Monday, December 12, 2011

ادیب،صحافی کالم نگار عامر حسینی سے بات چیت

ادیب،صحافی کالم نگار عامر حسینی سے بات چیت

نوٹ :عامر حسینی پاکستان میں ایک ترقی پسند ادیب،دانشور اور تجزیہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں-وہ روزنامہ مشرق لاہور اور روزنامہ خبریں ملتان میں مستقل کالم لکھتے ہیں-اور ان کے تجزیے اور مضامین ملکی،غیر ملکی رسائل وجرائد میں چھپتے ہیں-ملکی سیاست پر ان کی گہری نظر ہے-بھٹو خاندان خاص طور بینظیر بھٹو کی سیاست کے بہت معترف ہیں-ہم نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر ان سے محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاست کے حوالے سے خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا جو قارئین کی نظر ہے

زوار حسین :محترمہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی سے آپ کی وابستگی کا آغاز کیسے ہوا؟

عامر حسینی :پہلے تو زوار صاحب آپ کا اور آپ کے ادارے کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے شہید قائد بینظیر بھٹو کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ فراہم کیا-میں اس وقت فرسٹ ائر کا طالب علم تھا جب مجھے موقعہ ملا کہ میں عملی طور پر پی پی پی اور بھٹو خاندان سے عملی وابستگی کا ثبوت دے سکون-میں نے اپنے گھر میں کالج میں آنے سے پہلے بھٹو صاحب کی کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا-تیسری دنیا کا اتحاد،پڑھ رکھی تھیں-میں نے ستار طاہر صاحب کی مرتب کردہ کتابیں زندہ بھٹو ،مردہ بھٹو ،اسی طرح مارشل لاء کا وائٹ پیپر بھی پڑھ رکھی تھیں-پھر محترمہ بینظیر بھٹو کے زیا الحق کے خلاف بیانات اور تقریریں بھی مجھے پڑھنے اور سننے کو مل جاتی تھیں-ان سب چیزوں نے مل کر مجھے فکری طور پر بھٹو خاندان اور شہید قائد بے نظیر بھٹو کے ساتھ جوڑ دیا تھا-پھر بے نظیر بھٹو کا جو پہلا الیکشن تھا ١٩٨٨ کا اس میں بھی بطور پی پی پی کے کارکن کے میں نے سرگرم شرکت کی-اور ملک میں اسٹبلشمنٹ کی ریشہ دوانیاں بھی دیکھیں-اس دوران بے نظیر بھٹو نے جس طرح سے پاکستان میں ترقی پسند جمہوری انقلابی سیاست کے لئے کام کیا -اس نے مجھے ان کی ذات سے اور وابستہ کر دیا-

زوار حسین :آپ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ضیاء دور کی سیاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

عامر حسینی :زوار صاحب بینظیر بھٹو کی سیاست کا جائزہ لینے والوں کو ایک بات ضرور مد نظر رکھنی چاہئے کہ جس وقت بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے پی پی پی کی قیادت سنبھالی تو ان کو ایک ایسی پارٹی ملی تھی جو تنظیمی طور پر سخت انتشار کا شکار تھی-اس پارٹی میں دور اقتدار میں مزے لوٹنے والے اکثر لوگ اب مصیبت میں پارٹی کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھے-ان میں سے اکثر ضیاء کے ساتھ مل بیٹھے تھے-اور پھر ان میں سے کئی ایسے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بغیرپارتی ایک دن بھی نہیں چل پائے گی-اور بھٹو صاحب کے زمانے کے اکثر انکلز فوجی عامر کے خلاف کسی بھی ریڈکل جدوجہد کے حامی نہیں تھے-محترمہ بینظیر بھٹو کو اس زمانے میں اپنی پارٹی کے اندر اور باہر سندھ سے ایسے لوگوں کے دباؤ کا بھی سامنا تھا جو پی پی پی کو ایک قوم پرست جماعت بنانا چاہتے تھے-وہ جمہوریت اور آمریت کی جنگ کو قوم پرستی کی جنگ سے بدلنا چاہتے تھے-اور پی پی پی کو سندھ تک محدود کرنے کے خواں تھے-بینظیر بھٹو پر یہ دباؤ صرف پارٹی کے اندر اور باہر سے سندھ کے لوگوں کی طرف سے نہیں آیا بلکہ دھیرے دھیرے یہ واضح ہوگیا کہ خود ضیاء کی شدید خواہش تھی کہ وہ پی پی پی کو قوم پرستانہ سیاست کی طرف دھکیلے -لکین بینظیر بھٹو نے شہید قائد ذوالفقار علی بھٹو کی بصیرت اور اپنی ذہانت سے کام لیتے ہوئے پی پی پی کی وفاقی جمہوری عوامی سیاست کو قوم پرستانہ سیاست سے بدلنے سے بچایا-اور آپ کو میں یہ حیران کن بات بتاتا چلوں کہ سندھ میں اور پنجاب میں بے نظیر بھٹو کی ضیاء دور جدوجہد کا ایک حصہ قوم پرستانہ متعصب سیاست کے خلاف جدوجہد پر مشتمل ہے-ضیاء کو اس محاذ پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا-اس زمانہ میں بھی قوم پرست سیاست دان جو بھٹو کے مخالف تھے بھٹو کے خون کے وارث بننے اور خود ک ان کی سیاست کا علم بردار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو بینظیر بھٹو نے اس کو ناکام بنا دیا تھا-بعد میں ثابت ہوگیا کہ سندھ کے اکثر قوم پرست ضیاء کے چرنوں میں بیٹھ گئے-اور جی ایم سید کے پاس ضیاء آشیر بعد لینے پہنچ گیا-

بینظیر بھٹو نے اسی زمانہ میں خود کو بھٹو کی سیاسی وارث ہونے کا ثبوت فراہم اس طرح سے کیا کہ ضیاء الحق کی کوشش تھی کہ وہ پی پی پی کی قیادت اور ورکرز کو اشتعال دلائے -اور ان کو پرتشدد سیاست کی طرف دھکیل دے-اور اس طرح سے پی پی پی کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے میں کامیاب ہوجائے-بینظیر بھٹو نے اس کی اس سازش کا بھی بروقت ادرک کیا اور پرامن جمہوری جدوجہد کے فلسفے کو آگے بڑھایا -ضیاء پی پی پی کو سیاسی طور پر تنہا کرنا چاہتا تھا -لکین بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا-انھوں نے بھٹو صاحب کے دور میں سیاسی جماعتوں سے پیدا ہو جانے والی تلخی کو کم کرنے کی کوشش کی-اور پھر اس کوشش کو اس طرح سے آگے بڑھایا کہ ایم آر ڈی جیسا اتحاد وجود میں آگیا-

گیرہ سالہ دور آمریت میں محترمہ بینظیر بھٹو نے پی پی پی کو ضیاء آمریت کے خلاف سب سے بڑی جمہوری مزاحمتی سیاسی پارٹی کی شکل میں برقرار رکھا -یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا-

اور زوار صاحب میں آپ کو باتوں کے بینظیر بھٹو میں یہ صفت تھی کہ انھوں نے ضیاء کی طرف سے سیاست کو دفن کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا-اور بند گلی میں پی پی پی کو کبھی جانے نہیں دیا تھا-انھوں نے ہمیشہ امید کا رستہ دیکھا -وہ ضیاء کے خلاف جدوجہد کرتے کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئی تھیں-ان کی یہ کامیابی تھی کہ انھوں نے اپنی حکمت عملی سے فوج کو بھی ضیاء سے جان چھڑانے کی سوچ کو قبول کرنے پر آمادہ کر لیا تھا-

مرتضیٰ بھٹو اور پی پی پی کے چند نوجوان جس طرح ضیاء کے ٹریپ میں آئے تھے -اور ضیاء جس طرح سے ایم آر ڈی کی تحریک کو ناکام بنانا چاہتا تھا-اس وقت بھی بینظیر بھٹو نے کمال بصیرت کا ثبوت دیا تھا-

نئی نسل کو بینظیر بھٹو کے آمرانہ دور میں لیس کردار کو تفصیل سے پڑھنا اور دیکھنا چاہئے-اور پی پی پی کے نوجوانوں کو جنھوں نے وہ دور نہیں دیکھا اس کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے-

زوار حسین :عامر صاحب کچھ حلقے بے نظیر بھٹو کے ٨٨ سے لیکر ٩٧ تک کے سیاسی کردار پر خاصی تنقید کرتے ہیں-اور یہ کہتے ہیں کہ جمہوری سیاست سے جو امیدیں عوام کو تھیں وہ پوری نہیں ہوئی ؟آپ کیا سمجھتے ہیں؟

عامر حسینی :دیکھیں یہ تنقید ان لوگوں کا پروپیگنڈہ ہے جنھوں نے ضیاء کی گود میں سیاست کی-یا وہ پی پی پی کا ساتھ مصیبت میں چھوڑ گئے تھے-وقت اور تاریخ نے بہت سی چیزیں ثابت کر دین ہیں-جمہوری حکومت کو کن قوتوں نے ناکام بنایا -آپ یہ دیکھئے کہ کن حالات میں ٨٨ میں اسٹبلشمنٹ نے انتخابات کروائے تھے--اس وقت اسٹبلشمنٹ میں طاقت کے دو مرکز تھے -ایک صدر اسحاق کی صورت میں موجود تھا-دوسرا چیف آف آرمی سٹاف اسلام بیگ کی صورت موجود تھا -یہ دونوں ضیاء کے حامی تھے-اور ضیاء نے جن لوگوں کو پی پی پی کے مد مقابل لا کر کھڑا کیا تھا یہ ان کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے تھے-اس دور میں ایجنسیوں نے پی پی پی کا رستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی بنوایا -حمید گل نے اعتراف کیا ہے کہ آئی جے آئی اگر وہ نہ بناتے تو انتخاب نہیں ہونا تھا-اور آئی ایس آئی نے یہ رپورٹ ارسال کی تھی کہ انتخابات میں کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملے گی-اسٹبلشمنٹ کو یہ یقین تھا کہ پی پی پی کبھی بھی اپنی حسیت میں حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو سکے گی-لکین پی پی پی کامیاب ہوئی-اور اس کے پاس ١٠٧ نشستیں تھیں-اور آئی جے آئی کے پاس ٥٣ لکین اسحاق خان نے پہلے آئی جے آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دے ڈالی-دس دن تک پی پی پی کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا-اس سے قبل نگران حکومت کے دور میں ہی اسحاق خان ١٥ جج مقرر کر چکے تھے-اور ٨٨ میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کرتے ہوئے صدر اسحاق خان اور اسلم بیگ نے بینظیر بھٹو کو اس شرط پر اقتدار منتقل کرنے کو کہا کہ وہ ایک تو اسحاق خان کو صدر منتخب کرائیں گی-دوسرا وزرات خارجہ پر صاحبزادہ یعقوب علی خان براجمان رہیں گے-اوروزیر خزانہ بھی ان کی مرضی سے آئے گا-مقصد واضح تھا کہ صدارت کے عہدے پر ضیاء کی باقیات کا قبضہ رہے گا تو فوج اور عدلیہ میں تقرریوں کا اختیار بھی اسی باقیات کے پاس رہے گا-نیز صدر کسی بھی وقت پی پی پی کی حکومت کو چلتا کر دین گے-تو ٨٨ میں لولا لنگڑا اقتدار جو طاقت کے کئی مرکز رکھتا تھا پی پی پی کو ملا-اور پی پی پی نے یہ اقتدار اس لئے قبول کیا کہ گیارہ سالوں سے پارٹی کے کارکن عذاب اور اذیت بھگت رہے تھے-بینظیر بھٹو کو خطرہ یہ لاحق تھا کہ اب بھی اگر اقتدار کو حاصل نہ کیا گیا تو ایک اور مارشل لاء پارٹی کے شیرازہ کو بکھیر سکتا ہے-پارٹی کو نئی زندگی کے لئے یہ بہت ضروری تھا-محترمہ بینظیر بھٹو نے ٨٨ سے لیکر ٩٩ تک جو جنگ اور لڑائی لڑی وہ اس متوازی حکومت کے خلاف تھی جو ضیاء کی باقیات نے قائم کر رکھی تھی-جس کا فوج،ایجنسیوں،عدلیہ ،انتظامیہ ،میڈیا پر مضبوط گرفت تھی-اور اس باقیات کے حامی ملک کے اندر سرمایہ دار ،تاجر اور پروفیشنل طبقات کے لوگ تھے-جب کہ مذھبی رجعت پسند بھی اس باقیات کی طاقت تھے-بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی جدیدیت ،روشن خیالی اور لبرلزم کی علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ غریبوں اور کسانوں کے لئے امید کا پیغام تھی-محترمہ بینظیر بھٹو نے ٩٧ میں اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد لاہور میں ایک تقریر کی تھی-جس کا عنوان تھا "ایجنسیوں کی حکومت "اس میں محترمہ بینظیر بھٹو نے کھل کر بتایا تھا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو جمہوری حکومتوں کو ناکام بناتی ہیں-اور کیسے ایجنسیوں نے ملک میں متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے-بینظیر بھٹو کو پوسٹ ضیاء دور میں فوج ،بے وردی نوکر شاہی ،عدلیہ اور میڈیا ٹرائل کا مسلسل مخالفانہ رویہ برداشت کرنا پڑا-اور ایک سخت قسم کی لڑائی محترمہ بینظیر بھٹو نے لڑی-میں سمجھتا ہوں کہ یہ بینظیر کی قیادت تھی جس نے پی پی پی کو ٹوٹنے اور منتشر ہونے سے بچائے رکھا-

زوار حسین:کہا یہ جاتا ہے کہ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کے بعد بینظیر بھٹو کے پاس بہت اچھا موقعہ تھا کہ وہ مسلم لیگ نواز کے خاتمہ میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہوجاتیں-اور مشرف کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کر لیتیں-یہ بینظیر کی سیاسی غلطی تھی کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا-آپ کا کیا خیال ہے؟

عامر حسینی :میرے خیال میں بینظیر بھٹو نے اس موقعہ پر بھی وقتی فائدہ کو مد نظر نہ رکھ کر اسٹبلشمنٹ کی متوازی حکومت کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل کیا-مشرف کا مارشل لاء پہلی مرتبہ دائیں بازو کی ایک ایسی جماعت کے خلاف ہوا تھا جو ایک طرح سے ضیاء کی باقیات تھی-اور پہلی مرتبہ دائیں بازو کی ایک طاقت ور سیاسی جماعت کا اسٹبلشمنٹ سے رشتہ ٹوٹ گیا تھا-فوج نے یہ سب خوشی سے تو نہیں کیا تھا-اب اس موقعہ پر اگر بینظیر بھٹو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نواز کے کفن دفن کا انتظام کر دیتیں تو گویا بینظیر بھٹو اپنے ہاتھوں سے دائیں بازو اور فوج میں پھر سے مکمل اتحاد کو ممکن بنا دیتیں-انھوں نے ایسا نہیں کیا-میاں نواز شریف آج جس قدر بھی جمہوریت کے حق میں بات کرتے ہیں-اور وہ اسٹبلشمنٹ خاص طور پر فوج کو جس طرح سے سیاست سے باہر رہنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا کریڈٹ محترمہ بینظیر بھٹو کو جاتا ہے-وہ ضیاء کو امر کہتے ہیں-اور بھٹو کی پھانسی کو بھی غلط کہتے ہیں-یہ بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت تھی کہ انھوں نے اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو تقسیم کو کم کرنے اور دائیں بازو کی ایک بڑی طاقت کو جمہوریت پر کاربند رہنے پر مجبور کر دیا-محترمہ بینظیر بھٹو میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ اپنے اتحاد کو ہر قیمت پر قائم رکھا -اگرچہ میاں نواز شریف ان دنوں بھی ایم ایم اے کی باتوں میں آکر اے آر ڈی کو ختم کرنے کی پوری کوشش کر بیٹھے تھے-انھوں نے مشرف سے معافی مانگنے اور ان سے معاہدہ کرنے جیسی غلطی کر لی-لکین اس کے باوجود بینظیر بھٹو نے مسلم لیگ نواز کو ساتھ رکھا-میاں نواز شریف اس زمانے میں بھی اسٹبلشمنٹ کی چالوں کو نہیں سمجھ سکے تھے-جیسے وہ پوسٹ مشرف دور میں نہ سمجھ سکے-اور انھوں نے پی پی پی کو بھی مشکل میں ڈال دیا-آج اسٹبلشمنٹ جس قدر طاقت ور ہے-اور وہ اپنی من مانی پر اتری ہے تو اس کی وجہ مسلم لیگ نواز کا پی پی پی سے الگ ہونا اور اس کی حکومت کو غیر مستہمک کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ہے-پی پی پی کو ایم کیو ایم اور مسلم ق کی طرف دھکیلنے میں سب سے زیادہ ہاتھ مسلم لیگ نواز کا بنتا ہے-پاکستان تحریک انصاف اگر موسٹ فیورٹ کنگ پارٹی آف اسٹبلشمنٹ بنی ہے تو اسمیں بھی مسلم لیگ ذمہ دار ہے-بینظیر بھٹو نے جس ذہانت اور اہلیت کے ساتھ فوجی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں جمہوری اور شفاف بنیادوں پر الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنایا تھا -ان کی اسی اہلیت اور صلاحیت سے خوفزدہ طاقتوں نے ان کو شہید کرایا -ان کا خیال بھی یہی تھا کہ محترمہ اگر رثتہسے ہٹ گئیں تو پی پی پی سے ان کی جان چھوٹ جائے گی-لکین ایک بااثر پھر دشمنوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں-

زوار حسین :عامر صاحب یہ بتلائے کیا پی پی پی کے شریک چئیرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کی لائن کو فالو کر رہے ہیں؟کیا ناقدین کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ آج کی پی پی پی بینظیر بھٹو کی پارٹی نہیں ہے -یہ زرداری لیگ ہے؟

عامر حسینی :پی پی پی کی تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ اس کی زندہ قیادت کو شہید ہوجانے والی قیادت کا نام لیکر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے-بے نظیر بھٹو جب زندہ تھیں تو ان کو ساری عمریہ الزامدیا جاتا رہا کہ یہ پارٹی بھٹو کی پارٹی نہیں ہے-بلکہ یہ بینظیر کی پارٹی ہے-ان پر یہ بھی الزام لگا یہ انھوں نے اپنے باپ کی سیاست کو خیر بعد کہ دیا-لکین اس دور میں بھی پی پی پی کے کارکن اور اس کا ووٹر جانتا تھا کہ بینظیر بھٹو ہی بھٹو کی وارث ہیں-اور وہ پی پی پی کو ٹھیکرستہ پر لیکر جا رہی ہیں-ان کے دور میں سارے نشانے بینظیر کے اوپر تھے-کبھی ان پر یہ الزام لگا کہ وہ اپنی ماں نصرت بھٹو کو پیچھے کر کے سیاست پر قابض ہوئی ہیں-کبھی ان پر یہ الزام لگا کہ وہ اپنے بھائی مرتضی سے زیادتی کی مرتکب ہ رہی ہیں-لکین وقت نے ثابت کیا کہ ووہی پارٹی کی قیادت کی حقدار تھیں-ان کے بعد پارٹی میں اگر پی پی پی کو کوئی قوت متحد رکھ سکتی تھی اور رکھ سکتی ہے تو آصف علی زرداری کی ذات تھی اور ہے-ایسی لئے آصف علی زرداری پی پی پی کے تمام دشمنوں کے تیروں کے نشانے پر ہیں-اور آپ دیکھیں گے جب قیادت آصف علی زرداری سے بلاول کو منتقل ہوگی تو ان تیروں کا ہدف فوری بدلے گا-اور نشانہ بلاول ہوں گے-اور آپ لوگوں کویہ کہتے بھی سنیں گے کہ بلاول زرداری نے آصف علی زرداری سے زیادتی کی ہے-تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے-آصف علی زرداری کو پی پی پی کے دشمنوں نے کمزور ہدف سمجھا تھا-لکین وہ ان کی سوچ سے بھی زیادہمشکل ہدف ثابت ہوئے ہیں-پی پی پی کے دشمن تو یوسف رضا گیلانی کے بارے میں بہت سے غلط فہمیوں کا شکار تھے-لکین یہ غلط فہمیاں انھوں نے دور کر دی ہیں-اور پی پی پی کے دشمنوں کے لئے تو یک نہ شد دوشد والا معاملہ ہو گیا ہے-پی پی پی کے کارکنوں اور ووٹروں نے زرداری اور بلاول کو اپنا لیڈر ماں لیا ہے-اب ان کی مخالفت کرنے والے منہ کی کھائیں گے-

No comments:

Post a Comment