ایک تو غربت کا عذاب کسی سے سزا سے کم نہیں ہوتا اور اس پر اگر آپ ایک نام نہاد نظریاتی ریاست میں رہتے ہو ، جہاں ریاست اور اس کے حاکم طبقات مذھب اور مسلک کے فرق پر آپ کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ویسے ہی ناممکن بناڈالتے ہوں اور پھر وہ سماج زات ، پات ، فرقہ پرستی کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہو تو اس سماج میں زندگی ایک غنمیت ہی بن جاتی ہے اور کسی وقت بھی آپ سماج میں جنونیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں
کوٹ رادھا کشن جن کا نام پاک و ہند کی ان دو عظیم پریم اور شانتی بانٹنے والی ہستیوں پر رکھا گیا ہے ، جہاں ہمیں ایک دلخراش خبر ملی ہے کہ اس کے نواحی گاؤں میں ایک بھٹہ پر کام کرنے والے میاں بیوی کو قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کا الزام لگاکر زندہ جلادیا
مرنے والے جوان میاں ،بیوی تھے ، شہزاد کی عمر 26سال تھی اور شمع کی عمر 24 سال تھی اور ان کے ہاں چوتھے بچے کی پیدائش متوقع تھی ، گویا شمع کے ساتھ ایک اور معصوم جان جس نے ابھی اس دنیا میں آنا تھا بھی اس مذھبی جنونیت سے اٹھنے والے شعلوں کی نذر ہوگئی
اسے بلوائی دھشت گردی کہا جارہا ہے اور اس بلوائی دھشت گردی کا نشانہ زیادہ تر اس ملک کی مذھبی اقلیتیں بن رہی ہیں جوکہ اپنے سیلف ڈیفنس کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں اور ان کے لیے بس یہ کافی ہے کہ ان پر توھین مذھب / بلاسفیمی کا الزام لگایا جائے اور اس کے بعد ان پر ہلّہ بولہ جائے اور لوٹ ، مار ، آتش زدنی اور مدعا علیہ کو وحشیانہ طریقہ سے مار دیا جائے
یہ پہلی مرتبہ تو نہیں ہوا کہ کرسچن کمیونٹی کے کسی مرد اور ،ورت پر توھین قرآن کا الزام لگا ہو اور پھر ان کو بلوائی دھشت گردی کا سامنا کرنا پڑا ہو
مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے کہ جب رمضان کا 26 واں روزہ ابھی افطار ہوا تھا اور خانیوال کے چوک غفی والا ميں ایک جامع مسجد کے سامنے مشتعل ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہوگيا ، مساجد سے انتہائی مشتعل اعلانات شروع ہوگئے تھے اور نوجوانوں کی ٹولیاں اکٹھی ہونی شروع ہوگئیں تھیں
میں جو اپنے چند دوستوں کے ساتھ لاہور جانے کے لیے نکلا تھا اور ہم چوک غفی والا پہنچے تو کئی شناسا ، جانے پہجانے مولوی اور مذھبی تنظیموں کے عہدے دار تھے جو چوک میں ایک پھٹے کے اوپر چڑھ کر انتہائی جذباتی تقریریں کررہے تھے اور وہ امت مسلمہ کے تمام دکھوں ، مصبیتوں ، عذاب اور مشکلات کا زمہ دار خانیوال کی کرسچن کمیونٹی کو ٹھہرارہے تھے ، گلے کی رگیں پھولی ہوئیں تھیں ، آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں ، اور منہ سے جھاگ نکل رہے تھے
نیچے ان کے سامنے کھڑے کئی ایک نوجوان فضاء مین پستول ، سیون ایم ایم ، کلاشنکوف اور چھرے ، ڈنڈے لہرارہے تھے ، ایسے میں ، میں نے چند ایسے نوجوان بھی دیکھے جو اس وقت کے مقبول جہادی لباس میں ملبوس تھے اور وہ وقفے وقفے سے ایک ہی نعرہ لگارہے تھے
یہود و نصاری کا ایک علاج - الجہاد ، الجہاد
یہ نوجوان اس وقت کی لشکر طیبہ اور آج کی جماعۃ دعوہ کے ارکان تھے اور ان کے ساتھ ساتھ میں نے ایک اور ٹولی کو دیکھا جو کہ غلہ منڈی خانیوال کی دیوبندی مسجد و مدرسہ کے طالب علموں پر مشتمل تھی اور انھوں نے سپاہ صحابہ پاکستان کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا اور ان کا لیڈر کہہ رہا تھا کہ آج ہم ان "چوہڑوں " کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیں گے اور ایک طرف بریلوی تنظیم سنّی تحریک کے نوجوان تھے اور یہ سب اس بات پر متفق نظر آتے تھے کہ اسلام کی عزت اور حرمت کو خطرہ ہے تو خانیوال کے گردونواح میں بسنے والی مسیحی برادری سے ہے
ادھر غفی والا چوک سے بس کجھ دور سول لائن اور اندرون شہر کے درمیان بفر زون کے طور پر موجود " کرسچن بستی " کے مکین گھروں سے ضروری سامان سمیٹ رہے تھے اور اپنے گھروں کو چھوڑ کر فرار ہورہے تھے ، کانپ رہے تھے ، اور ان میں کئی ایک گھرانے ہمیں اسٹیشن پر ملے جہاں لاہور جانے کے لیے موسی پاک ایکسپریس ملتان سے آنے والی تھی ، جبکہ راستے ميں بس اسٹینڈ پر بھی میں نے افراتفری میں کئی عیسائی خاندانوں کو لاہور جانے والی بسوں ميں سوار ہوتے دیکھا تھا
میں نے یہ منظر دیکھا تو مجھے اپنے دادا ، دادی ، نانا ،نانی اور کئی ایک گھر کے بزرگوں سے 14 اگست 1947ء کو مشرقی پنجاب اںڈیا اور اتر پردیش کے شہروں اور گاؤں ، دھلی ، ممبئی مہاراشٹر کے اندر تقسیم ہند کے وقت شروع ہونے والے فسادات کے دوران مسلم اقلیت پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت اور ادھر مغربی پنجاب ، سندھ ، خیبر پختون خوا کے اندر ہندؤں اور سکھوں پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت کے واقعات اور قصّے یاد آئے اور چونکہ شہر کے اس چوک میں جمع ہونے والوں کی 99 فیصد تعداد مشرقی پنجاب میں بربریت کا شکار ہونے والوں کی اولاد تھی تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ اگر ہماری ریاست ، تعلیمی اداروں ، ميڈیا اور مساجد و مدارس کی اسٹبلشمنٹ نے اس انسانیت سوزی کو فرقہ وارانہ تشریح کی بجائے انسانیت کے نکتہ نظر سے دیکھنے اور جاننے کی تعلیم دی ہوتی اور رواداری پر مبنی ڈسکورس کو تشکیل دیا ہوتا تو شاید ویسا منظر ہمیں پھر نہ دیکھنا پڑتا
میں دوستوں کے ساتھ لاہور آگیا اور اگلے دن ہمیں پتہ چلاکہ شانتی نگر کو اردگرد کے دیہاتوں اور شہر سے آنے والے ایک بہت بڑے جلوس نے جلاکر خاکستر کردیا ، گھر اور دکانیں لوٹ لی گئیں جبکہ شہر میں بھی کرسچن بستی ، خرم پورہ پر دھاوا بولا گیا جبکہ میاں چنوں تحصیل خانیوال جہاں خالص کرسچن چکوک بھی ہیں پر بھی حملے کئے گئے اور بلوائی راج قائم رہا ، فوج بلوائی گئی تب کہيں جاکر معاملات کنٹرول میں آئے
میں نے اس تباہی اور بربادی کے آثار اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس کے بعد یہ بھی دیکھا کہ جن مذھبی پیشواؤں اور مذھبی تنظیموں کے عہدے داروں کے اس رات گلے کی پھولی رگیں ، آنکھوں سے اگلتے شعلے اور منہ سے جھاگ نکلتے میں نے دیکھا تھا وہی امن سیمیناروں ، انٹرفیتھ ہارمنی کی ورکشاپس اور امن کمیٹیوں کے اجلاسوں میں " امن اور اسلام کی درخشندہ روایات " کے حوالے دے رہے تھے اور ان سے بڑا امن پسند جیسے کوئی تھا بھی نہیں ، جن کو احتساب کے کہٹرے میں کھڑا ہونا چاہئیے تھا وہ امن و آشتی کے پیامبر بنے بیٹھے
اس واقعے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ شانتی نگر جب جل کر بھسم ہوگیا اور اس کی تعمیر نو کی بات چلی اور اس حوالے سے حکومت اور غیرملکی ڈونر ایجنسیز نے اس کی تعمیر نو اور برباد خاندانوں کی بحالی کے لیے اقدامات شروع کئے تو صدیوں سے افتاد گان خاک میں شمار ہونے والے ان کرسچن گھرانوں کی امارت اور دولت کے جھوٹے افسانے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے اور ان افسانوں ميں پھر ان آبادیوں کو شیطان بنانے اور ان کو مغرب کے یہود و نصاری کے ایجنٹ ثابت کرنے اور ان کی پاکستان سے وابستگی کو مشکوک بنانے کے لیے کئی جھوٹی کہانیاں گھڑ لی گئیں
مین نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے جن کے ضمیر نے ان کو ملامت کی اور وہ اس حوالے سے شرمندگی کے مرحلے سے گزرے ہوں اور شہر کے اجتماعی ضمیر نے یہ محسوس کیا ہو کہ اگر اس روز ہم نے ہوش سے انسانیت کا دامن تھاما ہوتا تو ایسا نہ ہوتا لیکن افسوس کہ اس واقعے کے بعد ہمارا اجتماعی ضمیر پھر کہيں دفن ہوگیا اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پھر گوجرہ اسی عمل سے گزرا جس سے کبھی خانیوال گزرا تھا اور خآنیوال میں تو کوئی انسانی جان نہیں گئی تھی لیکن گوجرہ میں تو اس مرتبہ کئی ایک عیسائی زندہ جلادئے گئے اور پھر جوزف کالونی والا واقعہ سامنے آیا ، رمشا ء مسیح ، آسیہ مسیح تو پھر خوش قسمت ہیں زندہ ہیں ، رمشاء تو ملک سے باہر چلی گئی اور آسیہ مسیح کو ابھی سپریم کورٹ سے امید ہے لیکن شہزاد اور شمع کو اتنا موقعہ نہیں مل سکا اور وہ مذھبی جنونیت کا نشانہ بن گئے
آسیہ مسیح کو انصاف دلوانے اور اس سے ہوئی زیادتی کا ازالہ کرنے کی کوشش اس وقت کے ایک گورنر سلمان تاثیر نے کی تھی جوکہ ایک بہت امیر اور طاقتور خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے اس معاملے پر جب اس ملک میں مذھبی جنونیت کے ٹھیکے داروں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی اور خم ٹھونک کر میدان میں آیا تو اس کو بیچ سڑک میں اس کے ہی محافظ نے شہید کردیا اور ایک اور وفاقی منسٹر جو بلاسفیمی ایکٹ کے اندر پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے اور اسے بہتر بنانے والی ایک کمیٹی کا چئیرمین بنایا گیا تھا اسے بھی اس کے گھر کے سامنے قتل کردیا گيا اور ایک اور وکیل راشد الرحمان ایک بلاسفیمی کے الزام میں قید لیکچرار جنید کی وکالت کے جرم میں قتل کردیا گیا اور اس طرح سے مذھبی جنونیت اور بربریت کے خلاف ہر ممکنہ مزاحمت کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی اور کچھ ایسا سماں پیدا کیا گیا کہ ظلم و بربریت کا شکار کوئی بھی کمیونٹی بس خود ہی تنہا میدان میں ہو اور پورے سماج میں خاموشی چھا جائے
پنجاب حکومت کے چیف منسٹر شہباز شریف نے اس واقعہ پر حسب سابق ایک انکوائری بٹھائی ہے اور انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنے اداریہ ، رؤف کلاسرا ، قاضی سعید سمیت بہت سے لوگوں نے بجا طور پر ٹھیک ہی لکھا ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ تو نکلے گا نہیں ، کیونکہ ماضی میں گوجرہ کے سانحہ کی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں زمہ داری جن لوگوں پر عائد کی گئی ، ان کو کوئی سزا نہیں ملی ، نااہلی اور غفلت جن پولیس افسران کی ثابت ہوئی ان کو پولیس سروس سے فارغ کرنے کی بجائے ترقی کردی گئی اور جو سچ پاکستان کا میڈیا بتانے سے ڈرتا ہے میں اسے بھی یہاں لکھ دوں کہ پنجاب حکومت اور اس کے چیق منسٹر شہباز شریف بلوائی حملوں کی شکل میں دھشت گردی پھیلانے والے اصل چہروں کو بے نقاب کرنے اور ان کو انصاف کے کہٹرے تک لانے کی ہمت اس لیے نہیں کرتے کہ وہ تو خود ان میں سے کئی چہروں کو اپنے اتحادی بناکر بیٹھے ہیں اور ان کے سابق وزیر قانون جو اب بھی ڈی فیکٹو چیف منسٹر ہیں اور رانا مشہود جیسے ڈمی کے پیچھے وہی بیٹھے ہیں ان میں سے کئی ایک دھشت گردوں کے سپانسرز اور ماسٹر مائینڈ کے مربی اور آقا ہیں
bht berazulm hoa hea. pakistan main aisy qatlo ko kuch nae kaha jata .shia,sunny,essae se he zulm q. pakistan sirf dehshet gerdi krny walo ka he q
ReplyDelete