شیعہ مکتبہ فکر میں " انکار ، مزاحمت ، جہاد اور آزادی " کی روائیت بہت پرانی ہے اور اس کا آغاز خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی زات گرامی سے ہی ہوجاتا ہے اور شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن کا ماٹو بھی شیعہ مکتبہ فکر میں بنیادی حثیت کا حامل ہے
شہادت کا راستہ شیعہ مکتبہ فکر میں وہ راستہ ہے جس پر ابتک لاکھوں لوگوں نے سفر کیا ہے اور اس راستے پر ہزاروں سنگ میل ایسے ہیں جن پر ہزاروں نام جگ مگ ، جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں ، ڈاکٹر علی شریعتی نے کہا تھا کہ شیعت تو کربلا میں حسین کی شہادت سے دمشق تک شریکۃ الحسین ، ام المصائب کے دربار و زندان دمشق تک کے سفر کا نام ہے اور اس کا صفوی / مہاجنی شیعت سے کوئی علاقہ ہے نہ واسطہ
شہادتوں کا جب زکر شیعہ کے ہاں ہوتا ہے تو میدان کارزار سے محراب و منبر تک اپنے نظریات اور افکار پر قائم رہ کر شہادتیں پانے والوں میں کئی لوگوں کے نام آتے ہیں ، لیکن علم و فکر کے میدان میں بھی شیعہ کے ہاں ایسے چھے شہید موجود ہیں جو اس لیے شہید کردئے گئے کہ ان کے قلم اور ان کے زبان سے جو تخلیق کے سوتے پھوٹ رہے تھے ، ان سے شعور ، بیدار ، حریت فکر کی روشنی چار سو پھیلنے لگی تھی اور ظالموں کے ظلم کی حکومت کو ہر طرف سے چیلنچ کیا جانے لگا تھا ، ان شہیدوں کو شیعی کتابوں میں " چھے شہیدوں " کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ چھے شہید اپنے علم و فکر کے پھیلاؤ کی وجہ سے شہید کردئے گئے
اب آثار ایسے نظر آرہے ہیں کہ سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے شہر العوامیہ سے شیعہ مکتبہ فکر شہید سابع یعنی ساتواں شہید ملنے والا ہے اور اس شخصیت کا نام شیخ باقر نمر النمر ہے جن کو سعودیہ عرب کی ایک عدالت نے سزائے موت سنادی ہے
شیخ نمر النمر سعودیہ عرب میں ایک طرف تو شیعہ اکثریت کے دو صوبوں الحصاء اور قطیف کے حقوق اور شیعہ آبادی کے سول و جمہوری حقوق کے لیے عدم تشدد پر مبنی جدوجہد اور مزاحمت کررہے ہیں تو دوسری طرف وہ سعودی عرب میں آل سعود و وہابی ملائيت کے اتحاد پر مبنی فاشسٹ نظام حکومت کے خاتمے کے علمبردار بھی ہیں
شیخ باقر نمر النمر کہتے ہیں کہ اگر آل سعود سعودی عرب کے مشرقی صوبوں کی اکثریت آبادی کے ںطریات ، عقائد اور خیالات کی عزت نہیں کرسکتی اور ان کو دوسرے صوبوں کے لوگوں کی طرح حقوق نہیں دے سکتی تو پھر ان صوبوں کو آزادی ملنی چاہئیے ، شیخ باقر نمر النمر عراق کے کردستان کو بھی آزادی دینے کی حمائت کرتے ہیں اور کہتے ہیں جو بھی قوم آزادی چاہتی ہو ، اسے زبردستی کسی دوسری قوم کی طرف سے اپنے ساتھ ملانے پر اصرار نہیں کرنا چاہئیے ، شیخ باقر نمر النمر ایک آزاد منش مزاحمت کار اور شیعہ عالم ہیں جو نہ تو سعودیہ عرب میں حزب اللہ کی شاخ کے ممبر ہیں اور نہ ہی ایران نواز خیال کی جانے والی شیعہ کمیونٹی ، الاصلاحیہ سے منسلک ہوئے ، وہ عورتوں ، نسلی و مذھبی اقلیتیوں کے حوالے سے بہت روشن خیال اور ترقی پسند خیال کئے جاتے ہیں ، شیخ نمر سعودیہ عرب میں صرف شیعہ کمیونٹی کے اندر ہی نہیں بلکہ سنّی کمیونٹی کے اندر بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ، خود اعتدال پسند سلفی نوجوانوں میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے -اور شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی حکومت ان سے بری طرج خوفزدہ ہے
شیخ نمر کے مداحوں میں سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کی بیٹی شہزادی سحر بھی شامل ہے جس کو عورتوں کی آزادی کے حق میں اور آل سعود کے جابرانہ ںطام کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں گھر پر ںظر بند رکھا گیا ہے
شیخ نمر امریکی عوام اور شیعہ کے درمیان اتحاد اور یک جہتی کے داعی بھی ہیں جو ان کے مطابق آزادی اور شہری حقوق پر یکساں یقین رکھنے والے ہیں
شیخ نمر کی جدوجہد کے نتیجے میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں بیداری اور شعور ایک منظم طریقے سے سامنے آئی اور 2011ء کے آخر میں سعودی حکومت کے خلاف زبردست جدوجہد سامنے آئی اور 2012ء میں یہ بڑے بڑے مظاہروں میں بدل گئی ، جسے تجزیہ نگاروں نے " سعودی عرب میں عرب بہار " سے تعبیر کرنا شروع کردیا ، ان مظاہروں کی قیادت شیخ نمر کررہے تھے ،اسی دوران شیخ نمر پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا ، ان کے پیر میں گولی بھی لگی ، جبکہ اس سے پہلے 2004ء اور 2006ء میں بھی شیخ نمر النمر کو گرفتار کیا گیا تھا اور 2009ء میں بھی ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی
جولائی 2012ء میں ان کو سعودی سیکرٹ اینڈ انٹیلی جنس پولیس جوکہ المباحث العامة کہلاتی ہے نے گرفتار کرلیا اور ان پر بغاوت ، غداری ، سازش اور سعودی حکومت ک خلاف فساد پھیلانے کے الزامات عائد کئے گئے اور ان کے خلاف ان الزامات کے تحت خفیہ ٹرائل کیا گیا اور اکتوبر 2014ء میں سعودی قاضی نے ان کو سزائے موت سنادی
شیخ نمر کو سزائے موت سنائے جانے کی خبر ان کے بھائی محمد نمر نے ایک ٹوئٹ کے زریعے دی جبکہ سعودی حکام اسے چھپانے کی کوشش کررہے تھے ، جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی تو سعودیہ عرب کے اندر بھی اس پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا ہے ، سعودیہ عرب کے مشرقی صوبے میں بڑے ، بڑے مظاہرے ہوئے ہیں ، جبکہ مڈل ایسٹ میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر احتجاج کررہی ہیں اور عالمی برادری سے سعودیہ عرب پر دباؤ بڑھاکر شیخ نمر کو آزاد کرانے کا مطالبہ کررہی ہیں
آیت اللہ خوئی فاؤنڈیشن نے اس حوالے سے امریکی حکومتی اداروں ، ممبران سینٹ و کانگریس اور انسانی حقوق کی تںطیموں کو 20 ہزار سے زائد خط ارسال کئے ہیں جبکہ دنیا بھر سے اس پر ردعمل بھیجا جارہا ہے اور شیخ نمر کی سزا منسوخ کرنے اور ان کو رہا کرنے کے لیے آوازوں میں اضافہ ہورہا ہے
شیخ نمر جیسی آوازیں سعودیہ عرب کے اندر بہت اہمیت کی حامل ہیں ، جیسے سامی محسن عنقاوی کی سعودی عرب کی تاریخ دشمنی کے خلاف آواز ہے اور پرنس سحر جیسی آوازیں ہیں ، ار سب آوازوں کو یک جہتی کے اظہار کی ضرورت ہے جو ضرور کی جانی چاہئیے
سید ابومحمد مكي ملقب به جمال الدين و شرف الدين عاملی جوکہ معروف کتاب اللمعۃ الدمشقیۃ کے مصنف تھے - پہلے وہ قید کئے گئے ، پھر ان کو سنگسار کردیا گیا اور شیعہ مکتبہ فکر میں وہ شہید اور کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ، یہ شیعہ عالم شیخ حر الاملی کے شاگروں کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے یہ 1334ءء میں پیدا ہوئے اور 1385ء میں شہید کردئے گئے ، یہ واقعہ دمشق میں پیش آیا جب سلطان برقوق کی حکومت تھی اور سنگساری کے بعد ان کی لاش کو جلادیا گیا تھا ، شیعہ مکتبہ فکر میں وہ شہید اول کے طور پر مشہور ہیں
شیخ ضیاء الدین جبہی العاملی جوکہ 1506ء میں پیدا ہوئے اور وہ جبل عامل سمیت قاہرہ ، دمشق وغیرہ میں شیعہ اور سنّی دونوں کے مدارس میں پڑھے اور چاروں سنّی فقہ و فقہ جعفریہ کے مستند عالم مانے جاتے تھے ، یہ 1558ء میں سلطان دمشق سے ملنے جارہے تھے کہ راستے میں ان کا سرقلم کردیا گیا ، انھوں نے اپنی ایک سوانح عمری بھی لکھی تھی جو ان کے خاندان نے محفوظ رکھی اور ایک شرح انھوں نے شہید اول کی کتاب " المعۃ الدمشقیۃ " کی بھی لکھی تھی اور ان کو شیعہ مکتبا فکر میں شہید ثانی کے طور پر جانا جاتا ہے
قاضی نور اللہ شوشستری 1549 ء میں موجودہ خوازستان ایران کے شہر شوشستر میں پیدا ہوئے اور وہ اکبر کے زمانے سے ہندوستان میں مغل بادشاہوں کے قریب تھے ، بہت عالم فاضل آدمی تھے ، مغلوں کے دربار میں ایرانی اور ترک ، روہیلا پٹھانوں کے درمیان قربت دربار کے حوالے سے کشمکش چلتی رہتی تھی ، ہمایوں ، اکبر کے زمانے تک مغل سلطنت پر سیکولر روائت غالب رہی لیکن جہانگیر کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی کے زیر اثر پورے ہندوستان میں اینٹی شیعہ ، اینٹی ہندؤ اور یہاں تک کہ اینٹی سکھ فرقہ وارانہ مہم کا اثر دربار اور خود جہانگیر کے اپنے اوپر بھی ہوا ، اسی رجعت پسندی اور انتہا پسندی کی زد میں قاضی نور اللہ شوشستری بھی آئے ، انھوں نے شیعہ مذھب کے دفاع کے لیے فرنٹ فٹ پر بیٹنگ کی اس کی وجہ سے ان کو جہانگیر نے قید کردیا اور کوڑوں کی سزا سنائی ، کوڑے لگنے کے دوران ہی ان کی شہادت ہوگئی اور وہ شیعہ مکتبہ فکر میں شہید ثالث کہلائے ، ان کی شہادت کا زمانہ 1610ء کا ہے اور یہ جہانگیر بادشاہ کا دور تھا ، پھر شاہ جہاں سے لیکر عالمگیر کے دور تک ہندوستان میں صلح کلیت ، بھگتی ، ملامتی اور سیکولر ، روادار نظریات کے خلاف نہ صرف سماج کے اندر ملّاؤں کی تحریک مضبوط ہوتی چلی گئی بلکہ خود دربار بھی فرقہ پرستی سے لتھڑ گیا
اور یہ سلسلہ عالمگیر کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ، عالمگیر نے شیخ احمد سرہندی کے فرقہ پرست تصوف اور سخت گیر جامد شرعی تصورات کو اپنالیا اور ان کی روشنی میں سخت گیر فرقہ پرست ملاؤں سے فتاوی عالمگیری تیار کروایا اور اس کو ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا کوڈ بنانے کی کوشش کی اور یہ وہی دور ہے جب مغلیہ دربار میں شیعہ مخالف ، ہندؤ و سکھ مخالف خیالات تیز ہوگیا اور پراسیکوشن بھی بڑھ گئی تھی اور عالمگیر کے مرنے کے بعد یہ سلسلہ اور زیادہ گھمبیر ہوگیا ، شاہ ولی اللہ کی وفات کے بات ہندوستان میں شیعہ -تنازعہ اس لیے بھی بڑھ گیا کہ شاہ عبدالعزیز پسر شاہ ولی اللہ نے ایک کتاب " تحفۃ الشیعہ" لکھی جس کے بعد اس تنازعے میں شدت آگئی ، اور اس کتاب کا جواب مرزا محمد کامل دھلوی نے "نزھۃ الشیعہ " لکھکر دیا ، نواب آف جھجر (ہندوستان میں روہتک کے نواح میں ایک دیسی ریاست) وہ خاصے سخت گیر اور شاہ عبدالعزیز کے پیرو تھے ، انھوں نے مرزا کامل دھلوی کو سازش کرکے زھر دلوادیااور اس سے مرزا کامل دھلوی کی شہادت ہوگئی اور اس طرح سے کامل دھلوی شیعہ مکتبہ فکر میں شہید رابع کے طور پر پہچانے جاتے ہیں
شیعہ مکتبہ فکر میں شیعی روائت اور شیعی حریت فکر کے لیے شہادت پانے والے شہید خامس محمد باقر الصدر تھے ، یہ مارچ 1935ء میں پیدا عراق میں پیدا ہوئے اور انھوں نے شیعت کو دبانے اور جبر کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف محمد حسن البکر و صدام حسین کی آمرانہ حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ، جس کی پاداش میں صدام حسین نے ان کو شہید کردیا ، یہ عراقی دعوہ پارٹی کے بانی تھے اور اب شہید خامس کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں
آیت اللہ محمد باقر الحکیم جو عراقی سپریم انقلابی کونسل کے سربراہ تھے اور 2003ء میں ایک بم دھماکے میں نجفین میں ان کی شہادت ہوئی اور ان کی شہادت میں جو چار دھشت گرد ملوث تھے ان کا تعلق وہابی تکفیری دھشت گرد گروہ سے تھا ، آیت اللہ محمد باقر الحکیم شیعہ مکتبہ فکر کے شہید سادس کہلاتے ہیں
No comments:
Post a Comment