Saturday, November 8, 2014

پاکستانی داعش کے بارے میں ایک کمیونسٹ کی گفتگو


نوٹ : خانیوال ضلع میں ایک ٹاؤن عبدالحکیم کے نام سے معروف ہے ، اس کی دیواروں پر داعش کے حق میں وال چاکنگ سامنے آئی ہے اور ملٹری انٹیلی جنس کے ایک کرنل نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ " دولت اسلامیہ " کا پاکستا کے اندر قیام کا منصوبہ اگر شروع ہوا تو اس کے لیے لڑائی کے میدان جنوبی پنجاب ، بلوچستان ، کراچی اور اندرون سندھ زیادہ ہونے کے امکان ہیں اور انھی علاقوں میں داعش کی حمائت سب سے زیادہ موجود ہے ، اس افسر نے یہ بھی کہا کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے حوالے سے پنجاب اور جنوبی پنجاب کے جو اضلاع ابتک قدرے پرسکون رہے ، وہ آنے والے دنوں میں بہت زیادہ گرم ہوسکتے ہیں ، پنجاب پولیس کے ایک افسر کا کہنا بھی ہے کہ کراچی اور جنوبی پنجاب کے اندر فرقہ وارانہ کلنگ کی لہر دوبارہ سے اپنے عروج پر پہنچنے کا اندیشہ نظر آرہا ہے جبکہ اس حوالے سے جنوبی پنجاب کے اندر ریجنل پولیس افسران اپنے اپنے ریجن میں انتہائی اعلی سطحی اجلاسوں کا انعقاد بھی کرچکے ہیں جبکہ ایم آئی اور آئی ایس آئی بھی اپنی لوکل انٹیلی جنس نیٹ ورکس کو مزید پھیلارہی ہیں ، پاکستانی ریاست کو اپنی رٹ اس مرتبہ انتہائی سیٹل ایریاز اور پنجاب کے اندر سے بھی چیلنج ہوتی نظر آرہی ہے اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنیساں پاکستانی داعش کو ایک حقیقت کے طور پر لے رہی ہیں کل دوپہر کو مجھے کراچی سے ایک انتہائی معتبر اور نظریاتی طور پر کمیونسٹ دوست کا فون آیا ، جس کا خاندان کٹّر سنّی خاندان رہا ہے لیکن وہ کمیونسٹ ہیں اور ظاہر ہے کہ ملحد بھی ہیں ، پاکستان میں ایک بڑے معروف کمیونسٹ گروپ سے وابستہ بھی ہیں اور ںظریہ ساز بھی ہیں ، انھوں نے تو مجھے کہا تھا کہ ان کے نام سے ان کی کہی ہوئی باتیں شایع کردوں ، نام کو شایع کرنے کا مقصد ان کا یہ تھا کہ اس سے یہ ہوگا کہ ان کی کہی ہوئی باتوں کو کسی شیعہ خاندانی پس منظر کے آدمی کی باتیں خیال نہیں کی جائیں گی ، لیکن ان کی کہی باتوں میں بہت سی حساس باتیں ایسی تھیں جن سے ان کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے ، اور ان کے خاندان کو آسانی سے گھیرا جاسکتا ہے ، اس لیے میں ان کا نام دانستہ درج نہیں کررہا ، ان کی بیان کردہ لوکیلٹی بھی میں جان بوجھ کر پوشیدہ رکھی ہے اور ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی آبادی کے اندر اینٹی شیعہ خیالات کس حد تک جاگزیں ہوچکے ہیں اور ان میں شیعہ نسل کشی کے بارے میں کس قدر ظالمانہ سوچ جڑیں پکڑنے لگیں ہیں اور شیعہ کمیونٹی کیسے اپنی شناخت کو چھپانے اور اپنے آپ کو سنّی آبادی میں گم کرنے کی سعی کرتی نظر آتی ہے ، یہ ساری باتیں ایک ایسے کمیونسٹ لیڈر نے کی ہیں ،جس کا شیعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، لیکن وہ شیعہ نسل کشی کے سوال اور اس نسل کشی کے زمہ دار اور ان زمہ داروں کی شناخت کے سوال پر بھی بہت واضح ہے اور اس کا کہنا یہ ہے کہ سپاہ صحابہ پاکستان سمیت وہ سب عناصر جو شیعہ نسل کشی کو ٹھیک خيال کرتے ہیں اب ایک قدم آگے بڑھ کر داعش کی طرح ریاست کے ساتھ مکمل طور پر جنگ کرنے اور اس ریاست کی جگہ ایسی ریاست تشکیل دینے کی طرف جارہے ہیں جو داعش کی دولت اسلامیہ سے مختلف ہرگز نہیں ہوگی ان کی یہ بات سنکر مجھے یہ خیال آیا کہ وہ شاید حال ہی میں ہمارے کچھ نام نہاد لبرل لیفٹیوں کی جانب سے اور ایک بہت بڑے سیکولر لبرل حلقے کی جانب سے شیعہ نسل کشی کو مکمل طور پر ملٹری اسٹبلشمنٹ ایجنڈا قرار دینے پر اصرار کرنے والوں اور اسے بس آئی ایس آئی سے جوڑنے والوں کے غلط اور گمراہ کن تجزیہ کی درستگی کرنا چارہے تھے ،یعنی اینٹی شیعہ ایجنڈا رکھنے والی دیوبندی وہابی کلنگ مشین کی بتدریج ریاست سے ٹوٹتی ہوئی طنابوں کی رفتار میں اضافہ ،جس کا ادراک فرقہ پرست سیکولر ، اور اس کلنگ مشین سے روابط رکھنے والے نام نہاد لبرلز کو تو ہرگز نہیں ہے مڈل کلاس دیوبندی اور شیعہ نسل کشی گفتگو : آر اے ڈی مولف : عامر حسینی کراچی میں گذشتہ دس سالوں سے بہت کچھ بدلنے لگا ہے اور میرے زاتی مشاہدے میں بہت سی ایسی باتیں آئی ہیں ،جن سے ان تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے میں نے یہ دیکھا ہے کہ یہاں دیوبندی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس ان سالوں میں زیادہ اینٹی شیعہ ہوگئی ہے اور وہ اب شیعہ کی نسل کشی ، ان کے مارے جانے کو برا بھی نہیں کہتی جبکہ اس سے پہلے اسی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے دیوبندی کہا کرتے تھے کہ شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ غلط ہے اور ساتھ ہی یل اضافہ بھی کرتے تھے کہ ہم (دیوبندی ) بھی تو مارے جارہے ہیں، اب وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ "ہاں مارے تو جارہے ہیں ، لیکن کم پھر بھی نہیں ہورہے میرے گھر میں ایک پلمبر کافی عرصے سے کام کرنے آتا ہے ، جب پہلے پہل اس نے آنا شروع کیا تو مجھے اس نے بتایا کہ وہ سپاہ صحابہ پاکستان کا رکن تھا لیکن اب نہیں ہے ، پھر اب ایک سال سے وہ دوبارہ سپاہ صحابہ پاکستان (اہل سنت والجماعت ) کے قریب ہوگیا ہے اور بہت زیادہ شیعہ مخالف نظر آتا ہے ، وہ شبیر آباد میں بوہری آبادی کے گھرانوں میں سے ایک ، ایک گھر کو جانتا ہے ، اس کے علاوہ اسے اپنے علاقے میں بھی شیعہ گھرانوں ، دکانداروں کے بارے میں بہت معلومات ہیں کہنے لگا کہ آپ کو پتہ ہے کہ فلاں نکڑ پر جو ہوٹل تھا وہ کیوں بند ہوا؟ میں نے پوچھا کیوں کہنے لگا اس ہوٹل پر شیعہ لٹریچر آتا تھا ، ہوٹل والا شیعہ تھا ، ہوٹل والک کو مارنے آئے تھے ، بیٹا مرگیا ، اس لیے ہوٹل بند ہوگیا میں نے زرا اور کرید کی کہ " شیعہ لٹریچر " کہنے لگا کہ نمائش پر وہ فلاں پرنٹنگ پریس ہے نا ، وہاں سے یہ لٹریچر چھپتا ہے ، میں وہاں گیا بھی تھا اصل بات کا پتہ لگانے ، لیکن شاید ان کو مجھ پر شک ہوگیا ، اس لیے میں زیادہ پتہ نہ کرسکا ، لیکن بہت جلد وہ پرنٹنگ پریس مجاہدین کے نشانہ پر آجائے گا یونمورسٹی میں میرے ایک کولیگ ہیں ، ان سے میری شیعہ نسل کشی پر اکثر بات ہوتی تھی ، پہلے وہ کہا کرتے تھے کہ ہاں شیعہ کو مارنا غلط ہے لیکن ہم بھی تو مارے جارہے ہیں ، لیکن اس مرتبہ جب میں نے کہا کہ یار اب تو حد ہی ہوگئی ہے ، شیعہ کو تو باقاعدہ گھیر کر مارا جارہا ہے تو اس نے کہا کہ ہاں مر تو رہے ہيں سالے پھر بھی کم نہیں ہورہے میں اس کی بات سنکر حیران رہ گیا اس مرتبہ بھی نو محرم کو ہم نے حلیم پکایا ، میری بیوی بہت اہتمام سے یہ حلیم پکواتی ہیں اور ہم دونوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ یہ روائت بہت تیزی سے ختم ہورہی ہے ، اسے زندہ کرنا بہت ضروری ہے ، ہم نے بہت سے خاندانوں کو مدعو کیا ، اس پلمبر کو بھی ایک دن پہلے میں نے مدعو کیا ، اس نے کہا کہ آپ تو کمیونسٹ ہیں اور یہ حلیم کیوں ؟ میں نے کہا کہ بس ایک روائت کے طور پر تو کہنے لگا اچھا آپ دونوں طرف چلتے ہيں میری بیوی کا نام صوفیہ حسنین ہے تو اس نام سے اس نے سوچا کہ میری بیوی شیعہ ہوں گی ہمارے ٹاؤن میں جہاں ہم کرائے پر رہتے ہیں ، ساتھ ہی پڑوس میں ایک شیعہ گھر بھی ہے ، ان کے ہاں میں حلیم دیکر آگیا تو شام کو وہ میرے گھر آئے ، مجھ سے میرا نام پوچھنے لگے ، میں نے ان کو نام بتایا تو میں نے ان کے چہرے پر تجسس دیکھا ، یہ گھرانا اپنی شیعہ شناخت چھپاتا ہے ، اور وہ شاید مجھ سے یہ تصدیق کرنا چآہتا تھا کہ کیا میں بھی شیعہ ہوں ، جو حلیم کی نیاز تکا اور بانٹ رہا ہے حلیم کھانے پر مدعو کئی ایک دیوبندی مڈل کلاس گھرانوں کی جانب سے اینٹی شیعہ خیالات کا کھل کر اظہار دیکھنے کو ملا ، جبکہ وہاں پر مدعو دو شیعہ مڈل کلاس خاندانوں کے شرکاء نے وہاں اپنے شیعہ پس منظر کوبتانے کی ہمت بھی نہیں کی ، کراچی میں شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مڈل کلاس پس منظر کے حامل گھرانے اپنے نام اور مذھبی شناخت چھپانے کی طرف مائل ہیں جبکہ دیوبندی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اب کھل کر شیعہ مخالف خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور لوئر مڈل کلاس کی دیوبندی پرت بہت تیزی سے ملیٹنٹ ہوتی نظر آرہی ہے سپاہ صحابہ پاکستان کراچی کے اندر شیعہ کو مارتی اور ریاست سے سمھوتہ کرتی اور اکثر وبیشتر ان کی مخبر بھی بن جاتی تھی ، لیکن اب یہ ایک قدم آگے نظر آتی ہے ، یعنی یہ ریاست سے لڑنے اور خود ایک اپنی ریاست بنانے کی طرف گامزن ہوتی نظر آرہی ہے اور یہ پاکستانی داعش کا ظہور ہے شیعہ کراچی میں باقاعدہ طور پر گھیر کر ، ریکی کے بعد مارے جارہے ہیں ، اور اس کا اندازہ مجھے ایسے بھی ہوا کہ میری بیوی اور بہن کو اپنا گھر خریدنے کا شوق چرایا تو میں نے اس پلمبر سے کہا کہ ان کو گھر دکھائے ، میری بیوی کو اس پلمبر نے بہت سے مڈل کلاس کی آبادی کے اچھے علاقوں کا بتایا ، اور حیرت اس بات کی تھی کہ اسے اکثر مڈل کلاس علاقوں کی بہت زیادہ معلومات تھیں اور اس نے کئی ایک ایسے علاقے جہاں شیعہ خاندان رہ رہے تھے وہاں مکان لینے سے منع کیا اور اسے وہاں ایک ، ایک گھر کے بارے میں بہت اچھی طرح معلوم تھا اس نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ جب وہ سپاہ صحابہ پاکستان میں تھا تو ان دنوں تنظیم کراچی میں شیعہ گھرانوں اور ان کے اکثریتی علاقوں کا شماریاتی سروے کرنے کی منصوبہ بندی بھی کررہی تھی اور اس حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام تو بہت سالوں سے شروع کیا جاچکا تھا اور یہ کام سپاہ صحابہ پاکستان پر پابندی کے دنوں میں بھی نہیں رکا تھا ، پوری تنظیم انڈر گراؤنڈ کام کرتی ںطر آتی تھی مجھے ایک اور میرے کولیگ نے بتایا کہ سپاہ صحابہ پاکستان نے بریلوی ایسی تنظیموں کے بارے میں بھی کام شروع کیا تھا ، جو ان کی اینٹی شیعہ مہم کی مخالفت کررہی تھیں اور ایسی تنظیموں سے وابستہ لوگوں کی باقاعدہ ریکی بھی کی گئی مڈل کلاس بیک گراؤنڈ رکھنے والی شیعہ آبادی کے اندر اپنی شناخت چھپانے اور بہت زیادہ خود کو اپنے اندر ہی قید کرنے کا رجحان ترقی پر ہے اور اس کمیونٹی کی نسل کشی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ، شیعہ کمیونٹی ایک پسی ہوئی ، مظلوم اور مجبور کمیونٹی کے سٹیٹس کے قریب تر ہوتی جارہی ہے اور کل تک جو مقابلہ کرنے کی بات کرتے تھے اب وہ بھی چھپانے میں عافیت خیال کرنے لگے ہیں

No comments:

Post a Comment