پنجاب حکومت نے سانحہ لاہور میں قاتل پولیس کو ہی 11 افراد کے قتل اور 85 زخمیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کا مدعی بناکر مقدمہ تحریک منھاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کے بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین اور دیگر کارکنوں کے خلاف درج کرلیا ہے اور اس مقدمے میں 302 کی دفعہ کے ساتھ ساتھ انسداد دھشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں اور مرکزی ملزم ڈاکٹر حسن محی الدین کو ٹھہرایا گیا ہے
یہ ایف آئی آر اس حقیقت کے باوجود درج کرائی گئی ہے کہ چیف منسٹر شہباز شریف نے ہائی کورٹ کے جج جسٹس باقر کی سربراہی میں ایک رکنی عدالتی کمیشن اس سانحے کے زمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے بنایا تھا
دوسری طرف آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے ڈیپارٹمنٹل انکوائری ٹیم بھی مقرر کی ہے گویا اپنے ہی جوڈیشل کمیشن کے متوازی انکوائری اور کمیشن کی کاروائی کا آغاز ہونے سے پہلے ہی ملزموں کی نامزدگی شروع کردی گئی ہے
مجھے زاتی طور پر مسلم لیگ نواز کے بڑے سے لیکر چھوٹے قائدین کی فسطائی زھنیت کا بخوبی علم ہے اور کل جب میں لاہور میں پنجاب پولیس کے سی پی او اور سات ایس پی صاحبان کی قیادت میں ہونے والی ریاستی دھشت گردی کے مناظر دیکھ رہا تھا تو مجھے اپنے بہت سے مفروضات سے دستبردار ہونا پڑا
12 اکتوبر 1999ء کے بعد جب اے آر ڈی تشکیل پائی تو میں نے اس پلیٹ فارم پر ہونے والی جدوجہد اور میاں صاحبان سے لیکر چھوٹے بڑے لیگی کی زبان سے جمہوریت ،انسانی حقوق اور آزادی رائے وغیرہ کے احترام اور آمریتوں کے خلاف ان کے بھاشن سماعت کئے تو مجھے یوں لگا جیسے کہ 80ء اور 90ء کی دھائی کی انتقامی سیاست کا وہ باب ختم ہوگیا جو سنٹر رائٹ نے اسٹبلشمنٹ کی مدد سے کھولا تھا
میں مسلم لیگ نواز کی جمہوریت پسندی اور بلوغت کے حوالے سے بہت سے آرٹیکل ان دنوں تحریر بھی کئے اور ویسے میں نے مسلم لیگیوں کو زوالفقار علی بھٹو کے خلاف ضیاءالحق کی آمریت کا ساتھ دینے پر پیشمانی کا اظہار کرتے ہوئے بھی دیکھا
میں نے سوچا کہ شاید مسلم لیگ نواز کے لوگ پولیس گردی کے فلسفے سے باز آگئے ہیں
نواز شریف ،شہباز شریف اور ان کے ایم این ایز و ایم پی ایز کی طرف سے 88ء میں پولیس گردی کو عروج پر پہنچانے کا اعزاز حاصل رہا
مجھے یاد ہے کہ موسم سرما 1988ء میں جب پنجاب اسمبلی کے الیکشن میاں نواز شریف دھاندلی اور جاگ پنجابی جاگ کے نعرے کے ساتھ جیت گئے تو اگلے روز مسلم لیگیوں نے پورے پنجاب میں جلوس نکالے اور جہآں جہاں ان کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور بیگم نصرت بھٹو ،زوالفقار علی بھٹو کی تصویریں ،پوٹریٹ نظر آئے سب کے سب جلادئے گئے اور ان کو پھاڑ کر پیروں تلے روندا گیا
اس پر جب پی پی پی کے کارکنوں نے پنجاب بھر میں جلوس نکالے تو ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر ،جوڈیشل مجسٹریٹ ،ایس پی ایز اور ڈی ایس پیز ،اسٹیشن پولیس افسروں کی سربراہی میں پولیس نے کارکنوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ان پر سنگین دفعات لگواکر جیلوں میں بند کردیا گیا
ایسے ہی ایک تھانے کی بیرک میں مجھے اور میرے کچھ اور ساتھیوں کو جانے کا اتفاق ہوا ،اس تھانے کے ایس ایچ او کو مقامی مسلم لیگی ایم پی اے کا فون آیا اور اس ایم پی اے نے کہا کہ ان گرفتار جیالوں کی چیخیں ان کو فون پر سنائی جائیں
ایس ایچ او ایک جیالے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس نے دیوار پر چھتر مارے اور ہمیں چیخنے ،چلانے کو کہا اور اس طرح سے مسلم لیگی ایم پی اے کی تسکین ہوسکی
نوے میں جب نواز شریف وفاق میں برسراقتدار آگئے اور پنجاب حسب دستور ان کے پاس تھا تو پھر مجھے سیاسی بنیادوں پر خانیوال ،لاہور ،ملتان اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں کی یاترا کرنی پڑی اور اسی طرح سے 97ء میں کراچی ،میر پور خاص اور پھر پنجاب میں کئی ایک جگہ پر پولیس گردی کا سامنا کرنا پڑا
میرے سامنے لاہور کے اندرون شہر میں 88ء سے لیکر 99ء تک پی پی پی کے جیالوں کو پولیس اور مقامی بدمعاشوں کے زریعے سبق سکھانے کا سلسلہ جاری رہا اور لاہور شہر کے اندر پی پی پی کے لیے سیاست کرنا ایک طرح سے ناممکن بنادیا گیا
نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف نے پہلی مرتبہ گلو بٹ جیسے بدمعاشوں کو استعمال نہیں کیا بلکہ اگر کسی کو یاد نہ ہو یاد کرادوں کہ شہباز شریف اور اس سے پہلے نواز شریف تھے جن کی تخلیق عابد باکسر،ارشد امین چودھری ،عاطف امین چودھری جیسے بستہ الف ،بستہ ب کے بدمعاش تھے جن کے زریعے سیاسی مخالفین کو عبرت کا نشان بنایا جاتا رہا
جماعت اسلامی والوں کے غنڈے ہمیشہ معروف رہے لیکن شہباز شریف تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے کہ جب اعلان لاہور ہورہا تھا تو نواز شریف نے لاہور پولیس اور مقامی غنڈوں کے ہاتھوں جماعت اسلامی کے نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے اسی،نوے سال کے بابوں ،عورتوں تک کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور جب ان کے اپنے پالے ہوئے بعض غنڈوں نے ان کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو جعلی پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع کرایا گیا اور شہباز شریف کو آج تک ایسے جعلی پولیس مقابلے کرانے کی عادت بد لگی ہوئی ہے
شہباز شریف کی کئی اور کہانیاں بھی زبان زدعام رہی ہیں جن میں شہباز شریف نے کسی شادی شدہ عورت پر ریشہ خطمی ہوکر اس کے شوہر کے لیے پولیس اور مقامی بدمعاشوں سے ایسے حالات پیدا کرائے کہ اسے اپنی بیوی کو طلاق دئے بغیر جان بچانا مشکل ہوگئی
نعیم بخاری اور اوکاڑا کے ایک سابق ڈی پی او کی کہانیاں تو سب کو ہی معلوم ہیں
میں نے 93ء میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے پولیس گردی کا وہ مظاہرہ بھی دیکھا جس میں پی پی پی کے لانگ مارچ کے کسی شریک کو نہیں بخشا گیا اور پولیس کی لاٹھیوں سے لہولہان ہونے والوں میں محترمہ بےنظیر بھٹو شہید بھی شامل تھیں
ستانوے سے لیکر 1999ء تک نواز شریف نے پنجاب پولیس ،سندھ پولیس ے زریعہ سے جو مظالم پی پی پی کے لوگوں پر ڈھائے اور جس طرح سے سندھ کے اس وقت کے آئی جی رانا مقبول کے زریعے سے کراچی جیل میں آصف علی زرداری سے تشدد اور جبر کے زریعے سے بے ںطیر بھٹو کو طلاق دینے کے پیپرز پر سائن کرانے کی کوشش کی گئی وہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے اور یہ دلخراش داستان مجھے خود پولیس افسر ظفر عباس بخاری نے سنائی تھی جو اس وقت کراچی جیل کے انچارج تھے کہ کیسے جب انھوں نے سندھ آئی جی رانا مقبول کے اس ناپاک منصوبے کا حصّہ بننے سے انکار کیا تو ان کو زبردستی رخصت پر بھیج کر یہ مکروہ کام کرنے کی کوشش کی گئی
اس دوران ملک قیوم جیسے بہت سارے ججز تھے بشمول جسٹس رمدے اور خواجہ شریف جن کے زریعے نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے ظلم کے ستائے ہوئے لوگوں کے عدالت کے زریعے سے انصاف ملنے کے راستے روکے رکھے اور یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو کو عدالتوں کو کینگرو کورٹس تک کہنا پڑگیا
یہ سارا ماضی مجھے اس لیے یاد آگیا کہ آج میاں نواز شریف،ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کے دائيں بائیں بیٹھے ان کے حواری بالکل اسی طرح سے پولیس کو اپنی پارٹی کے ایک ونگ کی طرح استعمال کررہے ہیں جیسے انھوں نے 88ء سے 99ء تک استعمال کیا تھا
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ مسلم لیگ نواز کی جمہوریت پسندی ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے اور جیسے جیسے حقائق سامنے آرہے ہیں تو یہ احساس ہوتا چلا جارہا ہے کہ 97ء کے انتخابات کی انجئنرنگ دھاندلی کچھ بھی نہیں تھی جو مئی 2013ء کے الیکشن میں کی گئی تھی اور شاید اسی جعلی مینڈیٹ کے پول کھل جانے کا ڈر ہے کہ 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے کی مسلم لیگ نواز دوبارہ سے زندہ ہوگئی ہے
میں نے اپنےگذشتہ کئی کالموں میں یہ بات تواتر سے لکھی ہے کہ چھوٹے میاں اور بڑے میاں کے ہاں ترک پولیس کی طرز پر پنجاب پولیس کی تربیت اور ماڈل کی تشکیل پنجاب کے سیاسی کارکنوں اور آزادی اظہار کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے نیک شگون ہرگز نہیں ہے کیونکہ طیب اردوگان کی ترکی پولیس اپنی فسطائیت اور احتجاج کو کچل دینے میں کوئی ثانی نہیں رکھتی ہے اور سانحہ لاہور نے یہ ثابت کردیا ہے کہ شہباز شریف کی پنجاب پولیس بھی ترک پولیس سے کم نہیں ہے
ویسے کیا یہ محض اتفاق ہے کہ طیب اردوگان ترکی کو دھشت گردوں کا بیس کیمپ بنائے ہوئے ہے اور وہ اسلامی سٹیٹ آف عراق و الشام،النصرہ فرنٹ،اسلامک فرنٹ سمیت مذھبی فاشسٹوں کا مربی اور محافظ بنا ہوا ہے اور میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی مذھبی فاشسٹوں کے سب سے بڑے حمائتی بنکر سامنے آئے ہیں
phir bhe log andhy bnyy bethyy hein..yh shyd suchaye parakh nhee sktyy
ReplyDelete