اوبامہ خارجہ پالیسی کی تشکیل نہ کر سکے ؟
لیل و نہار /عامر حسینی
امریکہ کے سب سے بڑے اخبار نیویارک ٹائمز میں آج صفہ اول پر ایک تجزیہ شایع ہوا ہے-یہ تجزیہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی ایک منتخب جمہوری صدر خواہش کے باوجود عسکریت پسندانہ اور جنگجو خارجہ پالیسی کو تبدیل نہیں کر پاتا -کیونکہ وہاں کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اس کو ایسا کرنے نہیں دیتی-یہ ایک بہت سنگین معاملہ بن چکا ہے-عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں لکین یہ نمائندے فوجی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں مجبور ہوکر عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے پیسوں سے جنگ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور پھر ایک ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ منتخب نمائندے اپنی پاور کو بینکرز ،سرمایہ داروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیتے ہیں-جو عوام کے مال کو کھا جاتے ہیں-لکین مجھے سر دست یہاں مذکورہ بالا تجزیہ کے بارے میں ہی تحریر کرنا ہے-اس تجزیہ نگار کے مطابق اوبامہ نے اپنی انتخابی مہم میں یہ اشارہ دیا تھا کہ اگر وہ صدر بنے تو وہ عراق جنگ کا خاتمہ کر دین گے -اور وہ جنگ پر مبنی خارجہ پالیسی سے الگ ہوجائیں گے-تاکہ امریکہ کے وسائل کو عوام کی فلاح کے لئے خرچ کیا جاسکے -عراق سے نکلتے نکلتے اوبامہ کو کئی سال لگ گئے-اور پینٹاگون جو فوجی اسٹبلشمنٹ کی طاقت اور مفدات کی علامت سمجھا جاتا ہے -وہ عراق سے فوجی انخلا مخالفت کرتا رہا-گزشتہ دنوں عراق سے آخری فوجی دستہ بھی رخصت ہوا-امریکہ نے عراق میں جنگ کے خاتمہ کا اعلان کر ڈالا-تو سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا اوبامہ اپنی خارجہ پالیسی کو اب جنگ پر مبنی پالیسی سے ہٹانے میں کامیاب ہوجائیں گے-اس حوالے سے خود امریکہ میں بھی ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ جنگ کا فوکس بدلے گا-اور وہ اب مکمل طور پر ایشیا ہوگا-امریکہ میں موجودہ اور سابقہ انتظامی اہلکاروں کے مطابق افغانستان سے لیکر عرب انقلاب تک اور وہاں سے چین تک سے لیکر انسداد دہشت گردی تک امریکہ کی خارجہ پالیسی پٹ جنگ کے سائے موجود رہیں گے-اوبامہ جنھوں نے کافی مرتبہ اپنی تقریروں میں یہ کہا تھا کہ وہ جنگ نہیں چاہتے -اور وہ جنگ پر امریکی وسائل برباد کرنے کی بجائے ان کو امریکی عوام پر خرچ کرنے کے خواں ہیں-ان کی یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی-یہاں پر مجھے بے اختیار یہ بھی خیال آتا ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ جیسے ملکوں میں بھی فوجی اسٹبلشمنٹ کوئی نہ کوئی تزویراتی گہرائی نام کی پالیسی رکھتی ہے جس سے عوام اور ملک کے وسائل ان کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کی بجائیں فوجی امپائر بنانے پر خرچ ہوجاتے ہیں-امریکہ میں اس وقت اوبامہ کی کوشش ہے کہ ان کی انتظامیہ میں طاقت کا توازن فوجی مشیروں کی بجائے سول مشیروں کے حق میں بدلے-اور ان کے ہاں پالیسی میکنگ کے عمل میں سویلین کی فلاح و بہبود کو پہلی ترجیح حاصل ہو-لکین پاور بیلنس کے اس شفٹ میں وہاں کی غیر منتخب ہییت مقتدرہ بہت بڑی روکاوٹ بنی ہوئی ہے -امریکہ کی عوام جنگی اور مالیاتی اشرافیہ کے حکومت پر غلبہ کے سخت خلاف ہے-اسی لئے وہاں ایک طرف تو اوبامہ پر یہ دباؤ ہے کہ وہ جنگ کا خاتمہ کریں -دوسری طرف ان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ مالیاتی پالیسیوں کو عوام کے حق میں تبدیل کریں-اسی لئے امریکہ کے اندر جنگ مخالف اور کارپوریٹ مخالف ایجنڈہ سب سے زیادہ مقبول ہے--لکین وہاں بھی جو فوجی اشراف ہیں اور کارپوریٹ ادارے ہیں ان کے دباؤ میں میڈیا کا رویہ عوام مخالف اور غیر منتخب ہییت مقتدرہ کے حق میں ہے-یہاں پر اگر آپ پاکستان کے اندر دیکھیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ کس طرح یہاں بھی جنگ کے حامی ،رجعت پسند میڈیا پر غلبہ رکھتے ہیں-اور غیر منتخب ہییت مقتدرہ کے حق میں لکھنے والوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے-خاص طور پر اردو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے -جو پالیسی میکنگ میں سویلین کے حق میں جانے والے طاقت کے توازن کی مخالفت کرتے ہیں-پاکستان میں اس کا اندازہ آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو کی طاقت کو کم کرنے کے سوال پر میڈیا میں ہونے والی بحث کے رکھ اور اس کی ساخت سے باخوب لگایا جاسکتا ہے-میں اپنے دوستوں کو یاد کرانا چاہوں گا کہ پاکستان میں جب بھی پاک امریکہ تعلقات ،پاک بھارت تعلقات ،اور پاکستان کی تجارتی پالیسی پر بحث شروع ہوتی ہے تو اس پالیسی کو لبرل کرنے کی سب سے زیادہ مخالفت نام نہاد سیکورٹی کے خدشات کے نام پر ہوتی ہے-بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے پر جو رد عمل سامنے آیا -اس کو ایک نظر دیکھنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ عوام کے مفاد کو کس طرح سے کچلا جاتا ہے-اور ہماری غیر منتخب ہییت مقتدرہ کس حد تک اس حوالے سے میڈیا پر کنٹرول رکھتی ہے-اور اس کے پاس ایسے پریشر گروپس بھی موجود ہیں جن کی پارلیمنٹ میں تو کوئی طاقت نہیں ہے-لکین وہ مسجد اور مدرسہ کی طاقت کے بل بوتے پر کسی بھی عوامی کی نمائندہ پارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتے ہیں-ماضی میں ٨٨ میں بینظیر بھٹو جب افغان جنگ سے جان چھڑانا چاہتی تھیں-اور وہ علاقائی بنیادوں پر تجارتی بلاک کے قیام کے تصور کو پیش کر رہی تھیں تو ان کے خلاف جماعت اسلامی سمیت مذہبی تنظیموں نے جو ہنگامہ برپا کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے-اسی طرح جب میاں نواز شریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور طالبان کے خلاف بات کی تو ان کو حکومت کا خاتمہ بھی کر دیا گیا-هود مشرف جو کہ فوج کے آدمی تھے-جب خارجہ پالیسی اور تجارتی پالیسی میں لبرل سمت کی طیف آئے تو خود آئی ایس آئی اس میں روکاوٹ بن گئی -یہ ابھی کی بات ہے کہ جب میاں نواز شریف نے سافما میں بھارت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو ان کو سخت ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑا تھا-اور صاف نظر آتا ہے کہ فوجی اشرافیہ پاکستان میں سول ترقی میں کتنی بڑی روکاوٹ بن کر کھڑی ہے-امریکہ جیسے ملک کو بھی ایسی مشکل کا سامنا ہے-عراق میں امریکہ نے ٨٠٠ ارب ڈالر جھونکے-اور افغانستان میں یہ اب تک ٤٠٠ ارب ڈالر جھونک چکا ہے-پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد الگ سے ہے-اگر یہ وسائل امریکہ ان ملکوں میں سویلین امداد کی شکل میں دیتا تو ان ملکوں کواہم کی تقدیر بدل جاتی-پاکستان میں جمہوریت پسند قوتوں کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ جس قدر کوشش امریکہ کے ساتھ فوجی امداد کے حصول کے لئے ہوتی ہے -اتنی کوشش سول امداد کے لئے کیوں نہیں کی جاتی-اور پاکستان میں سول سوسائٹی اور میڈیا پاکستان کے وسائل کو زیادہ سے زیادہ انسانی ترقی پر خرچ کرنے اور بجٹ میں عسکری مد میں فنڈ کے خرچ کم کرنے پر زور کیوں نہیں دیا جاتا؟پاکستان میں یہ المیہ ہے کہ جب کوئی دانشور علمی بنیادوں پر غیر منتخب ہییت مقتدرہ کے پاکستان کو ایک خوش حال ملک بننے میں روکاوٹ بننے والے کردار کا جائزہ لیکر کوئی تحقیق پیش کرتا ہے تو اس کے خلاف میڈیا میں کردار کشی کی زبردست مہم چلائی جاتی ہے -میرے سامنے اس طرح کی مربوط علمی کاوش کی تین تازہ امثال ہیں-عائشہ صدیقہ عائشہ جلال اور حسین حقانی -ان کی کتابوں پر جو رد عمل سامنے آیا -اور ان کے خلاف جو کردار کشی کی مہم چلی وہ یہ دکھانے کے لئے کافی ہے کہ ہمارے ہاں سویلین کے مفاد کے حق میں کوئی علمی بنیاد کھڑی کرنے والوں سے کیا سلوک ہوتا ہے-اس حوالے سے محترمہ بینظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک بھی اسی لئے کہا جاتا رہا کہ انھوں نے تزویراتی گہرائی کی افادیت پر بہت ٹھوس تنقید کی تھی-انھوں نے اپنی دوسری حکومت کے گرائے جانے اور پھر جلا وطنی کے دوران جو انکشافات کے تھے-ان پر جو رد عمل ہم نے دیکھا -وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ عوام کو سچ بولنے والے لیڈر کے خلاف کس طرح سے گمراہ کیا جاتا ہے-آج نواز شریف کو جو رد عمل عمران خان اور دوسرے لوگوں کی طرف سے مل رہا ہے اس کا ایک سبب میاں نواز شریف کے غیر منتخب ہییت مقتدرہ کے خلاف خیالات ہیں-وہ ان کی تزویراتی پالیسی خاص طور پر بھارت کے حوالے سے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے-اسی لئے ان کو دائیں بازو کے حلقے بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں-امریکہ میں کسی کو بدنام کرنا ہو تو اس کو سوشلسٹ کہنا کافی ہوتا ہے-جیسے کے اوبامہ کے جنگ مخالف خیالات سن کر ان کو قدامت پرستوں نےکہا-اسی طرح پاکستان میں جب بھی کوئی تزویراتی گہرائی اور جنگ جو خارجہ پالیسی پر تنقید کرتا ہے تو اس کو لبرل کہ دیا جاتا ہے-اور اس کا مطلب ہوتا ہے سی آئی اے،را اور موساد کا ایجنٹ ہونا-غدار ہونا اور ملک دشمن ہونا-لبرل کی ایک اور بھی تعریف ہمارے ملک میں معروف ہے -وہ یہ ہے کہ اگر آپ لبرل ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ آپ بے راہرو ہیں-بے حیاء ہیں-اور مادر پدر آزادی کے بھی قائل ہیں-اسی طرح غیر منتخب ہییت مقتدرہ پر آپ کی تنقید کا مطلب یہ ہے کہ آپ سیکولر ہیں-اور سیکولر کا مطلب یہ ہے کہ آپ بے دیں ہیں-ملحد ہیں-آپ کسی مذہب اور عقیدہ کو نہیں مانتے-یہ لبرل اور سیکولر کووہ تعریفیں ہیں جو آپ کو کسی لغت میں نہیں ملے گیں-لکین ان تعریفوں کو آپ غلط نہیں کہہ سکیں گے-
No comments:
Post a Comment