امام کعبہ کا خطبہ حج
لیل و نہار /عامر حسینی
حج مسلمانوں کے ہاں بہت اہم فریضہ ہے-یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے-جو بھی مسلم حج کی طاقت رکھتا ہو -اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض بنتا ہے-جب مسلم دنیا میں خلافت جیسا سیاسی نظام قائم تھا -تو سنی اسلام کے ماننے والوں کو حج کا خطبہ بھی وقت کا خلیفہ ہی دیا کرتا تھا-خطبہ حج کی روایت میں بس اب تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ یہ خطبہ اب امام کعبہ دیتے ہیں-شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو شائد اس خطبہ کی اس قدر اہمیت نہ ہو-لکین سنی مسلمان اس خطبہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں-
پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا بھی اس خطبہ کو خاص طور پر ضیاء الحق کے زمانے سے بہت اہمیت دیتا آرہا ہے-اور اس خطبہ کو سب سے پہلے پی تی وی سے براہ راست نشر کرنے کا سلسہ شروع کیا گیا -پھر آج کے دور میں نجی تی وی چینل بھی اس کو نشر کرتے ہیں-
امام کعبہ نے اس مرتبہ جو خطبہ دیا -اس میں ویسے تو بہت سی باتیں ہیں جن پر بات کی جانی چاہئے-لکین میرے نزدیک ان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے پس پردہ محرکات کو آشکار کیا جانا بہت ضروری ہے-
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے-انھوں نے میڈیا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے-یہ باتیں جزوی طور پر تو ٹھیک ہوں گی-لکین حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہیں مڈل ایسٹ اور دیگر خطوں میں موجود مسلم ملکوں میں حکومتوں اور رجیموں کی طرف سے اپنے مظالم کو چھپانے اور سخصی آزادیوں کو ختم کرنے جیسی کوششوں ،مذہبی اقلیتوں اور کئی نسلی گروپوں پر سیاسی جبر اور معاشی جبر کی داستانوں کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے میڈیا کو کلی،جزوی طور پر جو کنٹرول کیا ہوا ہے-اس پر کوئی بات نہیں کی-انھوں نے میڈیا کے اس کردار کو بھی نہیں سراہا جو اس نے مڈل ایسٹ میں نوجوانوں کی طرف سے کئی سالوں سے قائم جبر کی حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے کیا -اس خطبہ میں اغیار کی سازشوں بارے تو بہت زور و شور سے بولا گیا -لکین مسلم ملکوں کی اپنی حکمران اشرافیہ جو کچھ اپنی ملکوں کی عوام کے ساتھ کر رہی ہے -اس پر بھی خاموشی اختیار کر لی گئی-
امام کعبہ نے مسلم ممالک کی عورتوں کی تحریک پر بھی منفی تبصرہ کیا-انھوں نے کہا کہ مسلم عورتیں جس قسم کی آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں -وہ مغرب کا دھوکہ ہے-کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام کعبہ یہ بتا دیتے کہ جب سعودیہ عرب کی خواتین اپنے لئے ڈرائیونگ کرنے کا حق مانگتی ہیں،وہ جب ووٹ کا حق طلب کرتی ہیں،نوکری کے مساوی موقعہ مانگتی ہیں ،صنفی امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہیں اور وہ سیاست کرنے کا حق مانگتی ہیں تو ان مطالبات میں کون سی خرابی ہے-اور یہ کون سی غرب زدگی ہے-جس کا تذکرہ امام کعبہ کو اپنے خطبہ میں کرنا پڑ گیا ہے-
انھوں نے اپنے خطبہ میں مڈل ایسٹ میں خاص طور پر خلیجی ریاستوں میں سالوں سے قائم بادشاہتوں اور آمریتوں پر ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا-انھوں نے مڈل ایسٹ میں کردوں ،شیعہ ،بہائی،آرمنیوں سمیت مذہبی اور نسلی گروہوں پر ڈھائے جانے والے ستم اور ظلم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا -بحرین کے حکمران اپنی عوام کو جس طرح سے دبا رہے ہیں اور وہاں پر جس طرح سے سعودی فوج داخل ہوئی ہے-اس پر بھی ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا-
ان کا یہ خطبہ سرکاری خطبہ ہی کہا جا سکتا ہے-جس میں کوئی ریڈکل ازم نہیں تھا-نہ ہی اس بات کی طرف کوئی اشارہ تھا کہ امام کعبہ کی مسند پر بیٹھا شخص مسلم ملکوں کی عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات اور گلوبل سرمایہ داری کے بٹن سے جنم لینے والے جیو پولیٹکل اور معاشی مساقبت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے واقفیت رکھتا ہے-
میرا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ تو امام کعبہ گلوبل فنانس سے جنم لینے والی گلوبل سامراجیت کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالے گا-اور وہ مسند اسلام پر بیٹھ کر سعودی حکمرانوں کی امریکی سامراجیت کی خدمت کے لئے کے گئے اقدامات کی مذمت کرے گا-لکین اس طرح کا کوئی بیان امام کعبہ نے نہیں دیا-وہ حسب سابق طبقاتی خلیج کو اسلام کے خلاف قرار دیتے رہے -لکین اس خلیج کا سبب بننے والے نظام کے بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہ کیا-انھوں نے یہ بھی بتانا پسند نہ کیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیل کی کمپنیوں میں مثل سرمیداروں کے علمی سرمیہ داری کے ساتھ کیا رشتے اور ناتے ہیں-سعودیہ عرب،متحدہ عرب امارات ،بحرین،قطر ،سمیت خلیجی تعاون کنسل میں شامل ملکوں کی حکمران کلاس کا عالمی سرمایہ میں کیا ہیسہ بنتا ہے-اور یہ کس طرح سے مڈل ایسٹ میں سامراج کے قبضہ اور اس کی طرف سے ان ملکوں میں سامراجی سازشوں کو پروں چڑھانے میں ممد و معاون بنے ہوئے ہیں-یہ جو پورے عالم اسلام میں سنی اور شیعہ کے درمیان جنگ کی سی کیفیت ہے -اس کو پروں چڑھانے میں کس ملک کا سرمایہ کام آ رہا ہے-لبنان ،شام،فلسطین میں امریکی سامراجی ایجنڈہ کو کون سا ملک اور کون کون سے مقامی کردار آگے لیجا رہے ہیں-لکین وہ اس طرح کی کوئی بات بھی اپنے خطبہ میں نہ لا سکے-مجھے تو لگتا ہے کہ جس طرح جمعہ کے خطبے خلیج کی ریاستوں میں ریاستی سنسر شپ سے گرتے ہیں-اسی طرح یہ خطبہ بھی سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں تیار ہوا ہوگا -کیونکہ اس خطبہ میں سعودیہ عرب کے حکمرانوں کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے-
مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس خطبہ میں کسی بھی جگہ لوگوں کے جمہوری،انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی-کسی بھی جگہ عورتوں ،اقلیتوں(مذہبی،نسلی) کے حقوق پر زور نہیں دیا گیا-مسلم ریاستوں میں فرسودہ جاگیرداری،قبائلی جاہلانہ رسوم و رواج کی مذمت نہیں کی گئی-بلکہ عورتوں کی آزادی اور سیاسی آزادی کی تحریکوں کی طرف حقارت اور مذمت کا رویہ اختیار کیا گیا-مسلم دنیا میں مدزہبی بنیادوں پر نفرت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق دبے جانے کا جو سلسلہ جاری ہے -اس پر بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی-
یہ ساری معروضات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے-کہ مسلم ملکوں کی مذهبی اشرفیہ کی سوچ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی اس خطبہ کے مندرجات سے ہوتی ہے-مذهبی اشرافیہ مسلم ملکوں کی سرمایہ دار اور جاگیردار پرتوں کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کر رہی ہے-اس کو ان ملکوں میں رہنے والے محنت کشوں،کسانوں اور شہری اور دیہی غریبوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے-نہ ہی ان کو ان ملکوں میں عورتوں ،بچوں اور مظلوم قومیتوں سے کوئی سوروکار ہے-وہ ان پرتوں کی طرف سے اتگھنے والی تحریکوں کو بھی اسلام دشمن اور مسلم دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کرتیں-ان کے ہاں مسلم ملکوں کے سرمیہ داروں کا جو اتحاد سامراجی سرمایہ کے ساتھ ہے -وہ کوئی خلاف اسلام نہیں ہے-یہ خرد افروزی کی دشمن ہے-اور ایک طرح سے مسلم سماجوں کو پسماندگی اور رجعت پسندی کی دلدل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتی-
No comments:
Post a Comment