Friday, May 16, 2014

سلگ اور مذھبی فسطائیت


ابھی کچھ دن ہوئے جب میں نے ایک فلم دیکھی ہیمنگوئے اور گیل ہارن ،یہ فلم ایک ایسے پریمی جوڑے کی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران رونماء ہونے والے واقعات کی براہ راست رپورٹنگ کرتا ہے اور پھر اس دوران لوگوں کے فسطائیت کو شکست دینے کے مناظر اور واقعات کو دنیا بھر کے لوگوں تک پہنچاتا ہے گیل ہارن کا کردار اس میں بہت اہم ہے اور خاص طور پر وہ ایک مقام پر ایک جملہ کہتی ہے کہ اگر آپ کھڑے ہوسکتے ہوں تو آپ لڑبھی سکتے ہیں اور بچ بھی سکتے ہیں فاشزم کس قدر خوفناک چیلنچ تھا پوری دنیا کے لیے اس کا اندازہ اس زمانے کے خوالے سے بنی فلموں،لکھے گئے ناولوں اور رپورتاژ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر کے شاعروں،ادیبوں،دانشوروں نے انٹلیکیچوئل سطح پر جاکر اس فاشزم کا مقابلہ کیا اور اسے شکست فاش سے دوچار کیا لیکن ایک بات ہے کہ فاشزم سے جںگ کے دوران پوری دنیا میں جو تباہی پھیلی اس نے انسانیت کے ترقی کے خواب کو بہت دھچکا لگایا اور اس دوران لایعنیت اور انسان کی عظمت کی نفی کے خیالات نے جڑ پکڑنا شروع کردی اور بہت مایوسی پھیلی اس مایوسی کے خلاف کھڑے ہونے،پھر سے جی اٹھنے اور پھر سے ایک نئی دنیا اباد کرنے کا خواب دانشوروں میں روشن گر دانشوروں نے دلانا شروع کیا آج ہمارے سماج کو کچھ ایسی ہی فسطائیت کا سامنا ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو ساری عمر فاشزم کے خلاف نبرد آزما رہے اور عوام کی سیکولر ،لبرل توانائی کو باقی رکھنے کے لیے کوشاں رہے وہ بھی فاشزم کے آگے علم سرنگوں کرنے کی بات کرتے نظر آتے ہیں فاشزم کسی بھی رنگ میں چاہے نسلی ،چاہے مذھبی وہ یک نوعی ہونے ،مونولتھک ہونے اور تنوع کا انکار کرنے کی کوشش پر مبنی ہوا کرتا ہے اور اس سے معاشرے میں حبس اور گھٹن میں اضافہ ناگزیر ہوا کرتا ہے اور اس میں کچھ گروہ زندہ درگور کردئے جاتے ہیں اور ان کو ایلین ،خارجی،دوجا،غیر قرار دیا جاتا ہے اور جب فاشزم اپنے عروج پر ہوتا ہے تو ایسے وقت میں پورا معاشرہ ایک قسم کی سرسامی حالت میں ہوتا ہے اور فاشسٹ نام نہاد اہل علم ہی قوم کے رہبر بن جاتے ہیں اور اس سے ہٹ کو جو بھی عقل اور دانش کی بات کرتا ہے تو اسے فوری طور پر پاگل قرار دے دیا جاتا ہے اور اسے پاگل خانے بھیج دیا جاتا ہے میں نے حال ہی میں ن -م -دانش کا ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانہ جو سعادت حسن منٹو کا مشہور و معروف افسانہ کی تعبیر پر لکھا ہوا ایک مضمون پڑھا جس میں انھوں نے پورٹر رائے کی پاگل پن کے بارے میں رائے درج کرتے ہوئے لکھا کہ جب سماج کی اکثریت کسی جنون کے زیر اثر عقل و دانش کے استعمال کو ہی جرم قرار دے دیتی ہے اور ایسے کسی بھی فرد کو ایلین قرار دیکر سماج سے خارج کردیا جاتا ہے اور بنتھیلیم اپنے ایک ڈرامے کے کردار سے یہ بات کہلواتا ہےکہ "وہ سب مجھے پاگل قرار دیتے ہیں اور میں ان کو،وہ زیادہ تھے تو انھوں نے مجھے ہرادیا" تو سماج آج ایک خاص قسم کے فسطائی سرسام میں مبتلا ہے اور جو اس سرسامی فسطائیت کی نشاندھی کرے یا اس کو پاگل پن سے تعبیر کرے اسی کو سماج ملکر پاگل قرار دیتے ہیں اور اسے پورے سماج میں اچھوت بناکر رکھ دیتے ہیں فسطائیت اپنے عروج پر مشترکات کی بجائے اختلاف ڈھونڈتی ہے اور زیادہ سے زیادہ خارج کرنے،باہر کردینے،اجنبی بناڈالنے اور یہاں تک کہ خارج کردئے،باہر کرڈالے گئے اور اجنبی قرار دے دئے گئے لوگوں کا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹاڈالنے کی کوشش کرتی ہے آپ میں سے بہت سوں کو نازی کیمپوں کا معلوم ہوگا اور پھر اجتماعی قبروں کی بازیافت کا بھی اور اسپین سابقہ اندلس میں فرانکو کے زمانہ جبر میں مخالفین فسطائیت کو مار ڈالنے والے ڈیتھ اسکواڈ جن کو آپ موت کے ہرکارے بھی کہہ سکتے ہیں تو ایسے موت کے ہرکارے ہمیں ہر گلی،ہر سڑک اور ہر چوک میں کہیں سے اچانک نمودار ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور بس چند منٹوں میں وہ اپنی کاروائی کرتے ہیں اور یہ جا اور وہ جا کہیں نہیں ہے کہیں نہیں لہو کا سراغ کہیں نہیں ہے اس سے بھی زیادہ ٹریجڈی یہ ہے کہ جو موت کے ہرکاروں کا نشانہ بن جاتا ہے تو اس سے ہمدردی کرنے سے پہلے اور ہرکاروں کی مذمت کرنے سے پہلے یہ سوال پوچھا جاتا ہے اس کا کیا نام تھا؟ اس کا کیا نام تھا؟جی ہاں !اسی عنوان سے ایک افسانہ مسعود اشعر نے لکھا ہے اور ڈاکٹر علی حیدر اور اس کے بارہ سال کے بچے کے مارے جانے کو مرکز بنایا ہے اور مسعود اشعر نے فسطائیت کو سلگ سے تعبیر کیا ہے جو نئی کونپلوں اور پودوں کو کھا جاتا ہے اور یقین کیجئیے یہ جس فسطائیت کا ہم سامنا کررہے ہیں وہ سلگ ہے جو نئی گھاس،نئی کونپل،نئی کلی کو شوق سے کھاتی ہے اور یہ بس اچانک کہیں سے نمودار ہوتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے مجھے مسعود اشعر کا یہ افسانہ راولپنڈی میں اس وقت بھی بہت یاد آتا رہا جب میں کرسچن اسٹڈی سنٹر میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے فاضل اور معروف ہندوستانی سماج وادی اور فمینسٹ ڈاکٹر خورشید انور کے تعزیتی ریفرنس میں ہندو فاشزم اور اس کے رد عمل میں ابھرنے والے اسلامو فوبک فاشزم پر بات کررہا تھا لیکن یہاں مجھے امید کی ایک کرن بھی نظر آئی اور وہ پشاور سے آئے علامہ مقصود سلفی کی صورت میں نظر آئی انھوں نے جس طرح سے فرقہ واریت اور انسان دشمنی کی مذمت کی اور اس کو دلائل سے ثابت کیا اس نے مجھ پر چھائی قنوطیت کو کافی حد تک ختم کردیا اور پشتون بنوں سے تعلق رکھنے والے انٹر نیشنل ریلشن میں سند فراغت رکھنے والے حسنین فلک نے سماج پر چھائے فسطائی پاگل پن کو رد کیا اس سے مجھے بہت حوصلہ ملا یہ کوئی سو سے زیادہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھے جو مختلف شعبوں میں کا تو پڑھائی کے آخری مرحلے میں تھے یا وہ عملی زندگی کا آغاز کرنے والے تھے اور سب کے سب پاکستانی معاشرے کی تعمیر کے جذبے سے سرشار تھے اور مذھبی و نسلی فسطائیت کو جڑ سے اکھاڑنے پھینکنے کا عزم کئے ہوئے تھے اور سب کے سب کمپوزٹ کلچر مشترکہ ثقافتی ورثے کی بنیاد پر تنوع کی بقاء کے لیے کام کرنے کا عزم کررہے تھے

No comments:

Post a Comment