Tuesday, November 4, 2014

کس قدر بے توفیق ہوئے فقیہان حرم


ابھی زیادہ دن نہيں گزرے جب ایل یو بی پاک ڈاٹ کام کے بانی مدیر عبدل نیشا پوری کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اسلام آباد اور کراچی سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں فہد رضوان اور فراز قریشی سے ایک بحث شروع ہوئی - بحث عبدل نیشا پوری کی اس بات سے شروع ہوئی کہ پاکستان کے اندر ایک حلقہ ایسا ہے جو شیعہ ، صوفی سنّی ، احمدی ، عیسائی اور ہندؤں کے خلاف منظم دھشت گردی کرنے والی تںظیموں کی مسلکی شناخت کو مبہم رکھتا ہے اور وہ شیعہ کے قتل کو نسل کشی کہنے کی بجائے اسے شیعہ - سنّی جنگ جیسی مبہم اصطلاح استعمال کرتا ہے اور اس طرح سے وہ اصل قاتلوں کی پہچان اور ان کے خلاف رائے عامہ کو منظم ہونے سے روکتا ہ عبدل نیشا پوری کی رائے یہ ہے کہ پاکستان میں شیعہ اور صوفی نسل کشی کی تمام تر زمہ داری جن تںطیموں پر عائد کی جاتی ہے وہ سب کی سب دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں ، دیوبندی مکتبہ فکر کی فکری بنیادیں وہابیت پر استوار ہیں جس سے تکفیریت اور دھشت گردی کا ظہور ہوا ہے اور دیوبندی مولویوں اور جماعتوں میں ایک بھی جماعت ایسی نہیں ہے جس نے آج تک شیعہ ، صوفی سنّی قتل کی زمہ دار جماعتوں جن میں سپاہ صحابہ پاکستان سرفہرست ہے کے بارے میں یہ کہا ہو کہ ان کا دیوبندی فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی لیے عبدل نیشاپوری کی رائے یہ ہے کہ دیوبندی جب تک اپنی تکفیری تنظیموں کو غیر دیوبندی ہونے کا فتوی نہیں دیتے اور ان کو اپنے مدرسوں و مساجد سے نکال باہر نہیں کرتے ،اس وقت تک یہی سمجھا جائے گا کہ وہ شیعہ و صوفی سنّی مخالف انتہا پسند، دھشت گرد آئیڈیالوجی اور ایجنڈے کی حمائت کرتے ہیں اور براہ راست یا بالواسطہ تکفیری آئیڈیالوجی کے حامی ہیں عبدل نیشا پوری نے دارالعلوم دیوبند کی فکری بنیاد کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ اس کی بنیاد ہی وہابیت کے پیورٹن ازم پر استوار ہے اور یہ وہابیت کا ہی ایک ماڈل ہے فرق صرف اتنا ہے کہ عرب وہابیت خود کو امام احمد بن حنبل کی مقلد کہتی ہے تو دیوبندی خود کو امام ابو حنیفہ کے مقلد کہتے ہیں اورعبدل نیشاپوری اپنی بات کی وضاحت کے لیے دارالعلوم دیوبند کے بانیان کی جانب سے خود کو شاہ ولی اللہ کے خاندان کا معتقد بتانے اور شاہ ولی اللہ کی فکر کو آگے لیکر چلنے کے دعوے کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں وہابیت کو متعارف کرانے میں سب سے بڑا کردار شاہ ولی اللہ کے خاندان کا تھا اور اس ضمن میں شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز ، شاہ اسماعیل دھلوی ، سید احمد بریلوی تحریروں سے شہادت لیکر آتے ہيں عبدل نیشاپوری کی جانب سے یہ دو مقدمات ایسے ہیں جو بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ ، تحقیق اور علمی طرز سے پرکھے جانے کا تقاضہ کرتے ہیں ، کیونکہ جب عبدل نیشا پوری نے یہ مقدمہ قائم کیا کہ پاکستان کے اندر شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی برادری کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کی زمہ دار دیوبندی دھشت گرد تنظیمیں ہیں اور ان کی فکری بنیاد وہابیت ہے جس کے پرچارک ہندوستان کے اندر دیوبندی ہیں اور اس دھشت گردی کو دیوبندی وہابی دھشت گردی کہنا بالکل درست ہے تو ایسے کئی ایک لوگ جن کا تعلق پاکستان کی سیکولر اور لیفٹ لابی سے ہے دارالعلوم دیوبند کو وہابیت کا پرچارک اور دارالعلوم دیوبند موجودہ شیعہ ، صوفی سنّی مخالف دھشت گردی کا زمہ دار تسلیم کرنے سے انکار کیا اور انھوں نے اس انکار کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے دارالعلوم دیوبند کو ترقی پسندانہ مفہوم میں سامراجیت کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی مضبوط بنیادیں رکھنے والا مدرسہ قرار دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ اس کا وہابی پیورٹن ازم ، ظاہر پسندی سے کوئی تعلق نہيں ہے اور یہ سب دعوے انھوں نے علمی انداز ميں نہیں کئے بلکہ انتہائی نابالغانہ اور بچگانہ انداز ميں کئے فہد رضوان جوکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والا ایک اکیس سال کا نوجوان ہے اور اس کے بقول وہ مارکسسٹ ہے اور مارکسزم کی طرف وہ شیعہ پس منظر سے آیا ہے ، یعنی اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ شیعہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو فکری انقلاب کے نتیجہ میں مارکسسٹ ہوگیا ہے ، اس نے عبدل نیشاپوری کی تنقید کے جواب میں یہ دعوی کیا کہ دارالعلوم دیوبند نے تو سامراجیت کے خلاف ایک تحریک کی بنییاد رکھی اور اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ دارالعلوم دیوبند کی دین تھی کہ جس نے ابوالکلام آزاد ، مولانا برکت اللہ بھوپالی ، مفتی محمود حسن ، عبید اللہ سندھی جیسے سامراج دشمن ، سرمایہ داری نظام کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہد پیدا کئے فہد رضوان کے اس دعوے نے ایک بات تو فوری طور پر ثابت کردی کہ فہد رضوان نے دارالعلوم دیوبند کے بینر تلے پروان چڑھنے والی تحریکوں کا تاریخی جدلیاتی مادی طریقہ کار کے تحت کوئی منضبط اور مبسوط جائزہ نہیں لیا اور نہ ہی اس نے جن لوگوں کو دارالعلوم دیوبند سے وابستہ کیا ان کا ٹھیک طرح سے مطالعہ کیا ورنہ وہ کبھی ایک ہی سانس میں ابو الکلام آزاد ، برکت اللہ بھوپالی کو مفتی محمود حسن اور عبیداللہ سندھی کے ساتھ نہ ملاتا ، دوسرا وہ دارالعلوم دیوبند میں مفتی محمود حسن اور عبید اللہ سندھی کی انگریز کے ہندوستان پر قبضے کے جواب ميں کی جانے والی جدوجہد کی فکری بنیادوں کی رجعت پرستانہ اور مثالیت پسندی کو بھی واضح کرتا اگر وہ ان پر مارکسی جدلیاتی مادیت کے اصول کو لاگو کرتا یہاں میں یہ واضح کردوں کہ عبدل نیشا پوری نے دارالعلوم دیوبند کی فکر اور نظریات کی جب کھوج لگانا شروع کی تو ان کی تحریر یہ بتاتی ہے کہ انھوں نے اسے مسلم فکر کے سنّی تھیالوجیکل تاریخی ارتقاء کی روشنی میں دیکھا اور اسی وجہ سے انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ دیوبندی ازم کا فکری رشتہ وہابیت ، پیورٹن ازم ، ظاہریت اور تکفیریت سے ملتا ہے جس کا کلاسیکل سنّی تھیالوجی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس خیال کی وجہ انھوں نے یہ لکھی کہ دیوبند کے بانیان جن ميں مولوی قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی ، اشرف علی تھانوی ، مفتی محمود حسن ، حسین احمد مدنی وغیرہ شامل تھے اور ان بانیان کے فکری گرو شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز ، شاہ اسماعیل دھلوی ، سید احمد بریلوی سب کا پیورٹن ازم محمد بن عبدالوہاب اور شیخ ابن تیمیہ سے ملتا ہے اور ان کے شیعہ ، صوفی سنّی کے خلاف تعصبات ، تکفیری اور دھشت گردی و قتل و غارت گری پر اکسانے والے نظریات بہت واضح اور صاف تھے اور یہی فکر آگے سپاہ صحابہ سمیت تمام دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کے اندر پیوست نظر آتی ہے عبدل نیشاپوری نے کئی ایک مقامات پر یہ بھی واضح کرنے کی کوشش بھی کی کہ شیعہ اور صوفی سنّیوں کو مرتد قرار دیکر انھیں صفحہ ہستی سے مٹادینے کی بنیاد تکفیر پر ہے جوکہ دیوبندی اور اس سے پہلے وہابیت کے ہاں ہی ملتی ہے جبکہ سنّی کلاسیکل تھیالوجی میں کسی شخص یا کسی گروہ کے عقائد و خیالات کی تحقیق کے دوران اس شخص یا گروہ کے کفر و گمراہی کی تحقیق میں اثبات کا فتوی دینے کی روائت میں پہلے کہیں نظر نہیں آتی، عبدل نیشاپوری کا کہنا ہے کہ دیوبندی و وہابی کو چھوڑ کر سنّی کلاسیکل تھیالوجسٹوں کے ہاں تکفیریت یعنی کافر قرار دیگر کسی گروہ کی منظم نسل کشی کی روائت نہیں ملتی ، جیسے ہندوستان میں سںّی عالم احمد رضا خان بریلوی تھے اور ان کا مدرسہ دار العلوم بریلی تھا یا دارالعلوم بدایوں تھا یالکھنؤ کا دارالعلوم فرنگی محل تھا کہ وہاں سے اگر شیعہ کے کسی گروہ کے بارے میں اگر کفر یا تضلیل کا فتوی آیا بھی تو اس کے ساتھ قتل و غارت گری اور نسل کشی کا مظہر سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس کفر و تضلیل کی بنیاد پر کسی غیر دیوبندی وہابی عالم نے جہاد کے جواز کا فتوی صادر کیا فہد رضوان ، فراز قریشی اور اسی قبیل کے کچھ اور بزعم خویش سیکولر ، مارکسسٹ ، لبرل کہلانے والے حلقے نے دیوبندی وہابیت اور عرب وہابیت کی اس خصوصیت اور امتیاز کو نہ سمجھتے ہوئے یا جان بوجھ کر خلط مبحث کرتے ہوئے کلاسیکل سنّی تھیالوجی کے چند بڑے ناموں کی جانب سے شیعہ اور سنّی دو بڑے مسلکی دھاروں کے اندر پائے جانے والے ذیلی دھاروں کے کفر یا تضلیل کے فیصلوں کو سامنے لاتے ہوئے اسے دیوبندی وہابیت اور عرب وہابیت کی تکفیریت کے مماثل قرار دینے پر اصرار کیا اور کہا اس بنیاد پر تو بریلوی یا صوفی سنّی بھی اس بات کے سزاوار ٹھہرتے ہیں کہ ان کو بریلوی تکفیری دھشت گرد لکھا جائے ، یہ ویسا ہی استدلال تھا جیسے کئی اور سیکولر اور لبرل حلقے ممتاز قادری جیسے اکّا دکاّ لوگوں کی مثال سامنے لاکر دیوبندی دھشت گردی کی طرح بریلوی دھشت گردی کی اصطلاح سامنے لانا چاہتے ہیں اور مقصد شیعہ - سنّی جنگ ، شیعہ - سنّی فرقہ وارانہ جنگ جیسی اصطلاحوں کو درست ثابت کرنا اور منظم دھشت گردی اور نسل کشی کی دیوبندی وہابی شناخت کو گم کرنا نظر آتا ہے ان جیسے لوگوں کی پراگندہ خیالی اور موقعہ پرستانہ بدیانتی کا ثبوت یہ بھی ہے کہ اسی دوران جب عبدل نیشاپوری نے طارق فتح نامی ایک نام نہاد سیکولر کی جانب سے شیعہ نسل کشی کو نتیجہ قرار دیا شیعہ کی جانب سے مفروضہ گالیوں کا اور پاکستان میں ہونے والی شیعہ نسل کشی کے لیے مثالیں مڈل ایسٹ سے ڈھونڈ کر لانے کے عمل کی مذمت کی اور اس کی دو عملی ، منافقت کا پردہ چاک کیا تو طارق فتح کے انتہائی نامناسب اور متعصب موقف کی مذمت کرنے کی بجائے انھوں نے اس تنقید کو سیکولر ازم اور روشن خیالی پر حملہ قرار دے ڈالا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عبدل نیشاپوری اور ایل یو بی پاک اصل میں سیکولر ازم اور روشن خیالی کے خلاف کسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے میں نے پہلے جیسے اوپر لکھا کہ عبدل نیشاپوری اور ایل یو بی پاک کی جانب سے دارالعلوم دیوبند ، اور دیوبندی اکابرین کے بارے میں اٹھائے گئے نکات ایک سنجیدہ علمی بحث کا تقاضہ کرتے تھے لیکن اس طرف جانے کی بجائے عذر لنگ تراشے جانے لگے اور پھر اسی دوران ایک سازشی مفروضہ بھی سامنے لے آیا گیا فہد رضوان ، فراز قریشی ، اظہر مشتاق ، خرم علی سمیت لگ بھگ ایک درجن کے قریب لوگ یہ خیال لیکر سامنے آگئے کہ ایل یو بی پاک کو چلانے والے لوگ امریکہ سے فنڈ لیکر فرقہ وارانہ ایجںڈا چلارہے ہیں اور وہ امریکی سامراجیت کے خلاف کسی بھی مزاحمت کو ختم کرنے کے درپے ہیں ، اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گيا کہ یہ پاکستان کی ملٹری ، آئی ایس آئی کو بچانا چاہتے ہيں اور ساتھ ہی ان کو ایرانی فنڈڈ لوگ بھی کہا گیا میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ سازشی مفروضات گھڑنے والے کیونکہ نجم سیٹھی ، سلیم صافی ، حامد میر ، ماروی سرمد ، عاصمہ جہانگیر ، اعجاز حیدر وغیرہ کی طرح نہ تو خرانٹ ہیں اور نہ ہی لندن پلان / لندن سازش جیسے مفروضات کی ایجاد کرنے والی تکفیری لابی کے دماغوں کے زیر سایہ ہیں ، ابھی طفل مکتب ہیں ، تھوڑے سے کچّے ہیں تو یہ اتنے پرفیکٹ پروپیگنڈا ساز تو نہیں ہیں لیکن اپنے طور پر انھوں نے ویسا بننے کی کوشش ضرور کی اور میرے اس حسن ظن کو بھی ختم کرڈالا جو میں کم از کم ابتدائی طور پر اوپر زکر کردہ کچھ ناموں کے ساتھ رکھتا تھا اور مجھے یہ گمان تھا کہ اگر ان کے سامنے ایک تحقیقی ، علمی راستہ رکھا گیا تو یہ ضرور اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے جلد بازی ميں اور کچے پن کے ساتھ قائم کئے ہوئے مفروضات پر غور کریں گے اور واپس پلٹ آئیں گے ان میں بعض کو یہ گمان بھی ہوگیا ہے کہ پاکستان میں یہ حقیقی ترقی پسند ، روشن خیال ، سیکولر جدوجہد کرہے ہیں اور ایل یو بی پاک کے سارے لوگ ہی شاید امریکہ میں بیٹھے ، پاکستان سے دور ہر ایک خطرے سے خود کو بچائے کام کررہے ہیں جوکہ میں جانتا ہوں ان کا انتہائی گمراہ کن اور باطل خیال ہے اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پاکستان کے اندر جو لوگ دیوبندی وہابی تکفیری فاشسٹ آئیڈیالوجی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور جن کی رسائی اس ملک کے متاثرین دیوبندی وہابی تکفیری فاشزم تک ہورہی ہے اور ان کی زھن سازی میں ان کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی سی حثیت رکھتا ہے ان کی ٹریکنگ آسان بنادی جائے ، میں عبدل نیشا پوری ، علی عباس تاج ، نسیم چوہدری ، شہرام علی کو داد دیتا ہوں کہ انھوں نے بہت سے جذباتی حملوں کے باوجود پاکستان میں اپنے لوگوں کی شناخت کو دیوبندی وہابی دھشت گردوں کے اپالوجسٹ اور عذرخواہوں سے چھپاکر رکھا ہے اور ان کے مشکل کام کو مزید مشکل نہیں بنایا ہاں ایل یو بی پاک کو چلانے والوں کے دو ہمدرد سامنے ہیں ، جن کی شناخت نہیں چھپی ہوئی ، جن کے فیس بک ، ٹوئٹر پر اکاؤنٹ قلمی ناموں سے نہیں ہیں اور صحافت کی دنیا میں بھی وہ قلمی ناموں کی بجائے حقیقی ناموں سے کام کررہے ہیں ، ایک عامر حسینی ہے ، دوسرا عمار کاظمی ہے اور میرے بزرگ وار علمی مرشد حیدر جاوید سید تو ہم سے کہیں آگے ہيں اور ہمارے مادی اثاثے کیا ہیں ، کتنی آسائشیں ہمارے پاس ہیں ، کس قدر ہم عیش کررہے ہیں ہم سے واقف لوگ سب جانتے ہیں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں تک جن کی رسائی ہے ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ہمارے اثاثوں اور ہماری مالیات کی کیا رپورٹس ہماری فائلوں میں درج ہے ، جبکہ کچھ لآئم لائٹ میں نہیں ہيں مگر فیس بک ، ٹوئٹر ، اور صحافتی ، سیاسی زندگی میں ان کا کردار مجھ سے تو کہیں زیادہ ، کئی گناہ قابل قدر ہے ،میں ان کے نام لکھکر انھیں کسی ہٹ لسٹ میں لانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا لیکن کچھ لوگوں کو اصرار ہے کہ دیوبندی وہابی تکفیری فاشزم کے خلاف برہنہ سیف بنے لوگوں کو امریکہ ، ایران ، پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی فنڈنگ اور اشیرباد حاصل ہے مجھے حیرت اس امر پر ہے کہ امریکی ایڈ اور فنڈنگ کا طعنہ بعض وہ لوگ بھی دے رہے ہیں جن سے میری اپنی ملاقات جب ایک ایسی این جی او کے پروگرام میں ہوئی جس کی اپنی ساری فنڈنگ یو ایس ایڈ ، گلوبل اینٹی ٹیررازم فنڈ ، ڈی ایف آئی ڈی یوکے ، ایکشن ایڈ وغیرہ سے ہوئی اور ان کی اپنی این جی اوز اس این جی او لوکل شراکت دار تھیں ایک پروجیکٹ میں جبکہ میں نے اس وقت بھی اسے روزی روٹی کی مجبوری سے تعبیر کیا تھا اور آج بھی کرتا ہوں اور وہیں ان کے ممدوح اور آئیڈیل ارشد محمود بھی موجود تھے ، وہیں ڈاکٹر مبارک علی بھی تھے ، پرویز ہود بھائی بھی تھے ، اے ایچ نیئر بھی تھے اور کون کون تھے لکھنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے ایک صاحب نے بہت زور و شور سے اصول پرستی اور نہ جانے کن کن بلند آدرشوں کا زکر عبدل نیشاپوری کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کیا اور میں اس نوجوان کی اس قدر بلند آہنگی کے ساتھ اصول پرستی کی نعرے بازی دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اس نے کبھی اپنے کئی ایک سابق طالب علم رہنماؤں کے بارے میں سامنے منہ پر نہ سہی کبھی اسی طرح سے کوئی تھریڈ لکھ کر یہ سوال اٹھیا کہ وہ حیدر آباد میں ایک کٹر شیعہ آرگنائزیشن کس ترقی پسندی کے اصول کے تحت چلارہے ہیں ، ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر الیکشن کس بنیاد پر لڑے تھے اور ایک اور صاحب مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ کس بنیاد پر لیکر کھڑے ہوئے تھے اور نجی محفلوں میں تاج حیدر ، نجمی عالم ، اقبال خاور کے زریعے کچھ نذرانوں کے عوض سرکاری نوکریاں دلوانے کی پیش کش کن اصولوں کے تحت کرتے رہتے ہیں میں عبدل نیشا پوری قائم کردہ مقدمات کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہوں ، کیونکہ اس سے اس ملک کی 20 سے 25 فیصد شیعہ آبادی اور 50 سے 60 فیصد سنّی بریلوی آبادی کی زںدگیوں کا سوال جڑا ہوا ہے اور یہ کوئی مجرد تھیالوجیکل ، مناظراتی ، کلامی مقدمات نہیں ہیں بلکہ ان کی جڑیں مادیت کے اندر پیوست ہیں ، جن کا جائزہ لینے کے لیے میں رات کے اس پہر بھی جاگ رہا ہوں ۔مقصد ان کا اپنی علمیت کی دھاک بیٹھانا نہیں ہے ، نہ ہی اپنے آپ کو ہر حال میں ٹھیک ثابت کرنا ہے اور نہ ہی ان لوگوں کو غلط ثابت کرنا ہے جن کے نام یہاں درج ہوئے ہیں ، میں پاکستان کو عراق ، شام بنتا نہیں دیکھنا چاہتا جوکہ دیوبندی وہابی تکفیری فاشزم کی خواہش اولین ہے ، میرے پاس تیر وتفنگ نہیں ہیں اور نہ ہی لشکر کوئی آراستہ سامان و حرب ہے ایک ذھن ہے جس کو اس ملک کی اکثریت کو مذھبی فاشزم کی دلدل میں دھنسنے سے بچانے کے لیے پوری فعالیت کے ساتھ استعمال کرنا چاہتا ہوں

No comments:

Post a Comment