میاں شہباز شریف کا خطاب .........سیاسی گرواٹ میں اضافہ
پنجاب کے پردھان منتری میاں شہباز شریف نے کل جو بھاٹی چوک میں تقریر کی -اس کو سننے کے بعد مجھے ان کی اور ان کے بھائی کی وہ ساری تقریریں یاد آگئیں جو وہ ١٩٨٨ سے لیکر ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ تک بے نظیر بھٹو کے خلاف کیا کرتے تھے-ان تقریروں میں کسی اخلاقیات اور کسی تہذیب و شاستیگی کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا-پاکستان کی تاریخ میں سیاست میں بے نظیر بھٹو نے جس قدر بد اخلاق الزامات کا سامنا کیا -وہ شائد کسی اور سیاسی عورت نے نہ کیا ہوگا-مجھے وہ دیں بھی یاد ہے جب ٨٨ کے انتخابات کے دوران ایک ہیلی کاپٹر سے ایسی بناوٹی تصویریں گرائی گئیں -جن میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی حد کر دی گئی تھی-لکین اس کے باوجود بینظیر بھٹو نے جہموریت پسند اخلاق کا بتاؤ کرتے ہوئے -میاں برداران کو اپنے سیاسی اتحادی کا درجہ دیا-آج سیاست میں صدر مملکت آصف علی زرداری شائد وہ واحد مرد سیاست دان ہیں جن کو اخلاق کے ہر دائرہ سے باہر جا کر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے-ان کی حریف سیاسی پارٹی کے پردھان منتری نے پہلی مرتبہ وہ زبان استعمال نہیں کی -جو کل انھوں نے استعمال کی ہے-مگر صدر آصف علی زرداری نے اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے-صدر آصف علی زرداری کی یہ برداشت اور صبر تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کرے گا-یہ صبر بے نظیر بھٹو کے بعد ان میں دیکھنے کو مل رہا ہے-آصف علی زرداری کی سیاست کی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے-وہ اس وقت چاروں صوبوں میں طاقت وار سیاسی دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر حکومت چلا رہے ہیں-ان کو پنجاب میں یہ کامیابی ملی ہے کہ مسلم لیگ ق جیسی جماعت ان کے ساتھ بیٹھی ہے-اس وقت سیاست میں اہم ترین مقام رکھنے والے الطاف حسین،اسفند یار والی ،چودہری شجاعت ،ان کے ساتھ بیٹھے ہیں-جب کے مولانا فضل الرحمان بھی ان سے دور نہیں ہیں-جبکہ مسلم لیگ کی سیاسی تنہائی کا عالم یہ ہے کہ اس کے ساتھ ملک کی کوئی قابل ذکر سیاسی جماعت نہیں ہے-اس کی طاقت جو کہ زیادہ تر پنجاب کے اربن مراکز میں ہے -وہاں بھی اس کی بوری میں تحریک انصاف نے سراغ کر ڈالے ہیں-تحریک انصاف اس کو لاہور ،پنڈی،فصیل آباد اور گوجرانوالہ میں جو ٹف ٹائم دے رہی ہے-اس سے مسلم لیگ کی پریشانی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عمران خان کے جلسوں سے ایک ایک دن قبل انہی شہروں میں جلسے کر رہی ہے -جہاں عمران خان کے جلسے ہونے ہیں-مسلم لیگی گھرانوں کے بچوں کا جوک در جوک تحریک انصاف میں شامل ہونا -ایک ڈراونا خواب ہے-اسی لئے تو ان کی پارٹی کے قائد حزب اختلاف چودہری نثار علی خان نے صدر کے خلاف دھرنا دیتے ہوئے یہ الزام لگایا تھا کہ صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے عمران خان کو نواز شریف کی کردار کشی کا فراز سونپ رکھا ہے-کل کی ریلی میں اگرچہ پردھان منتری نے عمران خان کا نام تو نہیں لیا -لکین جب وہ صدر زرداری کے نقاب پوشوں اور گھس پیٹھیوں کا ذکر کر رہے تھے تو ان کا اشارہ عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف تھا-
میاں شہباز شریف پی پی پی کے کارکنوں کو آصف علی زرداری کا احتساب کرنے کا کہ رہے تھے تو مجھے یاد آ رہا تھا کہ یہ کل تک بینظیر کا احتساب کرنے کا کہا کرتے تھے -اور پی پی پی کے کار کنوں کو کہتے تھے کہ ان کی بی بی نے بھٹو کی پارٹی کا بیڑا غرق کر دیا ہے-یہ جو پی پی پی کے زندہ لیڈر کی شہید لیڈر کے نام پر مخالفت اور اس کی کردار کشی کی کوشش ہے -یہ نئی نہیں ہے-کل کو ہوسکتا ہے کہ ہم یہ تماشہ بھی دیکھ لیں کہ بلاول کی کردار کشی آصف علی زرداری کے نام پر ہو رہی ہو-
میاں شہباز شریف کو خواب دیکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا-ان کو قانون اور آئین کی خلاف ورزی سے بھی کوئی نہیں روک سکتا-وہ صدر پاکستان کو صدر نہ مانیں-ان کے بھی میاں نواز شریف یہ ٨٨ میں کر چکے ہیں-جب بے نظیر پنجاب آتی تھیں تو وہ ان کا استقبال کرنے نہیں جاتے تھے-اب بھی اس روش پر چل رہا ہے-تو کسی کو اس سے حیرت نہیں ہورہی-وہ تو مشترکہ مفادات کونسل میں جو فیصلے ہوتے ہیں -ان پر دستخط کر کے آنے کے بعد پنجاب سے بجلی اور گیس اور سی این جی کی لوڈشیڈنگ میں زیادتی کی دہائی دینے لگتے ہیں-اور انے دستخطوں سے ہونے والے فیصلے کے خلاف خود ہی لاہور کی سڑک پر نکل آتے ہیں-
شہباز شریف صاحب میرٹ اور دیانت داری کے حوالے سے بہت بات چیت کر رہے تھے-میں حیران ہوں کہ وہ پنجاب کی عوام کو کیا اندھا اور عقل سے فارغ خیال کرتے ہیں-ان کے دور میں پنجاب کے اندر امن و امان،اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ،ٹرانسپورٹ کی سہولت سمیت ان آسرے معاملات کی جو حالت ہے-جو صوبائی دائرہ کار میں آتے ہیں ان سے ان کی حکومت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے-تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ان کے خلاف جو چارج شیٹ پیش کرتے ہیں -وہ آج تک اس کا جواب نہیں دے پائے-
ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ کو اندازہ ہے کہ اگر ٢٠١٣ کا انتظار کیا گیا تو وہ ایدہ پانچ سال کے لئے مزید اقتدار سے باہر ہو جائے گی-اور سینٹ بھی اس کے ہاتھ سے چلی جائے گی-پھر اس دوران تحریک انصاف جیسی جماعت بھی اس کے اربن مراکز پر قبضہ جما سکتی ہے-پنجاب کا اقتدار اس کے ہاتھ سے چلا گیا تو وہ مشکل سے اپنے ساتھیوں کو جوڑ سکے گی-ابھی تک وہ مشرف کے ٨ سالہ اقتدار میں اس کی پارٹی کو پہنچنے والے نقصانات سے نہیں نکل پا رہی-گزشتہ دس سالوں میں مسلم لیگ نواز کو دیگر تین صوبوں میں اجنبیت کا سامنا رہا ہے-اب اس کو اپنے سب سے مضبوط علاقوں میں بھی مشکلات کا سامنا ہے-یہ وہ مشکل ہے جو مسلم لیگ نواز کو باہر نکلنے پر مجبور کر رہی ہے-
مسلم لیگ ٢٠١٣ میں انتخابات کا انعقاد چاہتی نہیں ہے-وہ یہ انتخابات ٢٠١٢ میں ہی چاہتی ہے-لکین اس کا جواز کیا بنتا ہے؟اب تک وہ حزب اختلاف کو اس ایک نکتہ پر اکھٹا نہیں کر سکی ہے-عمران خان تو یہ چاہتے ہیں کہ نواز اور زرداری سمیت سب پارلیمانی سیاست دان بین کر دے جائیں-ان کے ایجنڈہ کو دیکھا جائے تو وہ ایک طرف تو ایک ایسی نگران حکومت کا قیام چاہتے ہیں جو پہلے تین ماہ سخت قسم کا احتساب کرے -بنگلہ دیش کی طرح کوئی ٹیکنو کریٹس حکومت آئے-اور پھر الیکشن ہوں-یہ صورت حال تو ملک کی کسی بھی جماعت کو قبول نہیں ہے-جبکہ مسلم لیگ اگر ایک لانگ مارچ کرنے کا سوچ رہی ہے -تو پھر جواب میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعت بھی اپنے بندوں کو باہر لیکر آئے گی-یاس صورت میں تصادم ہونا لازمی ہے-اور اس صورت میں ملک میں مارشل لاء بھی لگ سکتا ہے-یہ صورت حال مصر میں پوسٹ حسنی مبارک صورت حال سے مختلف ہو سکتی ہے-ملک کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے-ایک سندھی صدر کو بھی اگر زبردستی نکالا گیا اور ایک ایسی حکومت کو گھر بھیجا گیا -جس میں سندھ،صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی اکثریتی جماعتوں کی نمائندگی تھی تو پھر اس کے خلاف جو رد عمل ہوگا -وہ شائد کسی کے قابو میں نہ آ سکے-اس مرتبہ اگر لاہور سے کسی لانگ مارچ نے اسلام آباد کا رخ کیا -تو اس کے خلاف صرف سندھ ،بلوچستان،خیبر پختون خوا ،گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر سے رد عمل نہیں آئے گا-بلکہ یہ رد عمل سرائیکی بیلٹ سے بھی آئے گا-
مسلم لیگ نواز کو سیاست میں اسقدر تلخیوں اور اخلاقیات سے عاری روایتوں کو پھر سے زندہ نہیں کرنا چاہئے -اس کا فائدہ کسی کو بھی نہیں ہوگا-
میاں نواز شریف اور میاں شیباز شریف پر ان کے سابقہ ساتھ اب تک یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی فریقوں کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنے کی بجائے سازشوں کے ساتھ کرتے ہیں-ان کے کل کے ساتھ چودہری شجاعت حسین کا کہنا ہے-کہ میاں برداران نے ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے ہوئے-جبکہ جسٹس (ر)شریف کے قتل کی سازش کا جو پول کھلا -اس سے بھی ان کے حرفوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی مخالفت میں آخری حد تک جاتے ہیں-شیباز شریف کے بیٹے میاں حمزہ شیباز شریف کا عایشہ احد کے ساتھ جو سیکنڈل آیا -وہ بھی نیک نامی کا دعوا کرنے والے پردھان منتری کے لئے ایک تازیانہ ہے-اس بے قصور عورت کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے-اس کا ازالہ کون کرے گا-
شہباز شریف کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر اگر پتھر مارنے سے باز نہیں آئے تو پھر ان پر بھی جوابی پتھر آ سکتے ہیں-لوگ ہنی بیگم،طاہرہ سید سمیت بہت سارے واقعیات بھولے نہیں ہیں-تہمینہ درانی والا معاملہ بھی سب کے علم میں ہے-اور بہت سی کہانیاں ہیں -جو اگر منظر عام پر آگئیں تو پھر کی اور نام بھی سامنے آئین گے-لوگوں کو شائد ایک اور شاہ محمد رنگیلہ کا پتہ چلے -اسی لئے کسی نے کہا تھا کہ
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ،بند قبا کو دیکھ
لیل و نہار/عامر حسینی
“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Friday, October 28, 2011
Saturday, October 22, 2011
بدلتا ہے رنگ آسماںکیسے ،کیسے
بدلتا ہے رنگ آسماںکیسے ،کیسے
لیل و نہار/عامر حسینی
آج کے اخبارات میں ایک خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی ہے کہ نصیر الله بابر کا خاندان پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گیا -ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے یہ معمول کی خبر ہو -لکین میرے نزدیک یہ خبر بہت سے مطالب رکھتی ہے-نصیر الله بابر اپنی زندگی میں صدر زرداری سے اس وقت ہی ناراض ہو گئے تھے -جب وہ نائن زیرو گئے اور وہاں جا کر انھوں نے اپنی پارٹی کی حکومت کے اندر ہونے والے آپریشن پر معافی مانگ لی تھی-انھوں نے یہ معافی مانگتے ہوئے ایک لمحۂ بھی ٹھہر کر یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ ان کے اس اقدام سے ان سارے لوگوں کے خوں کی ذمہ داری بی بی شہید اور نصیر الله بابر پر آ جائے گی-جناب زرداری اور ان کے ساتھیوں کا خیال یہ تھا کہ نائن زیرو جا کر معافی مانگ کر وہ شائد کراچی میں خون آشامی کو روک لیں گے -لکین سب جانتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی روک نہیں پائے -ان کے دیرینہ ساتھ زوالفقار مرزا سمیت کئی ساتھی پی پی پی سے ناراض ہو گئے-
نصیر الله بابر کے خاندان نے پی پی پی ترک کرنے کا جو فیصلہ کیا -وہ اس بات کا مصداق بھی ہے کہ پرانے جیالے خاندانوں کی نئی نسل اب پی پی پی کو تبدیلی کی علم بردار خیال نہیں کرتی ہے-میں صرف نصیر الله بابر کے خاندان کی بات نہیں کر رہا ہوں مجھے کئی پی پی پی کے پرانے گھروں کی خبر ہے -جن کی نئی نسل پی پی پی کی موجودہ قیادت سے نالاں ہی نہیں بلکہ نفرت کرتی ہے-
میں گزشتہ عید پر اپنے ایک بزرگ ساتھی کے گھر ان سے عید ملنے گیا -یہ ٧٠ سے پی پی پی کے ساتھ چلے آ رہے ہیں-اور پی پی پی کے اندر یہ شیخ رشید جیسے نظریاتی لوگوں کے ساتھ کام کرتے آ رہے تھے-انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی اولاد پی پی پی کی سخت ناقد ہے-اور وہ عمران خان کی پارٹی میں جانے کا سوچ رہی ہے-میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ان کو پارٹی کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا -پارٹی کی لیڈر شپ کی قربانیوں سے نہیں آگاہ کیا -تو کہنے لگے کہ وہ کتابوں میں لکھی باتوں سے زیادہ اس پر یقین کرتے ہیں جو ان کے سامنے ہو رہا ہے-ان کے نوجوان بیٹوں سے میری بات بھی ہوئی -وہ کہنے لگے کہ اس پارٹی میں قیادت اور رہبری تو زمیندار اشرافیہ یا سرمایادار اشرافیہ کے پاس ہے-آپ جس محنت کش اور کسان برداری کی قیادت کی بات کرتے ہیں -وہ تو ہمیں کہیں نظر نہیں آتی-
مجھے پیچھلے دنوں بہت سارے نوجوان ملے -ان کا یہ کہنا تھا کہ اس وقت جو سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح پاور اور اقتدار کا حصہ ہیں -ان کے ہاں مختلف سماجی گروہوں کی نمائندگی کے لئے جو بھی رہنما ملتے ہیں -ان سب کا تعلق یا تو جاگیر دار گھرانوں سے ہے-یا پھر ان کا تعلق سرمایادار طبقہ سے ہے-یا پھر وہ اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا یا والی کوئی عورت ہے-مجھ سے ایک لڑکی نے پوچھا کہ کیا پی پی پی میں کوئی محنت کش طبقے کی لڑکی اس مقام کے لئے کوالیفائی نہیں کرتی تھی -جس پر محترم وزیر اعظم کی بیٹی فضہ گیلانی کو فائز کیا گیا -کیا یہ جو منصب قادر گیلانی کے پاس ہے -اس پر پارٹی کا کوئی اور نوجوان پورا نہیں اترتا تھا-اسی طرح مسلم لیگ نواز کی حالت ہے-وہاں بھی بس اشرف کے بیٹے اور بیٹیاں راج کر رہی ہیں -باقی سب محنت کش طبقے کے کارکنوں کی قسمت ان کی چاکری کرنا ہے-نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بجا طور پر سوال کرتی ہیں کہ وہ اس طرح کی اشرف پرست سیاسی جماعتوں کا حصہ کیوں بن جائیں-اور صرف ان کہانیوں پر یقین کر لیں جو ان پارٹیوں میں اپنی ساری زندگی گل دینے والے بوڑھے بیان کرتے ہیں-ذرا غور کریں کہ مسلم لیگوں اور پی پی پی کے نوجوان ونگ کے اکثر صدور اور دیگر رہنما وہ ہیں جو ٤٠ کی سرحد پر ہیں اور میں پی وائی او پنجاب کے صدر کو جانتا ہوں -اس کی عمر پچاس سال سے بھی زیادہ ہوگی-
ان سیاسی پارٹیوں میں اوپر نیچے اس قدر گند میچ چکا ہے کہ کوئی بھی مخلص نوجوان جس کو موقعہ پرستی کی ہوا نہ لگی ہو -ان کی ترگ کبی نہیں جائے گا-ان سیاسی پارٹیوں کا حال یہ ہے کہ ان کی نیچے تنظیمیں سرے سے ختم ہو چکی ہیں-٧٠ اور ٨٠ کے زمانے کی فہرستیں اب تک چل رہی ہیں-ان سیاسی پارٹیوں کو ہر علاقہ کے زمیندار یا سرمایہ دار گروہ چلاتے ہیں-اور یہ برات کے ساتھ آتے ہیں اور بارات کے ساتھ چلے جاتے ہیں-
نظریات ان کے ہاں کوئی قدر نہیں رکھتے -محنت کش طبقے کے لئے ان جماعتوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے-یہ تو بس اس طبقے کے چند موقعہ پرستوں کو نوکریاں دیکر باقی سارے طبقے کے مفادات کا سودا سرمیداروں کے ساتھ کر دیتے ہیں-اس کے باوجود ان کے تکبر اور فرعونیت کا اندازہ کیا جائے کہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو کسی کے آنے یا چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا -گویا عوام ان چند لیڈروں کے غلام ہیں جو ان کی تمام تر نا اہلی کے باوجود ان کے لئے کام کرتے رہے گے-
اس ملک کی مڈل کلاس کی نوجوان نسل اپنے رستے کا تعین کرنے میں خود کو آزاد خیال کر رہی ہے-یہی وجہ ہے کہ درمیانہ طبقے کی نئی نسل کی اکثریت پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کو مسترد کر رہی ہے-اس طبقے کی نئی نسل کا ایک بڑا حصہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف جا رہا ہے-اور یہ نئی نسل کا سیاسی طور پر ریدکلییز ہونی والی پرت کسی حد تک نچلے طبقے کے نوجوانوں کو بھی اس طرف لیجا رہی ہے-
سندھ میں کیا صورت حال بنتی ہے -اس بارے میں تو ابھی کوئی بات کرنا قبل از وقت ہے-لکین پنجاب اور خیبر پختون خا میں مڈل کلاس نوجوان کا رخ تحریک انصاف کی طرف ہے-ایسے میں محنت کش طبقے کے نوجوانوں کی رہنمائی کون کرے گا؟ان کو اپنے مفادات کے گرد متحد ہونے کا سبق کون دے گا ؟یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے-
کیوں کہ بحران کے ان دنوں میں محنت کش طبقہ اور طلبہ کی مضبوط تحریک کھڑی ہوتی ہے تو پھر اس بات کا امکان ہے کہ محنت کش طبقے کے مفادات کے گرد کوئی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے-
سرمایہ دار طبقات تو اس وقت یا تو سنٹر لیفٹ کی پارٹی پی پی پی میں کھڑے ہیں-یا وہ قوم پرست موقف کی حامل پارٹی اے این پی میں ہیں-یا ان کی سب سے زیادہ تعداد مسلم لیگ نواز میں کھڑی ہے-پھر ان کا ایک حصہ پاکستان تحریک انصاف میں جا رہا ہے-اصلاح پسند رجحان مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ داری کی ایک پرت میں مقبول رجحان بن رہا ہے-
یہاں پر یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت سرمایہ داری کی حامی یہ سب پارٹیاں معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں-نجکاری کا ڈنڈا ان سب کے نزدیک واحد حل ہے بحران سے نکلنے کا-یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بحران سرمایہ داری کا پیدا کردہ نہیں ہے-ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں مانتا کہ سرمایہ داری در اصل خود اپنے اندر اپنی تباہی کا سامان رکھتی ہے-
پاکستان کی اشرافیہ کی روایتی سیاسی جماعتوں کو تو ایک طرف رکھ دین -یہ جو اصلاح پسند پارٹیاں ہیں -یہ بھی بحران کو بد انتظامی کا نیتجہ خیال کرتی ہیں-بس چند لوگ بدلنے کی ضررت ہے-سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا-ان کے خیال میں ریاست اور سماج کی طبقاتی ترکیب اور اس کے معاشی اور سیاسی نظام کی طبقاتی ساخت کا کوئی کردار اس بحران میں نہیں ہے -جس کا سامنا اس وقت عوام کو کرنا پڑ رہا ہے-یہ بس نیت کے بل بوتے پر سارے مسائل کو حل کرنے پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں-
پاکستان میں سرمایہ داری کے حامی تو ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں پائے کہ جس بحران کو وہ سرکلر ڈیٹ کہ رہے ہیں -وہ تو بجٹ خسارہ ہے-اور یہ اس عالمی مالیاتی بحران کا شاخسانہ ہے -جس کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں غربت ،بھوک اور بے روزگاری نے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے-جس سرمایہ داری نے مغرب اور امریکہ کے محنت کش طبقے کو سڑکوں پر لا کر بیٹھا دیا ہے -اس کی حفاظت میں اصلاح پسند بھی کمر بستہ ہیں-
اس موقعہ پر میرے خیال میں سرمایہ داری نظام کے مخالف لوگوں کو اصلاح پسندی سمیت کسی بھی ایسے رجحان کا ساتھ دینے سے گریز کرنا چاہئے جو سرمایہ داری کو کہیں سے بھی نئی زندگی دینے کی خواہش رکھتا ہو-پاکستان میں بحران کو ابھار خیال کرنے والوں کو پھر سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے-
مجھے ڈر ہے کہ اگر سرمایہ داری کا بحران پاکستان میں اسی رفتار سے بڑھا تو اس پر قابو پانے کے لئے سرمایہ دار طبقہ فاش ازم کی طرف جا سکتا ہے-اور اس میں تحریک انصاف جیسی پارٹیاں اہم ترین کردار بھی ادا کر سکتی ہیں-
لیل و نہار/عامر حسینی
آج کے اخبارات میں ایک خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی ہے کہ نصیر الله بابر کا خاندان پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گیا -ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے یہ معمول کی خبر ہو -لکین میرے نزدیک یہ خبر بہت سے مطالب رکھتی ہے-نصیر الله بابر اپنی زندگی میں صدر زرداری سے اس وقت ہی ناراض ہو گئے تھے -جب وہ نائن زیرو گئے اور وہاں جا کر انھوں نے اپنی پارٹی کی حکومت کے اندر ہونے والے آپریشن پر معافی مانگ لی تھی-انھوں نے یہ معافی مانگتے ہوئے ایک لمحۂ بھی ٹھہر کر یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ ان کے اس اقدام سے ان سارے لوگوں کے خوں کی ذمہ داری بی بی شہید اور نصیر الله بابر پر آ جائے گی-جناب زرداری اور ان کے ساتھیوں کا خیال یہ تھا کہ نائن زیرو جا کر معافی مانگ کر وہ شائد کراچی میں خون آشامی کو روک لیں گے -لکین سب جانتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی روک نہیں پائے -ان کے دیرینہ ساتھ زوالفقار مرزا سمیت کئی ساتھی پی پی پی سے ناراض ہو گئے-
نصیر الله بابر کے خاندان نے پی پی پی ترک کرنے کا جو فیصلہ کیا -وہ اس بات کا مصداق بھی ہے کہ پرانے جیالے خاندانوں کی نئی نسل اب پی پی پی کو تبدیلی کی علم بردار خیال نہیں کرتی ہے-میں صرف نصیر الله بابر کے خاندان کی بات نہیں کر رہا ہوں مجھے کئی پی پی پی کے پرانے گھروں کی خبر ہے -جن کی نئی نسل پی پی پی کی موجودہ قیادت سے نالاں ہی نہیں بلکہ نفرت کرتی ہے-
میں گزشتہ عید پر اپنے ایک بزرگ ساتھی کے گھر ان سے عید ملنے گیا -یہ ٧٠ سے پی پی پی کے ساتھ چلے آ رہے ہیں-اور پی پی پی کے اندر یہ شیخ رشید جیسے نظریاتی لوگوں کے ساتھ کام کرتے آ رہے تھے-انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی اولاد پی پی پی کی سخت ناقد ہے-اور وہ عمران خان کی پارٹی میں جانے کا سوچ رہی ہے-میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ان کو پارٹی کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا -پارٹی کی لیڈر شپ کی قربانیوں سے نہیں آگاہ کیا -تو کہنے لگے کہ وہ کتابوں میں لکھی باتوں سے زیادہ اس پر یقین کرتے ہیں جو ان کے سامنے ہو رہا ہے-ان کے نوجوان بیٹوں سے میری بات بھی ہوئی -وہ کہنے لگے کہ اس پارٹی میں قیادت اور رہبری تو زمیندار اشرافیہ یا سرمایادار اشرافیہ کے پاس ہے-آپ جس محنت کش اور کسان برداری کی قیادت کی بات کرتے ہیں -وہ تو ہمیں کہیں نظر نہیں آتی-
مجھے پیچھلے دنوں بہت سارے نوجوان ملے -ان کا یہ کہنا تھا کہ اس وقت جو سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح پاور اور اقتدار کا حصہ ہیں -ان کے ہاں مختلف سماجی گروہوں کی نمائندگی کے لئے جو بھی رہنما ملتے ہیں -ان سب کا تعلق یا تو جاگیر دار گھرانوں سے ہے-یا پھر ان کا تعلق سرمایادار طبقہ سے ہے-یا پھر وہ اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا یا والی کوئی عورت ہے-مجھ سے ایک لڑکی نے پوچھا کہ کیا پی پی پی میں کوئی محنت کش طبقے کی لڑکی اس مقام کے لئے کوالیفائی نہیں کرتی تھی -جس پر محترم وزیر اعظم کی بیٹی فضہ گیلانی کو فائز کیا گیا -کیا یہ جو منصب قادر گیلانی کے پاس ہے -اس پر پارٹی کا کوئی اور نوجوان پورا نہیں اترتا تھا-اسی طرح مسلم لیگ نواز کی حالت ہے-وہاں بھی بس اشرف کے بیٹے اور بیٹیاں راج کر رہی ہیں -باقی سب محنت کش طبقے کے کارکنوں کی قسمت ان کی چاکری کرنا ہے-نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بجا طور پر سوال کرتی ہیں کہ وہ اس طرح کی اشرف پرست سیاسی جماعتوں کا حصہ کیوں بن جائیں-اور صرف ان کہانیوں پر یقین کر لیں جو ان پارٹیوں میں اپنی ساری زندگی گل دینے والے بوڑھے بیان کرتے ہیں-ذرا غور کریں کہ مسلم لیگوں اور پی پی پی کے نوجوان ونگ کے اکثر صدور اور دیگر رہنما وہ ہیں جو ٤٠ کی سرحد پر ہیں اور میں پی وائی او پنجاب کے صدر کو جانتا ہوں -اس کی عمر پچاس سال سے بھی زیادہ ہوگی-
ان سیاسی پارٹیوں میں اوپر نیچے اس قدر گند میچ چکا ہے کہ کوئی بھی مخلص نوجوان جس کو موقعہ پرستی کی ہوا نہ لگی ہو -ان کی ترگ کبی نہیں جائے گا-ان سیاسی پارٹیوں کا حال یہ ہے کہ ان کی نیچے تنظیمیں سرے سے ختم ہو چکی ہیں-٧٠ اور ٨٠ کے زمانے کی فہرستیں اب تک چل رہی ہیں-ان سیاسی پارٹیوں کو ہر علاقہ کے زمیندار یا سرمایہ دار گروہ چلاتے ہیں-اور یہ برات کے ساتھ آتے ہیں اور بارات کے ساتھ چلے جاتے ہیں-
نظریات ان کے ہاں کوئی قدر نہیں رکھتے -محنت کش طبقے کے لئے ان جماعتوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے-یہ تو بس اس طبقے کے چند موقعہ پرستوں کو نوکریاں دیکر باقی سارے طبقے کے مفادات کا سودا سرمیداروں کے ساتھ کر دیتے ہیں-اس کے باوجود ان کے تکبر اور فرعونیت کا اندازہ کیا جائے کہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو کسی کے آنے یا چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا -گویا عوام ان چند لیڈروں کے غلام ہیں جو ان کی تمام تر نا اہلی کے باوجود ان کے لئے کام کرتے رہے گے-
اس ملک کی مڈل کلاس کی نوجوان نسل اپنے رستے کا تعین کرنے میں خود کو آزاد خیال کر رہی ہے-یہی وجہ ہے کہ درمیانہ طبقے کی نئی نسل کی اکثریت پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کو مسترد کر رہی ہے-اس طبقے کی نئی نسل کا ایک بڑا حصہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف جا رہا ہے-اور یہ نئی نسل کا سیاسی طور پر ریدکلییز ہونی والی پرت کسی حد تک نچلے طبقے کے نوجوانوں کو بھی اس طرف لیجا رہی ہے-
سندھ میں کیا صورت حال بنتی ہے -اس بارے میں تو ابھی کوئی بات کرنا قبل از وقت ہے-لکین پنجاب اور خیبر پختون خا میں مڈل کلاس نوجوان کا رخ تحریک انصاف کی طرف ہے-ایسے میں محنت کش طبقے کے نوجوانوں کی رہنمائی کون کرے گا؟ان کو اپنے مفادات کے گرد متحد ہونے کا سبق کون دے گا ؟یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے-
کیوں کہ بحران کے ان دنوں میں محنت کش طبقہ اور طلبہ کی مضبوط تحریک کھڑی ہوتی ہے تو پھر اس بات کا امکان ہے کہ محنت کش طبقے کے مفادات کے گرد کوئی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے-
سرمایہ دار طبقات تو اس وقت یا تو سنٹر لیفٹ کی پارٹی پی پی پی میں کھڑے ہیں-یا وہ قوم پرست موقف کی حامل پارٹی اے این پی میں ہیں-یا ان کی سب سے زیادہ تعداد مسلم لیگ نواز میں کھڑی ہے-پھر ان کا ایک حصہ پاکستان تحریک انصاف میں جا رہا ہے-اصلاح پسند رجحان مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ داری کی ایک پرت میں مقبول رجحان بن رہا ہے-
یہاں پر یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت سرمایہ داری کی حامی یہ سب پارٹیاں معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں-نجکاری کا ڈنڈا ان سب کے نزدیک واحد حل ہے بحران سے نکلنے کا-یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بحران سرمایہ داری کا پیدا کردہ نہیں ہے-ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں مانتا کہ سرمایہ داری در اصل خود اپنے اندر اپنی تباہی کا سامان رکھتی ہے-
پاکستان کی اشرافیہ کی روایتی سیاسی جماعتوں کو تو ایک طرف رکھ دین -یہ جو اصلاح پسند پارٹیاں ہیں -یہ بھی بحران کو بد انتظامی کا نیتجہ خیال کرتی ہیں-بس چند لوگ بدلنے کی ضررت ہے-سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا-ان کے خیال میں ریاست اور سماج کی طبقاتی ترکیب اور اس کے معاشی اور سیاسی نظام کی طبقاتی ساخت کا کوئی کردار اس بحران میں نہیں ہے -جس کا سامنا اس وقت عوام کو کرنا پڑ رہا ہے-یہ بس نیت کے بل بوتے پر سارے مسائل کو حل کرنے پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں-
پاکستان میں سرمایہ داری کے حامی تو ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں پائے کہ جس بحران کو وہ سرکلر ڈیٹ کہ رہے ہیں -وہ تو بجٹ خسارہ ہے-اور یہ اس عالمی مالیاتی بحران کا شاخسانہ ہے -جس کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں غربت ،بھوک اور بے روزگاری نے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے-جس سرمایہ داری نے مغرب اور امریکہ کے محنت کش طبقے کو سڑکوں پر لا کر بیٹھا دیا ہے -اس کی حفاظت میں اصلاح پسند بھی کمر بستہ ہیں-
اس موقعہ پر میرے خیال میں سرمایہ داری نظام کے مخالف لوگوں کو اصلاح پسندی سمیت کسی بھی ایسے رجحان کا ساتھ دینے سے گریز کرنا چاہئے جو سرمایہ داری کو کہیں سے بھی نئی زندگی دینے کی خواہش رکھتا ہو-پاکستان میں بحران کو ابھار خیال کرنے والوں کو پھر سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے-
مجھے ڈر ہے کہ اگر سرمایہ داری کا بحران پاکستان میں اسی رفتار سے بڑھا تو اس پر قابو پانے کے لئے سرمایہ دار طبقہ فاش ازم کی طرف جا سکتا ہے-اور اس میں تحریک انصاف جیسی پارٹیاں اہم ترین کردار بھی ادا کر سکتی ہیں-
Sunday, October 9, 2011
مصر میں جدوجہد کی نئی شکل
مصر میں جدوجہد کی نئی شکل
مصطفیٰ عمر/عامر حسینی
٢٧ مئی ٢٠١١ کو مصر کے دار الخلافہ قاہرہ میں جو ١٠ لکھ لوگ حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف اکھٹے ہوئے تھے -اس سے پیدا ہونے والی جدوجہد اب ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے-
٢٧ تاریخ کے مظاہرے حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف جن تین بڑے گروپوں نے منظم کے تھے ان میں لیفٹ گروپس ،اخوان المسلمون ،اور لبرل گروپس شامل تھے-
سرکاری میڈیا ،اور لبرل میڈیا کی طرف سے لوگوں کو احتجاج میں شرکت سے روکنے کے لئے کئے جانے والے منفی پروپیگنڈا کے باوجود قاہرہ میں تو دس لکھ لوگ شہریک ہوئے تھے -اسکنریہ میں ٥ لاکھ لوگ شریک ہوئے-
سویز ،پورٹ سعید اور منصورہ سمیت کئے شہروں میں بھی ہزاروں لوگ باہر نکل آئے-
تحریر چوک میں لوگوں نے یہ دن یوم الغضب کے طور پر منایا -نعرے لگے -تقریریں ہوئیں-اور لوگوں نے فوجی سپریم کونسل کی ساخت بارے بات چیت کی -یہ سپریم کونسل حسنی مبارک کے بعد حکومت چلا رہی ہے-
شہید اور زخمی ہونے والوں کے خاندان کے افراد نے اور اذیت گاہوں میں تشدد کا نشانہ بننے والوں نے اپنی کہانیاں سنائیں -ایک کے بعد ایک مقرر نے بتایا کہ کیسے سپریم کونسل ابھی تک جمہوریت اور مساوات کے مطالبات کو پورا نہیں کر رہی ہے -اسی لئے جدوجہد کو جاری رکھا جائے اور انقلاب جاری رہنا چاہئے-
یوم الغضب کے دن لوگوں نے اکھٹے ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ جمہوریت اور مساوات کے قیام تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی -
مصر میں حسنی مبارک کے جانے کے بعد جب ڈیموکرٹیک قوتوں نے انقلاب کو آگے لیجانے کا فیصلہ کیا -اور حسنی مبارک کی باقیات فوجی سپریم کونسل کے خلاف احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی تو سب سے پہلے اس کی مخالفت لبرل گروپس نے کی -سپریم کونسل نے بھی ایک پریس ریلیز جاری کر دی جس میں کہا گیا -کہ اس تحریک سے مصر میں خانہ جنگی ہونے کا خطرہ ہے-اس کے ساتھ ہی اخوان نے بھی ان مظاہروں کا حصہ نہ بننے کا ارادہ ظاہر کیا -
اسی دوران اخوان المسلمون کے اتحادی سلفی گروپس نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر مصر میں آئین کی تشکیل نو کا مطالبہ کر دیا-اخوان اور شدت پسند سلفی گروپس نے مل کر نو نکاتی پروگرام کو آئین کا حصہ بنانے کے لئے ایک ریفرنڈم کرایا -اور کہا جو نیک مھلم ہوگا اس کو ووٹ دے گا-جو برا مسلم ہوگا وہ ان نو نکات کی مخالفت کرے گا-یہ نو نکات فرقہ وارانہ بھی تھے-اور ان کا مقصد مصر میں مسلم -کرسچن یکجہتی کو نقصان پہنچانا بھی تھا-
جب سلفی گروپس متحرک ہوئے تو اس کے ساتھ ہی مصر کے کئے علاقوں میں اچانک کرچن آبادی اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے بھی شروع ہو گئے-کئے ایک علاقوں میں چرج بھی جلا دئے گئے-
اس سارے عمل کا مقصد جمہوری تحریک کو سبوتاز کرنا تھا-مصر میں آمریت کے خلاف تحریک غیر فرقہ وارانہ تھی -اور اس تحریک میں محنت کش طبقے کی شمولیت نے ریڈکل اور انقلابی رنگ بھی پیدا کیا تھا-اس تحریک میں جب محنت کشوں نے ہڑتالیں شروع کی تھیں اور دھرنے دینا شروع کئے تھے تو لبرلز نے تو اسی وقت یہ الزام عائد کرنا شروع کر دیا تھا کہ مصری معشیت کو تباہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے-
حسنی مبارک کے جانے کے بعد جب فوجی سپریم کونسل کے خلاف ماحول گرم ہونا شروع ہوا تو اس موقعہ پر محنت کش پھر آگے آئے تو اس مرتبہ حسنی مبارک کے خلاف جدّوجہد میں شریک لبرلز اور اخوان نے بھی اس عمل کو مصری کاروبار کے لئے خطرناک قرار دے دیا-
انقلاب میں حسنی مبارک کے جانے کے بعد یہ تبدیلی دیکھنے میں آئے کے لبرلز ،اسلام پسند اخوانی،سلفی اور حسنی مبارک کی پارٹی سے بھاگے ہوئے سیاست دانوں نے فوجی سپریم کونسل کے ساتھ رابطے بڑھا دئے-اور ایک طرح سے وہ اس تبدیلی کو منتقی انجام تک لیجانے کی کوشش کی راہ میں رکوات ڈالنے لگے-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لبرلز،اخوان،سلفی ،حسنی مبارک کے سابقہ ساتھی اور ان کے ساتھ فوجی سپریم کونسل کیا از خود یہ رد انقلاب کردار اختیار کر گئے ہیں؟کیا یہ قوتیں مصری انقلاب کی پرنسپل دشمن ہیں؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نہیں-در اصل مصری انقلاب کا سب سے بنیادی دشمن اور پرنسپل دشمن تو مصری سرمایہ دار طبقہ ہے -جس کے مفادات کو اس انقلاب سے براہ راست نقصان پہنچا ہے اور مزید پہنچنے کا امکان موجود ہے-
مصری سرمایہ دار طبقہ جس کو مصری اوم کاروباری طبقہ کے نام سے جانتی ہیں -جس نے محنت کش طبقات اور کسانوں کے بےتحاشا استحصال سے خوب دولت کمائے ہے-اس کو حسنی مبارک رجیم نے پورا موقعہ اور سہولت فراہم کی کے یہ خوب لوٹ مار کر کے دولت کے انبار لگا ڈالے-
یہ وہ امراء کی اقلیت ہے جو مصری سماج کی زیادہ دولت پر کنٹرول رکھتی ہے-جب کہ مصری اوم کی اکثریت مشکل سے زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہے-وہ غربت میں ڈوبی ہوئے ہے-اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ٢٥ جنوری سے جس انقلاب کا آغاز ہوا -اس کے پیچھے ٣٠ سال تک مصری عوام کی یہی مشکلات اور محرومیاں تھیں-
اس لئے مصری انقلاب کے مستقبل کیا ہوگا ؟اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ پتہ چلے کہ کون سا طبقہ دوبارہ ریاست پر بالا دستی حاصل کرتا ہے؟سوال یہ ہے کہ کیا مصری بزنس کلاس مصری سماج پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کر لے گی ؟کیا وہ انقلاب اور جمہوری رجحانات کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گی ؟کیا مصری ورکنگ کلاس اپنا شعور اس قدر بلند کر لے گی اور خود کو ایک ایسی تنظیم میں ڈھال لے گی جو مصری عوام کے سامنے بزنس کلاس کے خلاف ایک متبادل پیش کر سکے؟
مصری بزنس کلاس کی سب سے پہلی کوشش تو یہ ہے کہ وہ اس وقت جس بحران کا شکار ہے -وہ اس سے باہر آئے-دوسری اس کی کوشش یہ ہے کہ مبارک کے بعد بچ جانے والی جو جرنیل شاہی ہے وہ اس کے مفادات کا تحفظ کرے -
جرنیلوں کی کمیٹی "سپریم کونسل "نے اب تک یہی کچھ کرنے کی کوشش کی ہے-انھوں نے ورکنگ کلاس کو سیاسی عمل سے باہر کرنے اور ان کی طرف سے ہڑتالوں کے سلسلے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے-اس کوشش سے مزدوروں کی ہڑتالوں میں کمی ضرور آئی ہے-لکین محنت کش طبقہ اب بھی خود کو منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے-
جیرنیلوں نے اس منظم ہونے کو روکنے کے لئے تشدد کی پالیسی جو اپنائے تھی اس کے خلاف مزدوروں نے مزاحمت دکھائی ہے-
اب تک جرنلوں کی کمیٹی نے جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں -ان کا جائزہ بتاتا ہے-کہ یہ کمیٹی کچھ اصلاح پسندانہ اقدامات سے آگے جانے کو تیار نہیں ہے-یہ سرمایہ داری نظام کے نیو لبرل ماڈل کے تحت گزشتہ تیس سلل سے چلی آ رہی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرے گی-اس کا سارا وزن مصر کے بزنس کلاس طبقے کے حق میں ہی جائے گا -
لکین مصری محنت کش طبقات اور ملازمین اور ان کے لاکھوں خاندان انتظار لکیر رہے ہیں کہ کب جرنیلوں کی یہ کمیٹی ان کا معیار زندگی بہتر بنانے والے اقدامات اٹھاتی ہے-
جرنیل شاہی نے اس دوران محنت کشوں کی طرف سے آفندی سٹور کی چین کی نجکاری پر جو احتجاج دیکہ اس سے جرنیل شاہی ابھی کھل کر محنت کشوں کے خلاف کوئی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے-لکین دوسری طرف وہ ٹیکس ریفارم کرنے تک سے گھبرا رہی ہے-انکم ٹیکس میں ترقی پسندانہ تبدیلی لانے کا جو اس نے ارادہ ظاہر کیا تھا -اس پر کاروباری طبقہ کی مخالفت کی وجہ سے اب تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے-
محنت کش طبقے کے خلاف نظریاتی مہم شروع ہو چکی ہے-دوسری طرف تاحال فوجی سپریم کونسل نے محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا ہے-
انقلاب کا نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے-اس مرحلہ میں بہت سے بنیادی سیاسی سوال سمجھ میں آنا شروع ہو جائیں گے-کہ جرنیلوں کی کمیٹی کس کے مفادات کی ترجامنی کر رہی ہے؟ان کے اقدامات کے پیچھے کون سے محرکات کار فرما ہیں؟اخوان اور سلفی گروپس کے طبقاتی مفادات کیا ہیں؟اور موجودہ معاشی سسٹم کس طبقہ کی خدمت کر رہا ہے؟
لیفٹ کے حلقوں نے کئی مرتبہ اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جرنیل اس ملک کی معشیت میں ٢٥ فیصد کے حصہ دار ہیں-یہ حصہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے مفادات براہ راست محنت کاش طبقے کے مفادات سے ٹکراتے ہیں-لکین مصر میں کئی حلقے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جرنیلوں نے حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کر کہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ انقلاب کے ساتھ ہیں-لکین جرنیل شاہی نے جس طرح سے جہموری عمل اور محنت کش طبقات کے مطالبات کو حیلوں بہانوں سے مسخ کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے -اس کے بعد مصری عوام یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ جرنیلوں کی کمیٹی در اصل ہے کس کے ساتھ؟لیفٹ نے اپنے آپ کو منظم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے-
نیو ورکرز ڈیموکریٹک پارٹی کا قیام عمل میں آیا ہے-جس میں ٢٠٠٠ کے قریب ردکل سوشلسٹ کیڈر شامل ہوا ہے-٣٠٠٠ سوشلسٹ،لیفٹسٹ اور ریڈکل وورکرس نے سوشلسٹ پاپولر الائنس ورکرز پارٹی بنائی ہے-جو پرو ورکرز پروگرام کے ساتھ سامنے آئی ہے-ان سب نے مل کر سوشلسٹ الائنس بھی بنایا ہے--جس کا مقصد مل کر سٹریٹجی طے کرنا ہے-
لیفٹ کو سوشلسٹ متبادل پیش کرنے کے لئے ابھی اور زیادہ خود کو تعداد میں زیادہ کرنا ہوگا-اس کو محنت کشوں کی تحریک میں زیادہ خود کو ملوث کرنا ہوگا-جیسے جیسے اخوان،سلفی ،لبرلز ،سپریم کونسل ،کلر فل سیاست دانوں کا تعلق مصری استحصالی طبقے سے عیاں ہوگا -ویسے ویسے لیفٹ کو سوشلسٹ متبادل پیش کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور موقعہ زیادہ ملے گا-
مصر میں ہارون لوگ اشترکی لٹریچر خرید رہے ہیں-لوگ اب اس کو گئے دنوں کا قصہ نہیں سمجھتے -
لیفٹ صحیح راستے پر جا رہا ہے-یہ جدوجہد کی تعمیر کر رہا ہے-اپنی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے-اور اپنے اتحاد کو بڑھا رہا ہے-لیفٹ کو عوام کو سپریم کونسل پر دباؤ میں اضافہ کرنے کے لئے اکساتے رہنا چاہئے -اور ایک سوشلسٹ متبادل کی تعمیر کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے -
مصطفیٰ عمر/عامر حسینی
٢٧ مئی ٢٠١١ کو مصر کے دار الخلافہ قاہرہ میں جو ١٠ لکھ لوگ حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف اکھٹے ہوئے تھے -اس سے پیدا ہونے والی جدوجہد اب ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے-
٢٧ تاریخ کے مظاہرے حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف جن تین بڑے گروپوں نے منظم کے تھے ان میں لیفٹ گروپس ،اخوان المسلمون ،اور لبرل گروپس شامل تھے-
سرکاری میڈیا ،اور لبرل میڈیا کی طرف سے لوگوں کو احتجاج میں شرکت سے روکنے کے لئے کئے جانے والے منفی پروپیگنڈا کے باوجود قاہرہ میں تو دس لکھ لوگ شہریک ہوئے تھے -اسکنریہ میں ٥ لاکھ لوگ شریک ہوئے-
سویز ،پورٹ سعید اور منصورہ سمیت کئے شہروں میں بھی ہزاروں لوگ باہر نکل آئے-
تحریر چوک میں لوگوں نے یہ دن یوم الغضب کے طور پر منایا -نعرے لگے -تقریریں ہوئیں-اور لوگوں نے فوجی سپریم کونسل کی ساخت بارے بات چیت کی -یہ سپریم کونسل حسنی مبارک کے بعد حکومت چلا رہی ہے-
شہید اور زخمی ہونے والوں کے خاندان کے افراد نے اور اذیت گاہوں میں تشدد کا نشانہ بننے والوں نے اپنی کہانیاں سنائیں -ایک کے بعد ایک مقرر نے بتایا کہ کیسے سپریم کونسل ابھی تک جمہوریت اور مساوات کے مطالبات کو پورا نہیں کر رہی ہے -اسی لئے جدوجہد کو جاری رکھا جائے اور انقلاب جاری رہنا چاہئے-
یوم الغضب کے دن لوگوں نے اکھٹے ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ جمہوریت اور مساوات کے قیام تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی -
مصر میں حسنی مبارک کے جانے کے بعد جب ڈیموکرٹیک قوتوں نے انقلاب کو آگے لیجانے کا فیصلہ کیا -اور حسنی مبارک کی باقیات فوجی سپریم کونسل کے خلاف احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی تو سب سے پہلے اس کی مخالفت لبرل گروپس نے کی -سپریم کونسل نے بھی ایک پریس ریلیز جاری کر دی جس میں کہا گیا -کہ اس تحریک سے مصر میں خانہ جنگی ہونے کا خطرہ ہے-اس کے ساتھ ہی اخوان نے بھی ان مظاہروں کا حصہ نہ بننے کا ارادہ ظاہر کیا -
اسی دوران اخوان المسلمون کے اتحادی سلفی گروپس نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر مصر میں آئین کی تشکیل نو کا مطالبہ کر دیا-اخوان اور شدت پسند سلفی گروپس نے مل کر نو نکاتی پروگرام کو آئین کا حصہ بنانے کے لئے ایک ریفرنڈم کرایا -اور کہا جو نیک مھلم ہوگا اس کو ووٹ دے گا-جو برا مسلم ہوگا وہ ان نو نکات کی مخالفت کرے گا-یہ نو نکات فرقہ وارانہ بھی تھے-اور ان کا مقصد مصر میں مسلم -کرسچن یکجہتی کو نقصان پہنچانا بھی تھا-
جب سلفی گروپس متحرک ہوئے تو اس کے ساتھ ہی مصر کے کئے علاقوں میں اچانک کرچن آبادی اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے بھی شروع ہو گئے-کئے ایک علاقوں میں چرج بھی جلا دئے گئے-
اس سارے عمل کا مقصد جمہوری تحریک کو سبوتاز کرنا تھا-مصر میں آمریت کے خلاف تحریک غیر فرقہ وارانہ تھی -اور اس تحریک میں محنت کش طبقے کی شمولیت نے ریڈکل اور انقلابی رنگ بھی پیدا کیا تھا-اس تحریک میں جب محنت کشوں نے ہڑتالیں شروع کی تھیں اور دھرنے دینا شروع کئے تھے تو لبرلز نے تو اسی وقت یہ الزام عائد کرنا شروع کر دیا تھا کہ مصری معشیت کو تباہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے-
حسنی مبارک کے جانے کے بعد جب فوجی سپریم کونسل کے خلاف ماحول گرم ہونا شروع ہوا تو اس موقعہ پر محنت کش پھر آگے آئے تو اس مرتبہ حسنی مبارک کے خلاف جدّوجہد میں شریک لبرلز اور اخوان نے بھی اس عمل کو مصری کاروبار کے لئے خطرناک قرار دے دیا-
انقلاب میں حسنی مبارک کے جانے کے بعد یہ تبدیلی دیکھنے میں آئے کے لبرلز ،اسلام پسند اخوانی،سلفی اور حسنی مبارک کی پارٹی سے بھاگے ہوئے سیاست دانوں نے فوجی سپریم کونسل کے ساتھ رابطے بڑھا دئے-اور ایک طرح سے وہ اس تبدیلی کو منتقی انجام تک لیجانے کی کوشش کی راہ میں رکوات ڈالنے لگے-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لبرلز،اخوان،سلفی ،حسنی مبارک کے سابقہ ساتھی اور ان کے ساتھ فوجی سپریم کونسل کیا از خود یہ رد انقلاب کردار اختیار کر گئے ہیں؟کیا یہ قوتیں مصری انقلاب کی پرنسپل دشمن ہیں؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نہیں-در اصل مصری انقلاب کا سب سے بنیادی دشمن اور پرنسپل دشمن تو مصری سرمایہ دار طبقہ ہے -جس کے مفادات کو اس انقلاب سے براہ راست نقصان پہنچا ہے اور مزید پہنچنے کا امکان موجود ہے-
مصری سرمایہ دار طبقہ جس کو مصری اوم کاروباری طبقہ کے نام سے جانتی ہیں -جس نے محنت کش طبقات اور کسانوں کے بےتحاشا استحصال سے خوب دولت کمائے ہے-اس کو حسنی مبارک رجیم نے پورا موقعہ اور سہولت فراہم کی کے یہ خوب لوٹ مار کر کے دولت کے انبار لگا ڈالے-
یہ وہ امراء کی اقلیت ہے جو مصری سماج کی زیادہ دولت پر کنٹرول رکھتی ہے-جب کہ مصری اوم کی اکثریت مشکل سے زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہے-وہ غربت میں ڈوبی ہوئے ہے-اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ٢٥ جنوری سے جس انقلاب کا آغاز ہوا -اس کے پیچھے ٣٠ سال تک مصری عوام کی یہی مشکلات اور محرومیاں تھیں-
اس لئے مصری انقلاب کے مستقبل کیا ہوگا ؟اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ پتہ چلے کہ کون سا طبقہ دوبارہ ریاست پر بالا دستی حاصل کرتا ہے؟سوال یہ ہے کہ کیا مصری بزنس کلاس مصری سماج پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کر لے گی ؟کیا وہ انقلاب اور جمہوری رجحانات کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گی ؟کیا مصری ورکنگ کلاس اپنا شعور اس قدر بلند کر لے گی اور خود کو ایک ایسی تنظیم میں ڈھال لے گی جو مصری عوام کے سامنے بزنس کلاس کے خلاف ایک متبادل پیش کر سکے؟
مصری بزنس کلاس کی سب سے پہلی کوشش تو یہ ہے کہ وہ اس وقت جس بحران کا شکار ہے -وہ اس سے باہر آئے-دوسری اس کی کوشش یہ ہے کہ مبارک کے بعد بچ جانے والی جو جرنیل شاہی ہے وہ اس کے مفادات کا تحفظ کرے -
جرنیلوں کی کمیٹی "سپریم کونسل "نے اب تک یہی کچھ کرنے کی کوشش کی ہے-انھوں نے ورکنگ کلاس کو سیاسی عمل سے باہر کرنے اور ان کی طرف سے ہڑتالوں کے سلسلے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے-اس کوشش سے مزدوروں کی ہڑتالوں میں کمی ضرور آئی ہے-لکین محنت کش طبقہ اب بھی خود کو منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے-
جیرنیلوں نے اس منظم ہونے کو روکنے کے لئے تشدد کی پالیسی جو اپنائے تھی اس کے خلاف مزدوروں نے مزاحمت دکھائی ہے-
اب تک جرنلوں کی کمیٹی نے جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں -ان کا جائزہ بتاتا ہے-کہ یہ کمیٹی کچھ اصلاح پسندانہ اقدامات سے آگے جانے کو تیار نہیں ہے-یہ سرمایہ داری نظام کے نیو لبرل ماڈل کے تحت گزشتہ تیس سلل سے چلی آ رہی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرے گی-اس کا سارا وزن مصر کے بزنس کلاس طبقے کے حق میں ہی جائے گا -
لکین مصری محنت کش طبقات اور ملازمین اور ان کے لاکھوں خاندان انتظار لکیر رہے ہیں کہ کب جرنیلوں کی یہ کمیٹی ان کا معیار زندگی بہتر بنانے والے اقدامات اٹھاتی ہے-
جرنیل شاہی نے اس دوران محنت کشوں کی طرف سے آفندی سٹور کی چین کی نجکاری پر جو احتجاج دیکہ اس سے جرنیل شاہی ابھی کھل کر محنت کشوں کے خلاف کوئی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے-لکین دوسری طرف وہ ٹیکس ریفارم کرنے تک سے گھبرا رہی ہے-انکم ٹیکس میں ترقی پسندانہ تبدیلی لانے کا جو اس نے ارادہ ظاہر کیا تھا -اس پر کاروباری طبقہ کی مخالفت کی وجہ سے اب تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے-
محنت کش طبقے کے خلاف نظریاتی مہم شروع ہو چکی ہے-دوسری طرف تاحال فوجی سپریم کونسل نے محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا ہے-
انقلاب کا نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے-اس مرحلہ میں بہت سے بنیادی سیاسی سوال سمجھ میں آنا شروع ہو جائیں گے-کہ جرنیلوں کی کمیٹی کس کے مفادات کی ترجامنی کر رہی ہے؟ان کے اقدامات کے پیچھے کون سے محرکات کار فرما ہیں؟اخوان اور سلفی گروپس کے طبقاتی مفادات کیا ہیں؟اور موجودہ معاشی سسٹم کس طبقہ کی خدمت کر رہا ہے؟
لیفٹ کے حلقوں نے کئی مرتبہ اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جرنیل اس ملک کی معشیت میں ٢٥ فیصد کے حصہ دار ہیں-یہ حصہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے مفادات براہ راست محنت کاش طبقے کے مفادات سے ٹکراتے ہیں-لکین مصر میں کئی حلقے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جرنیلوں نے حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کر کہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ انقلاب کے ساتھ ہیں-لکین جرنیل شاہی نے جس طرح سے جہموری عمل اور محنت کش طبقات کے مطالبات کو حیلوں بہانوں سے مسخ کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے -اس کے بعد مصری عوام یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ جرنیلوں کی کمیٹی در اصل ہے کس کے ساتھ؟لیفٹ نے اپنے آپ کو منظم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے-
نیو ورکرز ڈیموکریٹک پارٹی کا قیام عمل میں آیا ہے-جس میں ٢٠٠٠ کے قریب ردکل سوشلسٹ کیڈر شامل ہوا ہے-٣٠٠٠ سوشلسٹ،لیفٹسٹ اور ریڈکل وورکرس نے سوشلسٹ پاپولر الائنس ورکرز پارٹی بنائی ہے-جو پرو ورکرز پروگرام کے ساتھ سامنے آئی ہے-ان سب نے مل کر سوشلسٹ الائنس بھی بنایا ہے--جس کا مقصد مل کر سٹریٹجی طے کرنا ہے-
لیفٹ کو سوشلسٹ متبادل پیش کرنے کے لئے ابھی اور زیادہ خود کو تعداد میں زیادہ کرنا ہوگا-اس کو محنت کشوں کی تحریک میں زیادہ خود کو ملوث کرنا ہوگا-جیسے جیسے اخوان،سلفی ،لبرلز ،سپریم کونسل ،کلر فل سیاست دانوں کا تعلق مصری استحصالی طبقے سے عیاں ہوگا -ویسے ویسے لیفٹ کو سوشلسٹ متبادل پیش کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور موقعہ زیادہ ملے گا-
مصر میں ہارون لوگ اشترکی لٹریچر خرید رہے ہیں-لوگ اب اس کو گئے دنوں کا قصہ نہیں سمجھتے -
لیفٹ صحیح راستے پر جا رہا ہے-یہ جدوجہد کی تعمیر کر رہا ہے-اپنی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے-اور اپنے اتحاد کو بڑھا رہا ہے-لیفٹ کو عوام کو سپریم کونسل پر دباؤ میں اضافہ کرنے کے لئے اکساتے رہنا چاہئے -اور ایک سوشلسٹ متبادل کی تعمیر کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے -
Friday, October 7, 2011
ویل ڈن تکوال کرمان اور بہت بہت بدھائی ہو
ویل ڈن تکوال کرمان اور بہت بہت بدھائی ہو
خواتین میں اس مرتبہ امن کا نوبل انعام جن تین خواتین کو ملا ہے -ان میں یمن کی خاتون تکوال کرمان بھی شامل ہے-یمن جیسے قدامت پرست سماج میں ایک خاتون کا سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنا اور قبائلی سماج میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنا بہت مشکل بات ہوتی ہے-لکین کرمان نے اس مشکل صورت حال میں یمن میں اپنے سفر کا آغاز کیا-
یمن کے لوگوں کو اس وقت بہت حیرت ہوئے تھی جب ایک خاتون جو کے سر تا پا پردہ میں ملبوس تھی چند خواتین کے ساتھ دار الحکومت کی سڑکوں پر نکل آئی-اس نے آزادی صحافت کے لئے آواز بلند کی -وہ خواتین صحافیوں کے لئے پابندیوں کے بغیر صحافت کرنے کی مانگ کر رہی تھیں-ان کا احتجاج رنگ لایا اور یمنی حکومت کسی حد تک خواتین صحافیوں کو آزادی دینے پر رضا مند ہو گئیں-
پھر اس کے بعد وہ چند نوجوانوں کے ساتھ یمنی دار الخلافہ میں سڑکوں پر نکل آئیں -اہنوں نے یمن میں آمریت کے خاتمے ،صدر کے مستعفی ہونے اور جہموریت کے قیام کا مطالبہ کر ڈالا -ان کے اس اقدام کو یمنی سماج میں حیرت سے دیکھا گیا -حکومت نے ان کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا -تو ایک عرصہ سے سویا ہوا یمنی سماج جاگ اٹھا -پورے یمن میں لوگ سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے-ان میں یمنی نوجوان عورتیں بہت زیادہ تعداد میں تھیں-اور اس طرح سے یمن میں تبدلی کی اس مہم کا آغاز ہوا جس نے مصر میں حسنی مبارک اور تنزانیہ میں زین کی آمریت کو اکھاڑ پھینکھا تھا-
کرمان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اصلاح پارٹی سے کیا -جو کہ ایک قدامت پرست مذہبی سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی-اس جماعت میں مولویوں کا سخت کنٹرول تھا-جس وقت ٹکوال نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس کی سیاست کو پارٹی کے اندر سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا-اس نے اصلاح پارٹی کو عکسریت پسندی کی طرف لیجانے کی حمایت کرنے سے انکار کیا اور پارٹی کے اندر بھی اس حوالے سے زبردست مزاحمت کی تعمیر کی-اس نے قدامت پرستی کو مسترد کر دیا اور وہ اصلاح پارٹی کی پہلی خاتون سیسٹ دان تھی جس نے چہرہ کھول دیا -عام مخلوط جلسوں اور جلسوں سے خطاب کرنا شروع کیا-اور خانہ جنگی کے کنارے پر کھڑے ملک میں امن کے قیام کے لئے جدوجہد شروع کی-اس نے دہشت گردی اور بندوق کے زور پر سماج کو یرغمال بنانے والوں سے ہٹ کر یمنی اوم کو ایک اور رستہ دکھایا -وہ راستہ امن کا رستہ تھا-
کرمان کہتی ہے کہ وہ مارٹن لوتھر ،گاندھی اور نیلسن منڈیلہ کے سیاسی افکار نے اس کو بہت زیادہ اکسایا کہ وہ امن پسندی کے ساتھ تبدیلی لانے کی کوشش کرے-کرمان کو مغرب والے لبرل اسلام پسند خاتون سیاست دان کہتے ہیں -لکین یمنی سماج میں لوگ اسے "انقلابیوں کی ماں "کا خطاب دیتے ہیں-
کرمان یمنی سماج میں اس درمیانے طبقے کی اس پرت سے تعلق رکھتی ہے جس نے یمن میں مغرب پسند حکمران طبقہ اور لبرل لیفٹ کی موقعہ پرستیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا اور اس کو ان جدید اسلامی تحریکوں میں ایک کسش نظر آئی-جو سرمایہ دارانہ سماج میں اصلاح پسندی کے نعرہ کے ساتھ سامنے آئیں-عرب انقلاب ایک طرح سے عرب سماج میں نئی تبدیلی کی آواز بن کر سامنے آیا ہے-اس انقلاب کو مغرب پسندوں اور ریڈکل اسلامی قدامت پرستوں کی اصطلاح میں محظ اسلام پسندی بمقابلہ لبرل ازم کی شکل میں دیکھنا غلطی ہے-یہ ایک طرح سے مذہبی سیاست کو طبقاتی بنیاد سے ہٹ کر محظ ان کے خیالات میں آنے والی تبدلیوں کو دیکھ کر یہ فرض کر لینا ہے کہ یہ جماعت اب بھی سرد جنگ کے زمانہ میں ہیں غلطی ہوگی-
کرمان جیسی خواتین نے عرب دنیا میں اسلامی تنظیموں میں جو تبدیلی پیداکی ہے وہ دراصل ان تنظیموں میں نچلے طبقات اور مڈل کلاس کی شمولیت اور ان کے دباؤ کی وجہ سے ممکن ہو پائی ہے-آج کی اصلاح پارٹی میں اگر بیک وقت کئی رجحانات نظر آتے ہیں اور کرمان ان میں سے ایک کی نمائندگی کرتی ہے -تو اس کا سبب اس تنظیم کے اندر سماج کے مختلف طبقات کے مفادات اور دباؤ ہے-
یہ بات تو اب صاف ہے کہ عرب دنیا ہو،وسط ایشیا ہو،جنوبی ایشیا ،یا فار ایسٹ ہو-وہاں الام پسند تحریکیں سرد جنگ کے زمانے کی تحریکوں سے بہت حد تک بدل گئیں ہیں-ان تحریکوں میں اب عورت کا ایشو ہو،لیبر ایشو ہو ،کپٹیل کا اشو ہو ،ملکیت کا ایشو ہو ،ان پر وہ رائے موجود نہیں ہے جو سرد جنگ کے زمانے میں ان تحریکوں کا خاصہ ہوا کرتی تھی-مصر کی اخوان ،تنزانیہ کی اسلامی پارٹی ،یمن کی اصلاح پارٹی ،انڈو نیشیا کی جماعت اسلامیہ اور ترکی اسلامی پارٹی یہ سن جدیدیت اور گلوبل کپیٹل اکانومی سے آنے والی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں-اور ان میں جدت کا رنگ نمایاں ہے-جس کو اکثر لبرلزم اور انتہا پسندی کی بحث میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے-
پاکستان میں مذہبی سیاست میں مردوں کی بالا دستی ہے-یاہم مذہبی تنظیموں میں کوئی ایک عورت بھی سیاسی طور پر اپنا قد اتنا اونچا نہ کر سکی -جس قدر تکوال کرمان نے کیا ہے-جماعت اسلامی جو خود کو مڈل ایسٹ کی مذہبی تنظیموں کے ساتھ نتھی کرتی ہے -اور اس کی تنظیم میں خواتین کی بہت زیادہ تعداد شامل ہے -وہ مڈل ایسٹ میں اپنی ہم عصر تنظیموں جیسی روشن مصال پیش نہیں کر سکی-یہاں راحیلہ قاضی ،منور حسن کی بیوی یا کوئی اور خاتون وہ ماڈل پیش نہ کر سکیں جو عرب دنیا میں اسلام پسند تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین پیش کر رہی ہیں-
مجھے بہت رشک آیا تکوال کرمان پر جب اس نے یمنی دار الخلافہ میں اپنے خیمے کے باہر اپنے پرستاروں سے گفتگو کرتے ہوئے بلا تامل یہ کہا کہ سیاست میں اس نے اپنی رہ بنانے میں کنگ مارٹن لوتھر ،نیلسن منڈیلہ اور گاندھی کی سیاسی فکر سے رہنمائی لی-ہامرے ہاں یہ نام لینے کی ہمت کوئی مذھبی جماعت کی خاتون رہنما نہیں کر سکتی -اور گاندھی جی کا نام لینے کی ہمت تو لبرل پارٹی کی کوئی خاتون کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتی ہے-
میں پاکستان میں تبدیلی کی سوچ رکھنے والی خواتین سے امید کرتا ہوں کہ ٹکوال کرمان جیسی خواتین سے ان کو ہمت اور جزبہ ملے گا -وہ خواتین جو لبرل ازم اور سرمایہ داری کے پرو پگنڈہ کے زیر اثر پاکستان میں سیکولر ازم اور اسلام پسندی کے جھگڑے میں خود کو مصروف رکھے ہوئی ہیں-وہ اس سٹریو ٹائپ سے باہر آ کر زیادہ معروضی بنیادوں پر تبدیلی اور آزادی کے لئے کام کریں گی-
یہ کام صرف عورتوں کے کرنے کا نہیں ہے-بلکہ اس میں مردوں کی بھی شمولیت بہت ضروری ہے-تکوال کے والد اور گھر کے دیگر مرد بھی اصلاح پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں -وہ اگر تکوال کا ساتھ نہ دیتے تو تکوال وہ سب کچھ شائد اتنی آسانی سے نہ کر پاتی جو اس نے یمنی سماج میں کر ڈالا-تبدیلی کا سفر مرد اور عورت دونوں مل کر کریں گے تو بات بنے گی-
میری تمنا ہے کہ پاکستان میں بھی عرب سپرنگ کی طرح پاکستان سپرنگ کا آغاز ہو اور کوئی خاتون اس بہار کا سبب بنے-پاکستان کی وہ خاتون امن،تبدیلی ،خوش حالی،سماجی انصاف کی علامت بن کر سامنے آئے-اسلام آباد کی سڑکوں پر وہ نوجوانوں کے ساتھ تبدیلی لانے کی طرف سفر کرے -اور یہاں بھی تکوال کرمان کا ظہور ہو-ہم بھی عالمی برادری میں سر اٹھا کر چلیں-پاکستان کا ہر چوک تحریر چوک بن جائے-اور عورتیں آزادی ،انصاف،جہموریت کے قیام ،سرمایہ داری کی آمریت کے خاتمے ،کارپوریٹ ظلم کے خلاف تحریک کی قیادت کریں-
خواتین میں اس مرتبہ امن کا نوبل انعام جن تین خواتین کو ملا ہے -ان میں یمن کی خاتون تکوال کرمان بھی شامل ہے-یمن جیسے قدامت پرست سماج میں ایک خاتون کا سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنا اور قبائلی سماج میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنا بہت مشکل بات ہوتی ہے-لکین کرمان نے اس مشکل صورت حال میں یمن میں اپنے سفر کا آغاز کیا-
یمن کے لوگوں کو اس وقت بہت حیرت ہوئے تھی جب ایک خاتون جو کے سر تا پا پردہ میں ملبوس تھی چند خواتین کے ساتھ دار الحکومت کی سڑکوں پر نکل آئی-اس نے آزادی صحافت کے لئے آواز بلند کی -وہ خواتین صحافیوں کے لئے پابندیوں کے بغیر صحافت کرنے کی مانگ کر رہی تھیں-ان کا احتجاج رنگ لایا اور یمنی حکومت کسی حد تک خواتین صحافیوں کو آزادی دینے پر رضا مند ہو گئیں-
پھر اس کے بعد وہ چند نوجوانوں کے ساتھ یمنی دار الخلافہ میں سڑکوں پر نکل آئیں -اہنوں نے یمن میں آمریت کے خاتمے ،صدر کے مستعفی ہونے اور جہموریت کے قیام کا مطالبہ کر ڈالا -ان کے اس اقدام کو یمنی سماج میں حیرت سے دیکھا گیا -حکومت نے ان کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا -تو ایک عرصہ سے سویا ہوا یمنی سماج جاگ اٹھا -پورے یمن میں لوگ سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے-ان میں یمنی نوجوان عورتیں بہت زیادہ تعداد میں تھیں-اور اس طرح سے یمن میں تبدلی کی اس مہم کا آغاز ہوا جس نے مصر میں حسنی مبارک اور تنزانیہ میں زین کی آمریت کو اکھاڑ پھینکھا تھا-
کرمان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اصلاح پارٹی سے کیا -جو کہ ایک قدامت پرست مذہبی سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی-اس جماعت میں مولویوں کا سخت کنٹرول تھا-جس وقت ٹکوال نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس کی سیاست کو پارٹی کے اندر سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا-اس نے اصلاح پارٹی کو عکسریت پسندی کی طرف لیجانے کی حمایت کرنے سے انکار کیا اور پارٹی کے اندر بھی اس حوالے سے زبردست مزاحمت کی تعمیر کی-اس نے قدامت پرستی کو مسترد کر دیا اور وہ اصلاح پارٹی کی پہلی خاتون سیسٹ دان تھی جس نے چہرہ کھول دیا -عام مخلوط جلسوں اور جلسوں سے خطاب کرنا شروع کیا-اور خانہ جنگی کے کنارے پر کھڑے ملک میں امن کے قیام کے لئے جدوجہد شروع کی-اس نے دہشت گردی اور بندوق کے زور پر سماج کو یرغمال بنانے والوں سے ہٹ کر یمنی اوم کو ایک اور رستہ دکھایا -وہ راستہ امن کا رستہ تھا-
کرمان کہتی ہے کہ وہ مارٹن لوتھر ،گاندھی اور نیلسن منڈیلہ کے سیاسی افکار نے اس کو بہت زیادہ اکسایا کہ وہ امن پسندی کے ساتھ تبدیلی لانے کی کوشش کرے-کرمان کو مغرب والے لبرل اسلام پسند خاتون سیاست دان کہتے ہیں -لکین یمنی سماج میں لوگ اسے "انقلابیوں کی ماں "کا خطاب دیتے ہیں-
کرمان یمنی سماج میں اس درمیانے طبقے کی اس پرت سے تعلق رکھتی ہے جس نے یمن میں مغرب پسند حکمران طبقہ اور لبرل لیفٹ کی موقعہ پرستیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا اور اس کو ان جدید اسلامی تحریکوں میں ایک کسش نظر آئی-جو سرمایہ دارانہ سماج میں اصلاح پسندی کے نعرہ کے ساتھ سامنے آئیں-عرب انقلاب ایک طرح سے عرب سماج میں نئی تبدیلی کی آواز بن کر سامنے آیا ہے-اس انقلاب کو مغرب پسندوں اور ریڈکل اسلامی قدامت پرستوں کی اصطلاح میں محظ اسلام پسندی بمقابلہ لبرل ازم کی شکل میں دیکھنا غلطی ہے-یہ ایک طرح سے مذہبی سیاست کو طبقاتی بنیاد سے ہٹ کر محظ ان کے خیالات میں آنے والی تبدلیوں کو دیکھ کر یہ فرض کر لینا ہے کہ یہ جماعت اب بھی سرد جنگ کے زمانہ میں ہیں غلطی ہوگی-
کرمان جیسی خواتین نے عرب دنیا میں اسلامی تنظیموں میں جو تبدیلی پیداکی ہے وہ دراصل ان تنظیموں میں نچلے طبقات اور مڈل کلاس کی شمولیت اور ان کے دباؤ کی وجہ سے ممکن ہو پائی ہے-آج کی اصلاح پارٹی میں اگر بیک وقت کئی رجحانات نظر آتے ہیں اور کرمان ان میں سے ایک کی نمائندگی کرتی ہے -تو اس کا سبب اس تنظیم کے اندر سماج کے مختلف طبقات کے مفادات اور دباؤ ہے-
یہ بات تو اب صاف ہے کہ عرب دنیا ہو،وسط ایشیا ہو،جنوبی ایشیا ،یا فار ایسٹ ہو-وہاں الام پسند تحریکیں سرد جنگ کے زمانے کی تحریکوں سے بہت حد تک بدل گئیں ہیں-ان تحریکوں میں اب عورت کا ایشو ہو،لیبر ایشو ہو ،کپٹیل کا اشو ہو ،ملکیت کا ایشو ہو ،ان پر وہ رائے موجود نہیں ہے جو سرد جنگ کے زمانے میں ان تحریکوں کا خاصہ ہوا کرتی تھی-مصر کی اخوان ،تنزانیہ کی اسلامی پارٹی ،یمن کی اصلاح پارٹی ،انڈو نیشیا کی جماعت اسلامیہ اور ترکی اسلامی پارٹی یہ سن جدیدیت اور گلوبل کپیٹل اکانومی سے آنے والی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں-اور ان میں جدت کا رنگ نمایاں ہے-جس کو اکثر لبرلزم اور انتہا پسندی کی بحث میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے-
پاکستان میں مذہبی سیاست میں مردوں کی بالا دستی ہے-یاہم مذہبی تنظیموں میں کوئی ایک عورت بھی سیاسی طور پر اپنا قد اتنا اونچا نہ کر سکی -جس قدر تکوال کرمان نے کیا ہے-جماعت اسلامی جو خود کو مڈل ایسٹ کی مذہبی تنظیموں کے ساتھ نتھی کرتی ہے -اور اس کی تنظیم میں خواتین کی بہت زیادہ تعداد شامل ہے -وہ مڈل ایسٹ میں اپنی ہم عصر تنظیموں جیسی روشن مصال پیش نہیں کر سکی-یہاں راحیلہ قاضی ،منور حسن کی بیوی یا کوئی اور خاتون وہ ماڈل پیش نہ کر سکیں جو عرب دنیا میں اسلام پسند تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین پیش کر رہی ہیں-
مجھے بہت رشک آیا تکوال کرمان پر جب اس نے یمنی دار الخلافہ میں اپنے خیمے کے باہر اپنے پرستاروں سے گفتگو کرتے ہوئے بلا تامل یہ کہا کہ سیاست میں اس نے اپنی رہ بنانے میں کنگ مارٹن لوتھر ،نیلسن منڈیلہ اور گاندھی کی سیاسی فکر سے رہنمائی لی-ہامرے ہاں یہ نام لینے کی ہمت کوئی مذھبی جماعت کی خاتون رہنما نہیں کر سکتی -اور گاندھی جی کا نام لینے کی ہمت تو لبرل پارٹی کی کوئی خاتون کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتی ہے-
میں پاکستان میں تبدیلی کی سوچ رکھنے والی خواتین سے امید کرتا ہوں کہ ٹکوال کرمان جیسی خواتین سے ان کو ہمت اور جزبہ ملے گا -وہ خواتین جو لبرل ازم اور سرمایہ داری کے پرو پگنڈہ کے زیر اثر پاکستان میں سیکولر ازم اور اسلام پسندی کے جھگڑے میں خود کو مصروف رکھے ہوئی ہیں-وہ اس سٹریو ٹائپ سے باہر آ کر زیادہ معروضی بنیادوں پر تبدیلی اور آزادی کے لئے کام کریں گی-
یہ کام صرف عورتوں کے کرنے کا نہیں ہے-بلکہ اس میں مردوں کی بھی شمولیت بہت ضروری ہے-تکوال کے والد اور گھر کے دیگر مرد بھی اصلاح پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں -وہ اگر تکوال کا ساتھ نہ دیتے تو تکوال وہ سب کچھ شائد اتنی آسانی سے نہ کر پاتی جو اس نے یمنی سماج میں کر ڈالا-تبدیلی کا سفر مرد اور عورت دونوں مل کر کریں گے تو بات بنے گی-
میری تمنا ہے کہ پاکستان میں بھی عرب سپرنگ کی طرح پاکستان سپرنگ کا آغاز ہو اور کوئی خاتون اس بہار کا سبب بنے-پاکستان کی وہ خاتون امن،تبدیلی ،خوش حالی،سماجی انصاف کی علامت بن کر سامنے آئے-اسلام آباد کی سڑکوں پر وہ نوجوانوں کے ساتھ تبدیلی لانے کی طرف سفر کرے -اور یہاں بھی تکوال کرمان کا ظہور ہو-ہم بھی عالمی برادری میں سر اٹھا کر چلیں-پاکستان کا ہر چوک تحریر چوک بن جائے-اور عورتیں آزادی ،انصاف،جہموریت کے قیام ،سرمایہ داری کی آمریت کے خاتمے ،کارپوریٹ ظلم کے خلاف تحریک کی قیادت کریں-
Thursday, October 6, 2011
کل اور آج کی کہانی
کل اور آج کی کہانی
عامر حسینی
میری فیس بک پر ایک روشن خیال ترقی پسند ساتھی مریم سرفراز ہیں-بہت اچھا لکھتی ہیں-ان کی تحریروں میں یہ لپک نذر آتی ہے کہ وہ اپنی ہم عمر ساتھیوں کو قدامت پرستوں،مزھابھی انتہا پسندوں اور مذھب کی بنیاد پر منافرانہ سیاست کرنے والوں کے تضادات سے آگاہ کریں-ابھی آج ہی انھوں نے مذہبی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی ہندوستان اور پاکستان کی شاخوں کے درمیان پایا جانے والا تضاد لوگوں کو بتائیں-
اہنوں نے لکھا تھا "پاکستان میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام اسلام نافظ کرنے اور وہاں ہندوستان میں یہ سیکولر ازم کی حفاظت کے لئے کام کرتی ہیں-آخر ایک خیال اور فکر پر تشکیل پانے والی یہ تنظیمیں دو مختلف نظریات کی حمیت کیسے کر رہی ہیں"
جو چیز ہندوستان میں اسلام کے خلاف نہیں ہے وہ پاکستان میں کیسے لادینیت ،الحاد،کفر اور خلاف اسلام ہو جاتی ہے-مجھے ان کی کے یہ تحریر پڑھ کر خیال آیا کہ یہاں پاکستان میں مودودی اور حسین احمد مدنی کے منانے والی یہ تنظیمیں کون سا ان کے نظریات کی پیروی کر رہی ہیں-
مولانا مودودی صاحب نے جب نیشنل ازم اور سٹیٹ کے سوال پر غور کرنا شروع کیا تو انھوں نے اپنے نظریات کا اظہار اپنی جماعت کے آرگن ترجمان القران میں کرنا شروع کتیا-یہ خیالات بعد ازاں کتابی شکل میں چند ترامیم اور تبدیلیوں کے ساتھ دو جلدوں میں کتابی شکل میں شایع ہوئے تھے-ان خیالات کے مطابق "نہ تو کانگریس کا تصور وطنیت اور قوم پرستی اسلام کے اصلوں کے مطابق تھا -نہ ہی مسلم لیگ کا مسلم قومیت کا تصور ٹھیک تھا-اول الذکر کو مودودی شہاب نے الحاد اور کفر قرار دے دیا جبکہ دوسرے تصور کو گمراہی ،جہالت قرار دے ڈالا -مودودی صہب کے خیال میں مسلم قومیت کو کسی ایک سٹیٹ کے لئے محدود کرنا اور کسی ایک ریاست کی بنیاد قرار دیننا غلط تھا-وہ اس کو نسل پرستی سے تعبیر کر رہے تھے-"
مولانا مودودی صاحب کے شناختوں کی کثرت کے بارے میں اور ان کثرتوں سے بننے والی وحدت کے بارے میں عجیب و غریب خیالات تھے-وہ انسانوں کی لسانی ،ثقافتی شناختوں کو زبردستی ختم کرنا چاہتے تھے-ان کے ہاں اسلام ٹرانس نیشنل مذھب اسی صورت ہو سکتا تھا جب لوگ اس کو ماں کر اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے انکار کر دیتے-وہ ان لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر کسی بھی انتظمی انصرام کے لئے اکائی کے قیام کو اسلام کے خلاف گردانتے تھے-ان کے ہاں توحید کی وحدت کا مطلب ساری شنختون کو مٹا دینا تھا-اب یہ ایک ایسا تصور اور تعبیر تھی کہ جس کو پڑھ کر نا صرف سیکولر طبقہ حیران اور پریشان ہوا بلکہ روایتی مولوی بھی پریشان ہو گئے-
حسین احمد مدنی جو دو بندی مولویوں کے استاد تھے اور اس وقت کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی پارٹی جمعیت علماء ہند کے صدر بھی تھے مولانا مودودی کے ان خیالات سے بہت پریشان ہوئے تھے-انھوں نے ایل مضامین کا سلسلہ اپنی پارٹی کے ترجمان اخبار میں شروع کیا-یہ ووہی اخبار ہے جس کے کبھی مودودی صاحب بھی کو ایڈیٹر رہے تھے-اس مضمین کے سلسلے کو بعد میں کتابی شکل میں بھی شایع کیا گیا تھا-مدنی صاحب نے اپنے ان مضامین میں تفصیل کے ساتھ اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ قوم وطن اور علاقے کی بنیاد پر بنتی ہے-اور ہندوستان ایک علاقہ ہے اس کی بنیاد پر ہندوستانی قومیت بنتی ہے-یہ خلاف اسلام نہیں ہے-وہ کہتے تھے کہ مسلم قومیت نام کی کوئی چیز نہ تو قران سے ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی حدیث سے-ان کے نزدیک مسلم کے لئے ملت کا لفظ ٹھیک ہے جس کا انگریزی میں متبادل کمیونٹی ہو سکتی ہے نیشن نہیں-وہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی دونوں کے تصور قومیت کے خلاف تھے اور ان کے نزدیک بھی یہ دونوں تصورات اسلام کے خلاف تھے-جمعیت علماء ہند آج تک اپنے رہبر حسین احمد مدنی کے تصور کی پیروی کرتی آئے ہے-خود پاکستان میں جمعیت علماء کے کئے رہنما آج بھی اسی خیال کی حمایت کرتے ہیں-لکین پاکستان میں مذہبی سیاست کی بقاء ہی اب اس میں رہ گئی ہے کہ یہ لوگ اسلامی نظام کے نعرے لگاتے رہیں اور لوگوں کو بیوقوف بناتے رہیں-
مولانا مودودی مسلم قومیت کے جس ٹرانس نشنل تصور کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے -اس تصور کو جماعت اسلامی کا کوئی رہنما قبول کرنے کو تیار نہیں ہے-پاکستانی قومیت کی بنیاد مسلم قومیت پر ہے یہ ہے آج کی جماعت اسلامی کا نعرہ-اب بھلا ایک ریاست کے اندر مسلم قمیت کو محدود کرنا مودودی کے ہاں تو گمراہی تھی اور جماعت اسلامی اس کو اسلام کے مطابق قرار دیتی ہے-لطف کی بات یہ ہے کے حسیں احمد مدنی کے مرید اور ان کی پارٹی کی باقیات بھی اسی کو ٹھیک قرار دے رہی ہے-یہ سب باتیں نئے نسل کو تو پتا نہیں ہیں-ان کو یہ نظریات بیچتے ہوئے جماعت اسلامی اور جمعیت والے یہ کہتے ہیں کہ یہ اقبال اور جناح کے نظریات کی تفصیل ہے-اگر ان کو یہ بتا ہو کہ خود جناح اور اقبال کا مدودیت اور احمد حسین مدنی کے تصور قومیت بارے کیا خیال تھا تو وہ ان نظریات کو کوڑیوں کے مول بھی لینا پسند نہ کریں-ان دونوں جماعتوں کو سر سید احمد خان سے بہت چڑھ ہے-اسی لئے جب بھی مودودی کی وفات یا مدنی کی وفات کا دن آتا ہے تو ان کے دانشور جو بھی مضمون لکھتے ہیں تو سر سید کے خلاف بہت کچھ لکھتے ہیں-کیوں کہ سر سید احمد خان نے اس مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی تھی جس نے یہ کہا تھا کہ زبان اور کلچر کی بنیاد مذھب پر نہیں ہوتی ہے-نہ ہی اس کی بنیاد کلی طور پر مذھب پر قرار دی جا سکتی ہے-انھوں نے مغرب اور مشرق میں تہذیب اور کلچر کو باہم متصادم نہیں بیا نلکہ ان کو ہم آہنگ قرار دیا اور ان کے درمیان لینے دینے کے رشتے کو واضح کیا-سید مودودی اور حسین احمد جیسے قبیل کے مولویوں کو یہ نارضگی تھی کہ سر سید نے جدید علوم کے بارے میں ان کے تعصّبات کا پردہ چاک کر کے ان کی پیش وائیت کو سخت نقصان پہنچایا تھا-اقبال کی ایک کتاب ہے "تشکیل جدید الہایات اسلام میں "اس کتاب کو جماعت اسلامی آج تک اپنے رسالوں اور جریدوں میں کبھی لیکر نہیں آئی-مودودی کو اقبال کے نظریات کا شارح قرار دینے والی نے آج تک اس کتاب میں اقبال کے تصور اجتہاد ،کلچر ،قانون سازی کو مودودی کے تصوارت کے ساتھ تقابل میں پیش نہیں کیا-ڈنڈی مارنا اور اپنی ہی تاریخ کو مسخ کرنا جماعت اسلامی کے لکھاریوں کا وتیرہ رہا ہے-ان کی اس مسخ شدگی کو بےنقاب ماضی میں ترقی پسند دانش واروں نے خوب کیا-اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ترقی پسند دانش ور ان کی ایک ایک بات کو ریکارڈ پر رکھتے تھے-وہ ان کے خیالات و افکار اور پھر اقدامات کا بھی جائزہ لیتے رہتے تھے-آج جماعت کو جواب دینے والا کوئی سبط حسن یا صفدر میر نہیں ہے-جو ان کو آئنہ دکھائے-سب سے زیادہ ستم یہ ہوا ہے کہ اردو مائدہ پر قدامت پرست قببز ہیں تو انگریزی میڈیا پر آنے والے نوجوان ترقی پسند مودودی ،حسین احمد مدنی،اقبال.جناح سمیت ماضی کے سارے لٹریچر اور تاریخ کو پڑھنے سے قاصر ہیں-اردو میں تو ان کو پڑھنا اپنی شان کے خلاف لگتا ہے-ان کے ہاں بھی تقابل کا رجہان ختم ہو گیا ہے-یہ تو ان کے نام اردو میں ٹھیک سے نہیں لی سکتے کیونکہ ان ناموں کو بھی انگریزی میں پڑھا ہوتا ہے-
اب کتنے لوگوں نے پروفیسر سرور کی کتابوں کو پڑھا ہوگا کہ اس کو معلوم ہو کہ مودودی کو عقل کل کے طور پر پیش کرنے والوں کو بتا سکیں کے مودودی کے فہم دین کی حالت کیا تھی-اور اس کے بارے میں ثقہ علماء کیا کہتے تھے-مذہبی سیاست کے تضادات کی کہانی ایک زمانے میں پرویز صاحب نے خوب کھولی تھی-بہت سے لکھاری تھے ماضی میں جن کے ہاں ان نام نہاد اسلم پسندوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے بہت کچھ تھا اور آج وہ سب موڈ پتا نہیں کہاں پڑا سڑتا ہوگا-مذہبی سیاست کے ان پنڈتوں کے تضادات کی کہانی کل بہت سارے لوگوں کو پتا تھی -آج اس کہانی کو چھپا دیا گیا ہے-جو لوگ ترقی پسندی اور روشن خیالی کو پھیلانے کا کام کرنا چاہتے ہیں -ان کو ان تضادات پر گھہری نذر رکھنا ہوگی-اور پھر اپنی صفوں میں ان بے رہ رو لوگوں کا چہرہ بھی بےنقاب کرنا ہوگا -جو پاکستان میں استحصالی طبقوں کو ان نظریات کا تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں-جو سامراج کو اس کے پیچھے بچانا چاہتے ہیں-جو سرمایہ داروں اور ان کے سرمایہ کو بچانے کے خہش مند ہیں جو حکمران طبقات کی لہرائے کو انتہا پسندی اور روشن خیالی کی جنگ بنانا کر دکھاتے ہیں-جو ایک ایمپائر کو ترقی پسندی کا محافظ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں-جو سرمےادری نظام کے محافظوں کو انتہاپسندوں کے خلاف آخری ڈھال بنا کے پیش کرتے ہیں-جن کے ہاں اگر امریکہ کا کوئی پٹھو بغل میں دو کتے پکڑ کر تصویر کھنچوا لے اور اس کو میڈیا پر بھیج دے اور کسی ڈانس پارٹی میں شراب کے نشے میں دھت ہو کر ناچنے لگے تو وہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کا امین ٹھہر جاتا ہے-یہ لوگ سامراج کے چوکھٹوں میں فیض،جالب ،سجاد ظہیر کی تصویریں سجانا چاہتے ہیں-اور برصغیر کی انقلابی ترقی پسند اور روشن خیال تحریک کو مسخ کرنا چاہتے ہیں-یہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے جماعت اسلامی اور جمعیت سے زیادہ بڑے دشمن اور اس کے لئے خطرہ ہیں-
عامر حسینی
میری فیس بک پر ایک روشن خیال ترقی پسند ساتھی مریم سرفراز ہیں-بہت اچھا لکھتی ہیں-ان کی تحریروں میں یہ لپک نذر آتی ہے کہ وہ اپنی ہم عمر ساتھیوں کو قدامت پرستوں،مزھابھی انتہا پسندوں اور مذھب کی بنیاد پر منافرانہ سیاست کرنے والوں کے تضادات سے آگاہ کریں-ابھی آج ہی انھوں نے مذہبی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی ہندوستان اور پاکستان کی شاخوں کے درمیان پایا جانے والا تضاد لوگوں کو بتائیں-
اہنوں نے لکھا تھا "پاکستان میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام اسلام نافظ کرنے اور وہاں ہندوستان میں یہ سیکولر ازم کی حفاظت کے لئے کام کرتی ہیں-آخر ایک خیال اور فکر پر تشکیل پانے والی یہ تنظیمیں دو مختلف نظریات کی حمیت کیسے کر رہی ہیں"
جو چیز ہندوستان میں اسلام کے خلاف نہیں ہے وہ پاکستان میں کیسے لادینیت ،الحاد،کفر اور خلاف اسلام ہو جاتی ہے-مجھے ان کی کے یہ تحریر پڑھ کر خیال آیا کہ یہاں پاکستان میں مودودی اور حسین احمد مدنی کے منانے والی یہ تنظیمیں کون سا ان کے نظریات کی پیروی کر رہی ہیں-
مولانا مودودی صاحب نے جب نیشنل ازم اور سٹیٹ کے سوال پر غور کرنا شروع کیا تو انھوں نے اپنے نظریات کا اظہار اپنی جماعت کے آرگن ترجمان القران میں کرنا شروع کتیا-یہ خیالات بعد ازاں کتابی شکل میں چند ترامیم اور تبدیلیوں کے ساتھ دو جلدوں میں کتابی شکل میں شایع ہوئے تھے-ان خیالات کے مطابق "نہ تو کانگریس کا تصور وطنیت اور قوم پرستی اسلام کے اصلوں کے مطابق تھا -نہ ہی مسلم لیگ کا مسلم قومیت کا تصور ٹھیک تھا-اول الذکر کو مودودی شہاب نے الحاد اور کفر قرار دے دیا جبکہ دوسرے تصور کو گمراہی ،جہالت قرار دے ڈالا -مودودی صہب کے خیال میں مسلم قومیت کو کسی ایک سٹیٹ کے لئے محدود کرنا اور کسی ایک ریاست کی بنیاد قرار دیننا غلط تھا-وہ اس کو نسل پرستی سے تعبیر کر رہے تھے-"
مولانا مودودی صاحب کے شناختوں کی کثرت کے بارے میں اور ان کثرتوں سے بننے والی وحدت کے بارے میں عجیب و غریب خیالات تھے-وہ انسانوں کی لسانی ،ثقافتی شناختوں کو زبردستی ختم کرنا چاہتے تھے-ان کے ہاں اسلام ٹرانس نیشنل مذھب اسی صورت ہو سکتا تھا جب لوگ اس کو ماں کر اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے انکار کر دیتے-وہ ان لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر کسی بھی انتظمی انصرام کے لئے اکائی کے قیام کو اسلام کے خلاف گردانتے تھے-ان کے ہاں توحید کی وحدت کا مطلب ساری شنختون کو مٹا دینا تھا-اب یہ ایک ایسا تصور اور تعبیر تھی کہ جس کو پڑھ کر نا صرف سیکولر طبقہ حیران اور پریشان ہوا بلکہ روایتی مولوی بھی پریشان ہو گئے-
حسین احمد مدنی جو دو بندی مولویوں کے استاد تھے اور اس وقت کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی پارٹی جمعیت علماء ہند کے صدر بھی تھے مولانا مودودی کے ان خیالات سے بہت پریشان ہوئے تھے-انھوں نے ایل مضامین کا سلسلہ اپنی پارٹی کے ترجمان اخبار میں شروع کیا-یہ ووہی اخبار ہے جس کے کبھی مودودی صاحب بھی کو ایڈیٹر رہے تھے-اس مضمین کے سلسلے کو بعد میں کتابی شکل میں بھی شایع کیا گیا تھا-مدنی صاحب نے اپنے ان مضامین میں تفصیل کے ساتھ اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ قوم وطن اور علاقے کی بنیاد پر بنتی ہے-اور ہندوستان ایک علاقہ ہے اس کی بنیاد پر ہندوستانی قومیت بنتی ہے-یہ خلاف اسلام نہیں ہے-وہ کہتے تھے کہ مسلم قومیت نام کی کوئی چیز نہ تو قران سے ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی حدیث سے-ان کے نزدیک مسلم کے لئے ملت کا لفظ ٹھیک ہے جس کا انگریزی میں متبادل کمیونٹی ہو سکتی ہے نیشن نہیں-وہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی دونوں کے تصور قومیت کے خلاف تھے اور ان کے نزدیک بھی یہ دونوں تصورات اسلام کے خلاف تھے-جمعیت علماء ہند آج تک اپنے رہبر حسین احمد مدنی کے تصور کی پیروی کرتی آئے ہے-خود پاکستان میں جمعیت علماء کے کئے رہنما آج بھی اسی خیال کی حمایت کرتے ہیں-لکین پاکستان میں مذہبی سیاست کی بقاء ہی اب اس میں رہ گئی ہے کہ یہ لوگ اسلامی نظام کے نعرے لگاتے رہیں اور لوگوں کو بیوقوف بناتے رہیں-
مولانا مودودی مسلم قومیت کے جس ٹرانس نشنل تصور کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے -اس تصور کو جماعت اسلامی کا کوئی رہنما قبول کرنے کو تیار نہیں ہے-پاکستانی قومیت کی بنیاد مسلم قومیت پر ہے یہ ہے آج کی جماعت اسلامی کا نعرہ-اب بھلا ایک ریاست کے اندر مسلم قمیت کو محدود کرنا مودودی کے ہاں تو گمراہی تھی اور جماعت اسلامی اس کو اسلام کے مطابق قرار دیتی ہے-لطف کی بات یہ ہے کے حسیں احمد مدنی کے مرید اور ان کی پارٹی کی باقیات بھی اسی کو ٹھیک قرار دے رہی ہے-یہ سب باتیں نئے نسل کو تو پتا نہیں ہیں-ان کو یہ نظریات بیچتے ہوئے جماعت اسلامی اور جمعیت والے یہ کہتے ہیں کہ یہ اقبال اور جناح کے نظریات کی تفصیل ہے-اگر ان کو یہ بتا ہو کہ خود جناح اور اقبال کا مدودیت اور احمد حسین مدنی کے تصور قومیت بارے کیا خیال تھا تو وہ ان نظریات کو کوڑیوں کے مول بھی لینا پسند نہ کریں-ان دونوں جماعتوں کو سر سید احمد خان سے بہت چڑھ ہے-اسی لئے جب بھی مودودی کی وفات یا مدنی کی وفات کا دن آتا ہے تو ان کے دانشور جو بھی مضمون لکھتے ہیں تو سر سید کے خلاف بہت کچھ لکھتے ہیں-کیوں کہ سر سید احمد خان نے اس مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی تھی جس نے یہ کہا تھا کہ زبان اور کلچر کی بنیاد مذھب پر نہیں ہوتی ہے-نہ ہی اس کی بنیاد کلی طور پر مذھب پر قرار دی جا سکتی ہے-انھوں نے مغرب اور مشرق میں تہذیب اور کلچر کو باہم متصادم نہیں بیا نلکہ ان کو ہم آہنگ قرار دیا اور ان کے درمیان لینے دینے کے رشتے کو واضح کیا-سید مودودی اور حسین احمد جیسے قبیل کے مولویوں کو یہ نارضگی تھی کہ سر سید نے جدید علوم کے بارے میں ان کے تعصّبات کا پردہ چاک کر کے ان کی پیش وائیت کو سخت نقصان پہنچایا تھا-اقبال کی ایک کتاب ہے "تشکیل جدید الہایات اسلام میں "اس کتاب کو جماعت اسلامی آج تک اپنے رسالوں اور جریدوں میں کبھی لیکر نہیں آئی-مودودی کو اقبال کے نظریات کا شارح قرار دینے والی نے آج تک اس کتاب میں اقبال کے تصور اجتہاد ،کلچر ،قانون سازی کو مودودی کے تصوارت کے ساتھ تقابل میں پیش نہیں کیا-ڈنڈی مارنا اور اپنی ہی تاریخ کو مسخ کرنا جماعت اسلامی کے لکھاریوں کا وتیرہ رہا ہے-ان کی اس مسخ شدگی کو بےنقاب ماضی میں ترقی پسند دانش واروں نے خوب کیا-اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ترقی پسند دانش ور ان کی ایک ایک بات کو ریکارڈ پر رکھتے تھے-وہ ان کے خیالات و افکار اور پھر اقدامات کا بھی جائزہ لیتے رہتے تھے-آج جماعت کو جواب دینے والا کوئی سبط حسن یا صفدر میر نہیں ہے-جو ان کو آئنہ دکھائے-سب سے زیادہ ستم یہ ہوا ہے کہ اردو مائدہ پر قدامت پرست قببز ہیں تو انگریزی میڈیا پر آنے والے نوجوان ترقی پسند مودودی ،حسین احمد مدنی،اقبال.جناح سمیت ماضی کے سارے لٹریچر اور تاریخ کو پڑھنے سے قاصر ہیں-اردو میں تو ان کو پڑھنا اپنی شان کے خلاف لگتا ہے-ان کے ہاں بھی تقابل کا رجہان ختم ہو گیا ہے-یہ تو ان کے نام اردو میں ٹھیک سے نہیں لی سکتے کیونکہ ان ناموں کو بھی انگریزی میں پڑھا ہوتا ہے-
اب کتنے لوگوں نے پروفیسر سرور کی کتابوں کو پڑھا ہوگا کہ اس کو معلوم ہو کہ مودودی کو عقل کل کے طور پر پیش کرنے والوں کو بتا سکیں کے مودودی کے فہم دین کی حالت کیا تھی-اور اس کے بارے میں ثقہ علماء کیا کہتے تھے-مذہبی سیاست کے تضادات کی کہانی ایک زمانے میں پرویز صاحب نے خوب کھولی تھی-بہت سے لکھاری تھے ماضی میں جن کے ہاں ان نام نہاد اسلم پسندوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے بہت کچھ تھا اور آج وہ سب موڈ پتا نہیں کہاں پڑا سڑتا ہوگا-مذہبی سیاست کے ان پنڈتوں کے تضادات کی کہانی کل بہت سارے لوگوں کو پتا تھی -آج اس کہانی کو چھپا دیا گیا ہے-جو لوگ ترقی پسندی اور روشن خیالی کو پھیلانے کا کام کرنا چاہتے ہیں -ان کو ان تضادات پر گھہری نذر رکھنا ہوگی-اور پھر اپنی صفوں میں ان بے رہ رو لوگوں کا چہرہ بھی بےنقاب کرنا ہوگا -جو پاکستان میں استحصالی طبقوں کو ان نظریات کا تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں-جو سامراج کو اس کے پیچھے بچانا چاہتے ہیں-جو سرمایہ داروں اور ان کے سرمایہ کو بچانے کے خہش مند ہیں جو حکمران طبقات کی لہرائے کو انتہا پسندی اور روشن خیالی کی جنگ بنانا کر دکھاتے ہیں-جو ایک ایمپائر کو ترقی پسندی کا محافظ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں-جو سرمےادری نظام کے محافظوں کو انتہاپسندوں کے خلاف آخری ڈھال بنا کے پیش کرتے ہیں-جن کے ہاں اگر امریکہ کا کوئی پٹھو بغل میں دو کتے پکڑ کر تصویر کھنچوا لے اور اس کو میڈیا پر بھیج دے اور کسی ڈانس پارٹی میں شراب کے نشے میں دھت ہو کر ناچنے لگے تو وہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کا امین ٹھہر جاتا ہے-یہ لوگ سامراج کے چوکھٹوں میں فیض،جالب ،سجاد ظہیر کی تصویریں سجانا چاہتے ہیں-اور برصغیر کی انقلابی ترقی پسند اور روشن خیال تحریک کو مسخ کرنا چاہتے ہیں-یہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے جماعت اسلامی اور جمعیت سے زیادہ بڑے دشمن اور اس کے لئے خطرہ ہیں-
Subscribe to:
Posts (Atom)