بلوچ قوم کی تحریک کے وہابی-دیوبندی مذھبی فاشزم سے رشتے اور اس کے اینٹی شیعہ دھشت گرد تنظیموں سے تعلق کا سوال نیا نہیں ہے
ایران میں شیعہ انقلاب کے آنے کے بعد جب ایران کی مرکزی حکومت اور فارسی خواں اکثریت کی جانب سے بلوچ،عرب ،کرد قومیتیوں کے مسآئل حل نہ ہوئے اور ان قومیتیوں گروپوں میں پھر سے مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا تو ایران-سعودیہ عرب کے درمیان تعلقات کی خرابی اور سعودیہ عرب کی جانب سے ایرانی رجیم کو گرانے کی کوششوں اور امریکی مخالفت کے پس منظر میں سعودیہ عرب ،قطر نے وہابیت اور دیوبندیت کے زریعے ایرانی بلوچ ،خراسانی عرب اور کردوں کے اندر مذھبی فاشزم کو پھیلانے کی کوشش کی جس کا ہدف شیعہ تھے اور اس ضمن میں سعودیہ عرب کی یونورسٹیاں اور پاکستان کے دیوبندی مدارس میں ایرانی بلوچ،کرد اور عربوں کو داخلہ دلایا گیا اور ان کے اندر زبردست شیعہ مخالف سلفی وہابی دیوبندی آئیڈیالوجی کو سرایت کیا گیا اسی کا ایک نشان جنداللہ تھی جو بیک وقت اینٹی شیعہ اور بلوچ قوم پرست دھشت گرد تنظیم تھی اور ایرانی بلوچستان کی آزادی کی داعی تھی جس کے سربراہ عبدالمالک ریگی کوایران نے بعدازاں پھانسی پر چڑھادیا اور یہی جنداللہ بعدازاں القائدہ،لشکر جھنگوی اورٹی ٹی پی کے ساتھ بھی رابطے میں آئی اور جنداللہ پاکستان کے اندر بھی سرگرم ہوئی اور اس نے پاکستان کی فوج اور پولیس پر بھی حملے کئے
کیا بلوچ قوم کے اندر خاص طور پر ایرانی بلوچوں کے اندر سعودیہ عرب کی پشت پناہی اور دیوبندی و وہابی دھشت گرد تنظیموں کے تعاون اور مدد سے پیدا ہونے والی جنداللہ اور اس کے دیوبندی-وہابی شیعہ مخالف دھشت گرد تنظیموں سے تعلق اور اشتراک نے پاکستان کے اندر بلوچ قوم کی آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑنے والی بلوچ تںطیموں کے ساتھ بھی کوئی اشتراک اور تعاون قائم کیا؟
یہ وہ سوال ہے جو ایک مرتبہ پھر اس وقت اٹھا جب بلوچ قوم کے آزادی پسند رہنماء اور گوریلہ وار کے بانی شیر بلوچستان نواب خیر بخش مری کا جنازہ کوئٹہ میں ہاکی اسٹیڈیم میں لایا گیا تو اس کی امامت اہل سنت والجماعت/لشکر جھنگوی /سپاہ صحابہ پاکستان نے پڑھایا
اس پر سب سے پہلے ردعمل ایک ترقی پسند سیکولر لبرل ویب سائٹ ایل یو بی پاک ڈاٹ کام پر دیکھنے کو ملا اور اس سآئٹ ایڈیٹر انچیف علی عباس تاج نے لکھا کہ سیکولر قوم پرست بلوچ نواب خیر بخش مری کے جنازے کی نماز دیوبندی دھشت گرد تنظیم کے رہنماء رمضان مینگل کے ّرھائے جانے کی خبر ایک شاک ہے اور اس سائٹ نے ایک مرتبہ پھر بلوچ قومی تحریک کے اندر بعض سیکولر بلوچ افراد اور تںظیموں کے شیعہ مخالف دیوبندی مذھبی فاشسٹوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینے کی کوشش کی
ایل یو بی پاک ویب سائٹ کی جانب سے اس پوسٹ کے لگائے جانے کے بعد پاکستان کے سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ کیا واقعی بلوچ قومی تحریک ایک فرقہ پرست اور مذھبی انتہا پرست دیوبندی فسطائی رجحان کے ساتھ نکاح کرچکی ہے ؟
اس بحث میں پنجاب سے ایسے دوست بھی شریک ہوئے جو ایک لمبے عرصہ سے بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک کو فرقہ پرست اور اینٹی شیعہ تحریک ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور انھوں نے ایک مرتبہ پھر یہ دکھانے کی کوشش کی کہ اصل میں لشکر جھنگوی ،اہل سنت والجماعت -سپاہ صحابہ پاکستان بھی بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا بازوئے شمشیر زن ہیں
میرے خیال میں بلوچ قوم کے اندر اس وقت قومی آزادی کی انقلابی مزاحمتی تحریک کا جو رجحان بلوچ نیشنل فرنٹ،بلوچ ریپبلکن پارٹی،بی ایل اے،بی ایل ایف ،بی ایس او آزاد ،دی وائس فار مسنگ بلوچ وغیرہ کے نام سے ابھرا ہے اور جس کے اہم ترین رہنماء حیربیار مری،مہران مری،ماما قدیر بلوچ،براہمداغ بگٹی وغیرہم ہیں بجا طور پر بلوچ قوم کا سیکولر ،ترقی پسند اور مذھبی فاشسٹ مخالف رجحان ہے اور اس رجحان کا دیوبندی-وہابی فاشزم سے کوئی تعلق نہیں ہے
بلوچ قوم کے اندر آزادی اور خودمختاری کا جو ترقی پسند،سیکولر اور انقلابی رجحان آج بلوچ قوم کے نوجوان مرد اور عورتوں کے اندر بیداری کی جو شمع روشن کررہا ہے اس رجحان کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور پاکستان کی پولیٹکل اسٹبلشمنٹ ہے اور یہ ملٹری اور پولیٹکل اسٹبلشمنٹ بلوچ قوم کی قومی آزادی و خودمختاری کی لہر اور تحریک کو دبانے کے لیے دیوبندی-وہابی دھشت گرد مشین کے ایک حصّے کو اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کررہی ہے دیوبندی دھشت گرد انتہا پسند تنطیم اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کے دیگر جملہ روپ لشکر جھنگوی ،جیش الاسلام ،جیش العدل پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی سب سے اہم پراکسی ہے جبکہ دوسری نمبر پر جماعت دعوہ وہابی دھشت گرد تنظیم ہے اور تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی ،جے یو آئی نظریاتی وغیرہ ہیں
القائدہ ،لشکر جھنگوی العالمی نے بھی بلوچ ،کرد ،عرب نژاد ایرانیوں کو بھرتی کیا ہوا ہے جو بلوچ قوم کے اندر شیعہ-سنّی بریلوی ،عیسائی ،ہندؤ ،احمدیوں کے خلاف دکنت تیز کررہے ہیں اور وہ بلوچ قوم کی محکومی اور مظلومیت کو سنّی مظلومیت کے طور پر یش کرتے ہیں
بلوچ قوم میں موقعہ پرستانہ کردار کا حامل ایک رجحان بلوچستان نیشنل پارٹی کا ہے جس کی مخلوط اتحادی حکومت بلوچستان میں ہے اور یہ مرکز میں مسلم لیگ نواز کی حکومت میں شریک کار ہے ،یہ خود کو ترقی پسند ،روشن خیال ،غیرفرقہ پرست جماعت کہتی ہے لیکن یہ ایک طرف تو مسلم لیگ نواز کی دیوبندی انتہا پسند تنظیم اہل سنت والجماعت کی سرپرستی پر خاموش ہے تو دوسری طرف یہ بلوچستان میں اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے آزادی سے کام کرنے ،شیعہ کے خلاف نفرت پھیلانے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پراکسی کے طور پر کام کرتے ہوئے بلوچ قوم کی نسل کشی کے مربوط پلان میں مرکزی کردار ادا کرنے پر چپ سادھے بیٹھی ہے اور یہ بلوچستان میں جماعت دعوہ کے کام کرنے پر پابندی نہیں لگا سکی ہے اس کا یہ گول مول رویہ ،ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مذھبی فاشزم اور مذھبی دھشت گردی کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے پر خاموشی ایک طرح سے دیوبندی وہابی مذھبی فاشزم کی سپورٹ ہے
اس لیے میں برملا کہتا ہوں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور اس کے جملہ بلوچ حامیوں کا سیکولر ازم ،ترقی پسندی ،لبرل ازم ،روشن خیالی سب جعلی ہے اور بلوچ قوم میں یہ پیٹی بورژوا قوم پرستی کی موقعہ پرستی کی سب سے مثالی اور کلاسیکل شکل ہے
جہاں تک اختر مینگل کی پارٹی کا تعلق ہے اگرچہ اس نے بھی سردارانہ موقعہ پرستی الیکشن میں حصّہ لیکر اور حکمران بالادست طبقے سے ناکام ڈیل کی کوشش کرکے موقعہ پرستانہ کردار ادا کیا لیکن کم از کم اس میں یہ ہمت تو ہے کہ وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے مذھبی فاشسٹ ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف کھل کر بولتا ہے
بلوچ قوم میں دائیں بازو کا ایک انتہائی رجعت پرست اور غدارانہ رجحان موجود ہے جو مسلم لیگ نواز ،پاکستان تحریک انصاف ،دیوبندی -وہابی جماعتوں یا فوج کی سپورٹ کرنے والی مذھبی جماعتوں مین شامل ہے اور اس میں چنگیز خان مری نواب خیر بخش مری کا بیٹا ،سرفراز بگٹی صوبائی وزیر داخلہ ،سردار ثناءاللہ زھری وغیرھم شامل ہیں یہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور پنجابی سرمایہ دار سامراج کی گود مين بیٹھے لوگ ہیں اور دائیں بازو میں دیوبندی-وہابی فاشزم کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں
ملٹری اسٹبلشمنٹ ،دیوبندی-وہابی مذھبی فاشسٹ تںطیمیں بلوچ قوم میں رجعت پرستی ،اینٹی شیعہ ،اینٹی سنّی بریلوی ،اینٹی کرسچن و اینٹی احمدی و اینٹی ہندؤ رجحانات اور نطریات کو پھلتے پھولتے دیکھنے کی خواہش مند ہیں
ملٹری اسٹبلشمنٹ بلوچ قومی تحریک کا سیکولر ،روشن خیال اور اعتدال پسند چہرہ مسخ کرنے کے لیے اس میں دیوبندی -وہابی فاشزم کو داخل کرنے کی بے انتہا کوشش کررہی ہے تاکہ ایک طرف بلوچستان میں رہنے والے شیعہ اور دیگر مذھبی برادریوں کے اندر اس تحریک کی ہمدردی ختم کرائی جاسکے اور بلوچ قوم کو دیگر مذھبی گروہوں سے باہم دست و گربیاں کرایا جاسکے جبکہ دوسری طرف اس تحریک کو پنجاب ،سندھ ،خیبر پختون خوا سے جو حمائت حاصل ہے اور پنجاب و سندھ ميں جو شیعہ و سنّی بریلوی کمیونٹی کے روشن خیال اور ترقی پسند عناصر اس کے حق ميں ہیں ان کو اس کے خلاف کیا جاسکے
بلوچ سیکولر روشن خیال قومی آزادی کی تحریک کو دیوبندی-وہابی فاشسٹ عناصر کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش سعودیہ عرب بھی کررہا ہے تاکہ اس تحریک کو ایران سے حساب برابر کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے اور اس مقصد کے لیے دیوبندی مدارس کی مدد سعودی عرب کو پہلے سے ہی حاصل ہے اور سعودی عرب ایرانی بلوچستان میں سعودیہ عرب سے پڑھے ہوئے سلفی وہابی مولویوں کے زریعے سے بلوچ دیوبندی-وہابی دھشت گردوں کو پاکستان ميں بلوچستان کے اندر اپنا نیٹ ورک قائم کرنے میں مدد دے رہا ہے
مینگل اور شاہوانی اور کرد بلوچوں کے اندر دیوبندی انتہا پسندوں کا اثر بڑھ رہا ہے جبکہ بلوچ قوم میں مسلم لیگ نواز،پاکستان تحریک انصاف ،جماعت اسلامی ،جے یوآئی نظریاتی وغیرھم میں شامل بلوچ سردار ،سرمایہ دار ،ٹھیکے دار اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے اندر تبلیغی جماعت ،سپاہ صحابہ پاکستان کا اثر بڑھ رہا ہے اور یہ بلوچ قبائل میں اور بلوچ اربن علاقوں میں روائتی طور پر موجود سنّی بریلوی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے زور لگارہے ہیں اور یہ عناصر بلوچستان میں پنجابی آبادکاروں میں موجود دیوبندی انتہا پسند اور وہابی جماعت دعوہ والوں سے اشتراک قائم کررہے ہیں اور ان کا مقصد بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنا ہے
ملٹری اسٹبلشمنٹ نے بہت چالاکی کے ساتھ اہل سنت والجماعت کی اینٹی شیعہ ڈرائیو کو غالب کرکے اور اسے بلوچ رنگ میں رنگ کر شیعہ ہزارہ ،شیعہ پنجابی اور افغانستان سے آکر کر صدیوں سے آباد ہونے والی شیعہ آبادی میں اپنے ایجنٹوں کے زریعے ایسے لوگ پیدا کرلیے ہیں جو سارے بلوچوں اور سارے پشتونوں کو شیعہ دشمن اور قاتل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس طرح سے ملٹری اسٹبلشمنٹ ،ایف سی ،آئی ایس آئی ،ایم آئی کو ان کا نجات دھندہ ثابت کرتے ہیں گویا وہی زبح کرے ،وہی لے ثواب الٹا والا معاملہ ہوگیا ہے
ملٹری اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ نواز کے پنجابی حکمران بالادست طبقات نے بہت چالاکی کے ساتھ بلوچ ،پشتون ،ہزارہ کے درمیان نسلی ،لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تضادات اور تقسیم کو بڑھایا ہے اور وہ یہ سب کام بہت منظم طریقے سے کررہے ہیں اور دیوبندی کلنگ مشین کا ایک بڑا حصّہ پاکستانی ملٹری اور پولیٹکل اسٹبلشمنٹ کی پراکسی کے طور پر بہت اہم اور بنیادی کردار ادا کررہا ہے جس کردار کو انتہائی گہرائی میں جاکر بلوچ قوم کے حقیقی آزادای پسند سیکولر ،لبرل اور روشن خیال رجحان کے نمائندوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب ،سندھ ،خیبر پختون خوا ،گلگت بلتستان ،سندھی اربن اردو بولنے والے ان گروہوں اور عناصر کے ساتھ ان کا مکالمہ بہت ضروری ہے جو ملٹری اسٹبلشمنٹ اور دیوبندی-وہابی فاشسٹ دھشت گردوں اور ان کے نظریہ سازوں کے خلاف علمی ،سیاسی ،سماجی محازوں پر برسرپیکار ہیں اور ان کو ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہیموں اور فاصلے پیدا کرنے سے بچنے کی اشد ضرورت ہے
میں پنجاب کے روشن خیال ،ترقی پسند بائیں بازو کے حلقوں سے کہتا ہوں کہ وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ نواز ،پاکستان تحریک انصاف ،جماعت اسلامی کی جانب سے بلوچستان کی آزادی ،خودمختاری ،حقوق کی انقلابی تحریک کے خلاف سازشی نظریات ،مفروضوں ،پاکستانی نیشنل ازم کے ڈھونگ ،اس تحریک کو امریکی سامراج کا حاشیہ بردار یا اس تحریک کے دیوبندی-وہابی فاشسٹ علمبرداری کا اس کے اینٹی شیعہ ہونے کے مفروضے کی طرف مائل ہونے کی روش ترک کردیں اور بلوچ قوم پر ریاست کی جانب سے جنگ مسلط کرنے کرنے اور اس میں شدت لانے جیسے رجحانات کے خلاف کھل کر سامنے آئیں ،میری یہی رائے سرائیکی خطے کے بآئیں بازو کے لوگوں کے لیے بھی ہے
میں اعلانیہ کہتا ہوں کہ بلوچستان کی پشتون پٹی پر پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کی روشن خیالی ،سیکولرازم ،ترقی پسندی ایک قراڈ کے سوا کچھ بھی نہيں ہے اور یہ پارٹی اور اس کے ہمدرد حقیقی طور پر ریاست کے بورژوازی ،جاگیردار ،پیٹی بوژوازی بالادست طبقات اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ انتہائی موقعہ پرستانہ اتحاد میں کھڑے ہیں اور پشتون قوم کے اندر موقعہ پرست رجحانات کے علمبردار ہیں اور یہ دیوبندی-وہابی فاشسٹوں کے پشتون چہروں کو چھپانے اور ان کے بارے میں گول مول خیالات رکھتے ہیں اور یہ اسے محض پنجابی چہرہ قرار دیکر دیوبندی-وہابی فاشسٹ رجحان کے کثیر النسلی،کثیر القومی ٹرانس نیشنل انٹرنیشنل رجحان ہونے جیسی حقیقت کو مسخ کرنے کے جرم میں شریک ہیں
پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کا اس حوالے سے کردار عوامی نیشنل پارٹی اور اس کی پختون انٹیلیجنٹیسیا کی اکثریت کے موقعہ پرستانہ رجحان سے مختلف نہیں ہے بلکہ اس کا کردار تو شاید اس سے بھی برا ہے
عوامی نیشنل پارٹی کے پختون دانشور ملٹری اسٹبلشمنٹ اور ازبک ،تاجک،چیچن ،عرب وہابی دھشت گردوں کے گٹھ جوڑ کی اعلانیہ اور نام لیکر محالفت کرتے ہیں لیکن ان کی اکثریت دیوبندی-وہابی فاشزم کے پختون ،افغان چہروں کو چھپاتی اور اس کی اہمیت کو کم کرکے دکھانے کی کوشش کرتی ہے اور یہ حقیقت چھپالیتی ہے کہ پختون معاشرے کے اندر دیوبندی-وہابی فاشزم کا پختون چہرہ بھی اتنا ہی خطرناک اور فسطائیت سے بھرپور ہے جتنا اس کا پنجابی چہرہ خطرناک ہے یا اس کا ازبک ،چیچن ،تاجک اور عرب چہرہ خطرناک ہے اور یہ دیوبندی مدارس کے اندر اس فسطائیت کی جڑوں کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہے
میں خادم حسین ،فرحت تاج ،زاہد بونیری سمیت پختون سیکولر لبرل روشن خیال تجزیہ نگاروں ،دانشوروں ،سیاسی قائدین میں اس حوالے سے خاموشی ،پردہ پوشی اور ایک قسم کی دیوبندی پختون مذھبی پیشوائیت کو رعائتی نمبر دینے اور ان کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کرنے سے گریز کرنے کا رویہ کارفرما دیکھتا ہوں
اے این پی ،پشتون خوا ملی عوامی پارٹی نے پشتون شیعہ ،پشتون سنّی بریلوی کی نسل کشی اور ان کی مذھبی بنیادوں پر دیوبندی فاشسٹ اہل سنت والجماعت کے ہاتھوں پراسیکوشن پر خاموشی اختیار کررکھی ہے ،یہ پارہ چنار ،گلگت بلتستان ،کوہاٹ ،چترال وغیرہ میں شیعہ نسل کشی پر خاموش ہیں اور دیوبندی ملائیت اور دیوبندی دھشت گردتںطیموں کے بارے میں ان کے ہاں وہ مخالفت نظر نہیں آتی جو مخالفت یہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور غیر ملکی مذھبی فاشسٹ جنگجوؤں کے بارے میں بلند آہنگ سے کرتے ہیں
بلکہ عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی نے اپنے امریکہ و یورپ نواز امیج کے ساتھ دیوبندی فاشزم کی نام لیکر اتنی مخالفت بھی نہیں کی جتنی مخالفت ہمیں امریکی ،یورپی دانشوروں اور صحافیوں کے ہآں نظر آتی ہے
ابھی حال ہی میں امریکی دانشور کرسٹائن فرئر نے اپنی تحریروں ،ٹاک شوز میں حصّہ لیتے ہوئے اور اپنی کتاب میں بہت واضح طور پر لکھا کہ شیعہ کی نسل کشی شیعہ-سنّی واؤلنس کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ دیوبندی دھشت گرد ہیں جو شیعہ کلنگ کے زمہ دار ہیں
اس سے پہلے یہ ہی بات بہت واضح انداز میں رابرٹ فسک جیسے معروف روشن خیال صحافی نے لکھی اور اس سے پہلے نیویارک ٹائمز کی صحافی کاروٹا گیل لکھ چکی ہے اور اسی طرح سے کم وبیش یہی بات برطانوی سیکورٹی امور کے ماہر پیٹرکوک برن نے لکھی ہے
تو پختون قوم پرست ترقی پسندی کے دعوے دار دانشور ،صحافی ،سیاسی رہنماء جن میں سے اکثر نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ کی دھشت گردی کے خلاف جنگ کے حامی بننے اور امریکی و یورپی تھنک ٹینکس اور ڈونر آرگنائزیشںز سے سکالر شپ ،پروجکیٹ لیتے رہے ہیں دیوبندی فاشزم اور دیوبندی دھشت گردی کی مذمت ان کا نام لیکر کیوں نہیں کرتے ؟
میرے کچھ پختون سیکولر ،قوم پرست دانشوروں نے عبدل نیشا پوری کی جانب سے ان پر شیعہ پختون نسل کشی پر خاموشی اور دیوبندی فاشزم کا نام لیکر مذمت کرنے والی ایک تحریر میں سخت الفاظ کے استمعال پر خاصا گلہ شکوہ کیا اور کہا کہ اس سے مذھبی فاشسٹوں کو فائدہ ہوگا
میں کہتا ہوں کہ انھیں اپنے اوپر ہونے والی سخت تنقید کا جو گلہ ہے اور وہ پشتون قوم پرستی کے موجودہ رجحان پر ہونے والی تنقید پر جس قدر فکر مند ہوتے ہیں اس سے کئی گنا کم توجہ اور فکر مندی انھوں نے دھشت گردی ،فسطائیت ،ملائیت اور بنیاد پرستی پر اپنے ڈسکورس کو ٹھیک کرنے پر کی ہوتی تو اس طرح کی انتہائی سخت تنقید ان کو شاید سننے اور پڑھنے کو نہ ملتی
پختون شیعہ ،بریلوی سیکولر لبرل بائیں بازو کے لوگوں میں شیعہ نسل کشی اور سنّی بریلوی پراسیکوشن پر عوامی نیشنل پارٹی کا گول مول ڈسکورس انتہائی بے چینی پیدا کئے ہوئے ہے اور یلی حال سندھی ،سرائیکی ،پنجابی شیعہ و بریلوی سیکولر ،لبرل اور بائیں بازو کے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کا ہے وہ دیوبندی فاشزم کی علمبردار اہل سنت والجماعت اور دیوبندی ملائیت کے بارے میں پشتون قوم پرست لبرل سیکولر دیوبندی دانشوروں کے گول مول ڈسکورس سے سخت بے چین اور تکلیف میں ہیں اور ان کے اندر یہ سوچ جنم لے رہی ہے کہ اپنے دیوبندی پس مںظر کی وجہ سے اے این پی کے اکثر دانشور دیوبندی مذھبی فاشزم اور اس کی علمبردار جماعتوں کے خلاف کھل کر بولنے سے گریزاں ہیں بلکہ شیعہ کی تکفیر کرنے اور شیعہ کی نسل کشی پر جس قدر جرات مند موقف ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین نے لیا اس کے عشیر عشیر بھی اے این پی والوں نے نہیں لیا
اس تاثر کو اے این پی کے دانشوروں کا عملی اقدام ہی ختم کرسکتا ہے اور میں اے این پی کے حامی دانشوروں سے کہتا ہوں کہ وہ معذرت خواہانہ موقف کو ترک کریں اور دیوبندی فاشزم کے خلاف کھل کر لکھیں اور بولیں تاکہ ان کے سیکولر ،لبرل ہونے اور فرقہ و مسلک سے ماوراء ہوکر پشتون قوم پرستی کے دعوے سچ ثابت ہوسکیں