں کرنا چاہئیے ، شیخ باقر نمر النمر ایک آزاد منش مزاحمت کار اور شیعہ عالم ہیں جو نہ تو سعودیہ عرب میں حزب اللہ کی شاخ کے ممبر ہیں اور نہ ہی ایران نواز خیال کی جانے والی شیعہ کمیونٹی ، الاصلاحیہ سے منسلک ہوئے ، وہ عورتوں ، نسلی و مذھبی اقلیتیوں کے حوالے سے بہت روشن خیال اور ترقی پسند خیال کئے جاتے ہیں ، شیخ نمر سعودیہ عرب میں صرف شیعہ کمیونٹی کے اندر ہی نہیں بلکہ سنّی کمیونٹی کے اندر بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ، خود اعتدال پسند سلفی نوجوانوں میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے -اور شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی حکومت ان سے بری طرج خوفزدہ ہے شیخ نمر کے مداحوں میں سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کی بیٹی شہزادی سحر بھی شامل ہے جس کو عورتوں کی آزادی کے حق میں اور آل سعود کے جابرانہ ںطام کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں گھر پر ںظر بند رکھا گیا ہے شیخ نمر امریکی عوام اور شیعہ کے درمیان اتحاد اور یک جہتی کے داعی بھی ہیں جو ان کے مطابق آزادی اور شہری حقوق پر یکساں یقین رکھنے والے ہیں شیخ نمر کی جدوجہد کے نتیجے میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں بیداری اور شعور ایک منظم طریقے سے سامنے آئی اور 2011ء کے آخر میں سعودی حکومت کے خلاف زبردست جدوجہد سامنے آئی اور 2012ء میں یہ بڑے بڑے مظاہروں میں بدل گئی ، جسے تجزیہ نگاروں نے " سعودی عرب میں عرب بہار " سے تعبیر کرنا شروع کردیا ، ان مظاہروں کی قیادت شیخ نمر کررہے تھے ،اسی دوران شیخ نمر پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا ، ان کے پیر میں گولی بھی لگی ، جبکہ اس سے پہلے 2004ء اور 2006ء میں بھی شیخ نمر النمر کو گرفتار کیا گیا تھا اور 2009ء میں بھی ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جولائی 2012ء میں ان کو سعودی سیکرٹ اینڈ انٹیلی جنس پولیس جوکہ المباحث العامة کہلاتی ہے نے گرفتار کرلیا اور ان پر بغاوت ، غداری ، سازش اور سعودی حکومت ک خلاف فساد پھیلانے کے الزامات عائد کئے گئے اور ان کے خلاف ان الزامات کے تحت خفیہ ٹرائل کیا گیا اور اکتوبر 2014ء میں سعودی قاضی نے ان کو سزائے موت سنادی شیخ نمر کو سزائے موت سنائے جانے کی خبر ان کے بھائی محمد نمر نے ایک ٹوئٹ کے زریعے دی جبکہ سعودی حکام اسے چھپانے کی کوشش کررہے تھے ، جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی تو سعودیہ عرب کے اندر بھی اس پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا ہے ، سعودیہ عرب کے مشرقی صوبے میں بڑے ، بڑے مظاہرے ہوئے ہیں ، جبکہ مڈل ایسٹ میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر احتجاج کررہی ہیں اور عالمی برادری سے سعودیہ عرب پر دباؤ بڑھاکر شیخ نمر کو آزاد کرانے کا مطالبہ کررہی ہیں آیت اللہ خوئی فاؤنڈیشن نے اس حوالے سے امریکی حکومتی اداروں ، ممبران سینٹ و کانگریس اور انسانی حقوق کی تںطیموں کو 20 ہزار سے زائد خط ارسال کئے ہیں جبکہ دنیا بھر سے اس پر ردعمل بھیجا جارہا ہے اور شیخ نمر کی سزا منسوخ کرنے اور ان کو رہا کرنے کے لیے آوازوں میں اضافہ ہورہا ہے شیخ نمر جیسی آوازیں سعودیہ عرب کے اندر بہت اہمیت کی حامل ہیں ، جیسے سامی محسن عنقاوی کی سعودی عرب کی تاریخ دشمنی کے خلاف آواز ہے اور پرنس سحر جیسی آوازیں ہیں ، ار سب آوازوں کو یک جہتی کے اظہار کی ضرورت ہے جو ضرور کی جانی چاہئیے ‎ سید ابومحمد مكي ملقب به جمال الدين و شرف الدين عاملی جوکہ معروف کتاب اللمعۃ الدمشقیۃ کے مصنف تھے - پہلے وہ قید کئے گئے ، پھر ان کو سنگسار کردیا گیا اور شیعہ مکتبہ فکر میں وہ شہید اور کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ، یہ شیعہ عالم شیخ حر الاملی کے شاگروں کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے یہ 1334ءء میں پیدا ہوئے اور 1385ء میں شہید کردئے گئے ، یہ واقعہ دمشق میں پیش آیا جب سلطان برقوق کی حکومت تھی اور سنگساری کے بعد ان کی لاش کو جلادیا گیا تھا ، شیعہ مکتبہ فکر میں وہ شہید اول کے طور پر مشہور ہیں شیخ ضیاء الدین جبہی العاملی جوکہ 1506ء میں پیدا ہوئے اور وہ جبل عامل سمیت قاہرہ ، دمشق وغیرہ میں شیعہ اور سنّی دونوں کے مدارس میں پڑھے اور چاروں سنّی فقہ و فقہ جعفریہ کے مستند عالم مانے جاتے تھے ، یہ 1558ء میں سلطان دمشق سے ملنے جارہے تھے کہ راستے میں ان کا سرقلم کردیا گیا ، انھوں نے اپنی ایک سوانح عمری بھی لکھی تھی جو ان کے خاندان نے محفوظ رکھی اور ایک شرح انھوں نے شہید اول کی کتاب " المعۃ الدمشقیۃ " کی بھی لکھی تھی اور ان کو شیعہ مکتبا فکر میں شہید ثانی کے طور پر جانا جاتا ہے قاضی نور اللہ شوشستری 1549 ء میں موجودہ خوازستان ایران کے شہر شوشستر میں پیدا ہوئے اور وہ اکبر کے زمانے سے ہندوستان میں مغل بادشاہوں کے قریب تھے ، بہت عالم فاضل آدمی تھے ، مغلوں کے دربار میں ایرانی اور ترک ، روہیلا پٹھانوں کے درمیان قربت دربار کے حوالے سے کشمکش چلتی رہتی تھی ، ہمایوں ، اکبر کے زمانے تک مغل سلطنت پر سیکولر روائت غالب رہی لیکن جہانگیر کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی کے زیر اثر پورے ہندوستان میں اینٹی شیعہ ، اینٹی ہندؤ اور یہاں تک کہ اینٹی سکھ فرقہ وارانہ مہم کا اثر دربار اور خود جہانگیر کے اپنے اوپر بھی ہوا ، اسی رجعت پسندی اور انتہا پسندی کی زد میں قاضی نور اللہ شوشستری بھی آئے ، انھوں نے شیعہ مذھب کے دفاع کے لیے فرنٹ فٹ پر بیٹنگ کی اس کی وجہ سے ان کو جہانگیر نے قید کردیا اور کوڑوں کی سزا سنائی ، کوڑے لگنے کے دوران ہی ان کی شہادت ہوگئی اور وہ شیعہ مکتبہ فکر میں شہید ثالث کہلائے ، ان کی شہادت کا زمانہ 1610ء کا ہے اور یہ جہانگیر بادشاہ کا دور تھا ، پھر شاہ جہاں سے لیکر عالمگیر کے دور تک ہندوستان میں صلح کلیت ، بھگتی ، ملامتی اور سیکولر ، روادار نظریات کے خلاف نہ صرف سماج کے اندر ملّاؤں کی تحریک مضبوط ہوتی چلی گئی بلکہ خود دربار بھی فرقہ پرستی سے لتھڑ گیا اور یہ سلسلہ عالمگیر کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ، عالمگیر نے شیخ احمد سرہندی کے فرقہ پرست تصوف اور سخت گیر جامد شرعی تصورات کو اپنالیا اور ان کی روشنی میں سخت گیر فرقہ پرست ملاؤں سے فتاوی عالمگیری تیار کروایا اور اس کو ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا کوڈ بنانے کی کوشش کی اور یہ وہی دور ہے جب مغلیہ دربار میں شیعہ مخالف ، ہندؤ و سکھ مخالف خیالات تیز ہوگیا اور پراسیکوشن بھی بڑھ گئی تھی اور عالمگیر کے مرنے کے بعد یہ سلسلہ اور زیادہ گھمبیر ہوگیا ، شاہ ولی اللہ کی وفات کے بات ہندوستان میں شیعہ -تنازعہ اس لیے بھی بڑھ گیا کہ شاہ عبدالعزیز پسر شاہ ولی اللہ نے ایک کتاب " تحفۃ الشیعہ" لکھی جس کے بعد اس تنازعے میں شدت آگئی ، اور اس کتاب کا جواب مرزا محمد کامل دھلوی نے "نزھۃ الشیعہ " لکھکر دیا ، نواب آف جھجر (ہندوستان میں روہتک کے نواح میں ایک دیسی ریاست) وہ خاصے سخت گیر اور شاہ عبدالعزیز کے پیرو تھے ، انھوں نے مرزا کامل دھلوی کو سازش کرکے زھر دلوادیااور اس سے مرزا کامل دھلوی کی شہادت ہوگئی اور اس طرح سے کامل دھلوی شیعہ مکتبہ فکر میں شہید رابع کے طور پر پہچانے جاتے ہیں شیعہ مکتبہ فکر میں شیعی روائت اور شیعی حریت فکر کے لیے شہادت پانے والے شہید خامس محمد باقر الصدر تھے ، یہ مارچ 1935ء میں پیدا عراق میں پیدا ہوئے اور انھوں نے شیعت کو دبانے اور جبر کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف محمد حسن البکر و صدام حسین کی آمرانہ حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ، جس کی پاداش میں صدام حسین نے ان کو شہید کردیا ، یہ عراقی دعوہ پارٹی کے بانی تھے اور اب شہید خامس کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں آیت اللہ محمد باقر الحکیم جو عراقی سپریم انقلابی کونسل کے سربراہ تھے اور 2003ء میں ایک بم دھماکے میں نجفین میں ان کی شہادت ہوئی اور ان کی شہادت میں جو چار دھشت گرد ملوث تھے ان کا تعلق وہابی تکفیری دھشت گرد گروہ سے تھا ، آیت اللہ محمد باقر الحکیم شیعہ مکتبہ فکر کے شہید سادس کہلاتے ہیں ‎

بلاول کا سیاسی مہورت - ماں سے زیادہ باپ کے اثر میں کئی گئی تقریر


اٹھارہ اکتوبر 2014ء پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی شہر میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا اور لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو وہاں اکٹھا کرلیا اور میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ہجوم سے واقف ہونے کی وجہ سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس ہجوم میں اکثریت پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں اور جیالیوں کی تھی اور ان کی اکثریت کے لیے آج بھی بھٹوز اور بے نظیر بھٹو انسپائریشن کا سرچشمہ ہیں اور ان کی کشش ان کو اس میدان تک کھینچ لائی تھی اور اس میں بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے امید کی رمق بھی سبب بنی جسے جیالے اور جیالیاں بی بی کی نشانی کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ اس میں سندھ میں پارٹی کی حکومت اور ٹرانسپورٹ کا بھی کردار تھا میرے لیے اٹھارہ اکتوبر کا جلسہ اس لیے اہمیت کا حامل تھا کہ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا اکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے اندر پنجاب کے اندر تیزی سے بدلتی سیاسی صورت حال اور اس کی اپنی پارٹی کے ہمدردوں اور کارکنوں کے اندر پائے جانے والے تحفظات و سوچ کا ادراک موجود ہے ؟ کیا یہ قیادت پی پی پی کی پالیسی میں کوئی بنیادی قسم کی تبدیلی بارے اشارہ دے گی ؟ اور پی پی پی پر جو دوستانہ اپوزیشن کا الزام لگ رہا ہے ، اس الزام کو دور کرنے کے لیے یہ کون سے اقدام اٹھائے گی ؟ چوہدری اعتزاز احسن ، اور یوسف رضا گیلانی کی جانب سے پارٹی کی سب تنظیمیوں کو تحلیل کرنے اور نوجوان قیادت لانے اور ملتان کے ضمنی الیکشن میں بری کارکردگی پر جو اظہار پیشمانی کیا ، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی کی قیادت کے اندر یہ احساس جنم لے رہا ہے کہ اگر سیاست کے دھارے میں پہلی اور دوسری پوزیشن کو برقرار رکھنا ہے تو پھر فرسودہ تنظیمی ڈھانچے سے جان چھڑانا لازمی ہے - اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسی کوئی تبدیلی 30 نومبر سے پہلے ورکرز کنونشن سے قبل ایسی کوئی تبدیلی لیکر آتی ہے جس سے پی پی پی کے ورکرز کے اندر پارٹی کے اندر جمہوریت کا احساس پیدا ہو اس جلسے میں کی جانے والی تقریروں کے متن کو دیکھا جائے اور ان میں سیاسی پارٹیوں اور حکومت پر تنقید کے تناسب کو دیکھا جائے تو بلاول بھٹو زرداری ، آصف علی زرداری سمیت تمام پی پی پی لیڈروں کی تقریروں میں تنقید کا سب سے زیادہ جھکاؤ پاکستان تحریک انصاف کی جانب تھا اور میاں نواز شریف کی جانب اور وفاقی حکومت کی جانب تنقید کا تناسب سب سے کم تھا اور اس میں بھی وضاحتیں زیادہ تھی بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ میاں نواز شریف کی جانب سخت رویہ اختیار کیا جوکہ خوش آئیند ہے اور انھوں نے عمران خان کے ظالبان کے حوالے سے ماضی کے نکتہ نظر پر بھی بالکل درست تنقید کی ، لیکن اپنی تقریر م؛ں جو چیز وہ یا تو شعوری طور پر نظرانداز کرگئے یا ان کے نزدیک وہ زیادہ اہمیت کی حامل نہیں تھی وہ یہ تھی کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی تمام تر سیاسی جدوجہد کا اس وقت جو فوکس ہے وہ اس بات پر ہے کہ دو سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے اشراف پرستی پر زور دے رکھا ہے ، عوام سے جو ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے ، اس کا زیادہ حصّہ تو اشراف طبقے کی خدمت پر خرچ کردیا جاتا ہے اور امیر لوگوں پر ٹیکس کم ہے ، جبکہ تعلیم ، صحت ، سوشل سروسز پر بہت کم خرچ کیا جارہا ہے ، پی پی پی پر پاکستان تحریک انصاف کی تنقید یہ ہے کہ اس کی سندھ میں جو حکومت ہے وہ این ایف سی ایوارڑ سے ملنے والی بہت بڑی رقم کے باوجود اب تک سندھ میں بنیادی انفراسٹرکچر کو بدل نہیں سکی ہے اور بھٹوز کا جو شہر لاڑکانہ ہے ،اس کی غربت ، خراب تعلیمی و صحت کی صورت حال اور سینی ٹیشن و سڑکوں کے حوالے سے بری حالت ہے اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت بھی اشراف کی حکومت بن کر رہ گئی ہے ، بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں سندھیوں ، پنجابیوں ، سرائیکیوں ، بلوچوں ، پشتونوں ، گلگتیوں اور کشمیریوں کی حالت زار بدلنے کا کوئی ایجنڈا اور کوئی روڈ میپ نہیں دیا ،جس سے ان کے وژن کا پتہ چلتا بلکہ سٹیج پر ان قومیتوں کی ترجمانی جن لوگوں سے کروائی گئی ،ان کی کارکردگی سے تو یہ قومتیں سخت ناراض ہیں گلگت بلتستان کی مثال لے لیں ، وہاں کے چیف منسٹر مہدی شاہ کی حکومت سے گلگت بلتستان کے لوگ کسقدر ناراض ہیں ، اس کا اندازہ عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت گںدم کی سبسڈی کی بحالی کے لیے ہونے والے بڑے بڑے احتجاجات سے کیا جاسکتا ہے ، جس کی قیادت پی پی پی نے نہیں کی تھی ، بلکہ اس کی قیادت انقلابی سوشلسٹ گلگت بلتستان کے صدر احسان علی ایڈوکیٹ کے پاس تھی اور نمایاں تںظیموں میں سے پی پی پی غائب تھی بلکہ اس کی حکومت تو لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کررہی تھی ، اور یہ نام نہاد چیف منسٹر مہدی شاہ اور اس کی کابینہ نے گلگت بلستان کے عوام کی خدمت کرنے کی بجائے جیسے لوٹ مار اور کرپشن کی ،اس سے لوگ پی پی پی سے ہی نفرت کرنے لگے ،پھر مہدی شاہ کی حکومت گلگت بلتستان میں تکفیری ، انتہا پسند طاقتوں پر کنٹرول کرنے میں ویسے ہی ناکام رہے جیسے پہلے پانچ سال پی پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت اور اب اس دور میں سندھ حکومت ناکام ہوئی ہے اور یہ شیعہ ، صوفی سنّی مسلمانوں کے ساتھ اپنی یکجہتی دکھانے میں خاصی ناکام رہی ، یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں متحدہ مجلس عمل ، پاکستان تحریک انصاف تیزی سے جگہ بناتی ہوئی سیاسی جماعتیں بنکر سامنے آرہی ہیں اور آثار یہ ہیں کہ گلگت بلتستان میں الیکشن ہوئے تو پی پی پی خاصی حسارے میں رہے گی اور اسے اپوزیشن بنچوں پربیٹھنا پڑے گا بلاول بھٹو زرداری سے پہلے آصف علی زرداری کی پوری تقریر کے دوران یوں لگا کہ ان کے لیے اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف ہیں اور کوئی نہیں ہے ، ان کی لاہور یاترا کے دوران اور اس تقریر سے یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ وہ عمران خان اور طاہر القادری پر اس لیے زیادہ غصّہ ہیں کہ ان دونوں نے انھیں آرام سے چار سال تک زیادہ وقت دبئی اور یوروپ و امریکہ گزارنے نہیں دیا ، اور ان کی جانب سے چار سال بعد سیاست شروع کرنے کے خواب کو چکنا چور کردیا اور اس سارے کھیل میں کھنڈت ڈال دی جس کا بنیادی تصور یہ تھا کہ جو بھی ہوجائے ، جتنا بھی برا وقت عوام پر ہو ، حکومت کی پالیسیوں پر حقیقی اپوزیشن کا مطلب اسے ٹف ٹائم دینا نہیں ، اور نہ ہی اس کے اصلاح احوال پر رضامند نہ ہونے پر اسے گھر کا راستہ دکھانا ہے ، بلکہ جمہوریت ، آئین اور پارلیمنٹ کی گردان جاری رکھکر عوامی احتجاج کا ڈنک نکالنا ہے اپوزیشن کی اپوزیشن کرنا بھی کوئی معیوب بات نہیں ہے اور خاص طور پر ایک آپ اپوزیشن کی اپوزیشن کسی نظریاتی آدرش کے لیے کررہے ہوں ، پی پی پی کی قیادت کا دیوالیہ پن تو رائے ونڈ جاتی عمرہ اور منصورہ مرکز جماعت اسلامی کے دوروں اور پنجاب کی صدارت سمیت پارٹی کے بہت سے عہدے ضیاءالحق کی کابینہ کے وزیروں اور غیرجماعتی مجلس شوری کے ارکان کو دے دینے سے بخوبی نظر آرہا ہے اور پھر پاکستان تحریک انصاف و پاکستان عوامی تحریک کی مخالفت کرنے سے بھی ان کو کسی نے نہیں روکا ، لیکن ان کے ایجنڈے اور منشور میں موجودہ سسٹم کے ڈلیور نہ کرنے کا جو سوال ہے ؟ اس کا کوئی جواب پی پی پی کی لیڈرشپ کے پاس نہ ہونے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی اٹھارہ اکتوبر بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کا دوبارہ سے مہورت تھا ، اس مہورت کے کئی ٹریلر خود آصف علی زرداری نے اپنی صدارت کے دنوں میں بھی تین سے چار مرتبہ چلائے تھے اور اس وقت بھی ملک بھر میں پی پی پی کی قیادت کی اہلیت اور اس کی عوام دوستی کے دعوؤں پر سوال اٹھائے جارہے تھے ، آج بھی وہی فضاء ہے بلکہ زیادہ شدید ہے اس وقت بھی بلاول نے زوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہونے کا جملہ بار بار دوھرایا تھا اور خود کو بھٹو ازم کا وارث کہا تھا اور آج بھی کہا ہے میں بہت معذرت سے کہوں گا کہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ بھٹوازم سے ان کی مراد پک اینڈ چوز پر مبنی صرف وہ نکات ہیں جو ان کو بھاتے ہیں - مثال کے طور پر زوالفقار علی بھٹو کی فلاسفی سوشلسٹ اکنامی پر مشتمل تھی جسے بے نظیر بھٹو نے ترک کردیا تھا ، اور اس کی جگہ انھوں نے ریگن - تھیچر ازم کے مارکیٹ ماڈل کو دے ڈالی تھی اور آصف علی زرداری نے پانچ سال حکومت اسی ماڈل کے تحت کی بلکہ میں تو یہ کہوں کا ریگن - تھیچر مارکیٹ ماڈل میں کرپشن ، فیورٹ ازم کا تڑکا تو تھا ہی نہیں ، نہ ہی ککس بیکس ، کمیشن کا بھگار تھا ، یہ تڑکا اور بھگار تو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے وزیروں ، مشیروں نے ضیاء الحق کی باقیات سے مستعار لیکر اپنی سیاست کا نصب العین بنالیا اور اسے بھٹو ازم میں گڈمڈ کردیا اور آج تک اس پر کوئی معافی مانگنے کو تیار نہیں ہے بلاول بھٹو زرداری بھٹوازم کے ایک اور پاپولر نعرے " سامراجیت مخالفت " کو بھی کبھی زبان پر لیکر نہیں آئیں گے اور بھٹو کی قیادت میں امریکہ اور یورپ کی سامراجی پالیسیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی جکڑبندی کے خلاف جو خیالات پی پی پی کے اندر موجود تھے ،ان کو بلاول کبھی دوھرانا پسند نہیں کریں گے ، وہ تو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ کیسے لاطینی امریکی ممالک نے بھٹو ازم کی سوشلسٹ اور سامراجیت مخالف فکر کو ایک سیاسی عملی حقیقی پلان کے طور پر بولیویا ، وینزویلا وغیرہ میں نافذ بھی کرکے دکھادیا اور جو لوگ یہ کہتے تھے کہ منصوبہ بند معشیت اور نیشنلائزیشن کا وقت کزرگیا گیا ہے ،ان کو غلط ثابت کردیا زرعی اصلاحات کا اعلان بھٹو نے کیا اور پھر 1977ء میں اپن اقتدار کے آخری دنوں ميں سخت گیر اصلاحات کرنے کا فجیصلہ بھی کرلیا تھا ، یہ بھٹوازم کا بنیادی جزو تھا ، مگر آج کی پیپلزپارٹی ایسا کوئی اقدام اٹھائے گی ؟ بھٹوازم کو چوں ، چوں کا مربّہ بنادیا گیا ہے اور اس سے جو چاہے نکل سکتا ہے اور پی پی پی کی قیادت اس سے دائیں سمت جانے والے خیالات ڈھونڈ ، دھونڈ کر لاتی ہے ، قبلہ آصف علی زرداری تو بھٹو ازم سے پی پی پی کی ضیاء الحق کی باقیات سے زبردستی نکاح کے وجوب کا فتوی ڈھونڈ لائے ہیں اور اسے سیاسی مفاہمت کا نام دیکر شہید بھٹو ، شہید بی بی کا فلسفہ قرار دیتے ہیں ، ان میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے جیالوں کو یہ سچ ہی بول دیں کہ ان کی ںظر میں آج کی سیاست مفاہمت کی سیاست ہے مزاحمت کی نہین ہے ۔ جس شہید بھٹو کو وہ مفاہمت کی سیاست کا علمبردار بتلاتے ہیں ، اس نے نے کمبائینڈ اپوزیشن اور ایوب کی گول میز کانفرنس کے نام پر بحران کا عوام دشمن حل نکالنے کی کوشش کا حصّہ بننے سے انکار کیا تھا اوریہی انکار اس کی پارٹی کو مغربی پاکستان کی فاتح بناگئی تھی اور بھٹو نوجوانوں کا ھیرو ٹھہرا تھا ، جس کا انکار آصف علی زرداری کی سیاست کا بنیادی جزو ٹھہر گیا ہے اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی اسی سمت دھکیلا جارہا ہے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جو تقریر تیار کی ، اس تقریر کا متن یہ بھی بتلاتا ہے کہ وہ اس تقریر کو بنانے کے دوران یہ کوشش کرتے رہے کہ ایک تو عوام اور جیالوں پر یہ تاثر پڑے کہ ان کی پارٹی اور وہ نواز شریف کی حقیقی اپوزیشن ہیں ، دوسرا عمران خان کے اثر کو زائل کریں ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ماضی کے شاندار کارناموں کی لمبی فہرست گنوانے اور " پدرم سلطان بوم " کی گردان سے حقیقی اپوزیشن کہلانے اور لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کا ٹارگٹ حاصل ہونا بہت مشکل ہیں بلاول بھٹو زردای اگر پاکستان پیپلزپارٹی کو پنجاب سمیت پورے ملک کی متحرک عوامی پارٹی بنانے کے خواہاں ہیں تو ان کو سندھ میں جاری شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی مسلمانوں کی پراسیکوشن ، ہندؤں کی نقل مکانی کو روکنے کے ساتھ ساتھ ، سندھ حکومت کی نااہلی ، کرپشن ، بدعنوانی ، بدانتظامی کو ختم کرنا ہوگا اور سندھ کی پسماندگی کو دور کرکے ایک حقیقی ترقی کا ماڈل دوسرے صوبوں کو دکھانا ہوگا ، جس کا مطالبہ وہ کے پی کے میں عمران خان سے کررہے ہیں اور پنجاب کے اندر سیاسی فضاء بدل چکی ہے ، لوگ ہر اس قوت کو لبیک کہنے کو تیار ہیں جو نواز حکومت کے فاہشزم کو للکارے جو بلاول بھٹو اپنے والد کے سیاسی مفاہمت کے پنجرے میں قید ہونے کی وجہ سے کرنے سے قاصر ہیں بلاول بھٹو زرداری ! پی پی پی کا ہر ایک مخلص جیالا آپ سے اٹھارہ اکتوبر کو میاں نواز شریف اینڈ کمپنی سے سیاسی مفاہمت ختم کرنے کے اعلان کی توقع کررہا تھا جو آپ نے نہیں کیا بلکہ اس کے جواز تلاش ان کی تقریر میں ہرجگہ نظر آئی اور اس سے مجھے لگا کہ بلاول پر ماں کی بجائے باپ کا اثر زیادہ ہے اور وہ لاشعوری طور پر باپ کی لیگسی یا ورثہ کو گلے لگارہا ہے ، یہ عمل بلاول کو اس دلدل میں پوری طرح دھنسادے گآ ،جس میں ابھی بلاول کے پیروں کی انگلیاں ہی دھنسی ہیں ،اس دلدل سے باہر آنے کا طریقہ نام نہاد مفاہمت سے بغاوت کا اعلان ہے

Thursday, October 16, 2014

این اے 149 کا ضمنی انتخاب - ‏عامر ڈوگر نے ایک بال سے دو وکٹوں کا شکار کیسے کیا ؟


سولہ اکتوبر 2014ء کا این اے 149 میں ضمنی الیکشن ایک طرف تو ملتان میں ڈوگر خاندان کے لیے خاصا خوش قسمت ثابت ہوا کہ عامر ڈوگر جوکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر رہتے ہوئے اس حلقے میں کم از کم قومی اسمبلی کے لیے جیتنے والے گھوڑے کبھی خیال نہیں کئے جاتے تھے وہ پاکستان پیپلزپارٹی چھوڑ کر آزاد امیدوار بنکر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے عامر ڈوگر کے والد نے جب پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اصل میں یہ شمولیت سید یوسف رضا گیلانی کے توسط سے ہوئی تھی اور وہ پیپلزپارٹی کے اندر گيلانی گروپ کے اتحادی خیال کئے جاتے تھے اور ان کی شاہ محمود قریشی سے اس قدر قربت نہیں تھی ، پیپلزپارٹی میں رہکر گیلانی گروپ کے ساتھ دینے میں ڈوگر خاندان کو پی پی پی کے سابقہ دور حکومت میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ، کیونکہ سید یوسف رضا گیلانی کا گروپ نوکریاں بغیر پیسے کے کسی کو دیتا نہیں تھا اور ٹھیکے اور ديکر مراعات بھی مختلف النوع قسم کی رشوتوں کے بغیر ملتی نہیں تھیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر فاغدہ گیلانی کے اقتدار کا جاوید صدیقی نے اٹھایا ،اس کا عشر عشیر بھی عامر ڈوگر نہیں اٹھا سکے تھے اگر آپ خونی برج اور اس کے پڑوس کے علاقوں کا ایک دورہ کرلیں اور جاوید صدیقی کے بارے میں لوگوں سے پوچھیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ جاوید صدیقی کی ضمانت ضبط ہونے کا سبب کیا ہے عامر ڈوگر ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی میں اپنے تنظیمی عہدے کے نمائشی ہونے پر بھی خاصے دلگیر تھے اور ان کو معلوم تھا کہ پی پی پی کی قیادت تنظیم نو ، پارٹی تنظیموں کو کسی قسم کا اختیار دینے کو تیار نہ تھی ، اور اس ضمنی الکشن میں پی پی پی تو پہلے جاوید ہاشمی کے لیے میدان کھلا چھوڑنے کا ذھن بنا چکی تھی ، جب عامر ڈوگر نے یہ سب حالات دیکھے تو ایک طرف انھوں نے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو دوسری طرف انھوں نے شاہ محمود قریشی سے ہاتھ ملالیا ، اور یہ اتحاد پاور پالیٹکس میں عامر ڈوگر کو جیتنے والا گھوڑا بنانے میں خاصا فیصلہ کن ثابت ہوا عامر ڈوگر کے مقابلے میں جاوید ہاشمی کی شکست میں ، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف کی ان کے خلاف چلائی جانے والی مہم کا ہاتھ تو ہے ہی لیکن اس ہار میں ان کا مسلم لیگ نواز سے حمائت قبول کرلینا اور اپنی کوٹھی کو مسلم لیگ نواز کے دفتر میں بدل دینے کا بھی بہت بڑا کردار ہے اور پھر وہ این اے 149 سے اپنی حمائت میں قریشی اور راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی ووٹرز کو پوری طرح سے اپنے حق میں نہیں کرسکے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی اور یہ اس حلقے سے ضمانت ضبط ہوئی ہے جس میں ہنو کا چھجہ ، خونی برج ، اشرف آباد ، لودھی کالونی ، سبزہ زار کالونی سمیت بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کئی نامور جیالوں کے گھر ہیں اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں کبھی بھٹو نے پیر حامد علی خان کے مریدین کی اکثریت کے باوجود میدان مار لیا تھا اور اس حلقے میں پی پی پی کے بہت سے سابق اور موجودہ ضلعی ، تحصیل اور سٹی کی تنظیم کے عہدے داروں کے گھر واقع ہیں اور پی پی پی کا اس حلقے سے ووٹ لینے کا جو پیٹرن ہے ، اس میں 30 سے 40 ہزار ووٹ اس کو لازی پڑتے رہے ہیں اور اب جاوید صدیقی سے 6 ہزار 3 سو 26 ووٹ ليے اور ان کی ضمانت ضبط ہوگئی اور یہ ضمانت اس حقیقت کے باوجود ضبط ہوئی کہ پی پی پی کی انتخابی مہم چلانے والوں میں بابو فیروز الدین انصاری کے فرزند سابق ایم پی بے بابو نفیس انصاری بھی شامل تھے ، پی پی پی نے جاوید صدیقی کا انتخاب کرکے غلطی کی ، وہ اگر اس کی جگہ بابو نفیس انصاری کو ٹکٹ دیتی تو شاید عزت سادات بچ جاتی ، کیونکہ بابو نفیس انصاری نیک نامی میں پی پی پی ملتان کے اندر اس وقت شاید سے سے آگے ہیں ، جن کے دامن پر نہ تو کرپشن کا داغ ہے اور نہ ہی ان پر نوکریاں فروخت کرنے کا الزام ہے ، جس سے اکثر و بیشتر معززین پی پی پی متصف ہیں پاکستان پیپلزپارٹی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں اس ضمنی الیکشن میں میڈیا اور لوگوں کے درمیان زیادہ زیربحث نہ رہی اور اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز حکومتی پارٹی ہے اور اس پارٹی کی اگر کسی جانب سے حقیقی اپوزیشن ہورہی ہے تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے جبکہ پی پی پی کے بارے میں تو خود اس کے اپنے حامیوں اور کارکنوں میں فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا تاثر پختہ ہوگيا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں بھی پی پی پی پنجاب کی سیاست میں زیادہ زیر بحث نہیں ہے پی پی پی کے امیدوار کی این اے 149 میں ضمانت ضبط ہونے کا واقعہ پی پی پی کے شریک جئیرمین آصف علی زرداری کے میاں منظور وٹو کی جانب سے دئے کئے عشائیے میں کی گئی اس خود پسند تقریر کے ٹھیک دو دن پیش آیا ہے جس میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ پی پی پی کی پنجاب میں مقبولیت میں کمی سوائے پروپیگنڈا کے کچھ نہیں ہے ، جس نے پی پی پی چھوڑی وہ تباہ و برباد اور رسوا ہوگیا مجھے پی پی پی چھوڑجانے والوں کی تباہی و بربادی کے فارمولے پر یقین شہید بے نظیر بھٹو کی موجودگی تک تو تھا لیکن اس فارمولے کے بیکار ہونے پر یقین گذشتہ دور حکومت کے خاتمے کے موقعہ پر ہی آگیا تھا ، سرائیکی خطے میں پی پی پی چھوڑ کر پہلے شاہ محمود قریشی گئے تھے ، پھر جمشید دستی گئے ، اس کے بعد افتخار نذیر گئے اور اب عامر ڈوگر سب کے سب اس وقت ایم این اے ہیں اور ان کے حلقہ انتخاب میں پی پی پی تیسرے نمبر پر چلی گئی اور گذشتہ انتخاب میں تو این اے 159 سے تو ان کے امیدوار کی ضمانت ویسے ہی ضبط ہوئی جیسے اب این اے 149 میں ہوئی ہے اور این اے 159 ان علاقوں پر مشتمل ہے جہاں پی پی پی کو اس وقت بھی کامیابی ملی تھی جب ضیاء الحق کی باقیات نے پورا زور عبدالرحمان واہلہ کو ہرانے میں صرف کرڈالا تھا پاکستان پیپلزپارٹی چھوڑجانے والوں کی تباہی اور بربادی ہونا اس لیے بند ہوگئی ہے کہ اس پارٹی کی قیادت نے اپنے کارکنوں کی بجائے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور ان کے مصاحبوں پر اعتماد کیا ہے اور ضیاء الحقی طرز سیاست کو کامیابی کی کنجی مان لیا ہے اور کرپشن ، بدعنوانی ، ککس بیکس ، نوکریاں بیچنے ، فراڈ کرنے جیسی بری اقدار کے ساتھ سیاست کرنے کو معیوب خیال کرنا چھوڑ دیا ہے

Monday, October 13, 2014

سعودی عرب - ملائیت آرٹ اور تاریخ کی سب سے بڑی دشمن


مکّہ میں دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت کی تکمیل ہوچکی ہے اور اس عمارت کا نام رائل مکّہ ٹاور ہے اور یہ سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے مکّہ کو جدید سہولیات و تعمیرات سے آراستہ کرنے کے ایک میگا کا پروجیکٹ کا حصّہ ہے جس کے تحت مکّہ شہر کے وسط میں جدید شاپنگ سنٹرز ، اقامتی ہوٹل ، اپارٹمنٹ ، بینک برانچز ، میٹرو ٹرین ، ایکسپریس وے ، میٹرو اسٹیشن ، پارکنگ لاٹ اور مسجد الحرام کی توسیع کے منصوبے شامل ہیں ، جن میں سے بہت سے تو مکمل ہوگئے ہیں جبکہ کچھ مکمل ہونے کے قریب ہیں مکّہ کو جدید بنائے جانے کے اس نئے مرحلے کا جیسے ہی آغاز ہوا تھا تو مکّہ کو ماڈرن بنانے کے خلاف بہت سی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں تھیں ویسے تو سعودیہ عرب میں ایسے سعودی ماہرین فن تعمیر و آثار قدیمہ اور ماہرین ثقافت و تاریخ کا قحط ہے جو سعودیہ عرب میں آل سعود اور ملائیت کی جانب سے تاریخ ، قدیم تعمیرات اور ثقافت کی تباہی کو روکنے میں سنجیدہ رہے ہوں ،جبکہ خود سعودی حکومت بھی اپنے وجود کے اول دن سے تاریخ ، آثار قدیمہ ، ثقافت سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں رکھتی ہے لیکن ہم نے سعودیہ عرب کے اندر کوئی ایسی سیکولر ، ماڈرن تحریک بھی کھڑی ہوتی نہیں دیکھی جو سعودیہ عرب میں تاریخ ، ثقافت اور فن بارے سعودی عرب کے دشمن والے سلوک پر آواز بلند کرتی 1925ء میں جب ابن سعود نے مکّہ اور مدینہ پر قبضہ کرلیا اور مکّہ کے اندر جنت معلی اور مدینہ میں جنت البقیع کو مسمار کیا گیا ، جبکہ مولد پیغمبر کو مویشی منڈی بنایا گیا تو اس زمانے میں ہندوستان ، ترکی ، مصر سے زبردست احتجاج دیکھنے کو ملا تھا اور پوری مسلم دنیا میں مکّہ اور مدینہ میں مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کے خلاف سخت فضاء دیکھتے ہوئے سلطان عبدالعزیز ابن سعود نے لیپا پوتی کرکے اور رشوت کا بازار گرم کرکے بڑھتے ہوئے دباؤ کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی انیس سو ستر میں جب سعودیہ عرب پیٹرو ڈالر سے سر سے پیر تک نہا چکا تھا زیادہ منظم انداز میں پورے سعودیہ عرب کو جدید سرمایہ داری معاشرے میں بدلنے کے لیے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا گیا اور اسی جدیدیت کے نام پر مکّہ اور مدینہ کی توسیع وغیرہ کا کام بھی شروع کیا گیا تھا سعودیہ عرب کے نام سے جو ملک آل سعود اور وہابی ملائیت کے اشتراک سے نجد و حجاز پر قبضہ سے وجود میں آیا اس کی فکری بنیاد علامہ ابن تیمیہ ، حافظ عبدالھادی ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب اور پھر آل شیخ کے وہابی مولویوں بشمول شیخ ابن باز ، صالح العثمین کے کٹّر ظاہریت پسند تصورات اور خیالات پر استوار ہوئی اور یہ وہ لوگ تھے جن کے خیال میں اسلام اور مسلمانوں کے زوال کا سبب اور ان کے غلام بن جانے کی وجہ مسلم معاشروں کی مروجہ ثقافت اور ان کی مروجہ سماجی زندگی ہے اور ان دونوں بنیادوں سے جو مسلم تاریخ ، مسلم فن تعمیر ، ثقافتی مظاہر سامنے آئے وہ سب کے سب غیر اسلامی ، شرکیہ اور بدعت ہیں آل سعود نے مکّہ ، مدینہ اور پورے حجاز میں اسلام کے ظہور میں آنے سے لیکر خلفائے راشدین ، اموی ، عباسی ، آل بویہ ، سلجوک ، ترک ‏عثمان تک کے ادوار کے تمام تر تاریخی ، ثقافتی ، مذھبی ورثے کو یکسر مسترد کردیا اور ایک طرح سے چودہ سو سال کی مسلم عرب حجاز کی تاریخ ، ثقافتی آثار اور فن تعمیر کے نمونوں کو شرک ، بدعت اور غیراسلامی قرار دیکر رد کردیا گيا مسلم تاریخ میں جتنے بھی حکمران نوآبادیاتی دور سے قبل آئے انھوں نے اگرچہ مجسمہ سازی وغیرہ رد کیا تھا لیکن فن تعمیر کے حوالے سے وہ اتنے بانجھ اور کٹھور کبھی نہ تھے جتنے آل سعود واقع ہوئے ہیں اور ان کی فوجی فتوحات میں قدیم تاریخی آثار کو مٹآئے جانے میں اتنی شدت کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی جتنی آل سعود کے ہاں پائی جاتی ہے اور یہ تو کسی مسلم حکمران نے نہیں کیا تھا کہ اس نے کسی قدیم مکان ، درخت ، مقبرے کو مسلم بزرگوں کی نسبت ہونے کی وجہ سے گرادیا ہو آثار قدیمہ اور تاریخ کو مٹانے کا کام اگر پورے مذھبی جوش و خروش کے ساتھ کسی نے سرانجام دیا تو وہ آل سعود ، وہابی ملائیت اور ان کی مدد و اعانت سے پروان چڑھنے والے طالبان تھے لیکن افغان طالبان کے امیر ملّا عمر نے کم از کم افغانستان میں یہ فرق تو ملحوظ رکھا کہ اس نے قندھار میں اپنی خلافت کا حلف اٹھاتے ہوئے احمد شاہ ابدالی کے مزار پر وہ خرقہ زیب تن کیا جس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کی جاتی ہے اور انھوں بامیان میں بدھا کے مجسمے کو اڑانے کے علاوہ افغانستان کی تاریخی و ثقافتی اہمیت کی زیادہ عمارتوں کو نقصان نہ پہنچایا لیکن اگر اسامہ بن لادن کو افغانستان میں اور زیادہ پاؤں جمانے کا موقعہ مل جاتا اور عرب وہابی جہادی جیسے وہاں پر قبضہ کررہے تھے تو بہت جلد وہاں وہی مناظر دیکھنے کو ملتے جو ہم نے خیبرپختون خوا اور قبائلی ایجنسیوں میں ان کی آمد کے بعد دیکھے تھے کہ کوئی مزار ، کوئی امام بارگاہ ان کی بربریت سے محفوظ نہ رہی اور پھر گیت ، سنگیت ، فنون لطیفہ ، کھیل سب ہی ان کی بربریت کا نشانہ بن گئے اور آج کل ہم ثقافت دشمنی کا بڑے پیمانے پر نظارہ شام اور عراق میں 40 ہزار مربع کلومیٹر پر قائم داعش کی خلافت کی جانب سے دیکھ رہے ہیں سعودی عرب مکّہ اور مدینہ کو جدید بنانے کے نام پر وہاں سے تاریخ کے مادی آثار کو مکمل مٹانے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ انھوں نے اس دلیل کے ساتھ کیا کہ مکّہ اور مدینہ میں زائرین کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا ہے اور حج و عمرہ کرنے کے لیے آنے والوں کے لیے مسجد الحرام کی توسیع اور حاجیوں کی رہائش ، ان کی خدمت کے لیے ضروری کاروبار کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جدید ترقیاتی کام اشد ضروری ہیں یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ترقی صرف مکّہ اور مدینہ میں موجود پرانے فن تعمیر کو مٹاڈالنے اور وہاں پر تاریخی آثار کو ختم کردینے سے ہی ہوسکتی تھی ؟ میں خود تو فن تعمیر کی مبادیات سے واقف نہیں ہوں لیکن اس حوالے سے کئی ایک فن تعمیر کی بہت زیادہ شد بد رکھنے والے دانشوروں کی تحریریں سامنے آئی ہیں جن میں ایک تو خود جدہ سے تعلق رکھنے والے معروف آرکٹیکچر محمد سامی محسن عنقاوی ہیں ، دوسرے برطانوی نژاد پاکستانی ماہر فن تعمیر ضیاء الدین سردار ہیں ، تیسرے سری نگر سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ، فلم ڈائریکٹر ، سکرپٹ رائٹر ، صحافی بشارت پیر اور چھوتے تھامس لپ مین ہیں - اور ایک اور اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر عرفان علاوی ہیں ، جن کی جانب سے مکّہ اور مدینہ کی اس نام نہاد جدیدیت کی شدید مخالفت کی جارہی ہے اور وہ اسے تعمیر کی بجائے تباہی قرار دے رہے ہیں ضیاء الدین سردار نے " مکّہ کی تباہی " کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا ، اس آرٹیکل میں انھوں نے مکّہ کی جدیدیت کو الٹراماڈرنائزیشن کا نام دیا اور ان کے خیال میں مکّہ کی جدید تعمیر اصل میں پورے مکّہ کی تاریخ کو مٹانے اور دوسری طرف خود مقصد حج کو فوت کرنے کے مترادف ہے - وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے قدیم اسلامی تاریخی شہر مکّہ کو مٹاکر اس کی جگہ سعودی عرب کا نیا ڈزنی لینڈ اور لاس ویگاس پیدا کردیا ہے ضیاءالدین سردار نے اس الٹراماڈرنائزیشن کا دانشورانہ تباہی کا پہلو بھی تلاش کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ آل سعود اور اس کے وہابی ملّاؤں نے ایسا جدید مکّہ تعمیر کیا ہے جو مونو لتھک ہے ، بہت زیادہ کٹر پنتھی ہے اور تنوع و تکثیریت کا دشمن ہے اور وہ اس الٹراماڈرنائزڈ مکّہ کو پوری مسلم دنیا کو مونو لتھک اور تنوع و تکثیریت مخالف معاشروں میں بدل جانے کا زمہ دار بھی قرار دیتے ہیں ان کے خیال میں جو حاجی جدید مکّہ میں مناسک حج ادا کرنے کے دوران اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لیکر بعد تک کے ارتقائی سفر کی تلاش وہاں کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کو اس تلاش میں گوہر مقصود ہاتھ نہیں آئے گا اور نہ ہی حج اب مختلف نسلی ، قومیتی ، لسانی ، مسلکی پس منظر کے حامل لوگوں کے درمیان باہمی تبادلہ خیال اور فکری جدال کا موقعہ فراہم کرنے والا اور مکّہ تنوع پر مبنی فکری مکالموں کا مرکز رہا ہے بلکہ حج ایک پیکج میں بدل گیا ہے جس میں ایک ہوٹل سے دوسرے ہوٹل ، ایک مخصوص گروپ میں حرکت کرنے کا نام ہی حج رہ گیا ہے سرمایہ دارانہ جدیدیت کی علمبردار اقوام نے لندن ، پیرس ، روم کی تاریخی ، ثقافتی اور مذھبی شناخت کو باقی رکھا اور ان کو ان کی تاریخ سے محروم اور بے چہرہ نہیں کیا ، اس بات کو خود سعودیہ عرب کے ماہر فن تعمیر محمد سامی محسن عنقاوی جو جدہ کے رہنے والے بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں سامی محسن عنقاوی نے 1975ء میں "حج ریسرچ سنٹر " کی بنیاد رکھی اور اس سنٹر کے تحت انھوں مکّہ اور مدینہ میں قدیم تاریخی عمارتوں کو محفوظ بنانے اور ان کو تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اپنے طور پر مکّہ اور مدینہ کی تاریخ کو محفوظ بنانے کا کام شروع کیا اور حال ہی میں انھوں نے رائٹر خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ انھوں نے مکّہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کو تلاش کرلیا ہے جیسے انھوں نے دار ارقم کو تلاش کرلیا تھا لیکن ابھی وہ اس مکان کو پبلک نہیں کررہے کیونکہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو سعودی حکومت اس مکان کے ساتھ بھی وہی کرے گی جو اس نے دار ارقم کے ساتھ کیا تھا کہ اس کو گرادیا تھا - حالانکہ دارارقم وہ جگہ ہے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پہلی درس گاہ بنائی تھی سامی محسن عنقاوی کہتے ہیں کہ 1932ء جب سے سعودی عرب کی بنیاد پڑی ،اس وقت سے لیکر اب تک 2014ء میں سعودی عرب نے جدیدیت کے نام پر 300 سے زیادہ تاریخی قدیم عمارتوں کو سرے سے مسمار کردیا اور کوئی تختی یا نشانی تک ان عمارتوں کی باقی نہیں ہے اور یہ ایک منظم طریقے سے ان شہروں کی تاریخ کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے سامی محسن عنقاوی کی نظر میں سعودی عرب تاریخ اور ثقافت سے نفرت کرنے والے ملّاؤں اور حکمرانوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے اور 1992 ء میں سعودی عرب کی سنئیر مذھبی کونسل نے ایک فتوی جاری کیا ، جس میں آل سعود کو کہا گیا کہ وہ کسی بھی طرح سے مکّہ اور مدینہ میں پرانی تاریخی عمارتوں کو باقی رکھنے اور محفوظ بنانے کی کوشش نہ کرے اس سے شرک پھیلے گا ،گویا تاریخ ، آثار قدیمہ اور ثقافت کو اسلام کے عقیدہ توحید کے لیے خطرہ قرار دے دیا گیا لندن میں ہسٹاریکل انسٹیوٹ اور اورنٹیئل افریقن اسٹڈیز کے پروفسر کنگ جیفری بھی سعودیہ عرب میں تاریخ ، ثقافت اور پرانے تعمیراتی فن کو معدوم اور مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں سامی عنقاوی نے جدہ میں اپنا گھر " المکیہ " کے نام سے بنایا اور اس گھر کو انھوں نے " حجاز " کی ثقافت کا عکاس بنایا اور اس گھر کو بنانے کا مقصد حجاز اس کی اس ثقافت کو محفوظ کرنا ہے جو سامی محسن عنقاوی کے بقول سعودی وہابی ملائيت کے تاریخ و ثقافت دشمن خیالات و اقدامات کے ہاتھوں حجاز میں معدوم ہورہی ہے اور سامی عنقاوی کا کہنا ہے کہ حجاز کی ثقافت بالعموم اور مکّہ و مدینہ کی بالخصوص تنوع اور تکثیریت پر مبنی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر اس ثقافت کو محمد رسول اللہ سے شروع کیا جائے تو یہ 14 سو سال پر پھیلی ہے اور اگر حضرت ابراہیم سے شروع کیا جائے تو اس تاریخ کا دورانیہ 5000 ہزار سال پرانا ہے اور سعودی حکومت اصل میں 1400 سال اور 5000 ہزار سال پرانے تہذیبی و تاریخی ورثے کا قتل کرنے کا کام 1932ء سے کرتی آرہی ہے تھامس لپ مین اسے " زر اور وہابیت " کے امتزاج سے بننے والا ماڈرن حجاز کہتے ہیں جبکہ سامی محسن عنقاوی کہتے ہیں کہ اسلامی آرکیٹیکچر روائت اور جدیدیت کا امتزاج رہا ہے اور اس میں مستقل اور متغیر دونوں شامل ہوکر توازن پیدا کرتے رہے ہیں جس کا سعودی حکمرانوں اور وہابی ملائیت کو زرا بھی احساس نہیں ہے اور سامی ایک منظوم شکل میں اسلامی فن تعمیر کی تعریف یوں کرتا ہے الجمال ينتج من الكمال والكمال ينتج من التكامل والتكامل ينتج من التوازن والتوازن ينتج من الميزان الا تطغوافي الميزان هذا سرالتصميم عند جمال کمال سے اور کمال تکامل سے تکامل توازن سے توازن میزان سے منتج ہوتا ہے تو پھر میزان پر ہی اصرار کرو اور یہی ڈیزائن کا سر یعنی راز ہے تو سامی محسن عنقاوی کے ںزدیک مسلم فن تعمیر اور حجازی کلچر تصمیم کے ایسے سلسلے کا نام ہے جو روائت اور جدیدیت میں توازن سے جنم لیتا ہے اور اسی وجہ سے کمال و حسن پر مبنی ہے پاکستان کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سعودی عرب میں تاریخ و کلچر کی تباہی کے بارے میں آنے والی تمام خبروں ، مضامین اور فیچرز کا بائيکاٹ کئے ہوئے ہے اور اردو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے تو اس حوالے سے اپنے ناظر اور قاری کو جاہل رکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،جبکہ یہاں کے کسی بھی نامور آرکٹیکچر یا آرٹسٹ یا ماہر تاریخ نے ابتک اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی ہے اور مذھبی حلقوں نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے

Sunday, October 12, 2014

پاکستان میں سیاسی جلسوں کی بہار


پاکستان تحریک انصاف کا سونامی انقلاب لاہور ، میاںوالی اور ملتان کے عوام کو فتح کرنے کے بعد سرگودھا جانے کی تیاری کررہا ہے اور جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب مارچ کا ریلا فیصل آباد میں اپنا زور دکھا چکا ہے اور جھنگ جانے کی تیاری کئے ہوئے اور دونوں جماعتوں کا دھرنا شاہراہ دستور پر بدستور مورچہ زن ہے پاکستان پیپلزپارٹی بھی اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں سانحہ کار ساز کے شہیدوں کی یاد کو لیکر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے جارہی ہے اور اس کا ارادہ پنجاب میں نومبر کے اندر پانچ بڑے جلسے کرنے کا ہے پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس لاہور میں ڈیرہ لگآیا ہوا ہے اور ان کے ارادے بلاول ہاؤس میں تادیر براجمان رہنے کے ہیں اور انھوں نے عاشورہ کے بعد یو سی لیول تک کے کارکنوں سے ملنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ان کی جانب سے کارکنوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تںطیم کو منظم کرنے کے بعد پنجاب میں انٹرا پارٹی الیکشن بھی کرائیں جائیں گے پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے لاہور میں ابتک اپنے قیام کے دوران اپنا روئے سخن نواز شریف کی جانب کم اور پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین کی جانب زیادہ ہے اور سیاسی حلقوں میں پی پی پی کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ پی پی پی ایک اپوزیشن پارٹی ہے اور وہ حکومت کی اپوزیشن کرنے کی بجائے اپوزیشن کی اپوزیشن کرنے میں مصروف کیوں ہے ؟ پی پی پی کے شریک چئیرمین نے الیکشن کے بعد مسلسل یہ بیانات دئے تھے کہ پاکستان میں ابھی سیاست کرنے کا موسم نہیں آیا اور وہ یہاں تک کہ جب دھرنا عروج پر تھا تو لاہور میں صحافیوں سے ملاقات میں کہہ گئے تھے کہ سیاست کرنے کا وقت چار سال بعد آئے گا آصف علی زرداری اور ان کی کچن کیبنٹ کا خیال یہ تھا کہ چار سال گزرنے کے بعد وہ مسلم لیگ نواز کی نااہلی اور اس کی عوام کو ڈلیور نہ کرنے کی خرابی سے پھیلنے والی پنجاب میں مایوسی کو پی پی پی کے حق میں کیش کروائیں گے اور اس طرح سے پھر سے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کرلیں گے آصف علی زرداری اور ان کے دوست اسی خیال کی وجہ سے پارٹی کے اندر کسی قسم کی اصلاحات کی ضرورت پر بات تک نہیں کرتے تھے اور پارٹی کے اکثر کارکن بہت ہی بری طرح سے نظر انداز کئے جانے کا شکوہ کرتے نظر آتے تھے پی پی پی نے اس دوران بلاول بھٹو زرداری کو بھی بریکیں لگائیں اور آصف علی زرداری نے ان کا ریموٹ کنٹرول سنبھال لیا اور میرے قارئین کو یاد ہوگا کہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ سال انتہا پسندی ، مذھبی بنیاد پرستی کے خلاف سخت موقف اپنایا اور نواز شریف کی انتہائی دائیں سمت کی پالسیوں اور نج کاری سمیت ورکنگ کلاس دشمن اقدامات پر پے درپے بیانات دئے اور ایک آرٹیکل بھی لکھا تھا ، مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اس سے یہ امید بندھی تھی کہ پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پی پی پی مصلحت پسندی کی سیاست کو ترک کردے گی اور پاکستان میں عوامی خواہشات اور نوجوان نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرے گی اور حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی ، لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ جیسے ہی بلاول بھٹو زرداری کے بیانات اور تقریروں میں ریڈیکلائزیشن آئی تو آصف علی زرداری نے اس پر پانی ڈالنے اور مفاہمت ، مفاہمت کھیلنے کا سلسلہ شروع کرڈالا اور ایک طرح سے بلاول بھٹو زرداری کے اڑنے سے پہلے ہی پر کاٹ ڈالے پی پی پی نے جس میدان میں سیاست کرنے سے گریز کیا اور سمجھوتے بازی کی سیاست کے زریعے سے نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کو زیر بار کرنے کی جو پالیسی اپنائی اس سے پاکستان پیپلزپارٹی کو فائدے کی بجائے نقصان ہوا میرے پاس فیصل آباد ، لاہور ، راولپنڈی ، ملتان ، سرگودھا ، ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں کی درجنوں کارکنوں کی ایک فہرست ہے جنھوں نے پی پی پی کی پرو نواز سیاست اور اپوزیشن نہ کرنے کی وجہ سے پارٹی چھوڑی اور پاکستان تحریک انصاف کا حصّہ بن گئے اور پی پی پی نے ان پارٹی چھوڑنے والوں کو منانے تک کی کوشش نہ کی پی پی پی کی قیادت کی ذھنیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی سمجھوتہ باز سیاست سے تنگ آکر اور انتہائی نچلے درجے کی طوطا چشمی کو ديکھر اور پھر ان کی پنجاب میں مسلسل غیرمقبول ہونے کی رفتار کو دیکھنے کے بعد جن لوگوں نے پیپلزپارٹی چھوڑی ان کو بے وفائی اور غداری کے طعنے ایسے دئے گئے جیسے پارٹی چھوڑنے والوں نے اقتدار کے گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے مقتدر پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز جوائن کرلی ہو اور وہاں وہ اقتدار کے مزے لوٹنے چلے گئے ہوں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی چھوڑنے والوں سے تند و تیز اپوزیشن اور حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا رخ کیا پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر چاروں صوبوں سے نوجوان خون کی شمولیت کا سلسلہ تو کافی عرصہ پہلے سے ہی بند ہوگیا تھا اور اب پی پی پی کے بہت سے لوگ پارٹی چھوڑ بھی گئے تو اس صورت حال میں بلاول بھٹو نے ایک معذرت نامہ شایع کرڈالا اور آصف علی زرداری نے پارٹی کارکنوں شسے ملاقاتیں شروع کیں آصف علی زرداری سنٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام ڈویژن کی ضلعی تںطیموں سے اور جنوبی پنجاب کی لنگڑی لولی تنظیم کے عہدے داروں سے مل چکے ، گویا ان کی ملاقات اکثر ڈمی تنطیموں اور فوٹو سیشن کے ماہر عہدے داروں سے خوب ہوئی اور وہاں بھی چند گھس بیٹھ جابڑے اور انھوں نے شریک جئیرمین کو آڑے ہاتھوں لیا مشتاق پگانوالہ آف گجرات نے آصف علی زرداری سے گوجرانوالہ ڈویژن کی ملاقات کے دوران پوچھا کہ " زرا یہ تو بتلائیں کہ آپ الیکشن سے قبل اور الیکشن کے دوران یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ ق کے امیدواروں کے کھڑے ہونے کا فائدہ پاکستان پیپلزپارٹی کو ہوگا اور پنجاب میں پی پی پی کی کارکردگی 2008ء کے الیکشن سے بہتر ہوگی تو ایسا ہوا کیوں نہیں ؟ اور ان دھرنوں کے دوران بھی آپ نے کہا تھا کہ ابھی سیاست کا وقت نہیں آیا تو یہ اجلاس کس خوشی میں ہورہے ہیں اور پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری 16 اکتوبر سے سیاست کرنے کے اعلان کس خوشی میں کررہے ہیں ؟ مشتاق پگانوالہ نے آصف علی زرداری سے پوچھا کہ پی پی پی کا پانچ سالہ دور اقتدار اگر واقعی برکات اور نعمتوں سے بھرپور تھا اور اس کے وزیروں و مشیروں کی کارکردگی اتنی ہی اچھی تھی تو پنجاب ، خیبر پختون خوا میں اس کے کیمپوں میں دھول کیوں اڑی ؟ آصف علی زرداری نے شاید مشتاق پگانوالہ کی بات ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے نکال دی اور یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری نے پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کو پانی کا بلبلہ قرار دے ڈالا ، انھوں نے پھر دو پہلوانوں کی لڑائی میں پاکستان پیپلزپارٹی کو فائدہ ہونے کا مفروضہ پیش کرڈالا آصف علی زرداری شاید تکڑے بیانات دیکر اس شرمندگی کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں جو ان کی پارٹی کو راولپنڈی کے اندر جیالوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے کراچی کے جلسے میں جانے سے انکار کی صورت میں اٹھانا پڑرہی ہے اور ان کے معتمد خاص فرحت اللہ بابر پی پی پی خیبرپختون خوا میں بہت بڑے بڑے جیالے ناموں کی پارٹی سے رخصتی کے خدشے کو روکنے کی کوششیں کررہے ہیں ، اس کی بھی پوشیدگی کی کوشش کی جارہی ہے پیپلزپارٹی کے کارکن مزارعے بنکر کام کرنے سے انکاری نظر آتے ہین اور شہید بھٹوز کے نام پر جذباتی بلیک میلنگ بھی ان پر اثر نہیں کررہی جبکہ پنجاب کے اندر عام آدمی کا موڈ باری اور سمجھوتوں کی سیاست کے یکثر خلاف نظر آتا ہے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان ، اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے عوام آدمی کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور جو عام آدمی کے ہاتھ کی نبض پر رکھے اس ہاتھ کو جھٹکنے کا مشورہ دیتا ہے وہ عوام میں نفرت کا نشانہ بن رہا ہے مسلم لیگ نواز کے وزیر کا ملتان میں رکشے میں بیٹھ کر فرار ہونا اور ملتان میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نوشتہ دیوار ہے جسے سب پڑھ رہے ہیں لیکن پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری اسے پڑھنے سے قاصر ہیں آج پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کا بازو بنے ہوئے شاہ محمود قریشی کا پی پی پی سے نکلنے کا ایک سبب آصف علی زرداری کا پنجاب میں آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی میں شامل کئے بغیر شہباز شریف کو حکومت بنانے کی دعوت دینا اور شاہ محمود کی کوششوں پر پانی پھیرنا بھی تھا جبکہ شاہ محمود کے گھر چالیس سے زائد آزاد امیدوار بیٹھے ہوئے تھے اور مسلم لیگ ق سے ملکر حکومت بنانے کے آثار روشن تھے اور اس اقدام سے پی پی پی کا جو حشر شہباز شریف نے پنجاب میں کیا وہ سب کے سامنے ہے اور پی پی پی سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی سے ہاتھ دھو بیٹھی ویسے اس عید قربان پر ایک اور معجزہ بھی ہوا ہے کہ آصف علی زرداری نے عید کی نماز اس مولوی کے پيچھے ادا کی جس نے سابق گورنر سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے سے نہ صرف انکار کیا تھا بلکہ جو مولوی سلمان تاثیر کی رسم قل میں گئے تھے ان کی تجدید ایمان کی تقریب بھی منعقد کی تھی بلاول ہاؤس لاہور کا ترجمان حامد میر کے بھائی فیصل میر کو مقرر کیا گیا ہے - فیصل میر نے اپنے بھائی حامد میر کی جانب سے کیری لوگر بل کے سامنے آنے کے بعد جیسے زرداری حکومت اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو پاکستان میں بلیک واٹر کو لے آنے اور دیگر قسم کے افسانے گھڑنے پر جو خاموشی اختیار گئے رکھی شاید اس کا انعام ان کو شیری رحمان کے کہنے پر دیا گیا ہے پاکستان کے اندر کرپشن ، لوٹ مار ، اقربا پروری اور مڈل کلاس و غریبوں سے ٹیکس وصولی اور اشراف کو معافی اور بجلی کی چوری کا بوجھ ایمانداری سے بل ادا کرنے والوں پر ڈالنے اور 70 ، 70 ارب کا چونا لگانے کی سیاست کے خلاف نفرت ، انتقام میں بدل رہی ہے اور لوگوں کو اپنا انتقام پاکستان تحریک انصاف و پاکستان عوامی تحریک کی سیاست اور نعروں میں نظر آرہا ہے اور پی پی پی بھی نواز لیگ کی طرح اس غصے ، نفرت اور انتقام کو کاسمیٹک تبدیلیوں سے دبانے اور کم کرنے کی کوشش کررہی ہیں جو مجھے کم ہوتا نظر نہیں آرہا ، مجھے بلاول بھٹو زرداری سے بہت ہمدردی محسوس ہورہی ہے کہ جس کو آصف علی زرداری نے اپنی نام نہاد سیاسی ذھانت اور تدبر کے پنجرے میں قید کرکے رکھ دیا ہے اٹھارہ اکتوبر کو بلاول بھٹو کے پاس موقعہ ہے کہ وہ اس زندان پدر کو توڑ کر باہر آجائیں اور اپنی راہ خود متعین کرنے کی کوشش کریں

Monday, October 6, 2014

آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرے کو مارے شاہ مدار


یہ تصویر وہ ہے جسے میں ابھی تک اغیار کا پروپیگنڈا خیال کرتا ہوں لیکن آصف علی زرداری مفاہمت کے نام پر وہ فاصلے بھی مٹا چلے جن کو شہید بی بی بے نظیر بھٹو نے بہرحال برقرار رکھا تھا پاکستان میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں سے موجودہ سیاسی سیٹ اپ کی عوام دشمنی اور خواص کے ساتھ دوستی کا شعور عام ہورہا ہے اور اب ہر طرف سے مک مکا کی سیاست کو رد کیا جارہا ہے اور جمہوریت کے اشراف پنے کے خلاف جمہوریت کے عوام دوست ہونے اور جمہور کے لیے ہونے کا سوال بھی سیاسی مباحث میں بنیادی سوال بنتا جارہا ہے اس تبدیلی سے سب سے زیادہ سوالات اگر کسی سیاسی جماعت کی قیادت سے کئے جارہے ہیں تو وہ پاکستان پیپلزپارٹی ہے اور اس کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے سیاست کرنے کے طریقہ کار پر سب سے زیادہ بحث ہورہی ہے پی پی پی کو سنٹرل پنجاب اور سرائیکی خطے میں سب سے بڑے چیلنج کا سامنا خود اس پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں کی جانب سے ہے جوکہ پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری سے ان کی مبینہ مفاہمت کی پالیسی بارے سوالات اٹھارہے ہیں آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو شریک چئیرمین آصف علی زرداری کو لاہور آئے تیسرا دن ہے اور اس دوران انہوں نے سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب کی تںظیموں کے عہدے داران کے اجلاسوں کی صدارت کی ہے اور یہ بلاول ہاؤس کراچی میں ہونے والی ملاقات کا ہی تسلسل ہے ان تینوں اجلاسوں میں پی پی پی کی آصف علی زرداری کی سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب کی صوبائی تںطیموں کے عہدے داران نے پی پی پی کی نواز شریف کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی ترک کرنے اور مرکز و پنجاب میں حقیقی حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی رائے دی ایسے ہی ایک اجلاس میں گجرات سے پی پی پی کے معروف رہنماء مشتاق پگانوالہ نے آصف علی زرداری کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ اگر ان کے وزیروں ، مشیروں کی کارکردگی اتنی ہی بہترین تھی تو پارٹی کو پنجاب ، خیبرپختون خوا اور بلوچستان سے اس قدر بدترین شکست کیوں ہوئی ؟ انھوں نے کہا کہ جن کی وجہ سے پی پی پی کی ساکھ برباد ہوئی وہ آج بھی قربت زرداری کے مزے لوٹ رہے ہیں ڈاکٹر عاشق فردوس اعوان ، ندیم افضل چن ، نذر محمد گوندل ،چوہدری غلام عباس سمیت کئی اور اہم لیڈروں نے آصف علی زرداری کو بتایا کہ ان کی مفاہمت کی پالیسی سے پی پی پی پنجاب میں اپنا اثر کھورہی ہے اور اس کی جانب سے جگہ پی ٹی آئی پر کررہی ہے لیکن پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے گنے چنے منتخب چند لوگوں کی اس مجلس میں یکسر پنجاب میں پی پی پی کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آنے کے تاثر کو غلط قرار دے ڈالا اور یہ ماننے سے انکار کرڈالا کہ پنجاب میں ان کی جگہ پی پی پی لے رہی ہے آصف علی زرداری کی جانب سے نواز شریف کے خلاف حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بجائے ان سے مفاہمت پر زور دیا جارہا ہے اور پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے والد کی حرف بحرف تائید کررہے ہیں آصف علی زرداری پاکستان کے اندر سٹیٹس کو کی حفاظت کرنے پر جس قدر مصر ہیں اتنا ہی ان کی اپنی پارٹی کے اندر اور باہر سے ان کی اس کوشش کے خلاف احتجاج ابھر رہا ہے اور اب تو پی پی پی کے جیالے بات کو صرف "گو نواز گو " تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی پارٹی کے اندر انتخابات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں میں پی پی پی کے اوپر دوستانہ تنقید کرنے والوں میں شمار ہوتا ہوں اور بعض اوقات اپنے بتوں کو پوجنے کے باوجود یہ سوال کرنے پر مجبور ہوں کہ آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی آخر ہے کیا؟ اس پالیسی کا ایک بڑا حصّہ تو یہ ہے کہ پاکستان کی عوام بھلے کیسے ہی کرائسس اور بحران کا شکار ہوں اور اس کی زمہ دار حکومت کے خلاف کوئی ایجی ٹیشن کی سیاست نہ کی جائے اور پانچ سال تک ان کے کسی بھی ظلم پر آواز بلند نہ کی جائے مفاہمتی پالیسی کا دوسرا حصّہ ہے کہ جس طرح نواز شریف اینڈ کمپنی اپنے اردگرد سرمایہ داروں کی کہکشاں بنائے ہوئے ہیں ، اسی طرح شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے گرد بھی اکٹھے ہوں آصف علی زرداری نے اس ملک کے سٹاک ایکسچینج ، شوگر مل ، فلور مل ، اپٹماء وغیرہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرجکا ہے ، وہ سرمایہ داروں کی ایک پرت کو نواز شریف کی چمک کا مقابلہ کرنے کو ساتھ ملاچکا ہے اور سرمایہ داروں کا یہ سیکشن بھی وہ ہے جو ضیاء الحق کی باقیات ہے آصف منصورہ جماعت اسلامی کے مرکز چلے جاتے ہیں اور جماعت اسلامی کے امیر کے پہلو میں کھڑا ہوکر جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ اس کی قیادت کی بھی تعریف کرتے ہیں آصف علی زرداری کی پالیسی اصل میں ضیاء الحق کے ورثہ سیاست کو قبول کرنا بلکہ "مل جل کر کھانے " کی روائت کو ایک مشن کے طور پر اپنا لینا ہے اور جو اس سے اتفاق نہ کرے وہ آصف زرداری کے بقول شیطان کا ساتھی ہے ۔کیونکہ وہ مل بانٹ کرکھانے کی راہ میں روڑے اٹکانے والا ہے آصف علی زرداری کے نزدیک پاکستان پیپلزپارٹی کی ترقی پسندی ، جمہوریت نوازی کا مطلب یہی ہے