اوبامہ خارجہ پالیسی کی تشکیل نہ کر سکے ؟
لیل و نہار /عامر حسینی
امریکہ کے سب سے بڑے اخبار نیویارک ٹائمز میں آج صفہ اول پر ایک تجزیہ شایع ہوا ہے-یہ تجزیہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی ایک منتخب جمہوری صدر خواہش کے باوجود عسکریت پسندانہ اور جنگجو خارجہ پالیسی کو تبدیل نہیں کر پاتا -کیونکہ وہاں کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اس کو ایسا کرنے نہیں دیتی-یہ ایک بہت سنگین معاملہ بن چکا ہے-عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں لکین یہ نمائندے فوجی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں مجبور ہوکر عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے پیسوں سے جنگ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور پھر ایک ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ منتخب نمائندے اپنی پاور کو بینکرز ،سرمایہ داروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیتے ہیں-جو عوام کے مال کو کھا جاتے ہیں-لکین مجھے سر دست یہاں مذکورہ بالا تجزیہ کے بارے میں ہی تحریر کرنا ہے-اس تجزیہ نگار کے مطابق اوبامہ نے اپنی انتخابی مہم میں یہ اشارہ دیا تھا کہ اگر وہ صدر بنے تو وہ عراق جنگ کا خاتمہ کر دین گے -اور وہ جنگ پر مبنی خارجہ پالیسی سے الگ ہوجائیں گے-تاکہ امریکہ کے وسائل کو عوام کی فلاح کے لئے خرچ کیا جاسکے -عراق سے نکلتے نکلتے اوبامہ کو کئی سال لگ گئے-اور پینٹاگون جو فوجی اسٹبلشمنٹ کی طاقت اور مفدات کی علامت سمجھا جاتا ہے -وہ عراق سے فوجی انخلا مخالفت کرتا رہا-گزشتہ دنوں عراق سے آخری فوجی دستہ بھی رخصت ہوا-امریکہ نے عراق میں جنگ کے خاتمہ کا اعلان کر ڈالا-تو سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا اوبامہ اپنی خارجہ پالیسی کو اب جنگ پر مبنی پالیسی سے ہٹانے میں کامیاب ہوجائیں گے-اس حوالے سے خود امریکہ میں بھی ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ جنگ کا فوکس بدلے گا-اور وہ اب مکمل طور پر ایشیا ہوگا-امریکہ میں موجودہ اور سابقہ انتظامی اہلکاروں کے مطابق افغانستان سے لیکر عرب انقلاب تک اور وہاں سے چین تک سے لیکر انسداد دہشت گردی تک امریکہ کی خارجہ پالیسی پٹ جنگ کے سائے موجود رہیں گے-اوبامہ جنھوں نے کافی مرتبہ اپنی تقریروں میں یہ کہا تھا کہ وہ جنگ نہیں چاہتے -اور وہ جنگ پر امریکی وسائل برباد کرنے کی بجائے ان کو امریکی عوام پر خرچ کرنے کے خواں ہیں-ان کی یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی-یہاں پر مجھے بے اختیار یہ بھی خیال آتا ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ جیسے ملکوں میں بھی فوجی اسٹبلشمنٹ کوئی نہ کوئی تزویراتی گہرائی نام کی پالیسی رکھتی ہے جس سے عوام اور ملک کے وسائل ان کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کی بجائیں فوجی امپائر بنانے پر خرچ ہوجاتے ہیں-امریکہ میں اس وقت اوبامہ کی کوشش ہے کہ ان کی انتظامیہ میں طاقت کا توازن فوجی مشیروں کی بجائے سول مشیروں کے حق میں بدلے-اور ان کے ہاں پالیسی میکنگ کے عمل میں سویلین کی فلاح و بہبود کو پہلی ترجیح حاصل ہو-لکین پاور بیلنس کے اس شفٹ میں وہاں کی غیر منتخب ہییت مقتدرہ بہت بڑی روکاوٹ بنی ہوئی ہے -امریکہ کی عوام جنگی اور مالیاتی اشرافیہ کے حکومت پر غلبہ کے سخت خلاف ہے-اسی لئے وہاں ایک طرف تو اوبامہ پر یہ دباؤ ہے کہ وہ جنگ کا خاتمہ کریں -دوسری طرف ان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ مالیاتی پالیسیوں کو عوام کے حق میں تبدیل کریں-اسی لئے امریکہ کے اندر جنگ مخالف اور کارپوریٹ مخالف ایجنڈہ سب سے زیادہ مقبول ہے--لکین وہاں بھی جو فوجی اشراف ہیں اور کارپوریٹ ادارے ہیں ان کے دباؤ میں میڈیا کا رویہ عوام مخالف اور غیر منتخب ہییت مقتدرہ کے حق میں ہے-یہاں پر اگر آپ پاکستان کے اندر دیکھیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ کس طرح یہاں بھی جنگ کے حامی ،رجعت پسند میڈیا پر غلبہ رکھتے ہیں-اور غیر منتخب ہییت مقتدرہ کے حق میں لکھنے والوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے-خاص طور پر اردو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے -جو پالیسی میکنگ میں سویلین کے حق میں جانے والے طاقت کے توازن کی مخالفت کرتے ہیں-پاکستان میں اس کا اندازہ آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو کی طاقت کو کم کرنے کے سوال پر میڈیا میں ہونے والی بحث کے رکھ اور اس کی ساخت سے باخوب لگایا جاسکتا ہے-میں اپنے دوستوں کو یاد کرانا چاہوں گا کہ پاکستان میں جب بھی پاک امریکہ تعلقات ،پاک بھارت تعلقات ،اور پاکستان کی تجارتی پالیسی پر بحث شروع ہوتی ہے تو اس پالیسی کو لبرل کرنے کی سب سے زیادہ مخالفت نام نہاد سیکورٹی کے خدشات کے نام پر ہوتی ہے-بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے پر جو رد عمل سامنے آیا -اس کو ایک نظر دیکھنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ عوام کے مفاد کو کس طرح سے کچلا جاتا ہے-اور ہماری غیر منتخب ہییت مقتدرہ کس حد تک اس حوالے سے میڈیا پر کنٹرول رکھتی ہے-اور اس کے پاس ایسے پریشر گروپس بھی موجود ہیں جن کی پارلیمنٹ میں تو کوئی طاقت نہیں ہے-لکین وہ مسجد اور مدرسہ کی طاقت کے بل بوتے پر کسی بھی عوامی کی نمائندہ پارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتے ہیں-ماضی میں ٨٨ میں بینظیر بھٹو جب افغان جنگ سے جان چھڑانا چاہتی تھیں-اور وہ علاقائی بنیادوں پر تجارتی بلاک کے قیام کے تصور کو پیش کر رہی تھیں تو ان کے خلاف جماعت اسلامی سمیت مذہبی تنظیموں نے جو ہنگامہ برپا کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے-اسی طرح جب میاں نواز شریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور طالبان کے خلاف بات کی تو ان کو حکومت کا خاتمہ بھی کر دیا گیا-هود مشرف جو کہ فوج کے آدمی تھے-جب خارجہ پالیسی اور تجارتی پالیسی میں لبرل سمت کی طیف آئے تو خود آئی ایس آئی اس میں روکاوٹ بن گئی -یہ ابھی کی بات ہے کہ جب میاں نواز شریف نے سافما میں بھارت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو ان کو سخت ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑا تھا-اور صاف نظر آتا ہے کہ فوجی اشرافیہ پاکستان میں سول ترقی میں کتنی بڑی روکاوٹ بن کر کھڑی ہے-امریکہ جیسے ملک کو بھی ایسی مشکل کا سامنا ہے-عراق میں امریکہ نے ٨٠٠ ارب ڈالر جھونکے-اور افغانستان میں یہ اب تک ٤٠٠ ارب ڈالر جھونک چکا ہے-پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد الگ سے ہے-اگر یہ وسائل امریکہ ان ملکوں میں سویلین امداد کی شکل میں دیتا تو ان ملکوں کواہم کی تقدیر بدل جاتی-پاکستان میں جمہوریت پسند قوتوں کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ جس قدر کوشش امریکہ کے ساتھ فوجی امداد کے حصول کے لئے ہوتی ہے -اتنی کوشش سول امداد کے لئے کیوں نہیں کی جاتی-اور پاکستان میں سول سوسائٹی اور میڈیا پاکستان کے وسائل کو زیادہ سے زیادہ انسانی ترقی پر خرچ کرنے اور بجٹ میں عسکری مد میں فنڈ کے خرچ کم کرنے پر زور کیوں نہیں دیا جاتا؟پاکستان میں یہ المیہ ہے کہ جب کوئی دانشور علمی بنیادوں پر غیر منتخب ہییت مقتدرہ کے پاکستان کو ایک خوش حال ملک بننے میں روکاوٹ بننے والے کردار کا جائزہ لیکر کوئی تحقیق پیش کرتا ہے تو اس کے خلاف میڈیا میں کردار کشی کی زبردست مہم چلائی جاتی ہے -میرے سامنے اس طرح کی مربوط علمی کاوش کی تین تازہ امثال ہیں-عائشہ صدیقہ عائشہ جلال اور حسین حقانی -ان کی کتابوں پر جو رد عمل سامنے آیا -اور ان کے خلاف جو کردار کشی کی مہم چلی وہ یہ دکھانے کے لئے کافی ہے کہ ہمارے ہاں سویلین کے مفاد کے حق میں کوئی علمی بنیاد کھڑی کرنے والوں سے کیا سلوک ہوتا ہے-اس حوالے سے محترمہ بینظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک بھی اسی لئے کہا جاتا رہا کہ انھوں نے تزویراتی گہرائی کی افادیت پر بہت ٹھوس تنقید کی تھی-انھوں نے اپنی دوسری حکومت کے گرائے جانے اور پھر جلا وطنی کے دوران جو انکشافات کے تھے-ان پر جو رد عمل ہم نے دیکھا -وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ عوام کو سچ بولنے والے لیڈر کے خلاف کس طرح سے گمراہ کیا جاتا ہے-آج نواز شریف کو جو رد عمل عمران خان اور دوسرے لوگوں کی طرف سے مل رہا ہے اس کا ایک سبب میاں نواز شریف کے غیر منتخب ہییت مقتدرہ کے خلاف خیالات ہیں-وہ ان کی تزویراتی پالیسی خاص طور پر بھارت کے حوالے سے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے-اسی لئے ان کو دائیں بازو کے حلقے بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں-امریکہ میں کسی کو بدنام کرنا ہو تو اس کو سوشلسٹ کہنا کافی ہوتا ہے-جیسے کے اوبامہ کے جنگ مخالف خیالات سن کر ان کو قدامت پرستوں نےکہا-اسی طرح پاکستان میں جب بھی کوئی تزویراتی گہرائی اور جنگ جو خارجہ پالیسی پر تنقید کرتا ہے تو اس کو لبرل کہ دیا جاتا ہے-اور اس کا مطلب ہوتا ہے سی آئی اے،را اور موساد کا ایجنٹ ہونا-غدار ہونا اور ملک دشمن ہونا-لبرل کی ایک اور بھی تعریف ہمارے ملک میں معروف ہے -وہ یہ ہے کہ اگر آپ لبرل ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ آپ بے راہرو ہیں-بے حیاء ہیں-اور مادر پدر آزادی کے بھی قائل ہیں-اسی طرح غیر منتخب ہییت مقتدرہ پر آپ کی تنقید کا مطلب یہ ہے کہ آپ سیکولر ہیں-اور سیکولر کا مطلب یہ ہے کہ آپ بے دیں ہیں-ملحد ہیں-آپ کسی مذہب اور عقیدہ کو نہیں مانتے-یہ لبرل اور سیکولر کووہ تعریفیں ہیں جو آپ کو کسی لغت میں نہیں ملے گیں-لکین ان تعریفوں کو آپ غلط نہیں کہہ سکیں گے-
“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Saturday, December 17, 2011
Monday, December 12, 2011
افغانستان میں عاشور پر دھماکے .......پاکستان الزامات کی زد میں
افغانستان میں عاشور پر دھماکے .......پاکستان الزامات کی زد میں
لیل و نہار /عامر حسینی
بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت پر پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار بارے تنقید کرنے والے حلقوں نے یہ کہنا شروع کر رکھا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن ہوتا دیکھنا نہیں چاہتا-ابھی یہ تنقید جاری تھی کہ دس محرم الحرام کے دن افغانستان کے درالحکومت کابل اور مزار شریف میں ماتمی جلوسوں پر خود کش حملہ کی خبر آگئی-جس میں درجنوں لوگ مارے گئے -اور سینکڑوں لوگ زخمی ہو گئے -اس حملہ کی ذمہ داری پاکستان کے ایک فرقہ پرست جہادی گروہ لشکر جھنگوی نے قبول کر لی-اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے حملے کرتے رہے گے-
افغانستان کی تاریخ جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے-لکین اس تاریخ میں یہ نہیں ملتا کہ کسی کی مذہبی تقریب پر حملہ کیا گیا ہو-یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے-اس بات کا اظہار افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی کیا ہے-ادھر طالبان کے ترجمان قاری ذبیح الله نے حملے کے بعد اخبارات اور ایجنسیوں کو برقی خط کے ذریعہ بتایا کہ طالبان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے-اور یہ حملہ ایک سازش ہے-مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی-اور افغانستان میں قابض افواج کے خلاف جدوجہد کو نقصان پہنچانے کی-یہ بھی خیال رہنا چاہئے کہ افغانستان میں یہ پہلا حملہ ہے جس کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے-
اس حملے کے بعد مغربی میڈیا میں یہ کہا گیا ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کے بعد یہ حملہ دراصل پاکستان کی طرف سے یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ وہ جب چاہئیں افغانستان کا امن تباہ کر سکتے ہیں-اس حملے میں ایک مرتبہ پھر آئی ایس آئی پر انگلیاں اٹھی جا رہی ہیں-جس پر یہ الزام تواتر سے لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ لشکر جھنگوی ،القائدہ اور طالبان جیسے گروپوں سے رابطہ رکھے ہوئے ہے-اور ان کو افغانستان میں اپنے لئے استعمال کر رہی ہے-
آئی ایس آئی پر یہ الزامات پاکستانی میڈیا میں آج کل غلبہ کے ہوئے منصور اعجاز نے بھی تواتر کے ساتھ لگائے ہیں-اس نے اپنے تازہ مضمون میں کہا ہے کہ آئی ایس آئی میں ایک سیکشن ایس ہے جو طالبان،حقانی گروپ سمیت دوسرے عسکری جہادی گروہوں سے تعلق رکھتا ہے-اور یہی سیکشن امریکہ کے خلاف افغانستان میں جاری مزاحمت کا بھی ذمہ دار ہے-
آئی ایس آئی پر یہ الزام پاکستان کے سیاسی حلقے بھی عائد کرتے رہے ہیں کہ اس نے بہت سے جہادی گروہوں کو اپنے تزویراتی اثاثہ قرار دے رکھے ہیں-اور ان کے پاکستان میں نیٹ ورک قائم رکھنے میں آئی ایس آئی کا بہت زیادہ ہاتھ ہے-
یہ خبریں بھی مسلسل شایع ہوتی رہی ہیں کہ پاکستان میں آئی ایس آئی دائیں بازو کے مذہبی تنظیموں کو امریکہ مخالف جذبات کو پروان چڑھانے کا ایک پروجیکٹ بھی چلا رہی ہے-اور اس حوالے سے ان تنظیموں کو رقوم کی فراہمی کا سلسہ بھی جاری ہے-
آئی ایس آئی پر یہ عزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے ریاست کے اندر اپنی ایک حکومت قائم کر رکھی ہے-اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنی پالیسی سے ہت کر کام نہیں کرنے دیتی-یہاں تک کہ اگر کوئی فوج کا سپہ سالار بھی اس کی پالیسی سے روگردانی کرے تو وہ اس کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے-
آئی ایس آئی کے سیاسی عمل میں مداخلت کے ثبوت ان گنت ہیں-لکین آج تک اس کے اس کردار پر کوئی تحقیقاتی کیمشن نہیں بنا-اور اس پر جو دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام ہے-اور یہ الزام کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے لئے استعمال کے جانے کی ذمہ دار ہے کی بھی کوئی باضابطه تحقیق نہیں کی گئی -
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی پر جو الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کیا وہ میمو اشو سے کم سنگین ہیں؟کیا ان سے ملکی سلامتی خطرہ میں نہیں پڑتی؟کیا پاکستان کی عالمی برداری میں جو سبکی ہو رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو تنہائی ہے کیا اس کا تقاضہ یہ نہیں بنتا کہ ان الزامات کی تحقیق کے لئے ایک طاقتور کیمشن قائم کیا جائے-جو ان الزامات کی تحقیقات کرے -یہ خود آئی ایس آئی کی نیک نامی کو بھال کرنے کے لئے بہت ضروری کام ہے-
میں نے کافی عرصۂ پہلے بھی یہ لکھا تھا کہ آئی ایس ایس کا کام ٧٥ فی صدی بیرونی اتیلجنس کا بنتا ہے-اور ٢٥ فیصد کام داخلی انٹیلیجنس کا جو ہے وہ اس کو داخلی انٹیلیجنس کی ذمہ دار ایجنسی آئی بی کے تعاون سے کرنا چاہئے-لکین ٣٠ سال فوجی حکومتوں کے رہنے کی وجہ سے یہاں پر سول انٹیلیجنس ڈھانچہ بہت کمزور رہا ہے-اور آئی ایس آئی کا کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے-پھر یہ ادارہ خود بھی اپنے تنظیمی ڈھانچے میں فوجی اور سویلین افراد کی بھرتی کے توازن کو قائم نہیں کر سکا-اور نہ ہی اس ادارے میں سویلین کو وہ مقام اور مرتبہ حاصل ہوسکا جو جووردی والوں کو حاصل ہے-اس ادارے پر سویلین کنٹرول ایک ایسا کام ہے -جس کو کرنے کی کوشش کرنے والی پارٹی اپنا اقتدار نہیں بچا سکی-بلکہ یہ ادارہ اپنے فوجی حکمرانوں کی طرف سے اس کو کنٹرول میں کرنے کی کوشش کو بھی ناکام بناتا چلا آیا ہے-مشرف کے خلاف عدلیہ کی تحریک کو مدد دینے کا الزام بھی اس ادارے پر لگتا رہا ہے-جبکہ لال مسجد والے واقعہ کو بی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹلیجنس کے باہمی جھگڑے کا شاخسانہ کہا جاتا رہا ہے-
سول اٹیلیجنس کی کمزوری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئی بی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے پاس موٹر سائیکل بھی مشکل سے ہوتی ہے جبکہ آئی ایس آئی کا اے ڈی لینڈ کروزر استعمال کر رہا ہوتا ہے-
پھر آئی بی کے اندر جو ١٨ وین گریڈ سے اوپر کی آسامی ہوتی ہیں ان پر پی ایس پی افسران تعینات ہوتے ہیں-جن کا انٹیلیجنس کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے-اور یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کی انٹیلیجنس کارگردگی بہت غیر متاثر کن رہی ہے-اس ادارے کو جب بھی مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کوشش کو نادیدہ ہاتھوں نے کمزور بنا دیا-
میں اپنے سورس کی بنیاد پر اور بہت سی باتیں اس تناظر میں لکھ سکتا ہوں مگر اتنا کہنا کافی ہے کہ پاکستان کے اندر جمہوریت کی کمزوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جمہوری حکومتیں ایک طرف تو سویلین انٹلیجنس ڈھانچہ کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہیں-دوسرا انھوں نے آئی ایس آئی کے کردار کو اس کے آئینی دائرہ کار میں لانے اور ان کو سویلین کنٹرول میں لانے کا کام نہیں کیا ہے-
پاکستان میں پی پی پی ،اے این پی ،ایم کیو ایم جیسی لبرل جماعتوں کی نام نہاد جہادی و عکسریت پسند سیاست کے خلاف ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لبرل خیالات کو سمجھوتوں کی نظر کرتی رہی ہیں-جب بھی پاکستان میں لبرل خیالات کے خلاف کوئی مذہبی و جہادی ابھار پیدا ہوا تو آسان رہ یہ سمجھی گئی کہ لبرل خیالات سے دست بردار ہوکر خود کو جہادیوں سے زیادہ جہادی اور بنیاد پرستوں سے زیادہ بنیاد پرست ثابت کیا جائے-
صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی دائیں بازو اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آنے والے قوم پرستی اور قومی غیرت کے نعروں کے ہمنوا بن گئے-اور یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کی سیاسی جماعت کا نام نہاد جہاد اور گوریلہ چھاپہ مار جنگ کے بارے میں کیا خیال رہا ہے-
کیا پی پی پی کو اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ ان کے صدر کو تمام اطراف سے جو حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟حسین حقانی کیوں اس قدر حملوں کی زد میں ہے؟اسوجہ سے نہ کہ وہ جمہوری پروسس کا حامی ہے-وہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی پالیسیوں کو پاکستان کے وجود کے لیس سنگین خطرہ سمجھتا ہے-وہ پاکستان کو دہشت گردی کو برآمد کرنے والی ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا-اور وہ پاکستان کی منتخب جموری قیادت کو پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی تشکیل کے فیصلے دینے کا مطالبہ کرتا ہے-پاکستانی سیکورٹی اور انٹیلیجنس اداروں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلسل پاکستان میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو امداد فراہم کر رہے ہیں-اور جب منصور اعجاز جیسا آدمی یہ کہتا ہے کہ صدر زرداری کا کسی ادارے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے تو پھر ان شبھات میں اور اضافہ ہوجاتا ہے-بہت سارے شواہد اب اکٹھے ہو گئے ہیں جس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ ایک متوازی حکومت قائم کر کے جمہوری حکومت کو بےبس اور ناکام بنا رہی ہے-کیری لوگر بل پر جی ایچ کیو سے جاری پریس ریلز ہو یا آئی ایس آئی ک وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے حکم پر جرنیلوں کا ایک مقامی ہوٹل میں اکٹھ ،کیانی اور پاشا کی مدت ملازمت میں اضافہ کے معاملے پر کور کمانڈرز کا اتحاد ہو یا جنرل وائیں کے تقرر پر اصرار،فارن آفس پر آئی ایس آئی کا غیر معمولی دباؤ ہو یا پھر ججز کی بحالی کو روکے رکھے جانے پر اصرار ،اسی طرح سے حکومت کو بون کانفرنس میں جانے سے روکنے کا معاملہ ہو ،یا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے روکنا ہو-یہ سارے واقعات ایسے ہیں جو جو اسٹبلشمنٹ کی متوازی حکومت کے قائم ہونے کو سچ ثابت کرتے ہیں-کیا اس متوازی حکومت کے ہوتے ہوئے پاکستان ایک مستحکم جمہوری ملک بن سکتا ؟کیا پاکستان کی عالمی برادری میں قائم تنہائی دور ہو سکتی ہے؟کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان سے کوہ ہمالیہ سے اونچی دوستی رکھنے والے بھی موجود تھے-اور پاکستان کا بھائی کہلانے والا سعودیہ ارب بھی موجود تھا-اور ترکی بھی تھا-جب ایران جیسا ملک امریکہ اور مغرب کے ساتھ اپنی تمام تر لڑائی کے باوجود جا سکتا ہے تو پاکستان بون میں کیوں نہیں گیا؟اور اس طرح نہ جانے سے حکومت کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟صرف پوری دنیا کو یہی تاثر گیا کہ پاکستان سے اگر کوئی بھی معامله اگر طے کرنا ہے تو وو اس ملک کی فوجی قیادت سے طے کرنا ہوگا-
لیل و نہار /عامر حسینی
بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت پر پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار بارے تنقید کرنے والے حلقوں نے یہ کہنا شروع کر رکھا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن ہوتا دیکھنا نہیں چاہتا-ابھی یہ تنقید جاری تھی کہ دس محرم الحرام کے دن افغانستان کے درالحکومت کابل اور مزار شریف میں ماتمی جلوسوں پر خود کش حملہ کی خبر آگئی-جس میں درجنوں لوگ مارے گئے -اور سینکڑوں لوگ زخمی ہو گئے -اس حملہ کی ذمہ داری پاکستان کے ایک فرقہ پرست جہادی گروہ لشکر جھنگوی نے قبول کر لی-اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے حملے کرتے رہے گے-
افغانستان کی تاریخ جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے-لکین اس تاریخ میں یہ نہیں ملتا کہ کسی کی مذہبی تقریب پر حملہ کیا گیا ہو-یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے-اس بات کا اظہار افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی کیا ہے-ادھر طالبان کے ترجمان قاری ذبیح الله نے حملے کے بعد اخبارات اور ایجنسیوں کو برقی خط کے ذریعہ بتایا کہ طالبان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے-اور یہ حملہ ایک سازش ہے-مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی-اور افغانستان میں قابض افواج کے خلاف جدوجہد کو نقصان پہنچانے کی-یہ بھی خیال رہنا چاہئے کہ افغانستان میں یہ پہلا حملہ ہے جس کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے-
اس حملے کے بعد مغربی میڈیا میں یہ کہا گیا ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کے بعد یہ حملہ دراصل پاکستان کی طرف سے یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ وہ جب چاہئیں افغانستان کا امن تباہ کر سکتے ہیں-اس حملے میں ایک مرتبہ پھر آئی ایس آئی پر انگلیاں اٹھی جا رہی ہیں-جس پر یہ الزام تواتر سے لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ لشکر جھنگوی ،القائدہ اور طالبان جیسے گروپوں سے رابطہ رکھے ہوئے ہے-اور ان کو افغانستان میں اپنے لئے استعمال کر رہی ہے-
آئی ایس آئی پر یہ الزامات پاکستانی میڈیا میں آج کل غلبہ کے ہوئے منصور اعجاز نے بھی تواتر کے ساتھ لگائے ہیں-اس نے اپنے تازہ مضمون میں کہا ہے کہ آئی ایس آئی میں ایک سیکشن ایس ہے جو طالبان،حقانی گروپ سمیت دوسرے عسکری جہادی گروہوں سے تعلق رکھتا ہے-اور یہی سیکشن امریکہ کے خلاف افغانستان میں جاری مزاحمت کا بھی ذمہ دار ہے-
آئی ایس آئی پر یہ الزام پاکستان کے سیاسی حلقے بھی عائد کرتے رہے ہیں کہ اس نے بہت سے جہادی گروہوں کو اپنے تزویراتی اثاثہ قرار دے رکھے ہیں-اور ان کے پاکستان میں نیٹ ورک قائم رکھنے میں آئی ایس آئی کا بہت زیادہ ہاتھ ہے-
یہ خبریں بھی مسلسل شایع ہوتی رہی ہیں کہ پاکستان میں آئی ایس آئی دائیں بازو کے مذہبی تنظیموں کو امریکہ مخالف جذبات کو پروان چڑھانے کا ایک پروجیکٹ بھی چلا رہی ہے-اور اس حوالے سے ان تنظیموں کو رقوم کی فراہمی کا سلسہ بھی جاری ہے-
آئی ایس آئی پر یہ عزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے ریاست کے اندر اپنی ایک حکومت قائم کر رکھی ہے-اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنی پالیسی سے ہت کر کام نہیں کرنے دیتی-یہاں تک کہ اگر کوئی فوج کا سپہ سالار بھی اس کی پالیسی سے روگردانی کرے تو وہ اس کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے-
آئی ایس آئی کے سیاسی عمل میں مداخلت کے ثبوت ان گنت ہیں-لکین آج تک اس کے اس کردار پر کوئی تحقیقاتی کیمشن نہیں بنا-اور اس پر جو دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام ہے-اور یہ الزام کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے لئے استعمال کے جانے کی ذمہ دار ہے کی بھی کوئی باضابطه تحقیق نہیں کی گئی -
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی پر جو الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کیا وہ میمو اشو سے کم سنگین ہیں؟کیا ان سے ملکی سلامتی خطرہ میں نہیں پڑتی؟کیا پاکستان کی عالمی برداری میں جو سبکی ہو رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو تنہائی ہے کیا اس کا تقاضہ یہ نہیں بنتا کہ ان الزامات کی تحقیق کے لئے ایک طاقتور کیمشن قائم کیا جائے-جو ان الزامات کی تحقیقات کرے -یہ خود آئی ایس آئی کی نیک نامی کو بھال کرنے کے لئے بہت ضروری کام ہے-
میں نے کافی عرصۂ پہلے بھی یہ لکھا تھا کہ آئی ایس ایس کا کام ٧٥ فی صدی بیرونی اتیلجنس کا بنتا ہے-اور ٢٥ فیصد کام داخلی انٹیلیجنس کا جو ہے وہ اس کو داخلی انٹیلیجنس کی ذمہ دار ایجنسی آئی بی کے تعاون سے کرنا چاہئے-لکین ٣٠ سال فوجی حکومتوں کے رہنے کی وجہ سے یہاں پر سول انٹیلیجنس ڈھانچہ بہت کمزور رہا ہے-اور آئی ایس آئی کا کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے-پھر یہ ادارہ خود بھی اپنے تنظیمی ڈھانچے میں فوجی اور سویلین افراد کی بھرتی کے توازن کو قائم نہیں کر سکا-اور نہ ہی اس ادارے میں سویلین کو وہ مقام اور مرتبہ حاصل ہوسکا جو جووردی والوں کو حاصل ہے-اس ادارے پر سویلین کنٹرول ایک ایسا کام ہے -جس کو کرنے کی کوشش کرنے والی پارٹی اپنا اقتدار نہیں بچا سکی-بلکہ یہ ادارہ اپنے فوجی حکمرانوں کی طرف سے اس کو کنٹرول میں کرنے کی کوشش کو بھی ناکام بناتا چلا آیا ہے-مشرف کے خلاف عدلیہ کی تحریک کو مدد دینے کا الزام بھی اس ادارے پر لگتا رہا ہے-جبکہ لال مسجد والے واقعہ کو بی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹلیجنس کے باہمی جھگڑے کا شاخسانہ کہا جاتا رہا ہے-
سول اٹیلیجنس کی کمزوری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئی بی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے پاس موٹر سائیکل بھی مشکل سے ہوتی ہے جبکہ آئی ایس آئی کا اے ڈی لینڈ کروزر استعمال کر رہا ہوتا ہے-
پھر آئی بی کے اندر جو ١٨ وین گریڈ سے اوپر کی آسامی ہوتی ہیں ان پر پی ایس پی افسران تعینات ہوتے ہیں-جن کا انٹیلیجنس کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے-اور یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کی انٹیلیجنس کارگردگی بہت غیر متاثر کن رہی ہے-اس ادارے کو جب بھی مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کوشش کو نادیدہ ہاتھوں نے کمزور بنا دیا-
میں اپنے سورس کی بنیاد پر اور بہت سی باتیں اس تناظر میں لکھ سکتا ہوں مگر اتنا کہنا کافی ہے کہ پاکستان کے اندر جمہوریت کی کمزوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جمہوری حکومتیں ایک طرف تو سویلین انٹلیجنس ڈھانچہ کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہیں-دوسرا انھوں نے آئی ایس آئی کے کردار کو اس کے آئینی دائرہ کار میں لانے اور ان کو سویلین کنٹرول میں لانے کا کام نہیں کیا ہے-
پاکستان میں پی پی پی ،اے این پی ،ایم کیو ایم جیسی لبرل جماعتوں کی نام نہاد جہادی و عکسریت پسند سیاست کے خلاف ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لبرل خیالات کو سمجھوتوں کی نظر کرتی رہی ہیں-جب بھی پاکستان میں لبرل خیالات کے خلاف کوئی مذہبی و جہادی ابھار پیدا ہوا تو آسان رہ یہ سمجھی گئی کہ لبرل خیالات سے دست بردار ہوکر خود کو جہادیوں سے زیادہ جہادی اور بنیاد پرستوں سے زیادہ بنیاد پرست ثابت کیا جائے-
صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی دائیں بازو اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آنے والے قوم پرستی اور قومی غیرت کے نعروں کے ہمنوا بن گئے-اور یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کی سیاسی جماعت کا نام نہاد جہاد اور گوریلہ چھاپہ مار جنگ کے بارے میں کیا خیال رہا ہے-
کیا پی پی پی کو اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ ان کے صدر کو تمام اطراف سے جو حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟حسین حقانی کیوں اس قدر حملوں کی زد میں ہے؟اسوجہ سے نہ کہ وہ جمہوری پروسس کا حامی ہے-وہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی پالیسیوں کو پاکستان کے وجود کے لیس سنگین خطرہ سمجھتا ہے-وہ پاکستان کو دہشت گردی کو برآمد کرنے والی ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا-اور وہ پاکستان کی منتخب جموری قیادت کو پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی تشکیل کے فیصلے دینے کا مطالبہ کرتا ہے-پاکستانی سیکورٹی اور انٹیلیجنس اداروں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلسل پاکستان میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو امداد فراہم کر رہے ہیں-اور جب منصور اعجاز جیسا آدمی یہ کہتا ہے کہ صدر زرداری کا کسی ادارے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے تو پھر ان شبھات میں اور اضافہ ہوجاتا ہے-بہت سارے شواہد اب اکٹھے ہو گئے ہیں جس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ ایک متوازی حکومت قائم کر کے جمہوری حکومت کو بےبس اور ناکام بنا رہی ہے-کیری لوگر بل پر جی ایچ کیو سے جاری پریس ریلز ہو یا آئی ایس آئی ک وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے حکم پر جرنیلوں کا ایک مقامی ہوٹل میں اکٹھ ،کیانی اور پاشا کی مدت ملازمت میں اضافہ کے معاملے پر کور کمانڈرز کا اتحاد ہو یا جنرل وائیں کے تقرر پر اصرار،فارن آفس پر آئی ایس آئی کا غیر معمولی دباؤ ہو یا پھر ججز کی بحالی کو روکے رکھے جانے پر اصرار ،اسی طرح سے حکومت کو بون کانفرنس میں جانے سے روکنے کا معاملہ ہو ،یا بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے روکنا ہو-یہ سارے واقعات ایسے ہیں جو جو اسٹبلشمنٹ کی متوازی حکومت کے قائم ہونے کو سچ ثابت کرتے ہیں-کیا اس متوازی حکومت کے ہوتے ہوئے پاکستان ایک مستحکم جمہوری ملک بن سکتا ؟کیا پاکستان کی عالمی برادری میں قائم تنہائی دور ہو سکتی ہے؟کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ بون کانفرنس میں پاکستان سے کوہ ہمالیہ سے اونچی دوستی رکھنے والے بھی موجود تھے-اور پاکستان کا بھائی کہلانے والا سعودیہ ارب بھی موجود تھا-اور ترکی بھی تھا-جب ایران جیسا ملک امریکہ اور مغرب کے ساتھ اپنی تمام تر لڑائی کے باوجود جا سکتا ہے تو پاکستان بون میں کیوں نہیں گیا؟اور اس طرح نہ جانے سے حکومت کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟صرف پوری دنیا کو یہی تاثر گیا کہ پاکستان سے اگر کوئی بھی معامله اگر طے کرنا ہے تو وو اس ملک کی فوجی قیادت سے طے کرنا ہوگا-
صدر زرداری کی بیماری اور استعفے کی افواہ
صدر زرداری کی بیماری اور استعفے کی افواہ
لیل و نہار/عامر حسینی
صدر زرداری کو دل میں تکلیف کے پیش نظر دبئی جو آنا پڑا تو ان کے مخالفوں کے ہاتھ ایک اور ایشو آ گیا کہ اب پھر ان کے جانے کی خبر گرم کی جائے -اور دل کو خوش کیا جائے-ایک مرتبہ پھر یہ خبر امریکہ سے آئی -ایک امریکی جریدے نے فرانسیسی خبره رساں ایجنسی کی دی گئی یہ خبر شایع کی کہ صدر زرداری طبی بنیادوں پر استعفا دے سکتے ہیں-اس ایجنسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک امریکی اہل کار نے اس کو بتایا کہ اوبامہ سے بات کرتے ہوئے صدر زرداری خاصے لاتعلق سے نظر آئے-اور وہ میمو گیٹ ایشو پر خاصے دباؤ میں تھے-یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے صدر کے م،شترکہ خطاب کے دوران مسلح افواج کے سربراہان غیر حاضر رہ سکتے ہیں اور حزب اختلاف بھی شریک نہیں ہوگی-
یہ خبر ہمارے ہاں بھی ان میڈیا تنظیموں کے اخبارات اور چینلز میں نمایاں طور پر شایع کی جو کہ صدر زرداری سے سیاسی اداکار کا خطاب پا چکے ہیں-آخر ایسی خبریں شایع کرنے کا مقصد کیا بنتا ہے؟اور صدر زرداری نے آخر کون سا جرم کر دیا ہے کہ ان کے جانے کے لئے اس قدر بیتابی دکھائی جا رہی ہے-
صدر زرداری کی رخصتی کی سازشیں کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ان کو غیر آئینی طور پر اگر رخصت کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو کیا یہ بات ثابت نہیں ہو جائے گی کہ اسٹبلشمنٹ سرائیکی ،بلوچ،سندھی ،پنجابی اور دیگر اقوام کی اکثریت کا اعتماد رکھنے والی حکومت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھی-اور اس نے ایک مرتبہ پھر عوام کے منتخب نمایندہ کو اقتدار سے محروم کر دیا -اس ایک اقدام سے فیڈریشن کو کتنا بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟کیا اس بارے بھی سوچا گیا ہے-
پاکستان کے وفاق کو اگر کوئی نظام اب بچا سکتا ہے تو وہ جمہوری نظام ہے-پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو اگر اکٹھا رکھا جا سکتا ہے تو وہ جمہوریت کے ذریعہ ہی ممکن ہے-اگر جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیا تو اس حکومت نے جو تمام وفاقی اکائیوں کو جمہوری پروسس کے تحت جوڑا تھا وہ پروسس ناکام سمجھا جائے گا-اور اس عمل سے وہ لوگ ٹھیک سمجھے جائیں گے جو وفقہ کے اندر رہتے ہوئے اور پنجاب کے ساتھ ہوتے ہوئے کسی قسم کے انصاف کو مسترد کرتے ہیں اور الگ ہونے کی بات کرتے ہیں-
اس وقت جس طرح سے جمہوری حکومت کو ایجنسیوں اور اسٹبلشمنٹ کے گندے کھیل کے ذریعہ سے گھر بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے-وہ پاکستان کی سلامتی کے لئے سخت خطرہ ہے-ایک طرف تو اسٹبلشمنٹ اس خطہ میں عالمی قوتوں کے درمیان جاری جنگ میں پاکستان کو ایک بری ریسٹ کے طور پر پیش کرنے پر تلی ہوئی ہے-وہ حکومت پر بھی دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ساری دنیا سے لڑائی مول لیکر طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کی حفاظت کرتی رہے اور ان کو مہمان بنائے رکھے-دوسری طرف وہ ملک میں حکومت کو لبرل بنیادوں پر جمہوری سیاست کو جاریرکھنے میں روڑے اٹکا رہی ہے-میمو گیٹ ایشو پر لندن جا کر منصور اعجاز سے ملنے والے جنرل پاشا کو بھی تو اب تفشیش کے دائرے میں لیا جائے اور جنرل کیانی کو بھی -کیونکہ اس نے اب ان پر بھی تو الزامات لگائے ہیں-اگر منصور اعجاز سچا آدمی ہے تو اس کے سارے بیانات پر کیمشن بننا چاہئے-اور جس طرح حقانی نے استعفا دیا ہے -اسی طرح سے ان جرنیلوں کو بھی استعفا دے دینا چاہئے-اصولی طور پر تو فوج کے سربراہ جنرل کیانی کو ایبٹ آباد والے ہلے کے بعد مستففی ہو جانا چاہئے تھا-اسی طرح پاک فضہ کے سربراہ کا استعفا آنا چاہئے تھا-مہران ناول بیس پر حملہ کے بعد بھی کسی کا استفا نہیں آیا تھا-یہی کچھ نیٹو کے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کے بعد ہوا -ساری ذمہ داری آصف علی زرداری پر کیوں دہلی جا رہی ہے-اور اسٹبلشمنٹ سے کوئی جواب طلب نہیں کرتا ہے-قربانی کے لئے سیاست دنوں کی تلاش جاری ہے-
اسٹبلشمنٹ کی روش سب کو نظر آ رہی ہے-وہ اپنی طاقت اور اختیار کو ترک کرنے کو تیار نہیحی-پاکستان کی ماضی کی سیاسی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اپنے اختیار اور طاقت پر کوئی ضرب برداشت کرنے کی بجائے ملک کی تقسیم پر تیار ہوجاتی ہے-مشرقی پاکستان سے فوجی اسٹبلشمنٹ نے اس لئے ناطہ طور لیا کہ ان کو اقتدار دینے کا مطلب اپنے اختیار سے دستبرداری تھا-اور آج بھی یہ نظر آ رہاہے کہ پاور کی تقسیم کی بجائے پاور کی تقسیم کا مطلبہ کرنے والوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے-
صدر زرداری کو اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو نے دوسرا شیخ مجیب الرحمن بنانے کی کوشش کی ہے-اس وقت پنجاب میں در حقیقت ان کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ ہوا ہے کہ یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ صدر زردار اس ملک کے لئے سب سے زیادہ خطرہ کا سبب ہیں-بالی پنجاب کے شہروں میں صدر زرداری کے خلاف یہ تاثر مضبوط کرنے والے اس بات کو کامیابی سے چھپا رہے ہیں کہ صدر زرداری اور ان کی پارٹی کو ملک کے باقی حصوں میں بے بنہ مقبولیت حاصل ہے-اور ان کے ساتھ سندھی،سرائیکی ،بلوچ قوموں کی نمائندہ اکثریت بیٹھی ہے-اگرن کے خلاف کوئی اقدام ہوتا ہے تو پھر اس اقدام کے اس سے بھزیادہ خطرناک نتائج مرتب ہونگے جو مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن اور شیخ مجیب کی گرفتاری سے ہوئے تھے-زرداری،اسفند یار ولی ،الطاف حسین آپ مانیں یا نہ مانیں یہ سندھی ،سرائیکی ،مہاجر اور پختونوں کے نمائندہ لیڈر ہیں -ان کا متبادل تلش کرنے والی اسٹبلشمنٹ ایک مرتبہ پھر ملک کی تقدیر سے کھیلنے کا فیصلہ کرے گی-اور اس وقت جو ملکی اور بین الاقوامی حالت ہیں ان میں نقصان کا ازالہ بہت مشکل ہوگا-
اسٹبلشمنٹ جو کھیل کھیلنے جا رہی ہے -اس سے پنجاب کے شہری علاقوں کے اوم اسی طرح سے بیخبری کا مظاھرہ کر رہے ہیں -جو انھوں نے ٧١ میں کیا تھا-یہ اس وقت بھی اسٹبلشمنٹ کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈہ کو سچ سمجھ کر شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کو گالیاں دے کر یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ملک اور وفاق کی خمت کر رہے ہیں-لکین جب ڈھاکہ والوں نے آزادی لے لی-اور پلٹن کے میدان میں ٩٠ ہزار قیدی بن کر آدھ ملک گنوا دیا گیا تو ہوش آیا -آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے-پنجاب میں جمہوریت پسند لوگ اپنی آوازیں بلند کر کے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہیں ہیں-پاکستان کی قومیں اب آمریت کے سسئی میں اکٹھا رہنے کو تیار نہیں ہیں-وہ اپنے وسیل اور حق حکمرانی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتیں -وہ کسی ایک نسلی گروہ کے حق حکمرانی کہ لئے اپنے حق حکمرانی کی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں-بابر اعوان نے ٹھیک کہا ہیکہ صدر زرداری کے تابوت میں کیل ٹھونکنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کیلیں وفاق کے تابوت میں تھوکی جا رہی ہیں-
لیل و نہار/عامر حسینی
صدر زرداری کو دل میں تکلیف کے پیش نظر دبئی جو آنا پڑا تو ان کے مخالفوں کے ہاتھ ایک اور ایشو آ گیا کہ اب پھر ان کے جانے کی خبر گرم کی جائے -اور دل کو خوش کیا جائے-ایک مرتبہ پھر یہ خبر امریکہ سے آئی -ایک امریکی جریدے نے فرانسیسی خبره رساں ایجنسی کی دی گئی یہ خبر شایع کی کہ صدر زرداری طبی بنیادوں پر استعفا دے سکتے ہیں-اس ایجنسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک امریکی اہل کار نے اس کو بتایا کہ اوبامہ سے بات کرتے ہوئے صدر زرداری خاصے لاتعلق سے نظر آئے-اور وہ میمو گیٹ ایشو پر خاصے دباؤ میں تھے-یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے صدر کے م،شترکہ خطاب کے دوران مسلح افواج کے سربراہان غیر حاضر رہ سکتے ہیں اور حزب اختلاف بھی شریک نہیں ہوگی-
یہ خبر ہمارے ہاں بھی ان میڈیا تنظیموں کے اخبارات اور چینلز میں نمایاں طور پر شایع کی جو کہ صدر زرداری سے سیاسی اداکار کا خطاب پا چکے ہیں-آخر ایسی خبریں شایع کرنے کا مقصد کیا بنتا ہے؟اور صدر زرداری نے آخر کون سا جرم کر دیا ہے کہ ان کے جانے کے لئے اس قدر بیتابی دکھائی جا رہی ہے-
صدر زرداری کی رخصتی کی سازشیں کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ان کو غیر آئینی طور پر اگر رخصت کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو کیا یہ بات ثابت نہیں ہو جائے گی کہ اسٹبلشمنٹ سرائیکی ،بلوچ،سندھی ،پنجابی اور دیگر اقوام کی اکثریت کا اعتماد رکھنے والی حکومت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھی-اور اس نے ایک مرتبہ پھر عوام کے منتخب نمایندہ کو اقتدار سے محروم کر دیا -اس ایک اقدام سے فیڈریشن کو کتنا بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟کیا اس بارے بھی سوچا گیا ہے-
پاکستان کے وفاق کو اگر کوئی نظام اب بچا سکتا ہے تو وہ جمہوری نظام ہے-پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو اگر اکٹھا رکھا جا سکتا ہے تو وہ جمہوریت کے ذریعہ ہی ممکن ہے-اگر جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیا تو اس حکومت نے جو تمام وفاقی اکائیوں کو جمہوری پروسس کے تحت جوڑا تھا وہ پروسس ناکام سمجھا جائے گا-اور اس عمل سے وہ لوگ ٹھیک سمجھے جائیں گے جو وفقہ کے اندر رہتے ہوئے اور پنجاب کے ساتھ ہوتے ہوئے کسی قسم کے انصاف کو مسترد کرتے ہیں اور الگ ہونے کی بات کرتے ہیں-
اس وقت جس طرح سے جمہوری حکومت کو ایجنسیوں اور اسٹبلشمنٹ کے گندے کھیل کے ذریعہ سے گھر بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے-وہ پاکستان کی سلامتی کے لئے سخت خطرہ ہے-ایک طرف تو اسٹبلشمنٹ اس خطہ میں عالمی قوتوں کے درمیان جاری جنگ میں پاکستان کو ایک بری ریسٹ کے طور پر پیش کرنے پر تلی ہوئی ہے-وہ حکومت پر بھی دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ساری دنیا سے لڑائی مول لیکر طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کی حفاظت کرتی رہے اور ان کو مہمان بنائے رکھے-دوسری طرف وہ ملک میں حکومت کو لبرل بنیادوں پر جمہوری سیاست کو جاریرکھنے میں روڑے اٹکا رہی ہے-میمو گیٹ ایشو پر لندن جا کر منصور اعجاز سے ملنے والے جنرل پاشا کو بھی تو اب تفشیش کے دائرے میں لیا جائے اور جنرل کیانی کو بھی -کیونکہ اس نے اب ان پر بھی تو الزامات لگائے ہیں-اگر منصور اعجاز سچا آدمی ہے تو اس کے سارے بیانات پر کیمشن بننا چاہئے-اور جس طرح حقانی نے استعفا دیا ہے -اسی طرح سے ان جرنیلوں کو بھی استعفا دے دینا چاہئے-اصولی طور پر تو فوج کے سربراہ جنرل کیانی کو ایبٹ آباد والے ہلے کے بعد مستففی ہو جانا چاہئے تھا-اسی طرح پاک فضہ کے سربراہ کا استعفا آنا چاہئے تھا-مہران ناول بیس پر حملہ کے بعد بھی کسی کا استفا نہیں آیا تھا-یہی کچھ نیٹو کے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کے بعد ہوا -ساری ذمہ داری آصف علی زرداری پر کیوں دہلی جا رہی ہے-اور اسٹبلشمنٹ سے کوئی جواب طلب نہیں کرتا ہے-قربانی کے لئے سیاست دنوں کی تلاش جاری ہے-
اسٹبلشمنٹ کی روش سب کو نظر آ رہی ہے-وہ اپنی طاقت اور اختیار کو ترک کرنے کو تیار نہیحی-پاکستان کی ماضی کی سیاسی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اپنے اختیار اور طاقت پر کوئی ضرب برداشت کرنے کی بجائے ملک کی تقسیم پر تیار ہوجاتی ہے-مشرقی پاکستان سے فوجی اسٹبلشمنٹ نے اس لئے ناطہ طور لیا کہ ان کو اقتدار دینے کا مطلب اپنے اختیار سے دستبرداری تھا-اور آج بھی یہ نظر آ رہاہے کہ پاور کی تقسیم کی بجائے پاور کی تقسیم کا مطلبہ کرنے والوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے-
صدر زرداری کو اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو نے دوسرا شیخ مجیب الرحمن بنانے کی کوشش کی ہے-اس وقت پنجاب میں در حقیقت ان کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ ہوا ہے کہ یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ صدر زردار اس ملک کے لئے سب سے زیادہ خطرہ کا سبب ہیں-بالی پنجاب کے شہروں میں صدر زرداری کے خلاف یہ تاثر مضبوط کرنے والے اس بات کو کامیابی سے چھپا رہے ہیں کہ صدر زرداری اور ان کی پارٹی کو ملک کے باقی حصوں میں بے بنہ مقبولیت حاصل ہے-اور ان کے ساتھ سندھی،سرائیکی ،بلوچ قوموں کی نمائندہ اکثریت بیٹھی ہے-اگرن کے خلاف کوئی اقدام ہوتا ہے تو پھر اس اقدام کے اس سے بھزیادہ خطرناک نتائج مرتب ہونگے جو مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن اور شیخ مجیب کی گرفتاری سے ہوئے تھے-زرداری،اسفند یار ولی ،الطاف حسین آپ مانیں یا نہ مانیں یہ سندھی ،سرائیکی ،مہاجر اور پختونوں کے نمائندہ لیڈر ہیں -ان کا متبادل تلش کرنے والی اسٹبلشمنٹ ایک مرتبہ پھر ملک کی تقدیر سے کھیلنے کا فیصلہ کرے گی-اور اس وقت جو ملکی اور بین الاقوامی حالت ہیں ان میں نقصان کا ازالہ بہت مشکل ہوگا-
اسٹبلشمنٹ جو کھیل کھیلنے جا رہی ہے -اس سے پنجاب کے شہری علاقوں کے اوم اسی طرح سے بیخبری کا مظاھرہ کر رہے ہیں -جو انھوں نے ٧١ میں کیا تھا-یہ اس وقت بھی اسٹبلشمنٹ کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈہ کو سچ سمجھ کر شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کو گالیاں دے کر یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ملک اور وفاق کی خمت کر رہے ہیں-لکین جب ڈھاکہ والوں نے آزادی لے لی-اور پلٹن کے میدان میں ٩٠ ہزار قیدی بن کر آدھ ملک گنوا دیا گیا تو ہوش آیا -آج بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے-پنجاب میں جمہوریت پسند لوگ اپنی آوازیں بلند کر کے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہیں ہیں-پاکستان کی قومیں اب آمریت کے سسئی میں اکٹھا رہنے کو تیار نہیں ہیں-وہ اپنے وسیل اور حق حکمرانی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتیں -وہ کسی ایک نسلی گروہ کے حق حکمرانی کہ لئے اپنے حق حکمرانی کی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں-بابر اعوان نے ٹھیک کہا ہیکہ صدر زرداری کے تابوت میں کیل ٹھونکنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کیلیں وفاق کے تابوت میں تھوکی جا رہی ہیں-
ادیب،صحافی کالم نگار عامر حسینی سے بات چیت
ادیب،صحافی کالم نگار عامر حسینی سے بات چیت
نوٹ :عامر حسینی پاکستان میں ایک ترقی پسند ادیب،دانشور اور تجزیہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں-وہ روزنامہ مشرق لاہور اور روزنامہ خبریں ملتان میں مستقل کالم لکھتے ہیں-اور ان کے تجزیے اور مضامین ملکی،غیر ملکی رسائل وجرائد میں چھپتے ہیں-ملکی سیاست پر ان کی گہری نظر ہے-بھٹو خاندان خاص طور بینظیر بھٹو کی سیاست کے بہت معترف ہیں-ہم نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر ان سے محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاست کے حوالے سے خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا جو قارئین کی نظر ہے
زوار حسین :محترمہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی سے آپ کی وابستگی کا آغاز کیسے ہوا؟
عامر حسینی :پہلے تو زوار صاحب آپ کا اور آپ کے ادارے کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے شہید قائد بینظیر بھٹو کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ فراہم کیا-میں اس وقت فرسٹ ائر کا طالب علم تھا جب مجھے موقعہ ملا کہ میں عملی طور پر پی پی پی اور بھٹو خاندان سے عملی وابستگی کا ثبوت دے سکون-میں نے اپنے گھر میں کالج میں آنے سے پہلے بھٹو صاحب کی کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا-تیسری دنیا کا اتحاد،پڑھ رکھی تھیں-میں نے ستار طاہر صاحب کی مرتب کردہ کتابیں زندہ بھٹو ،مردہ بھٹو ،اسی طرح مارشل لاء کا وائٹ پیپر بھی پڑھ رکھی تھیں-پھر محترمہ بینظیر بھٹو کے زیا الحق کے خلاف بیانات اور تقریریں بھی مجھے پڑھنے اور سننے کو مل جاتی تھیں-ان سب چیزوں نے مل کر مجھے فکری طور پر بھٹو خاندان اور شہید قائد بے نظیر بھٹو کے ساتھ جوڑ دیا تھا-پھر بے نظیر بھٹو کا جو پہلا الیکشن تھا ١٩٨٨ کا اس میں بھی بطور پی پی پی کے کارکن کے میں نے سرگرم شرکت کی-اور ملک میں اسٹبلشمنٹ کی ریشہ دوانیاں بھی دیکھیں-اس دوران بے نظیر بھٹو نے جس طرح سے پاکستان میں ترقی پسند جمہوری انقلابی سیاست کے لئے کام کیا -اس نے مجھے ان کی ذات سے اور وابستہ کر دیا-
زوار حسین :آپ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ضیاء دور کی سیاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
عامر حسینی :زوار صاحب بینظیر بھٹو کی سیاست کا جائزہ لینے والوں کو ایک بات ضرور مد نظر رکھنی چاہئے کہ جس وقت بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے پی پی پی کی قیادت سنبھالی تو ان کو ایک ایسی پارٹی ملی تھی جو تنظیمی طور پر سخت انتشار کا شکار تھی-اس پارٹی میں دور اقتدار میں مزے لوٹنے والے اکثر لوگ اب مصیبت میں پارٹی کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھے-ان میں سے اکثر ضیاء کے ساتھ مل بیٹھے تھے-اور پھر ان میں سے کئی ایسے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بغیرپارتی ایک دن بھی نہیں چل پائے گی-اور بھٹو صاحب کے زمانے کے اکثر انکلز فوجی عامر کے خلاف کسی بھی ریڈکل جدوجہد کے حامی نہیں تھے-محترمہ بینظیر بھٹو کو اس زمانے میں اپنی پارٹی کے اندر اور باہر سندھ سے ایسے لوگوں کے دباؤ کا بھی سامنا تھا جو پی پی پی کو ایک قوم پرست جماعت بنانا چاہتے تھے-وہ جمہوریت اور آمریت کی جنگ کو قوم پرستی کی جنگ سے بدلنا چاہتے تھے-اور پی پی پی کو سندھ تک محدود کرنے کے خواں تھے-بینظیر بھٹو پر یہ دباؤ صرف پارٹی کے اندر اور باہر سے سندھ کے لوگوں کی طرف سے نہیں آیا بلکہ دھیرے دھیرے یہ واضح ہوگیا کہ خود ضیاء کی شدید خواہش تھی کہ وہ پی پی پی کو قوم پرستانہ سیاست کی طرف دھکیلے -لکین بینظیر بھٹو نے شہید قائد ذوالفقار علی بھٹو کی بصیرت اور اپنی ذہانت سے کام لیتے ہوئے پی پی پی کی وفاقی جمہوری عوامی سیاست کو قوم پرستانہ سیاست سے بدلنے سے بچایا-اور آپ کو میں یہ حیران کن بات بتاتا چلوں کہ سندھ میں اور پنجاب میں بے نظیر بھٹو کی ضیاء دور جدوجہد کا ایک حصہ قوم پرستانہ متعصب سیاست کے خلاف جدوجہد پر مشتمل ہے-ضیاء کو اس محاذ پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا-اس زمانہ میں بھی قوم پرست سیاست دان جو بھٹو کے مخالف تھے بھٹو کے خون کے وارث بننے اور خود ک ان کی سیاست کا علم بردار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو بینظیر بھٹو نے اس کو ناکام بنا دیا تھا-بعد میں ثابت ہوگیا کہ سندھ کے اکثر قوم پرست ضیاء کے چرنوں میں بیٹھ گئے-اور جی ایم سید کے پاس ضیاء آشیر بعد لینے پہنچ گیا-
بینظیر بھٹو نے اسی زمانہ میں خود کو بھٹو کی سیاسی وارث ہونے کا ثبوت فراہم اس طرح سے کیا کہ ضیاء الحق کی کوشش تھی کہ وہ پی پی پی کی قیادت اور ورکرز کو اشتعال دلائے -اور ان کو پرتشدد سیاست کی طرف دھکیل دے-اور اس طرح سے پی پی پی کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے میں کامیاب ہوجائے-بینظیر بھٹو نے اس کی اس سازش کا بھی بروقت ادرک کیا اور پرامن جمہوری جدوجہد کے فلسفے کو آگے بڑھایا -ضیاء پی پی پی کو سیاسی طور پر تنہا کرنا چاہتا تھا -لکین بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا-انھوں نے بھٹو صاحب کے دور میں سیاسی جماعتوں سے پیدا ہو جانے والی تلخی کو کم کرنے کی کوشش کی-اور پھر اس کوشش کو اس طرح سے آگے بڑھایا کہ ایم آر ڈی جیسا اتحاد وجود میں آگیا-
گیرہ سالہ دور آمریت میں محترمہ بینظیر بھٹو نے پی پی پی کو ضیاء آمریت کے خلاف سب سے بڑی جمہوری مزاحمتی سیاسی پارٹی کی شکل میں برقرار رکھا -یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا-
اور زوار صاحب میں آپ کو باتوں کے بینظیر بھٹو میں یہ صفت تھی کہ انھوں نے ضیاء کی طرف سے سیاست کو دفن کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا-اور بند گلی میں پی پی پی کو کبھی جانے نہیں دیا تھا-انھوں نے ہمیشہ امید کا رستہ دیکھا -وہ ضیاء کے خلاف جدوجہد کرتے کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئی تھیں-ان کی یہ کامیابی تھی کہ انھوں نے اپنی حکمت عملی سے فوج کو بھی ضیاء سے جان چھڑانے کی سوچ کو قبول کرنے پر آمادہ کر لیا تھا-
مرتضیٰ بھٹو اور پی پی پی کے چند نوجوان جس طرح ضیاء کے ٹریپ میں آئے تھے -اور ضیاء جس طرح سے ایم آر ڈی کی تحریک کو ناکام بنانا چاہتا تھا-اس وقت بھی بینظیر بھٹو نے کمال بصیرت کا ثبوت دیا تھا-
نئی نسل کو بینظیر بھٹو کے آمرانہ دور میں لیس کردار کو تفصیل سے پڑھنا اور دیکھنا چاہئے-اور پی پی پی کے نوجوانوں کو جنھوں نے وہ دور نہیں دیکھا اس کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے-
زوار حسین :عامر صاحب کچھ حلقے بے نظیر بھٹو کے ٨٨ سے لیکر ٩٧ تک کے سیاسی کردار پر خاصی تنقید کرتے ہیں-اور یہ کہتے ہیں کہ جمہوری سیاست سے جو امیدیں عوام کو تھیں وہ پوری نہیں ہوئی ؟آپ کیا سمجھتے ہیں؟
عامر حسینی :دیکھیں یہ تنقید ان لوگوں کا پروپیگنڈہ ہے جنھوں نے ضیاء کی گود میں سیاست کی-یا وہ پی پی پی کا ساتھ مصیبت میں چھوڑ گئے تھے-وقت اور تاریخ نے بہت سی چیزیں ثابت کر دین ہیں-جمہوری حکومت کو کن قوتوں نے ناکام بنایا -آپ یہ دیکھئے کہ کن حالات میں ٨٨ میں اسٹبلشمنٹ نے انتخابات کروائے تھے--اس وقت اسٹبلشمنٹ میں طاقت کے دو مرکز تھے -ایک صدر اسحاق کی صورت میں موجود تھا-دوسرا چیف آف آرمی سٹاف اسلام بیگ کی صورت موجود تھا -یہ دونوں ضیاء کے حامی تھے-اور ضیاء نے جن لوگوں کو پی پی پی کے مد مقابل لا کر کھڑا کیا تھا یہ ان کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے تھے-اس دور میں ایجنسیوں نے پی پی پی کا رستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی بنوایا -حمید گل نے اعتراف کیا ہے کہ آئی جے آئی اگر وہ نہ بناتے تو انتخاب نہیں ہونا تھا-اور آئی ایس آئی نے یہ رپورٹ ارسال کی تھی کہ انتخابات میں کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملے گی-اسٹبلشمنٹ کو یہ یقین تھا کہ پی پی پی کبھی بھی اپنی حسیت میں حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو سکے گی-لکین پی پی پی کامیاب ہوئی-اور اس کے پاس ١٠٧ نشستیں تھیں-اور آئی جے آئی کے پاس ٥٣ لکین اسحاق خان نے پہلے آئی جے آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دے ڈالی-دس دن تک پی پی پی کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا-اس سے قبل نگران حکومت کے دور میں ہی اسحاق خان ١٥ جج مقرر کر چکے تھے-اور ٨٨ میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کرتے ہوئے صدر اسحاق خان اور اسلم بیگ نے بینظیر بھٹو کو اس شرط پر اقتدار منتقل کرنے کو کہا کہ وہ ایک تو اسحاق خان کو صدر منتخب کرائیں گی-دوسرا وزرات خارجہ پر صاحبزادہ یعقوب علی خان براجمان رہیں گے-اوروزیر خزانہ بھی ان کی مرضی سے آئے گا-مقصد واضح تھا کہ صدارت کے عہدے پر ضیاء کی باقیات کا قبضہ رہے گا تو فوج اور عدلیہ میں تقرریوں کا اختیار بھی اسی باقیات کے پاس رہے گا-نیز صدر کسی بھی وقت پی پی پی کی حکومت کو چلتا کر دین گے-تو ٨٨ میں لولا لنگڑا اقتدار جو طاقت کے کئی مرکز رکھتا تھا پی پی پی کو ملا-اور پی پی پی نے یہ اقتدار اس لئے قبول کیا کہ گیارہ سالوں سے پارٹی کے کارکن عذاب اور اذیت بھگت رہے تھے-بینظیر بھٹو کو خطرہ یہ لاحق تھا کہ اب بھی اگر اقتدار کو حاصل نہ کیا گیا تو ایک اور مارشل لاء پارٹی کے شیرازہ کو بکھیر سکتا ہے-پارٹی کو نئی زندگی کے لئے یہ بہت ضروری تھا-محترمہ بینظیر بھٹو نے ٨٨ سے لیکر ٩٩ تک جو جنگ اور لڑائی لڑی وہ اس متوازی حکومت کے خلاف تھی جو ضیاء کی باقیات نے قائم کر رکھی تھی-جس کا فوج،ایجنسیوں،عدلیہ ،انتظامیہ ،میڈیا پر مضبوط گرفت تھی-اور اس باقیات کے حامی ملک کے اندر سرمایہ دار ،تاجر اور پروفیشنل طبقات کے لوگ تھے-جب کہ مذھبی رجعت پسند بھی اس باقیات کی طاقت تھے-بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی جدیدیت ،روشن خیالی اور لبرلزم کی علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ غریبوں اور کسانوں کے لئے امید کا پیغام تھی-محترمہ بینظیر بھٹو نے ٩٧ میں اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد لاہور میں ایک تقریر کی تھی-جس کا عنوان تھا "ایجنسیوں کی حکومت "اس میں محترمہ بینظیر بھٹو نے کھل کر بتایا تھا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو جمہوری حکومتوں کو ناکام بناتی ہیں-اور کیسے ایجنسیوں نے ملک میں متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے-بینظیر بھٹو کو پوسٹ ضیاء دور میں فوج ،بے وردی نوکر شاہی ،عدلیہ اور میڈیا ٹرائل کا مسلسل مخالفانہ رویہ برداشت کرنا پڑا-اور ایک سخت قسم کی لڑائی محترمہ بینظیر بھٹو نے لڑی-میں سمجھتا ہوں کہ یہ بینظیر کی قیادت تھی جس نے پی پی پی کو ٹوٹنے اور منتشر ہونے سے بچائے رکھا-
زوار حسین:کہا یہ جاتا ہے کہ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کے بعد بینظیر بھٹو کے پاس بہت اچھا موقعہ تھا کہ وہ مسلم لیگ نواز کے خاتمہ میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہوجاتیں-اور مشرف کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کر لیتیں-یہ بینظیر کی سیاسی غلطی تھی کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا-آپ کا کیا خیال ہے؟
عامر حسینی :میرے خیال میں بینظیر بھٹو نے اس موقعہ پر بھی وقتی فائدہ کو مد نظر نہ رکھ کر اسٹبلشمنٹ کی متوازی حکومت کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل کیا-مشرف کا مارشل لاء پہلی مرتبہ دائیں بازو کی ایک ایسی جماعت کے خلاف ہوا تھا جو ایک طرح سے ضیاء کی باقیات تھی-اور پہلی مرتبہ دائیں بازو کی ایک طاقت ور سیاسی جماعت کا اسٹبلشمنٹ سے رشتہ ٹوٹ گیا تھا-فوج نے یہ سب خوشی سے تو نہیں کیا تھا-اب اس موقعہ پر اگر بینظیر بھٹو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نواز کے کفن دفن کا انتظام کر دیتیں تو گویا بینظیر بھٹو اپنے ہاتھوں سے دائیں بازو اور فوج میں پھر سے مکمل اتحاد کو ممکن بنا دیتیں-انھوں نے ایسا نہیں کیا-میاں نواز شریف آج جس قدر بھی جمہوریت کے حق میں بات کرتے ہیں-اور وہ اسٹبلشمنٹ خاص طور پر فوج کو جس طرح سے سیاست سے باہر رہنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا کریڈٹ محترمہ بینظیر بھٹو کو جاتا ہے-وہ ضیاء کو امر کہتے ہیں-اور بھٹو کی پھانسی کو بھی غلط کہتے ہیں-یہ بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت تھی کہ انھوں نے اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو تقسیم کو کم کرنے اور دائیں بازو کی ایک بڑی طاقت کو جمہوریت پر کاربند رہنے پر مجبور کر دیا-محترمہ بینظیر بھٹو میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ اپنے اتحاد کو ہر قیمت پر قائم رکھا -اگرچہ میاں نواز شریف ان دنوں بھی ایم ایم اے کی باتوں میں آکر اے آر ڈی کو ختم کرنے کی پوری کوشش کر بیٹھے تھے-انھوں نے مشرف سے معافی مانگنے اور ان سے معاہدہ کرنے جیسی غلطی کر لی-لکین اس کے باوجود بینظیر بھٹو نے مسلم لیگ نواز کو ساتھ رکھا-میاں نواز شریف اس زمانے میں بھی اسٹبلشمنٹ کی چالوں کو نہیں سمجھ سکے تھے-جیسے وہ پوسٹ مشرف دور میں نہ سمجھ سکے-اور انھوں نے پی پی پی کو بھی مشکل میں ڈال دیا-آج اسٹبلشمنٹ جس قدر طاقت ور ہے-اور وہ اپنی من مانی پر اتری ہے تو اس کی وجہ مسلم لیگ نواز کا پی پی پی سے الگ ہونا اور اس کی حکومت کو غیر مستہمک کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ہے-پی پی پی کو ایم کیو ایم اور مسلم ق کی طرف دھکیلنے میں سب سے زیادہ ہاتھ مسلم لیگ نواز کا بنتا ہے-پاکستان تحریک انصاف اگر موسٹ فیورٹ کنگ پارٹی آف اسٹبلشمنٹ بنی ہے تو اسمیں بھی مسلم لیگ ذمہ دار ہے-بینظیر بھٹو نے جس ذہانت اور اہلیت کے ساتھ فوجی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں جمہوری اور شفاف بنیادوں پر الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنایا تھا -ان کی اسی اہلیت اور صلاحیت سے خوفزدہ طاقتوں نے ان کو شہید کرایا -ان کا خیال بھی یہی تھا کہ محترمہ اگر رثتہسے ہٹ گئیں تو پی پی پی سے ان کی جان چھوٹ جائے گی-لکین ایک بااثر پھر دشمنوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں-
زوار حسین :عامر صاحب یہ بتلائے کیا پی پی پی کے شریک چئیرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کی لائن کو فالو کر رہے ہیں؟کیا ناقدین کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ آج کی پی پی پی بینظیر بھٹو کی پارٹی نہیں ہے -یہ زرداری لیگ ہے؟
عامر حسینی :پی پی پی کی تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ اس کی زندہ قیادت کو شہید ہوجانے والی قیادت کا نام لیکر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے-بے نظیر بھٹو جب زندہ تھیں تو ان کو ساری عمریہ الزامدیا جاتا رہا کہ یہ پارٹی بھٹو کی پارٹی نہیں ہے-بلکہ یہ بینظیر کی پارٹی ہے-ان پر یہ بھی الزام لگا یہ انھوں نے اپنے باپ کی سیاست کو خیر بعد کہ دیا-لکین اس دور میں بھی پی پی پی کے کارکن اور اس کا ووٹر جانتا تھا کہ بینظیر بھٹو ہی بھٹو کی وارث ہیں-اور وہ پی پی پی کو ٹھیکرستہ پر لیکر جا رہی ہیں-ان کے دور میں سارے نشانے بینظیر کے اوپر تھے-کبھی ان پر یہ الزام لگا کہ وہ اپنی ماں نصرت بھٹو کو پیچھے کر کے سیاست پر قابض ہوئی ہیں-کبھی ان پر یہ الزام لگا کہ وہ اپنے بھائی مرتضی سے زیادتی کی مرتکب ہ رہی ہیں-لکین وقت نے ثابت کیا کہ ووہی پارٹی کی قیادت کی حقدار تھیں-ان کے بعد پارٹی میں اگر پی پی پی کو کوئی قوت متحد رکھ سکتی تھی اور رکھ سکتی ہے تو آصف علی زرداری کی ذات تھی اور ہے-ایسی لئے آصف علی زرداری پی پی پی کے تمام دشمنوں کے تیروں کے نشانے پر ہیں-اور آپ دیکھیں گے جب قیادت آصف علی زرداری سے بلاول کو منتقل ہوگی تو ان تیروں کا ہدف فوری بدلے گا-اور نشانہ بلاول ہوں گے-اور آپ لوگوں کویہ کہتے بھی سنیں گے کہ بلاول زرداری نے آصف علی زرداری سے زیادتی کی ہے-تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے-آصف علی زرداری کو پی پی پی کے دشمنوں نے کمزور ہدف سمجھا تھا-لکین وہ ان کی سوچ سے بھی زیادہمشکل ہدف ثابت ہوئے ہیں-پی پی پی کے دشمن تو یوسف رضا گیلانی کے بارے میں بہت سے غلط فہمیوں کا شکار تھے-لکین یہ غلط فہمیاں انھوں نے دور کر دی ہیں-اور پی پی پی کے دشمنوں کے لئے تو یک نہ شد دوشد والا معاملہ ہو گیا ہے-پی پی پی کے کارکنوں اور ووٹروں نے زرداری اور بلاول کو اپنا لیڈر ماں لیا ہے-اب ان کی مخالفت کرنے والے منہ کی کھائیں گے-
نوٹ :عامر حسینی پاکستان میں ایک ترقی پسند ادیب،دانشور اور تجزیہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں-وہ روزنامہ مشرق لاہور اور روزنامہ خبریں ملتان میں مستقل کالم لکھتے ہیں-اور ان کے تجزیے اور مضامین ملکی،غیر ملکی رسائل وجرائد میں چھپتے ہیں-ملکی سیاست پر ان کی گہری نظر ہے-بھٹو خاندان خاص طور بینظیر بھٹو کی سیاست کے بہت معترف ہیں-ہم نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر ان سے محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاست کے حوالے سے خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا جو قارئین کی نظر ہے
زوار حسین :محترمہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی سے آپ کی وابستگی کا آغاز کیسے ہوا؟
عامر حسینی :پہلے تو زوار صاحب آپ کا اور آپ کے ادارے کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے شہید قائد بینظیر بھٹو کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ فراہم کیا-میں اس وقت فرسٹ ائر کا طالب علم تھا جب مجھے موقعہ ملا کہ میں عملی طور پر پی پی پی اور بھٹو خاندان سے عملی وابستگی کا ثبوت دے سکون-میں نے اپنے گھر میں کالج میں آنے سے پہلے بھٹو صاحب کی کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا-تیسری دنیا کا اتحاد،پڑھ رکھی تھیں-میں نے ستار طاہر صاحب کی مرتب کردہ کتابیں زندہ بھٹو ،مردہ بھٹو ،اسی طرح مارشل لاء کا وائٹ پیپر بھی پڑھ رکھی تھیں-پھر محترمہ بینظیر بھٹو کے زیا الحق کے خلاف بیانات اور تقریریں بھی مجھے پڑھنے اور سننے کو مل جاتی تھیں-ان سب چیزوں نے مل کر مجھے فکری طور پر بھٹو خاندان اور شہید قائد بے نظیر بھٹو کے ساتھ جوڑ دیا تھا-پھر بے نظیر بھٹو کا جو پہلا الیکشن تھا ١٩٨٨ کا اس میں بھی بطور پی پی پی کے کارکن کے میں نے سرگرم شرکت کی-اور ملک میں اسٹبلشمنٹ کی ریشہ دوانیاں بھی دیکھیں-اس دوران بے نظیر بھٹو نے جس طرح سے پاکستان میں ترقی پسند جمہوری انقلابی سیاست کے لئے کام کیا -اس نے مجھے ان کی ذات سے اور وابستہ کر دیا-
زوار حسین :آپ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ضیاء دور کی سیاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
عامر حسینی :زوار صاحب بینظیر بھٹو کی سیاست کا جائزہ لینے والوں کو ایک بات ضرور مد نظر رکھنی چاہئے کہ جس وقت بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے پی پی پی کی قیادت سنبھالی تو ان کو ایک ایسی پارٹی ملی تھی جو تنظیمی طور پر سخت انتشار کا شکار تھی-اس پارٹی میں دور اقتدار میں مزے لوٹنے والے اکثر لوگ اب مصیبت میں پارٹی کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھے-ان میں سے اکثر ضیاء کے ساتھ مل بیٹھے تھے-اور پھر ان میں سے کئی ایسے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بغیرپارتی ایک دن بھی نہیں چل پائے گی-اور بھٹو صاحب کے زمانے کے اکثر انکلز فوجی عامر کے خلاف کسی بھی ریڈکل جدوجہد کے حامی نہیں تھے-محترمہ بینظیر بھٹو کو اس زمانے میں اپنی پارٹی کے اندر اور باہر سندھ سے ایسے لوگوں کے دباؤ کا بھی سامنا تھا جو پی پی پی کو ایک قوم پرست جماعت بنانا چاہتے تھے-وہ جمہوریت اور آمریت کی جنگ کو قوم پرستی کی جنگ سے بدلنا چاہتے تھے-اور پی پی پی کو سندھ تک محدود کرنے کے خواں تھے-بینظیر بھٹو پر یہ دباؤ صرف پارٹی کے اندر اور باہر سے سندھ کے لوگوں کی طرف سے نہیں آیا بلکہ دھیرے دھیرے یہ واضح ہوگیا کہ خود ضیاء کی شدید خواہش تھی کہ وہ پی پی پی کو قوم پرستانہ سیاست کی طرف دھکیلے -لکین بینظیر بھٹو نے شہید قائد ذوالفقار علی بھٹو کی بصیرت اور اپنی ذہانت سے کام لیتے ہوئے پی پی پی کی وفاقی جمہوری عوامی سیاست کو قوم پرستانہ سیاست سے بدلنے سے بچایا-اور آپ کو میں یہ حیران کن بات بتاتا چلوں کہ سندھ میں اور پنجاب میں بے نظیر بھٹو کی ضیاء دور جدوجہد کا ایک حصہ قوم پرستانہ متعصب سیاست کے خلاف جدوجہد پر مشتمل ہے-ضیاء کو اس محاذ پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا-اس زمانہ میں بھی قوم پرست سیاست دان جو بھٹو کے مخالف تھے بھٹو کے خون کے وارث بننے اور خود ک ان کی سیاست کا علم بردار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو بینظیر بھٹو نے اس کو ناکام بنا دیا تھا-بعد میں ثابت ہوگیا کہ سندھ کے اکثر قوم پرست ضیاء کے چرنوں میں بیٹھ گئے-اور جی ایم سید کے پاس ضیاء آشیر بعد لینے پہنچ گیا-
بینظیر بھٹو نے اسی زمانہ میں خود کو بھٹو کی سیاسی وارث ہونے کا ثبوت فراہم اس طرح سے کیا کہ ضیاء الحق کی کوشش تھی کہ وہ پی پی پی کی قیادت اور ورکرز کو اشتعال دلائے -اور ان کو پرتشدد سیاست کی طرف دھکیل دے-اور اس طرح سے پی پی پی کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے میں کامیاب ہوجائے-بینظیر بھٹو نے اس کی اس سازش کا بھی بروقت ادرک کیا اور پرامن جمہوری جدوجہد کے فلسفے کو آگے بڑھایا -ضیاء پی پی پی کو سیاسی طور پر تنہا کرنا چاہتا تھا -لکین بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا-انھوں نے بھٹو صاحب کے دور میں سیاسی جماعتوں سے پیدا ہو جانے والی تلخی کو کم کرنے کی کوشش کی-اور پھر اس کوشش کو اس طرح سے آگے بڑھایا کہ ایم آر ڈی جیسا اتحاد وجود میں آگیا-
گیرہ سالہ دور آمریت میں محترمہ بینظیر بھٹو نے پی پی پی کو ضیاء آمریت کے خلاف سب سے بڑی جمہوری مزاحمتی سیاسی پارٹی کی شکل میں برقرار رکھا -یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا-
اور زوار صاحب میں آپ کو باتوں کے بینظیر بھٹو میں یہ صفت تھی کہ انھوں نے ضیاء کی طرف سے سیاست کو دفن کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا-اور بند گلی میں پی پی پی کو کبھی جانے نہیں دیا تھا-انھوں نے ہمیشہ امید کا رستہ دیکھا -وہ ضیاء کے خلاف جدوجہد کرتے کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئی تھیں-ان کی یہ کامیابی تھی کہ انھوں نے اپنی حکمت عملی سے فوج کو بھی ضیاء سے جان چھڑانے کی سوچ کو قبول کرنے پر آمادہ کر لیا تھا-
مرتضیٰ بھٹو اور پی پی پی کے چند نوجوان جس طرح ضیاء کے ٹریپ میں آئے تھے -اور ضیاء جس طرح سے ایم آر ڈی کی تحریک کو ناکام بنانا چاہتا تھا-اس وقت بھی بینظیر بھٹو نے کمال بصیرت کا ثبوت دیا تھا-
نئی نسل کو بینظیر بھٹو کے آمرانہ دور میں لیس کردار کو تفصیل سے پڑھنا اور دیکھنا چاہئے-اور پی پی پی کے نوجوانوں کو جنھوں نے وہ دور نہیں دیکھا اس کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے-
زوار حسین :عامر صاحب کچھ حلقے بے نظیر بھٹو کے ٨٨ سے لیکر ٩٧ تک کے سیاسی کردار پر خاصی تنقید کرتے ہیں-اور یہ کہتے ہیں کہ جمہوری سیاست سے جو امیدیں عوام کو تھیں وہ پوری نہیں ہوئی ؟آپ کیا سمجھتے ہیں؟
عامر حسینی :دیکھیں یہ تنقید ان لوگوں کا پروپیگنڈہ ہے جنھوں نے ضیاء کی گود میں سیاست کی-یا وہ پی پی پی کا ساتھ مصیبت میں چھوڑ گئے تھے-وقت اور تاریخ نے بہت سی چیزیں ثابت کر دین ہیں-جمہوری حکومت کو کن قوتوں نے ناکام بنایا -آپ یہ دیکھئے کہ کن حالات میں ٨٨ میں اسٹبلشمنٹ نے انتخابات کروائے تھے--اس وقت اسٹبلشمنٹ میں طاقت کے دو مرکز تھے -ایک صدر اسحاق کی صورت میں موجود تھا-دوسرا چیف آف آرمی سٹاف اسلام بیگ کی صورت موجود تھا -یہ دونوں ضیاء کے حامی تھے-اور ضیاء نے جن لوگوں کو پی پی پی کے مد مقابل لا کر کھڑا کیا تھا یہ ان کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے تھے-اس دور میں ایجنسیوں نے پی پی پی کا رستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی بنوایا -حمید گل نے اعتراف کیا ہے کہ آئی جے آئی اگر وہ نہ بناتے تو انتخاب نہیں ہونا تھا-اور آئی ایس آئی نے یہ رپورٹ ارسال کی تھی کہ انتخابات میں کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملے گی-اسٹبلشمنٹ کو یہ یقین تھا کہ پی پی پی کبھی بھی اپنی حسیت میں حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو سکے گی-لکین پی پی پی کامیاب ہوئی-اور اس کے پاس ١٠٧ نشستیں تھیں-اور آئی جے آئی کے پاس ٥٣ لکین اسحاق خان نے پہلے آئی جے آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دے ڈالی-دس دن تک پی پی پی کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا-اس سے قبل نگران حکومت کے دور میں ہی اسحاق خان ١٥ جج مقرر کر چکے تھے-اور ٨٨ میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کرتے ہوئے صدر اسحاق خان اور اسلم بیگ نے بینظیر بھٹو کو اس شرط پر اقتدار منتقل کرنے کو کہا کہ وہ ایک تو اسحاق خان کو صدر منتخب کرائیں گی-دوسرا وزرات خارجہ پر صاحبزادہ یعقوب علی خان براجمان رہیں گے-اوروزیر خزانہ بھی ان کی مرضی سے آئے گا-مقصد واضح تھا کہ صدارت کے عہدے پر ضیاء کی باقیات کا قبضہ رہے گا تو فوج اور عدلیہ میں تقرریوں کا اختیار بھی اسی باقیات کے پاس رہے گا-نیز صدر کسی بھی وقت پی پی پی کی حکومت کو چلتا کر دین گے-تو ٨٨ میں لولا لنگڑا اقتدار جو طاقت کے کئی مرکز رکھتا تھا پی پی پی کو ملا-اور پی پی پی نے یہ اقتدار اس لئے قبول کیا کہ گیارہ سالوں سے پارٹی کے کارکن عذاب اور اذیت بھگت رہے تھے-بینظیر بھٹو کو خطرہ یہ لاحق تھا کہ اب بھی اگر اقتدار کو حاصل نہ کیا گیا تو ایک اور مارشل لاء پارٹی کے شیرازہ کو بکھیر سکتا ہے-پارٹی کو نئی زندگی کے لئے یہ بہت ضروری تھا-محترمہ بینظیر بھٹو نے ٨٨ سے لیکر ٩٩ تک جو جنگ اور لڑائی لڑی وہ اس متوازی حکومت کے خلاف تھی جو ضیاء کی باقیات نے قائم کر رکھی تھی-جس کا فوج،ایجنسیوں،عدلیہ ،انتظامیہ ،میڈیا پر مضبوط گرفت تھی-اور اس باقیات کے حامی ملک کے اندر سرمایہ دار ،تاجر اور پروفیشنل طبقات کے لوگ تھے-جب کہ مذھبی رجعت پسند بھی اس باقیات کی طاقت تھے-بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی جدیدیت ،روشن خیالی اور لبرلزم کی علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ غریبوں اور کسانوں کے لئے امید کا پیغام تھی-محترمہ بینظیر بھٹو نے ٩٧ میں اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد لاہور میں ایک تقریر کی تھی-جس کا عنوان تھا "ایجنسیوں کی حکومت "اس میں محترمہ بینظیر بھٹو نے کھل کر بتایا تھا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو جمہوری حکومتوں کو ناکام بناتی ہیں-اور کیسے ایجنسیوں نے ملک میں متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے-بینظیر بھٹو کو پوسٹ ضیاء دور میں فوج ،بے وردی نوکر شاہی ،عدلیہ اور میڈیا ٹرائل کا مسلسل مخالفانہ رویہ برداشت کرنا پڑا-اور ایک سخت قسم کی لڑائی محترمہ بینظیر بھٹو نے لڑی-میں سمجھتا ہوں کہ یہ بینظیر کی قیادت تھی جس نے پی پی پی کو ٹوٹنے اور منتشر ہونے سے بچائے رکھا-
زوار حسین:کہا یہ جاتا ہے کہ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کے بعد بینظیر بھٹو کے پاس بہت اچھا موقعہ تھا کہ وہ مسلم لیگ نواز کے خاتمہ میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہوجاتیں-اور مشرف کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کر لیتیں-یہ بینظیر کی سیاسی غلطی تھی کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا-آپ کا کیا خیال ہے؟
عامر حسینی :میرے خیال میں بینظیر بھٹو نے اس موقعہ پر بھی وقتی فائدہ کو مد نظر نہ رکھ کر اسٹبلشمنٹ کی متوازی حکومت کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل کیا-مشرف کا مارشل لاء پہلی مرتبہ دائیں بازو کی ایک ایسی جماعت کے خلاف ہوا تھا جو ایک طرح سے ضیاء کی باقیات تھی-اور پہلی مرتبہ دائیں بازو کی ایک طاقت ور سیاسی جماعت کا اسٹبلشمنٹ سے رشتہ ٹوٹ گیا تھا-فوج نے یہ سب خوشی سے تو نہیں کیا تھا-اب اس موقعہ پر اگر بینظیر بھٹو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نواز کے کفن دفن کا انتظام کر دیتیں تو گویا بینظیر بھٹو اپنے ہاتھوں سے دائیں بازو اور فوج میں پھر سے مکمل اتحاد کو ممکن بنا دیتیں-انھوں نے ایسا نہیں کیا-میاں نواز شریف آج جس قدر بھی جمہوریت کے حق میں بات کرتے ہیں-اور وہ اسٹبلشمنٹ خاص طور پر فوج کو جس طرح سے سیاست سے باہر رہنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا کریڈٹ محترمہ بینظیر بھٹو کو جاتا ہے-وہ ضیاء کو امر کہتے ہیں-اور بھٹو کی پھانسی کو بھی غلط کہتے ہیں-یہ بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت تھی کہ انھوں نے اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو تقسیم کو کم کرنے اور دائیں بازو کی ایک بڑی طاقت کو جمہوریت پر کاربند رہنے پر مجبور کر دیا-محترمہ بینظیر بھٹو میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ اپنے اتحاد کو ہر قیمت پر قائم رکھا -اگرچہ میاں نواز شریف ان دنوں بھی ایم ایم اے کی باتوں میں آکر اے آر ڈی کو ختم کرنے کی پوری کوشش کر بیٹھے تھے-انھوں نے مشرف سے معافی مانگنے اور ان سے معاہدہ کرنے جیسی غلطی کر لی-لکین اس کے باوجود بینظیر بھٹو نے مسلم لیگ نواز کو ساتھ رکھا-میاں نواز شریف اس زمانے میں بھی اسٹبلشمنٹ کی چالوں کو نہیں سمجھ سکے تھے-جیسے وہ پوسٹ مشرف دور میں نہ سمجھ سکے-اور انھوں نے پی پی پی کو بھی مشکل میں ڈال دیا-آج اسٹبلشمنٹ جس قدر طاقت ور ہے-اور وہ اپنی من مانی پر اتری ہے تو اس کی وجہ مسلم لیگ نواز کا پی پی پی سے الگ ہونا اور اس کی حکومت کو غیر مستہمک کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ہے-پی پی پی کو ایم کیو ایم اور مسلم ق کی طرف دھکیلنے میں سب سے زیادہ ہاتھ مسلم لیگ نواز کا بنتا ہے-پاکستان تحریک انصاف اگر موسٹ فیورٹ کنگ پارٹی آف اسٹبلشمنٹ بنی ہے تو اسمیں بھی مسلم لیگ ذمہ دار ہے-بینظیر بھٹو نے جس ذہانت اور اہلیت کے ساتھ فوجی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں جمہوری اور شفاف بنیادوں پر الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنایا تھا -ان کی اسی اہلیت اور صلاحیت سے خوفزدہ طاقتوں نے ان کو شہید کرایا -ان کا خیال بھی یہی تھا کہ محترمہ اگر رثتہسے ہٹ گئیں تو پی پی پی سے ان کی جان چھوٹ جائے گی-لکین ایک بااثر پھر دشمنوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں-
زوار حسین :عامر صاحب یہ بتلائے کیا پی پی پی کے شریک چئیرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کی لائن کو فالو کر رہے ہیں؟کیا ناقدین کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ آج کی پی پی پی بینظیر بھٹو کی پارٹی نہیں ہے -یہ زرداری لیگ ہے؟
عامر حسینی :پی پی پی کی تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ اس کی زندہ قیادت کو شہید ہوجانے والی قیادت کا نام لیکر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے-بے نظیر بھٹو جب زندہ تھیں تو ان کو ساری عمریہ الزامدیا جاتا رہا کہ یہ پارٹی بھٹو کی پارٹی نہیں ہے-بلکہ یہ بینظیر کی پارٹی ہے-ان پر یہ بھی الزام لگا یہ انھوں نے اپنے باپ کی سیاست کو خیر بعد کہ دیا-لکین اس دور میں بھی پی پی پی کے کارکن اور اس کا ووٹر جانتا تھا کہ بینظیر بھٹو ہی بھٹو کی وارث ہیں-اور وہ پی پی پی کو ٹھیکرستہ پر لیکر جا رہی ہیں-ان کے دور میں سارے نشانے بینظیر کے اوپر تھے-کبھی ان پر یہ الزام لگا کہ وہ اپنی ماں نصرت بھٹو کو پیچھے کر کے سیاست پر قابض ہوئی ہیں-کبھی ان پر یہ الزام لگا کہ وہ اپنے بھائی مرتضی سے زیادتی کی مرتکب ہ رہی ہیں-لکین وقت نے ثابت کیا کہ ووہی پارٹی کی قیادت کی حقدار تھیں-ان کے بعد پارٹی میں اگر پی پی پی کو کوئی قوت متحد رکھ سکتی تھی اور رکھ سکتی ہے تو آصف علی زرداری کی ذات تھی اور ہے-ایسی لئے آصف علی زرداری پی پی پی کے تمام دشمنوں کے تیروں کے نشانے پر ہیں-اور آپ دیکھیں گے جب قیادت آصف علی زرداری سے بلاول کو منتقل ہوگی تو ان تیروں کا ہدف فوری بدلے گا-اور نشانہ بلاول ہوں گے-اور آپ لوگوں کویہ کہتے بھی سنیں گے کہ بلاول زرداری نے آصف علی زرداری سے زیادتی کی ہے-تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے-آصف علی زرداری کو پی پی پی کے دشمنوں نے کمزور ہدف سمجھا تھا-لکین وہ ان کی سوچ سے بھی زیادہمشکل ہدف ثابت ہوئے ہیں-پی پی پی کے دشمن تو یوسف رضا گیلانی کے بارے میں بہت سے غلط فہمیوں کا شکار تھے-لکین یہ غلط فہمیاں انھوں نے دور کر دی ہیں-اور پی پی پی کے دشمنوں کے لئے تو یک نہ شد دوشد والا معاملہ ہو گیا ہے-پی پی پی کے کارکنوں اور ووٹروں نے زرداری اور بلاول کو اپنا لیڈر ماں لیا ہے-اب ان کی مخالفت کرنے والے منہ کی کھائیں گے-
جاگ میرے پنجاب کہ بلوچستان چلا ..........
جاگ میرے پنجاب کہ بلوچستان چلا ..........
لیل و نہار /عامر حسینی
حبیب جالب نے مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن کے تناظر میں ایک نظم لکھی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ
جاگ میرے پنجاب کے پاکستان چلا
میں نے اس کو تھوڑا سا بدل ہے اور پاکستان کی جگہ بلوچستان لگا ڈالا ہے-حبیب جالب نے کیوں پنجاب کو مخاطب کیا تھا-اس کی وجہ یہ تھی کہ سب سے زیادہ اگر کوئی بنگالیوں کے بارے میں بدگمانیوں کا شکار تھے تو وہ اہل پنجاب تھے-اہل پنجاب اس وقت بھی استبلشتمنٹ اور اس کے حامیوں کو ٹھیک خیال کر رہے تھے-اور ان کا یہ خیال تھا کہ اسٹبلشمنٹ جو کچھ بھی بنگال میں کر رہی ہے -وہ پاکستان کی حفاظت کے لئے اشد ضروری ہے-اس زمانے میں بھی بنگال کے اندر خفیہ ادارے ،سیکورٹی اہلکار اور سول نوکر شاہی بنگالی عوام پر جو ظلم اور زیادتیاں کر رہی تھی -ان کو پنجاب کے عوام سے چھپایا جاتا تھا-یہاں تک کے اخبارات بھی خود ہی اپنے اوپر ایک خود ساختہ سنسر شپ لگا لیتے تھے-یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی عوام کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ بنگال میں حالت کس قدر پاکستان کے لئے نا سازگار ہوگئی ہے-یہاں تو دسمبر ١٩٧١ تک جشن منایا جا رہا تھا-فتح کے گیت گائے جا رہے تھے-پاکستان کے اخبارات پاکستانی فوج کی فتوحات کے گیت بھی گا رہے تھے-لکین پھر جب اچانک پتہ چلا کہ ہم تو بنگال سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو پھر رونا دھونا شروع ہو گیا تھا-
لکین اس وقت بھی ہمارے ہاں کسی نے ٹھنڈے دل سے یہ تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جس طرح سے پنجاب کی عوام کو گمراہ کیا گیا کیا وہ عمل ٹھیک تھا-اگر پنجاب کے عوام کو باخبر رکھا جاتا اور ن کو اصل حالات بتائے جاتے تو یہاں سے اہل پنجاب بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر سراپا احتجاج ہوتے -اور مغربی پاکستان سے دباؤ ہوتا تو بنگالیوں کے حقوق کی جدوجہد کبھی الگ ہونے کی تحریک میں نہ بدلتی-
آج اہل پنجاب بلوچستان کے بارے میں بھی اسی طرح کی بے خبری کا شکار نظر آتے ہیں جس طرح کی بے خبری ہمیں ٧١ میں نظر آئی تھی-آج بلوچستان کے ایشو کو پنجاب میں اسٹبلشمنٹ کے نکتہ نظر سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے-اور یہاں دائیں بازو کے انتہا پسند اور مذہبی تنظیموں کے حامیوں کو تو آپ جانے دیجئے خود سول سوسائٹی ،میڈیا اور پروفیشنلز میں پنجاب کے اندر اکثر ایسے لوگ موجود ہیں جو اس ایشو کو اسٹبلشمنٹ کی نظر سے دیکھتے ہیں-اور وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ ایشو صرف و صرف پاکستان کے دشمن ملک بھارت نے کھڑا کیا ہے-وہ اس ایشو کو گریٹ گیم کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں-ان کا خیال یہ ہے کہ بلوچستان کی حالیہ تحریک صرف و صرف ایک سازش ہے-اور اس سازش کا مقابلہ وہ سیکورٹی اداروں اور خفیہ اداروں کی طرف سے قائم کردہ ایک متوازی حکومت کی شکل میں دیکھتے ہیں-وہ بلوچ تحریک کے ہر فرد کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں-ان کا خیال ہے کہ وہ پاکستانیت اور پاکستانی نیشنلزم کے زور زور سے نعرے لگانے،فوج میں چند بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور چند نوکریاں دے دینے سے اس ایشو پر قابو پالیں گے-بدقسمتی یہ ہے کہ اہل پنجاب کی اکثریت خاموشی سے اس کو ٹھیک خیال کرتی ہے-
پنجاب میں عام طور پر بلوچستان میں خفیہ اداروں ،ایف سی ،کوسٹل سیکورٹی گارڈز کے کردار بارے کوئی بیچینی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے-اور یہاں میڈیا بھی ان کے کردار کو اس طرح سے زیر بحث نہیں لاتا جس طرح سے لانے کی ضرورت بنتی ہے-کیا یہ حیرت کا سبب بننے والی بات نہیں ہے کہ پنجاب میں دروں حملوں اور ان میں ہونے والی ہلاکتوں پر جس طرح سے رد عمل آتا ہے یاس طرح سے رد عمل بلوچستان میں سیکورٹی اداروں کے آپریشنز کے خلاف نہیں آتا ہے-٢٠١١ گیارہ میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے لوگوں میں سے ٩٦ افراد کی مسخ شدہ لاشیں صوبے کے مختلف حصوں سے ملین-لکین ان پر اہل پنجاب نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا-اور یہاں پر میں انسانی حقوق کیمشن آف پاکستان کی چئیرپرسن زہرہ یوسف کے انسانی حقوق کے عالمی دن پر جاری اعلامیہ کے کچھ مندرجات بھی درج کرنا چاہتا ہوں-انھوں نے لکھا ہے کہ عدلیہ سیاسی مقدمات تو سنتی ہے لکین انسانی حقوق کے مقدمات بارے وہ غفلت کا شکار ہے-عدلیہ اور انتظامیہ کی بلوچستان کے معاملات پر کوئی توجہ نہیں ہے-عدلیہ کو بلوچستان سے جبری گمشدگیوں اور ہلاکتوں کے نوٹس لینے چاہئیں-
یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن انسانی حقوق کیمشن برائے پاکستان نے بلوچستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا -اور اس دن انسانی حقوق کے کارکنوں نے پورے ملک معینبلوچ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا-
پنجاب کے عوام کس طرح سے بلوچستان کے حوالے سے بے خبری کا شکار ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں خانیوال کے ایک چوک میں موجود تھا جہاں پر شام کو بلوچ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انسانی حقوق کیمشن خانیوال کے کور گروپ نے موم بتیاں روشن کر رکھی تھیں-تو ایک سرکاری افسر جو کہ میرے زمانہ طالب علمی کے دوست بھی ہیں-اور پاک استدڈیز میں وہ ماسٹرز بھی ہیں-سی ایس پی افسر بھی-وہ مجھے کہنے لگے بلوچستان میں کیا ہورہا ہے؟میں سمجھا وہ مذاق کر رہے ہوں گے-لکین ان سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ وہ وہاں کے حالت سے نابلد ہیں-اور وہ خفیہ اداروں اور سیکورٹی کے اداروں کے اہلکاروں کے کردار بارے کوئی بری بات سننے کو تیار نہ تھے-جب میں نے ان کو یہ مشوره دیا کہ ووہینسنی حقوں کیمشن کے پانچ فیکٹ فائنڈنگ مشنز کی رپورٹیں پڑھ لیں تو وہ کہنے لگے کہ وہ مغرب کی کوئی سازش ہوگی-وہ یورپی یونین ،ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان،ایشیا واچ کی رپورٹوں کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے تھے-وچ ایسا ہی رد عمل انسانی حقوق کیمشن کی بلوچستان پر رپورٹ کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی آیا تھا-
مجھ سے بلوچستان کے دانش ور ،سیاسی کارکن اور دیگر لوگ پوچھتے ہیں کہ پنجابی میڈیا جس طرح سے آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کو نمایاں جگہ دیتا ہے-اور اس پر تجزیہ اور رد عمل کو جگہ فراہم کرتا ہے-اس طرح بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ ،ان کی گمشدگی اور ان کی لاشوں کے ملنے کو نہیں دیتا -ابھی کچھ دن ہوئے جب بلوچستان ریپبلکن پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات جلیل ریکی کی مسخ شدہ لاش ملی تو ان کے والد نے بتایا کہ جب ان کا بیٹا گم ہوا تو ان کے پاس ثبوت موجود تھے کہ ان کو آئی ایس آئی نے اٹھایا ہے-اور اس بات کی تصدیق وزیر اعلی سردار اسلم رئیسانی نے بھی کی تھی لکین وہ سپریم کورٹ کے سامنے چھپ ہوگئے تھے-جلیل ریکی کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں پریس کے پاس ،سول سوسائٹی کے پاس بھی گئے تھے-تو جس طرح لاہور والوں نے اس کی بات نہیں سنی تو اسلام آباد والوں نے بھی نہیں سنی-
میں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملتان میں میٹھی عید پر پوچھا تھا کہ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس عید پر گمشدہ بلوچ اپنے گھر پہنچیں گے-تو کیا انہیں معلوم تھا کہ یہ بلوچ زندگی سے محروم کر کے مسخ شدہ حالت میں اپنے گھروں کو بھیجے جائیں گے-وہ اس سوال کے جواب میں کچھ نہ کہ سکے-وہ کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ،ایف سی ،کوسٹل گارڈز ان کے ماتحت ہیں-تو پھر ان اداروں کے ہاتھوں بلوچ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی کیوں نہیں رک پارہی-میرے خیال میں جمہوریت اور وفاق کی سیاست کرنے والے حکمرانوں کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ کل کو اقتدار سے باہر آکر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے اختیار میں بلوچستان کو ان اداروں کی چیرہ دستیوں سے بچانا نہیں تھا-تو عوام یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہوتے ہیں کہ اگر اختیار نہیں تھا تو ان کے گناہ اپنے سر کیوں لئے جاتے رہے-
انسانی حقوق کیمشن اور ان کے ارکان خاص طور پر بلوچستان چیپٹر کے عہدیدار اور رضاکار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے حقائق کو منظر عام پر لانے میں کسی خوف کی پرواہ نہیں کی-
بلوچستان میں ایک طرف تو بلوچ عوام کی نسل کشی کی جارہی ہے-تو دوسری طرف وہاں پر شیعہ ہزارہ کیمونٹی کو بھی نسل کشی کا سامنا ہے-سیکورٹی کے ادارے فرقہ پرست کلعدم تگروپوں کو دہشت گردی پھیلانے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں-بلکہ ہزارہ کیمونٹی تو یہ بھی کہتی ہے کہ لشکر جھنگوی گروپ کو درپردہ ایف سی کی مدد بھی حاصل ہے-یہ بہت سنگین الزام ہے -اس کی تحقیق ہونی چاہئے-
پنجاب میں ایک طرف تو سول سوسائٹی ،میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچستان کی عوام کو زیادہ سے زیادہ توجہ دے-اور ان کے مسائل بارے اہل پنجاب کو زیادہسے زیادہ آگاہی دے-جمہوریت پسند لوگوں کی پنجاب کے اندر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے اصل کردار کو پنجاب والوں کے سامنے بے نقاب کرے -اور پنجابی عوام کو قائل کرے کے وہ اہل بلوچستان کے ساتھ یکجہتی کریں-اور ان مظالم کو بند کرائیں جو ریاستی ادارے بلوچستان میں روا رکھے ہوئے ہیں-
لیل و نہار /عامر حسینی
حبیب جالب نے مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن کے تناظر میں ایک نظم لکھی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ
جاگ میرے پنجاب کے پاکستان چلا
میں نے اس کو تھوڑا سا بدل ہے اور پاکستان کی جگہ بلوچستان لگا ڈالا ہے-حبیب جالب نے کیوں پنجاب کو مخاطب کیا تھا-اس کی وجہ یہ تھی کہ سب سے زیادہ اگر کوئی بنگالیوں کے بارے میں بدگمانیوں کا شکار تھے تو وہ اہل پنجاب تھے-اہل پنجاب اس وقت بھی استبلشتمنٹ اور اس کے حامیوں کو ٹھیک خیال کر رہے تھے-اور ان کا یہ خیال تھا کہ اسٹبلشمنٹ جو کچھ بھی بنگال میں کر رہی ہے -وہ پاکستان کی حفاظت کے لئے اشد ضروری ہے-اس زمانے میں بھی بنگال کے اندر خفیہ ادارے ،سیکورٹی اہلکار اور سول نوکر شاہی بنگالی عوام پر جو ظلم اور زیادتیاں کر رہی تھی -ان کو پنجاب کے عوام سے چھپایا جاتا تھا-یہاں تک کے اخبارات بھی خود ہی اپنے اوپر ایک خود ساختہ سنسر شپ لگا لیتے تھے-یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی عوام کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ بنگال میں حالت کس قدر پاکستان کے لئے نا سازگار ہوگئی ہے-یہاں تو دسمبر ١٩٧١ تک جشن منایا جا رہا تھا-فتح کے گیت گائے جا رہے تھے-پاکستان کے اخبارات پاکستانی فوج کی فتوحات کے گیت بھی گا رہے تھے-لکین پھر جب اچانک پتہ چلا کہ ہم تو بنگال سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو پھر رونا دھونا شروع ہو گیا تھا-
لکین اس وقت بھی ہمارے ہاں کسی نے ٹھنڈے دل سے یہ تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جس طرح سے پنجاب کی عوام کو گمراہ کیا گیا کیا وہ عمل ٹھیک تھا-اگر پنجاب کے عوام کو باخبر رکھا جاتا اور ن کو اصل حالات بتائے جاتے تو یہاں سے اہل پنجاب بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر سراپا احتجاج ہوتے -اور مغربی پاکستان سے دباؤ ہوتا تو بنگالیوں کے حقوق کی جدوجہد کبھی الگ ہونے کی تحریک میں نہ بدلتی-
آج اہل پنجاب بلوچستان کے بارے میں بھی اسی طرح کی بے خبری کا شکار نظر آتے ہیں جس طرح کی بے خبری ہمیں ٧١ میں نظر آئی تھی-آج بلوچستان کے ایشو کو پنجاب میں اسٹبلشمنٹ کے نکتہ نظر سے دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے-اور یہاں دائیں بازو کے انتہا پسند اور مذہبی تنظیموں کے حامیوں کو تو آپ جانے دیجئے خود سول سوسائٹی ،میڈیا اور پروفیشنلز میں پنجاب کے اندر اکثر ایسے لوگ موجود ہیں جو اس ایشو کو اسٹبلشمنٹ کی نظر سے دیکھتے ہیں-اور وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ ایشو صرف و صرف پاکستان کے دشمن ملک بھارت نے کھڑا کیا ہے-وہ اس ایشو کو گریٹ گیم کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں-ان کا خیال یہ ہے کہ بلوچستان کی حالیہ تحریک صرف و صرف ایک سازش ہے-اور اس سازش کا مقابلہ وہ سیکورٹی اداروں اور خفیہ اداروں کی طرف سے قائم کردہ ایک متوازی حکومت کی شکل میں دیکھتے ہیں-وہ بلوچ تحریک کے ہر فرد کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں-ان کا خیال ہے کہ وہ پاکستانیت اور پاکستانی نیشنلزم کے زور زور سے نعرے لگانے،فوج میں چند بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور چند نوکریاں دے دینے سے اس ایشو پر قابو پالیں گے-بدقسمتی یہ ہے کہ اہل پنجاب کی اکثریت خاموشی سے اس کو ٹھیک خیال کرتی ہے-
پنجاب میں عام طور پر بلوچستان میں خفیہ اداروں ،ایف سی ،کوسٹل سیکورٹی گارڈز کے کردار بارے کوئی بیچینی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے-اور یہاں میڈیا بھی ان کے کردار کو اس طرح سے زیر بحث نہیں لاتا جس طرح سے لانے کی ضرورت بنتی ہے-کیا یہ حیرت کا سبب بننے والی بات نہیں ہے کہ پنجاب میں دروں حملوں اور ان میں ہونے والی ہلاکتوں پر جس طرح سے رد عمل آتا ہے یاس طرح سے رد عمل بلوچستان میں سیکورٹی اداروں کے آپریشنز کے خلاف نہیں آتا ہے-٢٠١١ گیارہ میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے لوگوں میں سے ٩٦ افراد کی مسخ شدہ لاشیں صوبے کے مختلف حصوں سے ملین-لکین ان پر اہل پنجاب نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا-اور یہاں پر میں انسانی حقوق کیمشن آف پاکستان کی چئیرپرسن زہرہ یوسف کے انسانی حقوق کے عالمی دن پر جاری اعلامیہ کے کچھ مندرجات بھی درج کرنا چاہتا ہوں-انھوں نے لکھا ہے کہ عدلیہ سیاسی مقدمات تو سنتی ہے لکین انسانی حقوق کے مقدمات بارے وہ غفلت کا شکار ہے-عدلیہ اور انتظامیہ کی بلوچستان کے معاملات پر کوئی توجہ نہیں ہے-عدلیہ کو بلوچستان سے جبری گمشدگیوں اور ہلاکتوں کے نوٹس لینے چاہئیں-
یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن انسانی حقوق کیمشن برائے پاکستان نے بلوچستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا -اور اس دن انسانی حقوق کے کارکنوں نے پورے ملک معینبلوچ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا-
پنجاب کے عوام کس طرح سے بلوچستان کے حوالے سے بے خبری کا شکار ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں خانیوال کے ایک چوک میں موجود تھا جہاں پر شام کو بلوچ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انسانی حقوق کیمشن خانیوال کے کور گروپ نے موم بتیاں روشن کر رکھی تھیں-تو ایک سرکاری افسر جو کہ میرے زمانہ طالب علمی کے دوست بھی ہیں-اور پاک استدڈیز میں وہ ماسٹرز بھی ہیں-سی ایس پی افسر بھی-وہ مجھے کہنے لگے بلوچستان میں کیا ہورہا ہے؟میں سمجھا وہ مذاق کر رہے ہوں گے-لکین ان سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ وہ وہاں کے حالت سے نابلد ہیں-اور وہ خفیہ اداروں اور سیکورٹی کے اداروں کے اہلکاروں کے کردار بارے کوئی بری بات سننے کو تیار نہ تھے-جب میں نے ان کو یہ مشوره دیا کہ ووہینسنی حقوں کیمشن کے پانچ فیکٹ فائنڈنگ مشنز کی رپورٹیں پڑھ لیں تو وہ کہنے لگے کہ وہ مغرب کی کوئی سازش ہوگی-وہ یورپی یونین ،ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان،ایشیا واچ کی رپورٹوں کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے تھے-وچ ایسا ہی رد عمل انسانی حقوق کیمشن کی بلوچستان پر رپورٹ کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی آیا تھا-
مجھ سے بلوچستان کے دانش ور ،سیاسی کارکن اور دیگر لوگ پوچھتے ہیں کہ پنجابی میڈیا جس طرح سے آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کو نمایاں جگہ دیتا ہے-اور اس پر تجزیہ اور رد عمل کو جگہ فراہم کرتا ہے-اس طرح بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ ،ان کی گمشدگی اور ان کی لاشوں کے ملنے کو نہیں دیتا -ابھی کچھ دن ہوئے جب بلوچستان ریپبلکن پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات جلیل ریکی کی مسخ شدہ لاش ملی تو ان کے والد نے بتایا کہ جب ان کا بیٹا گم ہوا تو ان کے پاس ثبوت موجود تھے کہ ان کو آئی ایس آئی نے اٹھایا ہے-اور اس بات کی تصدیق وزیر اعلی سردار اسلم رئیسانی نے بھی کی تھی لکین وہ سپریم کورٹ کے سامنے چھپ ہوگئے تھے-جلیل ریکی کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں پریس کے پاس ،سول سوسائٹی کے پاس بھی گئے تھے-تو جس طرح لاہور والوں نے اس کی بات نہیں سنی تو اسلام آباد والوں نے بھی نہیں سنی-
میں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملتان میں میٹھی عید پر پوچھا تھا کہ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس عید پر گمشدہ بلوچ اپنے گھر پہنچیں گے-تو کیا انہیں معلوم تھا کہ یہ بلوچ زندگی سے محروم کر کے مسخ شدہ حالت میں اپنے گھروں کو بھیجے جائیں گے-وہ اس سوال کے جواب میں کچھ نہ کہ سکے-وہ کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ،ایف سی ،کوسٹل گارڈز ان کے ماتحت ہیں-تو پھر ان اداروں کے ہاتھوں بلوچ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی کیوں نہیں رک پارہی-میرے خیال میں جمہوریت اور وفاق کی سیاست کرنے والے حکمرانوں کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ کل کو اقتدار سے باہر آکر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے اختیار میں بلوچستان کو ان اداروں کی چیرہ دستیوں سے بچانا نہیں تھا-تو عوام یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہوتے ہیں کہ اگر اختیار نہیں تھا تو ان کے گناہ اپنے سر کیوں لئے جاتے رہے-
انسانی حقوق کیمشن اور ان کے ارکان خاص طور پر بلوچستان چیپٹر کے عہدیدار اور رضاکار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے حقائق کو منظر عام پر لانے میں کسی خوف کی پرواہ نہیں کی-
بلوچستان میں ایک طرف تو بلوچ عوام کی نسل کشی کی جارہی ہے-تو دوسری طرف وہاں پر شیعہ ہزارہ کیمونٹی کو بھی نسل کشی کا سامنا ہے-سیکورٹی کے ادارے فرقہ پرست کلعدم تگروپوں کو دہشت گردی پھیلانے سے روکنے میں ناکام رہے ہیں-بلکہ ہزارہ کیمونٹی تو یہ بھی کہتی ہے کہ لشکر جھنگوی گروپ کو درپردہ ایف سی کی مدد بھی حاصل ہے-یہ بہت سنگین الزام ہے -اس کی تحقیق ہونی چاہئے-
پنجاب میں ایک طرف تو سول سوسائٹی ،میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچستان کی عوام کو زیادہ سے زیادہ توجہ دے-اور ان کے مسائل بارے اہل پنجاب کو زیادہسے زیادہ آگاہی دے-جمہوریت پسند لوگوں کی پنجاب کے اندر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے اصل کردار کو پنجاب والوں کے سامنے بے نقاب کرے -اور پنجابی عوام کو قائل کرے کے وہ اہل بلوچستان کے ساتھ یکجہتی کریں-اور ان مظالم کو بند کرائیں جو ریاستی ادارے بلوچستان میں روا رکھے ہوئے ہیں-
اگلا نشانہ واجد شمس الحسن ہیں ؟
اگلا نشانہ واجد شمس الحسن ہیں ؟
لیل و نہار /عامر حسینی
جب میمو ایشو سامنے آیا تھا اور اس پر منصور اعجاز نے اپنی توپوں کا رخ حسین حقانی کی طرف کیا تھا -تو میں نے حسین حقانی کے ساتھ ساتھ واجد شمس الحسن کی باری آنے کا بھی ذکر کیا تھا-کیونکہ پی پی پی کے دشمن صدر زرداری کے ساتھ حسین حقانی کے بعد جس آدمی کو صدر کے لئے بہت اہم اور اپنے لئے ایک خطرہ خیال کرتے ہیں وہ واجد شمس الحسن ہیں-
واجد شمس الحسن بینظیر بھٹو اور پی پی پی کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی گردانے جاتے تھے-امریکہ میں اور برطانیہ میں جمہوریت پسند قوتوں میں پی پی پی اور بینظیر بھٹو کے لئے سازگار فضا پیدا کرنے میں ان کا بہت زیادہ کردار رہا ہے-٢٠٠٦ میں حسین حقانی کے ساتھ مل کر انھوں نے بھی یورپ اور امریکہ میں آمریت کے خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کیا تھا-وہ زرداری صاحب کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ میں بہت سرگرم رہے تھے-واجد شمس الحسن برطانیہ میں اپنے تعلقات کے حوالے سے بہت موثر شخصیت گردانے جاتے ہیں-اور ظاہر ہے کہ وہ پی پی پی کی قیادت کے خیالات کو مغرب میں قبول عام دینے کے لئے بھی سرگرم رہتے ہیں-
واجد شمس الحسن کے والد شمس الحسن قائد اعظم کے سیکرٹری تھے-اور پاکستان بننے کے بعد انھوں نے قائد اعظم کے کاغذات کو پاکستان منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیاتھا-شمس الحسن ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے قائد اعظم کو مسٹر سے مولانا بنانے کی سازش کو بےنقاب کیا -اہنوں نے اس حوالے سے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا "صرف مسٹر جناح "اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے والد اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو کی طرف سے جناح کی شخصیت اور ان کے افکار کی تصویر کشی سے متفق نہیں تھے-اور وہ جناح کا سیکولر لبرل چہرہ عوام کے سامنے پیش کرتے رہے-یہ اثر ان کے بیٹے میں بھی موجود ہے-وہ اسٹبلشمنٹ کے پاکستان کی نظریاتی اساس بارے مہا بیانیہ سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے -اور وہ ضیاء الحق کی باقیات کے ہتکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں-اس لئے وہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لئے جس سوچ کی ضرورت ہے اس کو آگے بڑھانے میں پوری پوری کوشش کرتے ہیں-
اسٹبلشمنٹ میں وہ ناپسندیدہ شخصیت اس لئے بھی گردانے جاتے ہیں کہ وہ تزویراتی گہرائی کی پالیسی سے شدید اختلاف رکھتے ہیں-اس پالیسی کا ایک حصہ نجی مسلح لشکروں کو قایم رکھنا -اور ان کو ہمسایہ ملکوں میں پراکسی جنگ میں استعمال کرنا بھی ہے-اسی پالیسی میں افغانستان کو پاکستان کی کالونی کے طور پر ٹریٹ کرنابھی شامل ہے-اسی پالیسی کا ایک حصہ یہ ہے کہ پاکستان میں ان سیاسی اور جمہوری قوتوں کے خلاف کام کیا جائے جو اس پالیسی کی مخالفت کرتی ہیں-اور اس کے لئے میڈیا ،عدلیہ اور وردی بے وردی نوکر شاہی میں لوگوں کی کمی نہیں ہے جو کسی بھی دیوانہ کو سبق سکھانے کے لئے تیار رہتے ہیں-
واجد شمس الحسن،حسین حقانی،ہی صرف ناپسندیدہ لوگوں میں شامل نہیں ہیں بلکہ جو بھی اسٹبلشمنٹ میں تزویراتی گہرائی کے حامیوں کو بےنقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس لسٹ میں شامل ہوجاتا ہے-ایسے تمام افراد پر بہت آسانی سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ امریکہ ،بھارت ،اسرائیل کے ایجنٹ ہیں-ان کو سی آئی اے ،راء،موساد یہ سب لکھنے اور کہنے کو کہتی ہے-اور اس کے بدلے میں ان کو پیسے ملتے ہیں-
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں جب ملٹری کیپٹل پر ایک کتاب سامنے آئی تھی-اور جس صحافی خاتون نے یہ کتاب لکھی تھی -اس کے بارے میں خود فوج کے ترجمان ادارے نے کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگانے کی کوشش کی تھی کہ یہ کتاب پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کے لئے لکھی گئی تھی-ہمارے اردو میڈیا نے اس کتاب کے بارے میں کیا کیا ہرزہ سرائی نہیں کی تھی-اس سےقبل جب منٹو کی نواسی جو کہ معروف ماہر تاریخ ہیں نے جب پاکستانی ریاست کی پولیٹیکل اکانومی پر ایک کتاب لکھتے ہوئے -یہاں کی وردی بے وردی نوکر شاہی کے کردار کو بےنقاب کیا تھا تو بھی ایسا ہی شور مچا تھا-
اسی طرح ایک اور صاحب ہیں کامران شفیع یہ صاحب بھی اسٹبلشمنٹ میں سخت ناپسند کے جاتے ہیں-اور ان پر بھی ملک دشمن ہونے کا الزام دیا جاتا ہے-
واجد شمس الحسن جیسے لوگ اگر کسی اہم عہدے پر فائز ہوجائیں تو ان کو اس عہدے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے-کیونکہ اسٹبلشمنٹ کے مفادات سخت خطرے میں پڑ جاتے ہیں-
٢٠٠٨ سے جب یہ حکومت بنی ہے تو کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے کہ حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کو کسی نا کسی بہانے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے-اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جائیں-اور لوگوبن کے ذھن میں یہ تاثر بٹھایا جائے کہ ان لوگوں کے اپنے عہدے پر رہنے سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں-مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو جمہوری حکومت کی قیادت ان ذہین لوگوں کی ٹیم پر اتامد کر رہی ہے-ایک تو ان سے یہ ٹیم چھین لی جائے-دوسرا اس قیادت کی حب الوطنی کو بھی مشکوک قرار دے دیا جائے-عوام کی نظروں میں جمہوریت اسند سیاست دانوں کا وقار مجروح کیا جائے-اور لوگ یہ خیال کرنے لگیں کہ اس ملک کی سلامتی اور حفاظت تو بس اسٹبلشمنٹ اور ان کے حامی دائیں بازو کے لوگ ہی کر سکتے ہیں -
واجد شمس الحسن کو فارغ کرنے کی ایک سازش اس وقت ہوئی تھی جب این آر او کیس کے حوالے سے سوئیس کیسوں کا مواد چوری ہوجانے کی افواہ پھیلائی گئی تھی-اس وقت کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں -ان دنوں بھی واجد شمس الحسن کی حب الوطنی پر انگلیاں اٹھی گئیں تھیں-
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے کہ پی پی پی کی حکومت آنے کے بعد اس کی قیادت کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھرایا جا رہا ہے-بینظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنی تھیں تو ان کےپہلے وزیر داخلہ جناب اعتزاز احسن تھے-ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے سکھ گوریلوں کی لسٹیں ہندوستانی حکومت کے حوالے کر دی تھیں-اسی طرح بینظیر پر یہ بھی الزام لگا تھا کہ اگر ان کو ایٹمی پروگرام تک رسائی دی گئی تو وہ معلومات امریکہ کو دے دین گی-ان کو سیکورٹی رسک تک قرار دے دیا گیا-ان کے ساتھیوں پر ملک کے مفادات کا سودا کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا-آج یہ سب زرداری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے-اور یہ سب کچھ جس انداز سے ہو رہا ہے اس انداز میں کچھ بھی نیا نہیں ہے-میڈیا ،عدلیہ ،وردی بے وردی نوکر شاہی اور دائیں بازو کی سیاسی اور مذھبی قوتیں پی پی پی کو ناکام بنانے کے لئے ساری قوت اور سارا زور صرف کر رہی ہیں-ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ پی پی پی کی قیادت کو اس قدر دباؤ میںلایا جائے کہ وہ خود رائٹ ٹرن لے لے -اور پھر اس رائٹ ٹرن کو ہی پی پی کی قیادت کا نصب العین ثابت کیا جائے-جیسے حمید گل ،اسلم بیگ جیسے لوگ بینظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے یہ دور کی کوڑی لائے کہ انھوں نے امریکی ڈیل سے پاکستان آنے کیبعد انحراف کر لیا تھا تو امریکہ نے ان کو قتل کرا ڈالا-چکر یہ تھا کہ طالبان ،القائدہ اور اسٹبلشمنٹ میں بیٹھی ضیاء کی باقیات کو بچایا جائے-اور الزام لبرل قوتوں پر دل دیا جائے-
ہمارے میڈیا اور عدلیہ کی یہ روش رہی ہے کہ وہ ہر اس آدمی کا ٹرائل رتے ہیں - جو پی پی پی کی قیادت کا دست و بازو بنتا ہے-اور اس کو بدنام کرنے کا کوئی حربہ وہ آزمائے بغیر ترک نہیں کرتے-واجد شمس الحسن بھی ایک ایسا ہی دست و بازو ہیں-جن کو اسٹبلشمنٹ اور ان کے حامیوں نے اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے-
چار سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب پی پی پی کی حکومت کو سکون سے کام کرنے دیا گیا ہو-لوگوں کا خیال تھا کہ بینظیر کی موت کے بعد اسٹبلشمنٹ کو یہ سبق ملا ہوگا کہ وہ جمہوری طریقہ سے مختلف نسلی گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر وفاق میں رہنے دے گی -اور پی پی پی جس قومی مفاہمت کی پالیسی کو لیکر آگے آئی ہے -اس کا احترام کیا جائے گا-لکین افسوس کہ اسٹبلشمنٹ کی سب سے زیادہ کوشش اسی کو تباہ کرنے پر صرف ہو رہی ہے-پنجاب کی حکمران اشرافیہ نجانے کیوں اس عمل کو تباہ کرنے کی اسٹبلشمنٹ کی سازش کا ساتھ دے رہی ہے-جس سے سندھیوں،سرائیکیوں،پشتون اور بلوچوں کو بہت منفی پیغام جا رہا ہے-اور خود پنجاب میں جو لوگ جمہوری عمل کے ساتھ وفاق کو چلانے کی بات کرتے ہیں ان کے راستے بھی روکے جاتے ہیں-ان کو بھی غدار کہا جاتا ہے-پنجاب میں جو جمہوریت پسند ہیں وہ دائیں بازو اور اسٹبلشمنٹ کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کی وجہ سے سخت دباؤ میں نظر آتے ہیں-یہاں تک کے ان کو اپنی جنٹک کا خطرہ ہوتا ہے-کیا سلمان تاثیر ،ملک شیباز بھٹی کے قتل کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے-بابر اعوان کو واجب القتل قرار دینے کی دھمکی کو بھلایا جا سکتا ہے-رحمان ملک کی حب الوطنی پر لگنے والے الزامات کو بھولا جا سکتا ہے-یہاں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو مفتی بن کر لوگوں کو پہلے کافر قرار دیا کرتے تھے-اب وہ اس کے ساتھ ساتھ ملک دشمن ہونے کا فتویٰ بھی صادر کرنے لگے ہیں-دائیں بازو کے یہ لوگ ہر اس شخص کو کافر اور ملک دشمن قرار دے دیتے ہیں جو ان کی ڈاکٹرائن سے اتفاق نہیں کرتا -اس آدمی کا رستہ روکنے کی ہر طرح سے کوشش کی جاتی ہے-
لیل و نہار /عامر حسینی
جب میمو ایشو سامنے آیا تھا اور اس پر منصور اعجاز نے اپنی توپوں کا رخ حسین حقانی کی طرف کیا تھا -تو میں نے حسین حقانی کے ساتھ ساتھ واجد شمس الحسن کی باری آنے کا بھی ذکر کیا تھا-کیونکہ پی پی پی کے دشمن صدر زرداری کے ساتھ حسین حقانی کے بعد جس آدمی کو صدر کے لئے بہت اہم اور اپنے لئے ایک خطرہ خیال کرتے ہیں وہ واجد شمس الحسن ہیں-
واجد شمس الحسن بینظیر بھٹو اور پی پی پی کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی گردانے جاتے تھے-امریکہ میں اور برطانیہ میں جمہوریت پسند قوتوں میں پی پی پی اور بینظیر بھٹو کے لئے سازگار فضا پیدا کرنے میں ان کا بہت زیادہ کردار رہا ہے-٢٠٠٦ میں حسین حقانی کے ساتھ مل کر انھوں نے بھی یورپ اور امریکہ میں آمریت کے خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کیا تھا-وہ زرداری صاحب کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ میں بہت سرگرم رہے تھے-واجد شمس الحسن برطانیہ میں اپنے تعلقات کے حوالے سے بہت موثر شخصیت گردانے جاتے ہیں-اور ظاہر ہے کہ وہ پی پی پی کی قیادت کے خیالات کو مغرب میں قبول عام دینے کے لئے بھی سرگرم رہتے ہیں-
واجد شمس الحسن کے والد شمس الحسن قائد اعظم کے سیکرٹری تھے-اور پاکستان بننے کے بعد انھوں نے قائد اعظم کے کاغذات کو پاکستان منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیاتھا-شمس الحسن ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے قائد اعظم کو مسٹر سے مولانا بنانے کی سازش کو بےنقاب کیا -اہنوں نے اس حوالے سے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا "صرف مسٹر جناح "اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے والد اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو کی طرف سے جناح کی شخصیت اور ان کے افکار کی تصویر کشی سے متفق نہیں تھے-اور وہ جناح کا سیکولر لبرل چہرہ عوام کے سامنے پیش کرتے رہے-یہ اثر ان کے بیٹے میں بھی موجود ہے-وہ اسٹبلشمنٹ کے پاکستان کی نظریاتی اساس بارے مہا بیانیہ سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے -اور وہ ضیاء الحق کی باقیات کے ہتکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں-اس لئے وہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے لئے جس سوچ کی ضرورت ہے اس کو آگے بڑھانے میں پوری پوری کوشش کرتے ہیں-
اسٹبلشمنٹ میں وہ ناپسندیدہ شخصیت اس لئے بھی گردانے جاتے ہیں کہ وہ تزویراتی گہرائی کی پالیسی سے شدید اختلاف رکھتے ہیں-اس پالیسی کا ایک حصہ نجی مسلح لشکروں کو قایم رکھنا -اور ان کو ہمسایہ ملکوں میں پراکسی جنگ میں استعمال کرنا بھی ہے-اسی پالیسی میں افغانستان کو پاکستان کی کالونی کے طور پر ٹریٹ کرنابھی شامل ہے-اسی پالیسی کا ایک حصہ یہ ہے کہ پاکستان میں ان سیاسی اور جمہوری قوتوں کے خلاف کام کیا جائے جو اس پالیسی کی مخالفت کرتی ہیں-اور اس کے لئے میڈیا ،عدلیہ اور وردی بے وردی نوکر شاہی میں لوگوں کی کمی نہیں ہے جو کسی بھی دیوانہ کو سبق سکھانے کے لئے تیار رہتے ہیں-
واجد شمس الحسن،حسین حقانی،ہی صرف ناپسندیدہ لوگوں میں شامل نہیں ہیں بلکہ جو بھی اسٹبلشمنٹ میں تزویراتی گہرائی کے حامیوں کو بےنقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس لسٹ میں شامل ہوجاتا ہے-ایسے تمام افراد پر بہت آسانی سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ امریکہ ،بھارت ،اسرائیل کے ایجنٹ ہیں-ان کو سی آئی اے ،راء،موساد یہ سب لکھنے اور کہنے کو کہتی ہے-اور اس کے بدلے میں ان کو پیسے ملتے ہیں-
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں جب ملٹری کیپٹل پر ایک کتاب سامنے آئی تھی-اور جس صحافی خاتون نے یہ کتاب لکھی تھی -اس کے بارے میں خود فوج کے ترجمان ادارے نے کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگانے کی کوشش کی تھی کہ یہ کتاب پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کے لئے لکھی گئی تھی-ہمارے اردو میڈیا نے اس کتاب کے بارے میں کیا کیا ہرزہ سرائی نہیں کی تھی-اس سےقبل جب منٹو کی نواسی جو کہ معروف ماہر تاریخ ہیں نے جب پاکستانی ریاست کی پولیٹیکل اکانومی پر ایک کتاب لکھتے ہوئے -یہاں کی وردی بے وردی نوکر شاہی کے کردار کو بےنقاب کیا تھا تو بھی ایسا ہی شور مچا تھا-
اسی طرح ایک اور صاحب ہیں کامران شفیع یہ صاحب بھی اسٹبلشمنٹ میں سخت ناپسند کے جاتے ہیں-اور ان پر بھی ملک دشمن ہونے کا الزام دیا جاتا ہے-
واجد شمس الحسن جیسے لوگ اگر کسی اہم عہدے پر فائز ہوجائیں تو ان کو اس عہدے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے-کیونکہ اسٹبلشمنٹ کے مفادات سخت خطرے میں پڑ جاتے ہیں-
٢٠٠٨ سے جب یہ حکومت بنی ہے تو کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے کہ حسین حقانی اور واجد شمس الحسن کو کسی نا کسی بہانے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے-اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جائیں-اور لوگوبن کے ذھن میں یہ تاثر بٹھایا جائے کہ ان لوگوں کے اپنے عہدے پر رہنے سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں-مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو جمہوری حکومت کی قیادت ان ذہین لوگوں کی ٹیم پر اتامد کر رہی ہے-ایک تو ان سے یہ ٹیم چھین لی جائے-دوسرا اس قیادت کی حب الوطنی کو بھی مشکوک قرار دے دیا جائے-عوام کی نظروں میں جمہوریت اسند سیاست دانوں کا وقار مجروح کیا جائے-اور لوگ یہ خیال کرنے لگیں کہ اس ملک کی سلامتی اور حفاظت تو بس اسٹبلشمنٹ اور ان کے حامی دائیں بازو کے لوگ ہی کر سکتے ہیں -
واجد شمس الحسن کو فارغ کرنے کی ایک سازش اس وقت ہوئی تھی جب این آر او کیس کے حوالے سے سوئیس کیسوں کا مواد چوری ہوجانے کی افواہ پھیلائی گئی تھی-اس وقت کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں -ان دنوں بھی واجد شمس الحسن کی حب الوطنی پر انگلیاں اٹھی گئیں تھیں-
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے کہ پی پی پی کی حکومت آنے کے بعد اس کی قیادت کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھرایا جا رہا ہے-بینظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنی تھیں تو ان کےپہلے وزیر داخلہ جناب اعتزاز احسن تھے-ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے سکھ گوریلوں کی لسٹیں ہندوستانی حکومت کے حوالے کر دی تھیں-اسی طرح بینظیر پر یہ بھی الزام لگا تھا کہ اگر ان کو ایٹمی پروگرام تک رسائی دی گئی تو وہ معلومات امریکہ کو دے دین گی-ان کو سیکورٹی رسک تک قرار دے دیا گیا-ان کے ساتھیوں پر ملک کے مفادات کا سودا کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا-آج یہ سب زرداری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے-اور یہ سب کچھ جس انداز سے ہو رہا ہے اس انداز میں کچھ بھی نیا نہیں ہے-میڈیا ،عدلیہ ،وردی بے وردی نوکر شاہی اور دائیں بازو کی سیاسی اور مذھبی قوتیں پی پی پی کو ناکام بنانے کے لئے ساری قوت اور سارا زور صرف کر رہی ہیں-ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ پی پی پی کی قیادت کو اس قدر دباؤ میںلایا جائے کہ وہ خود رائٹ ٹرن لے لے -اور پھر اس رائٹ ٹرن کو ہی پی پی کی قیادت کا نصب العین ثابت کیا جائے-جیسے حمید گل ،اسلم بیگ جیسے لوگ بینظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے یہ دور کی کوڑی لائے کہ انھوں نے امریکی ڈیل سے پاکستان آنے کیبعد انحراف کر لیا تھا تو امریکہ نے ان کو قتل کرا ڈالا-چکر یہ تھا کہ طالبان ،القائدہ اور اسٹبلشمنٹ میں بیٹھی ضیاء کی باقیات کو بچایا جائے-اور الزام لبرل قوتوں پر دل دیا جائے-
ہمارے میڈیا اور عدلیہ کی یہ روش رہی ہے کہ وہ ہر اس آدمی کا ٹرائل رتے ہیں - جو پی پی پی کی قیادت کا دست و بازو بنتا ہے-اور اس کو بدنام کرنے کا کوئی حربہ وہ آزمائے بغیر ترک نہیں کرتے-واجد شمس الحسن بھی ایک ایسا ہی دست و بازو ہیں-جن کو اسٹبلشمنٹ اور ان کے حامیوں نے اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے-
چار سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب پی پی پی کی حکومت کو سکون سے کام کرنے دیا گیا ہو-لوگوں کا خیال تھا کہ بینظیر کی موت کے بعد اسٹبلشمنٹ کو یہ سبق ملا ہوگا کہ وہ جمہوری طریقہ سے مختلف نسلی گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر وفاق میں رہنے دے گی -اور پی پی پی جس قومی مفاہمت کی پالیسی کو لیکر آگے آئی ہے -اس کا احترام کیا جائے گا-لکین افسوس کہ اسٹبلشمنٹ کی سب سے زیادہ کوشش اسی کو تباہ کرنے پر صرف ہو رہی ہے-پنجاب کی حکمران اشرافیہ نجانے کیوں اس عمل کو تباہ کرنے کی اسٹبلشمنٹ کی سازش کا ساتھ دے رہی ہے-جس سے سندھیوں،سرائیکیوں،پشتون اور بلوچوں کو بہت منفی پیغام جا رہا ہے-اور خود پنجاب میں جو لوگ جمہوری عمل کے ساتھ وفاق کو چلانے کی بات کرتے ہیں ان کے راستے بھی روکے جاتے ہیں-ان کو بھی غدار کہا جاتا ہے-پنجاب میں جو جمہوریت پسند ہیں وہ دائیں بازو اور اسٹبلشمنٹ کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کی وجہ سے سخت دباؤ میں نظر آتے ہیں-یہاں تک کے ان کو اپنی جنٹک کا خطرہ ہوتا ہے-کیا سلمان تاثیر ،ملک شیباز بھٹی کے قتل کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے-بابر اعوان کو واجب القتل قرار دینے کی دھمکی کو بھلایا جا سکتا ہے-رحمان ملک کی حب الوطنی پر لگنے والے الزامات کو بھولا جا سکتا ہے-یہاں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو مفتی بن کر لوگوں کو پہلے کافر قرار دیا کرتے تھے-اب وہ اس کے ساتھ ساتھ ملک دشمن ہونے کا فتویٰ بھی صادر کرنے لگے ہیں-دائیں بازو کے یہ لوگ ہر اس شخص کو کافر اور ملک دشمن قرار دے دیتے ہیں جو ان کی ڈاکٹرائن سے اتفاق نہیں کرتا -اس آدمی کا رستہ روکنے کی ہر طرح سے کوشش کی جاتی ہے-
Thursday, December 8, 2011
عرب انقلاب ،اسلام پسند اور دیگر
عرب انقلاب ،اسلام پسند اور دیگر
لیل و نہار /عامر حسینی
تنزانیہ میں اسلام پسندوں کی جیت کے بعد مصر میں انتخابات کے پہلے مرحلے کے انتخابات میں اخوان المسلمون کی سیاسی پارٹی جسٹس پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی ہے -یہ اکثریت حاصل ہونے کے بعد یہ بحث سامنے آنے لگی ہے کہ کیا عرب ملکوں کی عوام سیکولر سیاست کو رد کر رہی ہے-کیونکہ اس پہلے فلسطین میں بھی حماس نے اکثریت حاصل کی تھی-جبکہ لبنان میں حزب الله مقبولیت حاصل کر رہی ہے-اور ترکی میں اے کے پی اسلام پسند پارٹی دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے-
میرے خیال میں یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ کہ مسلم ملکوں میں سیاست سیکولر ازم اور اسلام پسندی کے دائرے میں قید ہو کر ہو رہی ہے-اور اسلام پسند سیاسی پارٹیوں کی جیت کو سیکولر ازم کی شکست سے تعبیر کرنا بھی غلط ہے-دیکھا یہ جانا چاہئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جو اسلام پسند پتیاں ہیں -اہنوں نے کس حد تک خود کو تبدیل کیا ہے؟میرے خیال میں میں پارلیمانی جمہوریت کے رستے پر گامزن ہونے والی اسلام پسند سیاسی پارٹیوں نے بہت حد تک اپنے بارے میں اس تاثر کی نفی کی ہے کہ وہ سیاسی اقتدار حاصل کر کے سخت کی اخلاقی پابندیاں لگائیں گی -یا اپنے معاشرے کو زبردستی ایک ہی طرح کا ڈریس کوڈ پہننے پر مجبور کر دیں گی-وہ خدشات جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کی طرف سے پیش کے جانے والے اسلامی حکومت کے ماڈل سے پیدا ہوئے تھے -وہ ان اسلام پسند سیاسی جماعتوں نے دور کرنے کی کوشش کی ہے-
ان کی سیاست کا ایک اہم رخ یہ ہے کہ اسلام پسند بہت زیادہ تعداد میں عورتوں کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ عورتیں زیادہ تر متوسط طبقے کی پروفیشنل پرتوں سے تعلق رکھتی ہیں-اور جدید سرمایہ درارنہ نظام میں فعال حثیت کی حامل ہیں-ان عورتوں کی سیاست میں آمد سے ان جماعتوں کے بارے میں تاثر میں بھی تبدیلی آئی ہے-مصر،تنزانیہ،ترکی اور لبنان کی اسلام پسند جماعتوں کی یہ قسم جو انتخابی سیاست کی بنیاد پر انقلاب لانے کا دعوا کرتی ہیں -بجا طور پر معمولی سی تبدلیوں کے ساتھ لبرل ڈیموکریسی ،فری مارکیٹ اور کارپوریٹ کلچر کی حامی ہیں-اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل ویلفئیر کا بھی ایک تصور رکھتی ہیں جس کی بنیاد پر انھوں نے سماجی خدمت کے کافی بڑے نیٹ ورک تشکیل دے لئے ہیں-اس وجہ سے ان کو مسلم سماجوں میں سرایت کرنے کا زیادہ موقعہ بھی میسر آیا ہے-
اسلام پسندوں میں یہ تبدیلی بذات خود سیکولر روایات کی کامیابی کا ثبوت ہیں-یہ اور بات ہے کہ اسلام پسند سیاسی جماعتیں ان کو اسلامی روایات کہ کر اپناتے ہیں-تنزانیہ ،مصر ،ترکی میں جو اسلام پسند سیاسی جماعتیں کامیاب ہوئی ہیں -اگر ان کے پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک بات بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے-اور وہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں ان لوگوں سے الگ ہو گئیں تھیں جو تشدد اور عسکریت پسندی کے راستہ سے تبدیلی لانے کے قائل تھے-جو زبردستی اسلام نافظ کرنے کے حق میں تھے-جو تشدد کا جواب تشدد سے دینا چاہتے تھے-جو ایک سخت گیر قسم کے اسلامی ماڈل کے نفاز کی بات کرتے تھے-اور جن کے عورتوں اور اقلیتوں کے حوالے سے بہت زیادہ دقیانوسی خیالات تھے-ایک طرح سے یہ اسلام پسندی کی تحریک کے اندر ماڈریٹ اور ترقی پسندی کی لہر کی ترجمانی کرنے والی سیاسی جماعتیں ہیں-ان جماعتوں میں جو سخت گیر عناصر تھے ان کی اکثریت تو ان جماعتوں سے الگ ہو گئی -جبکہ جو ان جماعتوں میں موجود ہیں وہ کمزور ہیں-
ان جماعتوں نے بہت مستقل مزاجی سے آمریتوں اور سیاسی جبر کا مقابلہ کیا ہے-اور پھر ان کے اندر بدعنوانی کا کوئی کلچر موجود نہیں ہے-یہ سیاسی جماعتیں وہاں کے پروفیشنل متوسط طبقے کی ٹھیک ٹھاک ترجمانی کرتی ہیں-
اس کے برعکس جو سیکولر حلقے تھے -ان پر بدعنوانی اور غیر مستقل مزاجی کے بہت زیادہ الزامات ہیں-وہ سماجی خدمات کے نیٹ ورکس نہیں تعمیر کر سکے-اور ان کو پھر ان کے ہاں آمریتوں کے نام نہاد سیکولر ہونے کے دعوے سے بھی بہت نقصان ہوا-ان کی طرف سے نجکاری کی برہمی کی حد تک حمایت اور نیو لبرل پالیسیوں کے حق میں ہونے کی وجہ سے بھی ان کی جماعتوں کو نقصان پہنچا -جبکہ اسلام پسندوں نے نیو لبرل پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اسلامی فلاح و بہبود کا تصور دیا -جس میں ریاست عوام سے بلکل لاتعلق نہیں ہوتی ہے-ان جماعتوں کا رجہان کسی حد تک چھوٹے اور میڈیم سائز تاجروں،مینو فیکچرز کے حق میں ہے-اور یہ عالمی سرمایہ کو شٹر بے مہار چھوڑ دینے کے مخالف نظر آتے ہیں-یہ عنصر سیکولر جماعتوں میں سرے سے غائب ہے-ان کے اندر سماجی خدمت کا ایک عنصر ان کی سماجی بنیادوں کو مزبور بناتا ہے-اور یہ جماعتیں ان اشراف طبقات کے خلاف ایک متبادل متوسط طبقے کی قیادت کا سلوگن لیکر میدان میں آئی ہیں -جو اب تک حکمرانی کرتے آئے تھے-ان کے ہاں ایک اور بھی عنصر اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ زبانی کلامی ہی سہی عرب میں اسرائیل کے خلاف ایک واضح موقف رکھتے ہیں-اگرچہ انھوں نے امریکہ کے عراق اور افغانستان پر حملے کی بھی مخالفت کی تھی-لکین مصر اور تنزانیہ ،ترکی کی اسلام پسند مقبول جماعتوں کا امریکی کیمپ کے خلاف کوئی اس قدر جارحانہ رویہ دیکھنے کو نہیں مل رہا جو ہمیں سخت گیر اسلام پسند جماعتوں کا دیکھنے کو ملتا ہے-یا حزب الله اور حماس کا نظر آتا ہے-کیا مصر اور تنزانیہ کی کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتیں امریکہ کے خلاف چین اور روسی کیمپ میں جائیں گی جس طرح سے اڑان ،لبنان اور فلسطین کی جماعتیں گئی تھیں-پاکستان میں بھی جماعت اسلامی سمیت اسلام پسند جماعتوں کا رخ امریکی کیمپ سے زیادہ روس،چین کی طرف ہے-ہاں سعودیہ عرب کے اثر کی وجہ سے یہ جماعتیںایران کے ساتھ وہ گرمجوشی نہیں دکھاتیں جو حزب،حماس دکھاتی ہیں-
مصر اور تنزانیہ میں اسلام پسند جماعتوں کی کامیابی کا سبب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جن سیکولر ماڈرن نوجوانوں نے عرب انقلاب کی تحریک کو شروع کیا تھا -وہ خود کو کسی ایک سیاسی جماعت میں منظم کرنے میں ناکام رہے -اور بائیں بازو کے لوگ انتہائی چھوٹے سائز کے ہونے اور انتخابی سیاست کے دوران اپنے خیالات کو پھیلانے کے لئے درکار وسائل کی محرومی کی وجہ سے ان نوجوانوں کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے-اور ایک فرق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی الگ شناخت کو بھی نہیں منوا پائے-اکثر ان کو بھی لبرل سیکولر رجیموں کا حصہ خیال کیا جاتا رہا-
سیکولر سیاسی جماعتیں جو ایک عرصۂ سے بہت زیادہ روایتی طریقہ سے سیاست کرتی آرہی ہیں-ان کو اب اپنے طور طریقہ بدلنے ہونگے-اور اپنی جماعتوں میں خاص طور متوسط طبقے کو جگہ دینی ہوگی-پاکستان میں بھی متوسط طبقہ شائد پہلی بار سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی زبردست تگ و دود کر رہا ہے-اگرچہ پاکستان میں متوسط طبقہ کے بااثر لوگوں کی ایک پرت اپنے خیالات اور عمل کے اعتبار سے بہت زیادہ رجعت پسند اور کسی حد تک ہییت مقتدرہ کی غیر منتخب پرت کے مفادات کی محافظ بھی نظر آتی ہے-اور اسی پرت کی اسٹبلشمنٹ نوازی اکثر و بیشتر اس طبقے کی اصلاح پسندی کی تحریک کو مشکوک بنا دیتی ہے-جیسے ہمارے ہاں آج کل عمران خان متوسط طبقے کی اصلاح پسند لہر کو ایک خاص رخ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں-اور ان کی ساری کوشش اسٹبلشمنٹ کو طاقتور بنانے اور جمہوری سیاست کو کمزور بنانے کی طرف لگتی دکھائی دیتی ہے-
لیل و نہار /عامر حسینی
تنزانیہ میں اسلام پسندوں کی جیت کے بعد مصر میں انتخابات کے پہلے مرحلے کے انتخابات میں اخوان المسلمون کی سیاسی پارٹی جسٹس پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی ہے -یہ اکثریت حاصل ہونے کے بعد یہ بحث سامنے آنے لگی ہے کہ کیا عرب ملکوں کی عوام سیکولر سیاست کو رد کر رہی ہے-کیونکہ اس پہلے فلسطین میں بھی حماس نے اکثریت حاصل کی تھی-جبکہ لبنان میں حزب الله مقبولیت حاصل کر رہی ہے-اور ترکی میں اے کے پی اسلام پسند پارٹی دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے-
میرے خیال میں یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ کہ مسلم ملکوں میں سیاست سیکولر ازم اور اسلام پسندی کے دائرے میں قید ہو کر ہو رہی ہے-اور اسلام پسند سیاسی پارٹیوں کی جیت کو سیکولر ازم کی شکست سے تعبیر کرنا بھی غلط ہے-دیکھا یہ جانا چاہئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جو اسلام پسند پتیاں ہیں -اہنوں نے کس حد تک خود کو تبدیل کیا ہے؟میرے خیال میں میں پارلیمانی جمہوریت کے رستے پر گامزن ہونے والی اسلام پسند سیاسی پارٹیوں نے بہت حد تک اپنے بارے میں اس تاثر کی نفی کی ہے کہ وہ سیاسی اقتدار حاصل کر کے سخت کی اخلاقی پابندیاں لگائیں گی -یا اپنے معاشرے کو زبردستی ایک ہی طرح کا ڈریس کوڈ پہننے پر مجبور کر دیں گی-وہ خدشات جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کی طرف سے پیش کے جانے والے اسلامی حکومت کے ماڈل سے پیدا ہوئے تھے -وہ ان اسلام پسند سیاسی جماعتوں نے دور کرنے کی کوشش کی ہے-
ان کی سیاست کا ایک اہم رخ یہ ہے کہ اسلام پسند بہت زیادہ تعداد میں عورتوں کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ عورتیں زیادہ تر متوسط طبقے کی پروفیشنل پرتوں سے تعلق رکھتی ہیں-اور جدید سرمایہ درارنہ نظام میں فعال حثیت کی حامل ہیں-ان عورتوں کی سیاست میں آمد سے ان جماعتوں کے بارے میں تاثر میں بھی تبدیلی آئی ہے-مصر،تنزانیہ،ترکی اور لبنان کی اسلام پسند جماعتوں کی یہ قسم جو انتخابی سیاست کی بنیاد پر انقلاب لانے کا دعوا کرتی ہیں -بجا طور پر معمولی سی تبدلیوں کے ساتھ لبرل ڈیموکریسی ،فری مارکیٹ اور کارپوریٹ کلچر کی حامی ہیں-اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل ویلفئیر کا بھی ایک تصور رکھتی ہیں جس کی بنیاد پر انھوں نے سماجی خدمت کے کافی بڑے نیٹ ورک تشکیل دے لئے ہیں-اس وجہ سے ان کو مسلم سماجوں میں سرایت کرنے کا زیادہ موقعہ بھی میسر آیا ہے-
اسلام پسندوں میں یہ تبدیلی بذات خود سیکولر روایات کی کامیابی کا ثبوت ہیں-یہ اور بات ہے کہ اسلام پسند سیاسی جماعتیں ان کو اسلامی روایات کہ کر اپناتے ہیں-تنزانیہ ،مصر ،ترکی میں جو اسلام پسند سیاسی جماعتیں کامیاب ہوئی ہیں -اگر ان کے پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک بات بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے-اور وہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں ان لوگوں سے الگ ہو گئیں تھیں جو تشدد اور عسکریت پسندی کے راستہ سے تبدیلی لانے کے قائل تھے-جو زبردستی اسلام نافظ کرنے کے حق میں تھے-جو تشدد کا جواب تشدد سے دینا چاہتے تھے-جو ایک سخت گیر قسم کے اسلامی ماڈل کے نفاز کی بات کرتے تھے-اور جن کے عورتوں اور اقلیتوں کے حوالے سے بہت زیادہ دقیانوسی خیالات تھے-ایک طرح سے یہ اسلام پسندی کی تحریک کے اندر ماڈریٹ اور ترقی پسندی کی لہر کی ترجمانی کرنے والی سیاسی جماعتیں ہیں-ان جماعتوں میں جو سخت گیر عناصر تھے ان کی اکثریت تو ان جماعتوں سے الگ ہو گئی -جبکہ جو ان جماعتوں میں موجود ہیں وہ کمزور ہیں-
ان جماعتوں نے بہت مستقل مزاجی سے آمریتوں اور سیاسی جبر کا مقابلہ کیا ہے-اور پھر ان کے اندر بدعنوانی کا کوئی کلچر موجود نہیں ہے-یہ سیاسی جماعتیں وہاں کے پروفیشنل متوسط طبقے کی ٹھیک ٹھاک ترجمانی کرتی ہیں-
اس کے برعکس جو سیکولر حلقے تھے -ان پر بدعنوانی اور غیر مستقل مزاجی کے بہت زیادہ الزامات ہیں-وہ سماجی خدمات کے نیٹ ورکس نہیں تعمیر کر سکے-اور ان کو پھر ان کے ہاں آمریتوں کے نام نہاد سیکولر ہونے کے دعوے سے بھی بہت نقصان ہوا-ان کی طرف سے نجکاری کی برہمی کی حد تک حمایت اور نیو لبرل پالیسیوں کے حق میں ہونے کی وجہ سے بھی ان کی جماعتوں کو نقصان پہنچا -جبکہ اسلام پسندوں نے نیو لبرل پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اسلامی فلاح و بہبود کا تصور دیا -جس میں ریاست عوام سے بلکل لاتعلق نہیں ہوتی ہے-ان جماعتوں کا رجہان کسی حد تک چھوٹے اور میڈیم سائز تاجروں،مینو فیکچرز کے حق میں ہے-اور یہ عالمی سرمایہ کو شٹر بے مہار چھوڑ دینے کے مخالف نظر آتے ہیں-یہ عنصر سیکولر جماعتوں میں سرے سے غائب ہے-ان کے اندر سماجی خدمت کا ایک عنصر ان کی سماجی بنیادوں کو مزبور بناتا ہے-اور یہ جماعتیں ان اشراف طبقات کے خلاف ایک متبادل متوسط طبقے کی قیادت کا سلوگن لیکر میدان میں آئی ہیں -جو اب تک حکمرانی کرتے آئے تھے-ان کے ہاں ایک اور بھی عنصر اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ زبانی کلامی ہی سہی عرب میں اسرائیل کے خلاف ایک واضح موقف رکھتے ہیں-اگرچہ انھوں نے امریکہ کے عراق اور افغانستان پر حملے کی بھی مخالفت کی تھی-لکین مصر اور تنزانیہ ،ترکی کی اسلام پسند مقبول جماعتوں کا امریکی کیمپ کے خلاف کوئی اس قدر جارحانہ رویہ دیکھنے کو نہیں مل رہا جو ہمیں سخت گیر اسلام پسند جماعتوں کا دیکھنے کو ملتا ہے-یا حزب الله اور حماس کا نظر آتا ہے-کیا مصر اور تنزانیہ کی کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتیں امریکہ کے خلاف چین اور روسی کیمپ میں جائیں گی جس طرح سے اڑان ،لبنان اور فلسطین کی جماعتیں گئی تھیں-پاکستان میں بھی جماعت اسلامی سمیت اسلام پسند جماعتوں کا رخ امریکی کیمپ سے زیادہ روس،چین کی طرف ہے-ہاں سعودیہ عرب کے اثر کی وجہ سے یہ جماعتیںایران کے ساتھ وہ گرمجوشی نہیں دکھاتیں جو حزب،حماس دکھاتی ہیں-
مصر اور تنزانیہ میں اسلام پسند جماعتوں کی کامیابی کا سبب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جن سیکولر ماڈرن نوجوانوں نے عرب انقلاب کی تحریک کو شروع کیا تھا -وہ خود کو کسی ایک سیاسی جماعت میں منظم کرنے میں ناکام رہے -اور بائیں بازو کے لوگ انتہائی چھوٹے سائز کے ہونے اور انتخابی سیاست کے دوران اپنے خیالات کو پھیلانے کے لئے درکار وسائل کی محرومی کی وجہ سے ان نوجوانوں کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے-اور ایک فرق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی الگ شناخت کو بھی نہیں منوا پائے-اکثر ان کو بھی لبرل سیکولر رجیموں کا حصہ خیال کیا جاتا رہا-
سیکولر سیاسی جماعتیں جو ایک عرصۂ سے بہت زیادہ روایتی طریقہ سے سیاست کرتی آرہی ہیں-ان کو اب اپنے طور طریقہ بدلنے ہونگے-اور اپنی جماعتوں میں خاص طور متوسط طبقے کو جگہ دینی ہوگی-پاکستان میں بھی متوسط طبقہ شائد پہلی بار سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی زبردست تگ و دود کر رہا ہے-اگرچہ پاکستان میں متوسط طبقہ کے بااثر لوگوں کی ایک پرت اپنے خیالات اور عمل کے اعتبار سے بہت زیادہ رجعت پسند اور کسی حد تک ہییت مقتدرہ کی غیر منتخب پرت کے مفادات کی محافظ بھی نظر آتی ہے-اور اسی پرت کی اسٹبلشمنٹ نوازی اکثر و بیشتر اس طبقے کی اصلاح پسندی کی تحریک کو مشکوک بنا دیتی ہے-جیسے ہمارے ہاں آج کل عمران خان متوسط طبقے کی اصلاح پسند لہر کو ایک خاص رخ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں-اور ان کی ساری کوشش اسٹبلشمنٹ کو طاقتور بنانے اور جمہوری سیاست کو کمزور بنانے کی طرف لگتی دکھائی دیتی ہے-
Saturday, December 3, 2011
منصور اعجاز کے تازہ انکشافات لیل و نہار/عامر حسینی
منصور اعجاز کے تازہ انکشافات
لیل و نہار/عامر حسینی
منصور اعجاز کا ایک نیا مضمون امریکی جریدہ نیوز ویک میں شایع ہونے جا رہا ہے-ایک ویب سائٹ ہے جس نے یہ انکشاف کیا ہے-اور اس نے اس مضمون کے چند مندرجات بھی درج کے ہیں-منصور اعجاز نے اس مضمون میں اس مرتبہ حسیں حقانی پر زیادہ سنگین الزام عائد کے ہیں-اس نے اس مرتبہ صدر زرداری پر بھی براہ راست الزامات لگائے ہیں-
منصور اعجاز کا سب سے سنگین الزام تو یہ ہے کہ حسین حقانی اور صدر زرداری کو سی آئی اے نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی بارے حسین حقانی اور صدر زرداری کو بتا دیا تھا-اور صدر زرداری نے سی آئی اے کو یہ آپریشن کرنے کا گرین سگنل دے ڈالا تھا-اس کے خیال میں صدر زرداری اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کاروائی کو بنیاد بنا کر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو برطرف کرنا چاہتے تھے-اور وہ یہ کام کرتے ہوئے امریکہ کی حمایت کے بھی خواہاں تھے-اسی لئے صدر زرداری نے حسین حقانی کو میمو لکھنے کا کہا تھا-
منصور اعجاز کے مطابق حسین حقانی نے ان کو میمو لکھنے اور اس کو مولن تک پہنچانے کے لئے اس لئے منتخب کیا تھا کہ ان کو معلوم تھا کہ ان کے علاوہ کسی اور کی مولن تک ایسے رسائی نہیں ہے-
منصور اعجاز نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر زرداری کا کسی بھی ادارے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے-وہ موجودہ سویلین حکومت کو کمزور ترین حکومت قرار دے رہے ہیں-
مصور اعجاز نے میمو ایشو پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے -حسین حقانی پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے تین مرتبہ اپنا بلیک بیری تبدیل کیا-اور تین مرتبہ پن کوڈ بھی تبدیل کیا-ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حسین حقانی نے امریکہ کے خفیہ اداروں میں اپنے دوستوں کی مدد سے اپنے بلیک بیری سیٹوں سے مواد کو بھی ختم کرایا -اس طرح ان کا خیال تھا کہ وہ مواد میرے بلیک بیری سے بھی ختم ہوجائے گا -لکین ایسا نہیں ہوا-وہ سارا مواد موجود ہے-
منصور اعجاز کے یہ نئے انکشافات ایسے دھماکہ خیز تھے کہ وائٹ ہاؤس کو اس حوالے سے وضاحت کرنا پڑ گئی-کہ منصور اعجاز کا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی کا پاکستان کی حکومت یا کسی اور اہلکار کو اس کا علم تھا-معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اس کی خبر کسی کو بھی نہیں دی گئی تھی-لکین منصور اعجاز کے ان انکشفات نے پاکستان میں پھر سے ایک ہلچل مچا دی ہے-کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ فوجی قیادت منصور اعجاز کی باتوں کو غیر سنجیدگی سے نہیں لے رہی-اس کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی خود جا کر لندن میں منصور اعجاز کو ملے تھے-اور انھوں نے منصور اعجاز سے گفتگو کے دوران نوٹس بھی بنائے تھے-اگرچہ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ منصور اعجاز جو کہ آئی ایس آئی اور فوج سے سخت نفرت کرتا ہے-اور ان کو امریکی مشکلات کا ذمہ دار بھی قرار دیتا ہے-وہ کیوں اور کیسے آئی ایس آئی کے سربراہ سے لندن ملنے کو تیار ہو گیا-اور وہ کیوں فوجی قیادت اور آئی ایس آئی کو بچانا چاہتا ہے/وہ ایک سویلین حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر رہاہے-
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ منصور اعجاز کو چارہ بنا کر حسین حقانی کے آگے ڈالا گیا تھا-اور حسین حقانی اس چارہ کے فریب میں آگئے-یہ بھی ہو سکتا ہے کہ منصور اعجاز آئی ایس آئی کا ہی ایک مہرہ تھے-جس کو آئی ایس آئی نے حسین حقانی کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کیا-اب اس میں صدر زرداری کا بھی کھل کر نام لیا جا رہا ہے-
اب تک منصور اعجاز کو کسی نے طلب کرنے کی کوشش نہیں کی-نہ ہی ان کو پاکستان بلا کر تحقیق کرنے کی کوشش ہوئی ہے-جبکہ منصور اعجاز کا کہنا ہے کہووہ کسی بھی جگہ اور کسی بھی عدالت میں وہ آنے کو تیار ہیں-اوربھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا ہے کہ میمو گیٹ ایشو کی تحقیقات کس ادارے یا کمیٹی کو سونپی گئی ہیں-اور ان کی تحقیق کون کررہا ہے-حکومت کا یہ وہ کمزور ایہلو ہے جس سے فائدہ اٹھا کر نواز شریف سپریم کورٹ چلے گئے-اور انھوں نے پارلیمنٹ کو غیر فعال تک کہ ڈالا-
منصور اعجاز اب تک امریکی میڈیا میں اپنے انکشافات کو مضامین اور انٹرویو کی صورت میں چھپوا رہے ہیں-حسین حقانی نے نیوز ویک کی مدیرہ کو ایک خط لکھا ہے کہ منصور اعجاز نے اپنے مضمون میں جو الزامات لگائے ہیں -وہ سراسر بے بنیاد ہیں-اور اگر یہ مضمون چھپتا ہے تو وہ میگزین کے خلاف عدالت میں جائیں گے-سوال یہاں پر یہ جنم لیتا ہے کہ اگر وہ اس مرتبہ نیوز ویک کے خلاف عدالت میں جا سکتے ہیں تو وہ اس وقت عدالت میں کیوں نہ گئے-جب منصور اعجاز نے پہلی مرتبہ میمو کا ذمہ دار ان کو قرار دیا تھا؟اور ابھی تک وہ کسی عدالت میں منصور اعجاز کیخلاف نہیں گئے-ان کا نہ جانا بھی کافی شکوک و شبھات پیدا کر رہا ہے-
عام طور پر حکومت کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی اہم ایشو پر اتنی تندہی سے کام نہیں کرپاتی جس قدر ضرورت ہوتی ہے-اور جب پانی سر چڑھ جاتا ہے تو پھر بھاگ دوڑ شروع کی جاتی ہے-میمو ایشو میں بھی یہی بات دیکھنے کو ملی-یہ تو سامنے کی بات ہے کہ پنجاب کے اندر پی پی پی کے صوبائی اراکین اسمبلی بہت عرصۂ سے کہ رہے تھے کہ ان کو پنجاب حکومت تو فنڈ نہیں دیتی -لکین وفاق بھی ان پر توجہ نہیں دیتا -وزیر اعظم پر یہ الزام تھا کہ وہ پارٹی سے زیادہ گیلانی گروپ کو مضبوط کرنے کی فکر کر رہے ہیں-یہ شکوے چلتے رہے-ان پر کوئی توجہ نہ دی گئی-تاوقتیکہ پی پی پی کے اندر فارورڈ بلاک کی باتیں میڈیا پر سامنے آنے لگیں-اور شاہ محمود قریشی کیمپ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بہت سارے صوبائی اسمبلی کے ممبران پی پی پی سے ٹوٹ کر ان کے ساتھ ملنے والے ہیں-اس پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پی پی پی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کسے ملے اور موقعہ پر ممبران کو ٧ ،٧ کروڑ کے ترقیاتی فنڈ اور اسلحہ کے لائیسنس بھی دینے کا فیصلہ ہوگیا-
اب آصف علی زرداری کے پارٹی پر کنٹرول پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں-سندھ میں ذوالفقار مرزا کی روش نے ان کے پارٹی پر کنٹرول کھونے کے تاثر کو مضبوط کیا ہے-اور آصف علی زرداری جب پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی کی بجائے پی پی پی کی کور کمیٹی جس کی کوئی آئینی حثیت نہیں بنتی کے پلیٹ فارم سے انتہائی اہم فیصلے کرتے ہیں-اور ہر بحران پر اسی کا اجلاس بلایا جاتا ہے-تو بھی ان کی کمزوری کا تاثر ابھرتا ہے-ایسے میں منصور اعجاز کا یہ کہنا کہ صدر آصف علی زرداری ایک کمزور شخص ہیں اور ان کا کسی ادارہ پر کنٹرول نہیں ہے-حکومت اور آصف زرداری کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے-شائد پی پی پی کے کچھ لوگوں نے صدر زرداری کو ٹھیک مشوره دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے کارکنوں سے ملین-اور نیچے عوام میں اپنے حامیوں سے رجوع کریں-ان کی پارٹی کو تیزی سے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے-اس وقت پی پی پی کی تنظیمی صورت حال بہت خراب ہے-یہ بے نظیر کے دور میں بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی-لکین ان کی شخصیت کا کرشمہ اس پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کر دیتا تھا-یہ بات صدر زرداری کو بھی معلوم ہے کہ وہ کرشمہ سے محروم ہیں-ان کی ضرورت ہے کہ وہ اس محرومی کو دور کرنے کے لئے اپنی پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط کریں-کارکنوں میں پھیلی بد دلی کو دور کریں-ورنہ حکومت اور ان کی پارٹی کو تنہائی سے کوئی نہیں بچا سکے گا-
لیل و نہار/عامر حسینی
منصور اعجاز کا ایک نیا مضمون امریکی جریدہ نیوز ویک میں شایع ہونے جا رہا ہے-ایک ویب سائٹ ہے جس نے یہ انکشاف کیا ہے-اور اس نے اس مضمون کے چند مندرجات بھی درج کے ہیں-منصور اعجاز نے اس مضمون میں اس مرتبہ حسیں حقانی پر زیادہ سنگین الزام عائد کے ہیں-اس نے اس مرتبہ صدر زرداری پر بھی براہ راست الزامات لگائے ہیں-
منصور اعجاز کا سب سے سنگین الزام تو یہ ہے کہ حسین حقانی اور صدر زرداری کو سی آئی اے نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی بارے حسین حقانی اور صدر زرداری کو بتا دیا تھا-اور صدر زرداری نے سی آئی اے کو یہ آپریشن کرنے کا گرین سگنل دے ڈالا تھا-اس کے خیال میں صدر زرداری اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کاروائی کو بنیاد بنا کر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو برطرف کرنا چاہتے تھے-اور وہ یہ کام کرتے ہوئے امریکہ کی حمایت کے بھی خواہاں تھے-اسی لئے صدر زرداری نے حسین حقانی کو میمو لکھنے کا کہا تھا-
منصور اعجاز کے مطابق حسین حقانی نے ان کو میمو لکھنے اور اس کو مولن تک پہنچانے کے لئے اس لئے منتخب کیا تھا کہ ان کو معلوم تھا کہ ان کے علاوہ کسی اور کی مولن تک ایسے رسائی نہیں ہے-
منصور اعجاز نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر زرداری کا کسی بھی ادارے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے-وہ موجودہ سویلین حکومت کو کمزور ترین حکومت قرار دے رہے ہیں-
مصور اعجاز نے میمو ایشو پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے -حسین حقانی پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے تین مرتبہ اپنا بلیک بیری تبدیل کیا-اور تین مرتبہ پن کوڈ بھی تبدیل کیا-ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حسین حقانی نے امریکہ کے خفیہ اداروں میں اپنے دوستوں کی مدد سے اپنے بلیک بیری سیٹوں سے مواد کو بھی ختم کرایا -اس طرح ان کا خیال تھا کہ وہ مواد میرے بلیک بیری سے بھی ختم ہوجائے گا -لکین ایسا نہیں ہوا-وہ سارا مواد موجود ہے-
منصور اعجاز کے یہ نئے انکشافات ایسے دھماکہ خیز تھے کہ وائٹ ہاؤس کو اس حوالے سے وضاحت کرنا پڑ گئی-کہ منصور اعجاز کا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی کا پاکستان کی حکومت یا کسی اور اہلکار کو اس کا علم تھا-معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اس کی خبر کسی کو بھی نہیں دی گئی تھی-لکین منصور اعجاز کے ان انکشفات نے پاکستان میں پھر سے ایک ہلچل مچا دی ہے-کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ فوجی قیادت منصور اعجاز کی باتوں کو غیر سنجیدگی سے نہیں لے رہی-اس کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی خود جا کر لندن میں منصور اعجاز کو ملے تھے-اور انھوں نے منصور اعجاز سے گفتگو کے دوران نوٹس بھی بنائے تھے-اگرچہ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ منصور اعجاز جو کہ آئی ایس آئی اور فوج سے سخت نفرت کرتا ہے-اور ان کو امریکی مشکلات کا ذمہ دار بھی قرار دیتا ہے-وہ کیوں اور کیسے آئی ایس آئی کے سربراہ سے لندن ملنے کو تیار ہو گیا-اور وہ کیوں فوجی قیادت اور آئی ایس آئی کو بچانا چاہتا ہے/وہ ایک سویلین حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر رہاہے-
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ منصور اعجاز کو چارہ بنا کر حسین حقانی کے آگے ڈالا گیا تھا-اور حسین حقانی اس چارہ کے فریب میں آگئے-یہ بھی ہو سکتا ہے کہ منصور اعجاز آئی ایس آئی کا ہی ایک مہرہ تھے-جس کو آئی ایس آئی نے حسین حقانی کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کیا-اب اس میں صدر زرداری کا بھی کھل کر نام لیا جا رہا ہے-
اب تک منصور اعجاز کو کسی نے طلب کرنے کی کوشش نہیں کی-نہ ہی ان کو پاکستان بلا کر تحقیق کرنے کی کوشش ہوئی ہے-جبکہ منصور اعجاز کا کہنا ہے کہووہ کسی بھی جگہ اور کسی بھی عدالت میں وہ آنے کو تیار ہیں-اوربھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا ہے کہ میمو گیٹ ایشو کی تحقیقات کس ادارے یا کمیٹی کو سونپی گئی ہیں-اور ان کی تحقیق کون کررہا ہے-حکومت کا یہ وہ کمزور ایہلو ہے جس سے فائدہ اٹھا کر نواز شریف سپریم کورٹ چلے گئے-اور انھوں نے پارلیمنٹ کو غیر فعال تک کہ ڈالا-
منصور اعجاز اب تک امریکی میڈیا میں اپنے انکشافات کو مضامین اور انٹرویو کی صورت میں چھپوا رہے ہیں-حسین حقانی نے نیوز ویک کی مدیرہ کو ایک خط لکھا ہے کہ منصور اعجاز نے اپنے مضمون میں جو الزامات لگائے ہیں -وہ سراسر بے بنیاد ہیں-اور اگر یہ مضمون چھپتا ہے تو وہ میگزین کے خلاف عدالت میں جائیں گے-سوال یہاں پر یہ جنم لیتا ہے کہ اگر وہ اس مرتبہ نیوز ویک کے خلاف عدالت میں جا سکتے ہیں تو وہ اس وقت عدالت میں کیوں نہ گئے-جب منصور اعجاز نے پہلی مرتبہ میمو کا ذمہ دار ان کو قرار دیا تھا؟اور ابھی تک وہ کسی عدالت میں منصور اعجاز کیخلاف نہیں گئے-ان کا نہ جانا بھی کافی شکوک و شبھات پیدا کر رہا ہے-
عام طور پر حکومت کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی اہم ایشو پر اتنی تندہی سے کام نہیں کرپاتی جس قدر ضرورت ہوتی ہے-اور جب پانی سر چڑھ جاتا ہے تو پھر بھاگ دوڑ شروع کی جاتی ہے-میمو ایشو میں بھی یہی بات دیکھنے کو ملی-یہ تو سامنے کی بات ہے کہ پنجاب کے اندر پی پی پی کے صوبائی اراکین اسمبلی بہت عرصۂ سے کہ رہے تھے کہ ان کو پنجاب حکومت تو فنڈ نہیں دیتی -لکین وفاق بھی ان پر توجہ نہیں دیتا -وزیر اعظم پر یہ الزام تھا کہ وہ پارٹی سے زیادہ گیلانی گروپ کو مضبوط کرنے کی فکر کر رہے ہیں-یہ شکوے چلتے رہے-ان پر کوئی توجہ نہ دی گئی-تاوقتیکہ پی پی پی کے اندر فارورڈ بلاک کی باتیں میڈیا پر سامنے آنے لگیں-اور شاہ محمود قریشی کیمپ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بہت سارے صوبائی اسمبلی کے ممبران پی پی پی سے ٹوٹ کر ان کے ساتھ ملنے والے ہیں-اس پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پی پی پی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کسے ملے اور موقعہ پر ممبران کو ٧ ،٧ کروڑ کے ترقیاتی فنڈ اور اسلحہ کے لائیسنس بھی دینے کا فیصلہ ہوگیا-
اب آصف علی زرداری کے پارٹی پر کنٹرول پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں-سندھ میں ذوالفقار مرزا کی روش نے ان کے پارٹی پر کنٹرول کھونے کے تاثر کو مضبوط کیا ہے-اور آصف علی زرداری جب پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی کی بجائے پی پی پی کی کور کمیٹی جس کی کوئی آئینی حثیت نہیں بنتی کے پلیٹ فارم سے انتہائی اہم فیصلے کرتے ہیں-اور ہر بحران پر اسی کا اجلاس بلایا جاتا ہے-تو بھی ان کی کمزوری کا تاثر ابھرتا ہے-ایسے میں منصور اعجاز کا یہ کہنا کہ صدر آصف علی زرداری ایک کمزور شخص ہیں اور ان کا کسی ادارہ پر کنٹرول نہیں ہے-حکومت اور آصف زرداری کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے-شائد پی پی پی کے کچھ لوگوں نے صدر زرداری کو ٹھیک مشوره دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے کارکنوں سے ملین-اور نیچے عوام میں اپنے حامیوں سے رجوع کریں-ان کی پارٹی کو تیزی سے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے-اس وقت پی پی پی کی تنظیمی صورت حال بہت خراب ہے-یہ بے نظیر کے دور میں بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی-لکین ان کی شخصیت کا کرشمہ اس پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کر دیتا تھا-یہ بات صدر زرداری کو بھی معلوم ہے کہ وہ کرشمہ سے محروم ہیں-ان کی ضرورت ہے کہ وہ اس محرومی کو دور کرنے کے لئے اپنی پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط کریں-کارکنوں میں پھیلی بد دلی کو دور کریں-ورنہ حکومت اور ان کی پارٹی کو تنہائی سے کوئی نہیں بچا سکے گا-
کیا جمہوریت خطرے میں ہے؟
کیا جمہوریت خطرے میں ہے؟
لیل و نہار /عامر حسینی
میاں محمد نواز شریف جعمرات کے دن سپریم کورٹ کے نو رکنی پبنچ کے سامنے پیش ہوئے-انھوں نے میمو ایشو پر یہ موقف اختیار کیا کہ حقانی نے یہ میمو خود نہیں لکھا -بلکہ کسی کے کہنے پر لکھا ہے-اس کردار کو بےنقاب ہونا چاہئے-انھوں نے کہا کہ میمو کے ذمہ داران کے خلاف آئین کی شق ٦ کے تحت کاروائی ہونی چاہئے-انھوں نے پارلیمنٹ کو بھی غیر فعال قراردے ڈالا -سپریم کورٹ نے ان کی بات سننے کے بعد ٩ صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ سنایا -اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اشو پر ایک کیمشن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا-اور انھوں نے حسین حقانی کے ملک سے جانے پر پابندی عائد کردی-انھوں نے آئی ایس آئی کے چیف،آرمی چیف اور وزیر اعظم کو بھی کیمشن کو سارے حقائق سے آگاہ کرنے کا حکم دیا-اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے کمیشن کو پندرہ دن کے اندر اندر سارے معاملے تحقیق کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت بھی کی-
ابھی یہ تفصیلی لکھا ہوا فیصلہ آیا بھی نہیں تھا کہ ایوان صدر میں پی پی پی کا انتہائی اہم اجلاس منعقد ہوا-اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی پی پی کے رہنما ایک پریس کانفرنس کے ساتھ اس فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کریں گیں-یہ پریس کانفرنس ڈاکٹر بابر اعوان ،خورشید شاہ ،عاشق فردوس اعوان اور قمر الزمان کائرہ نے مل کر کی-اس پریس کانفرنس میں پی پی پی کی طرف سے یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے وفاق کو سنے بغیر فیصلہ صادر کر دیا-اور سپریم کورٹ کو کیمشن بنانے کا اختیار نہیں تھا-
اس معاملے پر قانونی ماہرین بھی تقسیم نظر آتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو کیمشن بنانے کا اختیار تھا یا نہیں-لکین ایک بات تو ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف نے چونکہ حکومت اور حسین حقانی کو مقدمہ کا فریق بنایا تھا -تو ان کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی جاتی-یہ اجازت کیوں نہیں دی گئی -یہ ایک سوالیہ نشان ہے-
پھر صورت حال یہ تھی کہ اس وقت میمو ایشو پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک کمیٹی قائم کی ہوئی تھی-جو اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے-اور پھر خود آئی ایس آئی نے بھی اس معاملے کی تھققیق شروع کر رکھی تھی-سپریم کورٹ از خود کوئی کیمشن بنانے کی بجائے حکومت سے جواب طلب کر سکتی تھی-اگر جواب تسلی بخش نہ ہوتا تو کیمشن قائم کرنے کا حکم دیا جا سکتا تھا-اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے نورکنی بنچ نے ایک مرتبہ پھر طارق کھوسہ کو کیمشن کا سربراہ مقرر کیا ہے-لوگ اب یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا افسر شاہی کی لاٹ میں ایماندار دفسر اب صرف ظفر قریشی ،طارق کھوسہ ہی رہ گئے ہیں-کسی افسر کے غلط اقدام یا تفشیش صحیح نہ کرنے پر اس کو ہٹانے کا حکم دینے کا اختیار تو عدالت کے پاس ہے-لکین مرضی کے افسر تعینات کرنے کا اختیار تو آئین میں کسی جگہ بھی سپریم کورٹ کو نہیں دیا گیا ہے-یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس پر ہر غیر جانبدار آدمی کو بھی تشویش ہونا لازمی ہے-
میں اگرچہ یہ کہوں گا کہ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر بابر اعوان کا سپریم کورٹ کی طرف رویہ کچھ حد سے زیادہ سخت تھا-لکین آزاد عدلیہ کے بارے میں اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ وہ مخصوص قسم کے مقدمات کی سماعت کر رہی ہے-یہ تاثر اس لئے پیدا ہوا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور خود سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو ایسے سٹے دئے ہیں جن کی وجہ سے ان پر کوئی مقدمہ کھل نہیں پا رہا ہے-اسی طرح سپریم کورٹ نجانے کیوں آئی ایس آئی کی طرف سے آئی جے آئی کو رقوم فراہم کے جانے والے کیس کی سماعت نہیں کر رہی -اسی طرح بھٹو کیس پر بھی اتنی دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں مل رہا -جتنی دلچسپی ایسے کیسوں میں دکھائی جاتی ہے جو حکومت کے خلاف ہوتے ہیں-یہ وہ باتیں ہیں جو پی پی پی کے لوگ ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی کرتے ہیں-
پھر یہاں پر ہمیں جسٹس طارق محمود کی بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جن کے مطابق حکمت عدلیہ چتقلش کی وجہ سے اور عدالتوں کی طرف میڈیا ہائیپ پیدا کرنے والے کیسز کی جلدی سماعتوں کی وجہ سے جو عام آدمی کے کیسز ہیں -وہ بری طرح سے التوا کا شکار ہیں-عام سائلین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے-یہ آمدمی عدالتوں کے مخصوص ایکٹو ازم سے بار طرح سے متاثر ہوا ہے-یہ اپنی مشکلات کا رونا کس کے سامنے روئے-اس کو نہ تو انتظامیہ انصاف فراہم کر رہی ہے-اور نہ ہی عدالتوں سے اس کو انصاف فراہم ہو رہا ہے-آزاد عدلیہ اور جمہوریت کی بحالی یہ دونوں سلوگنز اگر عوام کی مشکلات کا خاتمہ کرنے کی بجائے -ریاست کے دو اداروں میں اختیارات کی جنگ کے ٹول بن جاتے ہیں تو پھر عام آدمی کی مایوسی کا جواز تو بنتا ہے-
ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی کے احتساب اور عدالتی ٹرائل کا ذکر کیا -اور اس دوراننھوں نے یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ یہ ٹرائل اس لئے ہورہا ہے کہ آصف علی زرداری سندھی ہیں -تو میرا خیال ہے کہ انھوں نے جلدبازی سے کام لیا ہے-یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کی عدالتوں کی ماضی میں یہ روش رہی ہے کہ اس نے جمہوری سیاست کو ریلیف دینے کی بجائے آمر حکمرانوں کو ریلیف دینے میں زیادہ دلچسپی دکھائی-لکین اس دور حکومت میں پاور سیکنڈل،این آئی سی ایل کیس،حج فراڈ کیس میں جو فراڈ سامنے آئے -ان کا احتساب کرنے کو پی پی پی کا میڈیا ٹرائل کہنا غلط ہے-پی پی پی کی حکومت کو بدعنوان کوئی بھی ہو اس کے لئے پارٹی کے امیج کو داؤ پر لگانے کی کیا ضرورت ہے-ان کو این آر او کیس سمیت وفاق کے خلاف بننے والے ہر کیس میں اپنے کیمپ کی طرف سے کیس ٹھیک طرح سے نہ لڑنے جیسی خامی پر بھی غور کرنا چاہئے-وہ این آر یو نظر ثانی کیس میں عدالت میں پیش ہوئے تھے-عدالت ان سے دو دیں یہ پوچھتی رہی کہ جس کیس کا دفاع تک کرنے سے حکمت کو انکار تھا -اس کیس کی نظر ثانی کی درخواست کیوں دائر کی گئی-اور اس کیس میں پانچ وکیل کیوں بدلے گئے-کمال اظفر کہاں چلے گئے؟-اور وہ تو یہ بھی نہ بتا سکے کہ وفاق کیسے اس کیس میں متاثر ہوا -انھوں نے عدالت کو یہ بھی نہیں بتایا کہ آخر سوئیس حکام کو خط لکھنے میں حکومت کو کیا روکاوٹ درپیش آرہی ہے-وہ عدالت کے ریکارڈ میں کوئی بات بھی تو درج نہ کرسکے-یہ ایک ایسا حکومتی وکلاء کی ناہلی کا پہلو ہے-جس کا کوئی جواب حکومت کے پاس نہیں ہے-اب اس ناہلی کو چھپانے کے لئے عدالتوں کو نسلی یا لسانی تعصب کا شکار قرار دینا مناسب بات نہیں لگتی ہے-
پی پی پی کے رہنماؤں نے میاں نواز شریف کی طرف سے میمو گیٹ ایشو پر عدالت پر جانے کو جن بنیادوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے-وہ ٹھیک نظر آتے ہیں-کیوں کہ میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو غیر فعال قرار دیا -تو یہ بات ان کے منہ سے اچھی نہیں لگتی-کیونکہ آئینی ترامیم اور قانون سازی کے حوالے سے یہ پارلیمنٹ اپنی پیش رو پارلیمنٹوں سے بہت بہتر کارکردگی کی مالک ہے-بلکہ اس پارلیمنٹ نے تو صوبائی خودمختاری کا ایشو بھی حل کر دیا ہے-جو ٧٣ کی اسمبلی بھی نہیں کر سکی تھی-١٨ وین ترمیم ،این ایف سی ایوارڈ جیسے اقدامات سنہری الفاظ میں لکھےجانے کے قابل اقدامات ہیں-اور ان کو کرنے میں خود مسلم لیگ نواز کا بھی بہت ہاتھ ہے-پاکستان کی یہ واحد پارلیمنٹ ہے -جس میں قائمہ کیمٹیوں میں جہاں حزب اختلاف کی نمائندگی موجود ہے-بلکہ ان کی کارکردگی بھی سابقہ ادوار سے کہیں زیادہ ہے-پبلک اکاونٹس کمیٹی کو جس قدر اختیارات اس پارلیمنٹ میں ملے پہلے کبھی نہیں تھے-اور قومی سلامتی کی قائمہ کیمٹی کو بھی بہت اختیارات ملے-یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا-اور قومی اسمبلی کو غیر فعال کہ دینا ٹھیک نہیں ہے-اس طرح کے فقرے اگمیاں نواز شریف جیسے سیاست دنوں کے منہ سنکلے گیں تو پھر ملک میں جمہوری نظام کا خدا ہی حافظ ہے-
میاں نواز شریف کو سیاسی ایشوز پر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر جدوجہد کرنے سے کوئی نہیں روکتا-لکین اگر وہ عدالتوں میں جائیں گے تو پھر جمہوریت کا سفر ہموار طریقہ سے جاری نہیں رہ سکے گا-لوگ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اگر کچھ سیاسی جماعتیں یہ سوچ لیں کہ ان کو انتخاب کی سیاست سے اقتدار نہیں ملے گا -اور وہ جمہوری طریقہ سے کسی حکومت یا جماعت کو شکست نہیں دے سکتے -تو ان کو اس حکومت کا تختہ یا تو فوج کے ساتھ مل کر کر دینا چاہئے یا عدالت سے ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن لینے کی وہ کوشش کرے تو پھر اس صورت میں آمروں کو اقتدار پر قبضہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا-
پاکستان میں جمہوریت پسند قوتوں کو یہ تشویش بجا طور پر لاحق ہے کہ جب انتظامی امور کا سربراہ وزیر اعظم ہے-اور اسی پر حکومتی اقدمات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو پھر صدر کی ذات پر تنقید کا مطلب کیا ہے-اور جب حزب اختلاف گو زرداری گو کہتی ہے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا حزب اختلاف کی جماعتوں کی نظر میں صدر کا ملک کی اسمبلیوں سے انتخاب کا کوئی مطلوب نہیں بنتا ہے؟کیا صدر زرداری کوئی چور دروازہ استعمال کر کے صدرات کے منصب پر فائز ہوئے ہیں؟پھر ان کے خلاف اس قدر شور کیوں پبا ہے؟مسلم لیگ نواز ایک عوامی جمہوری جماعت ہے-اس کو جمہوری طریقے سے حکمت کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے-
میں سمجھتا ہوں کہ جب تک مسلم لیگ نواز اور پی پی پی نہیں چاہئیں گی ملک میں نہ تو فوجی حکمت آسکتی ہے-اور نہ ہی بنگلہ دیش ماڈل آسکتا ہے-لکین اگر ان دو جماعتوں نے محاز آرائی کا یہ سفر اسی طرح سے جاری رکھا -اور ایک دوسرے کے خلاف اسی لب و لہجہ میں بات جاری رکھی جس میں پہلے سپریم کورٹ کے اندر نواز شریف نے کی -اور بعد میں بابر اعوان نے کی-تو پھر جمہوریت کو واقعی خطرات لاحق ہیں-اور ملک میں جمہوریت کا سفر کسی وقت بھی رک سکتا ہے-
لیل و نہار /عامر حسینی
میاں محمد نواز شریف جعمرات کے دن سپریم کورٹ کے نو رکنی پبنچ کے سامنے پیش ہوئے-انھوں نے میمو ایشو پر یہ موقف اختیار کیا کہ حقانی نے یہ میمو خود نہیں لکھا -بلکہ کسی کے کہنے پر لکھا ہے-اس کردار کو بےنقاب ہونا چاہئے-انھوں نے کہا کہ میمو کے ذمہ داران کے خلاف آئین کی شق ٦ کے تحت کاروائی ہونی چاہئے-انھوں نے پارلیمنٹ کو بھی غیر فعال قراردے ڈالا -سپریم کورٹ نے ان کی بات سننے کے بعد ٩ صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ سنایا -اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اشو پر ایک کیمشن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا-اور انھوں نے حسین حقانی کے ملک سے جانے پر پابندی عائد کردی-انھوں نے آئی ایس آئی کے چیف،آرمی چیف اور وزیر اعظم کو بھی کیمشن کو سارے حقائق سے آگاہ کرنے کا حکم دیا-اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے کمیشن کو پندرہ دن کے اندر اندر سارے معاملے تحقیق کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت بھی کی-
ابھی یہ تفصیلی لکھا ہوا فیصلہ آیا بھی نہیں تھا کہ ایوان صدر میں پی پی پی کا انتہائی اہم اجلاس منعقد ہوا-اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی پی پی کے رہنما ایک پریس کانفرنس کے ساتھ اس فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کریں گیں-یہ پریس کانفرنس ڈاکٹر بابر اعوان ،خورشید شاہ ،عاشق فردوس اعوان اور قمر الزمان کائرہ نے مل کر کی-اس پریس کانفرنس میں پی پی پی کی طرف سے یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے وفاق کو سنے بغیر فیصلہ صادر کر دیا-اور سپریم کورٹ کو کیمشن بنانے کا اختیار نہیں تھا-
اس معاملے پر قانونی ماہرین بھی تقسیم نظر آتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو کیمشن بنانے کا اختیار تھا یا نہیں-لکین ایک بات تو ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف نے چونکہ حکومت اور حسین حقانی کو مقدمہ کا فریق بنایا تھا -تو ان کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی جاتی-یہ اجازت کیوں نہیں دی گئی -یہ ایک سوالیہ نشان ہے-
پھر صورت حال یہ تھی کہ اس وقت میمو ایشو پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک کمیٹی قائم کی ہوئی تھی-جو اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے-اور پھر خود آئی ایس آئی نے بھی اس معاملے کی تھققیق شروع کر رکھی تھی-سپریم کورٹ از خود کوئی کیمشن بنانے کی بجائے حکومت سے جواب طلب کر سکتی تھی-اگر جواب تسلی بخش نہ ہوتا تو کیمشن قائم کرنے کا حکم دیا جا سکتا تھا-اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے نورکنی بنچ نے ایک مرتبہ پھر طارق کھوسہ کو کیمشن کا سربراہ مقرر کیا ہے-لوگ اب یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا افسر شاہی کی لاٹ میں ایماندار دفسر اب صرف ظفر قریشی ،طارق کھوسہ ہی رہ گئے ہیں-کسی افسر کے غلط اقدام یا تفشیش صحیح نہ کرنے پر اس کو ہٹانے کا حکم دینے کا اختیار تو عدالت کے پاس ہے-لکین مرضی کے افسر تعینات کرنے کا اختیار تو آئین میں کسی جگہ بھی سپریم کورٹ کو نہیں دیا گیا ہے-یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس پر ہر غیر جانبدار آدمی کو بھی تشویش ہونا لازمی ہے-
میں اگرچہ یہ کہوں گا کہ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر بابر اعوان کا سپریم کورٹ کی طرف رویہ کچھ حد سے زیادہ سخت تھا-لکین آزاد عدلیہ کے بارے میں اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ وہ مخصوص قسم کے مقدمات کی سماعت کر رہی ہے-یہ تاثر اس لئے پیدا ہوا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور خود سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو ایسے سٹے دئے ہیں جن کی وجہ سے ان پر کوئی مقدمہ کھل نہیں پا رہا ہے-اسی طرح سپریم کورٹ نجانے کیوں آئی ایس آئی کی طرف سے آئی جے آئی کو رقوم فراہم کے جانے والے کیس کی سماعت نہیں کر رہی -اسی طرح بھٹو کیس پر بھی اتنی دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں مل رہا -جتنی دلچسپی ایسے کیسوں میں دکھائی جاتی ہے جو حکومت کے خلاف ہوتے ہیں-یہ وہ باتیں ہیں جو پی پی پی کے لوگ ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی کرتے ہیں-
پھر یہاں پر ہمیں جسٹس طارق محمود کی بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جن کے مطابق حکمت عدلیہ چتقلش کی وجہ سے اور عدالتوں کی طرف میڈیا ہائیپ پیدا کرنے والے کیسز کی جلدی سماعتوں کی وجہ سے جو عام آدمی کے کیسز ہیں -وہ بری طرح سے التوا کا شکار ہیں-عام سائلین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے-یہ آمدمی عدالتوں کے مخصوص ایکٹو ازم سے بار طرح سے متاثر ہوا ہے-یہ اپنی مشکلات کا رونا کس کے سامنے روئے-اس کو نہ تو انتظامیہ انصاف فراہم کر رہی ہے-اور نہ ہی عدالتوں سے اس کو انصاف فراہم ہو رہا ہے-آزاد عدلیہ اور جمہوریت کی بحالی یہ دونوں سلوگنز اگر عوام کی مشکلات کا خاتمہ کرنے کی بجائے -ریاست کے دو اداروں میں اختیارات کی جنگ کے ٹول بن جاتے ہیں تو پھر عام آدمی کی مایوسی کا جواز تو بنتا ہے-
ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی کے احتساب اور عدالتی ٹرائل کا ذکر کیا -اور اس دوراننھوں نے یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ یہ ٹرائل اس لئے ہورہا ہے کہ آصف علی زرداری سندھی ہیں -تو میرا خیال ہے کہ انھوں نے جلدبازی سے کام لیا ہے-یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کی عدالتوں کی ماضی میں یہ روش رہی ہے کہ اس نے جمہوری سیاست کو ریلیف دینے کی بجائے آمر حکمرانوں کو ریلیف دینے میں زیادہ دلچسپی دکھائی-لکین اس دور حکومت میں پاور سیکنڈل،این آئی سی ایل کیس،حج فراڈ کیس میں جو فراڈ سامنے آئے -ان کا احتساب کرنے کو پی پی پی کا میڈیا ٹرائل کہنا غلط ہے-پی پی پی کی حکومت کو بدعنوان کوئی بھی ہو اس کے لئے پارٹی کے امیج کو داؤ پر لگانے کی کیا ضرورت ہے-ان کو این آر او کیس سمیت وفاق کے خلاف بننے والے ہر کیس میں اپنے کیمپ کی طرف سے کیس ٹھیک طرح سے نہ لڑنے جیسی خامی پر بھی غور کرنا چاہئے-وہ این آر یو نظر ثانی کیس میں عدالت میں پیش ہوئے تھے-عدالت ان سے دو دیں یہ پوچھتی رہی کہ جس کیس کا دفاع تک کرنے سے حکمت کو انکار تھا -اس کیس کی نظر ثانی کی درخواست کیوں دائر کی گئی-اور اس کیس میں پانچ وکیل کیوں بدلے گئے-کمال اظفر کہاں چلے گئے؟-اور وہ تو یہ بھی نہ بتا سکے کہ وفاق کیسے اس کیس میں متاثر ہوا -انھوں نے عدالت کو یہ بھی نہیں بتایا کہ آخر سوئیس حکام کو خط لکھنے میں حکومت کو کیا روکاوٹ درپیش آرہی ہے-وہ عدالت کے ریکارڈ میں کوئی بات بھی تو درج نہ کرسکے-یہ ایک ایسا حکومتی وکلاء کی ناہلی کا پہلو ہے-جس کا کوئی جواب حکومت کے پاس نہیں ہے-اب اس ناہلی کو چھپانے کے لئے عدالتوں کو نسلی یا لسانی تعصب کا شکار قرار دینا مناسب بات نہیں لگتی ہے-
پی پی پی کے رہنماؤں نے میاں نواز شریف کی طرف سے میمو گیٹ ایشو پر عدالت پر جانے کو جن بنیادوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے-وہ ٹھیک نظر آتے ہیں-کیوں کہ میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو غیر فعال قرار دیا -تو یہ بات ان کے منہ سے اچھی نہیں لگتی-کیونکہ آئینی ترامیم اور قانون سازی کے حوالے سے یہ پارلیمنٹ اپنی پیش رو پارلیمنٹوں سے بہت بہتر کارکردگی کی مالک ہے-بلکہ اس پارلیمنٹ نے تو صوبائی خودمختاری کا ایشو بھی حل کر دیا ہے-جو ٧٣ کی اسمبلی بھی نہیں کر سکی تھی-١٨ وین ترمیم ،این ایف سی ایوارڈ جیسے اقدامات سنہری الفاظ میں لکھےجانے کے قابل اقدامات ہیں-اور ان کو کرنے میں خود مسلم لیگ نواز کا بھی بہت ہاتھ ہے-پاکستان کی یہ واحد پارلیمنٹ ہے -جس میں قائمہ کیمٹیوں میں جہاں حزب اختلاف کی نمائندگی موجود ہے-بلکہ ان کی کارکردگی بھی سابقہ ادوار سے کہیں زیادہ ہے-پبلک اکاونٹس کمیٹی کو جس قدر اختیارات اس پارلیمنٹ میں ملے پہلے کبھی نہیں تھے-اور قومی سلامتی کی قائمہ کیمٹی کو بھی بہت اختیارات ملے-یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا-اور قومی اسمبلی کو غیر فعال کہ دینا ٹھیک نہیں ہے-اس طرح کے فقرے اگمیاں نواز شریف جیسے سیاست دنوں کے منہ سنکلے گیں تو پھر ملک میں جمہوری نظام کا خدا ہی حافظ ہے-
میاں نواز شریف کو سیاسی ایشوز پر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر جدوجہد کرنے سے کوئی نہیں روکتا-لکین اگر وہ عدالتوں میں جائیں گے تو پھر جمہوریت کا سفر ہموار طریقہ سے جاری نہیں رہ سکے گا-لوگ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اگر کچھ سیاسی جماعتیں یہ سوچ لیں کہ ان کو انتخاب کی سیاست سے اقتدار نہیں ملے گا -اور وہ جمہوری طریقہ سے کسی حکومت یا جماعت کو شکست نہیں دے سکتے -تو ان کو اس حکومت کا تختہ یا تو فوج کے ساتھ مل کر کر دینا چاہئے یا عدالت سے ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن لینے کی وہ کوشش کرے تو پھر اس صورت میں آمروں کو اقتدار پر قبضہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا-
پاکستان میں جمہوریت پسند قوتوں کو یہ تشویش بجا طور پر لاحق ہے کہ جب انتظامی امور کا سربراہ وزیر اعظم ہے-اور اسی پر حکومتی اقدمات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو پھر صدر کی ذات پر تنقید کا مطلب کیا ہے-اور جب حزب اختلاف گو زرداری گو کہتی ہے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا حزب اختلاف کی جماعتوں کی نظر میں صدر کا ملک کی اسمبلیوں سے انتخاب کا کوئی مطلوب نہیں بنتا ہے؟کیا صدر زرداری کوئی چور دروازہ استعمال کر کے صدرات کے منصب پر فائز ہوئے ہیں؟پھر ان کے خلاف اس قدر شور کیوں پبا ہے؟مسلم لیگ نواز ایک عوامی جمہوری جماعت ہے-اس کو جمہوری طریقے سے حکمت کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے-
میں سمجھتا ہوں کہ جب تک مسلم لیگ نواز اور پی پی پی نہیں چاہئیں گی ملک میں نہ تو فوجی حکمت آسکتی ہے-اور نہ ہی بنگلہ دیش ماڈل آسکتا ہے-لکین اگر ان دو جماعتوں نے محاز آرائی کا یہ سفر اسی طرح سے جاری رکھا -اور ایک دوسرے کے خلاف اسی لب و لہجہ میں بات جاری رکھی جس میں پہلے سپریم کورٹ کے اندر نواز شریف نے کی -اور بعد میں بابر اعوان نے کی-تو پھر جمہوریت کو واقعی خطرات لاحق ہیں-اور ملک میں جمہوریت کا سفر کسی وقت بھی رک سکتا ہے-
Thursday, November 10, 2011
پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟
پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟
تحریر :عامر حسینی
اس وقت یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اہم کھلاڑی پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکزی فوکس بناے ہوئے ہیں-مسلم لیگ نواز کا جو اجلاس رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کے گھر پر ہوا -اس میں پہلی مرتبہ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی شرکت کی-وہاں سے یہ خبریں ملی ہیں کہ مریم نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارا جا رہا ہے-ان کو سیاست میں اتارے جانے کا ایک تو مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں خواتین کے اندر مسلم لیگ نواز کو مقبول بنانا مقصود ہے-مسلم لیگ نواز کے لوگوں کے مطابق اس وقت مسلم لیگ کو ایسی نوجوان خاتون کی اشد ضرورت ہے جو پنجاب میں تاجروں،مڈل کلاس پرتوں کی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین کو پاکستان تحریک انصاف میں جانے سے روک سکے-اس سے قبل میں نواز شریف اور شہباز شریف نے حمزہ شیباز شریف کو میدان میں اس لئے اتارا تھا کہ وہ نوجوانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کر سکیں-لکین لگتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کی امیدوں پر اس طرح سے پورا نہیں اترے -جس کی امید کی جا رہی تھی-وہ مسلم لیگ کے نوجوانوں کے لئے متاثر کن اور سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت ثابت نہیں ہو سکے-مریم نواز کی سیاست میں آمد مسلم لیگ نواز کے لئے سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوسکے گی-پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بلاول کو پہلے لئے سیاست کے میدان میں اتار چکے ہیں-ان کے لئے لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی چن لیا گیا ہے-جبکہ یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے قادر گیلانی کو متحرک کر دیا ہے-دوسری طرف شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتار چکے ہیں-چوہدری برداران مونس الہی کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ پاکستان کے طاقتور سیاستدانوں کی نوجوان اولاد پاکستانی سیاست میں کسی تبدلی کا سبب بن سکے گی؟کیا پاکستان کی نوجوان نسل ان نوجوان چہروں کی تازگی سے متاثر ہو کر ان کو اپنا رہبر اور رہنما ماں لیں گے؟یہ سوالات ایسے ہیں کہ ان کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ یہ نوجوان اپنے اپنے خاندان کے سیاسی ورثہ کو بچانے کے لئے میدان میں آئے ہیں-ان کے پیش نظر سیاست پر اپنے خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے کا ہدف زیادہ اور پہلی اہمیت کا حامل ہے-ان نوجوان لیڈروں کو جہاں اپنے خاندانوں کی سیاسی پہچان کا فائدہ ہے-وہاں پر ان خاندانوں کے ساتھ جو بدنامیاں لگی ہوئی ہیں ان کا نقصان بھی کافی ہے-مرمیم نواز شریف پنجاب کی نوجوان خواتین کو اس وقت متاثر کر سکتی ہیں -جب وہ کم از کم نواز لیگ کے روایتی سلوگنز سے ہٹ کر اس نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کریں-یہ بات بہت واضح ہے کہ پنجاب کی شہری آبادی کے نوجوان مرد اور عورتوں کی اکثریت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی سیاست سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف جا رہی ہے-یہ نوجوان ٨٨ کے بعد سے لیکر اب تک چلی آنے والی سیاست سے بہت زیادہ بیزار ہیں-یہ کرپشن کے خلاف تو ہیں ہی-یہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے ڈسے ہوئے بھی ہیں-اسی لئے ان کو عمران خان کی طرف سے میرٹ اور انصاف کو سلوگن بہت زیادہ اپیل کر رہا ہے-پنجاب کے اربن مرکز میں خصوصی طور پر اور پورے پنجاب میں عمومی طور پر پڑھے لکھ نوجوانوں میں سفارش ،بے انصافی اور کرپشیں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے-اور یہ نوجوان نسل ان تین برائیوں کا سبب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو خیال کرتی ہے-مسلم لیگ نواز ہی پنجاب میں نوجوان نسل کی حمایت سے محروم نہیں ہو رہی بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی نوجوان نسل کی طرف سے حمیت نہیں مل رہی ہے-مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کو لکھ اسٹبلشمنٹ کی جماعت کہیں-عمران خان کی اصلاح پسندی پر مجھ سمیت دوسرے لوگ کتنی ہی ٹھوس تنقید کر لیں-پنجاب کی خصوصی طور پر نوجوان نسل روایتی سیاسی جماعتوں سے باغی ہو چکی ہے-مریم نواز ،بلاول بھٹو زرداری کی طرف اس نوجوان نسل کا جھکاؤ ایک مشکل ٹاسک نظر آ رہا ہے-
پی پی پی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا سوچ رہی ہے -اس کا اندازہ ہم یوں کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاست کے محور پنجاب میں سب سے زیادہ پنجاب کی تقسیم کے ایشو کو بنا رکھا ہے-پی پی پی اپر پنجاب کے حوالے سے شائد کسی حد تک خود کو ناکام خیال کر رہی ہے-کیونکہ اپر پنجاب میں اس کے پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں ہے جو وہاں لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا رکھ سکے-اپر پنجاب میں پی پی پی کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ وہاں پر محنت کشوں کی سیاست کا ایجنڈہ لیکر سامنے آتی-لکین اس کی جاگیردار اور سرمایہ دار قیادت کی موقعہ پرستی اس کو ایسا کوئی بھی ایجنڈہ سامنے لیکر آنے سے روک رہی ہے-اپر پنجاب میں اس کے پاس زمینداروں،متوسط طبقے کے سیاسی لیڈروں اور سرمایہ داروں سے تعلق رکھنے والی جو قیادت ہے -ان کو اپنے اپنے طبقے میں وہ اثر رسوخ نہیں ہے جو مسلم لیگ نواز کی قیادت کو حاصل ہے-یا اب تحریک انصاف کو ملا ہوا ہے-اس لئے وہاں پر پی پی پی کی خواہش یہ ہے کہ یشن دائیں بازو کا پی پی پی مخالف ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور اپر پنجاب سے کوئی بھی پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر نا ابھرے-جبکہ وہ جنوبی پنجاب میں سیاست کو الگ صوبے کے ایشو کے گرد ہی رکھنا چاہتی ہے-اسی لئے پی پی پی نے پنجاب کی تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے-وسطی پنجاب کی تنظیم اس وقت ساہیوال ،لاہور،فیصل آباد ،راول پنڈی ،گوجرانوالہ ،سرگودھا ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر اب صفدر ورائچ ہیں-جبکہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ملتان،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان ،ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر مخدوم شہاب الدین کو بنایا گیا ہے-انھوں نے صدر بننے کے ساتھ ہی شد و مد سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات شروع کی ہے-آنے والے دنوں میں پی پی پی جنوبی پنجاب کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ساری سیاست کا محور و مرکز الگ صوبہ کو بنائے-یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کی وجہ سے اس خطہ میں نا صرف مسلم لیگ نواز دفاعی انداز میں کھیلنے پر مجبور ہے-بلکہ یہاں پی پی پی سے ناراض شاہ محمود قریشی کا گروپ اور مسلم لیگ ق کے پی پی پی سے اتحاد کی وجہ سے الگ رہ کی تلاش میں نکلے ڈیرہ غازی خان کے لغاری اور رحیم یار خان کے ترین بھی مشکل کا شکار ہوں گے-پی پی پی جنوبی پنجاب میں جمشید دستی سے ردکل اور تیز تر کام لے سکتی ہے-جو اس کے حریفوں کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے-شاہ محمود قریشی اور مرزا ذوالفقار کے گروپ ایسے ہیں جو جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں-صدر زرداری جن کو بہترین سیاسی کھلاڑی کہا جا رہا ہے-اب تک ان دو بڑوں کے ساتھ نمٹنے میں ناکام رہے ہیں-شہمھمود قریشی اگر تحریک انصاف میں نہیں جاتے -اور ذوالفقار مرزا بھی کسی اور جگہ نہیں جاتے -اور پی پی پی کے لیبل کو بھی نہیں اتارتے -اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ شہید بنظر بھٹو کی سیاسی میراث کے دعوے دار بھی رہتے ہیں-اور وہ کرپشن اور ملکی اداروں کی بعد حالی کے سلوگنز کو بھی ساتھ رکھتے ہیں -تو پھر جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کے اندر اور باہر سے وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں-جو پی پی پی کے کارکن یا حامی تصور کے جاتے ہیں-جنوبی پنجاب اور سندھ میں شاہ محمود اور ذوالفقار مرزا کی طرح کچھ اور سیاست دان بھی ہیں-جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں-اور ان کی شہرت بھی نیک ہے-یہ سارے لوگ اگر پی پی پی کے شریک چیرمین کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہو گئے-اور یہ آگے چل کر موجودہ حکومت کے خلاف محرم کے بعد تحریک چلنے پر اتفاق کر لیتے ہیں -تو پھر سیاسی نقشہ وہ نہیں ہوگا -جو پی پی پی اپنے ذھن میں رکھے ہوئے ہے-تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو مختلف قوتیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ وہ اگلے انتخاب کا انتظار نہ کریں-سینٹ کے انتخاب سے قبل ہی اسلام آباد کا رکھ کر لیں-زرداری ہٹاؤ مہم چلائی جائے-میاں نواز شریف زرداری ہٹاؤ مہم پر اتفاق کرچکے ہیں-ان کی طرف سے یہ عندیہ نظر آ رہا ہے کہ وہ محرم کے بعد زرداری ہٹاؤ تحریک کو نکلی سطح تک لے جائیں گے-جب کہ عمران خان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بھی چند دنوں تک کوئی اصولی فیصلہ لینے والی ہے-شہمھمود قریشی ٢٧ نومبر کو گھوٹکی جلسہ میں ملک بچاؤ مہم کا آغاز کرنے والے ہیں-ذولفقار مرزا بھی سندھ کے شہروں میں جلسے کر رہے ہیں-سندھی قوم پرست بھی میدان میں آ رہے ہیں-ان سب کی مہم کا مقصد مرکزی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہیں-اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آئینی راستہ تو ہے نہیں-اگر لانگ مارچ ہوتا ہے-حکومت تحریک کو زبردستی روکتی ہے-سیاسی جبر کا دور آتا ہے تو کیا یہ طریقہ پی پی پی کی حکومت کو فوجی مداخلت سے بچا سکے گا؟اگر فوج اور مقتدر طاقتیں صدر زرداری کو استعفا دینے پر مجبور کرتی ہیں تو کیا صدر زرداری ایسا کر دین گے؟صدر زرداری ایسا نہیں کرتے اور جواب میں فوج زبردستی ایسا کرتی ہے تو کیا حزب اختلاف کی پارٹیوں میں پھر سے پہلے انتخاب پھر احتساب یا پہلے احتساب پھر انتخاب والا اختلاف سامنے نہیں آئے گا؟یہی وہ اختلاف تھا جس نے قومی اتحاد میں پھوٹ ڈلوا دی تھی-اور ضیاء الحق ١١ سال حکومت کرتے رہے تھے-نوجوان نسل پاکستان میں کرپٹ سیاسی سماجی نظام سے نجات کے لئے سڑکوں پی آنے کے لئے بچیں ہے-سڑکوں پر یہ نئی نسل اگر ای تو پھر ان کی جدوجہد صرف زرداری ہٹاؤ مہم تک محدود نہیں رہے گی-اگر اس تحریک میں محنت کش طبقہ بھی شامل ہوگیا تو پھر یہ تحریک اور کئی قسم کے زیادہ ریڈکل سلوگنز کو بھی اپنا سکتی ہے-یہ تحریک ارب انقلاب کی تراز بھی اختیار کر سکتی ہے-جب حکومت کو ہٹائے جانے کے لئے سڑک سیاست کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح کے امکانات اور خدشات چھپے ہوتے ہیں-اور تحریک بھی پھر لیڈروں کی آرزوں کے مطابق نہیں چلا کرتی -یہ وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان،میاں نواز شریف،شاہ محمود اور دیگر حکمران طبقات کے لوگ تحریک کو فی الفور چلانے میں تذبذب کا شکار ہیں-حکمران طبقات کی یہ تقسیم اور تذبذب نیچے سے بحران کے نیتجے میں اٹھنے والی بے چینی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے باہر نکل کے آنے کے خطرے کو دور نہیں کر سکتے-معاشی بحران،مہنگائی میں اضافہ ،بے روزگاری کا طوفان،مسلسل بیروزگار ہوتے مزدور ،اور بند ہوتے کارخانے اور تباہ ہوتے چھوٹے کاروبار ،مڈل کلاس پرتوں پر بڑھتا ہوا بوجھ کسی بھی وقت عوام کی مختلف پرتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر سکتا ہے-اور ایک بڑا سیاسی سماجی عبار دیکھنے کو مل سکتا ہے-
تحریر :عامر حسینی
اس وقت یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اہم کھلاڑی پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکزی فوکس بناے ہوئے ہیں-مسلم لیگ نواز کا جو اجلاس رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کے گھر پر ہوا -اس میں پہلی مرتبہ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی شرکت کی-وہاں سے یہ خبریں ملی ہیں کہ مریم نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارا جا رہا ہے-ان کو سیاست میں اتارے جانے کا ایک تو مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں خواتین کے اندر مسلم لیگ نواز کو مقبول بنانا مقصود ہے-مسلم لیگ نواز کے لوگوں کے مطابق اس وقت مسلم لیگ کو ایسی نوجوان خاتون کی اشد ضرورت ہے جو پنجاب میں تاجروں،مڈل کلاس پرتوں کی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین کو پاکستان تحریک انصاف میں جانے سے روک سکے-اس سے قبل میں نواز شریف اور شہباز شریف نے حمزہ شیباز شریف کو میدان میں اس لئے اتارا تھا کہ وہ نوجوانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کر سکیں-لکین لگتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کی امیدوں پر اس طرح سے پورا نہیں اترے -جس کی امید کی جا رہی تھی-وہ مسلم لیگ کے نوجوانوں کے لئے متاثر کن اور سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت ثابت نہیں ہو سکے-مریم نواز کی سیاست میں آمد مسلم لیگ نواز کے لئے سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوسکے گی-پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بلاول کو پہلے لئے سیاست کے میدان میں اتار چکے ہیں-ان کے لئے لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی چن لیا گیا ہے-جبکہ یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے قادر گیلانی کو متحرک کر دیا ہے-دوسری طرف شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتار چکے ہیں-چوہدری برداران مونس الہی کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ پاکستان کے طاقتور سیاستدانوں کی نوجوان اولاد پاکستانی سیاست میں کسی تبدلی کا سبب بن سکے گی؟کیا پاکستان کی نوجوان نسل ان نوجوان چہروں کی تازگی سے متاثر ہو کر ان کو اپنا رہبر اور رہنما ماں لیں گے؟یہ سوالات ایسے ہیں کہ ان کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ یہ نوجوان اپنے اپنے خاندان کے سیاسی ورثہ کو بچانے کے لئے میدان میں آئے ہیں-ان کے پیش نظر سیاست پر اپنے خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے کا ہدف زیادہ اور پہلی اہمیت کا حامل ہے-ان نوجوان لیڈروں کو جہاں اپنے خاندانوں کی سیاسی پہچان کا فائدہ ہے-وہاں پر ان خاندانوں کے ساتھ جو بدنامیاں لگی ہوئی ہیں ان کا نقصان بھی کافی ہے-مرمیم نواز شریف پنجاب کی نوجوان خواتین کو اس وقت متاثر کر سکتی ہیں -جب وہ کم از کم نواز لیگ کے روایتی سلوگنز سے ہٹ کر اس نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کریں-یہ بات بہت واضح ہے کہ پنجاب کی شہری آبادی کے نوجوان مرد اور عورتوں کی اکثریت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی سیاست سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف جا رہی ہے-یہ نوجوان ٨٨ کے بعد سے لیکر اب تک چلی آنے والی سیاست سے بہت زیادہ بیزار ہیں-یہ کرپشن کے خلاف تو ہیں ہی-یہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے ڈسے ہوئے بھی ہیں-اسی لئے ان کو عمران خان کی طرف سے میرٹ اور انصاف کو سلوگن بہت زیادہ اپیل کر رہا ہے-پنجاب کے اربن مرکز میں خصوصی طور پر اور پورے پنجاب میں عمومی طور پر پڑھے لکھ نوجوانوں میں سفارش ،بے انصافی اور کرپشیں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے-اور یہ نوجوان نسل ان تین برائیوں کا سبب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو خیال کرتی ہے-مسلم لیگ نواز ہی پنجاب میں نوجوان نسل کی حمایت سے محروم نہیں ہو رہی بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی نوجوان نسل کی طرف سے حمیت نہیں مل رہی ہے-مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کو لکھ اسٹبلشمنٹ کی جماعت کہیں-عمران خان کی اصلاح پسندی پر مجھ سمیت دوسرے لوگ کتنی ہی ٹھوس تنقید کر لیں-پنجاب کی خصوصی طور پر نوجوان نسل روایتی سیاسی جماعتوں سے باغی ہو چکی ہے-مریم نواز ،بلاول بھٹو زرداری کی طرف اس نوجوان نسل کا جھکاؤ ایک مشکل ٹاسک نظر آ رہا ہے-
پی پی پی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا سوچ رہی ہے -اس کا اندازہ ہم یوں کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاست کے محور پنجاب میں سب سے زیادہ پنجاب کی تقسیم کے ایشو کو بنا رکھا ہے-پی پی پی اپر پنجاب کے حوالے سے شائد کسی حد تک خود کو ناکام خیال کر رہی ہے-کیونکہ اپر پنجاب میں اس کے پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں ہے جو وہاں لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا رکھ سکے-اپر پنجاب میں پی پی پی کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ وہاں پر محنت کشوں کی سیاست کا ایجنڈہ لیکر سامنے آتی-لکین اس کی جاگیردار اور سرمایہ دار قیادت کی موقعہ پرستی اس کو ایسا کوئی بھی ایجنڈہ سامنے لیکر آنے سے روک رہی ہے-اپر پنجاب میں اس کے پاس زمینداروں،متوسط طبقے کے سیاسی لیڈروں اور سرمایہ داروں سے تعلق رکھنے والی جو قیادت ہے -ان کو اپنے اپنے طبقے میں وہ اثر رسوخ نہیں ہے جو مسلم لیگ نواز کی قیادت کو حاصل ہے-یا اب تحریک انصاف کو ملا ہوا ہے-اس لئے وہاں پر پی پی پی کی خواہش یہ ہے کہ یشن دائیں بازو کا پی پی پی مخالف ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور اپر پنجاب سے کوئی بھی پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر نا ابھرے-جبکہ وہ جنوبی پنجاب میں سیاست کو الگ صوبے کے ایشو کے گرد ہی رکھنا چاہتی ہے-اسی لئے پی پی پی نے پنجاب کی تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے-وسطی پنجاب کی تنظیم اس وقت ساہیوال ،لاہور،فیصل آباد ،راول پنڈی ،گوجرانوالہ ،سرگودھا ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر اب صفدر ورائچ ہیں-جبکہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ملتان،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان ،ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر مخدوم شہاب الدین کو بنایا گیا ہے-انھوں نے صدر بننے کے ساتھ ہی شد و مد سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات شروع کی ہے-آنے والے دنوں میں پی پی پی جنوبی پنجاب کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ساری سیاست کا محور و مرکز الگ صوبہ کو بنائے-یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کی وجہ سے اس خطہ میں نا صرف مسلم لیگ نواز دفاعی انداز میں کھیلنے پر مجبور ہے-بلکہ یہاں پی پی پی سے ناراض شاہ محمود قریشی کا گروپ اور مسلم لیگ ق کے پی پی پی سے اتحاد کی وجہ سے الگ رہ کی تلاش میں نکلے ڈیرہ غازی خان کے لغاری اور رحیم یار خان کے ترین بھی مشکل کا شکار ہوں گے-پی پی پی جنوبی پنجاب میں جمشید دستی سے ردکل اور تیز تر کام لے سکتی ہے-جو اس کے حریفوں کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے-شاہ محمود قریشی اور مرزا ذوالفقار کے گروپ ایسے ہیں جو جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں-صدر زرداری جن کو بہترین سیاسی کھلاڑی کہا جا رہا ہے-اب تک ان دو بڑوں کے ساتھ نمٹنے میں ناکام رہے ہیں-شہمھمود قریشی اگر تحریک انصاف میں نہیں جاتے -اور ذوالفقار مرزا بھی کسی اور جگہ نہیں جاتے -اور پی پی پی کے لیبل کو بھی نہیں اتارتے -اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ شہید بنظر بھٹو کی سیاسی میراث کے دعوے دار بھی رہتے ہیں-اور وہ کرپشن اور ملکی اداروں کی بعد حالی کے سلوگنز کو بھی ساتھ رکھتے ہیں -تو پھر جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کے اندر اور باہر سے وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں-جو پی پی پی کے کارکن یا حامی تصور کے جاتے ہیں-جنوبی پنجاب اور سندھ میں شاہ محمود اور ذوالفقار مرزا کی طرح کچھ اور سیاست دان بھی ہیں-جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں-اور ان کی شہرت بھی نیک ہے-یہ سارے لوگ اگر پی پی پی کے شریک چیرمین کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہو گئے-اور یہ آگے چل کر موجودہ حکومت کے خلاف محرم کے بعد تحریک چلنے پر اتفاق کر لیتے ہیں -تو پھر سیاسی نقشہ وہ نہیں ہوگا -جو پی پی پی اپنے ذھن میں رکھے ہوئے ہے-تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو مختلف قوتیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ وہ اگلے انتخاب کا انتظار نہ کریں-سینٹ کے انتخاب سے قبل ہی اسلام آباد کا رکھ کر لیں-زرداری ہٹاؤ مہم چلائی جائے-میاں نواز شریف زرداری ہٹاؤ مہم پر اتفاق کرچکے ہیں-ان کی طرف سے یہ عندیہ نظر آ رہا ہے کہ وہ محرم کے بعد زرداری ہٹاؤ تحریک کو نکلی سطح تک لے جائیں گے-جب کہ عمران خان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بھی چند دنوں تک کوئی اصولی فیصلہ لینے والی ہے-شہمھمود قریشی ٢٧ نومبر کو گھوٹکی جلسہ میں ملک بچاؤ مہم کا آغاز کرنے والے ہیں-ذولفقار مرزا بھی سندھ کے شہروں میں جلسے کر رہے ہیں-سندھی قوم پرست بھی میدان میں آ رہے ہیں-ان سب کی مہم کا مقصد مرکزی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہیں-اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آئینی راستہ تو ہے نہیں-اگر لانگ مارچ ہوتا ہے-حکومت تحریک کو زبردستی روکتی ہے-سیاسی جبر کا دور آتا ہے تو کیا یہ طریقہ پی پی پی کی حکومت کو فوجی مداخلت سے بچا سکے گا؟اگر فوج اور مقتدر طاقتیں صدر زرداری کو استعفا دینے پر مجبور کرتی ہیں تو کیا صدر زرداری ایسا کر دین گے؟صدر زرداری ایسا نہیں کرتے اور جواب میں فوج زبردستی ایسا کرتی ہے تو کیا حزب اختلاف کی پارٹیوں میں پھر سے پہلے انتخاب پھر احتساب یا پہلے احتساب پھر انتخاب والا اختلاف سامنے نہیں آئے گا؟یہی وہ اختلاف تھا جس نے قومی اتحاد میں پھوٹ ڈلوا دی تھی-اور ضیاء الحق ١١ سال حکومت کرتے رہے تھے-نوجوان نسل پاکستان میں کرپٹ سیاسی سماجی نظام سے نجات کے لئے سڑکوں پی آنے کے لئے بچیں ہے-سڑکوں پر یہ نئی نسل اگر ای تو پھر ان کی جدوجہد صرف زرداری ہٹاؤ مہم تک محدود نہیں رہے گی-اگر اس تحریک میں محنت کش طبقہ بھی شامل ہوگیا تو پھر یہ تحریک اور کئی قسم کے زیادہ ریڈکل سلوگنز کو بھی اپنا سکتی ہے-یہ تحریک ارب انقلاب کی تراز بھی اختیار کر سکتی ہے-جب حکومت کو ہٹائے جانے کے لئے سڑک سیاست کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح کے امکانات اور خدشات چھپے ہوتے ہیں-اور تحریک بھی پھر لیڈروں کی آرزوں کے مطابق نہیں چلا کرتی -یہ وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان،میاں نواز شریف،شاہ محمود اور دیگر حکمران طبقات کے لوگ تحریک کو فی الفور چلانے میں تذبذب کا شکار ہیں-حکمران طبقات کی یہ تقسیم اور تذبذب نیچے سے بحران کے نیتجے میں اٹھنے والی بے چینی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے باہر نکل کے آنے کے خطرے کو دور نہیں کر سکتے-معاشی بحران،مہنگائی میں اضافہ ،بے روزگاری کا طوفان،مسلسل بیروزگار ہوتے مزدور ،اور بند ہوتے کارخانے اور تباہ ہوتے چھوٹے کاروبار ،مڈل کلاس پرتوں پر بڑھتا ہوا بوجھ کسی بھی وقت عوام کی مختلف پرتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر سکتا ہے-اور ایک بڑا سیاسی سماجی عبار دیکھنے کو مل سکتا ہے-
پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟
پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہونے والا ہے؟
تحریر :عامر حسینی
اس وقت یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اہم کھلاڑی پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکزی فوکس بناے ہوئے ہیں-مسلم لیگ نواز کا جو اجلاس رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کے گھر پر ہوا -اس میں پہلی مرتبہ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی شرکت کی-وہاں سے یہ خبریں ملی ہیں کہ مریم نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارا جا رہا ہے-ان کو سیاست میں اتارے جانے کا ایک تو مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں خواتین کے اندر مسلم لیگ نواز کو مقبول بنانا مقصود ہے-مسلم لیگ نواز کے لوگوں کے مطابق اس وقت مسلم لیگ کو ایسی نوجوان خاتون کی اشد ضرورت ہے جو پنجاب میں تاجروں،مڈل کلاس پرتوں کی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین کو پاکستان تحریک انصاف میں جانے سے روک سکے-اس سے قبل میں نواز شریف اور شہباز شریف نے حمزہ شیباز شریف کو میدان میں اس لئے اتارا تھا کہ وہ نوجوانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کر سکیں-لکین لگتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کی امیدوں پر اس طرح سے پورا نہیں اترے -جس کی امید کی جا رہی تھی-وہ مسلم لیگ کے نوجوانوں کے لئے متاثر کن اور سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت ثابت نہیں ہو سکے-مریم نواز کی سیاست میں آمد مسلم لیگ نواز کے لئے سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوسکے گی-پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بلاول کو پہلے لئے سیاست کے میدان میں اتار چکے ہیں-ان کے لئے لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی چن لیا گیا ہے-جبکہ یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے قادر گیلانی کو متحرک کر دیا ہے-دوسری طرف شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتار چکے ہیں-چوہدری برداران مونس الہی کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ پاکستان کے طاقتور سیاستدانوں کی نوجوان اولاد پاکستانی سیاست میں کسی تبدلی کا سبب بن سکے گی؟کیا پاکستان کی نوجوان نسل ان نوجوان چہروں کی تازگی سے متاثر ہو کر ان کو اپنا رہبر اور رہنما ماں لیں گے؟یہ سوالات ایسے ہیں کہ ان کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ یہ نوجوان اپنے اپنے خاندان کے سیاسی ورثہ کو بچانے کے لئے میدان میں آئے ہیں-ان کے پیش نظر سیاست پر اپنے خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے کا ہدف زیادہ اور پہلی اہمیت کا حامل ہے-ان نوجوان لیڈروں کو جہاں اپنے خاندانوں کی سیاسی پہچان کا فائدہ ہے-وہاں پر ان خاندانوں کے ساتھ جو بدنامیاں لگی ہوئی ہیں ان کا نقصان بھی کافی ہے-مرمیم نواز شریف پنجاب کی نوجوان خواتین کو اس وقت متاثر کر سکتی ہیں -جب وہ کم از کم نواز لیگ کے روایتی سلوگنز سے ہٹ کر اس نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کریں-یہ بات بہت واضح ہے کہ پنجاب کی شہری آبادی کے نوجوان مرد اور عورتوں کی اکثریت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی سیاست سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف جا رہی ہے-یہ نوجوان ٨٨ کے بعد سے لیکر اب تک چلی آنے والی سیاست سے بہت زیادہ بیزار ہیں-یہ کرپشن کے خلاف تو ہیں ہی-یہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے ڈسے ہوئے بھی ہیں-اسی لئے ان کو عمران خان کی طرف سے میرٹ اور انصاف کو سلوگن بہت زیادہ اپیل کر رہا ہے-پنجاب کے اربن مرکز میں خصوصی طور پر اور پورے پنجاب میں عمومی طور پر پڑھے لکھ نوجوانوں میں سفارش ،بے انصافی اور کرپشیں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے-اور یہ نوجوان نسل ان تین برائیوں کا سبب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو خیال کرتی ہے-مسلم لیگ نواز ہی پنجاب میں نوجوان نسل کی حمایت سے محروم نہیں ہو رہی بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی نوجوان نسل کی طرف سے حمیت نہیں مل رہی ہے-مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کو لکھ اسٹبلشمنٹ کی جماعت کہیں-عمران خان کی اصلاح پسندی پر مجھ سمیت دوسرے لوگ کتنی ہی ٹھوس تنقید کر لیں-پنجاب کی خصوصی طور پر نوجوان نسل روایتی سیاسی جماعتوں سے باغی ہو چکی ہے-مریم نواز ،بلاول بھٹو زرداری کی طرف اس نوجوان نسل کا جھکاؤ ایک مشکل ٹاسک نظر آ رہا ہے-
پی پی پی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا سوچ رہی ہے -اس کا اندازہ ہم یوں کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاست کے محور پنجاب میں سب سے زیادہ پنجاب کی تقسیم کے ایشو کو بنا رکھا ہے-پی پی پی اپر پنجاب کے حوالے سے شائد کسی حد تک خود کو ناکام خیال کر رہی ہے-کیونکہ اپر پنجاب میں اس کے پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں ہے جو وہاں لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا رکھ سکے-اپر پنجاب میں پی پی پی کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ وہاں پر محنت کشوں کی سیاست کا ایجنڈہ لیکر سامنے آتی-لکین اس کی جاگیردار اور سرمایہ دار قیادت کی موقعہ پرستی اس کو ایسا کوئی بھی ایجنڈہ سامنے لیکر آنے سے روک رہی ہے-اپر پنجاب میں اس کے پاس زمینداروں،متوسط طبقے کے سیاسی لیڈروں اور سرمایہ داروں سے تعلق رکھنے والی جو قیادت ہے -ان کو اپنے اپنے طبقے میں وہ اثر رسوخ نہیں ہے جو مسلم لیگ نواز کی قیادت کو حاصل ہے-یا اب تحریک انصاف کو ملا ہوا ہے-اس لئے وہاں پر پی پی پی کی خواہش یہ ہے کہ یشن دائیں بازو کا پی پی پی مخالف ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور اپر پنجاب سے کوئی بھی پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر نا ابھرے-جبکہ وہ جنوبی پنجاب میں سیاست کو الگ صوبے کے ایشو کے گرد ہی رکھنا چاہتی ہے-اسی لئے پی پی پی نے پنجاب کی تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے-وسطی پنجاب کی تنظیم اس وقت ساہیوال ،لاہور،فیصل آباد ،راول پنڈی ،گوجرانوالہ ،سرگودھا ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر اب صفدر ورائچ ہیں-جبکہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ملتان،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان ،ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر مخدوم شہاب الدین کو بنایا گیا ہے-انھوں نے صدر بننے کے ساتھ ہی شد و مد سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات شروع کی ہے-آنے والے دنوں میں پی پی پی جنوبی پنجاب کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ساری سیاست کا محور و مرکز الگ صوبہ کو بنائے-یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کی وجہ سے اس خطہ میں نا صرف مسلم لیگ نواز دفاعی انداز میں کھیلنے پر مجبور ہے-بلکہ یہاں پی پی پی سے ناراض شاہ محمود قریشی کا گروپ اور مسلم لیگ ق کے پی پی پی سے اتحاد کی وجہ سے الگ رہ کی تلاش میں نکلے ڈیرہ غازی خان کے لغاری اور رحیم یار خان کے ترین بھی مشکل کا شکار ہوں گے-پی پی پی جنوبی پنجاب میں جمشید دستی سے ردکل اور تیز تر کام لے سکتی ہے-جو اس کے حریفوں کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے-شاہ محمود قریشی اور مرزا ذوالفقار کے گروپ ایسے ہیں جو جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں-صدر زرداری جن کو بہترین سیاسی کھلاڑی کہا جا رہا ہے-اب تک ان دو بڑوں کے ساتھ نمٹنے میں ناکام رہے ہیں-شہمھمود قریشی اگر تحریک انصاف میں نہیں جاتے -اور ذوالفقار مرزا بھی کسی اور جگہ نہیں جاتے -اور پی پی پی کے لیبل کو بھی نہیں اتارتے -اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ شہید بنظر بھٹو کی سیاسی میراث کے دعوے دار بھی رہتے ہیں-اور وہ کرپشن اور ملکی اداروں کی بعد حالی کے سلوگنز کو بھی ساتھ رکھتے ہیں -تو پھر جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کے اندر اور باہر سے وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں-جو پی پی پی کے کارکن یا حامی تصور کے جاتے ہیں-جنوبی پنجاب اور سندھ میں شاہ محمود اور ذوالفقار مرزا کی طرح کچھ اور سیاست دان بھی ہیں-جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں-اور ان کی شہرت بھی نیک ہے-یہ سارے لوگ اگر پی پی پی کے شریک چیرمین کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہو گئے-اور یہ آگے چل کر موجودہ حکومت کے خلاف محرم کے بعد تحریک چلنے پر اتفاق کر لیتے ہیں -تو پھر سیاسی نقشہ وہ نہیں ہوگا -جو پی پی پی اپنے ذھن میں رکھے ہوئے ہے-تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو مختلف قوتیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ وہ اگلے انتخاب کا انتظار نہ کریں-سینٹ کے انتخاب سے قبل ہی اسلام آباد کا رکھ کر لیں-زرداری ہٹاؤ مہم چلائی جائے-میاں نواز شریف زرداری ہٹاؤ مہم پر اتفاق کرچکے ہیں-ان کی طرف سے یہ عندیہ نظر آ رہا ہے کہ وہ محرم کے بعد زرداری ہٹاؤ تحریک کو نکلی سطح تک لے جائیں گے-جب کہ عمران خان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بھی چند دنوں تک کوئی اصولی فیصلہ لینے والی ہے-شہمھمود قریشی ٢٧ نومبر کو گھوٹکی جلسہ میں ملک بچاؤ مہم کا آغاز کرنے والے ہیں-ذولفقار مرزا بھی سندھ کے شہروں میں جلسے کر رہے ہیں-سندھی قوم پرست بھی میدان میں آ رہے ہیں-ان سب کی مہم کا مقصد مرکزی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہیں-اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آئینی راستہ تو ہے نہیں-اگر لانگ مارچ ہوتا ہے-حکومت تحریک کو زبردستی روکتی ہے-سیاسی جبر کا دور آتا ہے تو کیا یہ طریقہ پی پی پی کی حکومت کو فوجی مداخلت سے بچا سکے گا؟اگر فوج اور مقتدر طاقتیں صدر زرداری کو استعفا دینے پر مجبور کرتی ہیں تو کیا صدر زرداری ایسا کر دین گے؟صدر زرداری ایسا نہیں کرتے اور جواب میں فوج زبردستی ایسا کرتی ہے تو کیا حزب اختلاف کی پارٹیوں میں پھر سے پہلے انتخاب پھر احتساب یا پہلے احتساب پھر انتخاب والا اختلاف سامنے نہیں آئے گا؟یہی وہ اختلاف تھا جس نے قومی اتحاد میں پھوٹ ڈلوا دی تھی-اور ضیاء الحق ١١ سال حکومت کرتے رہے تھے-نوجوان نسل پاکستان میں کرپٹ سیاسی سماجی نظام سے نجات کے لئے سڑکوں پی آنے کے لئے بچیں ہے-سڑکوں پر یہ نئی نسل اگر ای تو پھر ان کی جدوجہد صرف زرداری ہٹاؤ مہم تک محدود نہیں رہے گی-اگر اس تحریک میں محنت کش طبقہ بھی شامل ہوگیا تو پھر یہ تحریک اور کئی قسم کے زیادہ ریڈکل سلوگنز کو بھی اپنا سکتی ہے-یہ تحریک ارب انقلاب کی تراز بھی اختیار کر سکتی ہے-جب حکومت کو ہٹائے جانے کے لئے سڑک سیاست کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح کے امکانات اور خدشات چھپے ہوتے ہیں-اور تحریک بھی پھر لیڈروں کی آرزوں کے مطابق نہیں چلا کرتی -یہ وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان،میاں نواز شریف،شاہ محمود اور دیگر حکمران طبقات کے لوگ تحریک کو فی الفور چلانے میں تذبذب کا شکار ہیں-حکمران طبقات کی یہ تقسیم اور تذبذب نیچے سے بحران کے نیتجے میں اٹھنے والی بے چینی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے باہر نکل کے آنے کے خطرے کو دور نہیں کر سکتے-معاشی بحران،مہنگائی میں اضافہ ،بے روزگاری کا طوفان،مسلسل بیروزگار ہوتے مزدور ،اور بند ہوتے کارخانے اور تباہ ہوتے چھوٹے کاروبار ،مڈل کلاس پرتوں پر بڑھتا ہوا بوجھ کسی بھی وقت عوام کی مختلف پرتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر سکتا ہے-اور ایک بڑا سیاسی سماجی عبار دیکھنے کو مل سکتا ہے-
تحریر :عامر حسینی
اس وقت یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اہم کھلاڑی پنجاب کو اپنی سیاست کا مرکزی فوکس بناے ہوئے ہیں-مسلم لیگ نواز کا جو اجلاس رائے ونڈ میں میاں نواز شریف کے گھر پر ہوا -اس میں پہلی مرتبہ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی شرکت کی-وہاں سے یہ خبریں ملی ہیں کہ مریم نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارا جا رہا ہے-ان کو سیاست میں اتارے جانے کا ایک تو مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں خواتین کے اندر مسلم لیگ نواز کو مقبول بنانا مقصود ہے-مسلم لیگ نواز کے لوگوں کے مطابق اس وقت مسلم لیگ کو ایسی نوجوان خاتون کی اشد ضرورت ہے جو پنجاب میں تاجروں،مڈل کلاس پرتوں کی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین کو پاکستان تحریک انصاف میں جانے سے روک سکے-اس سے قبل میں نواز شریف اور شہباز شریف نے حمزہ شیباز شریف کو میدان میں اس لئے اتارا تھا کہ وہ نوجوانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کر سکیں-لکین لگتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کی امیدوں پر اس طرح سے پورا نہیں اترے -جس کی امید کی جا رہی تھی-وہ مسلم لیگ کے نوجوانوں کے لئے متاثر کن اور سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت ثابت نہیں ہو سکے-مریم نواز کی سیاست میں آمد مسلم لیگ نواز کے لئے سیاست میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوسکے گی-پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بلاول کو پہلے لئے سیاست کے میدان میں اتار چکے ہیں-ان کے لئے لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی چن لیا گیا ہے-جبکہ یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے قادر گیلانی کو متحرک کر دیا ہے-دوسری طرف شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتار چکے ہیں-چوہدری برداران مونس الہی کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ پاکستان کے طاقتور سیاستدانوں کی نوجوان اولاد پاکستانی سیاست میں کسی تبدلی کا سبب بن سکے گی؟کیا پاکستان کی نوجوان نسل ان نوجوان چہروں کی تازگی سے متاثر ہو کر ان کو اپنا رہبر اور رہنما ماں لیں گے؟یہ سوالات ایسے ہیں کہ ان کا ایک جواب تو یہ بنتا ہے کہ یہ نوجوان اپنے اپنے خاندان کے سیاسی ورثہ کو بچانے کے لئے میدان میں آئے ہیں-ان کے پیش نظر سیاست پر اپنے خاندانوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے کا ہدف زیادہ اور پہلی اہمیت کا حامل ہے-ان نوجوان لیڈروں کو جہاں اپنے خاندانوں کی سیاسی پہچان کا فائدہ ہے-وہاں پر ان خاندانوں کے ساتھ جو بدنامیاں لگی ہوئی ہیں ان کا نقصان بھی کافی ہے-مرمیم نواز شریف پنجاب کی نوجوان خواتین کو اس وقت متاثر کر سکتی ہیں -جب وہ کم از کم نواز لیگ کے روایتی سلوگنز سے ہٹ کر اس نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کریں-یہ بات بہت واضح ہے کہ پنجاب کی شہری آبادی کے نوجوان مرد اور عورتوں کی اکثریت نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی سیاست سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف جا رہی ہے-یہ نوجوان ٨٨ کے بعد سے لیکر اب تک چلی آنے والی سیاست سے بہت زیادہ بیزار ہیں-یہ کرپشن کے خلاف تو ہیں ہی-یہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے ڈسے ہوئے بھی ہیں-اسی لئے ان کو عمران خان کی طرف سے میرٹ اور انصاف کو سلوگن بہت زیادہ اپیل کر رہا ہے-پنجاب کے اربن مرکز میں خصوصی طور پر اور پورے پنجاب میں عمومی طور پر پڑھے لکھ نوجوانوں میں سفارش ،بے انصافی اور کرپشیں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے-اور یہ نوجوان نسل ان تین برائیوں کا سبب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو خیال کرتی ہے-مسلم لیگ نواز ہی پنجاب میں نوجوان نسل کی حمایت سے محروم نہیں ہو رہی بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی نوجوان نسل کی طرف سے حمیت نہیں مل رہی ہے-مسلم لیگ نواز تحریک انصاف کو لکھ اسٹبلشمنٹ کی جماعت کہیں-عمران خان کی اصلاح پسندی پر مجھ سمیت دوسرے لوگ کتنی ہی ٹھوس تنقید کر لیں-پنجاب کی خصوصی طور پر نوجوان نسل روایتی سیاسی جماعتوں سے باغی ہو چکی ہے-مریم نواز ،بلاول بھٹو زرداری کی طرف اس نوجوان نسل کا جھکاؤ ایک مشکل ٹاسک نظر آ رہا ہے-
پی پی پی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا سوچ رہی ہے -اس کا اندازہ ہم یوں کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاست کے محور پنجاب میں سب سے زیادہ پنجاب کی تقسیم کے ایشو کو بنا رکھا ہے-پی پی پی اپر پنجاب کے حوالے سے شائد کسی حد تک خود کو ناکام خیال کر رہی ہے-کیونکہ اپر پنجاب میں اس کے پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں ہے جو وہاں لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا رکھ سکے-اپر پنجاب میں پی پی پی کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ وہاں پر محنت کشوں کی سیاست کا ایجنڈہ لیکر سامنے آتی-لکین اس کی جاگیردار اور سرمایہ دار قیادت کی موقعہ پرستی اس کو ایسا کوئی بھی ایجنڈہ سامنے لیکر آنے سے روک رہی ہے-اپر پنجاب میں اس کے پاس زمینداروں،متوسط طبقے کے سیاسی لیڈروں اور سرمایہ داروں سے تعلق رکھنے والی جو قیادت ہے -ان کو اپنے اپنے طبقے میں وہ اثر رسوخ نہیں ہے جو مسلم لیگ نواز کی قیادت کو حاصل ہے-یا اب تحریک انصاف کو ملا ہوا ہے-اس لئے وہاں پر پی پی پی کی خواہش یہ ہے کہ یشن دائیں بازو کا پی پی پی مخالف ووٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو اور اپر پنجاب سے کوئی بھی پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر نا ابھرے-جبکہ وہ جنوبی پنجاب میں سیاست کو الگ صوبے کے ایشو کے گرد ہی رکھنا چاہتی ہے-اسی لئے پی پی پی نے پنجاب کی تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے-وسطی پنجاب کی تنظیم اس وقت ساہیوال ،لاہور،فیصل آباد ،راول پنڈی ،گوجرانوالہ ،سرگودھا ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر اب صفدر ورائچ ہیں-جبکہ جنوبی پنجاب کی تنظیم ملتان،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان ،ریجنز پر مشتمل ہے-جس کے صدر مخدوم شہاب الدین کو بنایا گیا ہے-انھوں نے صدر بننے کے ساتھ ہی شد و مد سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات شروع کی ہے-آنے والے دنوں میں پی پی پی جنوبی پنجاب کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ساری سیاست کا محور و مرکز الگ صوبہ کو بنائے-یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کی وجہ سے اس خطہ میں نا صرف مسلم لیگ نواز دفاعی انداز میں کھیلنے پر مجبور ہے-بلکہ یہاں پی پی پی سے ناراض شاہ محمود قریشی کا گروپ اور مسلم لیگ ق کے پی پی پی سے اتحاد کی وجہ سے الگ رہ کی تلاش میں نکلے ڈیرہ غازی خان کے لغاری اور رحیم یار خان کے ترین بھی مشکل کا شکار ہوں گے-پی پی پی جنوبی پنجاب میں جمشید دستی سے ردکل اور تیز تر کام لے سکتی ہے-جو اس کے حریفوں کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے-شاہ محمود قریشی اور مرزا ذوالفقار کے گروپ ایسے ہیں جو جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں-صدر زرداری جن کو بہترین سیاسی کھلاڑی کہا جا رہا ہے-اب تک ان دو بڑوں کے ساتھ نمٹنے میں ناکام رہے ہیں-شہمھمود قریشی اگر تحریک انصاف میں نہیں جاتے -اور ذوالفقار مرزا بھی کسی اور جگہ نہیں جاتے -اور پی پی پی کے لیبل کو بھی نہیں اتارتے -اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ شہید بنظر بھٹو کی سیاسی میراث کے دعوے دار بھی رہتے ہیں-اور وہ کرپشن اور ملکی اداروں کی بعد حالی کے سلوگنز کو بھی ساتھ رکھتے ہیں -تو پھر جنوبی پنجاب اور سندھ میں پی پی پی کے اندر اور باہر سے وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں-جو پی پی پی کے کارکن یا حامی تصور کے جاتے ہیں-جنوبی پنجاب اور سندھ میں شاہ محمود اور ذوالفقار مرزا کی طرح کچھ اور سیاست دان بھی ہیں-جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں-اور ان کی شہرت بھی نیک ہے-یہ سارے لوگ اگر پی پی پی کے شریک چیرمین کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہو گئے-اور یہ آگے چل کر موجودہ حکومت کے خلاف محرم کے بعد تحریک چلنے پر اتفاق کر لیتے ہیں -تو پھر سیاسی نقشہ وہ نہیں ہوگا -جو پی پی پی اپنے ذھن میں رکھے ہوئے ہے-تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو مختلف قوتیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ وہ اگلے انتخاب کا انتظار نہ کریں-سینٹ کے انتخاب سے قبل ہی اسلام آباد کا رکھ کر لیں-زرداری ہٹاؤ مہم چلائی جائے-میاں نواز شریف زرداری ہٹاؤ مہم پر اتفاق کرچکے ہیں-ان کی طرف سے یہ عندیہ نظر آ رہا ہے کہ وہ محرم کے بعد زرداری ہٹاؤ تحریک کو نکلی سطح تک لے جائیں گے-جب کہ عمران خان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بھی چند دنوں تک کوئی اصولی فیصلہ لینے والی ہے-شہمھمود قریشی ٢٧ نومبر کو گھوٹکی جلسہ میں ملک بچاؤ مہم کا آغاز کرنے والے ہیں-ذولفقار مرزا بھی سندھ کے شہروں میں جلسے کر رہے ہیں-سندھی قوم پرست بھی میدان میں آ رہے ہیں-ان سب کی مہم کا مقصد مرکزی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات ہیں-اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آئینی راستہ تو ہے نہیں-اگر لانگ مارچ ہوتا ہے-حکومت تحریک کو زبردستی روکتی ہے-سیاسی جبر کا دور آتا ہے تو کیا یہ طریقہ پی پی پی کی حکومت کو فوجی مداخلت سے بچا سکے گا؟اگر فوج اور مقتدر طاقتیں صدر زرداری کو استعفا دینے پر مجبور کرتی ہیں تو کیا صدر زرداری ایسا کر دین گے؟صدر زرداری ایسا نہیں کرتے اور جواب میں فوج زبردستی ایسا کرتی ہے تو کیا حزب اختلاف کی پارٹیوں میں پھر سے پہلے انتخاب پھر احتساب یا پہلے احتساب پھر انتخاب والا اختلاف سامنے نہیں آئے گا؟یہی وہ اختلاف تھا جس نے قومی اتحاد میں پھوٹ ڈلوا دی تھی-اور ضیاء الحق ١١ سال حکومت کرتے رہے تھے-نوجوان نسل پاکستان میں کرپٹ سیاسی سماجی نظام سے نجات کے لئے سڑکوں پی آنے کے لئے بچیں ہے-سڑکوں پر یہ نئی نسل اگر ای تو پھر ان کی جدوجہد صرف زرداری ہٹاؤ مہم تک محدود نہیں رہے گی-اگر اس تحریک میں محنت کش طبقہ بھی شامل ہوگیا تو پھر یہ تحریک اور کئی قسم کے زیادہ ریڈکل سلوگنز کو بھی اپنا سکتی ہے-یہ تحریک ارب انقلاب کی تراز بھی اختیار کر سکتی ہے-جب حکومت کو ہٹائے جانے کے لئے سڑک سیاست کا انتخاب ہوتا ہے تو اس میں کئی طرح کے امکانات اور خدشات چھپے ہوتے ہیں-اور تحریک بھی پھر لیڈروں کی آرزوں کے مطابق نہیں چلا کرتی -یہ وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان،میاں نواز شریف،شاہ محمود اور دیگر حکمران طبقات کے لوگ تحریک کو فی الفور چلانے میں تذبذب کا شکار ہیں-حکمران طبقات کی یہ تقسیم اور تذبذب نیچے سے بحران کے نیتجے میں اٹھنے والی بے چینی اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے باہر نکل کے آنے کے خطرے کو دور نہیں کر سکتے-معاشی بحران،مہنگائی میں اضافہ ،بے روزگاری کا طوفان،مسلسل بیروزگار ہوتے مزدور ،اور بند ہوتے کارخانے اور تباہ ہوتے چھوٹے کاروبار ،مڈل کلاس پرتوں پر بڑھتا ہوا بوجھ کسی بھی وقت عوام کی مختلف پرتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر سکتا ہے-اور ایک بڑا سیاسی سماجی عبار دیکھنے کو مل سکتا ہے-
Monday, November 7, 2011
ایڈٹر تھا جس کا نام ..........
ایڈٹر تھا جس کا نام .............
لیل و نہار/عامر حسینی
ایک معاصر اخبار میں نوائے وقت کے مالک اور چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی کا ایک انٹرویو شایع ہوا ہے-اس انٹرویو میں انھوں نے اس بات کا رونا رویا ہے کہ آج کے زمانہ میں ایڈیٹر کا عہدہ غائب ہوگیا ہے-ان سے جب سوال کرنے والوں نے پوچھا کہ وہ کس ایڈیٹر سے متاثر ہوئے -تو انھوں نے" ڈان" کے ایڈیٹر الطاف قریشی کا نام لیا -میں یہ نام دیکھ کر چونک گیا-مجھے یاد آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا -اس موقعہ پر وہ یہ بھی بتاتے کہ کیسے الطاف صاحب نے ریاست کے ان مقتدر لوگوں کی سازش ناکام بنا دی تھی -جو قائد اعظم محمد علی جناح کی ١١ اگست والی تقریر کو سنسر کرنا چاہتے تھے-کیونکہ اس تقریر کی بنیاد پر پاکستان کی ریاست کے آئین کی تشکیل اگر کی جاتی تو پاکستان کو کبھی بھی ایک ایسی مذہبی ریاست میں نہیں بدلا جا سکتا تھا -جو اس ملک کے جاگیر داروں،وردی و با وردی نوکر شاہی کی جاگیروں اور آمرانہ طرز حکمرانی کا تحفظ کرتی ہو-
محترم مجید نظامی اس واقعہ کو ایڈیٹر کی ہمت اور بیباکی کے طور پر پیش کر سکتے تھے-لکین انھوں نے ایسا نہ جیا-اس کی جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے -وہ یہ ہے کہ یہ تقریر خود اس سارے جھوٹ کا پول بھی کھول دیتی ہے جو محترم مجید نظامی کا اخباری گروپ "نظریہ پاکستان "کے نام پر اتنے عرصۂ سے بولتا آ رہا ہے-ظاہر جب آپ جھوٹ بولتے ہیں تو اس کے پیچھے مفادات کی کہانی ہوتی ہے-یہ مفادات "نظریہ پاکستان ٹرسٹ "کی صورت میں بھی تو سب کے سامنے ہیں-پھر پرانی نوائے وقت کے دفتر والی عمارت بھی تو اس کا ایک ثبوت ہے-جو محترم حمید نظامی اور مجید نظامی نے مہاجر بن کر الاٹ کرالی تھی-سب جانتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کا تعلق سانگلہ ہل سے ہے-اور شائد یہ انوکھا واقعہ تھا کہ سانگلہ ہل جیسے کسی پاکستان کے علاقہ سے لاہور آنے والے کو متروکہ املاک میں سے کوئی جائیداد الاٹ کردی گئی ہو-
اخبارات کے مدیروں کا تذکره چلا تو محترم مجید نظامی صاحب کو پاکستان ٹائمز اور امروز میں کام کرنے والے کسی مدیر کو مدیر ماننے کا حوصلہ نہیں ہوا -وہ فیض احمد فیض،چراغ حسن حسرت،ظہیر بابر کشمیری ،احمد ندیم قاسمی ،حمید اختر ،مسعود اشعر،سردار احمد علی کسی کو بھی ٹھیک طرح کا مدیر ماننے کو تیار نظر نہیں آئے-فیض احمد فیض ان کے نزدیک شاعر تھے-مدیر نہیں تھے-باقی نام تو ان کو یاد ہی نہیں آئے-انھوں نے ایک سچ بس محترم میر خلیل الرحمن صاحب کے بارے میں بولا کہ وہ جب ایوب خان سے ملنے گئے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ جو اخباری مالک صحافتی آزادی مانگتا ہے وہ اس کو دے دی جائے-مجھے تو اشتہارات چاہئیں-کاش وہ یہ بھی تو بتادیتے کہ ضیاء الحق اپنے زمانے میں مغرب کی طرف سے صحافت کی آزادی کو مصلوب کرنے کے سوالات کے جواب میں اپنے دور میں نوائے وقت گروپ کی ترقی کا حوالہ دیا کرتے تھے-کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جب دوسرے اخبارات مسلسل دباؤ کا شکار تھے-صحافیوں کو کوڑے پڑ رہے تھے تو ان کا اخبار ترقی کیسے کر رہا تھا؟اور اگر وہ واقعی ضیاء الحق کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے -تو ضیاء الحق کے جبر کا شکار ان کا گروپ کیوں نہ بنا ؟
آج سوائے "روزنامہ ڈان "کے کسی اور ادارہ میں مدیر آزادی کے ساتھ کام نہیں کرتا-کئی اخبارات نے تو اس عہدہ کو گھر میں ہی رکھ لیا ہے-باپ بیٹا چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر بن بیٹھے ہیں-آزادی صحافت کا گلہ تو خود اخباری مالکوں نے اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا ہے-
صحافت پر بات کرتے ہوئے -مجید نظامی ضمیر نیازی کی کتابوں کا تذکرہ بھول گئے-ان کی ایک کتاب "صحافت پابند سلاسل "میں بہت سی کہانیاں موجود ہیں-جن میں محترم مجید نظامی اور ان کے گروپ کا تذکره بھی موجود ہے-
ویسے ضمیر نیازی کی کتاب "صحافت پابند سلاسل "کے ساتھ پچھلے دنوں ایک ہاتھ آکسفورڈ پریس نے کیا -اس کتاب میں جو بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں جو سیاست کو پابند سلاسل کرنے کا احوال تھا -اس کو سرے سے غائب کر دیا گیا -آکسفورڈ پریس نے یہ کیوں کیا معلوم نہیں ہے-
پاکستان میں صحافت کی تاریخ تعصبات سے الگ ہو کر اور پورے سچ کے ساتھ کون لکھے گا-مدیر کی سیٹ پر بیٹھنے والے ضمیر نیازی نے تو اپنا فرض ادا کر دیا-لکین یہاں ابھی تک کوئی خشونت سنگھ جیسا بیباک مدیر نہیں جنم لے سکا -جو صحافت کی دنیا میں لوگوں تک خبر کو پہنچانے سے روکنے کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کا احوال ٹھیک ٹھیک قلمبند کر دے-
لیل و نہار/عامر حسینی
ایک معاصر اخبار میں نوائے وقت کے مالک اور چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی کا ایک انٹرویو شایع ہوا ہے-اس انٹرویو میں انھوں نے اس بات کا رونا رویا ہے کہ آج کے زمانہ میں ایڈیٹر کا عہدہ غائب ہوگیا ہے-ان سے جب سوال کرنے والوں نے پوچھا کہ وہ کس ایڈیٹر سے متاثر ہوئے -تو انھوں نے" ڈان" کے ایڈیٹر الطاف قریشی کا نام لیا -میں یہ نام دیکھ کر چونک گیا-مجھے یاد آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا -اس موقعہ پر وہ یہ بھی بتاتے کہ کیسے الطاف صاحب نے ریاست کے ان مقتدر لوگوں کی سازش ناکام بنا دی تھی -جو قائد اعظم محمد علی جناح کی ١١ اگست والی تقریر کو سنسر کرنا چاہتے تھے-کیونکہ اس تقریر کی بنیاد پر پاکستان کی ریاست کے آئین کی تشکیل اگر کی جاتی تو پاکستان کو کبھی بھی ایک ایسی مذہبی ریاست میں نہیں بدلا جا سکتا تھا -جو اس ملک کے جاگیر داروں،وردی و با وردی نوکر شاہی کی جاگیروں اور آمرانہ طرز حکمرانی کا تحفظ کرتی ہو-
محترم مجید نظامی اس واقعہ کو ایڈیٹر کی ہمت اور بیباکی کے طور پر پیش کر سکتے تھے-لکین انھوں نے ایسا نہ جیا-اس کی جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے -وہ یہ ہے کہ یہ تقریر خود اس سارے جھوٹ کا پول بھی کھول دیتی ہے جو محترم مجید نظامی کا اخباری گروپ "نظریہ پاکستان "کے نام پر اتنے عرصۂ سے بولتا آ رہا ہے-ظاہر جب آپ جھوٹ بولتے ہیں تو اس کے پیچھے مفادات کی کہانی ہوتی ہے-یہ مفادات "نظریہ پاکستان ٹرسٹ "کی صورت میں بھی تو سب کے سامنے ہیں-پھر پرانی نوائے وقت کے دفتر والی عمارت بھی تو اس کا ایک ثبوت ہے-جو محترم حمید نظامی اور مجید نظامی نے مہاجر بن کر الاٹ کرالی تھی-سب جانتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کا تعلق سانگلہ ہل سے ہے-اور شائد یہ انوکھا واقعہ تھا کہ سانگلہ ہل جیسے کسی پاکستان کے علاقہ سے لاہور آنے والے کو متروکہ املاک میں سے کوئی جائیداد الاٹ کردی گئی ہو-
اخبارات کے مدیروں کا تذکره چلا تو محترم مجید نظامی صاحب کو پاکستان ٹائمز اور امروز میں کام کرنے والے کسی مدیر کو مدیر ماننے کا حوصلہ نہیں ہوا -وہ فیض احمد فیض،چراغ حسن حسرت،ظہیر بابر کشمیری ،احمد ندیم قاسمی ،حمید اختر ،مسعود اشعر،سردار احمد علی کسی کو بھی ٹھیک طرح کا مدیر ماننے کو تیار نظر نہیں آئے-فیض احمد فیض ان کے نزدیک شاعر تھے-مدیر نہیں تھے-باقی نام تو ان کو یاد ہی نہیں آئے-انھوں نے ایک سچ بس محترم میر خلیل الرحمن صاحب کے بارے میں بولا کہ وہ جب ایوب خان سے ملنے گئے تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ جو اخباری مالک صحافتی آزادی مانگتا ہے وہ اس کو دے دی جائے-مجھے تو اشتہارات چاہئیں-کاش وہ یہ بھی تو بتادیتے کہ ضیاء الحق اپنے زمانے میں مغرب کی طرف سے صحافت کی آزادی کو مصلوب کرنے کے سوالات کے جواب میں اپنے دور میں نوائے وقت گروپ کی ترقی کا حوالہ دیا کرتے تھے-کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جب دوسرے اخبارات مسلسل دباؤ کا شکار تھے-صحافیوں کو کوڑے پڑ رہے تھے تو ان کا اخبار ترقی کیسے کر رہا تھا؟اور اگر وہ واقعی ضیاء الحق کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے -تو ضیاء الحق کے جبر کا شکار ان کا گروپ کیوں نہ بنا ؟
آج سوائے "روزنامہ ڈان "کے کسی اور ادارہ میں مدیر آزادی کے ساتھ کام نہیں کرتا-کئی اخبارات نے تو اس عہدہ کو گھر میں ہی رکھ لیا ہے-باپ بیٹا چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر بن بیٹھے ہیں-آزادی صحافت کا گلہ تو خود اخباری مالکوں نے اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا ہے-
صحافت پر بات کرتے ہوئے -مجید نظامی ضمیر نیازی کی کتابوں کا تذکرہ بھول گئے-ان کی ایک کتاب "صحافت پابند سلاسل "میں بہت سی کہانیاں موجود ہیں-جن میں محترم مجید نظامی اور ان کے گروپ کا تذکره بھی موجود ہے-
ویسے ضمیر نیازی کی کتاب "صحافت پابند سلاسل "کے ساتھ پچھلے دنوں ایک ہاتھ آکسفورڈ پریس نے کیا -اس کتاب میں جو بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں جو سیاست کو پابند سلاسل کرنے کا احوال تھا -اس کو سرے سے غائب کر دیا گیا -آکسفورڈ پریس نے یہ کیوں کیا معلوم نہیں ہے-
پاکستان میں صحافت کی تاریخ تعصبات سے الگ ہو کر اور پورے سچ کے ساتھ کون لکھے گا-مدیر کی سیٹ پر بیٹھنے والے ضمیر نیازی نے تو اپنا فرض ادا کر دیا-لکین یہاں ابھی تک کوئی خشونت سنگھ جیسا بیباک مدیر نہیں جنم لے سکا -جو صحافت کی دنیا میں لوگوں تک خبر کو پہنچانے سے روکنے کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کا احوال ٹھیک ٹھیک قلمبند کر دے-
Sunday, November 6, 2011
امام کعبہ کا خطبہ حج
امام کعبہ کا خطبہ حج
لیل و نہار /عامر حسینی
حج مسلمانوں کے ہاں بہت اہم فریضہ ہے-یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے-جو بھی مسلم حج کی طاقت رکھتا ہو -اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض بنتا ہے-جب مسلم دنیا میں خلافت جیسا سیاسی نظام قائم تھا -تو سنی اسلام کے ماننے والوں کو حج کا خطبہ بھی وقت کا خلیفہ ہی دیا کرتا تھا-خطبہ حج کی روایت میں بس اب تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ یہ خطبہ اب امام کعبہ دیتے ہیں-شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو شائد اس خطبہ کی اس قدر اہمیت نہ ہو-لکین سنی مسلمان اس خطبہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں-
پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا بھی اس خطبہ کو خاص طور پر ضیاء الحق کے زمانے سے بہت اہمیت دیتا آرہا ہے-اور اس خطبہ کو سب سے پہلے پی تی وی سے براہ راست نشر کرنے کا سلسہ شروع کیا گیا -پھر آج کے دور میں نجی تی وی چینل بھی اس کو نشر کرتے ہیں-
امام کعبہ نے اس مرتبہ جو خطبہ دیا -اس میں ویسے تو بہت سی باتیں ہیں جن پر بات کی جانی چاہئے-لکین میرے نزدیک ان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے پس پردہ محرکات کو آشکار کیا جانا بہت ضروری ہے-
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے-انھوں نے میڈیا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے-یہ باتیں جزوی طور پر تو ٹھیک ہوں گی-لکین حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہیں مڈل ایسٹ اور دیگر خطوں میں موجود مسلم ملکوں میں حکومتوں اور رجیموں کی طرف سے اپنے مظالم کو چھپانے اور سخصی آزادیوں کو ختم کرنے جیسی کوششوں ،مذہبی اقلیتوں اور کئی نسلی گروپوں پر سیاسی جبر اور معاشی جبر کی داستانوں کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے میڈیا کو کلی،جزوی طور پر جو کنٹرول کیا ہوا ہے-اس پر کوئی بات نہیں کی-انھوں نے میڈیا کے اس کردار کو بھی نہیں سراہا جو اس نے مڈل ایسٹ میں نوجوانوں کی طرف سے کئی سالوں سے قائم جبر کی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے کیا -اس خطبہ میں اغیار کی سازشوں بارے تو بہت زور و شور سے بولا گیا -لکین مسلم ملکوں کی اپنی حکمران اشرافیہ جو کچھ اپنی ملکوں کی عوام کے ساتھ کر رہی ہے -اس پر بھی خاموشی اختیار کر لی گئی-
امام کعبہ نے مسلم ممالک کی عورتوں کی تحریک پر بھی منفی تبصرہ کیا-انھوں نے کہا کہ مسلم عورتیں جس قسم کی آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں -وہ مغرب کا دھوکہ ہے-کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام کعبہ یہ بتا دیتے کہ جب سعودیہ عرب کی خواتین اپنے لئے ڈرائیونگ کرنے کا حق مانگتی ہیں،وہ جب ووٹ کا حق طلب کرتی ہیں،نوکری کے مساوی موقعہ مانگتی ہیں ،صنفی امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہیں اور وہ سیاست کرنے کا حق مانگتی ہیں تو ان مطالبات میں کون سی خرابی ہے-اور یہ کون سی غرب زدگی ہے-جس کا تذکرہ امام کعبہ کو اپنے خطبہ میں کرنا پڑ گیا ہے-
انھوں نے اپنے خطبہ میں مڈل ایسٹ میں خاص طور پر خلیجی ریاستوں میں سالوں سے قائم بادشاہتوں اور آمریتوں پر ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا-انھوں نے مڈل ایسٹ میں کردوں ،شیعہ ،بہائی،آرمنیوں سمیت مذہبی اور نسلی گروہوں پر ڈھائے جانے والے ستم اور ظلم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا -بحرین کے حکمران اپنی عوام کو جس طرح سے دبا رہے ہیں اور وہاں پر جس طرح سے سعودی فوج داخل ہوئی ہے-اس پر بھی ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا-
ان کا یہ خطبہ سرکاری خطبہ ہی کہا جا سکتا ہے-جس میں کوئی ریڈکل ازم نہیں تھا-نہ ہی اس بات کی طرف کوئی اشارہ تھا کہ امام کعبہ کی مسند پر بیٹھا شخص مسلم ملکوں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات اور گلوبل سرمایہ داری کے بٹن سے جنم لینے والے جیو پولیٹکل اور معاشی مساقبت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے واقفیت رکھتا ہے-
میرا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ تو امام کعبہ گلوبل فنانس سے جنم لینے والی گلوبل سامراجیت کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالے گا-اور وہ مسند اسلام پر بیٹھ کر سعودی حکمرانوں کی امریکی سامراجیت کی خدمت کے لئے کے گئے اقدامات کی مذمت کرے گا-لکین اس طرح کا کوئی بیان امام کعبہ نے نہیں دیا-وہ حسب سابق طبقاتی خلیج کو اسلام کے خلاف قرار دیتے رہے -لکین اس خلیج کا سبب بننے والے نظام کے بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہ کیا-انھوں نے یہ بھی بتانا پسند نہ کیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیل کی کمپنیوں میں مثل سرمیداروں کے علمی سرمیہ داری کے ساتھ کیا رشتے اور ناتے ہیں-سعودیہ عرب،متحدہ عرب امارات ،بحرین،قطر ،سمیت خلیجی تعاون کنسل میں شامل ملکوں کی حکمران کلاس کا عالمی سرمایہ میں کیا ہیسہ بنتا ہے-اور یہ کس طرح سے مڈل ایسٹ میں سامراج کے قبضہ اور اس کی طرف سے ان ملکوں میں سامراجی سازشوں کو پروں چڑھانے میں ممد و معاون بنے ہوئے ہیں-یہ جو پورے عالم اسلام میں سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے -اس کو پروں چڑھانے میں کس ملک کا سرمایہ کام آ رہا ہے-لبنان ،شام،فلسطین میں امریکی سامراجی ایجنڈہ کو کون سا ملک اور کون کون سے مقامی کردار آگے لیجا رہے ہیں-لکین وہ اس طرح کی کوئی بات بھی اپنے خطبہ میں نہ لا سکے-مجھے تو لگتا ہے کہ جس طرح جمعہ کے خطبے خلیج کی ریاستوں میں ریاستی سنسر شپ سے گرتے ہیں-اسی طرح یہ خطبہ بھی سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں تیار ہوا ہوگا -کیونکہ اس خطبہ میں سعودیہ عرب کے حکمرانوں کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے-
مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس خطبہ میں کسی بھی جگہ لوگوں کے جمہوری،انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی-کسی بھی جگہ عورتوں ،اقلیتوں(مذہبی،نسلی) کے حقوق پر زور نہیں دیا گیا-مسلم ریاستوں میں فرسودہ جاگیرداری،قبائلی جاہلانہ رسوم و رواج کی مذمت نہیں کی گئی-بلکہ عورتوں کی آزادی اور سیاسی آزادی کی تحریکوں کی طرف حقارت اور مذمت کا رویہ اختیار کیا گیا-مسلم دنیا میں مدزہبی بنیادوں پر نفرت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق دبے جانے کا جو سلسلہ جاری ہے -اس پر بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی-
یہ ساری معروضات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے-کہ مسلم ملکوں کی مذهبی اشرفیہ کی سوچ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی اس خطبہ کے مندرجات سے ہوتی ہے-مذهبی اشرافیہ مسلم ملکوں کی سرمایہ دار اور جاگیردار پرتوں کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کر رہی ہے-اس کو ان ملکوں میں رہنے والے محنت کشوں،کسانوں اور شہری اور دیہی غریبوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے-نہ ہی ان کو ان ملکوں میں عورتوں ،بچوں اور مظلوم قومیتوں سے کوئی سوروکار ہے-وہ ان پرتوں کی طرف سے اتگھنے والی تحریکوں کو بھی اسلام دشمن اور مسلم دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کرتیں-ان کے ہاں مسلم ملکوں کے سرمیہ داروں کا جو اتحاد سامراجی سرمایہ کے ساتھ ہے -وہ کوئی خلاف اسلام نہیں ہے-یہ خرد افروزی کی دشمن ہے-اور ایک طرح سے مسلم سماجوں کو پسماندگی اور رجعت پسندی کی دلدل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتی-
لیل و نہار /عامر حسینی
حج مسلمانوں کے ہاں بہت اہم فریضہ ہے-یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے-جو بھی مسلم حج کی طاقت رکھتا ہو -اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض بنتا ہے-جب مسلم دنیا میں خلافت جیسا سیاسی نظام قائم تھا -تو سنی اسلام کے ماننے والوں کو حج کا خطبہ بھی وقت کا خلیفہ ہی دیا کرتا تھا-خطبہ حج کی روایت میں بس اب تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ یہ خطبہ اب امام کعبہ دیتے ہیں-شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو شائد اس خطبہ کی اس قدر اہمیت نہ ہو-لکین سنی مسلمان اس خطبہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں-
پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا بھی اس خطبہ کو خاص طور پر ضیاء الحق کے زمانے سے بہت اہمیت دیتا آرہا ہے-اور اس خطبہ کو سب سے پہلے پی تی وی سے براہ راست نشر کرنے کا سلسہ شروع کیا گیا -پھر آج کے دور میں نجی تی وی چینل بھی اس کو نشر کرتے ہیں-
امام کعبہ نے اس مرتبہ جو خطبہ دیا -اس میں ویسے تو بہت سی باتیں ہیں جن پر بات کی جانی چاہئے-لکین میرے نزدیک ان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے پس پردہ محرکات کو آشکار کیا جانا بہت ضروری ہے-
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے-انھوں نے میڈیا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے-یہ باتیں جزوی طور پر تو ٹھیک ہوں گی-لکین حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہیں مڈل ایسٹ اور دیگر خطوں میں موجود مسلم ملکوں میں حکومتوں اور رجیموں کی طرف سے اپنے مظالم کو چھپانے اور سخصی آزادیوں کو ختم کرنے جیسی کوششوں ،مذہبی اقلیتوں اور کئی نسلی گروپوں پر سیاسی جبر اور معاشی جبر کی داستانوں کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے میڈیا کو کلی،جزوی طور پر جو کنٹرول کیا ہوا ہے-اس پر کوئی بات نہیں کی-انھوں نے میڈیا کے اس کردار کو بھی نہیں سراہا جو اس نے مڈل ایسٹ میں نوجوانوں کی طرف سے کئی سالوں سے قائم جبر کی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے کیا -اس خطبہ میں اغیار کی سازشوں بارے تو بہت زور و شور سے بولا گیا -لکین مسلم ملکوں کی اپنی حکمران اشرافیہ جو کچھ اپنی ملکوں کی عوام کے ساتھ کر رہی ہے -اس پر بھی خاموشی اختیار کر لی گئی-
امام کعبہ نے مسلم ممالک کی عورتوں کی تحریک پر بھی منفی تبصرہ کیا-انھوں نے کہا کہ مسلم عورتیں جس قسم کی آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں -وہ مغرب کا دھوکہ ہے-کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام کعبہ یہ بتا دیتے کہ جب سعودیہ عرب کی خواتین اپنے لئے ڈرائیونگ کرنے کا حق مانگتی ہیں،وہ جب ووٹ کا حق طلب کرتی ہیں،نوکری کے مساوی موقعہ مانگتی ہیں ،صنفی امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہیں اور وہ سیاست کرنے کا حق مانگتی ہیں تو ان مطالبات میں کون سی خرابی ہے-اور یہ کون سی غرب زدگی ہے-جس کا تذکرہ امام کعبہ کو اپنے خطبہ میں کرنا پڑ گیا ہے-
انھوں نے اپنے خطبہ میں مڈل ایسٹ میں خاص طور پر خلیجی ریاستوں میں سالوں سے قائم بادشاہتوں اور آمریتوں پر ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا-انھوں نے مڈل ایسٹ میں کردوں ،شیعہ ،بہائی،آرمنیوں سمیت مذہبی اور نسلی گروہوں پر ڈھائے جانے والے ستم اور ظلم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا -بحرین کے حکمران اپنی عوام کو جس طرح سے دبا رہے ہیں اور وہاں پر جس طرح سے سعودی فوج داخل ہوئی ہے-اس پر بھی ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا-
ان کا یہ خطبہ سرکاری خطبہ ہی کہا جا سکتا ہے-جس میں کوئی ریڈکل ازم نہیں تھا-نہ ہی اس بات کی طرف کوئی اشارہ تھا کہ امام کعبہ کی مسند پر بیٹھا شخص مسلم ملکوں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات اور گلوبل سرمایہ داری کے بٹن سے جنم لینے والے جیو پولیٹکل اور معاشی مساقبت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے واقفیت رکھتا ہے-
میرا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ تو امام کعبہ گلوبل فنانس سے جنم لینے والی گلوبل سامراجیت کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالے گا-اور وہ مسند اسلام پر بیٹھ کر سعودی حکمرانوں کی امریکی سامراجیت کی خدمت کے لئے کے گئے اقدامات کی مذمت کرے گا-لکین اس طرح کا کوئی بیان امام کعبہ نے نہیں دیا-وہ حسب سابق طبقاتی خلیج کو اسلام کے خلاف قرار دیتے رہے -لکین اس خلیج کا سبب بننے والے نظام کے بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہ کیا-انھوں نے یہ بھی بتانا پسند نہ کیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیل کی کمپنیوں میں مثل سرمیداروں کے علمی سرمیہ داری کے ساتھ کیا رشتے اور ناتے ہیں-سعودیہ عرب،متحدہ عرب امارات ،بحرین،قطر ،سمیت خلیجی تعاون کنسل میں شامل ملکوں کی حکمران کلاس کا عالمی سرمایہ میں کیا ہیسہ بنتا ہے-اور یہ کس طرح سے مڈل ایسٹ میں سامراج کے قبضہ اور اس کی طرف سے ان ملکوں میں سامراجی سازشوں کو پروں چڑھانے میں ممد و معاون بنے ہوئے ہیں-یہ جو پورے عالم اسلام میں سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے -اس کو پروں چڑھانے میں کس ملک کا سرمایہ کام آ رہا ہے-لبنان ،شام،فلسطین میں امریکی سامراجی ایجنڈہ کو کون سا ملک اور کون کون سے مقامی کردار آگے لیجا رہے ہیں-لکین وہ اس طرح کی کوئی بات بھی اپنے خطبہ میں نہ لا سکے-مجھے تو لگتا ہے کہ جس طرح جمعہ کے خطبے خلیج کی ریاستوں میں ریاستی سنسر شپ سے گرتے ہیں-اسی طرح یہ خطبہ بھی سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں تیار ہوا ہوگا -کیونکہ اس خطبہ میں سعودیہ عرب کے حکمرانوں کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے-
مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس خطبہ میں کسی بھی جگہ لوگوں کے جمہوری،انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی-کسی بھی جگہ عورتوں ،اقلیتوں(مذہبی،نسلی) کے حقوق پر زور نہیں دیا گیا-مسلم ریاستوں میں فرسودہ جاگیرداری،قبائلی جاہلانہ رسوم و رواج کی مذمت نہیں کی گئی-بلکہ عورتوں کی آزادی اور سیاسی آزادی کی تحریکوں کی طرف حقارت اور مذمت کا رویہ اختیار کیا گیا-مسلم دنیا میں مدزہبی بنیادوں پر نفرت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق دبے جانے کا جو سلسلہ جاری ہے -اس پر بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی-
یہ ساری معروضات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے-کہ مسلم ملکوں کی مذهبی اشرفیہ کی سوچ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی اس خطبہ کے مندرجات سے ہوتی ہے-مذهبی اشرافیہ مسلم ملکوں کی سرمایہ دار اور جاگیردار پرتوں کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کر رہی ہے-اس کو ان ملکوں میں رہنے والے محنت کشوں،کسانوں اور شہری اور دیہی غریبوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے-نہ ہی ان کو ان ملکوں میں عورتوں ،بچوں اور مظلوم قومیتوں سے کوئی سوروکار ہے-وہ ان پرتوں کی طرف سے اتگھنے والی تحریکوں کو بھی اسلام دشمن اور مسلم دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کرتیں-ان کے ہاں مسلم ملکوں کے سرمیہ داروں کا جو اتحاد سامراجی سرمایہ کے ساتھ ہے -وہ کوئی خلاف اسلام نہیں ہے-یہ خرد افروزی کی دشمن ہے-اور ایک طرح سے مسلم سماجوں کو پسماندگی اور رجعت پسندی کی دلدل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتی-
امام کعبہ کا خطبہ حج
امام کعبہ کا خطبہ حج
لیل و نہار /عامر حسینی
حج مسلمانوں کے ہاں بہت اہم فریضہ ہے-یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے-جو بھی مسلم حج کی طاقت رکھتا ہو -اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض بنتا ہے-جب مسلم دنیا میں خلافت جیسا سیاسی نظام قائم تھا -تو سنی اسلام کے ماننے والوں کو حج کا خطبہ بھی وقت کا خلیفہ ہی دیا کرتا تھا-خطبہ حج کی روایت میں بس اب تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ یہ خطبہ اب امام کعبہ دیتے ہیں-شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو شائد اس خطبہ کی اس قدر اہمیت نہ ہو-لکین سنی مسلمان اس خطبہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں-
پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا بھی اس خطبہ کو خاص طور پر ضیاء الحق کے زمانے سے بہت اہمیت دیتا آرہا ہے-اور اس خطبہ کو سب سے پہلے پی تی وی سے براہ راست نشر کرنے کا سلسہ شروع کیا گیا -پھر آج کے دور میں نجی تی وی چینل بھی اس کو نشر کرتے ہیں-
امام کعبہ نے اس مرتبہ جو خطبہ دیا -اس میں ویسے تو بہت سی باتیں ہیں جن پر بات کی جانی چاہئے-لکین میرے نزدیک ان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے پس پردہ محرکات کو آشکار کیا جانا بہت ضروری ہے-
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے-انھوں نے میڈیا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے-یہ باتیں جزوی طور پر تو ٹھیک ہوں گی-لکین حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہیں مڈل ایسٹ اور دیگر خطوں میں موجود مسلم ملکوں میں حکومتوں اور رجیموں کی طرف سے اپنے مظالم کو چھپانے اور سخصی آزادیوں کو ختم کرنے جیسی کوششوں ،مذہبی اقلیتوں اور کئی نسلی گروپوں پر سیاسی جبر اور معاشی جبر کی داستانوں کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے میڈیا کو کلی،جزوی طور پر جو کنٹرول کیا ہوا ہے-اس پر کوئی بات نہیں کی-انھوں نے میڈیا کے اس کردار کو بھی نہیں سراہا جو اس نے مڈل ایسٹ میں نوجوانوں کی طرف سے کئی سالوں سے قائم جبر کی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے کیا -اس خطبہ میں اغیار کی سازشوں بارے تو بہت زور و شور سے بولا گیا -لکین مسلم ملکوں کی اپنی حکمران اشرافیہ جو کچھ اپنی ملکوں کی عوام کے ساتھ کر رہی ہے -اس پر بھی خاموشی اختیار کر لی گئی-
امام کعبہ نے مسلم ممالک کی عورتوں کی تحریک پر بھی منفی تبصرہ کیا-انھوں نے کہا کہ مسلم عورتیں جس قسم کی آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں -وہ مغرب کا دھوکہ ہے-کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام کعبہ یہ بتا دیتے کہ جب سعودیہ عرب کی خواتین اپنے لئے ڈرائیونگ کرنے کا حق مانگتی ہیں،وہ جب ووٹ کا حق طلب کرتی ہیں،نوکری کے مساوی موقعہ مانگتی ہیں ،صنفی امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہیں اور وہ سیاست کرنے کا حق مانگتی ہیں تو ان مطالبات میں کون سی خرابی ہے-اور یہ کون سی غرب زدگی ہے-جس کا تذکرہ امام کعبہ کو اپنے خطبہ میں کرنا پڑ گیا ہے-
انھوں نے اپنے خطبہ میں مڈل ایسٹ میں خاص طور پر خلیجی ریاستوں میں سالوں سے قائم بادشاہتوں اور آمریتوں پر ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا-انھوں نے مڈل ایسٹ میں کردوں ،شیعہ ،بہائی،آرمنیوں سمیت مذہبی اور نسلی گروہوں پر ڈھائے جانے والے ستم اور ظلم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا -بحرین کے حکمران اپنی عوام کو جس طرح سے دبا رہے ہیں اور وہاں پر جس طرح سے سعودی فوج داخل ہوئی ہے-اس پر بھی ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا-
ان کا یہ خطبہ سرکاری خطبہ ہی کہا جا سکتا ہے-جس میں کوئی ریڈکل ازم نہیں تھا-نہ ہی اس بات کی طرف کوئی اشارہ تھا کہ امام کعبہ کی مسند پر بیٹھا شخص مسلم ملکوں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات اور گلوبل سرمایہ داری کے بٹن سے جنم لینے والے جیو پولیٹکل اور معاشی مساقبت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے واقفیت رکھتا ہے-
میرا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ تو امام کعبہ گلوبل فنانس سے جنم لینے والی گلوبل سامراجیت کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالے گا-اور وہ مسند اسلام پر بیٹھ کر سعودی حکمرانوں کی امریکی سامراجیت کی خدمت کے لئے کے گئے اقدامات کی مذمت کرے گا-لکین اس طرح کا کوئی بیان امام کعبہ نے نہیں دیا-وہ حسب سابق طبقاتی خلیج کو اسلام کے خلاف قرار دیتے رہے -لکین اس خلیج کا سبب بننے والے نظام کے بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہ کیا-انھوں نے یہ بھی بتانا پسند نہ کیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیل کی کمپنیوں میں مثل سرمیداروں کے علمی سرمیہ داری کے ساتھ کیا رشتے اور ناتے ہیں-سعودیہ عرب،متحدہ عرب امارات ،بحرین،قطر ،سمیت خلیجی تعاون کنسل میں شامل ملکوں کی حکمران کلاس کا عالمی سرمایہ میں کیا ہیسہ بنتا ہے-اور یہ کس طرح سے مڈل ایسٹ میں سامراج کے قبضہ اور اس کی طرف سے ان ملکوں میں سامراجی سازشوں کو پروں چڑھانے میں ممد و معاون بنے ہوئے ہیں-یہ جو پورے عالم اسلام میں سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے -اس کو پروں چڑھانے میں کس ملک کا سرمایہ کام آ رہا ہے-لبنان ،شام،فلسطین میں امریکی سامراجی ایجنڈہ کو کون سا ملک اور کون کون سے مقامی کردار آگے لیجا رہے ہیں-لکین وہ اس طرح کی کوئی بات بھی اپنے خطبہ میں نہ لا سکے-مجھے تو لگتا ہے کہ جس طرح جمعہ کے خطبے خلیج کی ریاستوں میں ریاستی سنسر شپ سے گرتے ہیں-اسی طرح یہ خطبہ بھی سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں تیار ہوا ہوگا -کیونکہ اس خطبہ میں سعودیہ عرب کے حکمرانوں کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے-
مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس خطبہ میں کسی بھی جگہ لوگوں کے جمہوری،انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی-کسی بھی جگہ عورتوں ،اقلیتوں(مذہبی،نسلی) کے حقوق پر زور نہیں دیا گیا-مسلم ریاستوں میں فرسودہ جاگیرداری،قبائلی جاہلانہ رسوم و رواج کی مذمت نہیں کی گئی-بلکہ عورتوں کی آزادی اور سیاسی آزادی کی تحریکوں کی طرف حقارت اور مذمت کا رویہ اختیار کیا گیا-مسلم دنیا میں مدزہبی بنیادوں پر نفرت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق دبے جانے کا جو سلسلہ جاری ہے -اس پر بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی-
یہ ساری معروضات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے-کہ مسلم ملکوں کی مذهبی اشرفیہ کی سوچ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی اس خطبہ کے مندرجات سے ہوتی ہے-مذهبی اشرافیہ مسلم ملکوں کی سرمایہ دار اور جاگیردار پرتوں کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کر رہی ہے-اس کو ان ملکوں میں رہنے والے محنت کشوں،کسانوں اور شہری اور دیہی غریبوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے-نہ ہی ان کو ان ملکوں میں عورتوں ،بچوں اور مظلوم قومیتوں سے کوئی سوروکار ہے-وہ ان پرتوں کی طرف سے اتگھنے والی تحریکوں کو بھی اسلام دشمن اور مسلم دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کرتیں-ان کے ہاں مسلم ملکوں کے سرمیہ داروں کا جو اتحاد سامراجی سرمایہ کے ساتھ ہے -وہ کوئی خلاف اسلام نہیں ہے-یہ خرد افروزی کی دشمن ہے-اور ایک طرح سے مسلم سماجوں کو پسماندگی اور رجعت پسندی کی دلدل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتی-
لیل و نہار /عامر حسینی
حج مسلمانوں کے ہاں بہت اہم فریضہ ہے-یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے-جو بھی مسلم حج کی طاقت رکھتا ہو -اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض بنتا ہے-جب مسلم دنیا میں خلافت جیسا سیاسی نظام قائم تھا -تو سنی اسلام کے ماننے والوں کو حج کا خطبہ بھی وقت کا خلیفہ ہی دیا کرتا تھا-خطبہ حج کی روایت میں بس اب تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ یہ خطبہ اب امام کعبہ دیتے ہیں-شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو شائد اس خطبہ کی اس قدر اہمیت نہ ہو-لکین سنی مسلمان اس خطبہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں-
پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا بھی اس خطبہ کو خاص طور پر ضیاء الحق کے زمانے سے بہت اہمیت دیتا آرہا ہے-اور اس خطبہ کو سب سے پہلے پی تی وی سے براہ راست نشر کرنے کا سلسہ شروع کیا گیا -پھر آج کے دور میں نجی تی وی چینل بھی اس کو نشر کرتے ہیں-
امام کعبہ نے اس مرتبہ جو خطبہ دیا -اس میں ویسے تو بہت سی باتیں ہیں جن پر بات کی جانی چاہئے-لکین میرے نزدیک ان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے پس پردہ محرکات کو آشکار کیا جانا بہت ضروری ہے-
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے-انھوں نے میڈیا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے-یہ باتیں جزوی طور پر تو ٹھیک ہوں گی-لکین حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہیں مڈل ایسٹ اور دیگر خطوں میں موجود مسلم ملکوں میں حکومتوں اور رجیموں کی طرف سے اپنے مظالم کو چھپانے اور سخصی آزادیوں کو ختم کرنے جیسی کوششوں ،مذہبی اقلیتوں اور کئی نسلی گروپوں پر سیاسی جبر اور معاشی جبر کی داستانوں کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے میڈیا کو کلی،جزوی طور پر جو کنٹرول کیا ہوا ہے-اس پر کوئی بات نہیں کی-انھوں نے میڈیا کے اس کردار کو بھی نہیں سراہا جو اس نے مڈل ایسٹ میں نوجوانوں کی طرف سے کئی سالوں سے قائم جبر کی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے کیا -اس خطبہ میں اغیار کی سازشوں بارے تو بہت زور و شور سے بولا گیا -لکین مسلم ملکوں کی اپنی حکمران اشرافیہ جو کچھ اپنی ملکوں کی عوام کے ساتھ کر رہی ہے -اس پر بھی خاموشی اختیار کر لی گئی-
امام کعبہ نے مسلم ممالک کی عورتوں کی تحریک پر بھی منفی تبصرہ کیا-انھوں نے کہا کہ مسلم عورتیں جس قسم کی آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں -وہ مغرب کا دھوکہ ہے-کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام کعبہ یہ بتا دیتے کہ جب سعودیہ عرب کی خواتین اپنے لئے ڈرائیونگ کرنے کا حق مانگتی ہیں،وہ جب ووٹ کا حق طلب کرتی ہیں،نوکری کے مساوی موقعہ مانگتی ہیں ،صنفی امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہیں اور وہ سیاست کرنے کا حق مانگتی ہیں تو ان مطالبات میں کون سی خرابی ہے-اور یہ کون سی غرب زدگی ہے-جس کا تذکرہ امام کعبہ کو اپنے خطبہ میں کرنا پڑ گیا ہے-
انھوں نے اپنے خطبہ میں مڈل ایسٹ میں خاص طور پر خلیجی ریاستوں میں سالوں سے قائم بادشاہتوں اور آمریتوں پر ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا-انھوں نے مڈل ایسٹ میں کردوں ،شیعہ ،بہائی،آرمنیوں سمیت مذہبی اور نسلی گروہوں پر ڈھائے جانے والے ستم اور ظلم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا -بحرین کے حکمران اپنی عوام کو جس طرح سے دبا رہے ہیں اور وہاں پر جس طرح سے سعودی فوج داخل ہوئی ہے-اس پر بھی ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا-
ان کا یہ خطبہ سرکاری خطبہ ہی کہا جا سکتا ہے-جس میں کوئی ریڈکل ازم نہیں تھا-نہ ہی اس بات کی طرف کوئی اشارہ تھا کہ امام کعبہ کی مسند پر بیٹھا شخص مسلم ملکوں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات اور گلوبل سرمایہ داری کے بٹن سے جنم لینے والے جیو پولیٹکل اور معاشی مساقبت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے واقفیت رکھتا ہے-
میرا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ تو امام کعبہ گلوبل فنانس سے جنم لینے والی گلوبل سامراجیت کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالے گا-اور وہ مسند اسلام پر بیٹھ کر سعودی حکمرانوں کی امریکی سامراجیت کی خدمت کے لئے کے گئے اقدامات کی مذمت کرے گا-لکین اس طرح کا کوئی بیان امام کعبہ نے نہیں دیا-وہ حسب سابق طبقاتی خلیج کو اسلام کے خلاف قرار دیتے رہے -لکین اس خلیج کا سبب بننے والے نظام کے بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہ کیا-انھوں نے یہ بھی بتانا پسند نہ کیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیل کی کمپنیوں میں مثل سرمیداروں کے علمی سرمیہ داری کے ساتھ کیا رشتے اور ناتے ہیں-سعودیہ عرب،متحدہ عرب امارات ،بحرین،قطر ،سمیت خلیجی تعاون کنسل میں شامل ملکوں کی حکمران کلاس کا عالمی سرمایہ میں کیا ہیسہ بنتا ہے-اور یہ کس طرح سے مڈل ایسٹ میں سامراج کے قبضہ اور اس کی طرف سے ان ملکوں میں سامراجی سازشوں کو پروں چڑھانے میں ممد و معاون بنے ہوئے ہیں-یہ جو پورے عالم اسلام میں سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے -اس کو پروں چڑھانے میں کس ملک کا سرمایہ کام آ رہا ہے-لبنان ،شام،فلسطین میں امریکی سامراجی ایجنڈہ کو کون سا ملک اور کون کون سے مقامی کردار آگے لیجا رہے ہیں-لکین وہ اس طرح کی کوئی بات بھی اپنے خطبہ میں نہ لا سکے-مجھے تو لگتا ہے کہ جس طرح جمعہ کے خطبے خلیج کی ریاستوں میں ریاستی سنسر شپ سے گرتے ہیں-اسی طرح یہ خطبہ بھی سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں تیار ہوا ہوگا -کیونکہ اس خطبہ میں سعودیہ عرب کے حکمرانوں کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے-
مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس خطبہ میں کسی بھی جگہ لوگوں کے جمہوری،انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی-کسی بھی جگہ عورتوں ،اقلیتوں(مذہبی،نسلی) کے حقوق پر زور نہیں دیا گیا-مسلم ریاستوں میں فرسودہ جاگیرداری،قبائلی جاہلانہ رسوم و رواج کی مذمت نہیں کی گئی-بلکہ عورتوں کی آزادی اور سیاسی آزادی کی تحریکوں کی طرف حقارت اور مذمت کا رویہ اختیار کیا گیا-مسلم دنیا میں مدزہبی بنیادوں پر نفرت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق دبے جانے کا جو سلسلہ جاری ہے -اس پر بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی-
یہ ساری معروضات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے-کہ مسلم ملکوں کی مذهبی اشرفیہ کی سوچ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی اس خطبہ کے مندرجات سے ہوتی ہے-مذهبی اشرافیہ مسلم ملکوں کی سرمایہ دار اور جاگیردار پرتوں کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کر رہی ہے-اس کو ان ملکوں میں رہنے والے محنت کشوں،کسانوں اور شہری اور دیہی غریبوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے-نہ ہی ان کو ان ملکوں میں عورتوں ،بچوں اور مظلوم قومیتوں سے کوئی سوروکار ہے-وہ ان پرتوں کی طرف سے اتگھنے والی تحریکوں کو بھی اسلام دشمن اور مسلم دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کرتیں-ان کے ہاں مسلم ملکوں کے سرمیہ داروں کا جو اتحاد سامراجی سرمایہ کے ساتھ ہے -وہ کوئی خلاف اسلام نہیں ہے-یہ خرد افروزی کی دشمن ہے-اور ایک طرح سے مسلم سماجوں کو پسماندگی اور رجعت پسندی کی دلدل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتی-
Subscribe to:
Posts (Atom)