مصر میں جدوجہد کی نئی شکل
مصطفیٰ عمر/عامر حسینی
٢٧ مئی ٢٠١١ کو مصر کے دار الخلافہ قاہرہ میں جو ١٠ لکھ لوگ حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف اکھٹے ہوئے تھے -اس سے پیدا ہونے والی جدوجہد اب ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے-
٢٧ تاریخ کے مظاہرے حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف جن تین بڑے گروپوں نے منظم کے تھے ان میں لیفٹ گروپس ،اخوان المسلمون ،اور لبرل گروپس شامل تھے-
سرکاری میڈیا ،اور لبرل میڈیا کی طرف سے لوگوں کو احتجاج میں شرکت سے روکنے کے لئے کئے جانے والے منفی پروپیگنڈا کے باوجود قاہرہ میں تو دس لکھ لوگ شہریک ہوئے تھے -اسکنریہ میں ٥ لاکھ لوگ شریک ہوئے-
سویز ،پورٹ سعید اور منصورہ سمیت کئے شہروں میں بھی ہزاروں لوگ باہر نکل آئے-
تحریر چوک میں لوگوں نے یہ دن یوم الغضب کے طور پر منایا -نعرے لگے -تقریریں ہوئیں-اور لوگوں نے فوجی سپریم کونسل کی ساخت بارے بات چیت کی -یہ سپریم کونسل حسنی مبارک کے بعد حکومت چلا رہی ہے-
شہید اور زخمی ہونے والوں کے خاندان کے افراد نے اور اذیت گاہوں میں تشدد کا نشانہ بننے والوں نے اپنی کہانیاں سنائیں -ایک کے بعد ایک مقرر نے بتایا کہ کیسے سپریم کونسل ابھی تک جمہوریت اور مساوات کے مطالبات کو پورا نہیں کر رہی ہے -اسی لئے جدوجہد کو جاری رکھا جائے اور انقلاب جاری رہنا چاہئے-
یوم الغضب کے دن لوگوں نے اکھٹے ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ جمہوریت اور مساوات کے قیام تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی -
مصر میں حسنی مبارک کے جانے کے بعد جب ڈیموکرٹیک قوتوں نے انقلاب کو آگے لیجانے کا فیصلہ کیا -اور حسنی مبارک کی باقیات فوجی سپریم کونسل کے خلاف احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی تو سب سے پہلے اس کی مخالفت لبرل گروپس نے کی -سپریم کونسل نے بھی ایک پریس ریلیز جاری کر دی جس میں کہا گیا -کہ اس تحریک سے مصر میں خانہ جنگی ہونے کا خطرہ ہے-اس کے ساتھ ہی اخوان نے بھی ان مظاہروں کا حصہ نہ بننے کا ارادہ ظاہر کیا -
اسی دوران اخوان المسلمون کے اتحادی سلفی گروپس نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر مصر میں آئین کی تشکیل نو کا مطالبہ کر دیا-اخوان اور شدت پسند سلفی گروپس نے مل کر نو نکاتی پروگرام کو آئین کا حصہ بنانے کے لئے ایک ریفرنڈم کرایا -اور کہا جو نیک مھلم ہوگا اس کو ووٹ دے گا-جو برا مسلم ہوگا وہ ان نو نکات کی مخالفت کرے گا-یہ نو نکات فرقہ وارانہ بھی تھے-اور ان کا مقصد مصر میں مسلم -کرسچن یکجہتی کو نقصان پہنچانا بھی تھا-
جب سلفی گروپس متحرک ہوئے تو اس کے ساتھ ہی مصر کے کئے علاقوں میں اچانک کرچن آبادی اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے بھی شروع ہو گئے-کئے ایک علاقوں میں چرج بھی جلا دئے گئے-
اس سارے عمل کا مقصد جمہوری تحریک کو سبوتاز کرنا تھا-مصر میں آمریت کے خلاف تحریک غیر فرقہ وارانہ تھی -اور اس تحریک میں محنت کش طبقے کی شمولیت نے ریڈکل اور انقلابی رنگ بھی پیدا کیا تھا-اس تحریک میں جب محنت کشوں نے ہڑتالیں شروع کی تھیں اور دھرنے دینا شروع کئے تھے تو لبرلز نے تو اسی وقت یہ الزام عائد کرنا شروع کر دیا تھا کہ مصری معشیت کو تباہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے-
حسنی مبارک کے جانے کے بعد جب فوجی سپریم کونسل کے خلاف ماحول گرم ہونا شروع ہوا تو اس موقعہ پر محنت کش پھر آگے آئے تو اس مرتبہ حسنی مبارک کے خلاف جدّوجہد میں شریک لبرلز اور اخوان نے بھی اس عمل کو مصری کاروبار کے لئے خطرناک قرار دے دیا-
انقلاب میں حسنی مبارک کے جانے کے بعد یہ تبدیلی دیکھنے میں آئے کے لبرلز ،اسلام پسند اخوانی،سلفی اور حسنی مبارک کی پارٹی سے بھاگے ہوئے سیاست دانوں نے فوجی سپریم کونسل کے ساتھ رابطے بڑھا دئے-اور ایک طرح سے وہ اس تبدیلی کو منتقی انجام تک لیجانے کی کوشش کی راہ میں رکوات ڈالنے لگے-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لبرلز،اخوان،سلفی ،حسنی مبارک کے سابقہ ساتھی اور ان کے ساتھ فوجی سپریم کونسل کیا از خود یہ رد انقلاب کردار اختیار کر گئے ہیں؟کیا یہ قوتیں مصری انقلاب کی پرنسپل دشمن ہیں؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نہیں-در اصل مصری انقلاب کا سب سے بنیادی دشمن اور پرنسپل دشمن تو مصری سرمایہ دار طبقہ ہے -جس کے مفادات کو اس انقلاب سے براہ راست نقصان پہنچا ہے اور مزید پہنچنے کا امکان موجود ہے-
مصری سرمایہ دار طبقہ جس کو مصری اوم کاروباری طبقہ کے نام سے جانتی ہیں -جس نے محنت کش طبقات اور کسانوں کے بےتحاشا استحصال سے خوب دولت کمائے ہے-اس کو حسنی مبارک رجیم نے پورا موقعہ اور سہولت فراہم کی کے یہ خوب لوٹ مار کر کے دولت کے انبار لگا ڈالے-
یہ وہ امراء کی اقلیت ہے جو مصری سماج کی زیادہ دولت پر کنٹرول رکھتی ہے-جب کہ مصری اوم کی اکثریت مشکل سے زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہے-وہ غربت میں ڈوبی ہوئے ہے-اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ٢٥ جنوری سے جس انقلاب کا آغاز ہوا -اس کے پیچھے ٣٠ سال تک مصری عوام کی یہی مشکلات اور محرومیاں تھیں-
اس لئے مصری انقلاب کے مستقبل کیا ہوگا ؟اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ پتہ چلے کہ کون سا طبقہ دوبارہ ریاست پر بالا دستی حاصل کرتا ہے؟سوال یہ ہے کہ کیا مصری بزنس کلاس مصری سماج پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کر لے گی ؟کیا وہ انقلاب اور جمہوری رجحانات کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گی ؟کیا مصری ورکنگ کلاس اپنا شعور اس قدر بلند کر لے گی اور خود کو ایک ایسی تنظیم میں ڈھال لے گی جو مصری عوام کے سامنے بزنس کلاس کے خلاف ایک متبادل پیش کر سکے؟
مصری بزنس کلاس کی سب سے پہلی کوشش تو یہ ہے کہ وہ اس وقت جس بحران کا شکار ہے -وہ اس سے باہر آئے-دوسری اس کی کوشش یہ ہے کہ مبارک کے بعد بچ جانے والی جو جرنیل شاہی ہے وہ اس کے مفادات کا تحفظ کرے -
جرنیلوں کی کمیٹی "سپریم کونسل "نے اب تک یہی کچھ کرنے کی کوشش کی ہے-انھوں نے ورکنگ کلاس کو سیاسی عمل سے باہر کرنے اور ان کی طرف سے ہڑتالوں کے سلسلے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے-اس کوشش سے مزدوروں کی ہڑتالوں میں کمی ضرور آئی ہے-لکین محنت کش طبقہ اب بھی خود کو منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے-
جیرنیلوں نے اس منظم ہونے کو روکنے کے لئے تشدد کی پالیسی جو اپنائے تھی اس کے خلاف مزدوروں نے مزاحمت دکھائی ہے-
اب تک جرنلوں کی کمیٹی نے جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں -ان کا جائزہ بتاتا ہے-کہ یہ کمیٹی کچھ اصلاح پسندانہ اقدامات سے آگے جانے کو تیار نہیں ہے-یہ سرمایہ داری نظام کے نیو لبرل ماڈل کے تحت گزشتہ تیس سلل سے چلی آ رہی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرے گی-اس کا سارا وزن مصر کے بزنس کلاس طبقے کے حق میں ہی جائے گا -
لکین مصری محنت کش طبقات اور ملازمین اور ان کے لاکھوں خاندان انتظار لکیر رہے ہیں کہ کب جرنیلوں کی یہ کمیٹی ان کا معیار زندگی بہتر بنانے والے اقدامات اٹھاتی ہے-
جرنیل شاہی نے اس دوران محنت کشوں کی طرف سے آفندی سٹور کی چین کی نجکاری پر جو احتجاج دیکہ اس سے جرنیل شاہی ابھی کھل کر محنت کشوں کے خلاف کوئی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے-لکین دوسری طرف وہ ٹیکس ریفارم کرنے تک سے گھبرا رہی ہے-انکم ٹیکس میں ترقی پسندانہ تبدیلی لانے کا جو اس نے ارادہ ظاہر کیا تھا -اس پر کاروباری طبقہ کی مخالفت کی وجہ سے اب تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے-
محنت کش طبقے کے خلاف نظریاتی مہم شروع ہو چکی ہے-دوسری طرف تاحال فوجی سپریم کونسل نے محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا ہے-
انقلاب کا نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے-اس مرحلہ میں بہت سے بنیادی سیاسی سوال سمجھ میں آنا شروع ہو جائیں گے-کہ جرنیلوں کی کمیٹی کس کے مفادات کی ترجامنی کر رہی ہے؟ان کے اقدامات کے پیچھے کون سے محرکات کار فرما ہیں؟اخوان اور سلفی گروپس کے طبقاتی مفادات کیا ہیں؟اور موجودہ معاشی سسٹم کس طبقہ کی خدمت کر رہا ہے؟
لیفٹ کے حلقوں نے کئی مرتبہ اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جرنیل اس ملک کی معشیت میں ٢٥ فیصد کے حصہ دار ہیں-یہ حصہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے مفادات براہ راست محنت کاش طبقے کے مفادات سے ٹکراتے ہیں-لکین مصر میں کئی حلقے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جرنیلوں نے حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کر کہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ انقلاب کے ساتھ ہیں-لکین جرنیل شاہی نے جس طرح سے جہموری عمل اور محنت کش طبقات کے مطالبات کو حیلوں بہانوں سے مسخ کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے -اس کے بعد مصری عوام یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ جرنیلوں کی کمیٹی در اصل ہے کس کے ساتھ؟لیفٹ نے اپنے آپ کو منظم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے-
نیو ورکرز ڈیموکریٹک پارٹی کا قیام عمل میں آیا ہے-جس میں ٢٠٠٠ کے قریب ردکل سوشلسٹ کیڈر شامل ہوا ہے-٣٠٠٠ سوشلسٹ،لیفٹسٹ اور ریڈکل وورکرس نے سوشلسٹ پاپولر الائنس ورکرز پارٹی بنائی ہے-جو پرو ورکرز پروگرام کے ساتھ سامنے آئی ہے-ان سب نے مل کر سوشلسٹ الائنس بھی بنایا ہے--جس کا مقصد مل کر سٹریٹجی طے کرنا ہے-
لیفٹ کو سوشلسٹ متبادل پیش کرنے کے لئے ابھی اور زیادہ خود کو تعداد میں زیادہ کرنا ہوگا-اس کو محنت کشوں کی تحریک میں زیادہ خود کو ملوث کرنا ہوگا-جیسے جیسے اخوان،سلفی ،لبرلز ،سپریم کونسل ،کلر فل سیاست دانوں کا تعلق مصری استحصالی طبقے سے عیاں ہوگا -ویسے ویسے لیفٹ کو سوشلسٹ متبادل پیش کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور موقعہ زیادہ ملے گا-
مصر میں ہارون لوگ اشترکی لٹریچر خرید رہے ہیں-لوگ اب اس کو گئے دنوں کا قصہ نہیں سمجھتے -
لیفٹ صحیح راستے پر جا رہا ہے-یہ جدوجہد کی تعمیر کر رہا ہے-اپنی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے-اور اپنے اتحاد کو بڑھا رہا ہے-لیفٹ کو عوام کو سپریم کونسل پر دباؤ میں اضافہ کرنے کے لئے اکساتے رہنا چاہئے -اور ایک سوشلسٹ متبادل کی تعمیر کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے -
No comments:
Post a Comment