“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Thursday, May 29, 2014
راشد رحمان کا قتل ،جعلی سول سوسائٹی اور این جی اوز
Tuesday, May 27, 2014
پاکستانی پریس مالکان آزادی صحافت کے کاغذی شیر
مودی -نواز ملاقات --منتخب جمہوری مطلق العنان حاکموں کی ملاقات تھی
Sunday, May 18, 2014
کھوتی بوہڑ تھلے
Saturday, May 17, 2014
سعودی-ایران بیک ڈور چینل------------کئی پیدل سپاہیوں کے باب تاریک ہونے والے ہیں
سعودیہ عرب-ایران بیک ڈور چینل------کئی پیدل سپاہیوں کے باب تاریک ہونے والے ہیں
دھشت گردوں کا کھرا کہاں جاتا ہے؟
Friday, May 16, 2014
سلگ اور مذھبی فسطائیت
Saturday, May 10, 2014
راشد ،بھٹی،تاثیر اور عارف اقبال کا قصور کیا تھا؟
ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی موت سے کچھ ہفتوں قبل کہا تھا کہ
میں اپنا کام مکمل کئے بغیر مرنا نہیں چاہتا
اس وقت ایران کی سرزمین پر شاہ ایران کے ظلم کی انتہا ہوچکی تھی اور شاہ ایران ایرانی قوم کی آزادی ،قومی خود مختاری اور سامراج سے نجات کے لیے اٹھنے والی ہر موثر آواز کو دبانے اور خاموش کرنے پر تلا ہوا تھا
ڈیتھ اسکواڈ تھے جو شاہ ایران کے ہر مخالف کو موت کے گھاٹ اتارنے کی پوری کوشش کرتے تھے اور شاہ ایران کی بدنام زمانہ ایجنسی ساواک کا ہدف ڈاکٹر علی شریعتی تھے
ڈاکٹر علی شریعتی نے پہلے پہل ایران کے اندر زیر زمین رہ کر ایرانی قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا لیکن جب یہ دیکھا کہ اب سامنے دو راستے ہیں
ایک یہ کہ ایران کے اندر رہ کر شاہ کی ساواک کے ہاتھوں مارا جایا جائے
دوسرا یہ کہ جلاوطنی اختیار کی جائے اور باہر سے بیٹھ کر رہنمائی کی جائے
ڈاکٹر علی شریعتی موت سے ڈرنے والے آدمی نہیں تھے ورنہ اوکھلی میں سر دیتے ہی کیوں
لیکن وہ ایرانی سماج میں انقلاب اور تبدیلی کے عمل
کو بلوغت تک پہنچائے بغیر مرنے کی تمنا کرنے والے آدمی نہیں تھے اسی تناظر میں انھوں نے کہا کہ میں وقت سے پہلے مرنا پسند نہیں کروں گا اور وہ لندن چلے آئے
یہاں آکر ان کی پراسرار موت ہوئی،کچھ کہتے ہیں کہ ساواک نے ان کو شہید کیا اور کچھ کا خیال ہے کہ ان کی موت طبعی تھی
یہ قصّہ یہاں چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے میرے رفقاء،سئنیرز اور دوستوں کی ایک منڈلی نے بلایا اور مجھ سے کہا کہ
آپ کو اپنا کام کئے بغیر کسی وقتی اشتعال کو دعوت دیکر اپنی زندگی کے باب کو ختم نہیں کرلینا چاہئیے
جیو ٹی وی چینل ملتان کے جمشید رضوانی،انگریزی روزنامہ ڈان کے شکیل ،شکیل پٹھان مرحوم کے ہونہار صاحبزادے عدیل پٹھان،روزن تنظیم کی شبانہ عارف ،اے پی پی کے رضی الدین رضی ،ڈیلی ایکسپریس ٹرئیبون کے ایڈیٹر کمال صدیقی ،ایکپریس ٹرئبیون ملتان کے رپورٹر اویس شاہ،خالدہ مہتاب،رومانہ جعفر یہ وہ احباب ہیں جنھوں نے کل ملتان میں مجھ سے کہا
تحریر کے اسلوب میں کچھ ایسا بدلاؤ لانے کی ضرورت ہے کہ پیغام بھی پہنچے اور بچاؤ کا راستہ بھی نکلے
مجھے ان سب دوستوں اور اپنے سے بڑے اور زیادہ تجربہ کار دوستوں کی محبت اور تجویز پر یک گونہ فخر ہے کہ اس بے حسی اور آپا دھاپی کے دور میں ہے بھی چارہ ساز اور غمگساروں کی منڈلیاں موجود ہیں جو آپ کی فکر کرتے ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں
میں ان سب دوست احباب کا بہت مشکور ہوں جو جسمانی طور پر تو دور بیٹھے ہیں ،کچھ تو پردیس میں ہیں اور جن میں سے اکثر سے میں کبھی نہیں ملا اور پھر بھی وہ وطن میں چلتی گرم لو تھپیڑوں سے مجھے بچانے کی فکر کرتے ہیں
میں اپنے ان تمام ساتھیوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بات کہنے کا ایک قدرے نرم اسلوب اختیار کرنے کی کوشش کروں گا لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ
معاملہ اسلوب کو نرم یا گرم رکھنے کا ہے نہیں،معاملہ تو آپ کے سٹینڈ اور آپ کی پوزیشن کا ہے
کمال صدیقی مجھ پر ناراض تھے کہ ایکسپریس نیوز کے تین لوگوں پر حملے کے فوری بعد جو ای میل انہوں نے اپنے سٹاف کو جاری کی وہ پالیےی پر نظر ثانی تک طالبان کے حوالے سے خبروں کو روکے رکھنے کی تھی نہ کہ مستقل طور پر طالبان کے ہاتھوں سرنڈر کرنے کی اور بعد میں ایک پالیسی بنالی گئی
میری کمال صدیقی سے زیادہ بات ہو نہیں پائی ورنہ میں ان کو مثال دیکر ثابت کرتا کہ کیسے ٹرائیبون کی رپورٹنگ اور کالمز کے چناؤ میں فرق آیا اس کے بعد جو اب تک نہیں بدلا
ان سے میں نے عائشہ صدیقہ کے بلوچستان پر لکھے جانے والے آرٹیکلز کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کا شکوہ کیا اور بلوچستان پر ان کے اخبار میں ریاستی موقف سے ہٹ کر رپورٹنگ کے فقدان کا زکر کیا
کمال صدیقی کا کہنا تھا کہ عائشہ تو جو من میں آتا ہے لکھ ڈالتی ہیں لیکن اس کو اگر چھاپا جائے تو بعد میں جو ہوگا اسے اخبار کے ایڈیٹر کو بھگتنا ہوگا
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر کوئٹہ میں ان کا رپورٹر آئی ایس پی آر،ایف سی،بلوچستان کور سے ہٹ کر کسی بھی واقعہ پر دوسرا موقف رپورٹ کرنے پر تیار نہیں ہے کیونکہ اس کے خیال میں اگر اس نے ایسا کیا تو اس پر حملہ ہوگا یا اسے اغواء کرلیا جائے گا
اور اگر کسی اور جگہ سے رپورٹر کو بلوچستان بھیجا جائے تو اس کا اغواء ہوجانا یا قتل ہوجانا یقینی ہے
کمال صدیقی کی طرح ملتان سے شایع ہونے والے اخبارات کے ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ مذھبی فاشسٹوں کا ان پر سخت دباؤ ہے اور ان کے رپورٹرز کی جانوں کو شدید خطرہ ہے اس لیے وہ بہت سے ایسے ایشوز جن پر مذھبی فاشسسٹ بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کو رپورٹ کرنے سے گريزاں ہیں
مجھے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے کہا کہ راشد رحمان کے کیس میں ریاست اور اس کے اداروں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ راشد نے اپنی درخواست میں جن لوگوں کا زکر کیا تھا کو گرفتار کرلیں یا ان کے نام ایف آئی آر میں درج کریں
اس ایڈیٹر کے بقول جب ریاست کالعدم تنظیموں اور ان کی سرپرستی کرنے والے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے ڈر رہی ہو تو ایسے میں ایسے لوگ جن کے پاس سوائے قلم کے اور کچھ نہیں ہے وہ کیسے سورماء بن سکتے ہیں
اس ایڈیٹر نے مجھ سے پوچھا کہ
راشد کے جنازے میں راشد جن کے مقدے لڑا کرتا تھا یا وہ تھے یا راشد کی اپنی برادری کے لوگ تھا یا پھر اس کے مشکل سے وہ دوست احباب جو 100 ہوں گے تھے لیکن ملتان بار سے صرف اور صرف 20 سے 25 وکلاء شامل ہوئے تو جب ایک شخص کی اپنی وکلاء کمیونٹی کی اکثریت اس کے جنازے میں نہ شریک ہوئی اور نہ ہی اس کے رسم سوئم میں تو ایک اخبار سے آپ لوگ کیوں جہاد کی توقع رکھے ہیں
وہ مدیر مجھے کہنے لگے کہ تم نے محمد حنیف،ثناء اور چند دوسرے لکھاریوں پر ندیم سعید کی تنقید کو حمائت دی اور کہا کہ جس وجہ سے راشد کی جان گئی اس سے بات کو کہیں اور لے گئے،لیکن ندیم سعید یہ بات لندن کی بجائے پاکستان بیٹھ کر خاص طور پر ملتان میں بیٹھ کرکرتا تو میں وزن محسوس کرتا
اس مدیر کا مجھے کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو سمجھائے بغیر اور ان کو علم کی اے بی سی یعنی مبادیات پڑھائے بغیر آپ ایم کا نصاب پڑھانے کی کوشش کریں گے اور ایک دم آپ انتہا پر گئے اور کسی ان دیکھی گولی کا شکار ہوگئے تو پھر اگر لوگ خاموش رہیں تو گلہ کرنے کا حق نہیں
میں نے یہ ساری باتیں خاموشی سے سن لیں اور مجھے اس مدیر کی نیت پر بھی شک نہیں ہے لیکن میں اپنے سارے دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
وہ سلمان تاثیر،شہباز بھٹی ،راشد رحمان اور اس سے پہلے جسٹس عارف اقبال بھٹی کے ساتھ جو ہوا وہ اس لیے نہیں ہوا کہ یہ لوگ الٹرا ماڈرن تھے یا انہوں نے وکٹ پر اگلے قدموں کا استعمال کرکے بیٹنگ شروع کردی تھی
مجھ سمیت جتنے لوگ بھی راشد رحمان سے واقف تھے وہ سب جانتے ہیں کہ راشد نے کبھی بھی کسی پبلک میٹنگ میں یا دوستوں کی منڈلی میں ریڈیکل الٹراماڈرن رویہ نہیں اپنایا اور نہ ہی اس نے لبرل جنونی ہونے کا کردار ادا کیا
اپنے 30 سالہ قانون کی پریکٹس کے دوران راشد نے انتہائی ٹھنڈے اور منطقی انداز میں بات کی اور وہ تو دھیمے لہجے کا آدمی تھا اور اسے ہنگامہ پروری کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی
اس نے جنید حفیظ کے کیس میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے موکل پر بلاسفمی ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے اور اگر اس کو یہ کیس لڑنے دیا جاتا تو وہ اپنے موقف کو ثابت بھی کردکھاتا
جسٹس عارف اقبال بھٹی نے کہیں یہ نہیں کہا تھا کہ بلاسفمی جائز ہے بلکہ جسٹس نے تو یہ دیکھا کہ اس کی عدالت میں جن دو مسیحی بھائیوں کو توھین رسالت پر مبنی مبینہ پرچیاں لکھنے کا الزام لگا ہے وہ تو ان پڑھ اور لکھنے سے بھی عاری ہیں تو صاف نظر آرہا تھا کہ ان پر یہ مقدمہ بدنیتی سے قائم کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے دونوں بھائیوں کی ضمانت بعد از گرفتاری قبول کرلی
سلمان تاثیر نے بھٹہ مزدور آسیہ بی بی پر لگے الزام کی تردید کی تھی اور اس نے یہ کہا تھا کہ اس طرح کے کیسز کے انداراج اور تفتیشش کے طریقہ کار کو بدلنے کی صرورت ہے
شہباز بھٹی کا بھی یہی موقف تھا کہ توھین رسالت ایکٹ میں اندراج مقدمہ اور طریقہ تفتیشش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس قانون کو بے گناہوں کو تنگ کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے
یہ بہت عاجزانہ اور لبرل آدرشوں کی مثالیت پسندی و آزادی اظہار کے اعلی ترین نمونے کہیں نیچے کی بات تھی جسے مذھبی فسطائیوں نے نہیں برداشت کیا
ان چار مقتولین کے بارے میں ایک گھٹیا پروپیگنڈا مہم چلائی گئی اور ان کی ہر طرح سے بری تصویر پیش کرنے کی کوشش ہوئی اور توھین مذھب کے اکثر کیسز میں متاثرین کا ایک الٹرا ماڈرن،مذھب مخالف اور ملحدانہ امیج سے آگے بڑھ کر گستاخانہ امیج خود مذھبی فسطائیوں کے گوئبلز کے اپنے شیطانی ذھنوں کی کارستانی تھااور اس کا مقصد عام مسلمانوں کو بھڑکانے،ان کو مشتعل کرنے کے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا
اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہم اپنے انداز و بیان میں تب تبدیلی لائیں جب واقعی ہمارا موقف اور سٹینڈ بہت زیادہ ریڈیکل لبرل یا مذھب مخالف ریڈیکل ازم پر مبنی ہو اور ہم اس کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوں
ہم پاکستان میں مذھب کے نام پر مذھبی اقلیتوں پر جبر،شعیہ نسل کشی،اہل سنت بریلوی عوام پر حملوں کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور اگر ہم مذھب کے خلاف کسی جنگ کا اعلان کئے ہوتے تو ہمیں ممتاز قادری کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بریلویوں کے حق میں آواز بلند کرنا ترک کردینی چاہئیے تھی اور ہمیں شیعہ نسل کشی پر خاموشی اختیار کرلینی چاہئیے تھی اور مذھب سے نفرت کرنے والے کیا اس ملک کے عیسائیوں،احمدیوں،اسماعیلی ،سکھ ،پارسی وغیرہ کی مذھبی آزادی کے حق میں آواز بلند کررہے ہوتے کیونکہ وہ بھی تو مذاہب ہی ہیں
اس لیے یہ مقدمہ ہی غلط ہے کہ جن ملزموں اور وکلاء ،اساتذہ ،صحافیوں ،دانشوروں پر اب تک حملے ہوئے یا ان کا قتل ہوا اس کی وجہ ان متاثرین یا مقتولین کی جانب سے لوگوں کے جذبات یا عقائد کو مجروح کیا جانا تھا یا وہ مذھب کے بارے میں الٹرا خیالات کا آطہار کرہے تھے
مذھبی فاشزم یا فسطائیت جس کا سب سے بڑا اظہار دیوبندی-وہابی تکفیری اور خارجی شکل میں ابھرنے والی مسلح دھشت گرد تںطیمیں ہیں اور پھر ان کو کور دینے والی سنٹر رائٹ دیوبندی و وہابی تنظیمیں ہیں اصل میں روادار،عدم تشدد اور امن وآتشی پر مبنی خیالات کے مالک اور پاکستان میں شہریوں سے ان کے مذھب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے والوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور جو شخص یا گروہ ان کے ایجنڈے کو رد کرتا ہو ،ان کی اصل کو بے نقاب کرتا ہو اور ملائیت کے کاروبار کی جڑوں پر حملہ آور ہوتا ہو اسے یہ اپنی ہٹ لسٹ پر رکھتے ہیں
مذھبی فاشزم برصغیر پاک و ہند کی اس مذھبی ،سماجی اور معاشرتی ہم آہنگی کی روایت کو فنا کرنے کے درپے ہے جو اس خطے میں ہزاروں سال سے مختلف مذاہب و مسالک کے درمیان تفاعل اور باہمی لین دین کے عمل سے گزرنے سے وجود میں آئی ہے اور اس کے لیے تکفیر اور توھین کا الزام و فتوی سب سے کارگر ثابت ہوا ہے
اصل میں ہمیں اس جھوٹ کا پردہ فاش کرنا چاہئیے جو مذھبی فسطائی انسانی حقوق کے کارکنوں،روشن خیال سیاسی کارکن ،روشن خیال ادیب و شاعروں ،صحافیوں ،وکیلوں سے منسوب کیا جاتا ہے
اور ہمارے اہل قلم کو بے گناہوں کو مذھب کے نام پر راندہ درگاہ کئے جانے کے سلسلے کو بے نقاب کرنے اور اپنے قاری کو اس حوالے سے سچ بتانے کی کوشش کرنی چاہئیے
اور اگر اس راستے میں موت کا جام پینا پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا جاہئيے
بلوچستان کے حوالے سے سنسر شپ پر آئیندہ بلاگ لکھوں گا
Thursday, May 8, 2014
راشد رحمان کے نام
ابھی ابھی ملتان سے واپس لوٹا ہوں ،آج شام راشد رحمان ایڈوکیٹ کے جنازے میں شرکت کی تو جنازے میں خلق خدا کا ایک ہجوم تھا اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس جنازے میں شریک تھے
بس ایک طبقہ غائب تھا جسے اقبال کی زبان میں آپ لغت ہائے حجازی کا قارون کہہ لیں،مولانا روم کی زبان میں مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم کہہ لیں ،خواجہ غلام فرید کی زبان میں ملاّں نئیں کہیں کار دے ،جانن نہ شیوے یاد دے والے ملاّں کہہ لیں ،دین فی سبیل اللہ فساد والے مولوی کہہ لیں یا خود قران کی زبان میں لوگوں کا حق باطل طریقے سے کھا جانے والے اور یصدون عن سبیل اللہ کے مصداق کہہ لیں یا جو دل میں آئے کہہ لیں وہ اس عاشق کے جنازے سے غائب تھے
ان کا خیال یہ تھا کہ وہ جنازے کو پڑھائیں گے نہیں تو لوگ راشد کے جنازے میں نہیں جائیں گے اور وہاں کسی کو جنازہ پڑھانے کی توفیق نہیں ہوگی کیونکہ یہ لوگوں کی پیدائش اور ان کی موت پر اجارہ داری کے دعوے دار ہیں اور ان کے خیال میں یہ جسے مردود حرم کہہ دیں وہ مردود حرم ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بارے میں خلق خدا وہی وبان بولے گی جو ان اجارہ داروں نے بولنی شروع کردی ہوگی
لیکن اسے اجارہ دار اور ٹھیکے دار بھول جاتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند ہی نہیں پوری مسلم دنیا کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جسے ملاّں اور قاضی و مفتی نے مردود قرار دیا اسے خلق خدا کی اکثریت نے مقبول ٹھہرادیا
بلھّے شاہ نے کہا تھا کہ
وہ تینوں کافر کافر آکھ دے
تو آھو،آھو آکھ
کیوں کہ ملامتی صوفی کو پتہ تھا کہ ریا کار اور ہوس کار واعظ ،ملاّں ،شیخ حرم جس کو مردود کہے گا خلق خدا اسے ہی مقبول کہے گی
راشد کے جنازے مین خلق خدا کا اژدھام اور اس کی میت پر اشک بہاتی ہزاروں آنکھوں نے دین و مذھب کے ٹھیکے داروں کو واضح پیغام دیا ہے
ہر بات پہ کردیتا ہے تو اسلام سے خارج
اسلام تیرے باپ کی جاگیر نہیں ہے
مجھے ندیم سعید کی بات کا تذکرہ یہاں کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ایک انسان سچائی کے راستے پر چلتا ہے اور جس بات کو ٹھیک خیال کرتا ہے تو اسے اس سچ کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ قیمت اس کی بیوی کے بیوہ ہوجانے،ماں کے بیٹے سے محروم ہوجانے الغرض کے طرح طرح کے ذاتی المیوں کی شکل میں نکل آتی ہے اور اس پر دکھی ہونا لازم ہوتا ہے لیکن ان ذاتی المیوں کی کہانی اس قدر طویل نہ ہو کہ جس مقصد کے لیے قیمت ادا کی گئی ہوتی ہے وہ آنکھ سے اوجھل ہوجائے
ندیم سعید نے ٹھیک کہا کہ ندرت بیان کے چکر میں کچھ لوگ سلمان تاثیر ،شہباز بھٹی اور راشد رحمان کی شہادتوں کے زاتی المیوں کو بیان کرنے میں تو اپنی ساری صلاحتیں صرف کررہے ہیں لیکن وہ اس طرف نہیں آتے کہ یہ لوگ شہید کیوں ہوئے؟
ریاست لوگوں کی جان کا تحفظ کرنے اور خود قانون و عدالت بن جانے اور لوگوں کے خون بہانے والوں کی بیخ کنی کرنے مین ناکام ہوچکی ہے اور اس ریاست نے کالعدم تںطیموں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہیں جب چاہیں کسی کی بھی جان لے لیں
کڑوا سچ یہ ہے کہ بلاسفمی قوانیں ہوں کہ حدود ایکٹ سب کا نشانہ اس ملک کے وہ تمام لوگ اور افراد ہیں جو ملّا کی تعبیر و فہم مذھب سے اتفاق نہیں کرتے یا وہ غریب لوگ جن کے مکانات ،زمین یا مال و دولت پر ان کی ںظریں گڑی ہیں
اور جو بھی اس الزام کے تحت گرفتار ہوتا ہے تو اس کے حق میں آواز اٹھانے والے انسانی حقوق کے کارکن ہوں،پیروی کرنے والے وکیل ہوں،ملزم کی صفائی دینے والے گواہ ہوں اور جج ہوں سب کو بے پناہ دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے
جو جج مقدمے کو جھوٹ خیال کرکے ملزم کی ضمانت لے لے تو اس کو اس کے چیمبر ميں بہت آسانی کے ساتھ قتل کردیا جاتا ہے یقینی طور پر آپ کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عارف اقبال بھٹی کا انجام یاد ہوگا
اس واقعے کے بعد پریکٹس یہ ہوگئی کہ جو جج توھین مذھب کیس میں کسی ملزم کی ضمانت لے یا اس کو رہا کرے تو وہ جج اپنے خاندان سمیت اس ملک سے باہر چلا جاتا ہے
اور اکثر ججز ایسے ہیں جو ان کیسوں کو سننے سے انکار نہیں کرتے مگر التواء میں ڈالے رکھتے ہیں تاکہ وہ کسی مصیبت کا شکار نہ ہوں
راشد کے کیس میں ریاست کی اور عدالت کی کمزوری بے نقاب ہوگئی ہے
جس جج کے سامنے تین آدمیوں نے راشد کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی ان کے خلاف جج نے کوئی کاروائی نہ کی جبکہ پولیس کے پاس نامزد درخواست گئی تو بھی پولیس نے نامزد ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا
اور آج رات گئے تک جو ایف آئی آر راشد کے قتل کے مقدمے کی پولیس نے درج کی ہے اس میں ملزم نامعلوم لکھے گئے ہیں اور ان تین افراد کو مقدمے میں نامزد نہیں کیا گیا
یہ ایف آئی ار اور جج کا سامنے دھمکی ملنے پر بھی خاموش ہونا یہ بتلاتا ہے کہ ہماری انتظامیہ اور عدلیہ دونوں ہی مذھبی جنونیت اور فسطائیت کے ہاتھوں یرغمال بن گئی ہیں اور وہ ان جنونیوں کو شامل تفتیش کرنے تک یہ قاصر ہے
مذھبی جنونی اور فاشسسٹ ریاست کے اندر ریاست اور ریاستی اداروں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور ان کے مقابلے میں دانشوروں،ادیبوں،اساتذہ اور عام شہریوں کو ریاست نے مذھبی جنونیوں کے لیے آسان شکار بناڈالا ہے ہمیں سب سے زیادہ مذھبی جنونیوں اور ریاست سے ان کے مبینہ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ہی ایک راستہ ہے راشد،سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو لال سلام پیش کرنے کا
Monday, May 5, 2014
فوج،آئی ایس آئی،ہم بستر میڈیا،جہادی اور سیاسی جماعتیں
نوٹ:میں اپنے ان قارئین سے بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں جو مجھے روزنامہ خبریں ملتان کے ادارتی صفحہ پر پڑھتے ہیں اور شکائت کررہے ہیں کہ وہاں آج کل میں اس طنطنے اور کاٹ کے ساتھ نہیں لکھ پارہا جو میرا اسلوب خیال کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ مجھے صاف صاف بتادیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج،آئی ایس آئی کی پالیسیوں اور ان کے ماضی بارے آج کے خاص تناظر میں لکھنے کی اجازت نہیں ہے اور میں نے بہت کوشش کی کہ اس موضوع پر بین السطور بات کہنے کا اسلوب اپناؤں لیکن جہاں تھوڑی سی بات نکلی وہیں کالم ردی کی ٹوکری میں چلا گیا تو اب لے دیکر یہ بلاگ ہے جس پر یہ سب کچھ لکھا جاسکتا ہے تو جن قارئین کو میرے بلاگ تک رسائی ہے وہ اسے پڑھ سکتے ہیں ،ویسے میں نے ایل یو بی پاک ڈاٹ کام کے ایڈیٹر انچیف سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ میرے کالمز کو کراس پوسٹ کے طور پر شایع کرے
پاکستان کی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی کی قیادت اور ان کے اہلکار اپنی طاقت کے بھرپور مظاہرے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور طاقت کے اس مظاہرے کا مقصد پاکستان کے اندر اپنے ناقدوں کی زبان بندی کرنا اور ان کے لیے موجود کسی حد تک جگہ کو ختم کرنا ہے
اس مقصد کے لیے ایک طرف تو پاکستان کی اس عسکری اسٹبلشمنٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے پاس میڈیا کے اکثر مالکان اور ان میں کام کرنے والے صحافی بادام غلام بنے ہوئے ہیں اور اس اکثریت کو وہ ہرروز اپنے ناقدین کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں
پاکستان کی ملٹری اور انٹیلی جنس کے ادارے کو جو لوگ کنٹرول کررہے ہیں ان کی حمائت میں اس وقت ایکسپریس گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینل ،روزنامہ خبریں اور اس کا چینل و دیگر اخبارات،روزنامہ پاکستان،روزنامہ دنیا اور اس کا ٹی وی چینل ،اے آروائی ٹی وی چینل ایسے میڈیا کے اخبارات اور ٹی وی چینل ہیں جن کی مالکان کی پالیسی یہ نظر آتی ہے کہ وہ فوج اور اس کے ذیلی اداروں اور آئی ایس آئی کے کردار بارے کسی بھی طرح کی تنقید اور تبصرے کے باب کو بند کرنے کی حمائت کررہے ہیں یا کم از کم وہ اس تنقید کو مین سٹریم میڈیا سے غائب کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان اخبارات اور چینلز نے ملٹری اور خفیہ اداروں کی پاکستان کے اندر سیاست میں مداخلت ،ان کی جہادی پراکسیز،دھشت گردی کی سپانسر شپ اور اور ان کے معشیت کے ایک خاصے بڑے حصّے پر قبضے ،زمینوں اور رقبوں کی الاٹمنٹس سمیت بہت سے معاملات پر تنقیدی گفتگو کو ازخود نافذ کردہ سنسر شپ کے تحت بین کرڈالا ہے
فوج اور آئی ایس آئی کے اس حامی میڈیا میں آپ نا تو اوپر زکرکردہ معاملات پر کوئی کالم لکھ سکتے ہیں ،نہ ہی کوئی فیچر،نہ کوئی تحقیقی رپورٹ شایع کرسکتے ہیں اور ان میڈیا گروپوں کے ٹی وی چینلز پر آپ آکر ان معاملات پر کوئی تنقیدی تبصرہ شایع نہیں کرسکتے
بلوچستان ،خبیر پختون خوا،وزیرستان ،سندھ میں فوج،ایجنسیاں ،ایف سی وغیرہ انسانی حقوق کی جن سنگین خلہف ورزیوں میں ملوث ہیں اور جس طرح سے بلوچوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اس پر بھی کسی قسم کی بات کرنا ان مذکورہ بالا میڈیا گروپس میں ازخود نافذ کردہ سنسر شپ کی نذر ہوچکا ہے
فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے حمائت میں سامنے آنے والے یہ میڈیا گروپس اور فوج و آئی ایس آئی کے ہم بستر صحافی ایک طرف تو فوج اور ایجنسیوں کے ماضی میں کئے جانے والے جرائم کی کہانی کو بیان کرنے پر بین لگا چکے تو دوسری طرف یہ فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آغی کے خلاف پر تنقید کے بارے میں بہت دور کی کوڑی لانے اور ایک سازشی تھیوری کو پھیلا رہے ہیں
ایک مشترکہ کہانی جو ان میڈیا گروپوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ بیان اور نشر کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں دنیا کی پانچ انٹیلی جنس ایجنسیوں جن میں ایرانی انٹیلی جنس ایجنی کو بھی شریک بتایا گیا کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں مشترکہ طور پر پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے خلاف جدوجہد کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا
ایک دوسری سازشی تھیوری یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے اور امریکی حکومت کے تھنک ٹینکس اور ان کے ہم بستر صحافیوں کی جانب سے آئی ایس آئی ،فوج کے خلاف عوام کے اندر منظم طور پر نفرت پھیلانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستانی میڈیا،این جی اوز،سیاسی کارکنوں اور دیگر شعبوں سے افراد کو ہائر کیا گیا ہے اور ان کا کام پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف منظم پروپیگنڈا کرنا ہے
تیسری سازشی تھیوری یہ ہے کہ راء اور سی آئی اے و موساد و راما نے ملکر پاکستان کے خلاف سائبر ٹیکنالوجی کی مدد سے جنگ چھیڑی ہے اور لاکھوں فیک آئی ڈی بناکر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے
فوج کا حامی میڈیا اور فوج کے ہم بستر صحافیوں کا دعوی ہے کہ وہ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے میدان عمل می نکلے ہیں
اگر آپ ایکسپریس سمیت دیگر فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر تنقید کو اپنے چینل اور اخبارات میں مکمل طور پر سنسر کرنے والے میڈیا گروپوں کے نشر کردہ اور شایع کردہ مواد کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس ساری مہم کا پاکستان میں انچارج میر شکیل الرحمان اور ان کے ادارے میں کام کرنے والے ایسے صحافیوں کو بتارہے ہیں جن کی جانب سے فوج اور ایجنسیوں کی سیاسی مداخلت،بلوچستان میں ڈرٹی وار اور مشرف کیس میں مشرف کی فوج کی جانب سے طرف داری پر تنقید سامنے آئی
فوج ایک طرف تو اپنے حامی میڈیا گروپوں کو میدان میں لیکر اتری ہے تو دوسری طرف اس نے اپنے ان تمام حامیوں کو اکٹھا کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جن کو وہ سیاسی منظر نامے اور مین سٹریم میں لانے کے لیے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتی رہی ہے
اس حامی ٹولے میں ایک جانب تو وہ عسکریت پسند جماعتیں ہیں جو افغانستان ،کشمیر،ہندوستان،روس،وسط ایشیا اور اب مڈل ایسٹ میں اس کے آلہ کار کے طور پر لڑتی رہیں ہیں جن میں لشکر طیبہ (جماعۃ الدعوۃ )،جیش محمد،اہل سنت والجماعت(سپاہ صحابہ پاکستان)شامل ہے اور اس ٹولے کو حافظ سعید لیڈ کررہے ہیں اور اس کی سیکنڈ قیادت محمد احمد لدھیانوی کے پاس ہے اور یہ بھی سب کو پتہ ہونا ضروری ہے کہ یہ جماعتیں پاکستان کے اندر بلوچستان اور سندھ میں بھی خاص طور پر فوج اور آئی ایس آئی کی بلوچوں اور سندھیوں کے خلاف بطور پراکسی کے استعمال ہورہی ہیں اور ان کی جانب سے دفاع پاکستان کونسل کا پلیٹ فارم اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے
دوسری طرف فوج کے پاس مذھبی تنظیموں کا ایک اور نیٹ ورک موجود ہے جو اس کی سودا کاری کی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے کام آتا ہے اور یہ نیٹ ورک خاص طور پر پنجاب کے اندر مضبوط بنیادوں پر خود فوج کی نوازشات سے تیار ہوا ہے
اس طرح کا ایک نیٹ ورک طاہر القادری کا ہے اور وہ پوری طرح سے فوج اور آئی ایس آئی کے کہنے پر ہر وہ خدمت سرانجام دیتے ہیں جو ان کو فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سونپی جاتی ہے
فوج کو بریلوی سنٹر رائٹ کی ایسی شخصیات کا تعاون بھی حاصل ہوا ہے جن کو مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف نے اپنے دور اس لیے کیا کہ وہ سعودیہ عرب اور ان کے پسندیدہ دیوبندی-وہابی دھشت گرد انتہا پسند لیڈروں کو ناراض نہیں کرسکتے تھے اور یہ لیڈر اس قدر زخم خوردہ ہیں کہ وہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو گرانے میں ہر عمل کو جائز خیال کررہے ہیں اور ہم ایک طرح سے ان لیڈروں کو فوج کی نئی ڈارلنگ کہہ سکتے ہیں اور یہ ڈار لنگ صاحبزادہ حامد رضا ہیں جبکہ کراچی کے سنٹر رائٹ بریلوی مولوی ثروت رضا قادری سمیت اکثر بریلوی مولویوں کا خیال یہ ہے کہ دیوبندی دھشت گرد جو بریلویوں اور شیعہ و دیگر غیر مسلم اقلیتوں پر حملے کررہے ہیں وہ فوج اور آئی ایس آئی کے دشمن بھی ہیں اور فوج کے ساتھ اتحاد بناکر ہی ان سے نمٹا جاسکتا ہے تو وہ بھی فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے ہونے والی صف بندی میں شریک ہوگئے ہیں ،فوج نے شاید ان کو یہ یقین دھانی بھی کرائی ہے کہ ان کے کنٹرول میں جو دیوبندی-وہابی تنظیمں ان سے ان کا تصفیہ کرادیا جائے گا اور شیعہ سنر رائٹ مولویوں کو بھی یہی یقین دھانی کرائی جارہی ہے
کل علامہ ساجد علی نقوی اور ثاقب اکبر کی ملاقات مولانا فضل الرحمان سے جو ہوئی اس کے پیچھے بھی فرشتے ہیں لیکن مجھے لگتا نہیں ہے کہ فضل الرحمان فوج اور آئی ایس آئی کے دام میں آئیں گے
لیکن یہ طے ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی اس وقت ملک میں جس صف بندی کی طرف بڑھنا چاہتی ہے تو وہ سنٹر رائٹ بریلوی ،سنٹر رائٹ شیعہ کا کم از کم دیوبندی عسکریت پسندی کے سیاسی فیس اور نام نہاد سافٹ امیج کے ساتھ ایک عارضی سا اتحاد ضرور کرائے گی
ایک اور صف بندی بلکہ پیش بندی پاکستان تحریک انصاف ،عوامی مسلم لیگ،پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان مسلم لیگ ق کی شکل میں ہے اور یہ ایک طرح سے زرا زیادہ خالص قسم کا سیاسی فیس ہے جہاں فوج اور آئی ایس آئی اپنے مفادات کو کور کرے گی
فوج اور آئی ایس آئی کے پاس اس کے علاوہ قصبات اور چھوٹے شہروں میں بھی ایسے نام نہاد گروپوں اور شخصیات کی کمی نہیں ہے جو بڑے دھڑلے سے اپنے آپ کو فوج یا آئی ایس آئی کا سورس کہتے ہیں اور یہ عمومی طور پر چٹی دلال ہوتے ہیں اور زیادہ تر یہ صحافی یا تھانوں یا عدالتوں میں دلال کا کام کرتے ہیں یا پھر مختلف قسم کی کاغذی تنظیموں کے عہدے دار ہوتے ہیں یا پھر ایسے کاروباروں سے منسلک ہوتے ہیں جن کی حفاظت فوج کا کوئی حاضر سروس یا سابق افسر کررہا ہوتا ہے اور یہ بھی فوج اور ایجنسیوں کا حامی حلقہ ہے
اس لیے جب پاکستان میں بائیں بازو اور جمہوری حلقے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے منظم سیاسی پارٹی فوج ہے تو کچھ غلط نہیں کہتے
پاکستان کے اندر آزاد میڈیا،آزاد عدلیہ اور آزاد سیاست اتنی آزاد کبھی نہیں تھی جس کا بہت چرچا کیا جاتا تھا اور جب تک میمو گیٹ سامنے نہیں آیا تھا تو امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی بھی کہا کرتے تھے کہ یہ نیا پاکستان ہے جس میں فوج اور آئی ایس آئی اپنے سابق کردار سے رجوع کرچکی ہے لیکن فوج اور اس کی معاون ایجنسیوں نے 2008ء سے لیکر آج 2014ء تک یہ ثابت کردکھایا ہے کہ وہ ایک طرف تو خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی پالیسی کی ملکیت سے کسی بھی طرح دست بردار نہیں ہوگی اور دوسری طرف وہ اپنی معاشی ایمپائر کو بھی سکڑنے نہیں دے گی اور جب کبھی اس کی کوشش کوئی کرے گآ تو یہ اسے مجبور کرے گی کہ وہ فوج اور آئی ایس آئی کی مرضی کے مطابق پاور شئرنگ کے فارمولے کو تشکیل دے اور جو یہ تناسب طے کرے اس پر کام کرے
پانچ سال پاکستان پیپلزپارٹی نے اسی تناؤ کے ساتھ پورے کئے تھے اگرچہ میاں نواز شریف نے کئی فاؤل اس دوران کھیلے جو وہ نہ کھیلتے تو آج حالات شاید مختلف ہوتے لیکن پھر بھی وہ پانچ سال نکلوانے میں مددگار ثابت ہوئے مگر آج میاں نواز شریف کو کم از کم پاکستان پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے این پی کی جانب سے ایسے فاؤل کھیلے جانے کا سامنا نہيں ہے
ویسے ایک اور بات بھی اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کو سب سے زیادہ حمائت سنٹرل پنجاب سے میسر آرہی ہے اور زیادہ زور بھی وہیں ہے جبکہ سب کو علم ہے کہ سرائیکی بیلٹ ،اندرون سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں اس فوج نواز اور آئی ایس آئی نواز ہیجان انگیزی کا وجود نہیں ہے اور یہ بات عیاں ہے کہ فوج کی جہادی پراکسیز اور اس کی معاشی ایمپائر کے اصل محافظ بھی سنٹرل پنجاب میں ہی زیادہ رہ گئے ہیں اور ایک طرح سے یہ آخری مورچہ ہے فوج اور آئی ایس آئی کے پاس جو وہ اپنی ماورائے آئین و قانون اور جمہوریت مخالف ،عوام دشمن اور چھوٹے صوبوں کی مظلوم عوام کے خلاف اختیار کی جانے والی پالیسیوں کو بچانے کے لیے استعمال کررہی ہے
اور ہاں ایک بات اور کہ اس دوران بہت سے کلین شیو،تھری پیس سوٹ زیب تن کرنے والے،پٹر پٹر انگریزی بولنے والے ،خود کو اصلی تے وڈا صحافی بتلانے والے اور بعض تو خود کو قانون کا سب سے بڑا ماہر بتلانے والے بھی بری طرح سے ایکسپوز ہوئے ہیں جن میں معید پیرزادہ،بابر ستار اور طلعت حسین جیسے مسٹر کلین بھی شامل ہیں جبکہ ملیحہ لودھی،شیری رحمان،نجم سیٹھی ،اعجاز حیدر تو بہت پہلے بے نقاب ہوگئے تھے
میں ملتان سمیت کئی ایک شہروں کی اس چھوٹے استاد ٹآئپ صحافیوں کا زکر نہیں کررہا جو ان شہروں میں تو یقینی بات ہے کہ گاڈ فادر ہیں لیکن اس سے باہر ان کا قومی امیج نہیں ہے مگر فوج اور آئی ایس آئی کی چاکری میں ان کا جواب بھی نہیں ہے
فوج اور آئی ایس آئی تو یقین مانئے اپنی حمائت میں جرائم پیشہ ،قبضہ گیروں اور رشورت خور مافیا کو بھی سامنے لے آئی ہے کیونکہ درجن بھر غنڈوں کو سفید لباس پہنا کر شرفاء بناکر پریس کلبوں کے سامنے مظاہرے تو یہ بھی کراسکتے ہیں
یہ وہ حقائق ہیں جو جنگ ،دی نیوز اور ان تمام بچے کچھے اخبارات اور چینلز پر بھی شایع یا نشر نہیں ہوسکتے جو کسی نہ کسی حد تک آزادی صحافت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں
ابھی لاہور میں پی ایف یو جے اور لاہور پریس کلب کی جانب سے قومی صحافتی کنونشن اور خواتین صحافیوں کا اجتماع ہوا ،یہ دونوں تقریبات نہ ہوتیں اگر ان کا خرچہ جرمنی کا ایک لبرل ازم اور فری مارکیٹ کو فروغ دینے والا ڈونر گروپ سپورٹ نہ کرتا
یہ کلچر کہ اگر کسی این جی او سے فنڈ ملیں تو کنونشن ہوں اور آزادی صحافت و جمہوریت کے لیے مظاہرلہ بھی کرلیا جائے ورنہ اپنے خرچ سے نہ تو کوئی سفر کرے ،نہ ملتان سے یا دیگر حصوں سے لاہور آکر شریک مظاہرہ ہو عرصہ ہوا ختم گیا کلچر ہے
پاکستان میں خود بائیں بازو کی سیاست کو بہت سے روگ لاحق ہوچکے ہیں جن میں ایک روگ تو یہی کرپشن اور بدعنوانی کا ہے اور سب سے بڑا روگ تو نظریاتی دیوالیہ پن کا ہے جس سے نمٹنا سب سے اہم فریضہ ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)