اٹھارہ اکتوبر 2014ء پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی شہر میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا اور لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو وہاں اکٹھا کرلیا اور میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ہجوم سے واقف ہونے کی وجہ سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس ہجوم میں اکثریت پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں اور جیالیوں کی تھی اور ان کی اکثریت کے لیے آج بھی بھٹوز اور بے نظیر بھٹو انسپائریشن کا سرچشمہ ہیں اور ان کی کشش ان کو اس میدان تک کھینچ لائی تھی اور اس میں بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے امید کی رمق بھی سبب بنی جسے جیالے اور جیالیاں بی بی کی نشانی کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ اس میں سندھ میں پارٹی کی حکومت اور ٹرانسپورٹ کا بھی کردار تھا
میرے لیے اٹھارہ اکتوبر کا جلسہ اس لیے اہمیت کا حامل تھا کہ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا اکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے اندر پنجاب کے اندر تیزی سے بدلتی سیاسی صورت حال اور اس کی اپنی پارٹی کے ہمدردوں اور کارکنوں کے اندر پائے جانے والے تحفظات و سوچ کا ادراک موجود ہے ؟ کیا یہ قیادت پی پی پی کی پالیسی میں کوئی بنیادی قسم کی تبدیلی بارے اشارہ دے گی ؟ اور پی پی پی پر جو دوستانہ اپوزیشن کا الزام لگ رہا ہے ، اس الزام کو دور کرنے کے لیے یہ کون سے اقدام اٹھائے گی ؟
چوہدری اعتزاز احسن ، اور یوسف رضا گیلانی کی جانب سے پارٹی کی سب تنظیمیوں کو تحلیل کرنے اور نوجوان قیادت لانے اور ملتان کے ضمنی الیکشن میں بری کارکردگی پر جو اظہار پیشمانی کیا ، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی کی قیادت کے اندر یہ احساس جنم لے رہا ہے کہ اگر سیاست کے دھارے میں پہلی اور دوسری پوزیشن کو برقرار رکھنا ہے تو پھر فرسودہ تنظیمی ڈھانچے سے جان چھڑانا لازمی ہے - اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسی کوئی تبدیلی 30 نومبر سے پہلے ورکرز کنونشن سے قبل ایسی کوئی تبدیلی لیکر آتی ہے جس سے پی پی پی کے ورکرز کے اندر پارٹی کے اندر جمہوریت کا احساس پیدا ہو
اس جلسے میں کی جانے والی تقریروں کے متن کو دیکھا جائے اور ان میں سیاسی پارٹیوں اور حکومت پر تنقید کے تناسب کو دیکھا جائے تو بلاول بھٹو زرداری ، آصف علی زرداری سمیت تمام پی پی پی لیڈروں کی تقریروں میں تنقید کا سب سے زیادہ جھکاؤ پاکستان تحریک انصاف کی جانب تھا اور میاں نواز شریف کی جانب اور وفاقی حکومت کی جانب تنقید کا تناسب سب سے کم تھا اور اس میں بھی وضاحتیں زیادہ تھی
بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ میاں نواز شریف کی جانب سخت رویہ اختیار کیا جوکہ خوش آئیند ہے اور انھوں نے عمران خان کے ظالبان کے حوالے سے ماضی کے نکتہ نظر پر بھی بالکل درست تنقید کی ، لیکن اپنی تقریر م؛ں جو چیز وہ یا تو شعوری طور پر نظرانداز کرگئے یا ان کے نزدیک وہ زیادہ اہمیت کی حامل نہیں تھی وہ یہ تھی کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی تمام تر سیاسی جدوجہد کا اس وقت جو فوکس ہے وہ اس بات پر ہے کہ دو سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے اشراف پرستی پر زور دے رکھا ہے ، عوام سے جو ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے ، اس کا زیادہ حصّہ تو اشراف طبقے کی خدمت پر خرچ کردیا جاتا ہے اور امیر لوگوں پر ٹیکس کم ہے ، جبکہ تعلیم ، صحت ، سوشل سروسز پر بہت کم خرچ کیا جارہا ہے ، پی پی پی پر پاکستان تحریک انصاف کی تنقید یہ ہے کہ اس کی سندھ میں جو حکومت ہے وہ این ایف سی ایوارڑ سے ملنے والی بہت بڑی رقم کے باوجود اب تک سندھ میں بنیادی انفراسٹرکچر کو بدل نہیں سکی ہے اور بھٹوز کا جو شہر لاڑکانہ ہے ،اس کی غربت ، خراب تعلیمی و صحت کی صورت حال اور سینی ٹیشن و سڑکوں کے حوالے سے بری حالت ہے اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت بھی اشراف کی حکومت بن کر رہ گئی ہے ، بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں سندھیوں ، پنجابیوں ، سرائیکیوں ، بلوچوں ، پشتونوں ، گلگتیوں اور کشمیریوں کی حالت زار بدلنے کا کوئی ایجنڈا اور کوئی روڈ میپ نہیں دیا ،جس سے ان کے وژن کا پتہ چلتا بلکہ سٹیج پر ان قومیتوں کی ترجمانی جن لوگوں سے کروائی گئی ،ان کی کارکردگی سے تو یہ قومتیں سخت ناراض ہیں
گلگت بلتستان کی مثال لے لیں ، وہاں کے چیف منسٹر مہدی شاہ کی حکومت سے گلگت بلتستان کے لوگ کسقدر ناراض ہیں ، اس کا اندازہ عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت گںدم کی سبسڈی کی بحالی کے لیے ہونے والے بڑے بڑے احتجاجات سے کیا جاسکتا ہے ، جس کی قیادت پی پی پی نے نہیں کی تھی ، بلکہ اس کی قیادت انقلابی سوشلسٹ گلگت بلتستان کے صدر احسان علی ایڈوکیٹ کے پاس تھی اور نمایاں تںظیموں میں سے پی پی پی غائب تھی بلکہ اس کی حکومت تو لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کررہی تھی ، اور یہ نام نہاد چیف منسٹر مہدی شاہ اور اس کی کابینہ نے گلگت بلستان کے عوام کی خدمت کرنے کی بجائے جیسے لوٹ مار اور کرپشن کی ،اس سے لوگ پی پی پی سے ہی نفرت کرنے لگے ،پھر مہدی شاہ کی حکومت گلگت بلتستان میں تکفیری ، انتہا پسند طاقتوں پر کنٹرول کرنے میں ویسے ہی ناکام رہے جیسے پہلے پانچ سال پی پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت اور اب اس دور میں سندھ حکومت ناکام ہوئی ہے اور یہ شیعہ ، صوفی سنّی مسلمانوں کے ساتھ اپنی یکجہتی دکھانے میں خاصی ناکام رہی ، یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں متحدہ مجلس عمل ، پاکستان تحریک انصاف تیزی سے جگہ بناتی ہوئی سیاسی جماعتیں بنکر سامنے آرہی ہیں اور آثار یہ ہیں کہ گلگت بلتستان میں الیکشن ہوئے تو پی پی پی خاصی حسارے میں رہے گی اور اسے اپوزیشن بنچوں پربیٹھنا پڑے گا
بلاول بھٹو زرداری سے پہلے آصف علی زرداری کی پوری تقریر کے دوران یوں لگا کہ ان کے لیے اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف ہیں اور کوئی نہیں ہے ، ان کی لاہور یاترا کے دوران اور اس تقریر سے یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ وہ عمران خان اور طاہر القادری پر اس لیے زیادہ غصّہ ہیں کہ ان دونوں نے انھیں آرام سے چار سال تک زیادہ وقت دبئی اور یوروپ و امریکہ گزارنے نہیں دیا ، اور ان کی جانب سے چار سال بعد سیاست شروع کرنے کے خواب کو چکنا چور کردیا اور اس سارے کھیل میں کھنڈت ڈال دی جس کا بنیادی تصور یہ تھا کہ جو بھی ہوجائے ، جتنا بھی برا وقت عوام پر ہو ، حکومت کی پالیسیوں پر حقیقی اپوزیشن کا مطلب اسے ٹف ٹائم دینا نہیں ، اور نہ ہی اس کے اصلاح احوال پر رضامند نہ ہونے پر اسے گھر کا راستہ دکھانا ہے ، بلکہ جمہوریت ، آئین اور پارلیمنٹ کی گردان جاری رکھکر عوامی احتجاج کا ڈنک نکالنا ہے
اپوزیشن کی اپوزیشن کرنا بھی کوئی معیوب بات نہیں ہے اور خاص طور پر ایک آپ اپوزیشن کی اپوزیشن کسی نظریاتی آدرش کے لیے کررہے ہوں ، پی پی پی کی قیادت کا دیوالیہ پن تو رائے ونڈ جاتی عمرہ اور منصورہ مرکز جماعت اسلامی کے دوروں اور پنجاب کی صدارت سمیت پارٹی کے بہت سے عہدے ضیاءالحق کی کابینہ کے وزیروں اور غیرجماعتی مجلس شوری کے ارکان کو دے دینے سے بخوبی نظر آرہا ہے اور پھر پاکستان تحریک انصاف و پاکستان عوامی تحریک کی مخالفت کرنے سے بھی ان کو کسی نے نہیں روکا ، لیکن ان کے ایجنڈے اور منشور میں موجودہ سسٹم کے ڈلیور نہ کرنے کا جو سوال ہے ؟ اس کا کوئی جواب پی پی پی کی لیڈرشپ کے پاس نہ ہونے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی
اٹھارہ اکتوبر بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کا دوبارہ سے مہورت تھا ، اس مہورت کے کئی ٹریلر خود آصف علی زرداری نے اپنی صدارت کے دنوں میں بھی تین سے چار مرتبہ چلائے تھے اور اس وقت بھی ملک بھر میں پی پی پی کی قیادت کی اہلیت اور اس کی عوام دوستی کے دعوؤں پر سوال اٹھائے جارہے تھے ، آج بھی وہی فضاء ہے بلکہ زیادہ شدید ہے
اس وقت بھی بلاول نے زوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہونے کا جملہ بار بار دوھرایا تھا اور خود کو بھٹو ازم کا وارث کہا تھا اور آج بھی کہا ہے
میں بہت معذرت سے کہوں گا کہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ بھٹوازم سے ان کی مراد پک اینڈ چوز پر مبنی صرف وہ نکات ہیں جو ان کو بھاتے ہیں - مثال کے طور پر زوالفقار علی بھٹو کی فلاسفی سوشلسٹ اکنامی پر مشتمل تھی جسے بے نظیر بھٹو نے ترک کردیا تھا ، اور اس کی جگہ انھوں نے ریگن - تھیچر ازم کے مارکیٹ ماڈل کو دے ڈالی تھی اور آصف علی زرداری نے پانچ سال حکومت اسی ماڈل کے تحت کی بلکہ میں تو یہ کہوں کا ریگن - تھیچر مارکیٹ ماڈل میں کرپشن ، فیورٹ ازم کا تڑکا تو تھا ہی نہیں ، نہ ہی ککس بیکس ، کمیشن کا بھگار تھا ، یہ تڑکا اور بھگار تو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے وزیروں ، مشیروں نے ضیاء الحق کی باقیات سے مستعار لیکر اپنی سیاست کا نصب العین بنالیا اور اسے بھٹو ازم میں گڈمڈ کردیا اور آج تک اس پر کوئی معافی مانگنے کو تیار نہیں ہے
بلاول بھٹو زرداری بھٹوازم کے ایک اور پاپولر نعرے " سامراجیت مخالفت " کو بھی کبھی زبان پر لیکر نہیں آئیں گے اور بھٹو کی قیادت میں امریکہ اور یورپ کی سامراجی پالیسیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی جکڑبندی کے خلاف جو خیالات پی پی پی کے اندر موجود تھے ،ان کو بلاول کبھی دوھرانا پسند نہیں کریں گے ، وہ تو یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ کیسے لاطینی امریکی ممالک نے بھٹو ازم کی سوشلسٹ اور سامراجیت مخالف فکر کو ایک سیاسی عملی حقیقی پلان کے طور پر بولیویا ، وینزویلا وغیرہ میں نافذ بھی کرکے دکھادیا اور جو لوگ یہ کہتے تھے کہ منصوبہ بند معشیت اور نیشنلائزیشن کا وقت کزرگیا گیا ہے ،ان کو غلط ثابت کردیا
زرعی اصلاحات کا اعلان بھٹو نے کیا اور پھر 1977ء میں اپن اقتدار کے آخری دنوں ميں سخت گیر اصلاحات کرنے کا فجیصلہ بھی کرلیا تھا ، یہ بھٹوازم کا بنیادی جزو تھا ، مگر آج کی پیپلزپارٹی ایسا کوئی اقدام اٹھائے گی ؟
بھٹوازم کو چوں ، چوں کا مربّہ بنادیا گیا ہے اور اس سے جو چاہے نکل سکتا ہے اور پی پی پی کی قیادت اس سے دائیں سمت جانے والے خیالات ڈھونڈ ، دھونڈ کر لاتی ہے ، قبلہ آصف علی زرداری تو بھٹو ازم سے پی پی پی کی ضیاء الحق کی باقیات سے زبردستی نکاح کے وجوب کا فتوی ڈھونڈ لائے ہیں اور اسے سیاسی مفاہمت کا نام دیکر شہید بھٹو ، شہید بی بی کا فلسفہ قرار دیتے ہیں ، ان میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے جیالوں کو یہ سچ ہی بول دیں کہ ان کی ںظر میں آج کی سیاست مفاہمت کی سیاست ہے مزاحمت کی نہین ہے ۔ جس شہید بھٹو کو وہ مفاہمت کی سیاست کا علمبردار بتلاتے ہیں ، اس نے نے کمبائینڈ اپوزیشن اور ایوب کی گول میز کانفرنس کے نام پر بحران کا عوام دشمن حل نکالنے کی کوشش کا حصّہ بننے سے انکار کیا تھا اوریہی انکار اس کی پارٹی کو مغربی پاکستان کی فاتح بناگئی تھی اور بھٹو نوجوانوں کا ھیرو ٹھہرا تھا ، جس کا انکار آصف علی زرداری کی سیاست کا بنیادی جزو ٹھہر گیا ہے اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی اسی سمت دھکیلا جارہا ہے
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جو تقریر تیار کی ، اس تقریر کا متن یہ بھی بتلاتا ہے کہ وہ اس تقریر کو بنانے کے دوران یہ کوشش کرتے رہے کہ ایک تو عوام اور جیالوں پر یہ تاثر پڑے کہ ان کی پارٹی اور وہ نواز شریف کی حقیقی اپوزیشن ہیں ، دوسرا عمران خان کے اثر کو زائل کریں ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ماضی کے شاندار کارناموں کی لمبی فہرست گنوانے اور " پدرم سلطان بوم " کی گردان سے حقیقی اپوزیشن کہلانے اور لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کا ٹارگٹ حاصل ہونا بہت مشکل ہیں
بلاول بھٹو زردای اگر پاکستان پیپلزپارٹی کو پنجاب سمیت پورے ملک کی متحرک عوامی پارٹی بنانے کے خواہاں ہیں تو ان کو سندھ میں جاری شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی مسلمانوں کی پراسیکوشن ، ہندؤں کی نقل مکانی کو روکنے کے ساتھ ساتھ ، سندھ حکومت کی نااہلی ، کرپشن ، بدعنوانی ، بدانتظامی کو ختم کرنا ہوگا اور سندھ کی پسماندگی کو دور کرکے ایک حقیقی ترقی کا ماڈل دوسرے صوبوں کو دکھانا ہوگا ، جس کا مطالبہ وہ کے پی کے میں عمران خان سے کررہے ہیں اور پنجاب کے اندر سیاسی فضاء بدل چکی ہے ، لوگ ہر اس قوت کو لبیک کہنے کو تیار ہیں جو نواز حکومت کے فاہشزم کو للکارے جو بلاول بھٹو اپنے والد کے سیاسی مفاہمت کے پنجرے میں قید ہونے کی وجہ سے کرنے سے قاصر ہیں
بلاول بھٹو زرداری ! پی پی پی کا ہر ایک مخلص جیالا آپ سے اٹھارہ اکتوبر کو میاں نواز شریف اینڈ کمپنی سے سیاسی مفاہمت ختم کرنے کے اعلان کی توقع کررہا تھا جو آپ نے نہیں کیا بلکہ اس کے جواز تلاش ان کی تقریر میں ہرجگہ نظر آئی اور اس سے مجھے لگا کہ بلاول پر ماں کی بجائے باپ کا اثر زیادہ ہے اور وہ لاشعوری طور پر باپ کی لیگسی یا ورثہ کو گلے لگارہا ہے ، یہ عمل بلاول کو اس دلدل میں پوری طرح دھنسادے گآ ،جس میں ابھی بلاول کے پیروں کی انگلیاں ہی دھنسی ہیں ،اس دلدل سے باہر آنے کا طریقہ نام نہاد مفاہمت سے بغاوت کا اعلان ہے
No comments:
Post a Comment