Friday, June 20, 2014

نواز شریف کہتے ہیں -آبیل مجھے مار


پیمرا نے گذشتہ رات گئے اچانک ایک نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کا لائسنس 15 روز کے لیے معطل اور اس پر ایک کروڑ روپیہ جرمانہ عائد کیا ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ اس چینل نے عدلیہ کے خلاف ایک نامناسب پروگرام چلایا تھا پیمرا کی جانب سے بتائی گئی اس وجہ کو بظاہر تو حکومت کے سوا کسی اور نے قبول نہیں کیا ہے کیونکہ اس فیصلے سے ایک دن پہلے تو سپریم کورٹ نے اس ٹی وی چینل کے اینکر مبشر لقمان پر عائد پابندی ہٹائی تھی جس پر عدیلہ مخالف پروگرام کرنے کا الزام ہے اور یہ کیس ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن اس کے باوجود اے آر وائی کے خلاف عجلت میں فیصلہ کیا گیا کہ اس کو باقاعدہ نوٹس تک نہیں دیا گیا جیسے جیو انٹرٹینمینٹ و نیوز چینل کو نوٹس سرو کیا گیا تھا اور جیو گروپ کے معاملے میں حکومت کا وزن جیو کے ساتھ تھا جبکہ وہ اپنے ماتحت ادارے وزرات دفاع اور فوج سے فاصلے پر نظر آرہی تھی اگرچہ اب لگتا ہے کہ اس چینل کے حما‏ئتی سیاسی ،سماجی ،مذھبی اور دفاعی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے مذکورہ چینل کی قربانی دینے کو تیار نظر آتے ہیں جیسا کہ میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف خارجی خطرات سے زیادہ خود ان کے اپنے اندر سے خطرات زیادہ ہیں اور بقول خورشید شاہ کہ ان کے اپنے بھائی ان کی حکومت کے لیے خطرہ ہیں یا بقول یوسف رضا گیلانی کہ نواز شریف خود ہی جمہوریت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں سانحہ لاہور کے بعد تو وفاقی اور پنجاب حکومت غلطیوں پر غلطیاں کرتی چلی جارہی ہے کہ ایک طرف چیف منسٹر شہباز شریف نے ماڈل ٹآؤن لاہور میں عوام پر سیدھی گولیاں چلانے والے اور ان کی قیادت کرنے والے پولیس افسران کو برخاست تک نہیں کیا بلکہ افسران کو او ایس ڈی لگادیا گیا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ ایسا پولیس افسران کی جانب سے بھانڈا پھوڑنے کی دھمکی آنے کے بعد کیا گیا شہباز شریف نے گذشتہ جمعہ کی شب جو پریس کانفرنس کی اور اس میڑ وہ جس طرح سے رانا ثناءاللہ اور ڈاکٹر توقیر کے وکیل صفائی بنے اس نے رانا ثناء اللہ اور توقیر کی برخاستگی جیسے اقدام کا فائدہ مسلم لیگ نواز کو پہنچنے سے محروم کردیا اور شہباز شریف اور نواز شریف پر سے دباؤ نہیں ہٹ سکا حالانکہ ایک نجی چینل کے رپورٹر کی جانب سے سیون کلب روڈ پر ہونے والی رانا ثناء اللہ کی قیادت میں میٹنگوں کا راز کھلنے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ آجانے کے بعد چیف منسٹر شہباز شریف کی زمہ داری بنتی تھی کہ وہ آئی جی پنجاب ،صوبائی وزیر قانون اور اس میٹنگ میں شریک دیگر افسران سب کو نوکری سے برخاست کردیتے لیکن ان کی جانب سے سستی اور اگر مگر نے ان شبہات کو تقویت دی ہے کہ یہ آپریشن اصل میں چیف منسٹر شہباز شریف کی مرضی اور منظوری سے ہوا سانحہ لاہور کی تپش ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ اے آر وائی نیوز کے لائسنس معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آگیا ویسے اس فیصلے کی ٹائمنگ خاصی ڈسکس ہورہی ہے کہ ایک طرف تو طاہر القادری کی آمد سے دو دن پہلے یہ اقدام کیا گیا ،دوسرا یہ اقدام پیمرا نے پیمرا کے قائم مقام چئیرمین پرویز راٹھور کی وزیر اعظم میآں محمد نواز شریف سے ملاقات کے فوری بعد اٹھایا اور تیسرا کہ میاں نواز شریف کی صدرات میں مسلم لیگ نواز کا جو اعلی سطحی اجلاس ہوا اس میں بھی نجی ميڈیا میں ان گروپوں کو سبق سکھانے کو کہا گیا جو مسلم لیگ نواز کے بارے میں معروضی رپورٹنگ کررہے ہیں میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے آزادی صحافت کی راہ میں روڑے اٹکائے جانے کا سلسلہ اور پنجاب کو پولیس سٹیٹ بنانے کی کوششیں اور ملٹری کی قیادت کے خلاف گٹھ جوڑ کرنے والی قوتوں سے دوستانے وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ایک سال بعد ہی گو،گو کے نعرے سننے کو مل رہے ہیں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے لیے یہ نیک شگون ہرگز نہیں ہے کہ انھوں نے 12 اکتوبر 1999ء تک جو بطور پنجاب اور وفاق کے حاکموں کے طور پر کیا اس کا تذکرہ پھر سے لوٹ آیا ہے اور لوگ میاں محمد نواز شریف کو پھر سے اسی آئینے میں دیکھنے لگے ہیں بلکہ اب تو لوگ ان کو مذھبی فاشسٹوں اور مذھبی جنونیوں کے ساتھ نتھی کرتے ہیں اور ان کا امیج قومی لیڈر کی بجائے ایک فرقہ پرست لیڈر کا ہوتا جارہا ہے اور یہ ان کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہونا چاہئیے لیکن وہ سارا قصور آپنے سیاسی مخالفوں کو دے رہے ہیں اور ان کے بھائی اور وزراء انتہائی ہتک آمیز اور اشتعال انگیزی سے کام لے رہے ہیں میآں نواز شریف نے ایک سال میں ہی ایک طرف تو ملٹری لیڈر شپ سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے اور خراب کرلیے ہیں اور ان سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے تعلقات بھی انتہائی خراب ہوچلے ہیں یہاں تک کہ پی پی پی جو عملی طور پر دوست اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی اسے بھی اپن ے لیڈروں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے ،سانحہ لاہور میں ہونے والی ہلاکتوں اور اس سے پہلے کراچی ائر پورٹ پر دھشت گرد حملوں کے بعد سندھ حکومت سے وفاق کی چھیڑ چھاڑ کے بعد کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بھی پنجاب ،وفاق میں حکومت کو ٹف ٹآئم دے اس وقت تمام اشاریے نواز حکومت کے خلاف ہیں اور نواز حکومت کے پیروں سے زمین سرکتی محسوس ہوتی ہے،اگرچہ پاکستان کی معشیت اور ریاست کی سلامتی کے لیے یہ شگون بد ہے لیکن اس میں زیادہ قصور خود نواز شریف ،شہباز شریف اور ان کے بھڑک جانے والے وزیروں اور مشیروں کا ہے رانا ثناء اللہ کے مستعفی ہونے کے بعد وزرات قانون رانا مشہود کو دے دی گئی ہے لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ یہ وزرات آخر سنٹرل پنجاب کا مقدر کیوں بنی ہوئی ہے یہاں پر سرائیکی ریجن سے کسی کو اس نشست پر کیوں نہیں لایا گیا؟اور لوگ رانا ثناء اللہ کی طرح رانا مشہود کے ایک مخصوص کالعدم تنظیم سے روابط پر بھی انگلیاں اٹھارہے ہیں اگرچہ چیف منسٹر شہباز شریف نے اپنی جمعہ کو کی جانے والی پریس کانفرنس میں مانا کہ ان پر دھشت گردوں سے رابطے کے الزام لگ رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ وزرات قانون کا ایڈیشنل چارج رانا مشہود کو دیتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ رانا ثناء اللہ پر جس وجہ سے زیادہ تنقید ہورہی تھی وہ وجہ رانا مشہود کے ہاں بھی موجود ہے کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شہباز شریف پنجاب میں چیف منسٹر کے ساتھ ساتھ بیک وقت صوبائی ہوم منسٹر ،صوبائی وزیر قانون بنے ہوئے ہیں اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ڈی پی اوز تک کو وہ کنٹرول کرتے ہیں ،ہوسکتا ہے کہ یہ محض شبہات ہوں لیکن یہ شبہات آگے بڑھ کر اب پختہ تاثر بنتا جارہا ہے جس مشکلات بڑھیں گی کم نہیں ہوں گی نواز -شہباز شریف کو یہ بھی ذھن میں رکھنا چاہئیے کہ سرائیکی وسیب تو مسلم لیگ نواز کی بے رخی ،بے توجہی اور امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی لاتعلق ہوا ہوا ہے جبکہ اب سنٹرل پنجاب کے اندر بھی ان کے خلاف زبردست مخالفت اور نفرت پیدا ہورہی ہے ایک سال میں نواز حکومت کی جیت مشکوک ٹھہری ،ان کی معاشی پالیسیوں نے سفید پوش طبقے کو ان سے دور کیا اور پنجاب پولیس کے کارناموں نے پنجاب کے ڈاکٹرز،وکلاء،اساتذہ ،لیڈی ہیلتھ ورکرز،کلرکس،کسانوں کو نواز-شہباز سے دور کردیا ہے اس میں قصور کا زیادہ بوجھ خود میاں برادران پر ہی آتا ہے کسی اور پر نہیں

No comments:

Post a Comment