Sunday, May 18, 2014

کھوتی بوہڑ تھلے


پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے دو طاقت ور دھڑوں کے درمیان اختیارات کی لڑائی میں ایک پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کے ایک دو ٹی وی چینلز اور اخبارات کو چھوڑ کر باقی سب کے سب ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس کے اتحادی مذھبی فسطائیوں کا ڈسکورس چھاگیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ یہ غلبہ فطری پروسس اور غیر جاندارانہ کھلی مسابقت کے زریعے نہیں ہوا بلکہ کرایا گیا ہے مثال کے طور پر آپ کو پاکستان کے جیو نیوز کو چھوڑ کر باقی سب اردو نیوز ٹی وی چینلز پر بھارت دشمنی اور ہندوستان کے صرف عقابی ،ہندو فاشسٹ چہرے کی رونمائی کے سوا اور کوئی چہرہ نظر نہیں آئے گا اس یک رخی چہرے کو لیکر نریندر مودی کی ہندوستان میں جیت پر پاکستان کے اردو ٹی وی چینلز پر جتنے ٹاک شوز ہوئے سب میں بھارت کی توسیع پسندی اور جارحیت کا ڈھول پیٹا گیا اور ایسے تجزیہ نگار اور سیاست دانوں کو دعوت دی گئی جن کو عرف عام میں پاکستانی عقاب کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اوریا جان مقبول،فرید پراچہ،حمید گل،ریٹائرڈ میجر جنرل ظفراللہ خان نیازی سمیت کئی سابق عہدے داران آئی ایس آئی و آئی بی و ایم آئی کی گویا لاٹری کھل گئی اور سنجی گلیوں مین بس یہی مرزا بنے پھرتے ہین یہ سب وہ ہیں جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جہادی پراکسیز کا حصّہ ہیں اور اسی کے بل بوتے پر اپنے فرمائے ہوئے کو مستند خیال کرتے ہیں ایک اور تبدیلی یہ آئی ہے کہ پاکستانی نیوز چینل کے نمبرز کی کیبل پر ترتیب بھی بدل گئی ہے ایکسپریس نیوز ،اے آر وائی اور دنیا نیوز تو ابتدائی نمبرز پر آئے ہی ہیں لیکن چینل فائیو ،میٹرو اور ڈان نیوز کی تقدیر بھی بدل گئی ہے جیو نیوز تو اکثر کیبل آپریٹرز نے بند کردیا ہے جبکہ جنھوں نے اسے بند نہیں کیا انھوں نے ایسے ایسے نمبر پر رکھا ہے جہاں آواز آئے تو تصویر غائب اور تصویر آئے تو آواز غائب ہوجاتی ہے جنگ،نیوز انٹر نیشنل اور روزنامہ ڈان کو چھوڑ کر باقی کے تمام انگریزی اور اردو اخبارات میں خبریں،تجزئے اور ادارئے و کالم سب کے سب ایک بڑی پروپیگنڈا وار چلاتے نظر آتے ہیں اور سازشی مفروضوں کا دور دورہ ہے اور ان کو پڑھ کر ایسے لگتا ہے جیسے ساری دنیا فوج اور آئی ایس آئی کو گرانا چاہتی ہے اور یہ گرانے کی کوشش اس لیے ہے کہ اس کے بعد پاکستان کو گرانا آسان ہوجائے گا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مین سٹریم دھارے کے ناظرین اور قارئین کے سامنے ایک ہی تصویر اور ایک ہی رخ موجود ہے جس سے ہٹ کر ان کو کسی اور رخ کو دیکھنے کی جو آزادی حاصل تھی وہ ان سے سلب کرلی گئی ہے کیبل آپریٹرز نے ایسے چینلز کو اپنی ترجیح بنالیا ہے جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق مواد پیش کررہے ہیں سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ابھی تک ملٹری اسٹبلشمنٹ کو اپنے پاؤں ٹھیک طرح سے جمانے کا موقعہ نہیں ملا ہے لیکن کسی کو خوش فہمی میں مبتلاء نہیں رہنا چاہئیے ،میری اطلاع کے مطابق آئی ایس آئی کا سائبر ونگ اور آئی ایس پی ار ایک طرف تو ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنے آفیشل اکاؤنٹس بڑے تزک و احتشام سے بناکر پروپیگنڈا وار مین کود پڑا ہے تو دوسری طرف اس کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے ایک بہت منطم اور پوری طرح سے مسلح سوشل میڈیا ونگ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اس ونگ کا ڈھانچہ اوپر سے نیچے گاؤں کی سطح تک لانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جبکہ اس دوران ٹوئٹر پر اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان،پاکستان علماء کونسل وغیرہ کی قیادت کو بھی متحرک کیا گیا ہے آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے ہم بستر صحافیوں کی ایک پوری لاٹ اپنے فیس بک اور ٹوئٹر پر آفیشل پیجز کے ساتھ ابھری ہے اور ان پر ہونے والی پوسٹس ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے عزائم کیا ہیں اس لیے میرا اندازہ یہ ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ سوشل میڈیا پر اپنے کنٹرول کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور اس کنٹرول کا ایک جزو یہ ہے کہ اپنے سخت ترین ناقدین کے خلاف جب بھی موقعہ ملے مذھبی توھین یا گستاخی کا الزام لگاکر حساب چکتا کرلیا جائے ویسے یہ جو نئی تبدیلی ہم الکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں دیکھ رہے ہیں اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تازہ معرکے میں ملٹری اسٹبلشمنٹ اپنے فیک لبرلز اور ماڈریٹس کو لیکر میدان میں نہیں کودی جی ہاں ملیحہ لودھی،نجم سیٹھی،شریں رحمان،اعجاز حیدر ،رضا رومی یہ سب کے سب لگتا ہے تازہ میدان جنگ میں کارآمد گھوڑے ثابت نہ ہوئے اور ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ضیاء الحق کے دستر خوان سے فیض یاب ہونے والے خاص طور پر اردو میڈیم کے جہادی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی افادیت اور اہمیت کا پھر سے اندازہ ہوچلا ہے تبھی تو نئے پرانے ضیاءالحقیوں کی ایک لائن ہے جو ختم ہونے کو نہیں آرہی ہے،ویسے کسی نے کہا تھا کہ کھوتی بوہڑ تھلے ہی آتی ہے چاہے جہاں مرضی پھر لے

No comments:

Post a Comment