منصور اعجاز کے تازہ انکشافات
لیل و نہار/عامر حسینی
منصور اعجاز کا ایک نیا مضمون امریکی جریدہ نیوز ویک میں شایع ہونے جا رہا ہے-ایک ویب سائٹ ہے جس نے یہ انکشاف کیا ہے-اور اس نے اس مضمون کے چند مندرجات بھی درج کے ہیں-منصور اعجاز نے اس مضمون میں اس مرتبہ حسیں حقانی پر زیادہ سنگین الزام عائد کے ہیں-اس نے اس مرتبہ صدر زرداری پر بھی براہ راست الزامات لگائے ہیں-
منصور اعجاز کا سب سے سنگین الزام تو یہ ہے کہ حسین حقانی اور صدر زرداری کو سی آئی اے نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی بارے حسین حقانی اور صدر زرداری کو بتا دیا تھا-اور صدر زرداری نے سی آئی اے کو یہ آپریشن کرنے کا گرین سگنل دے ڈالا تھا-اس کے خیال میں صدر زرداری اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کاروائی کو بنیاد بنا کر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو برطرف کرنا چاہتے تھے-اور وہ یہ کام کرتے ہوئے امریکہ کی حمایت کے بھی خواہاں تھے-اسی لئے صدر زرداری نے حسین حقانی کو میمو لکھنے کا کہا تھا-
منصور اعجاز کے مطابق حسین حقانی نے ان کو میمو لکھنے اور اس کو مولن تک پہنچانے کے لئے اس لئے منتخب کیا تھا کہ ان کو معلوم تھا کہ ان کے علاوہ کسی اور کی مولن تک ایسے رسائی نہیں ہے-
منصور اعجاز نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر زرداری کا کسی بھی ادارے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے-وہ موجودہ سویلین حکومت کو کمزور ترین حکومت قرار دے رہے ہیں-
مصور اعجاز نے میمو ایشو پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے -حسین حقانی پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے تین مرتبہ اپنا بلیک بیری تبدیل کیا-اور تین مرتبہ پن کوڈ بھی تبدیل کیا-ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حسین حقانی نے امریکہ کے خفیہ اداروں میں اپنے دوستوں کی مدد سے اپنے بلیک بیری سیٹوں سے مواد کو بھی ختم کرایا -اس طرح ان کا خیال تھا کہ وہ مواد میرے بلیک بیری سے بھی ختم ہوجائے گا -لکین ایسا نہیں ہوا-وہ سارا مواد موجود ہے-
منصور اعجاز کے یہ نئے انکشافات ایسے دھماکہ خیز تھے کہ وائٹ ہاؤس کو اس حوالے سے وضاحت کرنا پڑ گئی-کہ منصور اعجاز کا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی کا پاکستان کی حکومت یا کسی اور اہلکار کو اس کا علم تھا-معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اس کی خبر کسی کو بھی نہیں دی گئی تھی-لکین منصور اعجاز کے ان انکشفات نے پاکستان میں پھر سے ایک ہلچل مچا دی ہے-کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ فوجی قیادت منصور اعجاز کی باتوں کو غیر سنجیدگی سے نہیں لے رہی-اس کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی خود جا کر لندن میں منصور اعجاز کو ملے تھے-اور انھوں نے منصور اعجاز سے گفتگو کے دوران نوٹس بھی بنائے تھے-اگرچہ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ منصور اعجاز جو کہ آئی ایس آئی اور فوج سے سخت نفرت کرتا ہے-اور ان کو امریکی مشکلات کا ذمہ دار بھی قرار دیتا ہے-وہ کیوں اور کیسے آئی ایس آئی کے سربراہ سے لندن ملنے کو تیار ہو گیا-اور وہ کیوں فوجی قیادت اور آئی ایس آئی کو بچانا چاہتا ہے/وہ ایک سویلین حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر رہاہے-
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ منصور اعجاز کو چارہ بنا کر حسین حقانی کے آگے ڈالا گیا تھا-اور حسین حقانی اس چارہ کے فریب میں آگئے-یہ بھی ہو سکتا ہے کہ منصور اعجاز آئی ایس آئی کا ہی ایک مہرہ تھے-جس کو آئی ایس آئی نے حسین حقانی کو بے نقاب کرنے کے لئے استعمال کیا-اب اس میں صدر زرداری کا بھی کھل کر نام لیا جا رہا ہے-
اب تک منصور اعجاز کو کسی نے طلب کرنے کی کوشش نہیں کی-نہ ہی ان کو پاکستان بلا کر تحقیق کرنے کی کوشش ہوئی ہے-جبکہ منصور اعجاز کا کہنا ہے کہووہ کسی بھی جگہ اور کسی بھی عدالت میں وہ آنے کو تیار ہیں-اوربھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا ہے کہ میمو گیٹ ایشو کی تحقیقات کس ادارے یا کمیٹی کو سونپی گئی ہیں-اور ان کی تحقیق کون کررہا ہے-حکومت کا یہ وہ کمزور ایہلو ہے جس سے فائدہ اٹھا کر نواز شریف سپریم کورٹ چلے گئے-اور انھوں نے پارلیمنٹ کو غیر فعال تک کہ ڈالا-
منصور اعجاز اب تک امریکی میڈیا میں اپنے انکشافات کو مضامین اور انٹرویو کی صورت میں چھپوا رہے ہیں-حسین حقانی نے نیوز ویک کی مدیرہ کو ایک خط لکھا ہے کہ منصور اعجاز نے اپنے مضمون میں جو الزامات لگائے ہیں -وہ سراسر بے بنیاد ہیں-اور اگر یہ مضمون چھپتا ہے تو وہ میگزین کے خلاف عدالت میں جائیں گے-سوال یہاں پر یہ جنم لیتا ہے کہ اگر وہ اس مرتبہ نیوز ویک کے خلاف عدالت میں جا سکتے ہیں تو وہ اس وقت عدالت میں کیوں نہ گئے-جب منصور اعجاز نے پہلی مرتبہ میمو کا ذمہ دار ان کو قرار دیا تھا؟اور ابھی تک وہ کسی عدالت میں منصور اعجاز کیخلاف نہیں گئے-ان کا نہ جانا بھی کافی شکوک و شبھات پیدا کر رہا ہے-
عام طور پر حکومت کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی اہم ایشو پر اتنی تندہی سے کام نہیں کرپاتی جس قدر ضرورت ہوتی ہے-اور جب پانی سر چڑھ جاتا ہے تو پھر بھاگ دوڑ شروع کی جاتی ہے-میمو ایشو میں بھی یہی بات دیکھنے کو ملی-یہ تو سامنے کی بات ہے کہ پنجاب کے اندر پی پی پی کے صوبائی اراکین اسمبلی بہت عرصۂ سے کہ رہے تھے کہ ان کو پنجاب حکومت تو فنڈ نہیں دیتی -لکین وفاق بھی ان پر توجہ نہیں دیتا -وزیر اعظم پر یہ الزام تھا کہ وہ پارٹی سے زیادہ گیلانی گروپ کو مضبوط کرنے کی فکر کر رہے ہیں-یہ شکوے چلتے رہے-ان پر کوئی توجہ نہ دی گئی-تاوقتیکہ پی پی پی کے اندر فارورڈ بلاک کی باتیں میڈیا پر سامنے آنے لگیں-اور شاہ محمود قریشی کیمپ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بہت سارے صوبائی اسمبلی کے ممبران پی پی پی سے ٹوٹ کر ان کے ساتھ ملنے والے ہیں-اس پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پی پی پی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کسے ملے اور موقعہ پر ممبران کو ٧ ،٧ کروڑ کے ترقیاتی فنڈ اور اسلحہ کے لائیسنس بھی دینے کا فیصلہ ہوگیا-
اب آصف علی زرداری کے پارٹی پر کنٹرول پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں-سندھ میں ذوالفقار مرزا کی روش نے ان کے پارٹی پر کنٹرول کھونے کے تاثر کو مضبوط کیا ہے-اور آصف علی زرداری جب پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی کی بجائے پی پی پی کی کور کمیٹی جس کی کوئی آئینی حثیت نہیں بنتی کے پلیٹ فارم سے انتہائی اہم فیصلے کرتے ہیں-اور ہر بحران پر اسی کا اجلاس بلایا جاتا ہے-تو بھی ان کی کمزوری کا تاثر ابھرتا ہے-ایسے میں منصور اعجاز کا یہ کہنا کہ صدر آصف علی زرداری ایک کمزور شخص ہیں اور ان کا کسی ادارہ پر کنٹرول نہیں ہے-حکومت اور آصف زرداری کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے-شائد پی پی پی کے کچھ لوگوں نے صدر زرداری کو ٹھیک مشوره دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے کارکنوں سے ملین-اور نیچے عوام میں اپنے حامیوں سے رجوع کریں-ان کی پارٹی کو تیزی سے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے-اس وقت پی پی پی کی تنظیمی صورت حال بہت خراب ہے-یہ بے نظیر کے دور میں بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی-لکین ان کی شخصیت کا کرشمہ اس پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کر دیتا تھا-یہ بات صدر زرداری کو بھی معلوم ہے کہ وہ کرشمہ سے محروم ہیں-ان کی ضرورت ہے کہ وہ اس محرومی کو دور کرنے کے لئے اپنی پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط کریں-کارکنوں میں پھیلی بد دلی کو دور کریں-ورنہ حکومت اور ان کی پارٹی کو تنہائی سے کوئی نہیں بچا سکے گا-
No comments:
Post a Comment