خالد احمد جوکہ پاکستان کے ایک نمایاں انگریزی میں لکھنے والے سیکولر ، لبرل کالمسٹ شمار ہوتے ہیں ، انھوں نے ایک کتاب " فرقہ وارانہ جنگ - پاکستان کی شیعہ - سنّی لڑائی اور اس کے مڈل ایسٹ سے رشتے " لکھی ہے
یہ کتاب خالد احمد نے ووڈرو ولسن سنٹر جوکہ واشنگٹن میں کامیاب ایک امریکی تھنک ٹینک ہے میں اپنے قیام کے دوران لکھی اور ان کا یہ قیام 2006ء میں تھا اس وقت اس سنٹر کے ڈائریکٹر لی ایچ ہملٹن تھے جنھون نے 2006ء میں " عراق اسٹڈی گروپ رپورٹ " مرتب کرنے والی کمیٹی کی سربراہی بھی کی تھی جبکہ لی ایچ ہملٹن آج کل ہوم لینڈ سیکورٹی ایڈوائزی کونسل آف امریکہ کا رکن ہے ، اس سے پہلے وہ امریکی ایوان نمائیندگان کا رکن بھی رہا اور اسی طرح اس کے پاس امریکی سینٹ میں انٹیلی جنس کمیٹی اور فارن ریلیشن کمیٹی کی سربراہی بھی رہی اور وہ نائن الیون کے حوالے سے بننے والے امریکی تحقیقاتی کمیشن کا رکن بھی تھا ، سیاسی طور پر وہ امریکی حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور اوبامہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے
جبکہ لی ایچ ہملٹن کے خیالات جو ان کی تحریروں سے مترشح ہوتے ہیں وہ ایران کے حوالے سے خاصے متعصب ہیں اور لی ایچ ہملٹن مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر دھشت گردی کا بنیادی سبب انیس سو اناسی میں ایران میں آنے والے انقلاب اور آیت اللہ خمینی کے برسراقتدار آنے کو ٹھہراتا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہی خیالات خالد احمد کی کتاب کے مسودے پر نظرثانی کرنے والی سابق امریکی سفیر اور اس وقت ووڈرو ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر رابرٹ ایچ میتھوے کے بھی ہیں
خالد احمد بھی اپنی کتاب کا جب آغاز کرتے ہیں تو وہ مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص فرقہ وارانہ تناؤ اور دھشت گردی کے ظہور کا سب سے بنیادی سبب ایرانی انقلاب کو قرار دیتے ہیں
مجھے اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ کتاب ایک غیر جانبدارانہ ، معروضی بنیادوں سے زیادہ اور ایک پاکستانی کے تناظر سے کہیں زیادہ امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سنٹر کے تناظر میں اور امریکہ کے مڈل ایسٹ پر بنے ہوئے خارجہ و سیکورٹی پالیسی بیانات کی روشنی میں لکھی گئی ہے
خالد احمد نے اپنی اس کتاب میں پاکستان اور مڈل ایسٹ میں فرقہ وارانہ تنازعہ کو نظری اور سماجی -معاشی ، سماجی - سیاسی دونوں طرح سے دیکھنے کی جو کوشش کی ہے وہ مجھے امریکہ کے اندر اس لابی کے زیادہ زیر اثر لگتا ہے جو اس سارے معاملے کو ایران - سعودیہ جیو پالیٹکل سیاسی مفادات کے ٹکراؤ اور نظری طور پر اسے شعیہ - سنّی جنگ کی عمومی اصطلاح میں بیان کرکے دیکھنے پر زیادہ زور دیتی ہے
اگرچہ خالد احمد پاکستان میں شیعہ - سنّی تنازعہ پر بات کرتے ہوئے اسے دیوبندی - شیعہ لڑائی کے طور پر بھی بیان کرتے ہیں لیکن وہ اس ایشو کو اپنے آخری نتیجے میں سعودی عرب - ایران لڑائی کے تناظر میں زیادہ دیکھتے ہیں
لی ایچ ہملٹن کا ایک تازہ مضمون امریکی جریدہ فارن پالیسی میں میری نظر سے گزرا ہے جس میں حیران کن طور پر انھوں نے عراق میں حالیہ داعش کے ظہور ، شیعہ - وہابی دیوبندی تکفیری تصادم اور دھشت گردی میں سعودیہ عرب ، وہابی دیوبندی تکفیری نظریات ، عرب وہابی بادشاہتوں کی مداخلت اور ترکی وغیرہ کے کردار کو بالکل ڈسکس نہیں کیا ، انھوں نے مالکی کی متعصبانہ پالیسی اور کاروائی کو تو بحث کا موضوع بنایا لیکن سعودیہ عرب کے کردار کا تذکرہ تک کرنا پسند نہیں کیا اور بلکہ وہ تو مڈل ایسٹ میں عراق والے معاملے پر ڈپلومیسی کی اصطلاح کے ساتھ داعش کو بس کنٹرول کرنے کا مشورہ دیتے نظر آئے نہ کہ اس کے مکمل خاتمے کے حامی نظر آئے
ووڈرو ولسن سنٹر کے مڈل ایسٹ پر میں پالیسی بریف پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ لی ایچ ہملٹن کی ڈائریکٹر شپ اور صدارت کے زمانے میں جوکہ 2010ء تک رہی ووڈرو ولسن ایرانیوں سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کی پالیسی کا حامی نہیں تھا جبکہ وہ عرب میں وہابی سلفی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جوکہ مصر ، تنزانیہ ، لیبیا میں غالب آتے دکھائی دے رہی تھیں بات چیت اور تعلقات بڑھانے کا حامی دکھائی دیتا تھا اور وہ ان کے لیے وہابی سلفی جماعتوں کی بجائے پولیٹکل اسلامسٹ پارٹیوں کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور عرب ملکوں میں سنّی اسلام میں وہابی اسلام کو سنّی عربوں کی اکثریتی حمائت کا حامل قرار دیتا ہے
خالد احمد کی کتاب میں عرب دنیا میں سنّی حلقوں میں بھی اکثریتی حمائت وہابی پویٹکل اسلام کے ساتھ دکھائی گئی ہے اور سعودیہ عرب کو سنّی اسلام کا علمبردار بتایا گیا ہے
خالد احمد نے 2006ء میں جب یہ کتاب لکھی تھی تو اس زمانے میں عام تاثر یہ تھا کہ امریکہ شاید ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے اور امریکی سیاسی ، صحافتی حلقون میں ایران کے حوالے سے سخت خیالات بہت زیادہ دیکھے جارہے تھے اور سعودیہ عرب کے حوالے سے فضاء اس قدر معاندانہ نہیں تھی اور اس خاص فضا کا اثر اس کتاب میں بیان کئے گئے خیالات پر بھی ںظر آتا ہے
مجھے ایسے لگتا ہے کہ امریکہ کی طرف دیکھنے والے بہت سے پاکستانی لبرل ، سیکولر ڈیموکریٹ دانشور ، صحافی اور سول سوسائٹی کے لوگ ابھی تک اسی فضاء میں سانس لے رہے ہیں جبکہ امریکی حکومت اور اس کے تھنک ٹینکس میں مڈل ایسٹ میں ایران اور شیعہ کمیونٹی کے کردار بارے پالیسی خیالات میں آہستہ ، آہستہ تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے اور سعودیہ عرب کے حوالے سے اب صورت حال وہ نہیں ہے جو 2006ء میں تھی
پاکستان کے اندر شیعہ ، صوفی سنّی ، کرسچن ، احمدی ، ہزارہ شیعہ اور ہندؤں کے خلاف دھشت گردی ، انتہا پسندی ، امتیاز اور تعصب جیسے معاملات کی فکری بنیادوں اور ان کی سماجی مادی بنیادوں پر امریکی ، روسی ، سعودی ، ایرانی ، فرانسیسی اور خود پاکستانی ریاست کی آفیشل خارجہ و سیکورٹی پالیسی نظریات سے آزاد اور زیادہ معروضی ، زیادہ غیرجانبدارانہ ریسرچ اور تحقیق پر مبنی کام کی انتہائی کمی ہے اور پاکستان کے اندر جو لبرل ، سیکولر ، جمہوری ہونے کے دعوے دار دانشور ، صحافی ہیں وہ بدقسمتی سے ان اثرات سے خود کو آزاد نہیں کراپارہے
وہابی -دیوبندی فاشسٹ آئیڈیا لوجی جوکہ اس وقت کے سیاسی اسلام اور جہادی اسلام کی بنیاد ہے اس کے تاریخی سماجی اظہار اور مشہود ہونے کی ٹھیک ٹھیک عکاسی ان اثرات کے غالب ہونے کی وجہ سے اوجھل ہوجاتی ہے اور اس میں شیعہ تو متاثر ہوتے ہی ہیں لیکن خود سنّی اسلام کا سب سے بڑا صوفی اظہار بھی متاثر ہوتا ہے اور وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے اور اسے سیاسی ، صحافتی اظہار کے مرکزی دھارے میں بہت کم جگہ ملتی ہے
خالد احمد نے شیعہ کی تکفیر کی تاریخی جڑوں کی تلاش کرتے ہوئے برصغیر میں مغل دور کے اندر خاص طور پر دو شخصیات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور ان میں ایک شیخ احمد سرہندی ہیں اور دوسرے شاہ ولی اللہ ہیں
شیخ احمد سرہندی کو ڈسکس کرتے ہوئے ،خالد احمد دھلی کے ہی ایک اور سنّی عالم جن کو مغل طور میں شیخ احمد سرہندی سے کہیں زیادہ مغل دربار میں اور دھلی اور اس کے گردونواح میں سنّی مسلمانوں کے اندر عزت و احترام اور بلند رتبہ مقام حاصل تھا نظر انداز کرگئے یا ان کو اس کے بارے میں پوری معلومات نہیں تھی
شیخ احمد سرہندی سے تنازعہ صرف شیعہ کا نہیں تھا بلکہ ان کا تنازعہ اس وقت کے چاروں سنّی سلاسل طریقت اور سنّی علماء کی اکثریت کے ساتھ تھا اور شیخ احمد سرہندی کے مقابلے میں اس شخصیت کا دھلی پر اثر زیادہ تھا
یہ شخصیت شیخ عبدالحق محدث دھلوی کی تھی اور انھوں نے شیخ احمد سرہندی کے نظریات سے اختلاف کیا اور اس وقت کے سنّی صوفی علماء کی اکثریت نے شیخ احمد سرہندی کے خیالات کو مسترد کردیا تھا اور انھوں نے لفظ شیعہ پر کفر کا اطلاق کرنے سے بھی انکار کیا تھا
اس لیے یہ کہنا کہ شیخ احمد سرہندی کے نظریات کو مغلوں کے دور میں مکمل غلبہ سنّی کمیونٹی میں ہوگیا تھا درست نہیں ہے اور اورنگ زیب کے دور میں سنی علما کے اندر تصوف کے خلاف وہابی رجحان اور شیعہ مخالف رجحان کے غالب آنے کے تصور کو خود ہندوستانی مورخین جن میں پروفیسر حبیب ، عرفان حبیب ، ستیش آنندی وغیرہ نے چیلنج بھی کیا ہے اور نظری اعتبار سے سلاطین دھلی کے نظریات اور روش کیا تھی اس پر خلیق انجم نے ضغیم کتاب لکھی جس میں اس تاثر کی نفی کی ہے کہ مغلیہ دور سے قبل کے سلاطین دھلی کے نظریات بھی سیکولر تھے
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پکچر اتنی سادہ نہیں ہے جتنی بناکر دیکھنے کی کوشش خالد احمد نے اس کتاب میں کی ہے اور اس کی وجہ مجھے ان کی رسائی ہندوستان کی تاریخ کے فارسی اور عربی اور جدید ہندوستانی مورخوں کی تحریروں سے دوری بھی نظر آتی ہے اور اس کی ایک وجہ خود ووڈرو ولسن سنٹر کی جانب سے تحقیق کا پالیسی پیٹرن بھی نظر آتا ہے
ان ماخذ سے دوری کی وجہ سے خالد احمد نے شاہ ولی اللہ کے بارے میں شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوہاب نجدی ، شاہ اسماعیل دھلوی اور سیداحمد بریلوی کے نظریات سے متاثر ہونے والے دیوبندی ، وہابی اور جماعت اسلامی کے حامی دانشوروں کی تحقیقات کو ہی ٹھیک مان لیا ہے ، جنھوں نے شاہ ولی اللہ کو شیخ احمد سرہندی کی طرح برصغیر میں شیعہ کی تکفیر پر مبنی نظریہ سازی کا امام قرار دینے کی کوشش کی اور اس باب میں انھوں نے شاہ ولی اللہ کے نام سے کچھ کتابیں تک گھڑ لیں
شاہ ولی اللہ کے بارے میں خالد احمد نے فیوض الحرمین میں ان کے ایک مکاشفہ سے جس میں انھوں نے روح محمدی کے ان کے خواب میں آنے اور ابوبکر و عمر پر علی کو افضلیت نہ دینے کا فرمان جاری کرنے کا واقعہ بیان ہوا ہے کو اس بات کی دلیل بنایا کہ شاہ ولی اللہ شیعہ کی تکفیر کے قائل تھے اور پھر انھوں نے قرۃ العنین نامی کتاب کو ان کی طرف نسبت کو ٹھیک بغیر کسی دلیل سے دے ڈالا جبکہ ان سے شیعہ کی تکفیر تو خود تکفیر کرنے والے دیوبندیوں نے منسوب نہیں کی تھی
شاہ عبدالعزیز نے جب اپنی کتاب " تحفۃ الشعیہ " لکھی تھی تو اس میں انھوں نے بہت سی ایسی رسومات اور طریقوں کو بھی شیعی رسوم و طریق لکھا تھا جو کہ خود اہل سنت کے اندر صدیوں سے رائج تھے ، جس پر اس وقت کے علمائے دھلی ، رامپور ، بدایوں اور فرنگی محل لکھنؤ نے بھی اعتراضات کئے اور قاضی فیض اللہ بدایونی نے تو اس پر ایک پوری کتاب لکھی
شاہ ولی اللہ شیعہ اور سنّی تنازعے کو کم کرنا اور دونوں کے درمیان اتحاد کی بنا تلاش کرنے کی جانب زیادہ راغب تھے اور انھوں نے تصوف میں بھی خود کو وحدت الوجودی صوفی کے طور پر متعارف کروایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ عبیداللہ سندھی نے جب شاہ ولی اللہ کی فکر کو ایک باقاعدہ مکتبہ فکر کی شکل دی تو انھوں نے اسے وہابی ،پیورٹن مکتبہ فکر نہیں بنایا تھا اور نہ ہی ان کے ہاں شاہ ولی اللہ شیعہ مخالف کوئی لیڈر یا نظریہ ساز بنکر ابھرے تھے
خالد احمد اس حوالے سے شاہ ولی اللہ کو شیعہ کے خلاف تکفیری عمارت کا معمار ہونے والے نکتہ نظر کی جو تائید کرتے ہیں ، اس کا ثبوت شاہ ولی اللہ کی کتب اور سوانح عمری سے نہیں ملتا ، جو انھوں نے خود لکھی اور ایک ان کے کزن عاشق اللھی نے لکھی
یہ درست ہے کہ دیوبندی اور اہلحدیث کے حلقوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیعہ اور تصوف کے ساتھ معاندانہ رویہ تکفیر میں بدلتا چلا گیا اور اسی کی دھائی میں یہ ایک پوری تحریک کی شکل میں شیعہ کے خلاف زیادہ اعلانیہ اور صوفی سنّیوں کے بارے زرا کم شدت کے ساتھ سامنے آیا اور 90ء سے تادم تحریر دونوں کے خلاف فکری اور عملی سظح پر پرتشدد ، عسکریت پسند اور ہنگامہ خیز صورت میں سامنے آگیا
No comments:
Post a Comment