پیپلز رائٹس کے پلیٹ فارم تلے انسانی حقوق کے مقتول کارکن راشد رحمان ایڈوکیٹ کی یاد میں لاہور میں ایوان اقبال میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جبکہ اس سے پہلے ملتان سول سوسائٹی نیٹ ورک نے ملتان آرٹس کونسل میں راشد رحمان کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا تھا
یہ دو بڑے اجتماعات جن کو ہم پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے کے نمائندہ اجتماعات کہہ سکتے ہیں دو ہفتوں کے درمیان ہوئے اور راشد رحمان کی ایف آئی آر درج ہوئے تین ہفتوں سے زیادہ ہوگئے ہیں
اس دوران بہت سے حقائق ایسے سامنے آئے ہیں جن سے این جی اوز کی اپنی ساکھ اور خاص طور پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ساکھ پر کافی سوالات اٹھتے نظر آتے ہیں
سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ راشد رحمان ایڈوکیٹ کے قتل میں خود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان مدعی کیوں نہ بنا؟دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مدعی راشد رحمان کے کسی وارث کو بنایا جانا مقصود تھا تو یہ مدعی آئی اے رحمان یا اگر ان کی پیرانہ سالی مسئلہ تھی تو ان کے بیٹے اشعر رحمان جوکہ ایک معروف انگرزی اخبار کے لاہور میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی ہیں کیوں نہ مدعی بنے
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ھیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے راشد رحمان کے قتل پر اپنے موقف کے حوالے سے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں ان تین افراد کا زکر ہے جنھوں نے راشد رحمان کو قتل کی دھمکی دی تھی اور راشد نے ان کے خلاف ایک درخواست ملتان پولیس کو دی جس میں ان کے نام بتائے تھے اور ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ ان تین افراد کے نام ایف آئی آر میں درج کئے جائیں
لیکن یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ جب راشد کے برادر نسبتی نے اپنی مدعیت میں راشد کے قتل کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے درخواست پولیس کو دی تو اس درخواست کا مصنف اور مشیر کون تھا؟کیونکہ اس درخواست میں راشد کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست اور اس میں زکر ناموں کا کوئی زکر موجود نہیں ہے
میرے ایک ایک سورس نے بتایا کہ اس درخواست میں ملزمان نامعلوم رکھنے کا مشورہ دینے والے بار کے ایک اہم عہدے دار تھے تھے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ملتان آرٹس کونسل میں سول سوسائٹی کی جانب سے ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں جب ان کو خطاب کے لیے بلایا گیا تو ایچ آر سی پی کے کارکن راؤ اکرم خرم ایڈوکیٹ اور بھٹہ مزدوروں کی کمپئن چلانے والے محمد حسین بھٹہ نے زبردست احتجاج کیا اور اس موقعہ پر یہ بھی کہا کہ مذکورہ عہدے دار ان تین لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جن کے نام راشد نے اپنی درخواست میں درج کئے تھے
پیپلز رائٹس کے راشد تعزیتی ریفرنس میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں ان تین افراد کے نام ایف آئی آر میں درج کرنے کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر شامل کیا گیا اور اس میں ایک نام جس کے بھائی وفاقی سیکرٹری قانون بتلائے جاتے ہیں کو بھی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا
لیکن میرے لیے حیرت کی بات ہے کہ پولیس کہتی ہے کہ مدعی کی جانب سے تاحال ان کو ایف آئی آر میں مذکورہ تین افراد کے نام شامل کرنے کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی
حیرت ہے جو پہلا قانونی تقاضا بنتا ہے اسے پورا کرنے سے ایچ آر سی پی کیوں قاصر ہے؟میں نے اس حوالے سے جب آئی اے رحمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ لاہور میں تھے جب راشد کا قتل ہوا اور ان کے سالے نے ایف آئی آر درج کرائی جبکہ ایچ آر پی سی نے چیف منسٹر،پرائم منسٹر ،آئی جی پنجاب ،ہوم سیکرٹری کو فیکسز کرائی ہیں کہ تین افراد کے نام ایف آئی آر میں شامل کئے جائیں
وہ کہتے ہیں کہ ملتان پولیس جھوٹ بولتی ہے کہ مدعی نے ان سے رابطہ نہیں کیا لیکن ملتان پولیس کا کہنا ہے کہ مدعی کا رابطہ ایف آئی آر میں تبدیلی کے حوالے سے نہیں ہوا اور نہ ہی درخواست مدعی نے ان تین افراد کے نام ایف آئی آر میں درج کرنے کی دی ہے
اس کا جواب ایچ آرسی پی کے لوگوں کے پاس شاید نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب میں نے عاصمہ جہانگیر سے یہ سوال کیا کہ ملتان میں جب بی بی بی سی کا نمائندہ ان سے راشد کے مبینہ قاتلوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو عاصمہ نے کیوں ان تین افراد کا نام نہیں لیا جن کے بارے میں بی بی سی کے نمائندے نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ اس دھمکی کے بعد ایچ آر سی پی نے راشد رحمان کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کئے تھے؟
عاصمہ جہانگیر صاحبہ اس سوال پر اپنا ٹمپرامنٹ لوز کربیٹھیں تھیں جو اس بات کی نشانی ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اپنی غلطی یا غفلت کا کوئی لنگڑا لولا جواز بھی موجود نہیں ہے
پاکستان کی اکثر و بیشتر این جی اوز ایک فیک اور جعلی سول سوسائٹی کی تشکیل کرتی ہیں اور اس این جی او سیکٹر کے بڑے بڑے نام اپنے شاندار ماضی کی کمائی کھانے میں مصروف ہیں اور وہ بنیادی طور پر صرف اور صرف غیر ملکی پروجیکٹس کو حاصل کرنے کی مہارت سکھانے والے بن گئے ہیں
ان میں سے اکثر ماضی کے کمیونسٹ،سوشلسٹ اور لبرل لیفٹسٹ ہیں جو عرصہ ہوا مارکس،اینگلس ،پلیخانوف،لینن،تراتسکی وغیرل کے خیالات سے توبہ تائب ہوگئے ہیں
آئی اے رحمان پاکستان کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے لیون ٹراٹسکی کا علم اٹھایا اور پھر اسے چھوڑ دیا اور آج یہ سارا این جی او سیکٹر بھولے سے بھی مارکس ،اینگلس،لینن،سٹالن ،ٹراٹسکی کا نام نہیں لیتا اور نہ ہی اس کی گفتگو میں ان اصطلاحات کا نام و نشان ملتا ہے جن کو یہ 70 ء اور 80ء کی دھائی میں اکثر استعمال کیا کرتے تھے
پوسٹ ماڈرن ازم اور پوسٹ سٹرکچرل ازم میں جنم لینے والی این جی اوز کی فلاسفی اور اس کی ٹرمنالوجی جو بنیادی طور پر مارکسی انقلابی ٹرمنالوجی کے مقابلے میں لائیں گئی تھیں ان کی حرز جاں ہیں
ایک نوجوان جوکہ حسین نقی ،آئی اے رحمان اور عاصمہ کی صحبتوں سے مستفید ہوا آج میری بات سے متفق ہے کہ پاکستان میں این جی او سیکٹر کوئی بنیادی تبدیلی لانے سے قاصر ہے بلکہ اس سیکٹر کا کام ہی اینٹی سوشل چینج ماحول کی تخلیق ہے
اس سیکٹر کے لوگ مرض کے علاج کرنے کی بجائے علامتوں کے پیچھے پڑے ہیں اور بنیادی پروڈکٹ کی بجائے بائی پروڈکٹ کو نشانہ بناتے ہیں،یہ مارکیٹ ماڈل اکنامی اور سامراجی تصور ترقی کو جائز اور اسے دنیا میں پھیلنے والی سماجی برائیوں کی اصل جڑ خیال نہیں کرتے بلکہ این جی او سیکٹر مارکیٹ ماڈل کی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ریاست اور سرکاری شعبہ جات لوگوں کو صحت ،تعلیم ،صفائی وغیرہ کی سہولتیں فراہم نہیں کرسکتے تو این جی اوز آگے بڑھ کر سرکاری تعلیمی اداروں ،ہسپتالوں کو اپنی تحویل میں لینے کا پروگرام بناتی ہیں جس سے نجی شعبے کو صحت اور تعلیم کے شعبے کو بھی نج کار کرنے کا موقعہ میسر آجاتا ہے
لبرل ازم جس کے پیچھے سرمایہ داری کے روشن خیال ہونے اور اس کے جمہوری ہونے کا خیال سمویا ہوا ہے اور اسی لیے این جی اوز عالمی سرمایہ داری سے جڑے پاکستان کو آج بھی جاگیرداری ملک کہتی ہیں اور بھولے سے بھی کارپوریٹ سیکٹر کی تباہ کاریوں کا زکر زبان پر لیکر نہیں آتیں ان کے ہاں جس انداز سے ابھر کر سامنے آتا ہے اس سے اس ملک کی اکثریت یعنی مزدوروں،کسانوں،غریب طالب علموں اور نچلے و متوسط طبقے کی عورتوں کی اکثریت کو کوئی تحریک نہیں ملتی ہے
اس لیے جب کبھی مذھبی فاشزم سے ان کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو یہ بری طرح سے ایکسپوز ہوکر سامنے آتی ہیں اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ این جی اوز جو پاکستان کی سول سوسائٹی کا سب سے طاقتور جزو خود کو گردانتی ہیں ان کی عوام میں جڑوں کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے
این جی اوز کی لبرل اشرافیہ اس ملک کے کارپوریٹ سیکٹر کے حملوں کے متاثرین کے شانہ بشانہ کبھی کھڑا ہونے کی ہمت اپنے اندر لیکر نہیں آتیں ،میں نے تو کبھی یہاں ویسے اندولن چلتے نہیں دیکھے جیسے ہندوستان میں نربدا ڈیم وغیرہ کی تعمیر پر چلے
پاکستان میں لبرل اشرافیہ ایک بھی تحریک ایسی نہیں چلاسکی جو گراس روٹ لیول پر مذھبی،نسلی فاشسٹوں کو چیلنچ کرسکتی ہو ویسے جیسی ہندوستان میں مسلم فار ڈیموکرسی اور انسٹیوٹ فار سوشل ڈیموکریسی ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا،سماج وادی پارٹی وغیرہ نے چلائی
میرے سامنے پنجاب میں مزارعین کی تحریک،سندھ میں ہاری تحریک،ماہی گیروں کی تحریک ،لیاری ایکسپریس کے متاثرین کی تحریک کی مثالیں موجود ہیں یہ ست تحریکیں بالاخر پروجیکٹس میں بدل گئیں اور ان تحریکوں سے جو مقامی قیادت ابھر کر سامنے آئی ان میں سے اکثر بڑی ڈونر ایجنسیوں کی ملازم یا اپنی این جی او بناکر پروجیکٹ حاصل کرنے میں لگ گئی اور جو پیسہ غیرملکی فنڈنگ سے آیا اس پر لڑائی ہوئی اور ہر تحریک اندر سے ٹوٹ گئی
مزدوروں کی مستقل ہونے کی تحریکوں کو بھی ایسے ہی کرپٹ کیا گیا اور یہاں بھی آئی ایل او ،ایف یو آئی سمیت بہت سی تنظیموں کے دلالوں نے مزدوروں کی تحریکوں کو منظم کرنے کے نام پر کرپٹ اور بدعنوان کرڈالا اور ایسی تحریکوں کا حشر بھی یہی کچھ ہوا
اصل میں غیرملکی ڈونرز یہ تعین کرتے ہیں کہ کون سے ایشو پر فنڈنگ کی جائے گی اور این جی اوز بھی اسی ایشو پر سارا زور لگاتی ہیں
میں ایک مثال دیتا ہوں کہ ڈی ایف آئی ڈی جو کہ برطانیہ کی ایک نیم سرکاری ڈونر ایجنسی ہے اس نے 7 سال کا ایک پروجیکٹ دیا جس کس تحت لوکل گورنمنٹس اور وفاقی و صوبائی اداروں کے شہریوں سے تعلقات میں بہتری اور ان کے مسائل کے حل کے لیے باہمی کوآرڈینشن قائم کرنا ہے اور اس کے لیے ہر ضلع میں آواز سول سوسائٹی نیٹ ورک قائم کرنا ہے اور یہ پروجیکٹس پاکستان کی مختلف این جی اوز کو دئے گئے اس میں جو ایڈوکیسی مہم ہے وہ ملتان اور بہاول پور میں ایس پی او کے پاس ہے تو میرے ایک دوست نے بتایا کہ خانیوال میں ایس پی او نے ایک سال میں چار کروڑ روپے اور لودھراں ،بہاول پور وغیرہ میں بھی تقریبا اتنے ہی روپے خرچ کئے ہیں گویا ایک سال میں 12 کروڑ روپے کی ایڈوکیسی مہم چلائی گئی اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
آپ کو ایوویلویشن رپورٹس کا ایک گٹھہ مل جائے گا ،فائلوں کا انبار ،سینکڑون ای میلز اور اور نہ جانے کیا الا بلا مل جائے گا ،لفظوں کا کوڑا دان ہے جو این جی اوز کی کارکردگی رپورٹس آپ کو دے سکتی ہیں اور ایک مافیا ہے جو آپ کو دیگر شعبوں کی طرح یہاں مل جائے گا
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پاکستان کے جعلی لبرل،جعلی روشن خیال جن کی ہر مہم ڈالر مائل اور فنڈنگ مائل ہوتی نے پاکستان میں روشن خیال ،ترقی پسند تحریک کو جتنا نقصان پہنچایا کسی نے نہیں پہنچایا
اسی لیے ارون دھتی رائے این جی او ایکٹوسٹ کو عمل سے عاری امپوٹنٹ کہتی ہیں اور ان کی عدم تشدد کی گردان اصل میں سوآئے بے عملی کے کچھ بھی نہیں ہے
ارون دھتی رائے مشرف دور میں پاکستان آئیں تو ان کو پتہ چلا کہ ان کو بلانے والے تو پاکستان میں نیولبرل سرمایہ داری اور اس کی جنگوں کی حمائت کرتے ہیں اور مشرف کا نام نہاد لبرل ازم ان کو بہت پسند ہے تو بہت حیران ہوئیں ،یہی حیرت نوم چومسکی کو ہوئی تھی کہ اس کی جنگ مخالف پالیسی سے الٹ سوچ رکھنے والوں نے آخر اسے پاکستان میں خطاب کرنے کی دعوت کیوں دی ہے؟
کیا آپ کو یاد نہیں کہ کیسے لاہور میں عاصمہ سمیت ان جعلی فیک لبرلز نے میراتھن ریسوں کو ہی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی معراج قرار دے ڈالا تھا
کیا حشر ہوا تھا پاکستان میں اینٹی افغان و عراق وار کمیٹیوں کی تشکیل کا جو این جی اوز کےسائے میں بنی تھیں اور یہ این جی اوز عرب بہار اور آکوپائے وال سٹریٹ پر منھ بند کرکے بیٹھی رہیں کیونکہ جمہوریت ان کی مرضی کےخدوخال لیکر مصر اور تیونس میں نہیں ابھری تھی
آج مصر میں السیسی نے مظاہروں میں 1000 اخوان المسلمون کے لوگ مار ڈالے یہ خاموش رہے کیونکہ نظریاتی مخالفوں کا مرنا ان کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتا
راشد رحمان جس کیمپ میں کھڑا تھا وہ کیمپ تو اس کے قتل کو ایک عالمی ایشو بناکر مغربی ڈونرز کو ڈالروں کی بوریوں کے منھ کھلوانے کے چکر میں ہے ،زرا ڈونرز کو رام ہونے دیں اور ڈالرز کی برسات ہونے دیں پھر دیکھنا کہ کون کون اپنے پرانے کام جہاں کم پیسے والے پروجیکٹس تھے چھوڑ کر بلاسفیمی لاز کے خلاف ایڈوکیسی مہم چلاتا نظر آئے گا
غیرت کے نام پر قتل ،بلاسفیمی ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والوں،مذھبی و نسلی اقلیتوں کی حالت زار پر ڈیٹا اور رپورٹس اکٹھی کرنا پروجیکٹ،ان کے حل کے لیے ایڈوکیسی مہم پروجیکٹ اور ان مسائل پر اپنی رائے وہی بنانا جو انٹرنیشنل ھیومن رائٹس تنظیمیں جن میں سے اکثر امریکی حکومت کے زیر اثر ہوتی ہیں ان کو ھدایات دیتی ہیں اور اس حوالے سے ان کی اپنی کوئی رائے سامنے نہیں آتی
یہ پورے معاشرے کے جو باہمی سماجی ربط اور تعلق ہیں ان کو توڑنے پر لگی ہوئی ہیں جبکہ ان کے دوسری طرف بھی ایک اجنبی ایجنڈا ہے جو قانون،عدالت ،اسلام کے طریقہ انصاف اور اسلامی اقدار کے منافی اقدامات میں ملوث ہے اور مذھبی جنونیت سے اسلام کو بدنام کررہا ہے
ایک طرف اسلامو فوبیا ہے جو مغرب سے ہجرت کرکے پاکستان آن پہنچا ہے تو دوسری طرف مذھبی جنونیت و انتہا پسندی ہے جو مڈل ایسٹ سے ایکسپورٹ یہاں کیا جارہا ہے ان دونوں سے ہمارا کوئی رشتہ ناتہ نہیں ہے پھر بھی یہی دو چہرے ہیں جو پاکستان کا امیج بنادئے گئے ہیں
No comments:
Post a Comment