دو ہزار آٹھ میں جب اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف سے ایک مبینہ ڈیل کے نتیجے میں عالمی و علاقائی ضمانتیوں کے ساتھ پاکستان کے اندر جمہوریت بحال ہوئی اور سنٹر لیفٹ پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی نے اے این پی جیسی سنٹر لیفٹ نینشلسٹ پارٹی اے این پی اور سنٹر رائٹ پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز کے ساتھ ملکر مرکز میں ایک مخلوط حکومت بنائی اور پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے اپنے تئیں " قومی سیاسی مفاہمت " کا ایک تصور پیش کرتے ہوئے ایک روشن خیال ، ترقی پسند ، فلاحی ریاست کے تصور کو اپنا نصب العین قرار دیا تو یہ امید کی جارہی تھی کہ پاکستان کی سیاست اب تیزی سے غیر فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ خیالات کے ساتھ آگے بڑھے گی
بہت سے ہلکے یہ بھی کہتے نظر آتے تھے کہ پاکستان ضیاء الحق کی سیاست کے سایوں سے باہر نکلتانظر آرہا ہے اور 80 ء اور 90 ء کی دھائیوں میں فرقہ پرست سیاست کا جو جن باہر آیا تھا اب وہ بوتل میں واپس بند ہونے جارہا ہے
لیکن یہ سب امیدیں ایک سال کے اندر ہی دم توڑتی نظر آنے لگیں ، پہلے پنجاب کے اندر سابق گورنر سلمان تاثیر کا قتل ہوا ، پھر اسلام آباد کے اندر ہی شہباز بھٹی سابق وفاقی وزیر مارے گئے ، اس کے ساتھ ہی لاہور ہی میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہد کردئے گئے اور پے در پے داتا گنج بخش ، بابا فرید ، بری امام ، عبداللہ شاہ غازی ، سخی سرور سمیت کئی ایک مزارات پر بم دھماکے ہوئے ، نشتر پارک میں سنّی بریلوی کمیونٹی پر خود کش بم دھماکہ ہوا جبکہ درجنوں امام بارگاہوں ، عاشورہ کے جلوس حملوں کی زد میں آئے اور اس کے ساتھ ساتھ شیعہ ، سنّی ، دیوبندی کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا
دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نواز ، اے این پی کی وفاق ، پنجاب ، خیبرپختون خوا ، سندھ اور بلوچستان ، گلگت بلتستان کے اندر حکومتوں کے دوران غیر فرقہ وارانہ ترقی پسند قومی سیاست مضبوط ہونے کی بجائے مزید شکست وریخت کا شکار ہوگئی
مسلم لیگ نواز جوکہ دائیں بازو کی ایک ایسی جماعت خیال کی جاتی تھی جس کو شیعہ ، سنّی بریلوی ، دیوبندی ، وہابی سب فرقوں کے لوگ سپورٹ کرتے تھے بہت تیزی سے سنّی بریلوی اور شیعہ سپورٹ سے محروم ہونے لگی
یہی کچھ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوا ، شیعہ اور سنّی بریلوی میں جو لبرل ، ترقی پسند عنصر تھا وہ اس پارٹی سے مایوس ہونے لگا
اور اس اثناء میں سنّی بریلویوں کی ایک بڑی تعداد نے جہاں ڈاکٹ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک ، ضاحبزادہ فضل کریم کی سنّی اتحاد کونسل اور علامہ ثروت اعجاز قادری کی پاکستان سنّی تحریک کا رخ کیا ، وہیں پر خود دیوبندی مکتبہ فکر کی نوجوان نسل بہت تیزی سے ایک طرف تو تکفیری دھشت گرد تنظیموں کی طرف متوجہ ہوئی تو وہیں اس نوجوان نسل خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے اندر نے سپاہ صحابہ سے جنم لینے والی اہلسنت والجماعت کے پلیٹ فارم کو چن لیا جبکہ شیعہ کمیونٹی کے اندر تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی باقیات سے مجلس وحدت المسلمین کا ظہور ہوا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے شیعہ کمیونٹی کے اندر اپنی جگہ بنانے لگی ، جبکہ اہل حدیث کی نوجوانوں کی اکثریت اب حافظ سعید کی جماعت جماعت دعوہ کے اندر ہے جو خود تو الیکشن سیاست کا حصّہ نہیں ہے لیکن وہ آئیڈیالوجیکل اعتبار سے خود کو جماعت اسلامی سمیت ان مذھبی جماعتوں کے قریت خود کو خیال کرتی ہے جو اسلامی انقلاب پر مبنی خلافت اسلامی کے تصور سے جڑے ہوئے ہیں
مذھبی سیاست میں سنّی بریلوی ، شیعہ ، دیوبندی ، اہلحدیث کی جو روائتی پارٹیاں جن میں جمعیت علمائے پاکستان (نورانی ) ، تحریک جعفریہ ، جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت اہلحدیث شامل ہیں وہ اسی کی دھائی سے دھڑے بندی کا شکار چلی آرہی ہیں اور ان کا حلقہ اثر مسلسل زوال پذیر ہے اور یہ تنظیمں اگرچہ مسلکی بنیادوں پر استوار ہوئیں لیکن انھوں نے فرقہ پرستانہ انتہا پسندی سے خود کو دور رکھا تھا لیکن افغانستان پر حملے کے بعد بتدریج دیوبندی جماعتیں جن میں فضل الرحمان اور سمیع الحق کی جماعتیں شامل تھیں کی روش یہ نظر آنے لگی کہ وہ تیزی سے فرقہ پرستی کی تنگ نظر سیاست کی جانب جھکتی چلی گئیں اور ریڈیکل مسلکی سیاست کی طرف ان کا جھکاؤ مڈل ایسٹ میں القائدہ اور جنوبی ایشاء میں طالبانائزیشن کی دیوبندی نوجوانوں اور خاص طور پر مدرسے کے نوجوان اور کم سن طالب علموں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے ہوا
یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں اسلام آباد میں دیوبند مکتبہ فکر کی 25 کے قریب تںطیموں کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں ان 25 تنظیموں نے ملکر دیوبندی سپریم کونسل کے قیام کا اعلان کیا اور ایک طرف ملک میں سیکولر ازم کے خلاف جنگ کے لیے لڑائی کرنے کے لیے مولانا رزاق سکندر مہتمم جامعہ بنوریہ کو صدر بنایا گیا تو دوسری طرف دیوبندی سیاسی تنظیموں کی جانب سے ایک پلیٹ فارم اور ایک انتخابی نشان کے ساتھ آئيندہ الیکشن میں اترنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے والی سیاسی کمیٹی کی سربراہی مجلس احرار کے موجود صدر اور معروف دیوبندی عالم عطاء اللہ شاہ بخاری کو سونپ دی گئی
اہل سنت والجماعت اور جمعیت العلمائے اسلام کے اندرونی زرایع کا کہنا ہے کہ دیوبندی تنظیموں کے اتحاد اور ان کی سیاسی قوت کو مجتمع کرنے کا تصور اہلسنت والجماعت کے سرپرست اعلی مولانا محمد احمد لدھیانوی نے پیش کیا اور انھوں نے اس حوالے سے تین سال سے فضل الرحمان ، سمیع الحق ، وفاق المدارس کی قیادت مولانا سلیم اللہ خان ، قاری حنیف جالندھری ، مولانا رزاق سکندر ، مفتی نعیم ، پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ اور مرحوم مولانا سرفراز کے بیٹے علامہ زاہد الراشدی اور مجلس احرار و انٹرنیشنل ختم نبوت کی قیادت سے رابطہ استوار رکھا ہوا تھا
اصل میں دیوبندی سیاست کو ایک طرف تو اپنے مدارس اور حمائیتی حلقوں کے اندر سے مسلح عسکریت پسندی اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف بڑھنے والی حمائت سے زبردست چیلنج اور دباؤ کا سامنا تھا ، دوسری طرف ظاہر ہے کہ جے یوآئی ایف ، اہل سنت والجماعت کا جھکاؤ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی طرف تھا لیکن ان کے اپنے نچلے سرکل میں ضرب عضب آپریشن کے بعد سے اس جکاؤ کے خلاف ردعمل دیکھنے کو مل رہا تھا اور خارجی سطح پر پوری دیوبندی سیاست کو دھشت گردوں اور تکفیریوں کی حمائت کے ساتھ نتھی کیا جارہا تھا اور اس حوالے سے شیعہ ، سنّی بریلوی اور پاک فوج کے حامی حلقوں میں دیوبندی سیاست کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہورہا تھا اور حال ہی میں دھرنا سیاست جس میں عوامی تحریک ، سنّی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین شیعہ - سنّی بریلوی اتحادی سیاست کے ساتھ ابھریں نے دیوبندی سیاست کو زیادہ دباؤ کا شکار کیا اور پاکستان میں مذھبی سیاست اور زیادہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگئی
جماعت اسلامی پاکستان جس کے سابق سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد مشرف دور میں تمام مسلکی جماعتوں کی روائتی سیاسی پارٹیوں کا اتحاد قائم کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور اسٹبلشمنٹ نے بھی اس پر ہاتھ رکھا تھا بعد میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے ایسے کسی بھی اتحاد کے قیام میں ناکام نظر آتی ہے اور اس کی وجہ پاکستان کے اندر طالبان کے خلاف شروع ہونے والے ملٹری آپریشنز اور طالبان کے دھشت گرد یا مجاہد ہونے پر اس کا مخمصہ تھا جس نے اسے سنّی بریلوی اور شیعہ سے بالکل دور کردیا اور جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کے بیانات اور پالیسی نے تو جماعت کی مذھبی جماعتوں کے اتحاد کی سیاست کے امکان کو ہی ختم نہیں کیا بلکہ جماعت اسلامی کے لیے پارلیمانی سیاست میں اس طرح کی پاپولر سیاسی جماعت بننے کا امکان کم نظر آرہا ہے جیسی پاپولر جماعتیں مصر میں اخوان ، تیونس میں جماعت اسلامی اور ترکی میں جٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنکر ابھری تھیں
جہادی سیاست جو 80 ء کی دھائی سے دیوبندی ،وہابی ، جماعتی دائروں میں گردش کرتی تھی اب تو بہت ہی تنگ نظر قسم کی فرقہ پرست سیاست ہوگئی ہے اور اس نے پوری مذھبی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور پاکستانی سماج کے اندر تکفیری سوچ اور فکر پر مبنی سیاست بہت گہرائی میں جاکر اپنی جڑیں بنارہی ہے اور اس سیاست کے ترقی کرنے سے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختون خوا اور گلگت بلتستان کے اندر فرقہ پرست بنیادوں پر سیاست نئے عروج کو چھو رہی ہے
پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی سیاست اور دھرنا سیاست سے نبٹنے کی نواز شریف کی حالیہ حکمت عملی نے مسلم لیگ نواز کے لیے پنجاب میں سنّی بریلوی اور شیعہ کے دائیں اور بائیں بازو کے ووٹ بینک کو بہت تیزی سے پاکستان تجریک انصاف ، عوامی تحریک ، مسلم لیگ ق ، مجلس وحدت المسلمین کی جانب منتقل کیا ہے اور نواز شریف کی پنجاب کے بااثر سںّی بریلوی سیاسی مذھبی خانوادوں پر گرفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور دیوبندی مکتبہ فکر کی 25 تںطیموں کے اتحاد کے سامنے آنے کے بعد لازمی امر ہے کہ اس طرح کا اتحاد سںّی بریلویوں کی جانب سے بھی سامنےآئے گا
جماعت اہل سنت بریلوی صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری فاروق خان سعیدی کے مطابق ایک جھنڈے ، ایک نشان کے تحت انتخاب لڑنے کے لئے اتحاد اہلسنت کا اعلان جلد متوقع ہے ، حامد رضا چئیرمین سنّی اتحاد کونسل بھی یہی بات کررہے ہیں
اس ساری پیش رفت سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے اندر مذھبی سیاست کا اونٹ فرقہ پرستی کی کروٹ پہلے سے کہیں زیادہ بیٹھنے جارہا ہے
ستر ، اسی کی دھائیوں تک پاکستانی کی مذھبی سیاست مسلکی خدوخال رکھنے کے باوجود بہرحال سیکولر ، کیمونزم ، اشتراکیت ، اینٹی پی پی پی بنیادوں پر زیادہ فوکس تھی اور اس میں فرقہ وارانہ جنگ کا عنصر طاقتور نہیں تھا اور پارلیمانی سیاست میں ان کا کوئی وزن بننتا بھی نہیں تھا ، لیکن اب صورت حال تبدیل ہورہی ہے
پاکستان میں نہ صرف سیاست کا سیکولر ، لبرل ، لیفٹ ڈسکورس کمزور ہوا ہے بلکہ نسبتا غیر فرقہ پرست سیاسی اسلام پسند رجحان بھی تیزی سے کمزور ہوا ہے اور اس کی جگہ فرقہ پرست ، انتہا پسند تکفیری سیاسی ڈسکورس نے لے لی اور اس ڈسکورس میں جس قدر خطرات چھپے ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی کا ایک سابق امیر جس کی جماعت اسلامی کے حلقوں میں بہت عزت اور احترام ہے وہ مذھبی سیاست ميں اعلانیہ جہاد بالقتال کی دعوت دے رہا ہے اور اسے ہم صرف پروفیسر منور حسین کی زاتی سوچ اور خیال کہہ کر نظر انداز نہیں کرسکتے
اب دیکھنا یہ ہے کیا پاکستان کی قومی سیاسی جماعتیں اس قدر اہلیت رکھتی ہیں کہ وہ سیاست کے اس فرقہ پرست ، تکفیری ڈسکورس کو کاؤنٹر کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں ؟ کیا وہ پاکستان کو انارکسٹ سیاست کے طوفان سے بچاکر آگے کی طرف لیجاسکتی ہیں ؟