سولہ اکتوبر 2014ء کا این اے 149 میں ضمنی الیکشن ایک طرف تو ملتان میں ڈوگر خاندان کے لیے خاصا خوش قسمت ثابت ہوا کہ عامر ڈوگر جوکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر رہتے ہوئے اس حلقے میں کم از کم قومی اسمبلی کے لیے جیتنے والے گھوڑے کبھی خیال نہیں کئے جاتے تھے وہ پاکستان پیپلزپارٹی چھوڑ کر آزاد امیدوار بنکر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے
عامر ڈوگر کے والد نے جب پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اصل میں یہ شمولیت سید یوسف رضا گیلانی کے توسط سے ہوئی تھی اور وہ پیپلزپارٹی کے اندر گيلانی گروپ کے اتحادی خیال کئے جاتے تھے اور ان کی شاہ محمود قریشی سے اس قدر قربت نہیں تھی ، پیپلزپارٹی میں رہکر گیلانی گروپ کے ساتھ دینے میں ڈوگر خاندان کو پی پی پی کے سابقہ دور حکومت میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ، کیونکہ سید یوسف رضا گیلانی کا گروپ نوکریاں بغیر پیسے کے کسی کو دیتا نہیں تھا اور ٹھیکے اور ديکر مراعات بھی مختلف النوع قسم کی رشوتوں کے بغیر ملتی نہیں تھیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر فاغدہ گیلانی کے اقتدار کا جاوید صدیقی نے اٹھایا ،اس کا عشر عشیر بھی عامر ڈوگر نہیں اٹھا سکے تھے
اگر آپ خونی برج اور اس کے پڑوس کے علاقوں کا ایک دورہ کرلیں اور جاوید صدیقی کے بارے میں لوگوں سے پوچھیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ جاوید صدیقی کی ضمانت ضبط ہونے کا سبب کیا ہے
عامر ڈوگر ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی میں اپنے تنظیمی عہدے کے نمائشی ہونے پر بھی خاصے دلگیر تھے اور ان کو معلوم تھا کہ پی پی پی کی قیادت تنظیم نو ، پارٹی تنظیموں کو کسی قسم کا اختیار دینے کو تیار نہ تھی ، اور اس ضمنی الکشن میں پی پی پی تو پہلے جاوید ہاشمی کے لیے میدان کھلا چھوڑنے کا ذھن بنا چکی تھی ، جب عامر ڈوگر نے یہ سب حالات دیکھے تو ایک طرف انھوں نے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو دوسری طرف انھوں نے شاہ محمود قریشی سے ہاتھ ملالیا ، اور یہ اتحاد پاور پالیٹکس میں عامر ڈوگر کو جیتنے والا گھوڑا بنانے میں خاصا فیصلہ کن ثابت ہوا
عامر ڈوگر کے مقابلے میں جاوید ہاشمی کی شکست میں ، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف کی ان کے خلاف چلائی جانے والی مہم کا ہاتھ تو ہے ہی لیکن اس ہار میں ان کا مسلم لیگ نواز سے حمائت قبول کرلینا اور اپنی کوٹھی کو مسلم لیگ نواز کے دفتر میں بدل دینے کا بھی بہت بڑا کردار ہے اور پھر وہ این اے 149 سے اپنی حمائت میں قریشی اور راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی ووٹرز کو پوری طرح سے اپنے حق میں نہیں کرسکے
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوگئی اور یہ اس حلقے سے ضمانت ضبط ہوئی ہے جس میں ہنو کا چھجہ ، خونی برج ، اشرف آباد ، لودھی کالونی ، سبزہ زار کالونی سمیت بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کئی نامور جیالوں کے گھر ہیں اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں کبھی بھٹو نے پیر حامد علی خان کے مریدین کی اکثریت کے باوجود میدان مار لیا تھا اور اس حلقے میں پی پی پی کے بہت سے سابق اور موجودہ ضلعی ، تحصیل اور سٹی کی تنظیم کے عہدے داروں کے گھر واقع ہیں اور پی پی پی کا اس حلقے سے ووٹ لینے کا جو پیٹرن ہے ، اس میں 30 سے 40 ہزار ووٹ اس کو لازی پڑتے رہے ہیں اور اب جاوید صدیقی سے 6 ہزار 3 سو 26 ووٹ ليے اور ان کی ضمانت ضبط ہوگئی اور یہ ضمانت اس حقیقت کے باوجود ضبط ہوئی کہ پی پی پی کی انتخابی مہم چلانے والوں میں بابو فیروز الدین انصاری کے فرزند سابق ایم پی بے بابو نفیس انصاری بھی شامل تھے ، پی پی پی نے جاوید صدیقی کا انتخاب کرکے غلطی کی ، وہ اگر اس کی جگہ بابو نفیس انصاری کو ٹکٹ دیتی تو شاید عزت سادات بچ جاتی ، کیونکہ بابو نفیس انصاری نیک نامی میں پی پی پی ملتان کے اندر اس وقت شاید سے سے آگے ہیں ، جن کے دامن پر نہ تو کرپشن کا داغ ہے اور نہ ہی ان پر نوکریاں فروخت کرنے کا الزام ہے ، جس سے اکثر و بیشتر معززین پی پی پی متصف ہیں
پاکستان پیپلزپارٹی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں اس ضمنی الیکشن میں میڈیا اور لوگوں کے درمیان زیادہ زیربحث نہ رہی اور اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز حکومتی پارٹی ہے اور اس پارٹی کی اگر کسی جانب سے حقیقی اپوزیشن ہورہی ہے تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے جبکہ پی پی پی کے بارے میں تو خود اس کے اپنے حامیوں اور کارکنوں میں فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا تاثر پختہ ہوگيا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں بھی پی پی پی پنجاب کی سیاست میں زیادہ زیر بحث نہیں ہے
پی پی پی کے امیدوار کی این اے 149 میں ضمانت ضبط ہونے کا واقعہ پی پی پی کے شریک جئیرمین آصف علی زرداری کے میاں منظور وٹو کی جانب سے دئے کئے عشائیے میں کی گئی اس خود پسند تقریر کے ٹھیک دو دن پیش آیا ہے جس میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ
پی پی پی کی پنجاب میں مقبولیت میں کمی سوائے پروپیگنڈا کے کچھ نہیں ہے ، جس نے پی پی پی چھوڑی وہ تباہ و برباد اور رسوا ہوگیا
مجھے پی پی پی چھوڑجانے والوں کی تباہی و بربادی کے فارمولے پر یقین شہید بے نظیر بھٹو کی موجودگی تک تو تھا لیکن اس فارمولے کے بیکار ہونے پر یقین گذشتہ دور حکومت کے خاتمے کے موقعہ پر ہی آگیا تھا ، سرائیکی خطے میں پی پی پی چھوڑ کر پہلے شاہ محمود قریشی گئے تھے ، پھر جمشید دستی گئے ، اس کے بعد افتخار نذیر گئے اور اب عامر ڈوگر سب کے سب اس وقت ایم این اے ہیں اور ان کے حلقہ انتخاب میں پی پی پی تیسرے نمبر پر چلی گئی اور گذشتہ انتخاب میں تو این اے 159 سے تو ان کے امیدوار کی ضمانت ویسے ہی ضبط ہوئی جیسے اب این اے 149 میں ہوئی ہے اور این اے 159 ان علاقوں پر مشتمل ہے جہاں پی پی پی کو اس وقت بھی کامیابی ملی تھی جب ضیاء الحق کی باقیات نے پورا زور عبدالرحمان واہلہ کو ہرانے میں صرف کرڈالا تھا
پاکستان پیپلزپارٹی چھوڑجانے والوں کی تباہی اور بربادی ہونا اس لیے بند ہوگئی ہے کہ اس پارٹی کی قیادت نے اپنے کارکنوں کی بجائے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور ان کے مصاحبوں پر اعتماد کیا ہے اور ضیاء الحقی طرز سیاست کو کامیابی کی کنجی مان لیا ہے اور کرپشن ، بدعنوانی ، ککس بیکس ، نوکریاں بیچنے ، فراڈ کرنے جیسی بری اقدار کے ساتھ سیاست کرنے کو معیوب خیال کرنا چھوڑ دیا ہے
No comments:
Post a Comment