Thursday, June 5, 2014

روشنی سے ڈرے ہوئے لوگ


پاکستان میں نصابی کتب،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو مذھبی فاشسٹوں کے طے کردہ سنسر شپ پالیسی کے تحت کام کر ہی رہے تھے اب یہ مجھے یہ یقین آگیا ہے کہ پاکستان ٹیلی کیمنیکشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے بھی مذھبی فاشسٹوں کے مکمل کنٹرول میں ہے اور ان کے اس کنٹرول کو ممکن اور موجود بنانے میں پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا پورا پورا ہاتھ ہے روشنی پیج سمیت سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بہت سے لبرل اور روشن خیال ،خرد افروز عقلیت پسند آفیشل پیجز کو بند کردیا گیا ہے اور یہ پریکٹس مسلسل دوھرائی جارہی ہے پی ٹی اے کی جانب سے انٹرنیٹ سنسر شپ کی بڑھتی ہوئی روش بارے پاکستان کے کسی ایک بھی میڈیا گروپ نے اپنے انگریزی و اردو اخبار ،ٹی وی چینل یا ویب ایڈشن میں تذکرہ نہیں کیا اور نیوز آئٹم کے طور پر بھی یہ خبر شایع نہیں کی پاکستان میں حریت فکر پر قدغن لگائے جانے کا پراجیکٹ پہلے اگر جابرانہ تھا تو اب یہ مہا جابرانہ ہوگیا ہے ایک طرف پاکستان بھر کے تھانوں میں مذھبی فاشسٹوں نے توھین مذھب کے مقدمات کا اندراج شروع کرارکھا ہے اور 298 اے ،295 اے بی سی اور انسداد دھشت گردی کی دفعات کے ساتھ مقدمات درج کئے جارہے ہیں دوسری طرف یہ مذھبی فاشسٹ شہر بھر میں جعلی سول سوسائٹی کے روپ میں جب چاہتے ہیں شہر بند کراتے ہیں اور مقامی پولیس اور مقامی جوڈیشری پر اثر انداز ہوکر مذھبی فاشزم کی مخالفت کرنے اور آزادی فکر کا علم اٹھانے والوں کو نشان عبرت بنادیتے ہیں میں نے مذھبی فاشزم کو اس قدر طاقتور اور اتنا خون آشام جنرل ضیاءالحق کے دور آمریت میں نہیں دیکھا تھا بلکہ اس زمانے میں بائیں بازو کی سياسی،طلباء ،مزدور اور کسان تںطیمں اور ادبی و پروفیشنل تنظیموں کا ڈھانچہ مذھبی فاشزم کا مقابلہ کرنے آگے آتا تھا اور ہم نے اس زمانے میں جماعت اسلامی سمیت ضیاء الحق کے حامی مذھبی فاشسٹوں کا مقابلہ تعلیمی اداروں،کام کی جگہ اور گلی محلوں میں کیا اور کبھی ان کے فتاوی کفر و الحاد سے خوفزدہ نہیں ہوئے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اب وہ دور آگیا ہے کہ جس پر توھین مذھب کا الزام لگتا ہے وہ اچانک اکیلا اور تنہا ہوجاتا ہے اور کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آتا ہآں اس کی لاش پر بین کرنے اور سیاپا ڈالنے والوں کی کمی نہیں ہوتی ایک زمانہ تھا کہ بائیں بازو کا ہر کارکن ففتھ کالمسٹ تھا اور ملک کی ساری ایجنسیاں اس کا ریکارڈ روزانہ مرتب کرتیں تھیں اور فائلوں پر فائلوں کی تہہ لگی جاتی تھی اور اب وہ دور ہے کہ یہی ایجنسیاں ہمین محتاط رہنے اور اپنی نقل و حمل کو محدود کرنے کو کہتی ہیں ابھی چند دن گزرے جب آئی بی کے ایک پرانے میرے مہربان کہنے لگے کہ محتاط رہوں ہاتھ ہولا رکھوں گویا نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں میں ہنسنے لگا کہ کل تک یہی صاحب میرے اثاثے چیک کرتے پھرتے تھے اور مجھے بلوچ ایشو پر زیادہ اچھل کود سے منع کررہے تھے اور آج میری جان کو درپیش ممکنہ خطرات کی نشاندھی کرنے پر لگے ہیں سیکولرازم ،لبرل ازم،کمیونزم،سوشلزم ،عقیدے کی آزادی ،ماڈریٹ ہونا ایسی بہت سی اصطلا حیں ہیں جو مذھبی فاشسٹوں نے اپنی لغت میں توھین اور گستاخی کے زمرے ميں شامل کرلی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان اصطلاحوں کے استعمال کو روکنے کے لیے اور ان سے دور کرنے کے لیے انٹرنیٹ سنسرشپ کو زیادہ سے زیادہ سخت کیا جارہا ہے اور ہماری ریاست کی ناک موم کی ہوگئی ہے جسے ان اصطلاحوں کی گرمی سے سخت حظرہ لاحق ہے پاکستان میں خرد افروزی کبھی بھی ایک مقبول اور عوامی تحریک نہیں رہی ہے اور یہ ایک طرح سے بہت محدود حلقے تک مقبول رہی اور آج بھی اس کا یہی حال ہے بلکہ پاکستان میں سوشلزم ہو یا خرد افروزی کی تحریک ہو اسے عوام میں مقبول بنانے کے لیے مذھب کا تڑکا لگانا پڑا ابھی میں جی ایم سید کی کتاب مقدمہ سندھ پڑھ رہاتھا معلوم ہوا کہ انھوں نے ترقی پسند قومی پرستی اور سندھ کی آزادی کے لیے بزم صوفیا قائم کی اور اس کے تحت قوم پرستی سوشلزم اور سیاست جدید کو تصوف کے تڑکے کے ساتھ پھیلانے کی کوشش کی پی پی پی نے 70ء کے الیکشن لڑے تو سوشلزم کو اسلامی سوشلزم اور مساوات محمدی کے نام دئے یہاں خرد افروز روائت کو کبھی سرسید سے تو کبھی جناح سے تو کبھی اقبال سے جوڑکر پیش کرنا پڑا گویا عقلیت پسندانہ تحریک آزادانہ یہاں کبھی کام کرنے کے قابل نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود ان مٹھی بھر خردپسندوں سے اس ملک کے جاگیردار،سرمایہ دار ،فوجی و بے وردی نوکر شاہی اور ان کی لے پالک ملائیت خوفزدہ رہی اور خردافروزی کے راستے زبردستی روکنے کے احکامات جاری کئے جاتے رہے پاکستان ٹائمز ،لیل و نہار ،امروز اسی لیے بند کردئے گئے اور سنسر شپ کی قینچی ، ایوب خان کا پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈینس اور پھر ضیاءالحقی لاز یہ سب حریت فکر اور خرد افروزی کو دبانے کے لیے لائے جاتے رہے جب اس سے کام نہیں چلا تو توھین مذھب کے قانون میں تبدیلی کرکے اسے سول جرم کی بجائے فوجداری جرم میں بدل دیا گیا اور اس قانون کے بے محابا استعمال نے خرد افروزی کی تحریک کو کچلنے میں بہت زیادہ مدد فراہم کی پاکستان آزادی رائے کا قبرستان بننے جارہا ہے جہاں یوٹیوب بند ہے اور انٹر نیٹ سنسر شپ روزبروز سخت ہورہا ہے مجھے ن م راشد کی نظم آدمی سے ڈرتے ہو یاد آرہی ہے جس کا ایک مصرعہ یہ بھی ہے کہ روشنی سے ڈرتے ہو روشنی تو میں بھی ہوں روشنی تو تم بھی ہو ریاست واقعی روشنی سے ڈری ہوئی ہے تبھی تو چوتھی بار اس پیج کو بند کردیا گیا ، روشنی کرتی کیا ہے کہ یہ پاکستان کی ریاست کو پورے کا پورا اپنے نور کی زد میں لیتی ہے یہ نور ایسیا ہے کہ پوری ریاست کا آرآئی ایم کردیتا ہے اور اس میں جب پاکستان کے فوجی جرنیل،سویلین حاکم ،مذھبی فاشسٹ ،سول نوکر شاہی سب اپنا اپنا چہرہ دیکھتے ہیں تو بلبلا اٹھتے ہیں اور پھر روشنی کو گل کرنے کی کوشش کرتے ہیں روشنی سمیت بہت سے فیس بک پر پیجز ایسے ہیں جو تصویروں سے کہانی مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تصویریں کبھی جھوٹ نہيں بولتیں بس پھر کیا ہے کہ روشنی کو پی ٹی اے ایک پھونک سے بند کرتا ہے تو روشنی والے دوسری مہارت عقلی سے روشنی کسی اور ایڈرس سے ضوفشانیاں کرنے لگتی ہے پاکستان میں وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب پاکستان کے خرد افروز المناتیوں یا اخوان الصفاء والوں کی طرح بے نامی سے لکھیں گے اور خرد افروزی کا پرچار کریں گے ویسے اب بھی بہت سے لوگ نام شناخت کو چھپاکر خردافروز تحریک چلارہے ہیں اور بے نامی اور بے شاختی بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن پیغام پھر بھی دور دوراز تک پہنچ رہا ہے اگر ایسا نہ ہوتآ تو روشنی سے ڈرنے والے اسے بند نہ کرتے

No comments:

Post a Comment