“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Thursday, May 8, 2014
راشد رحمان کے نام
ابھی ابھی ملتان سے واپس لوٹا ہوں ،آج شام راشد رحمان ایڈوکیٹ کے جنازے میں شرکت کی تو جنازے میں خلق خدا کا ایک ہجوم تھا اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس جنازے میں شریک تھے
بس ایک طبقہ غائب تھا جسے اقبال کی زبان میں آپ لغت ہائے حجازی کا قارون کہہ لیں،مولانا روم کی زبان میں مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم کہہ لیں ،خواجہ غلام فرید کی زبان میں ملاّں نئیں کہیں کار دے ،جانن نہ شیوے یاد دے والے ملاّں کہہ لیں ،دین فی سبیل اللہ فساد والے مولوی کہہ لیں یا خود قران کی زبان میں لوگوں کا حق باطل طریقے سے کھا جانے والے اور یصدون عن سبیل اللہ کے مصداق کہہ لیں یا جو دل میں آئے کہہ لیں وہ اس عاشق کے جنازے سے غائب تھے
ان کا خیال یہ تھا کہ وہ جنازے کو پڑھائیں گے نہیں تو لوگ راشد کے جنازے میں نہیں جائیں گے اور وہاں کسی کو جنازہ پڑھانے کی توفیق نہیں ہوگی کیونکہ یہ لوگوں کی پیدائش اور ان کی موت پر اجارہ داری کے دعوے دار ہیں اور ان کے خیال میں یہ جسے مردود حرم کہہ دیں وہ مردود حرم ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بارے میں خلق خدا وہی وبان بولے گی جو ان اجارہ داروں نے بولنی شروع کردی ہوگی
لیکن اسے اجارہ دار اور ٹھیکے دار بھول جاتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند ہی نہیں پوری مسلم دنیا کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جسے ملاّں اور قاضی و مفتی نے مردود قرار دیا اسے خلق خدا کی اکثریت نے مقبول ٹھہرادیا
بلھّے شاہ نے کہا تھا کہ
وہ تینوں کافر کافر آکھ دے
تو آھو،آھو آکھ
کیوں کہ ملامتی صوفی کو پتہ تھا کہ ریا کار اور ہوس کار واعظ ،ملاّں ،شیخ حرم جس کو مردود کہے گا خلق خدا اسے ہی مقبول کہے گی
راشد کے جنازے مین خلق خدا کا اژدھام اور اس کی میت پر اشک بہاتی ہزاروں آنکھوں نے دین و مذھب کے ٹھیکے داروں کو واضح پیغام دیا ہے
ہر بات پہ کردیتا ہے تو اسلام سے خارج
اسلام تیرے باپ کی جاگیر نہیں ہے
مجھے ندیم سعید کی بات کا تذکرہ یہاں کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ایک انسان سچائی کے راستے پر چلتا ہے اور جس بات کو ٹھیک خیال کرتا ہے تو اسے اس سچ کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ قیمت اس کی بیوی کے بیوہ ہوجانے،ماں کے بیٹے سے محروم ہوجانے الغرض کے طرح طرح کے ذاتی المیوں کی شکل میں نکل آتی ہے اور اس پر دکھی ہونا لازم ہوتا ہے لیکن ان ذاتی المیوں کی کہانی اس قدر طویل نہ ہو کہ جس مقصد کے لیے قیمت ادا کی گئی ہوتی ہے وہ آنکھ سے اوجھل ہوجائے
ندیم سعید نے ٹھیک کہا کہ ندرت بیان کے چکر میں کچھ لوگ سلمان تاثیر ،شہباز بھٹی اور راشد رحمان کی شہادتوں کے زاتی المیوں کو بیان کرنے میں تو اپنی ساری صلاحتیں صرف کررہے ہیں لیکن وہ اس طرف نہیں آتے کہ یہ لوگ شہید کیوں ہوئے؟
ریاست لوگوں کی جان کا تحفظ کرنے اور خود قانون و عدالت بن جانے اور لوگوں کے خون بہانے والوں کی بیخ کنی کرنے مین ناکام ہوچکی ہے اور اس ریاست نے کالعدم تںطیموں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہیں جب چاہیں کسی کی بھی جان لے لیں
کڑوا سچ یہ ہے کہ بلاسفمی قوانیں ہوں کہ حدود ایکٹ سب کا نشانہ اس ملک کے وہ تمام لوگ اور افراد ہیں جو ملّا کی تعبیر و فہم مذھب سے اتفاق نہیں کرتے یا وہ غریب لوگ جن کے مکانات ،زمین یا مال و دولت پر ان کی ںظریں گڑی ہیں
اور جو بھی اس الزام کے تحت گرفتار ہوتا ہے تو اس کے حق میں آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے کارکن ہوں،پیروی کرنے والے وکیل ہوں،ملزم کی صفائی دینے والے گواہ ہوں اور جج ہوں سب کو بے پناہ دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے
جو جج مقدمے کو جھوٹ خیال کرکے ملزم کی ضمانت لے لے تو اس کو اس کے چیمبر ميں بہت آسانی کے ساتھ قتل کردیا جاتا ہے یقینی طور پر آپ کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عارف اقبال بھٹی کا انجام یاد ہوگا
اس واقعے کے بعد پریکٹس یہ ہوگئی کہ جو جج توھین مذھب کیس میں کسی ملزم کی ضمانت لے یا اس کو رہا کرے تو وہ جج اپنے خاندان سمیت اس ملک سے باہر چلا جاتا ہے
اور اکثر ججز ایسے ہیں جو ان کیسوں کو سننے سے انکار نہیں کرتے مگر التواء میں ڈالے رکھتے ہیں تاکہ وہ کسی مصیبت کا شکار نہ ہوں
راشد کے کیس میں ریاست کی اور عدالت کی کمزوری بے نقاب ہوگئی ہے
جس جج کے سامنے تین آدمیوں نے راشد کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی ان کے خلاف جج نے کوئی کاروائی نہ کی جبکہ پولیس کے پاس نامزد درخواست گئی تو بھی پولیس نے نامزد ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا
اور آج رات گئے تک جو ایف آئی آر راشد کے قتل کے مقدمے کی پولیس نے درج کی ہے اس میں ملزم نامعلوم لکھے گئے ہیں اور ان تین افراد کو مقدمے میں نامزد نہیں کیا گیا
یہ ایف آئی ار اور جج کا سامنے دھمکی ملنے پر بھی خاموش ہونا یہ بتلاتا ہے کہ ہماری انتظامیہ اور عدلیہ دونوں ہی مذھبی جنونیت اور فسطائیت کے ہاتھوں یرغمال بن گئی ہیں اور وہ ان جنونیوں کو شامل تفتیش کرنے تک یہ قاصر ہے
مذھبی جنونی اور فاشسسٹ ریاست کے اندر ریاست اور ریاستی اداروں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور ان کے مقابلے میں دانشوروں،ادیبوں،اساتذہ اور عام شہریوں کو ریاست نے مذھبی جنونیوں کے لیے آسان شکار بناڈالا ہے ہمیں سب سے زیادہ مذھبی جنونیوں اور ریاست سے ان کے مبینہ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ہی ایک راستہ ہے راشد،سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو لال سلام پیش کرنے کا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment