عرب انقلاب ،اسلام پسند اور دیگر
لیل و نہار /عامر حسینی
تنزانیہ میں اسلام پسندوں کی جیت کے بعد مصر میں انتخابات کے پہلے مرحلے کے انتخابات میں اخوان المسلمون کی سیاسی پارٹی جسٹس پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی ہے -یہ اکثریت حاصل ہونے کے بعد یہ بحث سامنے آنے لگی ہے کہ کیا عرب ملکوں کی عوام سیکولر سیاست کو رد کر رہی ہے-کیونکہ اس پہلے فلسطین میں بھی حماس نے اکثریت حاصل کی تھی-جبکہ لبنان میں حزب الله مقبولیت حاصل کر رہی ہے-اور ترکی میں اے کے پی اسلام پسند پارٹی دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے-
میرے خیال میں یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ کہ مسلم ملکوں میں سیاست سیکولر ازم اور اسلام پسندی کے دائرے میں قید ہو کر ہو رہی ہے-اور اسلام پسند سیاسی پارٹیوں کی جیت کو سیکولر ازم کی شکست سے تعبیر کرنا بھی غلط ہے-دیکھا یہ جانا چاہئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جو اسلام پسند پتیاں ہیں -اہنوں نے کس حد تک خود کو تبدیل کیا ہے؟میرے خیال میں میں پارلیمانی جمہوریت کے رستے پر گامزن ہونے والی اسلام پسند سیاسی پارٹیوں نے بہت حد تک اپنے بارے میں اس تاثر کی نفی کی ہے کہ وہ سیاسی اقتدار حاصل کر کے سخت کی اخلاقی پابندیاں لگائیں گی -یا اپنے معاشرے کو زبردستی ایک ہی طرح کا ڈریس کوڈ پہننے پر مجبور کر دیں گی-وہ خدشات جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کی طرف سے پیش کے جانے والے اسلامی حکومت کے ماڈل سے پیدا ہوئے تھے -وہ ان اسلام پسند سیاسی جماعتوں نے دور کرنے کی کوشش کی ہے-
ان کی سیاست کا ایک اہم رخ یہ ہے کہ اسلام پسند بہت زیادہ تعداد میں عورتوں کو سامنے لیکر آئے ہیں-یہ عورتیں زیادہ تر متوسط طبقے کی پروفیشنل پرتوں سے تعلق رکھتی ہیں-اور جدید سرمایہ درارنہ نظام میں فعال حثیت کی حامل ہیں-ان عورتوں کی سیاست میں آمد سے ان جماعتوں کے بارے میں تاثر میں بھی تبدیلی آئی ہے-مصر،تنزانیہ،ترکی اور لبنان کی اسلام پسند جماعتوں کی یہ قسم جو انتخابی سیاست کی بنیاد پر انقلاب لانے کا دعوا کرتی ہیں -بجا طور پر معمولی سی تبدلیوں کے ساتھ لبرل ڈیموکریسی ،فری مارکیٹ اور کارپوریٹ کلچر کی حامی ہیں-اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل ویلفئیر کا بھی ایک تصور رکھتی ہیں جس کی بنیاد پر انھوں نے سماجی خدمت کے کافی بڑے نیٹ ورک تشکیل دے لئے ہیں-اس وجہ سے ان کو مسلم سماجوں میں سرایت کرنے کا زیادہ موقعہ بھی میسر آیا ہے-
اسلام پسندوں میں یہ تبدیلی بذات خود سیکولر روایات کی کامیابی کا ثبوت ہیں-یہ اور بات ہے کہ اسلام پسند سیاسی جماعتیں ان کو اسلامی روایات کہ کر اپناتے ہیں-تنزانیہ ،مصر ،ترکی میں جو اسلام پسند سیاسی جماعتیں کامیاب ہوئی ہیں -اگر ان کے پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک بات بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے-اور وہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں ان لوگوں سے الگ ہو گئیں تھیں جو تشدد اور عسکریت پسندی کے راستہ سے تبدیلی لانے کے قائل تھے-جو زبردستی اسلام نافظ کرنے کے حق میں تھے-جو تشدد کا جواب تشدد سے دینا چاہتے تھے-جو ایک سخت گیر قسم کے اسلامی ماڈل کے نفاز کی بات کرتے تھے-اور جن کے عورتوں اور اقلیتوں کے حوالے سے بہت زیادہ دقیانوسی خیالات تھے-ایک طرح سے یہ اسلام پسندی کی تحریک کے اندر ماڈریٹ اور ترقی پسندی کی لہر کی ترجمانی کرنے والی سیاسی جماعتیں ہیں-ان جماعتوں میں جو سخت گیر عناصر تھے ان کی اکثریت تو ان جماعتوں سے الگ ہو گئی -جبکہ جو ان جماعتوں میں موجود ہیں وہ کمزور ہیں-
ان جماعتوں نے بہت مستقل مزاجی سے آمریتوں اور سیاسی جبر کا مقابلہ کیا ہے-اور پھر ان کے اندر بدعنوانی کا کوئی کلچر موجود نہیں ہے-یہ سیاسی جماعتیں وہاں کے پروفیشنل متوسط طبقے کی ٹھیک ٹھاک ترجمانی کرتی ہیں-
اس کے برعکس جو سیکولر حلقے تھے -ان پر بدعنوانی اور غیر مستقل مزاجی کے بہت زیادہ الزامات ہیں-وہ سماجی خدمات کے نیٹ ورکس نہیں تعمیر کر سکے-اور ان کو پھر ان کے ہاں آمریتوں کے نام نہاد سیکولر ہونے کے دعوے سے بھی بہت نقصان ہوا-ان کی طرف سے نجکاری کی برہمی کی حد تک حمایت اور نیو لبرل پالیسیوں کے حق میں ہونے کی وجہ سے بھی ان کی جماعتوں کو نقصان پہنچا -جبکہ اسلام پسندوں نے نیو لبرل پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اسلامی فلاح و بہبود کا تصور دیا -جس میں ریاست عوام سے بلکل لاتعلق نہیں ہوتی ہے-ان جماعتوں کا رجہان کسی حد تک چھوٹے اور میڈیم سائز تاجروں،مینو فیکچرز کے حق میں ہے-اور یہ عالمی سرمایہ کو شٹر بے مہار چھوڑ دینے کے مخالف نظر آتے ہیں-یہ عنصر سیکولر جماعتوں میں سرے سے غائب ہے-ان کے اندر سماجی خدمت کا ایک عنصر ان کی سماجی بنیادوں کو مزبور بناتا ہے-اور یہ جماعتیں ان اشراف طبقات کے خلاف ایک متبادل متوسط طبقے کی قیادت کا سلوگن لیکر میدان میں آئی ہیں -جو اب تک حکمرانی کرتے آئے تھے-ان کے ہاں ایک اور بھی عنصر اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ زبانی کلامی ہی سہی عرب میں اسرائیل کے خلاف ایک واضح موقف رکھتے ہیں-اگرچہ انھوں نے امریکہ کے عراق اور افغانستان پر حملے کی بھی مخالفت کی تھی-لکین مصر اور تنزانیہ ،ترکی کی اسلام پسند مقبول جماعتوں کا امریکی کیمپ کے خلاف کوئی اس قدر جارحانہ رویہ دیکھنے کو نہیں مل رہا جو ہمیں سخت گیر اسلام پسند جماعتوں کا دیکھنے کو ملتا ہے-یا حزب الله اور حماس کا نظر آتا ہے-کیا مصر اور تنزانیہ کی کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتیں امریکہ کے خلاف چین اور روسی کیمپ میں جائیں گی جس طرح سے اڑان ،لبنان اور فلسطین کی جماعتیں گئی تھیں-پاکستان میں بھی جماعت اسلامی سمیت اسلام پسند جماعتوں کا رخ امریکی کیمپ سے زیادہ روس،چین کی طرف ہے-ہاں سعودیہ عرب کے اثر کی وجہ سے یہ جماعتیںایران کے ساتھ وہ گرمجوشی نہیں دکھاتیں جو حزب،حماس دکھاتی ہیں-
مصر اور تنزانیہ میں اسلام پسند جماعتوں کی کامیابی کا سبب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جن سیکولر ماڈرن نوجوانوں نے عرب انقلاب کی تحریک کو شروع کیا تھا -وہ خود کو کسی ایک سیاسی جماعت میں منظم کرنے میں ناکام رہے -اور بائیں بازو کے لوگ انتہائی چھوٹے سائز کے ہونے اور انتخابی سیاست کے دوران اپنے خیالات کو پھیلانے کے لئے درکار وسائل کی محرومی کی وجہ سے ان نوجوانوں کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے-اور ایک فرق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی الگ شناخت کو بھی نہیں منوا پائے-اکثر ان کو بھی لبرل سیکولر رجیموں کا حصہ خیال کیا جاتا رہا-
سیکولر سیاسی جماعتیں جو ایک عرصۂ سے بہت زیادہ روایتی طریقہ سے سیاست کرتی آرہی ہیں-ان کو اب اپنے طور طریقہ بدلنے ہونگے-اور اپنی جماعتوں میں خاص طور متوسط طبقے کو جگہ دینی ہوگی-پاکستان میں بھی متوسط طبقہ شائد پہلی بار سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی زبردست تگ و دود کر رہا ہے-اگرچہ پاکستان میں متوسط طبقہ کے بااثر لوگوں کی ایک پرت اپنے خیالات اور عمل کے اعتبار سے بہت زیادہ رجعت پسند اور کسی حد تک ہییت مقتدرہ کی غیر منتخب پرت کے مفادات کی محافظ بھی نظر آتی ہے-اور اسی پرت کی اسٹبلشمنٹ نوازی اکثر و بیشتر اس طبقے کی اصلاح پسندی کی تحریک کو مشکوک بنا دیتی ہے-جیسے ہمارے ہاں آج کل عمران خان متوسط طبقے کی اصلاح پسند لہر کو ایک خاص رخ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں-اور ان کی ساری کوشش اسٹبلشمنٹ کو طاقتور بنانے اور جمہوری سیاست کو کمزور بنانے کی طرف لگتی دکھائی دیتی ہے-
No comments:
Post a Comment