مکّہ میں دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت کی تکمیل ہوچکی ہے اور اس عمارت کا نام رائل مکّہ ٹاور ہے اور یہ سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے مکّہ کو جدید سہولیات و تعمیرات سے آراستہ کرنے کے ایک میگا کا پروجیکٹ کا حصّہ ہے جس کے تحت مکّہ شہر کے وسط میں جدید شاپنگ سنٹرز ، اقامتی ہوٹل ، اپارٹمنٹ ، بینک برانچز ، میٹرو ٹرین ، ایکسپریس وے ، میٹرو اسٹیشن ، پارکنگ لاٹ اور مسجد الحرام کی توسیع کے منصوبے شامل ہیں ، جن میں سے بہت سے تو مکمل ہوگئے ہیں جبکہ کچھ مکمل ہونے کے قریب ہیں
مکّہ کو جدید بنائے جانے کے اس نئے مرحلے کا جیسے ہی آغاز ہوا تھا تو مکّہ کو ماڈرن بنانے کے خلاف بہت سی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں تھیں
ویسے تو سعودیہ عرب میں ایسے سعودی ماہرین فن تعمیر و آثار قدیمہ اور ماہرین ثقافت و تاریخ کا قحط ہے جو سعودیہ عرب میں آل سعود اور ملائیت کی جانب سے تاریخ ، قدیم تعمیرات اور ثقافت کی تباہی کو روکنے میں سنجیدہ رہے ہوں ،جبکہ خود سعودی حکومت بھی اپنے وجود کے اول دن سے تاریخ ، آثار قدیمہ ، ثقافت سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں رکھتی ہے لیکن ہم نے سعودیہ عرب کے اندر کوئی ایسی سیکولر ، ماڈرن تحریک بھی کھڑی ہوتی نہیں دیکھی جو سعودیہ عرب میں تاریخ ، ثقافت اور فن بارے سعودی عرب کے دشمن والے سلوک پر آواز بلند کرتی
1925ء میں جب ابن سعود نے مکّہ اور مدینہ پر قبضہ کرلیا اور مکّہ کے اندر جنت معلی اور مدینہ میں جنت البقیع کو مسمار کیا گیا ، جبکہ مولد پیغمبر کو مویشی منڈی بنایا گیا تو اس زمانے میں ہندوستان ، ترکی ، مصر سے زبردست احتجاج دیکھنے کو ملا تھا اور پوری مسلم دنیا میں مکّہ اور مدینہ میں مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کے خلاف سخت فضاء دیکھتے ہوئے سلطان عبدالعزیز ابن سعود نے لیپا پوتی کرکے اور رشوت کا بازار گرم کرکے بڑھتے ہوئے دباؤ کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی
انیس سو ستر میں جب سعودیہ عرب پیٹرو ڈالر سے سر سے پیر تک نہا چکا تھا زیادہ منظم انداز میں پورے سعودیہ عرب کو جدید سرمایہ داری معاشرے میں بدلنے کے لیے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا گیا اور اسی جدیدیت کے نام پر مکّہ اور مدینہ کی توسیع وغیرہ کا کام بھی شروع کیا گیا تھا
سعودیہ عرب کے نام سے جو ملک آل سعود اور وہابی ملائیت کے اشتراک سے نجد و حجاز پر قبضہ سے وجود میں آیا اس کی فکری بنیاد علامہ ابن تیمیہ ، حافظ عبدالھادی ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب اور پھر آل شیخ کے وہابی مولویوں بشمول شیخ ابن باز ، صالح العثمین کے کٹّر ظاہریت پسند تصورات اور خیالات پر استوار ہوئی اور یہ وہ لوگ تھے جن کے خیال میں اسلام اور مسلمانوں کے زوال کا سبب اور ان کے غلام بن جانے کی وجہ مسلم معاشروں کی مروجہ ثقافت اور ان کی مروجہ سماجی زندگی ہے اور ان دونوں بنیادوں سے جو مسلم تاریخ ، مسلم فن تعمیر ، ثقافتی مظاہر سامنے آئے وہ سب کے سب غیر اسلامی ، شرکیہ اور بدعت ہیں
آل سعود نے مکّہ ، مدینہ اور پورے حجاز میں اسلام کے ظہور میں آنے سے لیکر خلفائے راشدین ، اموی ، عباسی ، آل بویہ ، سلجوک ، ترک عثمان تک کے ادوار کے تمام تر تاریخی ، ثقافتی ، مذھبی ورثے کو یکسر مسترد کردیا اور ایک طرح سے چودہ سو سال کی مسلم عرب حجاز کی تاریخ ، ثقافتی آثار اور فن تعمیر کے نمونوں کو شرک ، بدعت اور غیراسلامی قرار دیکر رد کردیا گيا
مسلم تاریخ میں جتنے بھی حکمران نوآبادیاتی دور سے قبل آئے انھوں نے اگرچہ مجسمہ سازی وغیرہ رد کیا تھا لیکن فن تعمیر کے حوالے سے وہ اتنے بانجھ اور کٹھور کبھی نہ تھے جتنے آل سعود واقع ہوئے ہیں اور ان کی فوجی فتوحات میں قدیم تاریخی آثار کو مٹآئے جانے میں اتنی شدت کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی جتنی آل سعود کے ہاں پائی جاتی ہے اور یہ تو کسی مسلم حکمران نے نہیں کیا تھا کہ اس نے کسی قدیم مکان ، درخت ، مقبرے کو مسلم بزرگوں کی نسبت ہونے کی وجہ سے گرادیا ہو
آثار قدیمہ اور تاریخ کو مٹانے کا کام اگر پورے مذھبی جوش و خروش کے ساتھ کسی نے سرانجام دیا تو وہ آل سعود ، وہابی ملائیت اور ان کی مدد و اعانت سے پروان چڑھنے والے طالبان تھے لیکن افغان طالبان کے امیر ملّا عمر نے کم از کم افغانستان میں یہ فرق تو ملحوظ رکھا کہ اس نے قندھار میں اپنی خلافت کا حلف اٹھاتے ہوئے احمد شاہ ابدالی کے مزار پر وہ خرقہ زیب تن کیا جس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کی جاتی ہے اور انھوں بامیان میں بدھا کے مجسمے کو اڑانے کے علاوہ افغانستان کی تاریخی و ثقافتی اہمیت کی زیادہ عمارتوں کو نقصان نہ پہنچایا لیکن اگر اسامہ بن لادن کو افغانستان میں اور زیادہ پاؤں جمانے کا موقعہ مل جاتا اور عرب وہابی جہادی جیسے وہاں پر قبضہ کررہے تھے تو بہت جلد وہاں وہی مناظر دیکھنے کو ملتے جو ہم نے خیبرپختون خوا اور قبائلی ایجنسیوں میں ان کی آمد کے بعد دیکھے تھے کہ کوئی مزار ، کوئی امام بارگاہ ان کی بربریت سے محفوظ نہ رہی اور پھر گیت ، سنگیت ، فنون لطیفہ ، کھیل سب ہی ان کی بربریت کا نشانہ بن گئے اور آج کل ہم ثقافت دشمنی کا بڑے پیمانے پر نظارہ شام اور عراق میں 40 ہزار مربع کلومیٹر پر قائم داعش کی خلافت کی جانب سے دیکھ رہے ہیں
سعودی عرب مکّہ اور مدینہ کو جدید بنانے کے نام پر وہاں سے تاریخ کے مادی آثار کو مکمل مٹانے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ انھوں نے اس دلیل کے ساتھ کیا کہ مکّہ اور مدینہ میں زائرین کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا ہے اور حج و عمرہ کرنے کے لیے آنے والوں کے لیے مسجد الحرام کی توسیع اور حاجیوں کی رہائش ، ان کی خدمت کے لیے ضروری کاروبار کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جدید ترقیاتی کام اشد ضروری ہیں
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ترقی صرف مکّہ اور مدینہ میں موجود پرانے فن تعمیر کو مٹاڈالنے اور وہاں پر تاریخی آثار کو ختم کردینے سے ہی ہوسکتی تھی ؟
میں خود تو فن تعمیر کی مبادیات سے واقف نہیں ہوں لیکن اس حوالے سے کئی ایک فن تعمیر کی بہت زیادہ شد بد رکھنے والے دانشوروں کی تحریریں سامنے آئی ہیں جن میں ایک تو خود جدہ سے تعلق رکھنے والے معروف آرکٹیکچر محمد سامی محسن عنقاوی ہیں ، دوسرے برطانوی نژاد پاکستانی ماہر فن تعمیر ضیاء الدین سردار ہیں ، تیسرے سری نگر سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ، فلم ڈائریکٹر ، سکرپٹ رائٹر ، صحافی بشارت پیر اور چھوتے تھامس لپ مین ہیں - اور ایک اور اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر عرفان علاوی ہیں ، جن کی جانب سے مکّہ اور مدینہ کی اس نام نہاد جدیدیت کی شدید مخالفت کی جارہی ہے اور وہ اسے تعمیر کی بجائے تباہی قرار دے رہے ہیں
ضیاء الدین سردار نے " مکّہ کی تباہی " کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا ، اس آرٹیکل میں انھوں نے مکّہ کی جدیدیت کو الٹراماڈرنائزیشن کا نام دیا اور ان کے خیال میں مکّہ کی جدید تعمیر اصل میں پورے مکّہ کی تاریخ کو مٹانے اور دوسری طرف خود مقصد حج کو فوت کرنے کے مترادف ہے - وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے قدیم اسلامی تاریخی شہر مکّہ کو مٹاکر اس کی جگہ سعودی عرب کا نیا ڈزنی لینڈ اور لاس ویگاس پیدا کردیا ہے
ضیاءالدین سردار نے اس الٹراماڈرنائزیشن کا دانشورانہ تباہی کا پہلو بھی تلاش کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ آل سعود اور اس کے وہابی ملّاؤں نے ایسا جدید مکّہ تعمیر کیا ہے جو مونو لتھک ہے ، بہت زیادہ کٹر پنتھی ہے اور تنوع و تکثیریت کا دشمن ہے اور وہ اس الٹراماڈرنائزڈ مکّہ کو پوری مسلم دنیا کو مونو لتھک اور تنوع و تکثیریت مخالف معاشروں میں بدل جانے کا زمہ دار بھی قرار دیتے ہیں
ان کے خیال میں جو حاجی جدید مکّہ میں مناسک حج ادا کرنے کے دوران اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لیکر بعد تک کے ارتقائی سفر کی تلاش وہاں کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کو اس تلاش میں گوہر مقصود ہاتھ نہیں آئے گا اور نہ ہی حج اب مختلف نسلی ، قومیتی ، لسانی ، مسلکی پس منظر کے حامل لوگوں کے درمیان باہمی تبادلہ خیال اور فکری جدال کا موقعہ فراہم کرنے والا اور مکّہ تنوع پر مبنی فکری مکالموں کا مرکز رہا ہے بلکہ حج ایک پیکج میں بدل گیا ہے جس میں ایک ہوٹل سے دوسرے ہوٹل ، ایک مخصوص گروپ میں حرکت کرنے کا نام ہی حج رہ گیا ہے
سرمایہ دارانہ جدیدیت کی علمبردار اقوام نے لندن ، پیرس ، روم کی تاریخی ، ثقافتی اور مذھبی شناخت کو باقی رکھا اور ان کو ان کی تاریخ سے محروم اور بے چہرہ نہیں کیا ، اس بات کو خود سعودیہ عرب کے ماہر فن تعمیر محمد سامی محسن عنقاوی جو جدہ کے رہنے والے بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں
سامی محسن عنقاوی نے 1975ء میں "حج ریسرچ سنٹر " کی بنیاد رکھی اور اس سنٹر کے تحت انھوں مکّہ اور مدینہ میں قدیم تاریخی عمارتوں کو محفوظ بنانے اور ان کو تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اپنے طور پر مکّہ اور مدینہ کی تاریخ کو محفوظ بنانے کا کام شروع کیا اور حال ہی میں انھوں نے رائٹر خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ انھوں نے مکّہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کو تلاش کرلیا ہے جیسے انھوں نے دار ارقم کو تلاش کرلیا تھا لیکن ابھی وہ اس مکان کو پبلک نہیں کررہے کیونکہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو سعودی حکومت اس مکان کے ساتھ بھی وہی کرے گی جو اس نے دار ارقم کے ساتھ کیا تھا کہ اس کو گرادیا تھا - حالانکہ دارارقم وہ جگہ ہے جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پہلی درس گاہ بنائی تھی
سامی محسن عنقاوی کہتے ہیں کہ 1932ء جب سے سعودی عرب کی بنیاد پڑی ،اس وقت سے لیکر اب تک 2014ء میں سعودی عرب نے جدیدیت کے نام پر 300 سے زیادہ تاریخی قدیم عمارتوں کو سرے سے مسمار کردیا اور کوئی تختی یا نشانی تک ان عمارتوں کی باقی نہیں ہے اور یہ ایک منظم طریقے سے ان شہروں کی تاریخ کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے
سامی محسن عنقاوی کی نظر میں سعودی عرب تاریخ اور ثقافت سے نفرت کرنے والے ملّاؤں اور حکمرانوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے اور 1992 ء میں سعودی عرب کی سنئیر مذھبی کونسل نے ایک فتوی جاری کیا ، جس میں آل سعود کو کہا گیا کہ وہ کسی بھی طرح سے مکّہ اور مدینہ میں پرانی تاریخی عمارتوں کو باقی رکھنے اور محفوظ بنانے کی کوشش نہ کرے اس سے شرک پھیلے گا ،گویا تاریخ ، آثار قدیمہ اور ثقافت کو اسلام کے عقیدہ توحید کے لیے خطرہ قرار دے دیا گیا
لندن میں ہسٹاریکل انسٹیوٹ اور اورنٹیئل افریقن اسٹڈیز کے پروفسر کنگ جیفری بھی سعودیہ عرب میں تاریخ ، ثقافت اور پرانے تعمیراتی فن کو معدوم اور مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں
سامی عنقاوی نے جدہ میں اپنا گھر " المکیہ " کے نام سے بنایا اور اس گھر کو انھوں نے " حجاز " کی ثقافت کا عکاس بنایا اور اس گھر کو بنانے کا مقصد حجاز اس کی اس ثقافت کو محفوظ کرنا ہے جو سامی محسن عنقاوی کے بقول سعودی وہابی ملائيت کے تاریخ و ثقافت دشمن خیالات و اقدامات کے ہاتھوں حجاز میں معدوم ہورہی ہے اور سامی عنقاوی کا کہنا ہے کہ حجاز کی ثقافت بالعموم اور مکّہ و مدینہ کی بالخصوص تنوع اور تکثیریت پر مبنی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر اس ثقافت کو محمد رسول اللہ سے شروع کیا جائے تو یہ 14 سو سال پر پھیلی ہے اور اگر حضرت ابراہیم سے شروع کیا جائے تو اس تاریخ کا دورانیہ 5000 ہزار سال پرانا ہے اور سعودی حکومت اصل میں 1400 سال اور 5000 ہزار سال پرانے تہذیبی و تاریخی ورثے کا قتل کرنے کا کام 1932ء سے کرتی آرہی ہے
تھامس لپ مین اسے " زر اور وہابیت " کے امتزاج سے بننے والا ماڈرن حجاز کہتے ہیں جبکہ سامی محسن عنقاوی کہتے ہیں کہ اسلامی آرکیٹیکچر روائت اور جدیدیت کا امتزاج رہا ہے اور اس میں مستقل اور متغیر دونوں شامل ہوکر توازن پیدا کرتے رہے ہیں جس کا سعودی حکمرانوں اور وہابی ملائیت کو زرا بھی احساس نہیں ہے اور سامی ایک منظوم شکل میں اسلامی فن تعمیر کی تعریف یوں کرتا ہے
الجمال ينتج من الكمال
والكمال ينتج من التكامل
والتكامل ينتج من التوازن
والتوازن ينتج من الميزان
الا تطغوافي الميزان
هذا سرالتصميم عند
جمال کمال سے
اور کمال تکامل سے
تکامل توازن سے
توازن میزان سے منتج ہوتا ہے
تو پھر میزان پر ہی اصرار کرو
اور یہی ڈیزائن کا سر یعنی راز ہے
تو سامی محسن عنقاوی کے ںزدیک مسلم فن تعمیر اور حجازی کلچر تصمیم کے ایسے سلسلے کا نام ہے جو روائت اور جدیدیت میں توازن سے جنم لیتا ہے اور اسی وجہ سے کمال و حسن پر مبنی ہے
پاکستان کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سعودی عرب میں تاریخ و کلچر کی تباہی کے بارے میں آنے والی تمام خبروں ، مضامین اور فیچرز کا بائيکاٹ کئے ہوئے ہے اور اردو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے تو اس حوالے سے اپنے ناظر اور قاری کو جاہل رکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،جبکہ یہاں کے کسی بھی نامور آرکٹیکچر یا آرٹسٹ یا ماہر تاریخ نے ابتک اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی ہے اور مذھبی حلقوں نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے
No comments:
Post a Comment