Saturday, May 17, 2014

دھشت گردوں کا کھرا کہاں جاتا ہے؟


انگریزی روزنامہ ڈان،نیشن،دی نیوز انٹرنیشنل اور ڈان اردو نے خبر دی ہے کہ لاہور سی آئی اے پولیس نے آٹھ مبینہ دھشت گردوں کو صحافیوں کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ ان دھشت گردوں کا تعلق ٹی ٹی پی اور لشکن جھنگوی سے ہے یہ آٹھ دھشت گرد لاہور کے علاقوں کے رہنے والے ہیں جن میں ایک ٹریفک وارڈن اعظم بھی شامل ہے جس کی نشاندھی پر باقی سات دھشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ڈان اردو ویب سائٹ کے مطابق ٹریفک وارڈن اعظم جو ایک ماہ قبل سے لاہور سی آئی اے پولیس کی حراست میں تھا ہی کی نشاندھی پر سی آئی اے پولیس لاہور نے ڈاکٹر حیدر علی اور ان کے 12 سالہ بیٹے سمیت لاہور میں کئی اہم شیعہ ڈاکٹر،تاجر اور وکلاء کو قتل کرنے والے گروہ کو گرفتار کیا گیا تھا جس کا سرغنہ اشفاق گجر تھا اور ان آٹھ دھشت گردوں کا تعلق بھی اسی نیٹ ورک سے بتایا جارہا ہے اس نیٹ ورک کا سرغنہ شفیق شاہ جوکہ بند روڈ لاہور کا رہائشی ہے نے 1992ء میں سپاہ صحابہ پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور وہ بتدریخ سپاہ صحابہ پاکستان کا اہم اور سرگرم کارکن بن گیا اور پھر اس کی ملاقات ملک اسحاق سے ہوئی اور یہ شفیق شاہ سپاہ صحابہ پاکستان کے عسکری چہرے لشکر جھنگوی کا حصّہ بن گیا اور یہ بہت سی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھا اسی نیٹ ورک میں قاری آصف ہے جو کہ گلشن راوی لاہور کا رہائشی اور دیوبندی مدرسہ قاسمیہ رحمانیہ کا مدرس ہے اور یہ ان دھشت گردوں کو پناہ دیا کرتا تھا اس سے قبل جب اشفاق گجر نیٹ ورک کو پکڑا گیا تو اس میں بھی ایک دیوبندی مدرسے کا طالب علم بھی گرفتار ہوا اب تک شیعہ نسل کشی،اہل سنت بریلوی کے علماء کے قتل،امام بارگاہوں و مساجد پر حملے ،احمدیوں،ہندؤں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں اور کالونیوں پر حملے کے زمہ دار جو گرفتار ہوئے ان کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے ہے اور اکثر منصوبوں میں کسی دیوبندی مدرسے اور مسجد کا نام آتا رہا ہے کیا یہ بات وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان اور جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری کے باعث تشویش نہیں ہونی چاہئیے کہ ان کے ساتھ الحاق رکھنے والے مدارس اور مساجد کے ساتھ دھشت گردوں کے رابطے اور تعلق پے درپے ثابت ہوتے چلے جارہے ہیں خود مولانا سلیم اللہ خان کا مدرسہ جامعہ فاروقیہ وہ مدرسہ ہے جہاں پر ایس پی چودھری اسلم کے اوپر خود کش حملہ آور نے رات بسر کی اور اس کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتیں اور حملے کی منصوبہ بندی بھی یہیں سے کی جاتی رہی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتل اکوڑہ خٹک میں جامعہ حقانیہ میں ٹھہرے اور وہیں پر منصوبہ بندی ہوئی ڈاکٹر سرفراز نعیمی جوکہ معروف سنّی بریلوی عالم دین تھے پر خود کش بم دھماکہ کرنے والا بھکر میں دیوبندی مدرسہ کا طالب علم تھا حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حملے میں لاہور کے ایک دیوبندی مدرسے سے تعلق رکھنے والے لوگ ملوث تھے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وفاق المدارس کی قیادت عدل وانصاف سے بہت دور جاپڑی ہے اور وہ بجائے اپنے مدارس کے اندر تکفیری دھشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے اور ان مدرسوں کے خلاف راست اقدام اٹھانے کے جو دھشت گردی میں لوث ہیں ان کو بچانے میں زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں وفاق المدارس کا موقف ہے کہ ان سے منسلک دیوبندی مدارس دین کی تعلیم دیتے ہیں اور امن و سلامتی کی بات یہاں کی جاتی ہے اور دھشت گردی کا ان مدارس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ حال ہی میں جب تحفظ مدارس دینیہ کنونشن کے نام سے ملتان،لاہور،کراچی،پشاور،کوئٹہ وغیرہ میں وفاق المدارس کے جھنڈے تلے بڑے بڑے جلسے کئے گئے تو ان جلسوں میں دھشت گرد تکفیری جماعت اہل سنت والجماعت جوکہ سپاہ صحابہ پاکستان کا دوسرا نام ہے اپنی پوری قیادت اور طاقت کے ساتھ شریک ہوئی اور اس تکفیری دھشت گرد جماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کو مولانا سلیم اللہ خان،قاری حنیف جالندھری سمیت ہر دیوبندی عالم نے پروٹوکول دیا اسی جماعت کے اور انتہا پسند،تکفیری سوچ رکھنے والے دھشت گردوں کو جن میں اورنگ زیب فاروقی بھی شامل ہے ملک کے سب سے بڑے دیوبندی مدرسوں جن میں جامعہ بنوریہ،دارالعلوم کراچی،دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک،جامعہ اشرفیہ لاہور،جامعہ خیرالمدارس ملتان وغیرھم شامل ہیں کو پروٹوکول ملتا ہے اور ان کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے وفاق المدارس جو دیوبندی مدارس کی نمائندہ تنظیم ہے اور اس تنظیم نے ہمیشہ سے تحریک طالبان پاکستان و افغانستان کی دھشت گردی اور ان کی تکفیری آئیڈیالوجی کو حمائت دی ہے اور اگر کبھی دباؤ کا سامنا کونا پڑا تو یہ کہہ دیا جات ہے کہ ان کی دھشت گردی ردعمل ہے امریکی حملے کا دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء کی یہ جانبدارانہ روش ہے جس نے اس ملک میں رہنے والے ہر آدمی کو تشویش میں مبتلاکررکھا ہے جب بھی دیوبندی دھشت گردوں کی کور تنظیموں پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی تو یہ وفاق المدارس ہی تھا جو آگے آیا اور اس کے پلیٹ فارم سے اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے حامیوں کا دفاع کرتا رہا سچی بات ہے کہ میں آغاز کار میں یہ خیال کرتا تھا کہ مولانا سلیم اللہ خان،مفتی تقی عثمانی ،مفتی رفیع عثمانی ،زاہد الراشدی اور دیگر علمائے دیوبند اپنی صفوں سے تکفیری،دھشت گرد،انتہا پسندوں کو نکال باہر کریں گے اور اپنے مدارس میں ٹی ٹی پی،لشکر جھنگوی،جیش محمد ،اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق،رکنیت رکھنے والے لوگوں کو بین کرے اور پابندی لگائے کہ ایسے لوگوں کو نہ تو وفاق المدارس کے کسی بھی مدرسے میں نوکری یا داخلہ ملے گا لیکن ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا بلکہ جید علمائے دیوبند نے محمد احمد لدھیانوی ،اورنگ زیب فاروقی اور ملک اسحاق کو اپنا بیٹا کہا اور ان جیسے دھشت گردوں کو علمائے دیوبند کو دیوبند مسلک کا سپاہ سالار،جرنیل بناتے ہوئے دیکھا تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر مجموعی طور پر شیعہ ،سنّی بریلوی اور غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف جو دھشت گرد اور انتہا پسند لہر اٹھی ہوئی ہے اس کے جواز کا خیال لاشعور میں کہیں جاگزیں ہے اور اسے جہاد خیال کیا جارہا ہے میرے بہت سے دیوبندی دوست ہیں جو بہت اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ان میں مفتی صاحبان ہیں لیکن جب کبھی میں نے ان سے کہا کہ وہ اگر سپاہ صحابہ پاکستان،ٹی ٹی پی ،جیش محمد سمیت دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کے افعال و اقدام کو غیر شرعی ،غیر اسلامی خیال کرتے ہیں تو پھر جامعہ بنوریہ،دارالعلوم کراچی سے ہی ان کے خلاف فتوی لے آئیں تو وہ کہتے ہیں کہ نام لیکر ان کے خلاف فتوی لانا مشکل ہے اب اگر صورت حال یہ ہو تو پھر جب کبھی میں دیوبندی دھشت گرد مشین اور دیوبندی دھشت گرد تنظیموں جیسی اصطلاح استعمال کرتا ہوں تو میرے بہت سے دیوبندی دوست اس پر مجھے فرقہ پرستی کا طعنہ دیتے ہیں لیکن یہ دوست دیوبندی علماء کو یہ نہیں کہتے وہ اپنے جانبدارانہ روئے ختم کریں اور عدل و انصاف سے کام لیں اور جو لوگ پاکستان میں شیعہ کی نسل کشی میں ملوث ہیں ان سے بالکل خود کو الگ کریں کیونکہ ان کا کور ہی ہے جس سے یہ قاتلان و ظالمان اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہیں http://www.dawn.com/news/1106857/terror-network-having-ttp-link-busted

No comments:

Post a Comment