عامر ڈوگر نے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد روزنامہ خبریں کے سنڈے میگزین کو ایک نہایت ہی چشم کشا انٹرویو دیا ہے ، جس میں انھوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر کی سیاست کے کچھ راز افشاء کئے ہیں اور ان کی پاکستان کی سیاست کے لیے بالعموم اور سرائیکی خطے کی سیاست کے لیے بالخصوص خاصی اہمیت بنتی ہے
عامر ڈوگر نے پاکستان پیپلزپارٹی کا ٹکٹ نہ لینے کی پوری کہانی اس انٹرویو میں بیان کی ہے - ان کے مطابق جب جاوید ہاشمی این اے 149 سے مستعفی ہوگئے تو ضمنی انتخاب کے لیے انھوں نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کرلیا - لیکن ان کو یہ بتایا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کی خواہش یہ ہے کہ ضمنی الیکشن میں جاوید ہاشمی کے مقابلے میں امیدوار نہ لایا جائے ، یہی رائے خورشید شاہ کی بھی تھی ، لیکن عامر ڈوگر کے مطابق پی پی پی جنوبی پنجاب کے اجلاس میں ضمنی الیکشن میں میدان خالی نہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور ایک وفد کراچی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے لیے روانہ ہوا ، جسے عامر ڈوگر کے بقول تین دن تک ملاقات کے لیے انتظار کروایا گیا اور جب ملاقات ہوئی تو بلاول بھٹو زرداری نے عامر ڈوگر سے پوچھا کہ وہ کس ایجنڈے پر الیکشن لڑیں گے تو ڈوگر نے کہا کہ " گو نواز گو " کے نعرے پر ، اس پر بلاول بھٹو زرداری جوش میں آگئے اور میز پر زور سے ہاتھ مارا جس سے میز پر پڑی چيزیں گرگئیں اور کہا
آپ میرے بابا کی پالیسی کو بائی پاس کرکے الیکشن لڑیں گے ، ایسا نہیں ہوگا
عامر ڈوگر کے مطابق اس ملاقات میں یہ طے ہوگیا کہ بلاول بھٹو زرداری جب ملتان کا دورہ سیلاب متاثرین کے حوالے سے کریں گے تو عامر ڈوگر کو پارٹی کا این اے 149 سے امیدوار نامزد کرنے کا اعلان سابق وزیراعظم سی یوسف رضا گیلانی کے گھر پر ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کریں گے لیکن اس طرح کا کوئی اعلان بلاول بھٹو زرداری نے نہیں کیا اور یہ نظر آنے لگا کہ پی پی پی جاوید ہاشمی کے مقابلے میں ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے
عامر ڈوگر پاکستان پیپلزپارٹی کا عام کارکن نہیں تھا ، وہ اس پارٹی کی صوبائی حثیت کی حامل تنظیم کا جنرل سیکرٹری تھا ، ٹکٹ ہولڈر تھا ، ملتان کی سیاست میں ایک مضبوط دھڑے کا قائد تھا اس کے باوجود اسے بلاول بھٹو زرداری سے ملنے کے لئے تین دن انتظار کرنا پڑا تو عام ورکر کی بلاول بھٹو زرداری تک رسائی کیسے ممکن ہوگی
پھر عامر ڈوگر نے ایک اور واقعہ کا زکر کیا ہے کہ 2012ء کے الیکشن میں شکست کے بعد پی پی پی کا جو اجلاس منعقد ہوا اس میں پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے ان کو بتایا کہ یہ الیکشن فکسڈ تھا اور آراوز نے چیف جسٹس کے ایماء پر باقاعدہ میچ فکسنگ کی ، جس پر عامر ڈوگر نے آصف علی زرداری کو کہا کہ پھر تو اس دھاندلی کے خلاف تحریک چلانی چاہئیے ، ورنہ پنجاب میں پی پی پی کے لیے سیاست کرنا مشکل ہوجائے گا ، عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے ان کو کہا کہ
سیاست سیکھو ، سکھاؤ نہیں
شریک چئیرمین پی پی پی آصف علی زرداری کا اپنے پارٹی کے لوگوں کے ساتھ رویہ کس قدر انانیت سے بھرا ہوا ہے اس کا اندازہ اس جملے سے کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے عامر ڈوگر کو جواب میں کہا
یہ پہلی مثال نہیں ہے جو آصف علی زرداری کی انانیت بارے سامنے آئی ہے ، وہ حال ہی میں جب لاہور آئے تو انھوں نے پی پی پی کے انتہائی تجربہ کار پرانے سیاست دانوں ، نوجوان کارکنوں اور پی پی پی کے ڈویژنل ، ضلعی اور سٹی سطح کےعہدے داروں کی اکثریت کی جانب سے پنجاب اور وفاق میں حکومت کے خلاف حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے اور سندھ میں اپنی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے مشوروں پر کان نہیں دھرے ، بلکہ جس نے زیادہ اصرار کیا اس کو جھڑک بھی دیا
پی پی پی پنجاب کے موجودہ جنرل سیکرٹری جو پنجاب کے وزیر خزانہ بھی رہے شہباز شریف کے ساتھ اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات کے چھوٹے بھائی ہیں کے بارے میں مجھے ایک انتہائی ثقہ اور پی پی پی پنجاب کے عہدے دار نے بتایا کہ وہ پی پی پی پنجاب کے میڈیا سیل کے ایک رکن جو کہ کرسچن کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے کے بارے میں یہ کہتے ہوئے اکثر پائے جاتے ہیں کہ
ایہہ وٹو نے کیہ چوہڑا ساڈے اتے مسلط کردتا اے
جس عہدے دار کے بارے میں پی پی پی پنجاب کے صوبائی جنرل سیکرٹری یہ تحقیر آمیز اور نسل پرستانہ جملے استعمال کرتے ہیں اس کا خاندان پی پی پی کی تاسیس کے زمانے سے ہی بھٹو خاندان کے سیاسی سفر کے ہم رکاب ہے اور اس کے والد بھٹو صاحب کے انتہائی قریبی رفقاء میں شمار ہوتے ہیں اور اردو و پنجابی کے معروف شاعر ہیں ، ایک زمانہ ان کا احترام کرتا ہے
مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ جس منظور وٹو کو ضیاء کی باقیات کہہ کر پی پی پی کا قبضہ گروپ شور مچاتا ہے ، اس کے بارے میں لاہور کے اکثر پارٹی کارکن یہ کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں کہ وہ پارٹی ورکرز کو عزت دینے میں بخیلی سے کام نہیں لے رہا اور اس نے انتہائی متحرک نوجوانوں کی ایک ٹیم سوشل اور ماس میڈیا پر پارٹی کو متحرک کرنے کے لیے تیار کی ہے لیکن پی پی پی میں قربت آصف علی زرداری سے مستفید ہونے والا قبضہ گروپ پارٹی کے عام کارکنوں اور پنجاب کی رائے عامہ کی دل کی آواز سننے کو تیار نہیں ہے
عامر ڈوگر نے اس انٹرویو میں جوش جذبات میں یہ بات بھی کہی ہے کہ جب وہ جنرل سیکرٹری بنے تو انھوں نے جنوبی پنجاب میں پارٹی تنظیموں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا ،لیکن میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ انھوں نے اس مقام پر اپنی زاتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لیے سچ نہیں بولا ، سچ یہ ہے کہ وہ اپنے حلقے کی سطح پر تو بہت متحرک رہے لیکن پارٹی کی تنظیم سازی اور تنظیموں ، ونگز کو متحرک کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکے کیونکہ یہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ہی ڈمی تھی ، ان کا عہدہ ایک نمائشی عہدہ تھا اور ان کو یہ سچ بھی بتانا چاہئیے تھا کہ میں نے ان کی تںطیم کے جملہ عہدے داروں کو پی پی پی جنوبی پنجاب کے انتہائی اہم کارکنوں کی ایک فہرست پکڑائی تھی اور سب کو باری باری پانچ سال کہا کہ ان کو پارٹی عزت ، جائز مقام دے اور ان کی معاشی حالت بہتر بنائے اور وہ لسٹ پھر فریال تالپور تک گئی لیکن اس کا انجام کیا ہوا کہ مجھے زاتی طور پر مالی امداد کی رشوت پیش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ میں اس حوالے سے پارٹی کے اندر اور باہر بات کرنا بند کردوں ، یہ جو فہرست تھی اس میں میرا نام بھی شامل نہیں تھا تو جس پارٹی میں ایسا قبضہ گروپ براجمان ہو جو اصلاح اور تنقید پر یا تو انانیت کا مظاہرہ کرے یا اس آواز کو رشوت دیکر دبانے کی کوشش کرے وہاں اصلاح احوال کی امید لگآنا مشکل ہوجاتا ہے
حالات بہت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین نے سندھ حکومت لیکر اور نواز شریف کو بڑا بھائی بناکر ان سے بناکر رکھنے کی ضد کرکے ایک طرف تو پنجاب ، خیبرپختون خوا سمیت ملک کے اندر عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کو پارٹی سے دور کرڈالا ، دوسرا ان کی جانب سے اپوزیشن کی اپوزیشن پالیسی نے ان کو خود اپوزیشن سے بھی دور کردیا ہے
آصف علی زرداری کی مفاہمت پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف سندھ کے اندر لسانی بنیادوں پر خلیج وسیع ہورہی ہے ، ایم کیو ایم الگ ہوگئی ہے تو دوسری طرف میاں نواز شریف سے ایم کیو ایم کے یارانے بڑھ گئے ہیں ، نواز شریف نے سندھ میں پھر سے ممتاز بھٹو ، لیاقت جتوئی ، غوث علی شاہ کو مناکر سندھ میں مسلم لیگ نواز کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، یہ ایک طرف توان رہنماؤں کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کو روکنے کی کوشش ہے تو دوسری طرف یہ سندھ میں پی پی پی کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بھی ہے ، سندھ میں پاکستان تحریک انصاف میرٹ ، انصاف اور غربت کے خاتمے جیسے پاپولر نعروں کے ساتھ میدان میں اترے گی تو سندھ میں غریب ، بے روزگار اور متوسط طبقے کے لوگوں کی بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کی کال کو قبول کرے گی اور پاکستان تحریک انصاف اگر سندھ کے اندرون میں پی پی پی کی بہتر اپوزیشن ثابت ہوئی تو پھر اندرون سندھ مں پی پی پی کے اندر شامل اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے مخالف حریف ، طاقتور مقامی سیاسی دھڑے رکھنے والے بھی اس میں شامل ہونے کو ترجیح دیں گے
پی پی پی دو طرفہ بحران تنہائی کا شکار ہے ، ایک طرف اس کا اپنا کارکن مایوسی کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے تو دوسری طرف اس کے پاس کوئی ایسی اپیل موجود نہیں ہے جو نوجوان نسل کو اس طرف کھینچ لائے کیونکہ ساری سیاست تو بس اقتدار سے چمٹے رہنے اور قبضہ گروپ کی جانب مال بنانے کے گرد گھوم رہی ہے اور مجھے پہلی مرتبہ پاکستان کی واحد قومی ، ملک گیر سیاسی جماعت کے سکڑ کر ایک چھوٹی جماعت بننے کا خدشہ لاحق ہورہا ہے
سرائیکی وسیب میں پی پی پی کی سیاست سے لوگوں کے الگ ہونے کا سبب جہاں اس کی نواز شریف سے دوستی نبھائے جانا ہے ، وہیں پر اس کا ایک سبب سندھ کی تقسیم کے معاملے پر ایسے بیانات داغنا بھی ہے جن سے خود سرائیکی خطّہ کے الگ صوبہ بنائے جانے کا کیس کمزور ہورہا ہے
آصف علی زرداری نے سندھ کی انتظامی تقسیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا یہ ناقابل عمل ہے اس سے مالی بوجھ بڑھ جائے گا
صوبائی وزیر داخلہ سندھ مںظور وسان کہتے ہیں کہ نئے صوبے بنانے کا مطالبہ ضیاء کا منصوبہ تھا
یہ دونوں بیانات پی پی پی کی قیادت کے بقول سندھ کے بارے میں کہے گئے ہیں نہ سرائیکی خطّہ کے بارے ميں لیکن جو دلیل اور اعتراض سندھ کی تقسیم کی مخالفت کے حوالے سے دئے اور لگائے جارہے ہیں وہ پنجاب کی تقسیم کی مخالفت کرنے والوں کے لیے بھی بہت کارآمد ہیں اور پی پی پی کی سرائیکی صوبہ کے حوالے سے ابتک کی روش سے یہ تاثر بھی پختہ ہوگیا ہے کہ وہ اسے ایک سیاسی کارڈ اور پریشر ڈویلپ کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے ، مقصد اس خطے کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا نہیں ہے
عامر ڈوگر اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں لوڈشیڈنگ ، غربت ، مہنگائی ، الگ صوبے کے ایشو پر پی پی پی جنوبی پنجاب کے اندر بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کرنا چاہتے تھے اور ایک تحریک شروع کرنا چاہتے تھے لیکن ان کو پی پی پی کی مرکزی قیادت نے ایسا کرنے سے روک دیا
عامر ڈوگر نے پی پی پی کی قیادت کے خلاف ایک بڑی چارج شیٹ پیش کی اور ان کا یہ انداز بیاں قربت شاہ محمود قریشی کی دین بھی لگتا ہے جو کہ جنوبی پنجاب میں پی پی پی کی بوری میں چھید پہ چھید ڈالتے چلے جارہے ہیں اور انھوں نے شجاع آباد میں ایک طرف تو غلام عباس کھاکھی کو شامل کیا تو دوسری طرف میری اطلاعات کے مطابق انھوں نے قاسم نون کو بھی گرین سگنل دے دیا ہے ، جہانیاں سے پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈر کیپٹن اختر واہلہ بھی تحریک انصاف کو پیارے ہونے جارہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ملتان ڈویژن ، بہاول پور ڈویژون ،ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں شاہ محمود قریشی پی پی پی کے اندر اور بہت سے ق لیگ کے جیتنے کی یا مقابلہ کرنے کی سکت رکھنے والے گھوڑوں کو اپنی جماعت میں شامل کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور سندھ میں بھی ان کے کئی ایک بااثر سیاسی خانوادوں سے رابطے دو نومبر کو کافی رنگ لیکر آئیں گے
یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے پی پی پی کے اندر اور باہر بہت سے بھٹو خاندان کی محبت میں سرشار لوگ پی پی پی کی قیادت کو پڑھوانا چاہتے ہیں لیکن آصف علی زرداری ان کو مشورہ دیتے ہیں کہ
سیاست سیکھو ، سکھاؤ نہیں
ویسے عامر ڈوگر نے پھر سیاست سیکھی لیکن آصف علی زرداری سے نہیں بلکہ شاہ محمود قریشی سے اور سیکھنے کے بعد وہ اب وہ خود آصف علی زرداری کو یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ
سیاست سیکھو ، سکھاؤ نہیں
No comments:
Post a Comment