آج صبح سو کر اٹھا تو موبائل پر بار بار میسج ٹون بج رہی تھی تو موبائل کھولا تو درجنون پیغامات تھے جو بلوچ ساتھیوں کی طرف سے آئے تھے اور خبر سنارہے تھے کہ بلوچ قوم کے رہنماء اور مری قبیلے کے سردار نواب خیربخش مری کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کرگئے
نواب خیر بخش مری جن کی عمر 82 سال ہوگئی تھی کی وفات کی خبر میرے لیے غیرمتوقع نہیں تھی کیونکہ جو خبریں نواب صاحب کے قریبی لوگوں سے موصول ہورہی تھیں ان سے یہ احساس مجھے ہورہا تھا کہ بس چراغ آخر شب ہیں وہ اور یہ چراغ اپنی لو تمام کرنے کو ہے
نواب خیر بخش مری کا نام اور ان کے چیدہ چیدہ خیالات ہمیں زمانہ طالب علمی سے ہی سننے کو ملتے رہتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کے زیر اثر وفاق پرستانہ سیاسی خیالات کا قائل نواب خیر بخش مری کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا تھا اور مجھے یوں لگتا تھا کہ وہ بہت زود رنج ہیں اور 74ء کے ملٹری آپریشن نے ان کے اندر ایک انتہا پسند ردعمل کو جنم دیا ہے
میں یہ بھی خیال رکھتا تھا کہ پاکستان کو بطور ایک وفاق ،ایک فیڈریشن کے قائم رکھتے ہوئے آئینی و قانونی طور پر پانچ اقوام کے ملک کے طور پر چلایا جاسکتا ہے اور آئینی و جمہوری طریقے سے اس ملک کی اقوام پنجابی-مہاجر اشرافیہ کے استحصال اور دباؤ سے نکل سکتی ہیں اور برابری کی بنیاد پر وہ اکٹھی مل کر رہ سکتی ہیں
لیکن آج جب میں زندگی کے چار عشروں سے آگے بڑھ رہا ہوں جو نواب خیر بخش کی عمر کا نصف بنتی ہے اور میرا تجربہ،مشاہدہ اور علم اس عامر حسینی سے کہیں زیادہ بالغ اور پختہ ہے جو طالب علم تھا ،سیاست کے میدان میں نووارد تھا تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ نواب خیر بخش مری اپنے خیالات اور اپنے تصورات میں بالکل ٹھیک تھے
نواب خیر بخش مری 28 فروری 1929ء کو بلوچستان کے علاقے کاہان میں مری قبیلے کے سردار مہر اللہ خان کے ہاں پیدا ہوئے اور چار سال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگيا اور وہ گھر کی ملازماؤں اور سوتیلی ماؤں کے ہاتھوں میں پلے
مری قبیلہ بلوچ قبائل کے ان قبیلوں میں سے ایک ہے جس نے انگریز سامراج کے سامنے کبھی سرجھکایا نہیں اور خود سردار خیر بخش مری کے دادا سردار خیر بخش مری جن کے نام پر ان کا نام تھا سامراج دشمن اور آزادی پسند سردار تھے
انگریز مری قبیلے کو غلامی پر راضی رہنے اور اپنے سامراجی عزائم کے راستے میں روکاوٹیں کھڑی کرنے سے روکنے کے لیے سردار خیر بخش مری کو یتیم ہوجانے کے بعد اپنی سرپرستی میں لے گیا اور ان کو چیفس کالج لاہور داخل کرایا گیا جہآں ان کی تربیت دوسرے سرداروں کی طرح کی گئی اور سردار خیر بخش مری ابتدائی طور پر انگریز کی تعلیم اور تربیت سے ان کی منشاء کے مطابق ڈھل گئے
پاکستان بن گیا اور ایوب خان کا زمانہ آگیا اور یہ وہ دور تھا جب غیر سیاسی سردار نواب خیربخش سیاسی بن گیا اور اس نے مزاحمتی سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا
ایوب خان کے دور سے لیکر بھٹو کے دور تک نواب خیر بخش مری نیشنل عوامی پارٹی میں رہے جو کہ اس زمانے میں پنجابی ،سرائیکی ،پختون،بلوچ،بنگالی ،سندھی ترقی پسند سوشلسٹ قوم پرستوں کی پارٹی تھی اور یہ پاکستان کو کثیر القومی وفاق بنانے کی حامی تھی اور پاکستان کے پانچوں صوبوں صوبائی خود مختاری جبکہ وفاق کے پاس دفاع ،خارجہ ،کرنسی اور مواصلات کے شعبے رکھنے کی حامی تھی
لیکن نواب خیربخش مری کے خیالات میں تبدیلی کا عمل اس وقت شروع ہوا جب 70ء کے بعد ملک دولخت ہوگیا اور بھٹو نے معاہدہ عمرانی کے تحت بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں نیپ کی حکومت کی تشکیل کو تسلیم کیا اور صوبوں کو خودمختیاری دینے کا وعدہ کیا
لیکن بھٹو صاحب دن بدن پاکستانی ریاست کی ملٹری اور سویلین نوکر شاہی کی منشاء کے مطابق بلوچوں سے زیادتیاں کرتے رہے اور ان کی سربراہی میں بھی بلوچستان کے ساتھ ایک کالونی کا سا سلوک کیا جاتا رہا اور پھر نیپ کی حکومت کو زبردستی ختم کردیا گیا جس سے نواب خیر بخش مری فیڈرل سیاست کے تصور سے ہی باغی ہوگئے اور انھوں نے اپنے قبیلے کے ساتھ ریاست سے بغاوت کردی اور ان کو ریاستی فوجی آپریشن کے دوران پیدا ہونے والے جبر کی وجہ سے افغانستان ہجرت کرنا پڑی جہاں پر ایک سوشلسٹ حکومت قائم ہوچکی تھی
نواب خیر بخش مری ریاستی حبر ،قید و بند کی صعوبتوں اور بلوچ قوم پر ہونے والے مسلسل مظالم اور اس دوران اپنے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ بلوچ قوم کا حقیقی ایشو حصّہ داری نہیں ہے بلکہ آزادی ہے اور ان کے خیال میں پاکستان کوئی آزاد ریاست نہیں ہے اور نہ ہی پاکستانی نام کی کوئی قوم موجود ہے بلکہ پاکستان ایک نیو کالونیل سٹیٹ ہے جس پر پنجابی-مہاجر ملکر حکمرانی کررہے ہیں اور پاکستان کے نام پر پنجابی-مہاجر حکمران طبقے بلوچستان کو ایک مفتوحہ ،مقبوضہ کالونی خیال کرتے ہیں اور بلوچ قوم کے لوگوں کو اپنی ریاعا سمجھتے ہیں اور اس خطے کی لوٹ کھسوٹ ان کا اول و آخر مقصد ہے
روزنامہ اساپ کوئٹہ دسمبر 2003ء میں مطلب مینگل نے ان کے ایک اسٹڈی سرکل کی رپورٹ دی جس میں ایک جگہ نواب خیر بخش مری کہتے ہیں
پاکستان کے حکمران کہتے ہیں کہ فوج اور اقتصادیات ریاست کے دو ستون ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیسی مبہم بات ہے،فوج اور اقتصادیات کس کے مقابلے میں ہیں؟ہمارے مقابلے میں؟چین ،امریکہ ،افغانستان اور ایران کے مقابلے میں ؟فوج تو ملک کی سلامتی کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ریاست کا ستون ،ریاست کا ستون تو صحیح فکر،انسانی برابری ،عزت اور انصاف ہوا کرتے ہیں بنیادی طور پر یہ سوسائٹی جسے ہم پاکستان کہتے ہیں اس کو قوم کہنا ٹھیک نہيں ہے
نواب خیر بخش کہتے ہیں کہ
بلادست کے منھ سے محکوم کے لیے ترقی کا لفظ صرف لوٹ کھسوٹ کے لیے نکلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ترقی اور میگا پروجیکٹس کے نام پر بلوچ قوم کو زیر تسلط رکھنے اور لوٹ کھسوٹ جاری رکھنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے
رمیوں کی اصطلاح میں کالونیل ازم کا مطلب ہی مقبوضہ علاقوں میں نوآبادیاں قائم کرکے مقاقی آبادی کو بے دخل کرنا ،ان کے وسائل پر قبضہ جمانا ہے –رومن امپائر ،انگریزی قبضہ گیر اور ديگر سامراجی سرمایہ دار ملکوں نے کیا ماضی میں اسی طرح کے ہتھکنڈوں سے ،ترقی کا نام لیکر اقوام کو نہیں لوٹا تھا؟یا آج امریکہ اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ،اقوام کی تہذیب ،کلچر و روایات میں روکاٹیں ڈالکر ان کی تجارت پر قابض نہیں ہورہی ہیں ؟ان کی اقتصادیات کو بگاڑ کر استحصالی زرایع سے انھیں افلاس سے دوچار نہیں کیا جارہا ؟آج بلوچ کے خلاف بھی وہی حربے استعمال کئے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔بلوچ کو اس نہج پر پہنچایا جارہا ہے کہ وہ عالمی سرمایہ داروں کا دست نگر ہونے کے ساتھ مکمل طور پر پنجابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہو-ان کے ترقیاتی منصوبوں میں عالمی سرمایہ دار اور پنجابی کا مفاد پوشیدہ ہے –پنجابی کا کردار یہ ہے کہ وہ اپنے حصّہ کے لیے عالمی سرمایہ داری کی چاپلوسی کررہا ہے اور اس کی حرکتیں اس کے تاریخی کردار کے عین مطابق ہیں
نواب خیر بخش مری نے روزنامہ توار کوئٹہ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ
پنجابی عام آدمی پر بھی ظلم ہوتا ہے وہاں پر چودھری تھانیدار اس کو دباکر رکھتے ہیں لیکن پنجابی عوام اپنی مظلومیت سے آزادی حاصل کرنے کی بجائے ظالم پنجابی حکمران کلاس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور پنجابیوں کے ظلم کی چکی میں پسنے والے بلوچ عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں تو ہم بلوچ پنجابیوں کے جاگنے اور ان کو ساتھ ملانے کے لیے اپنی آزادی کی تحریک اور حقوق کی جنگ کو موخر نہیں کرسکتے اور پنجابیوں کے ساتھ آنے کی آس میں ان کے ساتھ خود بھی ڈوبنا نہیں چاہتے
نواب خیر بحش مری نے کہا تھا کہ پنجاب سے جو بھی آتا ہے وہ حصّہ دینے کی بات کرتا ہے گویا ہم کوئی خیرات ان سے مانگ رہے ہیں اور وہ یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ بلوچ قوم کا علاقہ ان کی کالونی اور اس کے وسائل پر وہ قابض ہیں اور ان کو یہ قبضہ چھوڑنا ہوگا –بلوچ ودھی (خیراتی روٹی) لینے والے نہیں ہیں
نواب خیر بخش ایک روشن ضمیر اور تجربہ کار مفکر سیاست دان تھے اور یہ ان کی چشم بصیرت تھی کہ انھوں نے غوث بخ بزنجو کے بیٹے اور ان کے سیاسی وارث کہلانے والے حئی،مالک و دیگر مڈل کلاس بلوچوں کی ایک نئی ابھرتی ہوئی موقعہ پرست سیاست کے بارے میں ٹھیک ٹھیک پیشن گوئی کی تھی
ان سے پوچھا گیا تھا کہ نیشنل پارٹی پارلیمانی وفاق پرست سیاست کے اندر رہتے ہوئے بلوچوں کی آزادی و خودمختاری کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کام کررہی ہے تو وہ اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جو بھی نوآبادیاتی آقاؤں اور عالمی سرمایہ داری کے تنخواہ داروں کے ساتھ رہ کر آزادی و خودمختاری کی بات کرتا ہے تو اس سے بڑا جھوٹا اور موقعہ پرست کوئی اور نہیں ہے
نواب خیر بخش پنجابی مڈل کلاس کے بارے میں کبھی حوش فہمی کا شکار نہیں رہے اور ان کی کہی باتیں ان کی زندگی میں ٹھیک ثابت ہوتی رہیں ہیں
آج پنجابی مڈل کلاس میں بھاری اکثریت بلوچ قوم کے استحصال اور ان کی محکومیت کو بڑھانے والے نام نہاد ترقی کے ریاستی ماڈل کی حامی ہے اور وہ اس ماڈل کے راستے میں آنے والی بلوچ قوم کو زبردست فوجی قوت سے کچلنے کے عمل کی حمائت کرتی ہے جیسا کہ پنجاب کے صحافی ،سیاسی رہنماء اور عوام کی اکثریت بلوچستان پر سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والے مظالم پر خاموش نظر آتی ہے اور اگر فوج بلوچستان کے نہتے عوام پر جیٹ طیارے ،ہلکا اور بھاری توپ خانہ بھی استعمال کرے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے
پاکستان کی فوج ،اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ،اس کی سرمایہ دار کلاس اور اس کی مڈل کلاس پرتیں سب کی سب بلوچ قوم کی محکومی اور اس کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر متفق ہیں اور پنجاب میں بہت کم اور وہ بھی انتہائی کمزور آوازیں ہیں جو ترقی کے اس نوآبادیاتی ماڈل کے خلاف ہمیں سنائی دیتی ہیں
نواب خیر بخش مری نے بلوچ قوم کو قبائلی ،ریجنل نیشنل ازم ،پارلیمانی موقعہ پرستانہ بلوچ مڈل کلاسی پالیٹکس اور درباری اسلام آباد کے غلام سرداروں کی سیاست کے مقابلے میں ایک حقیقی سوشلسٹ ،سامراج دشمن بلوچ قومی سیاست اور مزاحمت کا راستہ دکھایا اور یہی ایک کارنامہ ان کو بلوچ قوم کی نظروں میں ھیرو بنانے کے لیے کافی ہے
نواب خیر بخش مری کو میں اپنے سیاسی گرو کے طور پر بھی لیتا ہوں کہ ان کی نظریاتی تعلیم میں بلوچ قوم کے لیے ہی اسباق پنہاں نہیں ہیں بلکہ سرائیکی قوم کے ایک فرد ہونے کے ناطے میرے لیے بھی واضح لائن آف ایکشن موجود ہے
سرائیکی وسیب کے باسی بھی ابھی تک پنجاب اور اس کی فوج ،نوکر شاہی اور اس کی سیاسی اشرافیہ کے درمیان باہمی اتحاد اور ان کے کالونیل ڈویلپمنٹل آئیڈیالوجیکل تصورات کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پائے اور اس خطے میں کوئی ایک ایسا قدآور لیڈر موجود نہیں ہے جو آزادی اور مکمل قومی آزادی کی تحریک کی بات کرے بلکہ یہاں سرائیکی وسیب کے عوام کو غلامی اور محکومی سے آزاد کرانے کی بات کرنے والے حصّہ داری سے آگے نہیں بڑھتے اور وہ کالونیل حاکموں سے اپنی قانونی اور آئینی رعایا ہونے کا سٹیٹس مانگتے ہیں مطلب ان کو صوبے کا درجہ دیا جائے بس ان کو نواب خیر بخش سے سبق لینا چاہئیے اور بلوچ قوم کی تاریخ پڑھ لینی چاہئیے
No comments:
Post a Comment