کیا جمہوریت خطرے میں ہے؟
لیل و نہار /عامر حسینی
میاں محمد نواز شریف جعمرات کے دن سپریم کورٹ کے نو رکنی پبنچ کے سامنے پیش ہوئے-انھوں نے میمو ایشو پر یہ موقف اختیار کیا کہ حقانی نے یہ میمو خود نہیں لکھا -بلکہ کسی کے کہنے پر لکھا ہے-اس کردار کو بےنقاب ہونا چاہئے-انھوں نے کہا کہ میمو کے ذمہ داران کے خلاف آئین کی شق ٦ کے تحت کاروائی ہونی چاہئے-انھوں نے پارلیمنٹ کو بھی غیر فعال قراردے ڈالا -سپریم کورٹ نے ان کی بات سننے کے بعد ٩ صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ سنایا -اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اشو پر ایک کیمشن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا-اور انھوں نے حسین حقانی کے ملک سے جانے پر پابندی عائد کردی-انھوں نے آئی ایس آئی کے چیف،آرمی چیف اور وزیر اعظم کو بھی کیمشن کو سارے حقائق سے آگاہ کرنے کا حکم دیا-اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے کمیشن کو پندرہ دن کے اندر اندر سارے معاملے تحقیق کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت بھی کی-
ابھی یہ تفصیلی لکھا ہوا فیصلہ آیا بھی نہیں تھا کہ ایوان صدر میں پی پی پی کا انتہائی اہم اجلاس منعقد ہوا-اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی پی پی کے رہنما ایک پریس کانفرنس کے ساتھ اس فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کریں گیں-یہ پریس کانفرنس ڈاکٹر بابر اعوان ،خورشید شاہ ،عاشق فردوس اعوان اور قمر الزمان کائرہ نے مل کر کی-اس پریس کانفرنس میں پی پی پی کی طرف سے یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے وفاق کو سنے بغیر فیصلہ صادر کر دیا-اور سپریم کورٹ کو کیمشن بنانے کا اختیار نہیں تھا-
اس معاملے پر قانونی ماہرین بھی تقسیم نظر آتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو کیمشن بنانے کا اختیار تھا یا نہیں-لکین ایک بات تو ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف نے چونکہ حکومت اور حسین حقانی کو مقدمہ کا فریق بنایا تھا -تو ان کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی جاتی-یہ اجازت کیوں نہیں دی گئی -یہ ایک سوالیہ نشان ہے-
پھر صورت حال یہ تھی کہ اس وقت میمو ایشو پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک کمیٹی قائم کی ہوئی تھی-جو اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے-اور پھر خود آئی ایس آئی نے بھی اس معاملے کی تھققیق شروع کر رکھی تھی-سپریم کورٹ از خود کوئی کیمشن بنانے کی بجائے حکومت سے جواب طلب کر سکتی تھی-اگر جواب تسلی بخش نہ ہوتا تو کیمشن قائم کرنے کا حکم دیا جا سکتا تھا-اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے نورکنی بنچ نے ایک مرتبہ پھر طارق کھوسہ کو کیمشن کا سربراہ مقرر کیا ہے-لوگ اب یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا افسر شاہی کی لاٹ میں ایماندار دفسر اب صرف ظفر قریشی ،طارق کھوسہ ہی رہ گئے ہیں-کسی افسر کے غلط اقدام یا تفشیش صحیح نہ کرنے پر اس کو ہٹانے کا حکم دینے کا اختیار تو عدالت کے پاس ہے-لکین مرضی کے افسر تعینات کرنے کا اختیار تو آئین میں کسی جگہ بھی سپریم کورٹ کو نہیں دیا گیا ہے-یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس پر ہر غیر جانبدار آدمی کو بھی تشویش ہونا لازمی ہے-
میں اگرچہ یہ کہوں گا کہ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر بابر اعوان کا سپریم کورٹ کی طرف رویہ کچھ حد سے زیادہ سخت تھا-لکین آزاد عدلیہ کے بارے میں اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ وہ مخصوص قسم کے مقدمات کی سماعت کر رہی ہے-یہ تاثر اس لئے پیدا ہوا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اور خود سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو ایسے سٹے دئے ہیں جن کی وجہ سے ان پر کوئی مقدمہ کھل نہیں پا رہا ہے-اسی طرح سپریم کورٹ نجانے کیوں آئی ایس آئی کی طرف سے آئی جے آئی کو رقوم فراہم کے جانے والے کیس کی سماعت نہیں کر رہی -اسی طرح بھٹو کیس پر بھی اتنی دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں مل رہا -جتنی دلچسپی ایسے کیسوں میں دکھائی جاتی ہے جو حکومت کے خلاف ہوتے ہیں-یہ وہ باتیں ہیں جو پی پی پی کے لوگ ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی کرتے ہیں-
پھر یہاں پر ہمیں جسٹس طارق محمود کی بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جن کے مطابق حکمت عدلیہ چتقلش کی وجہ سے اور عدالتوں کی طرف میڈیا ہائیپ پیدا کرنے والے کیسز کی جلدی سماعتوں کی وجہ سے جو عام آدمی کے کیسز ہیں -وہ بری طرح سے التوا کا شکار ہیں-عام سائلین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے-یہ آمدمی عدالتوں کے مخصوص ایکٹو ازم سے بار طرح سے متاثر ہوا ہے-یہ اپنی مشکلات کا رونا کس کے سامنے روئے-اس کو نہ تو انتظامیہ انصاف فراہم کر رہی ہے-اور نہ ہی عدالتوں سے اس کو انصاف فراہم ہو رہا ہے-آزاد عدلیہ اور جمہوریت کی بحالی یہ دونوں سلوگنز اگر عوام کی مشکلات کا خاتمہ کرنے کی بجائے -ریاست کے دو اداروں میں اختیارات کی جنگ کے ٹول بن جاتے ہیں تو پھر عام آدمی کی مایوسی کا جواز تو بنتا ہے-
ڈاکٹر بابر اعوان نے پی پی پی کے احتساب اور عدالتی ٹرائل کا ذکر کیا -اور اس دوراننھوں نے یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ یہ ٹرائل اس لئے ہورہا ہے کہ آصف علی زرداری سندھی ہیں -تو میرا خیال ہے کہ انھوں نے جلدبازی سے کام لیا ہے-یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کی عدالتوں کی ماضی میں یہ روش رہی ہے کہ اس نے جمہوری سیاست کو ریلیف دینے کی بجائے آمر حکمرانوں کو ریلیف دینے میں زیادہ دلچسپی دکھائی-لکین اس دور حکومت میں پاور سیکنڈل،این آئی سی ایل کیس،حج فراڈ کیس میں جو فراڈ سامنے آئے -ان کا احتساب کرنے کو پی پی پی کا میڈیا ٹرائل کہنا غلط ہے-پی پی پی کی حکومت کو بدعنوان کوئی بھی ہو اس کے لئے پارٹی کے امیج کو داؤ پر لگانے کی کیا ضرورت ہے-ان کو این آر او کیس سمیت وفاق کے خلاف بننے والے ہر کیس میں اپنے کیمپ کی طرف سے کیس ٹھیک طرح سے نہ لڑنے جیسی خامی پر بھی غور کرنا چاہئے-وہ این آر یو نظر ثانی کیس میں عدالت میں پیش ہوئے تھے-عدالت ان سے دو دیں یہ پوچھتی رہی کہ جس کیس کا دفاع تک کرنے سے حکمت کو انکار تھا -اس کیس کی نظر ثانی کی درخواست کیوں دائر کی گئی-اور اس کیس میں پانچ وکیل کیوں بدلے گئے-کمال اظفر کہاں چلے گئے؟-اور وہ تو یہ بھی نہ بتا سکے کہ وفاق کیسے اس کیس میں متاثر ہوا -انھوں نے عدالت کو یہ بھی نہیں بتایا کہ آخر سوئیس حکام کو خط لکھنے میں حکومت کو کیا روکاوٹ درپیش آرہی ہے-وہ عدالت کے ریکارڈ میں کوئی بات بھی تو درج نہ کرسکے-یہ ایک ایسا حکومتی وکلاء کی ناہلی کا پہلو ہے-جس کا کوئی جواب حکومت کے پاس نہیں ہے-اب اس ناہلی کو چھپانے کے لئے عدالتوں کو نسلی یا لسانی تعصب کا شکار قرار دینا مناسب بات نہیں لگتی ہے-
پی پی پی کے رہنماؤں نے میاں نواز شریف کی طرف سے میمو گیٹ ایشو پر عدالت پر جانے کو جن بنیادوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے-وہ ٹھیک نظر آتے ہیں-کیوں کہ میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو غیر فعال قرار دیا -تو یہ بات ان کے منہ سے اچھی نہیں لگتی-کیونکہ آئینی ترامیم اور قانون سازی کے حوالے سے یہ پارلیمنٹ اپنی پیش رو پارلیمنٹوں سے بہت بہتر کارکردگی کی مالک ہے-بلکہ اس پارلیمنٹ نے تو صوبائی خودمختاری کا ایشو بھی حل کر دیا ہے-جو ٧٣ کی اسمبلی بھی نہیں کر سکی تھی-١٨ وین ترمیم ،این ایف سی ایوارڈ جیسے اقدامات سنہری الفاظ میں لکھےجانے کے قابل اقدامات ہیں-اور ان کو کرنے میں خود مسلم لیگ نواز کا بھی بہت ہاتھ ہے-پاکستان کی یہ واحد پارلیمنٹ ہے -جس میں قائمہ کیمٹیوں میں جہاں حزب اختلاف کی نمائندگی موجود ہے-بلکہ ان کی کارکردگی بھی سابقہ ادوار سے کہیں زیادہ ہے-پبلک اکاونٹس کمیٹی کو جس قدر اختیارات اس پارلیمنٹ میں ملے پہلے کبھی نہیں تھے-اور قومی سلامتی کی قائمہ کیمٹی کو بھی بہت اختیارات ملے-یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا-اور قومی اسمبلی کو غیر فعال کہ دینا ٹھیک نہیں ہے-اس طرح کے فقرے اگمیاں نواز شریف جیسے سیاست دنوں کے منہ سنکلے گیں تو پھر ملک میں جمہوری نظام کا خدا ہی حافظ ہے-
میاں نواز شریف کو سیاسی ایشوز پر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر جدوجہد کرنے سے کوئی نہیں روکتا-لکین اگر وہ عدالتوں میں جائیں گے تو پھر جمہوریت کا سفر ہموار طریقہ سے جاری نہیں رہ سکے گا-لوگ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اگر کچھ سیاسی جماعتیں یہ سوچ لیں کہ ان کو انتخاب کی سیاست سے اقتدار نہیں ملے گا -اور وہ جمہوری طریقہ سے کسی حکومت یا جماعت کو شکست نہیں دے سکتے -تو ان کو اس حکومت کا تختہ یا تو فوج کے ساتھ مل کر کر دینا چاہئے یا عدالت سے ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن لینے کی وہ کوشش کرے تو پھر اس صورت میں آمروں کو اقتدار پر قبضہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا-
پاکستان میں جمہوریت پسند قوتوں کو یہ تشویش بجا طور پر لاحق ہے کہ جب انتظامی امور کا سربراہ وزیر اعظم ہے-اور اسی پر حکومتی اقدمات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو پھر صدر کی ذات پر تنقید کا مطلب کیا ہے-اور جب حزب اختلاف گو زرداری گو کہتی ہے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا حزب اختلاف کی جماعتوں کی نظر میں صدر کا ملک کی اسمبلیوں سے انتخاب کا کوئی مطلوب نہیں بنتا ہے؟کیا صدر زرداری کوئی چور دروازہ استعمال کر کے صدرات کے منصب پر فائز ہوئے ہیں؟پھر ان کے خلاف اس قدر شور کیوں پبا ہے؟مسلم لیگ نواز ایک عوامی جمہوری جماعت ہے-اس کو جمہوری طریقے سے حکمت کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے-
میں سمجھتا ہوں کہ جب تک مسلم لیگ نواز اور پی پی پی نہیں چاہئیں گی ملک میں نہ تو فوجی حکمت آسکتی ہے-اور نہ ہی بنگلہ دیش ماڈل آسکتا ہے-لکین اگر ان دو جماعتوں نے محاز آرائی کا یہ سفر اسی طرح سے جاری رکھا -اور ایک دوسرے کے خلاف اسی لب و لہجہ میں بات جاری رکھی جس میں پہلے سپریم کورٹ کے اندر نواز شریف نے کی -اور بعد میں بابر اعوان نے کی-تو پھر جمہوریت کو واقعی خطرات لاحق ہیں-اور ملک میں جمہوریت کا سفر کسی وقت بھی رک سکتا ہے-
No comments:
Post a Comment