“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Saturday, May 10, 2014
راشد ،بھٹی،تاثیر اور عارف اقبال کا قصور کیا تھا؟
ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی موت سے کچھ ہفتوں قبل کہا تھا کہ
میں اپنا کام مکمل کئے بغیر مرنا نہیں چاہتا
اس وقت ایران کی سرزمین پر شاہ ایران کے ظلم کی انتہا ہوچکی تھی اور شاہ ایران ایرانی قوم کی آزادی ،قومی خود مختاری اور سامراج سے نجات کے لیے اٹھنے والی ہر موثر آواز کو دبانے اور خاموش کرنے پر تلا ہوا تھا
ڈیتھ اسکواڈ تھے جو شاہ ایران کے ہر مخالف کو موت کے گھاٹ اتارنے کی پوری کوشش کرتے تھے اور شاہ ایران کی بدنام زمانہ ایجنسی ساواک کا ہدف ڈاکٹر علی شریعتی تھے
ڈاکٹر علی شریعتی نے پہلے پہل ایران کے اندر زیر زمین رہ کر ایرانی قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا لیکن جب یہ دیکھا کہ اب سامنے دو راستے ہیں
ایک یہ کہ ایران کے اندر رہ کر شاہ کی ساواک کے ہاتھوں مارا جایا جائے
دوسرا یہ کہ جلاوطنی اختیار کی جائے اور باہر سے بیٹھ کر رہنمائی کی جائے
ڈاکٹر علی شریعتی موت سے ڈرنے والے آدمی نہیں تھے ورنہ اوکھلی میں سر دیتے ہی کیوں
لیکن وہ ایرانی سماج میں انقلاب اور تبدیلی کے عمل
کو بلوغت تک پہنچائے بغیر مرنے کی تمنا کرنے والے آدمی نہیں تھے اسی تناظر میں انھوں نے کہا کہ میں وقت سے پہلے مرنا پسند نہیں کروں گا اور وہ لندن چلے آئے
یہاں آکر ان کی پراسرار موت ہوئی،کچھ کہتے ہیں کہ ساواک نے ان کو شہید کیا اور کچھ کا خیال ہے کہ ان کی موت طبعی تھی
یہ قصّہ یہاں چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے میرے رفقاء،سئنیرز اور دوستوں کی ایک منڈلی نے بلایا اور مجھ سے کہا کہ
آپ کو اپنا کام کئے بغیر کسی وقتی اشتعال کو دعوت دیکر اپنی زندگی کے باب کو ختم نہیں کرلینا چاہئیے
جیو ٹی وی چینل ملتان کے جمشید رضوانی،انگریزی روزنامہ ڈان کے شکیل ،شکیل پٹھان مرحوم کے ہونہار صاحبزادے عدیل پٹھان،روزن تنظیم کی شبانہ عارف ،اے پی پی کے رضی الدین رضی ،ڈیلی ایکسپریس ٹرئیبون کے ایڈیٹر کمال صدیقی ،ایکپریس ٹرئبیون ملتان کے رپورٹر اویس شاہ،خالدہ مہتاب،رومانہ جعفر یہ وہ احباب ہیں جنھوں نے کل ملتان میں مجھ سے کہا
تحریر کے اسلوب میں کچھ ایسا بدلاؤ لانے کی ضرورت ہے کہ پیغام بھی پہنچے اور بچاؤ کا راستہ بھی نکلے
مجھے ان سب دوستوں اور اپنے سے بڑے اور زیادہ تجربہ کار دوستوں کی محبت اور تجویز پر یک گونہ فخر ہے کہ اس بے حسی اور آپا دھاپی کے دور میں ہے بھی چارہ ساز اور غمگساروں کی منڈلیاں موجود ہیں جو آپ کی فکر کرتے ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں
میں ان سب دوست احباب کا بہت مشکور ہوں جو جسمانی طور پر تو دور بیٹھے ہیں ،کچھ تو پردیس میں ہیں اور جن میں سے اکثر سے میں کبھی نہیں ملا اور پھر بھی وہ وطن میں چلتی گرم لو تھپیڑوں سے مجھے بچانے کی فکر کرتے ہیں
میں اپنے ان تمام ساتھیوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بات کہنے کا ایک قدرے نرم اسلوب اختیار کرنے کی کوشش کروں گا لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ
معاملہ اسلوب کو نرم یا گرم رکھنے کا ہے نہیں،معاملہ تو آپ کے سٹینڈ اور آپ کی پوزیشن کا ہے
کمال صدیقی مجھ پر ناراض تھے کہ ایکسپریس نیوز کے تین لوگوں پر حملے کے فوری بعد جو ای میل انہوں نے اپنے سٹاف کو جاری کی وہ پالیےی پر نظر ثانی تک طالبان کے حوالے سے خبروں کو روکے رکھنے کی تھی نہ کہ مستقل طور پر طالبان کے ہاتھوں سرنڈر کرنے کی اور بعد میں ایک پالیسی بنالی گئی
میری کمال صدیقی سے زیادہ بات ہو نہیں پائی ورنہ میں ان کو مثال دیکر ثابت کرتا کہ کیسے ٹرائیبون کی رپورٹنگ اور کالمز کے چناؤ میں فرق آیا اس کے بعد جو اب تک نہیں بدلا
ان سے میں نے عائشہ صدیقہ کے بلوچستان پر لکھے جانے والے آرٹیکلز کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کا شکوہ کیا اور بلوچستان پر ان کے اخبار میں ریاستی موقف سے ہٹ کر رپورٹنگ کے فقدان کا زکر کیا
کمال صدیقی کا کہنا تھا کہ عائشہ تو جو من میں آتا ہے لکھ ڈالتی ہیں لیکن اس کو اگر چھاپا جائے تو بعد میں جو ہوگا اسے اخبار کے ایڈیٹر کو بھگتنا ہوگا
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر کوئٹہ میں ان کا رپورٹر آئی ایس پی آر،ایف سی،بلوچستان کور سے ہٹ کر کسی بھی واقعہ پر دوسرا موقف رپورٹ کرنے پر تیار نہیں ہے کیونکہ اس کے خیال میں اگر اس نے ایسا کیا تو اس پر حملہ ہوگا یا اسے اغواء کرلیا جائے گا
اور اگر کسی اور جگہ سے رپورٹر کو بلوچستان بھیجا جائے تو اس کا اغواء ہوجانا یا قتل ہوجانا یقینی ہے
کمال صدیقی کی طرح ملتان سے شایع ہونے والے اخبارات کے ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ مذھبی فاشسٹوں کا ان پر سخت دباؤ ہے اور ان کے رپورٹرز کی جانوں کو شدید خطرہ ہے اس لیے وہ بہت سے ایسے ایشوز جن پر مذھبی فاشسسٹ بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کو رپورٹ کرنے سے گريزاں ہیں
مجھے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے کہا کہ راشد رحمان کے کیس میں ریاست اور اس کے اداروں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ راشد نے اپنی درخواست میں جن لوگوں کا زکر کیا تھا کو گرفتار کرلیں یا ان کے نام ایف آئی آر میں درج کریں
اس ایڈیٹر کے بقول جب ریاست کالعدم تنظیموں اور ان کی سرپرستی کرنے والے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے ڈر رہی ہو تو ایسے میں ایسے لوگ جن کے پاس سوائے قلم کے اور کچھ نہیں ہے وہ کیسے سورماء بن سکتے ہیں
اس ایڈیٹر نے مجھ سے پوچھا کہ
راشد کے جنازے میں راشد جن کے مقدے لڑا کرتا تھا یا وہ تھے یا راشد کی اپنی برادری کے لوگ تھا یا پھر اس کے مشکل سے وہ دوست احباب جو 100 ہوں گے تھے لیکن ملتان بار سے صرف اور صرف 20 سے 25 وکلاء شامل ہوئے تو جب ایک شخص کی اپنی وکلاء کمیونٹی کی اکثریت اس کے جنازے میں نہ شریک ہوئی اور نہ ہی اس کے رسم سوئم میں تو ایک اخبار سے آپ لوگ کیوں جہاد کی توقع رکھے ہیں
وہ مدیر مجھے کہنے لگے کہ تم نے محمد حنیف،ثناء اور چند دوسرے لکھاریوں پر ندیم سعید کی تنقید کو حمائت دی اور کہا کہ جس وجہ سے راشد کی جان گئی اس سے بات کو کہیں اور لے گئے،لیکن ندیم سعید یہ بات لندن کی بجائے پاکستان بیٹھ کر خاص طور پر ملتان میں بیٹھ کرکرتا تو میں وزن محسوس کرتا
اس مدیر کا مجھے کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو سمجھائے بغیر اور ان کو علم کی اے بی سی یعنی مبادیات پڑھائے بغیر آپ ایم کا نصاب پڑھانے کی کوشش کریں گے اور ایک دم آپ انتہا پر گئے اور کسی ان دیکھی گولی کا شکار ہوگئے تو پھر اگر لوگ خاموش رہیں تو گلہ کرنے کا حق نہیں
میں نے یہ ساری باتیں خاموشی سے سن لیں اور مجھے اس مدیر کی نیت پر بھی شک نہیں ہے لیکن میں اپنے سارے دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
وہ سلمان تاثیر،شہباز بھٹی ،راشد رحمان اور اس سے پہلے جسٹس عارف اقبال بھٹی کے ساتھ جو ہوا وہ اس لیے نہیں ہوا کہ یہ لوگ الٹرا ماڈرن تھے یا انہوں نے وکٹ پر اگلے قدموں کا استعمال کرکے بیٹنگ شروع کردی تھی
مجھ سمیت جتنے لوگ بھی راشد رحمان سے واقف تھے وہ سب جانتے ہیں کہ راشد نے کبھی بھی کسی پبلک میٹنگ میں یا دوستوں کی منڈلی میں ریڈیکل الٹراماڈرن رویہ نہیں اپنایا اور نہ ہی اس نے لبرل جنونی ہونے کا کردار ادا کیا
اپنے 30 سالہ قانون کی پریکٹس کے دوران راشد نے انتہائی ٹھنڈے اور منطقی انداز میں بات کی اور وہ تو دھیمے لہجے کا آدمی تھا اور اسے ہنگامہ پروری کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی
اس نے جنید حفیظ کے کیس میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے موکل پر بلاسفمی ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے اور اگر اس کو یہ کیس لڑنے دیا جاتا تو وہ اپنے موقف کو ثابت بھی کردکھاتا
جسٹس عارف اقبال بھٹی نے کہیں یہ نہیں کہا تھا کہ بلاسفمی جائز ہے بلکہ جسٹس نے تو یہ دیکھا کہ اس کی عدالت میں جن دو مسیحی بھائیوں کو توھین رسالت پر مبنی مبینہ پرچیاں لکھنے کا الزام لگا ہے وہ تو ان پڑھ اور لکھنے سے بھی عاری ہیں تو صاف نظر آرہا تھا کہ ان پر یہ مقدمہ بدنیتی سے قائم کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے دونوں بھائیوں کی ضمانت بعد از گرفتاری قبول کرلی
سلمان تاثیر نے بھٹہ مزدور آسیہ بی بی پر لگے الزام کی تردید کی تھی اور اس نے یہ کہا تھا کہ اس طرح کے کیسز کے انداراج اور تفتیشش کے طریقہ کار کو بدلنے کی صرورت ہے
شہباز بھٹی کا بھی یہی موقف تھا کہ توھین رسالت ایکٹ میں اندراج مقدمہ اور طریقہ تفتیشش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس قانون کو بے گناہوں کو تنگ کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے
یہ بہت عاجزانہ اور لبرل آدرشوں کی مثالیت پسندی و آزادی اظہار کے اعلی ترین نمونے کہیں نیچے کی بات تھی جسے مذھبی فسطائیوں نے نہیں برداشت کیا
ان چار مقتولین کے بارے میں ایک گھٹیا پروپیگنڈا مہم چلائی گئی اور ان کی ہر طرح سے بری تصویر پیش کرنے کی کوشش ہوئی اور توھین مذھب کے اکثر کیسز میں متاثرین کا ایک الٹرا ماڈرن،مذھب مخالف اور ملحدانہ امیج سے آگے بڑھ کر گستاخانہ امیج خود مذھبی فسطائیوں کے گوئبلز کے اپنے شیطانی ذھنوں کی کارستانی تھااور اس کا مقصد عام مسلمانوں کو بھڑکانے،ان کو مشتعل کرنے کے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا
اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہم اپنے انداز و بیان میں تب تبدیلی لائیں جب واقعی ہمارا موقف اور سٹینڈ بہت زیادہ ریڈیکل لبرل یا مذھب مخالف ریڈیکل ازم پر مبنی ہو اور ہم اس کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوں
ہم پاکستان میں مذھب کے نام پر مذھبی اقلیتوں پر جبر،شعیہ نسل کشی،اہل سنت بریلوی عوام پر حملوں کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور اگر ہم مذھب کے خلاف کسی جنگ کا اعلان کئے ہوتے تو ہمیں ممتاز قادری کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بریلویوں کے حق میں آواز بلند کرنا ترک کردینی چاہئیے تھی اور ہمیں شیعہ نسل کشی پر خاموشی اختیار کرلینی چاہئیے تھی اور مذھب سے نفرت کرنے والے کیا اس ملک کے عیسائیوں،احمدیوں،اسماعیلی ،سکھ ،پارسی وغیرہ کی مذھبی آزادی کے حق میں آواز بلند کررہے ہوتے کیونکہ وہ بھی تو مذاہب ہی ہیں
اس لیے یہ مقدمہ ہی غلط ہے کہ جن ملزموں اور وکلاء ،اساتذہ ،صحافیوں ،دانشوروں پر اب تک حملے ہوئے یا ان کا قتل ہوا اس کی وجہ ان متاثرین یا مقتولین کی جانب سے لوگوں کے جذبات یا عقائد کو مجروح کیا جانا تھا یا وہ مذھب کے بارے میں الٹرا خیالات کا آطہار کرہے تھے
مذھبی فاشزم یا فسطائیت جس کا سب سے بڑا اظہار دیوبندی-وہابی تکفیری اور خارجی شکل میں ابھرنے والی مسلح دھشت گرد تںطیمیں ہیں اور پھر ان کو کور دینے والی سنٹر رائٹ دیوبندی و وہابی تنظیمیں ہیں اصل میں روادار،عدم تشدد اور امن وآتشی پر مبنی خیالات کے مالک اور پاکستان میں شہریوں سے ان کے مذھب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے والوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور جو شخص یا گروہ ان کے ایجنڈے کو رد کرتا ہو ،ان کی اصل کو بے نقاب کرتا ہو اور ملائیت کے کاروبار کی جڑوں پر حملہ آور ہوتا ہو اسے یہ اپنی ہٹ لسٹ پر رکھتے ہیں
مذھبی فاشزم برصغیر پاک و ہند کی اس مذھبی ،سماجی اور معاشرتی ہم آہنگی کی روایت کو فنا کرنے کے درپے ہے جو اس خطے میں ہزاروں سال سے مختلف مذاہب و مسالک کے درمیان تفاعل اور باہمی لین دین کے عمل سے گزرنے سے وجود میں آئی ہے اور اس کے لیے تکفیر اور توھین کا الزام و فتوی سب سے کارگر ثابت ہوا ہے
اصل میں ہمیں اس جھوٹ کا پردہ فاش کرنا چاہئیے جو مذھبی فسطائی انسانی حقوق کے کارکنوں،روشن خیال سیاسی کارکن ،روشن خیال ادیب و شاعروں ،صحافیوں ،وکیلوں سے منسوب کیا جاتا ہے
اور ہمارے اہل قلم کو بے گناہوں کو مذھب کے نام پر راندہ درگاہ کئے جانے کے سلسلے کو بے نقاب کرنے اور اپنے قاری کو اس حوالے سے سچ بتانے کی کوشش کرنی چاہئیے
اور اگر اس راستے میں موت کا جام پینا پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا جاہئيے
بلوچستان کے حوالے سے سنسر شپ پر آئیندہ بلاگ لکھوں گا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment